Laaltain

دیار و دشت کے پسِ پردہ سے ایک پرچھائی

15 فروری، 2025

نام کتاب: دیار و دشت

مصنف: ذکی نقوی

قیمت: 699 روپے

ناشر: القا پبلی‌کیشنز – ریڈنگز کا اشاعتی ادارہ

ذکی نقوی کی کہانیوں کے وہ شائقین جو اس کے فکشن پر ایک ادبی تبصرے کی توقع لے کر اِس تحریر تک آئے ہیں، اُن کے لیے میں ابتدائے کلام میں ہی چراغ بجھائے دیتا ہوں کہ زیرِ نظر تبصرہ، ادب کی دنیاداری تو ہے ہی، ساتھ میں میری گھریلو ذمہ داری بھی ہے، اگر جانا چاہیں تو یہیں سے پلٹ جائیے۔ صاحبِ کتاب رشتے میں میرا سگا بھائی ہے۔ چھوٹی عمروں میں ایک ہی برتن میں کھایا، ایک ہی ٹاٹ پہ بیٹھ کے مکتب کا پہلا پہلا درس لیا، اور ایسی بہت سی کہانیوں کو ایک ساتھ جیا جو ذکی نقوی کے قلم سے آپ تک پہنچی ہیں۔

اگر کوئی پوچھے کہ یہ کہانیاں کہاں سے آتی ہیں، تو پہلے یہ بتائے کہ مچھلی پانی کب پیتی ہے۔ ہر خاندان اور محلے بستی میں دسیوں کہانی گو ہوتے ہیں، کہانی کہے بناں چارہ نہیں۔ فکشن نگار البتہ کوئی کوئی بنتا ہے، جس کو چاہے خدا خراب کرے۔

پہلے کچھ اس گاؤں کا ذکر ہو جائے جس سے آپ ذکی نقوی کی کہانیوں کی بدولت اب کافی مانوس ہیں۔ چند صدیاں پہلے خود کو تتار خان کی نسل سے بتانے والے ایک بلوچ شاکر خان اور اس کے قبیلے نے دریائے جہلم کے قریب یہاں اپنے گھروں کے گرد ایک کوٹ تعمیر کیا تو آس پاس کا سبھی قصبہ کوٹ شاکر کہلانے لگا۔ 1870ء کی دہائی میں یہاں سرکاری اسکول بنا۔ لاہور اور ملتان کے بازاروں جیسا لال پکی اینٹوں والا ایک بازار تھا، جہاں کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ سیال اور بلوچ بیشتر اناج اور مویشیوں والے تھے، کھتری رات دن دکانوں کی بہیاں دیکھتا تھا اور سونے چاندی میں کھیلتا تھا۔ سال بھر کے پھیرے پر نورپورتھل اور شاہجیونہ کے میلوں اور ماچھیوال کی لوہی پر یہ سبھی دھن دولت یکجا ہو کر مقدور بھر سب میں پھر سے بٹ جاتی۔ ان وقتوں کی ایک بچ رہی گمٹی بتاتی ہے کہ ہندو اور سکھ ایک ہی گوردوارے میں عبادت کیا کرتے تھے۔ اسکول کے قریب ٹِیڑی چوک ہے، جہاں دن میں تانگے رکتے تھے اور شام پڑے منچلے جوان اکٹھے ہو کر ضلع جگت اور قصہ کیا کرتے۔ ٹِیڑی مارنا، یہاں کی بولی میں فسوں طرازی اور لمبی گپ ہانکنے کو کہتے ہیں۔ خوشاب سے جھنگ جانے والی پکی سڑک حالیہ مقام سے کوئی سوا میل مشرق میں، اسی پرانے قصبے سے گزرتی تھی۔ تب ہفتے میں ایک یا دو بسیں گزرتی تھیں۔ چاہ خان‌پور کے پاس ایک جگہ اب پرانا اڈہ کہلاتی ہے، بس یہاں رات بھر قیام اور چائے پانی کر کے صبح دم چل پڑتی۔ بٹوارہ ہوا تو سکھوں کی ایک بس جو یہاں رات کو رکی تھی، اس پر ایک بلوائی جتھے نے دھاوا بول کر سبھی مسافر مار ڈالے، میں نے جس بزرگ سے یہ سنا اس کا کہنا تھا کہ وہ اس جتھے کے ساتھ تھا۔ یونہی ایک اور سکھ کے بارے سنا کہ اس نے اپنی بیوی اور سبھی بیٹیوں کو مار کے خود کو گولی مار لی۔ غرض جب یہ ہنگامہ تھما اور زندگی پھر سے معمول پر آئی تو بازار کی رونق بہت ماند پڑ گئی تھی۔ ہمارے دادا پٹواری تھے، پچاس ساٹھ کی دہائی میں اپنے دوستوں سے کہا کرتے تھے کہ دیکھ لینا، نئی سڑک مغرب میں اونچے ٹیلوں سے گزرے گی، اپنی اپنی “مَلت” کی لکیریں کھینچ لو۔ اور ایسا ہی ہوا۔ نئی بستی بسی تو دادا جان اس کے پہلے نمبردار ٹھہرے، بَکُھو ماچھی نے سڑک کنارے چائے کا کھوکھا کھول لیا، سیٹھ غلام حسین نے کچھ فاصلے پر کریانہ لگا لیا۔ پرائمری اسکول کے طور پر ایک کھلے میدان میں ایک بڑے کیکر کے ساتھ ایک کوٹھڑا بن گیا۔ اور سڑک کنارے ہر سوموار کو مویشیوں کی منڈی لگنے لگی۔ ماڑی، مچھیانہ، علیانہ، ساہجھر، کوٹ مَولچند (جوکہ بٹوارے کے بعد – شاید پھر سے – چاندنہ کہلایا) اور اس سڑک سے گزرتے ہوئے راستے میں آنے والے کم و بیش سبھی قصبوں کی کہانی اس سے ملتی جلتی ہے۔ کوئی ایک صدی پہلے یہ سبھی ایک آدھ میل مشرق میدانی علاقے میں لال پکی اینٹوں اور اونچے چوبی دروازوں والے مکانوں سے سجے، آج سے کہیں زیادہ آباد قصبے تھے۔ لیکن دو عوامل ایسے تھے جنہوں نے ان سب آبادیوں کو یکسر و یکساں طور پر بدل دیا۔ ایک سن سنتالیس کا بٹوارا اور دوسرا سیلاب۔ ایسا لگتا ہے کہ ان ٹیلوں کے قلب میں کوئی چیز ہے جو ڈیڑھ دو میل کے فاصلے سے دریا کو اپنی طرف بلاتی ہے۔ ہمارے دادا جس گھر میں پلے بڑھے تھے، وہ جگہ آج کے دریا کے پاٹ کے عین وسط میں بتائی جاتی ہے۔

میں نے جب کچھ کچھ ہوش سنبھالنا شروع کیا تو خود کو شورکوٹ میں واقع ایئرمین کوارٹرز میں پایا۔ میں تین چار سال کا تھا جب والد صاحب میڈیکل‌بورڈ پر قبل از وقت ریٹائر ہو کر اسی گاؤں واپس آنے کی تیاری کر رہے تھے۔ یہاں آ کر میں نے پہلے کبھی کبھار ملنے والے خود سے سال بھر بڑے اس بھائی سے باقاعدہ متعارف ہونا شروع کیا جسے پیدا ہوتے ہی دادی نے گود لے لیا تھا۔ ذکی اور مجھے دونوں کو جاننے والے جو ایک طرف یہ سوٹڈ بوٹڈ بابو اور دوسری طرف میرا ریچھ پالنے والے قلندروں جیسا حلیہ دیکھ کر کچھ متحیر ہوتے ہوں، تو تب ہم دونوں میں یہ فرق بالکل الٹ تھا۔ لیکن کچھ ہی دنوں میں ہم دونوں کا رہنا سہنا یکساں ہو گیا۔ دادی نے ذکی کو بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ دھول دھپا، ہاتھ کا لقمہ چھین لینا۔ لیکن ایک ہم‌عمر دوست کی ضرورت نے ہمیں شیروشکر بھی کیے رکھا، گاؤں میں ہماری جوڑی کی مثالیں بننے لگیں اور ہم دوقالب ایک نام سے پہچانے جانے لگے۔ ذکی مجھ سے اردو، اور میں اس سے پنجابی کے نئے لفظ سیکھ رہا تھا، یوں بولنا سیکھنے کی عمر میں ہم ایک دوسرے کی مدد سے ذولسانی بھی ہو رہے تھے۔ ہم ایک ہی کھاٹ پہ سوتے تھے، ایک ہی ٹاٹ پہ سبق لیتے تھے اور ایک ہی گھاٹ پہ پانی پیتے تھے۔ مگر اس دوستی کے ساتھ ہی جونہی ماں اور دادی میں کھٹ پٹ ہونے لگتی، ہم دونوں بھی ایک دوسرے پر تلواریں سونت لیتے۔ جی ہاں، ہم نے کئی دن تک لوہار کی دکان پر بیٹھ کر اپنی آہنی تلواریں خود بنوائی تھیں، ان تلواروں کی نقل پر جو پردادا جلال شاہ، اور جگدیش کے بابا شاہ چراغ وغیرہ سے منسوب تھیں۔ ماں اور دادی کے بیچ کھٹ‌پٹ بھی بے‌جا نہیں تھی۔ ننھیال کا قصبہ کسی زمانے میں یوں تھا کہ بہت سے خاندانوں پر مشتمل سیّدوں کا ایک پورا قبیلہ ایک فصیل بند قطعہ پر بستا تھا۔ جہاں اب گھروں کے درمیان گلیارے ہیں، کبھی یہ ایک ہی بڑے سے گھر کے اندرونی راستے تھے۔ اب سے کچھ سال پہلے اس قبیلے میں میں ایک زہریلی ہوا چلی۔ اس کے بعد وہاں دھرمسال کی ایک بڑی سی پرانی عمارت اور گاؤں کا سب سے بڑا اور پرانا برگد، جہاں کبھی لمحہ بھر کے لیے بھی محفل برخاست ہوتی تھی اور نہ ہی حقہ سرد پڑنے دیا جاتا تھا، آن کی آن میں دونوں جگہوں کا نشان مٹا دیا گیا۔ لڑکپن میں ہی اسی ہوا میں ہمارا اس گاؤں جانا بھی موقوف ہو گیا۔ یہ گاؤں ضلع جھنگ میں اُچ گل امام والی بࣦھڑ کے قریب پڑتا ہے۔ میری والدہ نے ایک بار مجھے بتایا کہ بہت پرانے وقتوں میں چھوٹی اُچ، یعنی اُچ گل امام والی بِھڑ میں اور بڑی اُچ یعنی ریاست والی اُچ کے خرابے میں دو دیوہیکل بہنیں رہا کرتی تھیں۔ وہ اتنی بڑی تھیں کہ جونہی شام ہوتی تو وہ اپنے اپنے خرابوں سے اوپر اٹھتیں اور ہاتھ بڑھا کر ریڑھکے کی جاگ اور شام کی بھاجی کا تبادلہ کیا کرتی تھیں۔ ادھر ددھیال میں ہمارا گھر سیّدوں کا اکلوتا گھر تھا اور ٹیلوں پر آن بسنے والی اس نئی بستی کا رہن سہن ابتدا میں سابقہ میدانی قصبے جیسا نہیں، بلکہ ریگستان کی اندرونی بستیوں جیسا تھا اور گھروں کی چاردیواری کا تصور ماں کی شادی تک پوری طرح نہیں آیا تھا۔ بھیڑوں بکریوں پر بگھاڑوں کے شب‌خون تو خیر ہم نے بھی کچھ کچھ دیکھے سنے، پر جب والدہ بیاہ کر آئی تھیں تب تو بیابان کے مسافروں کے اژدہے اور شینہوں کا شکار ہونے کے قصے بھی سننے میں آیا کرتے تھے۔ پھر یہاں ہماری والدہ کے آنے تک نہ کسی کو عورتوں کے غسل کفن کا پتہ تھا، نہ ہی کوئی لڑکیوں کو نماز طہارت سمجھانے والا تھا۔ ماں اور دادی کے درمیان کا ثقافتی فرق کبھی کبھار تہہ سے اٹھ کر سطح پر آ جاتا تھا۔ پھر میرے آنے سے پہلے دادی اپنا جوڑ رکھا جو میوہ ماکھن ذکی کو کھلاتی تھی، وہ بعد میں کئی بار مجھ سے چھپ کے کھلاتی ہوئی بھی دیکھی گئی۔ دادی سے میری دشمنی کے گہری دوستی میں بدلنے میں بہرحال کچھ وقت لگا۔

ذکی اور میرے پیدا ہونے سے کچھ پہلے ہمارا سب سے بڑا بھائی، جسے دادی نے فوج میں گئے ہمارے والد صاحب سے دوری کے ہرجانے کے طور پر گود لیا تھا، کم‌سنی میں گھر کے قریب کھیلتا ہوا ایک حادثے کا شکار ہو گیا۔ اس کے بعد دادی نے کچھ کچھ سالوں کے وقفے سے ایک پوتا اور پھر ایک نواسا گود لیا۔ دادی کی وفات تک مجھے گھر میں گزاری ایسی کوئی شام یاد نہیں جب وہ اپنے سب سے بڑے پوتے کو یاد کر کے روئی نہ ہو۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ دنیا کی ہر ماں میں ایک پوشیدہ، مگر بے بنیاد اور معصومانہ سا احساسِ جرم یا وہم پایا جاتا ہے کہ وہ ایک اچھی ماں نہیں ہے، اور شاید یہ وہم نسلِ آدم کی بقاء کے پیچھے فطرت سے ملا ایک بے حد تعمیری اور کاملیت پسند جذبہ ہے۔ اس خود اشتباہی کا اظہار ہر ماں میں مختلف طرح سے ہو سکتا ہے۔ میں اپنی زندگی کے ساتھ کئی ایک تباہ کن تجربے کر چکا ہوں لیکن میری والدہ نے مجھے زندگی میں کسی برے فیصلے پر کبھی کوئی ملامت نہیں کی۔ وہ ہمیشہ فقط میری ظاہری صحت کے متعلق ہی اپنی فکرمندی مجھ پر ظاہر کرتی ہیں اور ان کا لفظوں کا انتخاب بہت محتاط ہوتا ہے۔

اُچ گل امام والی بِھڑ کے قریب سید نور شاہ کی قبر ہے۔ پرانے وقتوں میں یہ بزرگ اپنے بھائی مکی شاہ کے ساتھ دلی گئے جہاں مکی شاہ کو بے گناہ قتل کر دیا گیا۔ ان کا سر دہلی کے دروازے پر رکھا گیا تو وہ سر اپنی جگہ سے اٹھا اور شہر کی فصیل کے اوپر چکر کاٹنے لگا اور تین دن تک شہر کے گرد ہوا میں گھومتا ہوا یہ سر اپنی زبان سے اپنی بے گناہی کا اعلان کرتا رہا اور اس دوران دہلی میں بھونچال کی کیفیت رہی اور شہر کے کنگرے کانپتے رہے۔ اہلِ دلی نور شاہ کے قدموں میں آن گرے، سو انہوں نے اہل دہلی کو معاف تو کر دیا لیکن صلح میں دلی والوں کی دو لڑکیاں بیاہ کر ساتھ لائے اور آتے ہوئے وعدہ کیا کہ بروز حشر جس روز وہ اپنے مقتول بھائی سے ملیں گے، اسی دن یہ بیاہتائیں اپنے مائیکے والوں سے ملیں گی۔ انہی بیگمات کے بطن سے پیدا ہونے والے گوہر شاہ کو ایک دن کیا سوجھی کہ اپنی ماؤں کو ان کے مائیکے والوں سے ملوانے دلی لے گیا۔ جب نور شاہ کو پتہ چلا تو اس نے اپنے بیٹے کو بددعا دی کہ اس کی نسل سے اگر کسی بیاہتا کی پہلوٹھی اولاد نرینہ ہو گی، اپنی جوانی تک نہیں پہنچے گی۔ گوہر شاہ مرا تو اسے تین بار باپ کے پہلو میں دفنایا گیا لیکن ہر بار میت قبر سے باہر آن پڑتی۔ گوہر شاہ کی قبر نور شاہ سے دور فاصلے پر ہے۔ ہمارے ننھیال کا قبیلہ اسی نسل سے ہے، بٹوارے سے پہلے وہ پڑھائی کے لیے اپنے لڑکے دہلی بھیجا کرتے تھے۔ آس پاس کے لوگ انہیں “کپری سید” بھی کہتے ہیں۔ مقامی بولی میں “کــَپّر” شدید بددعا کو کہتے ہیں۔ سو اس کی ایک تاویل یہ ہے کہ ان سیدوں کی بددعا بہت لگتی ہے، دوسری تاویل یہ کہ یہ لوگ خود بددعا گزیدہ ہیں۔ تین بہنوں میں سے میری والدہ اور منجھلی خالہ کے ہاں پہلوٹھی اولاد نرینہ ہوئی، دونوں کی بچپن میں موت ہوئی۔ لیکن نور شاہ کا سراپ گوہر شاہ کی نسل کی ہر عورت پر ایسے التزام سے نہیں پڑتا کہ ایک باپ کا بیٹے کو دیا گیا کوسنا، ایک نری بددعا سے فطرت کا ایک اٹل قانون بن جاتا۔

ادھر تھل میں ذکی اور میری لڑکپن کی بادیہ پیمائی کم و بیش ایک ساتھ رہی۔ پھر کوئی دلچسپ روداد یا ماجرا دیکھا سنا، تو محفل میں سناتے ہوئے دونوں میں ایک عجیب سی کشیدگی در آتی تھی۔ میں سناتا ہوں! ارے نہیں میں۔ تو قصہ یوں ہے! ارے نہیں قبلہ، یوں نہیں، ایسے ہے۔ ذکی صاحب اس معاملے میں تب کچھ تحکمانہ مزاج بھی رکھتے تھے، سو اکثر مجھے قدم بھر پیچھے ہٹنا پڑ جاتا۔ البتہ اب ان کا مزاج ویسا تحکمانہ نہیں رہا، شاید وہ بڑے ہو گئے ہیں، یا شاید میں بڑا ہو گیا ہوں۔ سو یہ کہانیاں پڑھتے ہوئے کسی کسی مقام پہ مجھ پر ایک بہت ذاتی سی کوفت کی کیفیت گزر جاتی ہے، لیکن یہ کوفت فکشن کے قاری کے طور پر نہیں، بلکہ جادہ پیمائی کے اس ہم سفر و ہم صفیر کے طور پر ہوتی ہے۔

میری اس ذاتی سی کوفت کے بارے میں جاننا فکشن کے قاریوں کے لیے ایک بہت غیر ضروری سی بات ہو سکتی ہے، لیکن آپ تو بطور قاری چراغ بجھنے پر بھی اٹھ کر نہیں گئے، آپ سے کیا پردہ۔ ذکی نقوی کا ہر کردار بہت سے حقیقی کرداروں کا ایک کولاج ہے، میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں ان اکثر حقیقی کرداروں کو جانتا ہوں۔ نام کی حد تک چاچا ایلس کدوری ایک حقیقی شخص تھا، باقی کہانی بہت سی ہنگامہ خیز لیکن گمنام زندگیوں کی یکجا تجسیم ہے۔ گائے کی دُم کاٹ بھاگنے والا داستانی مویشی چور فلاں بستی کا فلاں شخص تھا، اور دُم بریدہ گائے کے جلوس میں پڑھا جانے والا نوحہ حقیقت میں ایسے ہی ایک نوحے کا آزاد اردو ترجمہ ہے۔ نوٹوں کی گڈی جلا کے محبوبہ کو چائے گرم کر دینے والا اصل میں پاس کے گاؤں میں ایک چنے کا آڑھتی تھا، جسے آخری بار کئی سال پہلے میں نے تباہ حال پھرتے دیکھا۔

اس صدی کے پہلے دو عشروں میں ہم سب نے دہشت‌گردی سے جنگ کی شکل میں جو آزمائش دیکھی ہے، کلاسیکی جنگ کی کتابی اور تاریخی سی دنیا میں پلے بڑھے ذکی نقوی نے اس نئی بدصورت جنگ کا تجربہ نیوی کی وردی میں حاصل کیا، جس میں ہر سپاہی کے سر پر ایک بیہودہ اور غیر سپاہیانہ سی موت ہر کہیں منڈلاتی رہتی ہے، اور جس کا ذکر اس کے افسانے “اشفاق اور اس کا دوست منگول” میں ملتا ہے۔ ذکی نقوی کا لکھا ہوا اس کی فوجی زندگی کی حقیقی یادوں پر مشتمل ایک طویل مسودہ میری نظر سے گزر چکا ہے۔ یہ آنے والے وقت میں اس جنگ سے متعلق ایک دلچسپ اور اہم متن بن سکتا تھا، لیکن ہمارے اس خر دماغ فوجی نے کسی جذباتی لمحے میں وہ مسودہ تلف کر دیا۔ فوجی ملازمت کے ذاتی تجربہ کے ساتھ ساتھ مصنف کے اپنے خاندان میں، اور باہر بستی میں متحدہ ہندوستان کی فوج میں رہ چکے سپاہیوں کی آخری نسل کے ساتھ تعلق وہ سرمایہ ہے جس کی بدولت اس کے “میکنائزیشن” جیسے افسانوں کی تخلیق ممکن ہوئی۔ بعد میں کرنل غلام جیلانی خان جیسے اکابر کے شفقت بھرے تعلق نے ذکی نقوی کی ادبی شخصیت کو بہت نکھارا۔ میں جن دنوں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا ایک بار ذکی صاحب جیلانی صاحب سے ملنے کراچی سے لاہور آئے تو مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ عسکری تاریخ اور فارسی زبان و شعر پر گفتگو کی ایک طویل نشست رہی، اس نشست سے مجھے وہ خفت بھرا لمحہ سب سے زیادہ یاد ہے کہ میں پہلے کچھ بے خوابی کے ساتھ تھا اور بیٹھک کے برخاست ہونے سے کچھ پہلے مجھے صوفے پر بیٹھے اونگھ آ گئی تھی۔

اکثر پرانے فوجیوں کی طرح ہمارے والد صاحب بھی ایک ان‌تھک قصہ گو ہیں۔ ذکی صاحب اور میں نے عمر کا ایک حصہ تقریباً ہر شام ان کی فوجی زندگی کے قصے کئی کئی بار ایسے سنے ہیں کہ اب یوں لگتا ہے کہ وہ اٹھارہ سال ان کے ساتھ ایئرمینی کی ڈانگری میں گزارے ہوں۔ ورنہ اس دیہاتی لڑکے کو کیا پتہ تھا کہ کہانی کی تکنیکی جزویات کیا ہوتی ہیں۔ ذاتی طور پر ہوابازی کی تکنیکی باریکیوں سے ذکی نقوی کی گہری شناسائی کی بنیاد بھی انہی عمروں میں پڑی۔ ذکی صاحب ایک مشغلہ پرور پیراگلائیڈر بھی ہیں۔ ایک ایئرمین کے گھر پیدا ہونے والے ایک سیلر کی شخصیت میں یہ “ماہئ پرّاں” کا سا پہلو ایک قابلِ فہم بات ہے، بطورِ ہواباز اس کی اپنی پرواز اس کے قلم کی پرواز کی طرح بادلوں سے دور اور زمین کے قریب تر رہتی ہے۔

2011ء میں، جبکہ ذکی صاحب بحریہ میں سیلر تھے اور میں پولیس میں سنتری تھا، موصوف نے مجھے فون کر کے بتایا کہ دونوں عالمی جنگیں لڑ چکا آخری فوجی، رائل نیوی کا کلاڈ آسٹریلیا میں مر گیا ہے۔ یہ خبر ہم دونوں کے لیے اتنی دلچسپ اس لیے تھی کہ تب سے پہلے تک ہمارا ماننا تھا کہ دونوں عالمی جنگیں لڑ چکا آخری سپاہی بابا شہادت خان تھا۔ اگرچہ بابا شہادت خان سے ہمارے بڑوں کے پشتینی مراسم تھے، لیکن ہماری اس سے پہلی باقاعدہ ملاقات ہائی اسکول کے دنوں میں جھنگ کے ڈاکخانے میں فوجی پنشنروں کی قطار میں ہوئی۔ ان دنوں کچھ عرصہ ہمارے والد صاحب کو ایک عذر درپیش رہا تو انہوں نے متعلقہ کلرک بابو سے ہماری ملاقات کرا دی، مجھے والد صاحب نے کچھ مجاز مواقع کے لیے اپنے دستخط سکھا دیے، اب والد صاحب کی پنشن لینے ہم دونوں بھائی شہر جاتے تھے۔ فوجی پنشنروں کی قطار میں بابا شہادت خان سب سے معمر تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ انگوٹھا چھاپ سپاہی دونوں عالمی جنگیں لڑنے کے بعد سن پینسٹھ کی جنگ بطور ریزروسٹ لڑ چکا تھا۔ دوسری عالمی جنگ یا لوک بولی میں “جرمل دی دوجی جنگ” کے دوران اپنے محاذ بتاتے ہوئے جب اس نے “العالمین” کا ذکر کیا تو ہم نے چونک کر پوچھا؛ “بابا جی، پھر تو آپ نے اہرامِ مصر کو بھی دیکھا ہو گا۔” بابا شہادت خان نے کچھ دیر ذہن پر زور دیا اور کہنے لگا؛ “اہرامِ مصر۔۔۔ ہاں، کافی بھلا آدمی تھا۔” افریقہ سے واپسی پر مسلمان سپاہیوں کو عراق و ایران میں مقدس مقامات کی زیارت کا موقع دیا گیا تو سپاہی شہادت خان نجف و کربلا سے ہوتا ہوا وردی میں ہی مشہدِ رضا پہنچ گیا۔ اسی دوران غل ہوا کہ رضا خان، شاہِ ایران بھی روضہ کی سلامی کو آیا ہوا ہے۔ شہادت خان کو اسی اثنا میں بادشاہ کو سلیوٹ مارنے کا موقع مل گیا۔ رضا خان انگریزوں اور ہندوستانیوں، دونوں کا دوست تھا، اس نے ناصرف فوجی سلیقے سے سلیوٹ کا جواب دیا بلکہ آگے بڑھ کے شہادت خان سے مصافحہ بھی کیا۔ بس اس کے بعد سے سپاہی شہادت خان مرتے دم تک شاہِ ایران کی تعریف میں رطب اللسان رہا۔ وہ بڑے رضا شاہ اور چھوٹے رضا شاہ کا فرق نہیں جانتا تھا۔ مدت بعد جب اسے پتہ چلا کہ شاہِ ایران کا تختہ الٹ گیا ہے، تو اس رطب اللسانی کے ساتھ ایک اور ناراض سی بڑبڑاہٹ بھی تازیست شامل ہو گئی۔

گاؤں میں ایسے بہت سے فوجی اب بھی زندہ ہیں جو سن اکہتر کی ہزیمت کا داغ اور اس سے وابستہ بہت سی کہانیوں کا بوجھ سر پہ اٹھائے پھرتے ہیں۔ یعنی وہ سپاہی جو ہمارے ہاں کے لوک محاورے میں “اِندراں دی قید” کاٹ کے آئے تھے۔ جیسا کہ اپنی بیٹھک کی الماری میں کچھ دوائیں اور ٹیکے سجائے آس پاس سے اپنی ماؤں کے کولھوں پر سوار ہو کے آنے والے ننگے پُنگے بچوں میں ملیریا اور اسہال وغیرہ کی مسیحائی کرنے والا نرسنگ کور کا سپاہی خادم حسین۔ یا ایک آدھ سپاہی ایسا بھی تھا جو بنگالے میں گڑبڑی کے دوران بنگالیوں کے ساتھ اپنے برتاؤ کے بارے میں کچھ بیحد تاریک اعترافات بھی بڑی صاف گوئی سے سنایا کرتا تھا۔ یا پھر اپنی بزاز کی دکان پر بیٹھا خریداروں کا منتظر، گاہکوں کے اسٹول پر بیٹھے نوعمر ذکی کو گھنٹوں اپنی کہانیاں سنانے والا ریٹائرڈ بلوچ صوبیدار۔ صوبیدار صاحب لاولد تھے اور انہیں ذکی سے بہت انسیت تھی۔ ان کے متعلق گاؤں میں مشہور تھا کہ بنگالے والی قید میں بھارتی فوج آٹے کے راشن میں شیشے جیسا کچھ پیس کر انہیں کھلاتی رہی، جس کی وجہ سے ان میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت جاتی رہی۔ ذکی صاحب ہم بھائیوں میں ذرا گورے چٹے ہیں، سو میں لڑکپن میں اس ادھیڑ عمر فوجی کے ساتھ موصوف کی گہری دوستی پر پھبتی کسنے کا کوئی موقع نہیں گنواتا تھا۔ برسبیل تذکرہ، بچپن میں گاؤں میں اکثر لوگ ہمیں ذکی-نقی کی جوڑی کے علاوہ رَتے کالے کی جوڑی بھی کہا کرتے تھے۔ خیر، ذکی صاحب نے ان سب کی کہانیوں کا بوجھ مجھ سے بڑھ کے اٹھایا۔ موصوف نے ہائی اسکول کے وقتوں میں ہی صدیق سالک اور فضل مقیم خان کی یادداشتیں اور ایسی کئی کتب پڑھ کے قریباً حفظ کر لی تھیں۔ میں یہ کتابیں کبھی بھی چند صفحوں سے آگے نہیں پڑھ سکا۔ قصہ کوتاہ، “سپاہی تنویر حسین کی ڈائری” اور “شکست” جیسی کہانیاں اچانک تخلیق نہیں ہوئی۔

ذکی نقوی کی اکثر کہانیاں حقیقی وقائع اور فکشن کے درمیان کی سرحد کے آر پار پھدکتے رہنے میں کسی تامل کی روادار نہیں ہوتیں۔ زیرِ نظر مجموعے کے مشمولات سے ذرا باہر، اس کے افسانوی خاکے سدِ سکندری کی مثال لیجیے، اگر اس تحریر سے لکھاری کے کیے گئے کچھ معمولی افسانوی برتاؤ کو منہا کر دیں تو وہ ہمارے گاؤں کے ایک حقیقی مولوی مرحوم کا حقیقی خاکہ ہے۔ دیار و دشت میں شامل “شہرِ مدفون” جہاں افسانے کی طرز پر لکھی گئی خودنوشت ہے، وہیں “سپاہی تنویر حسین کی ڈائری” خودنوشت کی طرز پر لکھا گیا افسانہ ہے۔ ادھر ذکی نقوی کے افسانوی کاموں میں جہاں کہیں متکلم کے ایک اسد نامی بھائی یا گاؤں کے فاطمی نامی کسی شاعر کا ذکر آیا ہے، وہ بجا طور پر میں ہوں۔ کون نہیں چاہے گا کہ اپنے وقت میں بہت زیادہ پڑھی گئی ایسی کہانیوں میں اس کا مذکور پوری شناخت کے ساتھ آئے۔ اور کیوں نہ ہو، میں ذکی نقوی کی زندگی کا سب سے پرانا دوست ہوں۔ اس نکتہ پر آ کر ذکی نقوی کی اپنے کرداروں کے ساتھ ایک تکلف بھری پردہ داری کا پتہ چلتا ہے۔ اس کے باقی اکثر کرداروں کے پیچھے کارفرما حقیقی اشخاص کے ساتھ ذکی نقوی کا ذاتی سماجی تعلق، میرے ساتھ رشتے کی نسبت کافی مختلف ہے۔ شاید اسی لیے اس کی کہانیوں میں ایسے ذیادہ تر اشخاص کی اصلی شناخت بھک سے اڑ جاتی ہے اور وہ پوری طرح افسانوی کردار بن جاتے ہیں۔ لیکن یہ پردہ داری ناصرف مصنف کو حقیقی واقعات میں ہر طرح کی تخلیقی رنگ آمیزی کی پوری آزادی دے دیتی ہے، بلکہ تاریخ کی عدالت میں جھوٹ سچ کی کسی بازپرس سے بھی مکمل برٲت دے دیتی ہے۔ ادھر حقیقت اور افسانے کے درمیان انہی دھندلاتی لکیروں پر، فرضی واقعات میں اس کی حقیقت نگاری ایسی زوردار ہے کہ “سپاہی تنویر حسین کی ڈائری” جوکہ زیرنظر مجموعے میں “ایک فرضی روزنامچہ” کے ذیلی عنوان کے ساتھ چھپی ہے، جب پہلی بار ایسی کسی انتباہ کے بغیر شائع ہوئی تھی تو تنویر قیصر شاہد جیسے سمجھدار لکھاری نے ناصرف اسے ایک اصلی تاریخی دستاویز سمجھ لیا، بلکہ ایکسپریس اخبار میں “خون آشام ڈائری” کے عنوان سے اس پر کالم بھی لکھ مارا، اور اس کے آخر پر انہوں نے سپاہی تنویر حسین کو ایسی شاندار تحریر پر مبارکباد دی۔

افسانہ “امام باڑے والے زیدی صاحب” ذکی صاحب نے میری فرمائش پر لکھا تھا۔ افسانہ لازوال ہے، لیکن اسے پڑھ کر مجھے یوں لگا کہ بچپن سے کان پڑتی آ رہی ان یادوں کو جمع کرتے ہوئے افسانے کا اسلوب نہ برتا جاتا تو مٹی میں ملتی ہوئی ایک حقیقی روحانی مجمع‌گاہ اور اس کی بنیاد رکھنے والے لوگ شاید مقامی یادداشت کی تاریخی فراموشی سے بچ جاتے۔ میں ایسی سب کان پڑی ہونی اور انہونیوں کے متعلق ایک تاریخیاتی نقطۂ نظر رکھتا ہوں۔ مجھے یہ بھی اندازہ ہے کہ فکشن بذاتِ خود کسی ایک زمانے اور ثقافت میں جی رہے انسانوں کی حالتوں کی عکاسی میں انہیں محدود حقیقی زمان و مکان سے اٹھا کر انسانی شعور کے وسیع تر آفاق سے ہمکنار کر دیتا ہے، لیکن پھر بھی مجھے ایسے واقعات کی غیر افسانوی سی مقامیت سے کافی غرض رہتی ہے۔ کبھی کبھی تو مجھے یوں لگتا ہے کہ جو عناصر ذکی نقوی کے افسانوں کے اجزائے ترکیبی بنے، وہ مسالہ شاید فکشن کا تھا ہی نہیں۔ ایک مضافاتی سی دنیا میں فراموشی کے خطرے سے دوچار ایسے اجتماعی حافظے کو محفوظ کرنے کا سب سے پرسہولت میڈیم بلاشبہ فکشن ہی ہو سکتا تھا، لیکن ایسے مواد کے بہت سے غیر افسانوی اظہارات بھی اپنی جگہ ممکن ہیں۔

چاہے کوئی اسے ایک نظریاتی اور غیر ادبی سی مثالیت پسندی کا نام دے، لیکن کہہ دینے میں کوئی ہرج نہیں کہ کسی انشاپرداز کی ایسی وقائع نگاری جو عام سے منچلوں، مستانوں، ہوشیاروں، دلیروں، بزدلوں، زاہدوں، گناہگاروں، الغرض انسانوں کی اصلی شناخت پر پردہ رکھے بغیر، اور تاریخ کی عدالت میں جھوٹ سچ کی بازپرس کے لیے تیار رہ کر ان کی کہانیاں، تذکار پیش کرے، تو عجب نہیں کہ ایسے متون عام فرد کو اپنے اچھے برے کردار پر صادق و ثابت رہنے کا ابدی حوصلہ دیتے رہیں، اور ایک نئی دنیا کے ایک نئے انسان کے عظیم تر توزک اور معارک نامے قرار پائیں۔ ہماری تاریخ اب‌تک اس بھل منسے فرد کا حق فراموشی ہی تسلیم کرتی آئی ہے، اور اونچے ایوانوں سے وابستہ ناموں کا حق ماندگاری۔ میرے اس مؤقف کی نظریاتی اساس آپ ذکی نقوی کے افسانے “شناختی کارڈ” کو ہی بنا لیں۔ ذکی اور میرے دادا مرحوم گھومنے پھرنے اور قبائل میں رہ رہے لوگوں کے شجرے اکٹھے کرنے کے دلدادہ تھے۔ کاغذوں کا ایک انبار تھا جسے وہ بیچ آندھی میں غیر مجلد چھوڑ گئے۔ حقیقی ناموں کی لمبی لمبی خطی اور شاخہ دار کڑیوں کا وہ ضخیم دفتر، جو نہ اپنی افادیت میں آفاقی تھا، نہ اپنی خلاقی میں پیغمبرانہ۔ لیکن وہ دفتر اپنے مرقوم ناموں سے وابستہ جھوٹ سچ کی ہر بازپرس کے آگے ہمہ وقت جوابدہ رہتا تھا۔ ذکی نقوی تک آتے آتے یادداشت کے اس موروثی دفتر میں کہانی کا ایک مہیب شجر تو میلوں میل، بلکہ دیسوں دیس کی دوری سے لہلہاتا نظر آتا ہے، لیکن یہ ریگستان کے اس سراب جیسا ہے کہ آپ اس کے قریب آ کر کسی شاخے، کسی پتے سے کوئی مستند حقیقی انفرادی نام شاید آسانی سے نہ پڑھ سکیں۔

شہرِ مدفون، ہمراہی اور چاچا ایلس کدوری جیسی کہانیوں میں آپ کو جس دنیا کی جھلک ملتی ہے، اسی نے مجھے اور ذکی صاحب دونوں کو بنایا بھی ہے اور بگاڑا بھی۔ آج ہم دونوں جو کچھ ہیں، اور جو کچھ نہیں ہیں، اس سب کی بنیاد اسی ریت مٹی سے اٹھی ہے۔ لیکن ملتے جلتے حالات و واقعات مختلف لوگوں پر مختلف طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ میں شاید ذیادہ درون بین نکلا۔ ان کہانیوں میں نظر آنے والی دنیا میں جی کر کائنات کا جو نقشہ میری سمجھ میں آیا، میں نے اسے خود پر اس قدر پیچیدہ کر لیا کہ اسے کسی آئینے میں منعکس کرنا کسی بہت بڑی زقند کا متقاضی ہوتا۔ میں نے چند ایک بار ایسا کرنے کی سعی بھی کی، لیکن قلانچ بھرنے سے پہلے کے تول میل میں ہی میں لڑکھڑا کے اپنے پیروں پر گر پڑا، اور اب تک ڈھنگ سے سنبھل نہیں سکا۔

دنیا کو کم و بیش ایک ہی مقام سے دیکھنے کے باوجود ذکی اور میرے زاویوں میں ایک حدِ فاصل ناگزیر طور پر موجود رہی ہے۔ لڑکپن میں بزاز کی دکان پر بیٹھے بلوچ صوبیدار کے قصے سنتے ذکی کو کبھی تو یہ خبر ہوتی تھی کہ میں اس لمحے گاؤں کے کس کونے میں ہوں، لیکن اکثر اسے معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اور سچ پوچھیں تو میں اب بھی نہیں چاہتا کہ ہر بار اسے خبر ہو۔ کہانی کے باہری محیط میں جو کہانی ہوتی ہے، کہانی کار خود بھی اس میں محض ایک کردار ہوتا ہے۔ کسی افسانوی آفاقیت کا گرز تھامے ایک لشکری جیسا کردار جو ایک نکتے پہ آ کر اس باہری کہانی میں دوسرے سبھی کرداروں کی اس غیر افسانوی مقامیت کا انکاری ہو جاتا ہے۔ کیا پتہ کس لمحے وہی تحکمانہ مزاج بڑا بھائی بزاز کی دکان سے اٹھے اور کھڑاک سے اندر آ کر میرے حصے کا بیانیہ بے مزا کر جائے۔ میں لڑکپن کی نسبت اب کہیں زیادہ ناتواں ہوں۔ میرے مکتب کے ٹاٹ میں ایک کے بعد ایک چھید پڑتا ہے، پیوند لگانے کو ہاتھ بڑھاتا ہوں تو قلم بکھر جاتے ہیں۔ قلم سمیٹتا ہوں تو سیاہی الٹ جاتی ہے۔ اپنے حصے کی آوارگی میں دشت کے جس گوشے میں مَیں ہوتا ہوں، کبھی کبھار اس کی تاریکی اِس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اکثر کہانیوں کو چھونے کا سوچتا ہوں تو ہاتھ کانپنے لگتے ہیں۔

5 Responses

  1. صبح صبح اس تحریر کو پڑھنا میرے لیے ایک ” ٹریٹ” ٹھہرا ۔ اتنی خوب صورت نثر اور ایسا اندازِ بیاں بہت دنوں بعد پڑھنے کو ملا ہے۔ آج کا دن اچھا گذرے گا۔

  2. اسد فاطمی اپنے عہد اور کردار کی تعمیر میں سرگرداں ایک بے کرار سی روح ھے۔ روح کا لفظ اس لیئے کہ ابھی تک ادراک کی منازل کا مسافر ھے

  3. بہت ہی لاجواب تبصرہ اور تحریر ہے حقیقی طور پر ذکی کے افسانوی مجموعے پر میں ایسا ہی تبصرہ پڑھنے کا متمنی تھا اور یہ کام اسد فاطمی کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا، میں اکثر ذکی نقوی سے کہا کرتا تھا کہ اسد فاطمی ایک چھپا ہوا موتی ہے جسے دنیا بہت دیر سے دریافت کرے گی ہمیشہ سلامت رہیں اور لکھتے رہیں

  4. اسد فاطمی میرے لیئے کلاسکی ادب کا کردار ہے جو کتابوں سے نکل کر میری دنیا میں دستیاب ہے جسے میں حیرت و خوشی سے دیکھتا ہوں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

5 Responses

  1. صبح صبح اس تحریر کو پڑھنا میرے لیے ایک ” ٹریٹ” ٹھہرا ۔ اتنی خوب صورت نثر اور ایسا اندازِ بیاں بہت دنوں بعد پڑھنے کو ملا ہے۔ آج کا دن اچھا گذرے گا۔

  2. اسد فاطمی اپنے عہد اور کردار کی تعمیر میں سرگرداں ایک بے کرار سی روح ھے۔ روح کا لفظ اس لیئے کہ ابھی تک ادراک کی منازل کا مسافر ھے

  3. بہت ہی لاجواب تبصرہ اور تحریر ہے حقیقی طور پر ذکی کے افسانوی مجموعے پر میں ایسا ہی تبصرہ پڑھنے کا متمنی تھا اور یہ کام اسد فاطمی کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا، میں اکثر ذکی نقوی سے کہا کرتا تھا کہ اسد فاطمی ایک چھپا ہوا موتی ہے جسے دنیا بہت دیر سے دریافت کرے گی ہمیشہ سلامت رہیں اور لکھتے رہیں

  4. اسد فاطمی میرے لیئے کلاسکی ادب کا کردار ہے جو کتابوں سے نکل کر میری دنیا میں دستیاب ہے جسے میں حیرت و خوشی سے دیکھتا ہوں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *