(۹ دسمبر ۱۹۷۱ کا ایک شاندار ایکشن)
حرفِ آغاز:
تاریخِ عالم کی جنگوں میں ہونے والی ہر بحری لڑائی کسی نہ کسی طور سے تاریخ ساز ثابت ہوئی ہے۔ اگرچہ تمام جنگو ںکی فیصلہ کن لڑائیاں زمین پر لڑی گئیں لیکن بحری مبارزہ اکثر عامہۃ الناس کی نظروں سے اور، بوجوہ ،تصور سے بھی اوجھل ہونے کے باوجود ملک اور افواج کے پالیسی سازوں کے لئے اہم اور فیصلہ کُن ثابت ہوتا ہے۔ اس کی وجہ شاید کچھ سمندر ی جنگ و جدل کی کٹھنائی اورہیبت ناکی اور سمندر سے جُڑا ایک سحر انگیز احساس بھی ہے اور بین الاقوامی قوانینِ جنگ میں سمندر کی حیثیت اور اہمیت بھی۔ مثلاً کسی بھی بحری فوج کے بحری جہاز کا عرشہ (ڈَیک) اُس مُلک کی سرزمین سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے بھی کسی بھی بحری جہاز کی جارحانہ کارروائی کو اُس ملک کی طرف سے اقدامِ جنگ کے طور پر لیا جاتا ہے۔ ٹرافلگر کی بحری لڑائی (۱۸۰۵)، سوشیما کی بحری لڑائی (۱۹۰۵)، جٹ لینڈ کی بحری لڑائی (۱۹۱۶)، مڈوے کی لڑائی (۱۹۴۲) اور خلیجِ لیٹی کی لڑائی (۱۹۴۴) گذشتہ صدیوں کی وہ یادگار بحری لڑائیاں ہیں جن کے ساتھ قوموں کی فتح و شکست اور تاریخ کے اہم موڑ وابستہ تھے۔ یہ لڑائیاں صرف اس وجہ سے بھی یاد نہیں رکھی جاتیں کہ ان کے نتائج اور اثرات کیا تھے بلکہ اس لئے بھی قومیں انہیں حرزِ جاں بنا کر سینے میں تازہ رکھتی ہیں کہ ان میں سے اکثر میں کس طرح کسی کمزور بحری بیڑے نے دشمن کے برتر بیڑے، بُرے موسم اور دیگر سخیتوں کا مقابلہ کیا۔ مثلاً دوسری جنگِ عظیم میں برطانوی شاہی بحریہ (رائل نیوی) کے بحری جہاز ایچ ایم ایس راولپنڈیؔ کی جرمن لڑاکا کروزروں کے ہاتھوں غرقابی کا قصّہ بھی اس لئے برطانوی تاریخ میں یاد رکھا جاتا ہے کہ ’راولپنڈؔی‘ بنیادی طور پر ایک تجارتی جہاز تھا جس پر پہلی جنگِ عظیم کے زمانے کی پرانی اور کمتر توپیں نصب کر کےاسے تجارتی جہازوں کے ہمراہ بھیجا گیا تھا۔ جہاز کے کپتان ایک ریٹائرڈ نیول افسر تھے جنہیں جنگی خدمات میں دوبارہ لیا گیا تھا لیکن تمام عملہ تجارتی ملّاحوں پر مشتمل تھا جنہیں فوجی بحریہ کی حیثیت دی گئی تھی۔ اس کے باوصف اپنی پہلی اور آخری لڑائی میں یہ جہاز بڑی دلیری سے لڑا۔ جرمن کروزروں کی بھاری گولا باری کے مقابلے میں ’راولپنڈؔی‘ کی مسلسل گولا باری جرمن کروزروں پر ایک بھی کاری ضرب نہ لگا سکی لیکن یہ جہاز ڈوبنے تک جرمنوں پر اپنی پرانی وضع کی آخری توپ سے بھی گولا باری کرتا رہا ۱۔ برطانوی، من حیث القوم ’سمندری ذوق‘ رکھنے والی، اسپورٹس مین قوم ہیں لہٰذا انہوں نے ایسی مثالوں کو بھی اپنی تاریخ میں تابندہ رکھا۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم، پاکستانی، قدرت کی طرف سے تو ہر طرح کے جغرافیائی ماحول سے نوازے گئے ہیں اور ہمیں بحرِ ہند جیسا عظیم الشان سمندر اپنے ہمسائے میں ملا ہے لیکن من حیث القوم ہم نے اس سمندر سے ’’دوستی‘‘ نہیں کی۔ پاکستان کی فوجی اور تجارتی بحریہ کے سوا شاید کوئی طبقہ سمندر کی معیشت، سمندر کی جنگ اور سمندر کے ’رومان‘ سے واقف ہو یا واقف ہونے کی کوشش کرتا ہو۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری عسکری تاریخ کے ’بحری باب‘ سے ہماری قوم کی شناسائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ زیرِ نظر موضوع تو اس لئے بھی ذیادہ بدقسمت ہے کہ یہ ایک ہاری ہوئی جنگ کی جیتی ہوئی لڑائی ہے جس کی مثال دوسری عالمی جنگ کے بعد کی کئی جنگوں میں نہیں ملتی۔ لیکن افسوس! کہ اکہتر کی شکست کی اُڑتی ہوئی خاک نے اس جنگ کے کئی دلیر اور یادگار کرداروں کو دھندلا دیا ہے۔ پاکستانی آب دوز پی این ایس ’ہنگوؔر‘ جسے ’پیار‘ سے ’’شارکؔ‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، ایک ایسا ہی کردار اور اس کے ہاتھوں بھارتی بحریہ کے جنگی جہاز’’ کُکریؔ‘‘ کا ڈبوئے جانا ایک ایسا ہی تابناک قصّہ ہے جو شکست کے منحوس سائے کے نیچے دُھندلا گیا ورنہ اس قصے کا اجمال ہماری جنگی تاریخ کے قاری کیلئے ایک حیران کُن، دلچسپ اور تابندہ باب ہے جس سے شناسائی کے بعد اسے بھولنا ممکن نہیں! جنگِ عظیم دوم کے بعد کسی آب دوز کے ہاتھوں کھُلی جنگ میں کسی جنگی جہاز (فریگیٹ) کے غرقاب ہونے کا یہ واحد واقعہ ہے حالانکہ عالمی جنگ کے بعد بھی کئی جنگیں اور بحری معرکے ہوئے ہیں۔ پھر یہ اس وجہ سے بھی منفرد واقعہ ہے کہ بھارتی فریگیٹ اُسی آب دوز کے ہاتھوں غرق ہوا جسے تباہ کرنے کا ٹاسک اُسے ملا تھا اور جس کی تباہی کے لئے وہ مسلح ہو کر ہمراہ دوسرے جہازوں کے، جنگ پہ نکلا تھا۔ اس دلیرانہ ایکشن کی تابناکی کو سمجھنے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ اُن کٹھن اور نامساعد حالات کا پس منظر بھی واضح ہو جن میں یہ ایکشن وقوع پذیر ہوا۔
پس منظر:
۱۹۶۵ کی جنگ کے بعد بھارتی بحریہ پر دُہرا دبا ؤ تھا کہ وہ کسی طور اپنا لوہا منوائے یا کم از کم یہ اثر زائل کرے کہ بھارتی بحریہ کسی جنگی صورت حال سے نمٹنے کی اہل نہیں ہے۔ اس تاثر کے پیچھے ایک ٹھوس وجہ یہ بھی تھی کہ ۱۹۶۵ کی جنگ کے دوران بھارتی بحریہ کھلے سمندر میں آ کر پاک بحریہ کے خلاف کسی سطح کا ایک جنگی آپریشن بھی نہ کر سکی تھی جبکہ پاک بحریہ کے جہازوں کا بیڑا دوارکاؔ کی بھارتی نیول بیس پر گولا باری کر کے لَوٹا تھا تو اسے تمام مشن میں کسی بھارتی بحری جہاز یا کشتی نے چیلنج تک کرنے کی ہمت نہ کی تھی۔ ہماری آب دوز ’’غازیؔ‘‘ کی بحرِ ہند میں موجودگی نے جنگ کے سترہ روز میں کسی بھی بھارتی بحری جہاز یا بیڑے کو کھلے پانیوں میں آکر لڑنے سے باز رکھا اور بھارتی بحریہ نے یہ عرصہ بمبئی ڈاک یارڈ کے ’’گوشۂ عاطفت‘‘ میں گزارا۔ اس کی تمام تر وجہ یہ بھی نہیں کہ بھارتی بحریہ واضح طور پر بُزدلی کا مظاہرہ کر رہی تھی بلکہ یہ اُن کی اعلیٰ تدبیر (گرینڈ اسٹریٹجی) کا حصہ بھی تھا۔ بھارت کے خداوندانِ جنگ و جدل (وار لارڈز) اپنی بحریہ کو کسی بڑے جنگی ٹاسک کے اہل سمجھتے تھے، نہ ۱۹۶۵ میں بھارتی بحریہ کو ایسا کوئی ٹاسک سونپا گیا تھا ۲۔
۱۹۷۱ تک بھارتی بحریہ اپنی صلاحیتوں اور سلاحِ جنگ میں نہ صرف بھاری بھرکم اضافہ کر چکی تھی بلکہ اپنی پلاننگ اور ارادوں کو بھی بحرِ ہند کے کینوس سے پھیلا کر پاکستان کی ساحلی تنصیبات تک لا چکی تھی۔ بھارتی آب دوزوں کا بیڑا اب پاکستانی بحریہ کی آب دوزوں کے مقابلے کا تھا، بحری فضائیہ (نیول ایوی ایشن) وجود میں آ چکی تھی اور سب سے بڑی بات، کہ اب کی بار قسمت بھی اُنہی کا ساتھ دینے پہ تُلی تھی۔ باقاعدہ جنگ کے آغاز تک، جبکہ پاک بحریہ کی تقریباً تمام بنگالی نفری دُشمن کے ساتھ جا ملی تھی، پاک بحریہ کا دارومدار اپنے کمتر سازوسامان کے ساتھ فقط اپنے پانیوں کے دفاع کے ارادے پر تھا۔ دشمن کے علاقے میں دُوبدوُ لڑائی کرنے کی متحمل پاک بحریہ ہر گز نہ ہو سکتی تھی۔ ہمارا جہازوں کا بیڑا پاکستان کے پانیوں میں گشت پر مامور رہا جبکہ آب دوزیں، جن میں غازیؔ، شُوشکؔ، ہنگورؔ اور مانگروؔ شامل تھیں، دشمن کے ساحلوں کے آ س پاس منڈلاتی رہیں۔زمینی جنگ میں اپنا پلہّ بھاری دیکھ کر دشمن نے ہمارے خلاف سمندر میں بھی جارحانہ حکمتِ عملی اپنانے کا پلان بنایا۔ اس پلان پہ پہلا عملدرآمد تو پاکستان کے ساحلوں کی طرف جانے اور یہاں سے نکلنے والے غیر جانبدار، غیر پاکستانی تجارتی جہاز ڈبونے کی صورت میں کیا گیا۔ دوسری جنگِ عظیم میں اِسی حرکت پر جرمن بحریہ کو ابلیسؔ کا ہمسر قرار دینے والی مغربی دُنیا نے اپنے تجارتی جہاز ڈبوئے جانے پر بھی چُپ سادھے رکھی۔دوسرا عملدرآمد یہ ہوا کہ ۴ اور ۵ دسمبر کی درمیانی رات اور ۸ اور ۹ دسمبر کی درمیانی رات کو بھارتی میزائل بوٹ کا ایک بیڑا کھلے سمندر سے کراچی پر حملہ آور ہوا۔ دوسرا حملہ، جو کہ بھارتیوں کے مطابق بڑا حملہ تھا، اس کے دوران چار میزائل چار مختلف اہداف پر لگے جن سے کیماڑیؔ میں پٹرول کا ایک بڑا ذخیرہ بھڑک اُٹھا جبکہ ایک غیر متحارب (نان بیلیجرنٹ) برطانوی تجارتی جہاز ہرماٹنؔ اور پانامہؔ ریاست کا تجارتی جہاز گلف اسٹارؔ، جو کہ منوڑہؔ کے سامنے لنگر انداز تھے، ڈبوئے گئے۔ پاک بحریہ کا نقصان اس میں یہ ہوا کہ ہمارے انصرامی (لاجسٹکس) جہاز پی این ایس ڈھاکاؔ کا ڈھانچہ جُزوی توڑ پھوڑ کا شکار ہوا اور چند شہادتیں ہوئیں۔ اگرچہ اس حملے کا اثر فقط نفسیاتی (سائیکولوجیکل) نوعیت کا تھا تاہم پاک بحریہ کا اس جنگ میں فوجی نوعیت کا واحد بڑا نقصان ۴ اور ۵ دسمبر کی درمیانی رات کو ہو چکا تھا جس میں ہمارا جنگی جہاز، پی این ایس خیبرؔ بھارتی بیڑے کے اچانک میزائل حملے کے نتیجے میں ڈوب گیا کہ ہمارے پاس اُس وقت میزائل کے خلاف دفاع کا کوئی موثر سسٹم موجود نہ تھا۔ اس کے علاوہ ایک سرنگیں صاف کرنے والی کشتی ’محافظؔ‘ بھی اس حملے کا شکار ہوئی اور کُل ۲۰۰ سے زائد کی تعداد میں شہادتیں ہوئیں۔
اِن دونوں میزائل حملوں کے بعد پاک بحریہ کے لئے دفاعی حکمتِ عملی کو بھی عملی جامہ پہنانا ایک چیلنج بن گیا تھا۔ یہ ایک الگ تفصیل طلب موضوع ہے کہ خیبر جہاز کے نقصان کے بعد پاک بحریہ نے میزائل حملوں کے تدارک کیلئے دستیاب لیکن بہت محدود وسائل میں کیا اقدامات کئے، تاہم نفسیاتی طور پر بھارتی بحریہ کی برتری کا توڑ کرنا یا کم اس کم اس کو توازن (بیلنس) میں لانا اب وقت کی اہم ضرورت تھا۔ بھارتی بحریہ نے کراچی پر میزائل حملوں کا ڈھنڈورہ پیٹ کر اپنی قوم اور عالمی رائے عامہ پر یہ ظاہر کرنے کی پوری کوشش کی کہ پاک بحریہ کا بحرِ ہند سے مکمل صفایا کردیا گیا ہے۔ اس حملے کو فلمی حد تک مبالغہ آمیزی کے ساتھ آج تک اپنی حتمی فتح کے طور پر پیش کرنے والے بھارتی ’مؤرخ‘ آج بھی اُسی طرح چرب زبان ہیں لیکن تادمِ تحریر تو مقامِ شُکر ہے کہ اہلِ کراچی میں ان حملوں کی ’’شدت‘‘ اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے بزرگ زندہ ہیں اور جانتے ہیں کہ ان حملوں نے کراچی کو کس طرح ’’تہس نہس‘‘ کیا تھا۔
ہنگورؔ کا ایکشن:
تقریباً ایک ہزار ٹن وزنی آب دوز پی این ایس ہنگورؔ، جو کہ چند سال بیشتر فرانس سے حاصل کی گئی تھی، ڈیفنیؔ کلاس آب دوز تھی اور اسی کلاس کی چار آب دوزوں میں سے ایک تھی۔ ۲۲ نومبر ۱۹۷۱ کو ہنگورؔ کراچی سے بھارتی پانیوں میں گشت کے لئے روانہ ہوئی۔ ۲۳ نومبر کو حکومت کی طرف سے ایمرجنسی کے حالات کا نفاذ کیا گیا تو اس وقت وہ پور بندر کے علاقے میں گشت پر تھی۔
دُشمن کے پانیوں میں گشت کرنا ایک آب دوز کیلئے بڑا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ ڈیفنی کلاس آب دوز کی بیٹریاں ۲۴ گھنٹے میں ۲ گھنٹے کے لئے، چارج کرنے کی غرض سے سطحِ آب پر آنا ضروری ہوتا تھا جبکہ عملے کے سانس لینے کیلئے تازہ ہوا اور آکسیجن اندر کھینچنے کیلئے بھی سطح آب پر آنا ضروری تھا اور یہ عمل دشمن کی سمندری حدود میں خطرے سے خالی نہیں ہوتا جبکہ بحری جہازوں کا ایک بیڑہ (فلیٹ) اور ہوائی جہازوں کی نگہداری (آبزرویشن) ہمہ وقت آب دوز کے ’استقبال‘ کیلئے چوکس ہو! آب دوز کے سطح آب پر آ کر، جہاز کی طرح تیرنے کو تکنیکی زبان میں ’’شنارکل‘‘ یا ’’سنارکل‘‘ کرنا کہتے ہیں۔ سنارکلنگ کے دوران آب دوز کی رفتار نسبتاً ذیادہ ہوتی ہے جبکہ دشمن کی نظروں میں آجانے کا اندیشہ بھی ذیادہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس گہرائی میں غوطہ کرنے (ڈائیو) کے دوران آب دوز کسی حد تک حملوں سے محفوظ ہوتی ہے لیکن گہرائی میں اس کی رفتار سطح آب سے کہیں کم ہو جاتی ہے۔ ایسی حالت میں رفتار بڑھانے کا مطلب آب دوز کی بیٹری کا اسراف کی حد تک استعمال ہے جو کہ جنگ کے دنوں میں نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ حملے کے بعد وہاں سے تیز رفتار ’فرار‘ آب دوز کیلئے بہت ضروری ہے۔اسی طرح آب دوز کا آواز کی لہروں سے آس پاس کی ٹھوس چیزوں مثلاً دشمن کے جہازوں، حملہ آور تارپیڈو اور سمندری چٹانوں وغیرہ کے پتہ لگانے کا آلہ جسے تکنیکی زبان میں ’’سونار‘‘ کہتے ہیں اور جو چاروں جانب سے بوتل کی طرح بند آب دوز کی آنکھ بھی ہوتا ہے اور سُننے والا کان بھی، ایک خاص گہرائی تک کام کرتا ہے۔اس کی کارکردگی پر رفتار، پانی کے درجۂ حرارت اور گہرائی کے اثرات بھی پڑتے ہیں۔ ایک آب دوز کو آپریشنل علاقے میں کئی ایسے عوامل مدِ نظر رکھ کر نقل و حرکت کرنا پڑتی ہے جو کہ اوپر بتائے گئے حالات میں ہنگورؔ کیلئے سخت کٹھن کام تھا۔اس پہ طرّہ کہ بھارتی بحریہ کے جہازوں کا نمبر ۱۴، اسکواڈرن جو کہ تین فریگیٹ جنگی جہازوں اور کئی سی کِنگ ہیلی کاپٹروں اور الائز طیاروں پر مشتمل تھا، اس آب دوز کو تلاش کرنے اور تباہ کرنے کے مشن پر مامور تھا۔ مغربی کمان کے’’ فلیگ افسر کمانڈنگ ان چیف ویسٹرن کمانڈ‘‘ (جنہیں مختصراً فوکن ویسٹ بھی کہا جاتا تھا) رئر ایڈمرل سریندرا ناتھ کوہلیؔ کی کمان میں یہ ٹاسک فورس بھارتی بحریہ کے تمام دستیاب وسائل کے ساتھ آب دوز کے شکار پر مامور تھی۔
یکم دسمبر ۱۹۷۱ کو ہنگورؔ کو بمبئی کے ساحلوں کی طرف مُڑ جانے کا حُکم ملا جہاں سے مانگروؔ اپنے گشت کا عرصہ مکمل کر کے واپس آرہی تھی۔۲ دسمبر کو معمول کی گشت کے دوران ہنگورؔ نے بھارتی بحریہ کی مغربی کمان کا بیڑہ گشت پر روانہ ہوتا ہوا دیکھا اور کراچی ہیڈ کوارٹرز کو اس کی اطلاع دی اور خود بمبئی کی طرف رواں دواں رہی کیونکہ ہنگورؔ کے کمانڈنگ افسر کو ان جہازوں پر حملے کے واضح احکامات نہ تھے۔ لیکن جب ۴ دسمبر کی شام کمانڈر ان چیف پاکستان نیوی، وائس ایڈمرل مظفر حسنؔ کی طرف سے کھلی جنگ کا سگنل ملا تو ہنگورؔ کے کپتان، کمانڈر احمد تسنیمؔ کیلئے یہ لمحہ بڑی بے چینی کا تھا اور بے چینی کا سبب یہ تھا کہ اس صبح دشمن کا ایک بیڑہ اُن کی ذد میں سے گزر گیا تھا اور ایک آب دوز کیلئے تو دشمن کے جہازوں کا سراغ لگانا کافی تکنیکی اور دقت طلب کام ہوتا ہے۔ ایک دفعہ دشمن آنکھ کے سامنے سے ہٹ کر بیکراں سمندری میلوں (ناٹیکل مائلز) پر پھیلے ’’میدانِ جنگ‘‘ میں اوجھل ہو جائے تو پھر اگلا موقع شاید دشمن کے ہاتھ چلا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ سمندر میں آب دوز کا دُشمن کے جہازوں کے ساتھ ’’چھُپن چھُپائی‘‘ ( ہائیڈ اینڈ سیِک) کا یہ جنگی ’کھیل‘ طرفین سے فولادی اعصاب کا متقاضی ہوتا ہے۔ دشمن کے جہازوں کو بحرِ ہند کے پانیوں میں ڈھونڈتی اور ان سے چھپتی آب دوز ہنگورؔ کے کمانڈنگ افسر، کمانڈر احمد تسنیمؔ ایسے ہی اعصاب کے مالک افسر تھے۔
احمد تسنیم کے والد تقسیم کے وقت بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے ایک سول سرونٹ تھے۔ پاکستان میں وہ ابتداً جھنگ (پنجاب) کے رہنے والے تھے، آخر پہ بُورے والا (پنجاب) کے ہو رہے۔ احمد تسنیمؔ کی ابتدائی تعلیم جھنگ کی تھی، اور یونیورسٹی کی تعلیم لاہور سے حاصل کی۔ پاک بحریہ میں کمیشن حاصل کرنے کے بعد پیشہ ورانہ تعلیم اور خدمات میں احمد تسنیم ایک قابل افسر ثابت ہوئے اور ۱۹۶۵ کی جنگ میں ستارۂ جرأت اور ۱۹۷۱ کی جنگ میں بھی ستارۂ جرأت حاصل کرنے کے بعد ترقی کی منزلیں طے کرتے کرتے بعد ازا ں وائس ایڈمرل کے عہدے تک پہنچے۔
ہنگورؔ کے آپریشن روم میں، جو کہ آب دوز ہی کا ایک تنگ مرکزی حصہ ہوتا ہے، کمانڈر احمد تسنیمؔ کی قیادت میں آپریشن روم افسر (لیفٹیننٹ کمانڈر اے۔ یُو خان) پلاٹ افسر (لیفٹیننٹ فصیحؔ بخاری) اور دیگر افسران اور عملہ، ریڈار اور سونار کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات اور پیری اسکوپ ( جو کہ سنارکلنگ کے دوران سطحِ آب پر دیکھنے کی ایک مخصوص دوربین ہے جس میں منشور اور عدسے کی مدد سے ہدف کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے۔ غوطے کے دوران یہ دوربین کام نہیں کر سکتا) ملنے والی رپورٹوں کی روشنی میں، سمندری حدود کے نقشے پھیلائے، اپنے راستے اور دشمن کے ممکنہ راستوں اور پوزیشنوں کی نشاندہی کا انتھک کام مسلسل کرنے میں مصروف رہے! سطحَ آب کے نیچے کم رفتار کی وجہ سے نہ صرف ہدف کی تلاش بہت مشکل تھی بلکہ بمبئی کے ساحلوں پر جہاں کہیں بھارتی بحری جہازوں کی موجودگی کا پتہ چلتا، وہاں پانی کی کم گہرائی کی وجہ سے آب دوز کا قریب جا کر تارپیڈو فائر کرنا ممکن نہ رہتا تھا جبکہ وہاں آب دوز خود شدید خطرے میں ہوتی، کہ کم گہرے پانی میں آب دوز کے انجن کا شور دور تک سُننا دشمن کے سونار کیلئے آسان تر ہوتا ہے۔ لیکن یہ تمام اُلجھنیں کمانڈر احمد نے اپنے اعصاب پر حوصلے سے لیں اور اپنی تلاش کا دائرہ شمال کی جانب مزید پھیلا دیا جس طرف سے اُنہوں نے کچھ ریڈیو سگنل ’’پکڑے‘‘ تھے۔ اور پھر ۹ دسمبر کی صبح آ پہنچی۔
کاٹھیاوار کے ساحلوں کی طرف سے صبحدم دو نامعلوم اہداف کی نقل و حرکت ہنگورؔ کے سونار پہ ’سُنی‘ گئی۔ بحری جہاز کی اصطلاحات میں جب تک دور سے آنے والے ’اجسام‘ کی شناخت نہیں ہوتی کہ وہ جنگی ہدف ہیں، تجارت جہاز ہیں، کشتی ہیں یا زمین کا کوئی ٹکڑا یا کچھ اور، تب تک ان کیلئے ’’اوبجیکٹ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یہ دو ’اوبجیکٹ‘ شمال مشرقی سمت سے آرہے تھے اور قریب آنے پر آب دوز کے حساس آلات (سینسرز) نے واضح کر دیا کہ وہ دونوں جنگی جہاز تھے اور چھے سے آٹھ میل کی رینج میں تھے۔ پھر کیا تھا، ہنگورؔ نے گہرائی میں رہتے ہوئے ان کا ’پیچھا‘ شروع کر دیا۔ زیرِ آب جنگ میں ’پیچھا‘ کرنے سے مراد یہ نہیں کہ دشمن کے جہاز کا صحیح معنوں میں ’تعاقب‘ ہی کیا جائے۔ چونکہ گہرائی میں آب دوز کی رفتار بہت کم پڑ جاتی ہے لہٰذا ضروری تھا کہ دشمن کے جہاز کا سامنے سے آ کر ’استقبال‘ کیا جائے۔اب اُن جہازوں کی طرف بڑھنا اس لئے بھی فائدہ مند نہ تھا کہ ساحلوں کی جانب کا کم گہرا پانی آب دوز کیلئے، حملے کی موزوں ’فضا‘ نہیں ہے۔ ایسی جگہ پہ حملے کے بعد غمودی غوطہ (ورٹیکل ڈائیو) لگانا ممکن نہیں ہوتا جبکہ پوری رفتار سے فرار خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ان تمام عوامل کو ذہن میں رکھ کر کمانڈر احمد نے درست سمت کا فیصلہ کیا کہ کس جانب سے ان جہازوں پر حملہ آور ہوا جائے۔ اُنہوں نے سطح آب پر آکر، سنارکلنگ کرتے ہوئے جہازوں کے ممکنہ راستے کی طرف اپنی رفتار بڑھائی لیکن اس تگ و دو میں ہی وہ جہاز آب دوز کے حساس آلات کی رینج سے نکل گئے۔ ایسا لمحہ کمانڈر کیلئے شدید تلملاہٹ اور ہیجان کا ہوتا ہے لیکن کمانڈر احمد تسنیم نے شام ڈھلنے تک اپنی تگ و دو جاری رکھی۔ آب دوز کے انجن روم کا عملہ اپنی ڈیوٹی اُسی تسلسل اور لگن سے کرتا رہا، ریڈار، سونار اور دیگر آلات پر نظریں اور کان جمائے تمام تکنیکی عملہ اپنی پوری توجہ سے برسرِ پیکار رہا، تارپیڈو چلانے والی ٹیمیں چاق و چوبند رہیں اور دشمن کی تلاش جاری رہی۔بالآخر شام کا اندھیرا پھیلنے تک یہ کوشش اس حد تک رنگ لائی کہ ان دونوں جنگی جہازوں کی پوزیشن دوبارہ معلوم کر لی گئی۔ وہ اس مخصوص چوکور (ریکٹینگیولر پیٹرن) میں سفر کر رہے تھے جو آب دوز کی تلاش کے دوران جنگی جہاز اپناتے ہیں۔
یہ دونوں جنگی جہاز بھارتی بحریہ کے آئی این ایس کرپانؔ اور آئی این ایس کُکریؔ تھے۔ دراصل کُکریؔ، کرپانؔ اور کوٹھارؔ تینوں ایک ہی طرح کے فریگیٹ تھے جنہیں بھارتی بحریہ نے بالخصوص آبدوزیں ڈھونڈ کر تباہ کرنے کے کام کیلئے تیار اور مامور کیا تھا۔ اگرچہ بحری جہازوں کے نام رکھنے کی روائیت ایک الگ تفصیل طلب اور دلچسپ موضوع ہے، تاہم یہاں یہ بتانا بے محل نہ ہو گا کہ عام طور پر ایک ہی قسم اور ساخت (ٹائپ) کے جہازوں کے نام ایک ہی جیسے رکھے جاتے ہیں جیسا کہ کرپانؔ، کُکریؔ اور کوٹھاؔر بالترتیب سِکھوں، گورکھوں اور راجپوتوں کے زیرِ استعمال مخصوص خنجر کو کہا جاتا ہے۔ ان تینوں جہازوں کے نام اس لئے بھی ایک جیسے تھے کہ یہ تینوں ساخت کے اعتبار سے ’’سگی بہنیں‘‘(سسٹر شپ) تھیں۔ (یہ بھی قدیم نیول روائیت کے کہ جہاز کیلئے ’’شی‘‘ کا اسمِ ضمیر استعمال کیا جاتا ہے، گویا وہ کوئی موئنث مخلوق ہو۔ خیر اس کی وجہ کی تفصیل بھی ہمیں موضوع سے دور لے جائے گی)۔ ان تینوں جہازوں کو ’فوکن ویسٹ‘ رئر ایڈمرل سریندرا ناتھ کوہلیؔ نے پاکستانی آب دوزوں کو تلاش کرنے کے مشن پر، ہمراہ ویسٹ لینڈ سی کنگ ہیلی کاپٹر اور الائز طیاروں کے فضائی عنصر کے، سمندر میں روانہ کیا تھا لیکن کوٹھارؔ کے بوائلر میں بہت بڑا فنّی نقص آنے کی وجہ سے اُسے واپس بمبئی کی بندرگاہ میں لے جا کر چھوڑ دینا پڑا۔ کُکری ؔ اور کرپانؔ جو کہ تقریباً ڈیڑھ ہزار ٹن کے جنگی جہاز تھے، آب دوز تباہ کرنے کیلئے درکار جدید اسلحے سے لیس تھے جبکہ کُکرؔی پر جدید ترین اور حال ہی میں برآمد شدہ سونار بھی ہمراہ فضائی اور سمندری نگہبانی کے ریڈار کے، نصب کیا گیا تھا۔
شام سات بجے ہنگورؔ ان بڑھتے ہوئے بحری جہازوں کے مقابل ’دیو‘،کاٹھیا وار (گجرات) کے ساحل سے ۳۰ میل جنوب کی طرف ایسی پوزیشن پہ آ گئی تھی جہاں سے اس کیلئے حملہ کرنا موزوں ہو سکتا تھا۔ ۱۲ سمندری میل (ناٹیکل مائل) کی رفتار سے آگے بڑھتے ہوئے دشمن کے بحری جہاز قریب آ رہے تھے۔ کئی دنوں سے بالعموم اور ۹ دسمبر کی صبح سے بالخصوص جس لمحے کا کمانڈر احمد تسنیم اور ان کے عملے کو اعصاب شکن انتظار تھا، وہ لمحہ آن پہنچا تھا!!
کرپانؔ اور کُکری ؔ کا عملہ پاکستانی آب دوز کو تباہ کرنے کیلئے شاید اس لئے بھی پُر عزم تھا کہ پاکستانی آب دوز غازیؔ اواخر نومبر کو کراچی سے رابطہ کٹ جانے کے بعد ۳ دسمبر کو پُر اسرار طور پر اپنے ہی تارپیڈو کے پھٹ جانے سے وشاکا پٹنمؔ کے پانیوں میں تباہ ہو گئی تھی، ۹ دسمبر تک جب بھارتی بحریہ، غازی ؔ کی تباہی کی وجہ نہ سمجھ سکی تو یہ ’سہرا‘ اپنے سر سجا لیا ۳۔ ۹ دسمبر کو بھارتی بحریہ نے غازیؔ کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا اور اپنے تمام جہازوں اور زمینی یونٹوں کو مبارک باد دی۔ اس وقت بھی کُکریؔ کا کمانڈنگ افسر اور عملہ ہاتھوں میں اس ’’کامیابی‘‘ کےجام اُٹھائے ہوئے ہنگورؔ کو ڈبونے کے مشن پہ مامور تھے۔ آب دوز کو تلاش کرنے پر مامور سی کنگ ہیلی کاپٹر تھوڑی ہی دیر قبل اپنے مستقر کو لوٹ گیا تھا۔
سات بج کر پندرہ منٹ پر ہنگورؔ میں ’’ایکشن اسٹیشن‘‘ کا حُکم نافذ ہوا جس کا مطلب یہ تھا کہ عملے کے تمام افراد ’جنگی حالت‘ میں تفویض کردہ اپنی ڈیوٹی سنبھال لیں۔ زمانۂ امن میں جہاز کی نفری تین حصّوں میں منقسم کر دی جاتی ہے جنہیں بالترتیب ’’وائٹ واچ‘‘ ’’رَیڈ واچ‘‘ اور ’’بلیوُ واچ‘‘ کے ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔ ان تینوں میں سے بیک وقت ایک واچ جہاز پر اپنی ڈیوٹیاں کرتا ہے جبکہ باقی دونوں واچ آرام کرتے ہیں۔ جنگ کے دنوں میں اس تمام عملے کو تین کے بجائے دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے جنہیں ’’پورٹ واچ‘‘ اور ’’اسٹاربورڈ واچ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ جنگی حالات میں بیک وقت ایک واچ کام کرتا ہے جبکہ دوسرا واچ آرام کرتا ہے۔ ’’ایکشن اسٹیشن‘‘ کا حکم حملے یا حملے سے دفاع کی صورت میں نافذ ہوتا ہے جس میں جہاز کا تمام عملہ اپنے اپنے جنگی فریضے کے مقام پر، چاہے وہ کسی بھی ’واچ‘ سے ہو، تعینات ہو جاتا ہے۔ یہ جہاز کی مستعدی کی اعلیٰ ترین حالت ہوتی ہے۔ ’’ایکشن اسٹیشن‘‘ کے پندرہ منٹ بعد کمانڈر احمد ؔ نے آب دوز کو اوپر، سطح کے قریب جانے کا حُکم دیا جہاں سے صرف پیری اسکوپ کا مستول (پیری اسکوپ ماسٹ) پانی سے باہر نکالا لیکن ایسا کرنے سے اندھیرے کی وجہ سے کچھ نظر نہ آیا۔ البتہ ریڈار نے بتایا کہ ہدف اب ۹۸۰۰ میٹر کے فاصلے پر تھا۔ اب کے کمانڈر احمدؔ نے ۵۵ میٹر کی گہرائی میں جا کر سونار پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب جو حملہ پلان کیا گیا، ایسے حملے کو اندھا حملہ (بلائینڈ اٹیک) کہتے ہیں جس میں ہدف آنکھوں سے نظر نہیں آتا بلکہ اُسکی آواز کی سمت پر وار کئے جاتے ہیں۔ بھارتی فریگیٹ کسی مست ہاتھی کی طرح سطح آب پر رات کے اندھیرے میں جھومتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ ہنگورؔ نے سات بج کر ستاون منٹ پر، دشمن کے فریگیٹوں کو ذد میں پاکر ۴۰ میٹر کی گہرائی سے ایک تارپیڈو فائر کردیا جس کا ہدف مشرق سے آنے والے دو جہازوں میں سے شمالی سمت والا تھا۔ تارپیڈو زیرِ آب فائر کیا جانے والا ایک نوع کا میزائل ہوتا ہے جو اپنے ہدف کی سمت کو محسوس کر سکتا ہے۔
گورکھ پور سے تعلق رکھنے والے کیپٹن مہندرا ناتھ مَلاؔ، آئی این ایس کُکریؔ کے کمانڈنگ افسر (اور ۱۴ویں اسکواڈرن کے کمانڈر) کے لئے زندگی کا آخری جام، یک گونہ بے خودی یا نشاط کے بجائے شدید ہیجان کا باعث بنا ہو گا کیونکہ اسی لمحے کُکریؔ میں خطرے کا غلغلہ بلند ہوا کہ ایک تارپیڈو کُکری کی جانب فائر ہوا ہے جو کہ خطا گیا!! یہ لمحہ کمانڈر احمد تسنیمؔ کیلئے بھی کچھ خوشگوار نہ ہو گا لیکن کسی کو بُرا بھلا کہنے یا الزام دینے کا وقت ہرگز نہ تھا، سو اُنہوں نے دوسرا تارپیڈو فائر کرنے کا حکم دے دیا۔ اب پہل کاری (انیشیئٹو) کا عنصر دُشمن کے ہاتھ چلا گیا تھا۔
کیپٹن مَلاؔ نے اسی لمحے جہاز کو اُس جانب موڑا جس جانب سے تارپیڈو فائر ہوا تھا، یعنی کُکریؔ ’غضبناک‘ ہو کر ہنگورؔ پر جھپٹا لیکن اسی لمحے، تقریباً آٹھ بج کر چودہ منٹ پر دوسرا تارپیڈو، اپنی طرف آتا معلوم ہوا تو یہ لمحہ ایک ایسا فیصلہ کرنے کا تھا جس پہ کُکریؔ کی زندگی موت کا دارومدار تھا۔ کرپانؔ کے کمانڈنگ افسر کیپٹن آر آر سودؔ نے بھی اسی اثنأ میں ہنگوؔر کی طرف مارٹر کے گولے برسانا شروع کر دیا تھا۔ کُکریؔ کے کپتان نے آتے ہوئے تارپیڈو کو جُل دینے (ڈیسیو) کا فیصلہ کر لیا۔ وہ جونہی اس مقصد کیلئے مُڑے، کم رفتاری میں تارپیڈو کیلئے ان کے جہاز کی سمت کا اندازہ لگانا (ہومنگ) آسان اور واضح تر ہو گیا اور اسی لمحے، لگ بھگ پانچ منٹ سے تارپیڈو کی سمت کان لگائے بیٹھے ہنگورؔ کے کمانڈنگ افسر اور عملے نے دھماکے کی ایک آواز سُنی!! نیول سروس اور تجربے میں جیونئیر احمد تسنیم کا داؤ چل گیا تھا، سینئر مَلاؔ کی بازی مات ہو گئی۔
کیپٹن مہندرا ناتھ مَلاؔ دھماکے کی شدت سے جہاز کے صدر مقام، یعنی ’’برِج‘‘ میں اپنی کُرسی سے اُچھل کر ایک طرف کو جا گرے اور اُن کا سَر شدید زخمی ہو گیا۔ تارپیڈو نیچے سے آ کر کُکری ؔ کی ’’کیِل‘‘ میں لگا تھا جو کہ جہا ز کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے۔ ایسی ضرب کو بحری اصطلاح میں ’’ڈاؤن دا تھروٹ شاٹ‘‘ کہتے ہیں جس کے الفاظ سے ہی منظر کشی ہوتی ہے ، گویا ایک ہی وار میں دشمن کا گَلا حلق سے چیر ڈالنا! ’’کیِل‘‘ کا یہ مقام جہاز کے پنکھے (پروپیلر) اور گولا بارود کے ذخیرے (میگزین) کے قریب تھا جس وجہ سے اس دھماکے نے جہاز کے عقبی حصے کو نچلی جانب سے پرخچوں میں اُڑا دیا۔ کُکریؔ ایک طرف کو جُھک گیا اور پھر عقبی حصے میں پانی بھرنے کی وجہ سے اس کا عقبی حصہ ڈوبنے لگا تو سامنے کا حصہ (فوکسل) باقی جہاز سے نسبتاً اُوپر اُٹھ گیا۔ مَلّاؔ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اب نہ صرف کُکریؔ ایکشن کے قابل نہ تھا بلکہ یقیناً ڈُوب رہا تھا۔ اُنہوں نے ’’ابنڈن شِپ‘‘ کا حُکم دے دیا جس کا مطلب تھا کہ تمام عملہ جہاز کو چھوڑ کر اپنی جان بچا لے! اب اس حکم کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ حُکم جاری ہوا اور کُکریؔ کے عملے (شپس کمپنی) کے دو سو تریسٹھ افراد نے سمندر میں چھلانگ لگا دی! نچلے عرشوں (ڈَیک) پر موجود ہر شخص کو اپنے لاکر سے لائف جیکٹ لے کر پہننا ہوتی ہے اور جہاز کے نچلے عرشوں سے اوپر کی جانب ایک نظم و ضبط سے اور تمام دستیاب راستوں سے نکلنا ہوتا ہے، کشتیاں (لائف بوٹ) سمندر میں اُتاری جاتی ہیں اور اگر وقت مہلت دے تو ہر سپاہی یا افسر اپنی پہلے سے مختص کردہ کشتی میں سمندر میں اُترتا ہے۔ یہ بحریہ کی سینکڑوں سال پُرانی روائیت ہے کہ جہاز کا کپتان آخری آدمی کے بھی نکل جانے تک جہاز کو نہیں چھوڑ سکتا، یہی وجہ ہے کہ جہاز کا کپتان اکثر جہاز کے ساتھ ہی ڈوبتا ہے۔ اگرچہ کپتان کا زندہ بچ نکلنا بھی کوئی قابلِ گرفت جُرم نہیں لیکن کپتان کی بھاری ذمہ داری ہی اُسے ڈبونے کیلئے کافی ہوتی ہے۔ کیپٹن مہندرا ناتھ مَلّاؔ کو اس سینکڑوں سالہ نیول ٹریڈیشن کا پاس نہ بھی ہوتا تو زندگی نے اُنہیں کہاں مہلت دینی تھی کیونکہ تارپیڈو کا نشانہ بننے کے دو منٹ بعد ہی کُکرؔی ڈوب چُکا تھا۔ البتہ اب بھارتی تاریخ نویسوں کا یہ کہنا کہ آخری لمحے میں کیپٹن مَلّاؔ نے اپنی کُرسی پر بیٹھ کر سگار سلگایا اور اطمینان اور دلیری سے ڈُوب گئے، فقط افسانہ نگاری اور ’’بالی ووڈ‘‘ انداز کے تڑکے سے ذیادہ کچھ نہیں۔ کُکریؔ سے زندہ بچنے والے کمانڈر مَنُو شرماؔ کا کہنا ہے کہ جہاز کے زیریں حصوں سے زخمی اور پھنسے ہوئے جوانوں کو کھینچ نکالنے کا آخری منظر انہیں آج بھی یاد ہے جو کہ ایسا دل دہلا دینے والا منظر تھا کہ ایک فوجی کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری کر دینے کیلئے کافی ہے ۴، پھر دومنٹ کے عرصے میں، شدید زخمی حالت میں کیپٹن مَلّاؔ نے افسروں اور ملّاحوں میں سے بمشکل کچھ لوگوں کے بچاؤ کی نگرانی ہی کی ہو گی کیونکہ اس حملے کے بعد ایک دفعہ ہنگورؔ نے سطحِ آب پر آکر ڈوبتے ہوئے جہاز پر نظر ڈالی تو کوئی بچنے والا نظر نہ آیا۔ شدید اندھیرے میں چند لوگوں کا نظر آنا ممکن بھی نہ تھا۔ ۱۹۶ لوگ کُکریؔ کے ساتھ ہی ڈوب گئے۔ بھارتی بحریہ کا دعویٰ تھا کہ سڑسٹھ لوگ بچا لئے گئے جو کہ درست بھی ہو سکتا ہے لیکن بعد کے واقعات سے اس تعداد پر بھی بحث کی گنجائش نکل آتی ہے۔ تاہم جدید دور کی بحری لڑائیوں میں مرنے والوں کا حساب (بُچرز بِل) ہمیشہ فیصلہ کُن عنصر نہیں بھی ہوتا!
ہنگورؔ نے تیسرا تارپیڈو اپنی طرف بڑھتے ہوئے کرپانؔ پر داغا جو کہ اپنی مارٹر توپ خراب ہونے کے بعد ہنگورؔ پر ڈیپتھ چارج پھینکنے لگا تھا، اور حکمت عملی اور قاعدے کے مطابق اپنی پوری رفتار سے وہاں سے بچ نکلی۔ کافی آگے نکل کر ہنگورؔ کے آلات پر تیسرے تارپیڈو کے پھٹنے کی آواز بھی سُنی گئی جو کہ ذیادہ تر روایات کے مطابق کرپانؔ سے ٹکرایا تھا لیکن اس سے اس کے ڈھانچے کو جزوی نقصان پہنچا۔تیسرے تارپیڈو کے فائر ہونے کے بعد ( کچھ بھارتی مورخوں کا کہنا ہے کہ کرپانؔ اس تارپیڈو سے صاف بچ نکلا) کیپٹن آر آر سُودؔ نے اس خوف سے، کہ ہنگور کہیں اسے بھی ڈبو نہ دے، اپنے جہاز کی پوری رفتار سے واپس اپنے ٹھکانے کا راستہ ناپا! اس کا فوری نقصان بھارتی بحریہ کو یہ بھی ہوا کہ جب تک کرپانؔ ایک اور جہاز کو ہمراہ لے کر دوبارہ کُکریؔ کے ڈوبنے کے مقام پر پہنچا تو مدد پہنچنے کی اُمید میں ہی کئی لوگ ڈُوب چکے تھے اور بہت کم لوگ ہی بچائے جا سکے۔
ہنگورؔ مغرب کی جانب گہرے پانیوں میں روپوش ہو گئی۔ جلتے ہوئے جہاز کُکریؔ کے پھٹتے ہوئے گولا بارود کی آوازیں چند لمحوں تک سُنائی دیتی رہیں اور پھر اُس کے ساتھ ہی ڈوب گئیں۔ اب ہنگورؔ کے سامنے یہ مسئلہ درپیش تھا کہ دشمن کے ساحلوں سے کیونکر بچ نکلا جائے۔ اس حملے کے آدھے گھنٹے بعد ہی ہنگورؔ میں دُور سے دھماکوں کی وہ آوازیں سونار پہ سُنی گئیں جو کہ اُس کے تعاقب میں اُس کے ممکنہ راستوں میں پھینکے جانے والے ڈیپتھ چارجز کے پھٹنے کی آوازیں تھیں۔ ڈیپتھ چارج ایک ڈھول نما، یا مٹکے کی شکل کا بم ہوتا ہے جو کہ گہرائی میں جا کر پھٹتا ہے۔ آب دوز کے ارد گرد جہاں پہلے ہی گہرائی کی وجہ سے پانی کا شدید دباؤ ہوتا ہے، وہاں اگر کوئی ڈیپتھ چارج آب دوز کے قریب بھی پھٹ جائے تو اس کیلئے کافی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اب اگلے چار دن ہنگورؔ اکیلی دشمن کے پانیوں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہی تھی اور اب کے صرف ۱۴ واں اسکواڈرن نہیں، بلکہ بھارتی بحریہ کی تمام مغربی کمان اس کے تعاقب میں جھپٹ رہی تھی۔ ’’آپریشن فالکن‘‘ کے نام سے فوراً ایک آپریشن آغاز ہوا جس نے رئر ایڈمرل ایس این کوہلیؔ کی قیادت میں اگلے چاردنوں میں فضائی اور بحری طاقت کے تمام دستیاب وسائل ان پانیوں میں جھونک دیئے۔ تمام موجود آب دوز شکن وسائل جن میں فریگیٹ جہاز، ہیلی کاپٹر اور طیّارے تھے، نہ صرف انہیں بروئے کار لایا گیا بلکہ بھارتی فضائیہ کی فضائی نگہبانی سے بھی بھرپور خدمات حاصل کر لی گئیں۔ جس مقام پہ کُکری ؔ ڈبویا گیا تھا، اُس کو حوالے کا نقطہ (ڈیٹم، یا، ریفرنس پوائینٹ) بنا کر تلاش کی تمام کوششیں لانچ کی گئیں جس وجہ سے بھی ہنگورؔ کیلئے یہ ضروری تھا کہ اُس مقام سے حتی الوسع دُور چلی جائے اور جلد از جلد جائے۔ اب جیسا کہ آب دوز کی محدودات (لمیٹیشنز) کا ذکر پہلے بھی کیا جا چکا ہے، گہرائی میں رہ کر رفتار بڑھانے سے بیٹری کے قبل از وقت ڈسچارج ہونے کا اندیشہ تھا جبکہ شنارکلنگ کرنا، دانستہ اور بآسانی دشمن کی نظروں میں آنے کے مترادف تھا۔ حملے سے ذیادہ کٹھن مرحلہ اس کے بعد کے تعاقب سے بچنا تھا۔ کمانڈر احمد تسنیمؔ نے ایسے میں ایک خطرہ اور بھی مول لیا۔ اُن کے نزدیک نیول ہیڈکوارٹرز کو کُکری کی غرقابی کی خبر دینا بہت ضروری تھا۔اور ریڈیائی پیغام بھیجنے کیلئے سطح آب پر اُبھرنا بھی ضروری تھا۔ کمانڈر احمدؔ نے جونہی سطح آب پر آکر نیول ہیڈکوارٹرز کو اپنی کامیابی کی نوید سُنائی، دشمن کی ساحلی تنصیبات پر لگے ریڈیائی لہروں کی سمت کا اندازہ لگانے والے آلات (ریڈیو ڈائریکشن فائینڈر) حرکت میں آ گئے۔ ابھی پیغام ارسال ہی ہوا تھا کہ دشمن کے ہوائی جہاز سر پر منڈلانے لگے اور ہنگورؔ کو پھر اتھاہ گہرائیوں میں غوطہ لگانا پڑا۔ ممکن ترین گہرائی تک غوطے کے دوران اس کی رفتار ڈیڑھ سمندری میل تک آگئی تھی۔ چاردن تک یہ خطرناک کھیل جاری رہا اور کئی دفعہ تو دشمن کے پھینکے گئے ڈیپتھ چارج اور گولے پھٹنے کی آواز آب دوز کے سونار پر بہت قریب سے سُنی گئی۔اس آپریشن میں ۱۰ دسمبر کو ۲۴ اور ۱۲ دسمبر کو ۱۲۰ ڈیپتھ چارج ہنگور پر پھینکے گئے جن میں سے بمشکل ایک ہی موقع پر آب دوز میں اس کے پھٹنے کی دھمک محسوس کی گئی۔ بالآخر تھک ہار کر ۱۳ دسمبر کی شام کو ’’آپریشن فالکن‘‘ ختم کر دیا گیا اور بھارتی بحریہ نے اپنی خفت مٹانے کیلئے یہ اعلان کردیا کہ ہنگورؔ کو تباہ کردیا گیا ہے۔ ہنگورؔ ۱۸ دسمبر ۱۹۷۱ کو بخیرئیت کراچی پہنچی تو جنگ ختم ہو چکی تھی اور ہم دلیری کے ساتھ لڑی گئی یہ جنگ ذلت کے ساتھ ہار چکے تھے۔
ہنگورؔ کا ایکشن اگرچہ ہمیں ایک بڑی شکست سے نہ بچا سکا لیکن اس سے دشمن کی تزویراتی برتری (ٹیکٹیکل سپیرئیرٹی) کا زعم نہ صرف خاک میں ملا بلکہ اُس کی آب دوز شکن (اینٹی سب میرین) صلاحیتوں کا پول بھی کُھل گیا۔ البتہ بڑی سطح پر اس ایکشن نے دشمن کی اسٹریٹجی پر یہ اثر ڈالا کہ کراچی پر میزائل حملے کے بعد دُنیا بھر میں اپنی کامیابی کی ڈونڈی پیٹنے والی بھارتی بحریہ مسلسل چار دن تک ایک آب دوز کو تباہ کرنے کی ناکام کوششوں میں لگی رہی اور اس کوشش میں ۱۰ دسمبر کو آپریشن ’’ٹرائمف‘‘ (فتح) کے نام سے کراچی بندرگاہ کے خلاف پلان کیا جانے والا میزائل حملہ عملاً کبھی نہ کیا جا سکا۔ اس سے پاک بحریہ پر سے بہت سارا دباؤ ہٹا کیونکہ میزائل حملوں کے خلاف دفاع کی صلاحیتیں اُس وقت تک پوری طرح بحریہ کے وسائل کی رسائی میں نہ تھیں۔ نیز اس سے پاک بحریہ کے افسروں اور جوانوں کے مورال پر بھی بہت مثبت اثر پڑا۔
بھارت میں اس جنگ کے بارے میں ایڈمرل ایس این کوہلیؔ اور ایڈمرل گلاب موہن لال ہیرانندانی ؔ کی کتابیں بالترتیب،
“We Dared! (Maritime Operations in 1971 Indo-Pak War)”
اور
“Transition to Triumph (History of Indian Navy 1965-1975)”
کے عنوان سے شائع ہوئیں جن میں کُکریؔ کی غرقابی کے موضوع پربھی سیر حاصل گفتگو کی گئی لیکن ایڈمرل کوہلیؔ نے بالخصوص اس ایکشن میں پاکستانی آب دوز کی برتر ٹیکنالوجی کو اس واقعے کی بڑی وجہ قرار دیا اور باقی قصّے میں یہ ثابت کرنے میں رطب اللّسان رہے کہ کیپٹن مَلّاؔ اور سودؔ نے غیر معمولی دلیری کا مظاہرہ کیا جبکہ کیپٹن سودؔ نے وہاں سے آئی این ایس کرپان ؔ کو لے کر فرار ہو کر دانشمندی کا ثبوت دیا اور اپنی بساط کے مطابق بڑی بہادری سے ہنگورؔ کا مقابلہ بھی کیا۔ کوہلیؔ ہی کی سفارش پر کیپٹن مہندرا ناتھ مَلّاؔ کو بہادری کا دوسرا بڑا اعزاز ’مہاویر چکرا‘ اور کیپٹن آر آر سودؔ کو تیسرا بڑا اعزاز ’وِیر چکرا‘ دیا گیا۔ اس کے بعد بہادری اور دلیری کے باقی تمام قصّے بھی لوک کہانیوں کا حصہ بنے جن میں دمِ آخر کیپٹن ایم این مَلّاؔ کے سگار سلگانے کا منظر بھی کھینچ دیا گیا۔ کوہلیؔ کیلئے یہ اہتمام اس لئے بھی ضروری تھا کہ کئی تکنیکی وجوہ کی بنأ پر کُکریؔ کا ڈوبنا ایک سانحے کے ساتھ ساتھ ایک ’بلنڈر‘ بھی سمجھا جا رہا تھا اور کوہلیؔ اگر اُن حقائق پر پردہ نہ ڈالتے تو جنگ کے دو سال بعد شاید چیف آٖ ف دی نیول اسٹاف نہ بن پاتے۔ ایڈمرل گلاب ہیرانندانیؔ نے بھی اپنی کتاب میں ڈیفنیؔ کلاس آب دوز (ہنگورؔ) کی برتر ٹیکنالوجی کو ’الزام‘ دیا ہے۔ لیکن چند سال پیشتر انڈین نیوی کے ایک سابق افسر، کمانڈر بینوئے بھوشنؔ کے بیانات ’ٹائم آف انڈیا‘ میں شائع ہوئے تو اس ایکشن کی بھارتی سمت کا نیا پہلو سامنے آیا ۵۔
کمانڈر بھوشن کا دعویٰ تھا کہ بھارتی بحریہ کی سرکاری تاریخ میں کُکریؔ کی غرقابی کا باب ڈائریکٹریٹ آف نیول آپریشنز نے دیانت داری سے نہیں لکھا۔ اُن کا خیال تھا کہ کُکریؔ کی غرقابی کا الزام کیپٹن مہندرا ناتھ مَلّاؔ کی غفلت اور نااہلی کو دیا جائے اور اُن کا یہ بھی خیال تھا کہ ’فوکن ویسٹ‘ یعنی رئر ایڈمرل سریندراکوہلیؔ نے دانستہ حقائق چھپائے ہیں اور ’کُکریؔ کی غرقابی‘ کا وہ باب نیوی کی سرکاری تایخ میں شامل نہیں ہونا چاہیئے تھا جو کوہلیؔ نے لکھا ہے، نیز وہ اس درستی کیلئے عدالت جانے پہ بھی آمادہ ہیں۔ کمانڈر بینوئے بھوشنؔ ۱۹۵۸، ۱۹۵۹ میں کُکریؔ کے افسرِ جہازرانی (نیویگیشن افسر) رہ چکے تھے اور ۱۹۷۱ میں بھارتی بحریہ کے سمندری سروے کے جہاز آئی این ایس انویسٹیگیٹر ؔ کے کمانڈنگ افسر کے طور پر اُنہوں نے کُکریؔ کی غرقابی پر دو رپورٹیں مرتب کیں اور ۱۷ اور ۲۲ جنوری ۱۹۷۲ کو اپنے حکامِ بالا کو جمع کروائی تھیں۔ ۲۰۰۴ میں پہلی دفعہ کمانڈر بھوشن ؔ نے بھارتی صدرِ مملکت کو لکھا کہ وہ اپنی سُپریم کمانڈر کی حیثیت میں اس معاملے کا نوٹس لیں اور تاریخ میں کی گئی اس خیانت کو درست کریں۔ اُنہوں نے جن اہم نکات پر بالخصوص روشنی ڈالی، وہ یہاں نکات میں مختصراً ملاحظہ ہوں:
۱۔ یہ بحری جنگ کی واحد مثال ہے جس میں ایک جہاز ایک آب دوز کے خلاف ایک گولی بھی چلائے بغیر اُسی آب دوز کے ہاتھوں ڈوب گیا جسے ڈبونے کیلئے اُسے مسلح اور مامور کیا گیا تھا۔
۲۔ کمانڈر بھوشنؔ کی رپورٹ آئی این ایس کرپانؔ کے سی۔او کے فراہم کردہ ریکاڑد جیسی ناقابلِ تردید شہادت پر بڑی حد تک منحصر تھی جس میں کرپان ؔکے لوکل آپریشنز پلاٹ، جہازرانی کا تمام ریکارڈ (نیویگیشن ریکارڈ)، انجنوں کے چلنے کا تمام ریکارڈ اور برٹش ایڈمریلٹی چارٹ ۱۴۷۴ (بی۔اے چارٹ) جس سے ساحلی پٹی اور آپریشن سے متعلقہ تمام جغرافیائی پوزیشنوں کی وضاحت، نقشے اور اعداد وشمار کی صورت میں مل سکتی تھی، شامل تھے۔ کمانڈر بھوشنؔ کی ۱۹۷۲ کی اس جامع رپورٹ کو پسِ پُشت ڈال کر ایڈمرل کوہلیؔ کی ۱۹۸۹ کی کتاب کو سرکاری تاریخ کا حصہ بنانا واضح طور پر حقائق کی پردہ پوشی کی کوشش ہے۔ نیول ہیڈکوارٹرز نے اس پردہ پوشی کا تمام ملبہ آنجہانی ایڈمرل گلاب ہیرانندانیؔ پر ڈال کر گلو خلاصی کر لی جو کہ اس وقت فیلٹ افسر آپریشنز تھے۔
۳۔ کیپٹن ایم۔این مَلّاؔ اور کیپٹن سُودؔ نے بھارتی بحریہ کے آب دوز شکن ڈاکٹرِن پر کماحقہْ عمل نہیں کیا اور پاکستانی آب دوز کا لقمہ بنے۔ کُکریؔ کے آپریشن روم کا تمام عملہ حملے کے وقت ڈیوٹی پر تھا، نہ ہی واچ کا عملہ اپنی دی گئی ڈیوٹیوں پر پوری طرح مامور تھا (یا نیوی کی پیشہ ورانہ زبان میں کہہ لیں کہ ’’واچ اینڈ کوارٹر بِل ‘‘ پر عمل نہیں ہورہا تھا)۔ علاوہ ازیں حملے کے وقت کُکریؔ کا عملہ ایکشن اسٹیشن پہ نہ تھا، اگر ایسا ہوتا تو مارے جانے والوں کی تعداد کہیں کم ہوتی کیونکہ ایکشن اسٹیشن میں تمام شپس کمپنی لائف جیکٹ پہنے ہوئے اور مستعد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تین تین نالیوں کی مارٹر توپیں اور ڈیپتھ چارج، کچھ بھی ایکشن میں نہ آسکا۔ ان حالات میں ذمہ دار افسر کو مہاویر چکرا کا اعزاز دینا کمانڈر موصوف کے مطابق ’اسراف‘ ہے۔
۴۔ جب کُکریؔ کو تارپیڈو آن لگا اور وہ بالیقین ڈوب رہا تھا تو جان بچانے والے ’انفلیٹبل لائف رافٹ‘ بھی تیار نہ تھے جو کہ ضابطے کے مطابق ان دنوں میں لازمی ہونا چاہیئیں تھے۔ کمانڈر بھوشنؔ کے قریب کیپٹن سودؔ بھی ان دو سو اموات کے، مَلّاؔ کی طرح برابر کے ذمہ دار ہیں جن کے وہاں سے بھاگ نکلنے کی وجہ سے کُکریؔ کے عملے کے کئی لوگ بچائے نہ جاسکے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کرپانؔ کو چاہیئے تھا کہ وہ کُکری کے بچ جانے والے افسروں اور جوانوں کو اُٹھا لیتا۔ اگر اُس نے خوف ذدہ ہو کر وہاں سے بچ نکلنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو اس پر اسے ’وِیر چکرا‘ جیسا بہادری کا اعزاز دینا بھی سراسر غلط ہے۔ خطرہ مول لینا جنگ کا لازمی حصّہ ہے اور کیپٹن سودؔ یہ خطرہ مول لیتے تو کُکریؔ کے عملے میں سے کئی جانیں اور بھی بچائی جا سکتی تھیں۔
اس حوالے سے کمانڈر مَنُو شرماؔ کی یادداشتیں بھی قابلِ ذکر ہیں جنہوں نے بھارتی فوج کے نامور سوانح نویس (بائیوگرافر) میجر جنرل ایان کارڈوزوؔ کو ان کی کتاب کے لئے انٹرویو دیتے ہوئے پیش کیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کُکری ؔ کی رفتار غرقابی کے وقت ۱۴ سمندری میل فی گھنٹا سے کم کر کے ۱۲ کر دی گئی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ ایسا کرنا سونار کی کارکردگی اور نتائج کو بہتر کرنے کیلئے ضروری تھا۔ جبکہ اُنکا کہنا یہ بھی ہے کہ کُکریؔ، ڈبوئے جانے کے وقت قاعدے کے مطابق ٹیڑھے میڑھے (زِگ زیگ) راستے پہ جا رہا تھا ( نہ کہ بالکل سیدھے، خط پہ) جو کہ تارپیڈو کے وار سے بچنے کیلئے ضروری تھا۔ یعنی کُکریؔ پہ صریح غفلت کا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔ کمانڈر شرماؔ کہتے ہیں کہ واقعے سے کچھ دیر پہلے سی کنگ ہیلی کاپٹر کا واپس اپنے مستقر چلے جانا بھی ایک بہت بڑی بے احتیاطی تھی (بالفاظِ دیگر یہ بھی اسکواڈرن کمانڈر، کیپٹن مَلّاؔ ہی کی غلطی تھی) جس کا نقصان کُکریؔ کو اُٹھانا پڑا کیونکہ شرماؔ کے خیال میں سی کنگ کی موجودگی ہنگورؔ کو دھمکائے رکھنے میں کافی کامیاب تھی۔سی کنگ ہیلی کاپٹر میں لگے آلات آب دوز کی موجودگی کا پتہ لگانے میں بہتر معاون ثابت ہو سکتے تھے کیونکہ کُکریؔ کا اپنا سونار ابھی آزمائش کے مراحل میں تھا جبکہ کُکریؔ کا ہدف کو ڈھونڈنے کی صلاحیت کا قُطر (ڈایامیٹر) صرف ۲۵۰۰ میٹر تھااور ہنگورؔ کی اس صلاحیت کا قُطر ۲۵ ہزار میٹر تک تھا۔ ہنگورؔ کی یہ برتری کُکری ؔ کو سراسر ’معصوم‘ قرار نہیں دیتی کہ ہنگورؔ اُس کو بہت دور سے دیکھ تو سکتی تھی لیکن ۲۵ ہزار میٹر کے فاصلے سے تارپیڈو فائر ہرگز نہیں کر سکتی تھی۔ کمانڈر شرماؔ کہتے ہیں کہ جب کیپٹن مَلّاؔ نے اُنہیں اور لیفٹیننٹ کندن مَلؔ کو ڈوبتے جہاز سے دھکا دے کر اس سے دور تَیر جانے کا حُکم دیا تو اُس وقت اُنہوں نے دھندلکے میں آخری بار کیپٹن مَلّاؔ کو دیکھا کہ وہ اپنے جہاز کے حفاظتی جنگلے سے زخمی حالت میں جھول رہے تھے اور اُن کے منہ میں ایک سگریٹ دبا تھا۔
اس انٹرویو کی روشنی میں جنرل کارڈوزوؔ کا تبصرہ یہ ہے:
’’میں اس امر سے متفق ہوں کہ واردات ہو جانے کے بعد سجھداری کی باتیں کرنا ذیادہ آسان ہوتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ کئی ایسے غلط فیصلے کئے گئے جو کُکریؔ کی غرقابی کا پیش خیمہ ثابت ہوئے‘‘ ۶
سردار چنچل سنگھ گِلؔ، ریٹائرڈ چیف شپ رائٹ، کُکریؔ کے ایک سابق سیلر تھے جو اُس رات پہلے دھماکے کی شدت سے اُچھل کر سمندر میں جاگرے تھے اور بعد ازاں یہ قصہ آنے والی نسلوں کو سُنانے کیلئے زندہ بچے۔ اُنہوں نے چند سال پیشتر اس واقعے کے حوالے سے کچھ حقائق کا اظہار صحافیوں کے سامنے کیا جن کا مرکزی خیال لگ بھگ وہی ہے جو کمانڈر بینوئے بھوشنؔ کی بابت میں مذکورہیں۔ چیف گِلؔ کا کہنا ہے کہ کُکریؔ تین زوردار دھماکوں کے بعد ڈُوبا لیکن چونکہ کُکریؔ کو تین تارپیڈو لگنے کی شہادت ان کے علاوہ کسی نے نہیں دی لہٰذا عین ممکن ہے کہ یہ دھماکے کُکریؔ کے اسلحہ خانہ میں پڑے گولا بارود کے پھٹنے سے ہوئے ہوں۔ علاوہ ازیں چیف موصوف کی فراہم کردہ معلومات سطحی سی نوعیت کی ہیں تاہم وہ کمانڈر بھوشن کے بیان کی تصدیق کرتی ہیں اور کیپٹن مہندرا ناتھ مَلّاؔ اور کیپٹن آر آر سودؔ کو ’حادثے‘ کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔
حرفِ اختتام:
کُکریؔ کی غرقابی سے طرفین نے تدبیراتی اور تزویراتی ( ٹیکٹیکل اور اسٹریٹجک) سطح کے کئی اسباق سیکھے۔ بھارتی میزائل حملے کے خلاف ہمارے ناکافی اور کمزور اقدامات کا بالواسطہ ازالہ اس ایکشن سے کم از کم اس حد تک ہوا کہ اس نے دشمن کو مجبور کر دیا کہ وہ آئیندہ میزائل حملوں کے لئے استعمال ہونے والی طاقت کا استعمال ہنگورؔ کی تلاش میں صرف کر کے اپنا میزائل حملوں کا ارادہ ترک کر دے جو کہ کمتر طاقت اور بحران کے اس زمانے میں بسا غنیمت تھا۔ پاکستانی بحریہ اس جنگ میں دفاعی حکمت عملی اپنانے پر مجبور تھی جس کی وجہ ظاہر ہے، کہ یہ جنگ سخت نامساعد حالات میں لڑی گئی تھی ( جیسا کہ بھارتی کمانڈر ان چیف، فیلڈ مارشل مانک شا نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: ’’پاک فوج کو جنگ کیلئے تیار ی کی مہلت نہیں ملی تھی، مجھے نَو ماہ کا وقت مِلا تھا!‘‘) لیکن پی این ایس خیبر کے نقصان اور کراچی پورٹ کو مکمل تباہ کرنے کے دشمن کے جھوٹے دعووں کے بعد دشمن کے اپنے پانیوں میں جاکر اکیلی آب دوز کا دشمن جہاز ڈبونا اور پھر چار دن تک اُن کی بحریہ کو بے بس کئے رکھنا ایسی کامیابی تھی جو دشمن کے دعووں کے حلق میں ایک ازلی چبھن بن کر ابد ہو گئی۔ بھارتی بحریہ پر واضح ہو گیا کہ کمزور پاکستانی بحریہ کو اس کی آب دوز طاقت کے ہوتے ہوئے کبھی بھی کمتر نہیں سمجھا جا سکتا۔ حتیٰ کہ تیس سال بعد بھی پاکستان میں بننے والی فرانسیسی آب دوز کا پراجیکٹ ’کُکریؔ کے ورثأ ‘کو بے چین کئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ دہشت گردی کی کارروائی میں فرانسیسی انجنئیروں کو قتل کر کے بھی اس پراجیکٹ کو سبوتاژ کرنے میں ناکام رہا۔۔۔ یہ رقابت آج بھی زندہ ہے!
۱۹۷۱ کے بعد کارگل کی جنگ میں بھی پاکستان کی سمندری تجارت کے راستے بند کرنے کی حکمتِ عملی بھارت کی ترجیح تھی اور آئیندہ ہر جنگ میں رہے گی۔ پاک بحریہ بالعموم اور اس کی زیرِ آب طاقت ( سب میرین فورس) بالخصوص دشمن کی اس حکمتِ عملی کو ناکام بنانے کیلئے ہمارا فیصلہ کُن ہتھیار ہو گی۔
ڈیفنیؔ کلاس آب دوزیں اب ایک مُدت سے ہمارے فلیِٹ سے ریٹائرڈ ہو چکی ہیں اور ان کی جگہ جدید آگسٹا ؔ کلاس آب دوزیں لے چکی ہیں۔ پی این ایس ہنگورؔ آج کل پاکستان میری ٹائم میوزیم میں کھڑی اپنی ’’ریٹائرڈ‘‘ زندگی گزار رہی ہے اور پاکستانی عوام کیلئے کھول دی گئی ہے تاکہ وہ اس سے مل کر اس کے کارنامے کو یاد رکھیں۔ تاریخ کی نظر میں ستّر سال کوئی عرصہ نہیں، لہٰذا ایک ’کم سن‘ قوم کی، چند جنگوں پر مشتمل عسکری تاریخ کے لئے یہ کارنامہ ایک سنہری باب ہے جسے یاد رکھنے سے ہم شکست کا غم تو شاید نہ بھول سکیں البتہ کڑے وقت میں ہمّت، پیشہ ورانہ مہارت اور دلیرانہ قیادت کی یہ مثالیں آئیندہ کی کامیابی، مضبوط دفاع اور پائیدار امن کے حُصول کیلئے ہماری رہنما ہو سکتی ہیں۔۔۔
Notes:
1. “Epic Naval Fights” Captain Frank Shaw RN (Werner and Laurie)
2. “Pakistan Meets Indian Challenge” Brigadier Gulzar Ahmed
3. “Story of the Pakistan Navy (1947-1972)” PN History Cell
4. https://www.scribd.com/doc/2220560/sinking-of-ins-khukri
5. Time of India. 21 March 2011 “Sinking of INS Khukri; have facts been sunk too?” https://blogs.timesofindia.indiatimes.com/contentions/sinking-of-ins-khukri-are-facts-been-sunk-too/
6. “The Sinking of INS Khukri: Survivors’ Stories” Major General Ian Cardozo,(Rtd) Indian Army.