دفعہ نمبر 55: “(1) پولیس سٹیشن کا کوئی افسر مجاز ہے کہ اسی طرح گرفتار کرے یا کرائے۔۔۔
۔۔۔(ب) ایسے ہر شخص کو جو ویسے سٹیشن کی حدود کے اندر بظاہر کوئی ذریعۂ معاش نہ رکھتا ہو، یا تسلی بخش وجہ نہ بتا سکتا ہو۔”
دفعہ نمبر 109: “جب کسی [مجسٹریٹ درجہ اوّل] کو یہ اطلاع ملے:۔۔۔
۔۔۔(ب) کہ ویسی حدود کے اندر ایک ایسا شخص ہے جو بظاہر کوئی ذریعۂ معاش نہیں رکھتا یا جو اپنی بابت کوئی معقول وجہ نہیں بتا سکتا۔
تو ایسا مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ بعد ازیں محکوم کردہ طریقہ سے ایسے شخص کو یہ وجہ بیان کرنے کا حکم دے کہ کیوں نہ اسے مچلکہ مع ضامنان برائے نیک چلنی ایسی مدت کیلئے جو ایک سال سے زائد نہ ہو اور جس کو مجسٹریٹ مقرر کرنا مناسب سمجھے، تحریر کرنے کا حکم نہ دیا جائے۔”
(مجموعۂ ضابطۂ فوجداری، 1898)
یہ بات اب سب کو کیا بتائیں، کہاں سے یہ عادتیں پڑی تھیں
وہ کیا پراگندہ نقشِ پا تھے، کہ جن سے بس جوتیوں کے تلووں کی ٹھن گئی تھی۔۔۔
گرے پڑے کاغذوں پہ حرفِ سلام پڑھنا، وہیں پہ رک کر جواب دینا
جو بوئے گل راہ میں ملی تو حیات کی ساری تلخ سانسوں کا انگلیوں پر حساب دینا
رخِ نظارہ نے آنکھ جھپکن کی آن بھر دادِ چشم مانگی،
تو تکتی آنکھوں کو طولِ قوسِ مسافتِ آفتاب دینا
جو رک کے چلیے تو ہر ڈگر سے
ہزار راہوں کے ان گنت شاخدار جالے نظر میں آنے
اور ایسے شاخے کہ جن کا ہر موڑ منتظر اور آشنا ہو
ہر ایک کوچے کی آخری حد پہ اور اک در کھلا ہوا ہو،
ہر ایک در پر درُونِ در کی کتھاؤں کا اک معلقہ سا لٹک رہا ہو،
ہر اک کتھا میں کہیں کہیں پہ رعایتِ حاشیہ سے، قوسین سے برابر
کچھ اور بغلی حکایتوں کا لطیف سا رنگدار گُچھا نکل رہا ہو،
ہر ایک گچھا فلک فلک بارشوں کے پانی سے رس بھرا ہو۔۔
مگر نجانے فلک پھرا یا زمین پلٹی،
وہ جھوم کر، لڑکھڑا کے چلنے کے عادیوں کو جو ہوش آیا
تو دیکھتے ہیں کہ آگے بس اپنے ناک کی سِیدھ بچ گئی ہے
یہ راستہ نقدِ جاں کی شہ خرچیوں کی دادِ مآل و عرضِ حساب کا ہے
(مگر عبث کی اجاڑ کھیتی سے پھول پھل کا خراج کیا ہو؟
زیان کے کنکروں کے غوّاص سے گواہر کا باج کیا ہو؟)
یہ ناک کی سیدھ، جس میں کوئی خم و تغیّر،
کوئی دوراہا، نہ دایاں بایاں،
خطِ معیّن سے ہٹ کے کچھ لغزش و تجاوز کی جا نہیں ہے،
نہ درمیاں میں ذرا ٹھہرنے کو کوئی سایہ، کوئی شجر، اور کوئی مہماں سرا نہیں ہے،
نہ حاجتِ مشعلِ مسافت ہے، مرغِ قبلہ نما نہیں ہے،
وہاں پہ بینائی یا عصا کا کسی کو کچھ احتیاج کیا ہو
جہاں پہ نادیدہ راستوں سے گریز ہی سب کا رہنما ہو،
طنینِ خونِ رگِ تحیّر کی موج اب نرم و سادہ تر ہے
قدم اٹھانے کی ساری توفیق جو کبھی سیر تھی، سفر ہے!
رمِ رہِ مستقیم والوں کے جان و تن کی تھکن نہ پوچھو
کہ جب چلے تھے تو جیبِ خواب و خیال پُر تھی
جو لوحِ ظاہر تک آ نہ پائے،
وہ خودنما نقش مٹ رہے ہیں
جو قصۂ بیدلی کا مافیالضمیر بنتی
وہ ان کہی بات بے تکی ہے
وہ جس سے ہمسائگی دریچوں کو نیم شب غلغلوں کا کوئی سراغ ملتا
وہ باؤلی چیخ گُھٹ رہی ہے
ہر ایک ٹھوکر پہ سیکھتا، ولولوں کا حیواں سدھر رہا ہے
وقائع لکھنے کا جو قلمرو ہے، اُس کا اعلان ہے کہ اب سے یہاں کوئی واقعہ نہ ہو گا
نپی تلی سرگموں کی جاگیر میں یہ طے ہے، یہاں کوئی کج نوا نہ ہو گا
اور اِس بیاباں میں شاہ زادہ بھٹک گیا تو
یہاں کہانی کے آٹھوں بابوں سے ایک بھی در کھلا نہ ہو گا
وہ چند پرزے جو زر خریدوں کی جاں خلاصی پہ کچھ سبیل و دلیل بنتے
پس ان کو شعلوں میں جھونکتے اور شل ہوئے ہاتھ تاپتے ہیں،
تو ٹھیک ہے، خوب گپ رہی، اب محلِّ طولِ سخن نہیں ہے
یہ دست و بازو ہیں، یہ گلو ہے، رسن کو کھینچو، صلیب اٹھاؤ
کہ صحن و تالار و بام کے بوالعجب نظاروں کو رک کے تکنے کو ٹالتے ہیں،
جہاں سے آگے نکل گئے، اُس ڈگر کو دل سے نکالتے ہیں،
کہا ہے بابا، محلِّ طولِ سخن نہیں ہے،
حکایتِ گمرہی کی بیٹھک کو پھر کسی دن پہ ڈالتے ہیں