یہ خاکہ ایک شیعہ سید زادے کی یاد میں لکھا گیا ہے جنہیں میں کبھی نہ سمجھ سکوں گا کہ آپ کی دیوانگی کی فرزانگی کے مقابلے میں کیا قدروقیمت تھی۔
سید پناہ حسین زیدی کا وطن مالوف اُتر پردیش تھا۔ میر اخیال ہے یُو پی میں آگے فیض آباد (لکھنئو) کے تھے۔ تقسیم سے پہلےبرٹش انڈین آرمی میں وائسرائے کمیشنڈافسر تھے، جنگ کے بعد کچھ پلٹنیں ٹُوٹیں تو گھر آرہے۔ غدر کا جانکاہ سال گزر چکا، مہاجرین کی غارتگری کا سلسلہ ختم ہوا تو یہ بھی بالائی پنجاب کی طرف اٹھ آئے اور پہلا ٹھکانہ میانوالی میں کیا۔ پاکستان کی فوج میں تعمیرِ نَو کا عمل چل رہا تھا، سپاہی پیشہ تو تھے ہی، ایک جان پہچان کے اعزازی کرنل کمانڈانٹ کو چٹھی لکھی اور بلوچ رجمنٹ کی ایک پلٹن میں بھرتی ہو گئے۔ یہاں سال بھر تو اچھا گذرا لیکن پھر ایک گَھٹنا ہو گئی۔ پلٹن کے اینگلو انڈین صاحب ایجٹن بہادر سے کسی بات پر تکرار ہو گئی، بات مادر پدر خواہی تک پہنچی تو زیدی صاحب نے طیش کھا کر سنگین کمر سے کھولی اور کپتان ڈیوڈ پریسکاٹؔ کے حلق سے آر پار کر دی۔گہرے سانولے کپتان کے گہرے سرخ خون کا فوارہ چھُوٹا اور زیدی صاحب قبلہ کا چہرہ گرم فوجی خون سے لتھڑ گیا۔ آپ نے اس کے بعد وردی کا باقی عرصہ فوجی ہسپتال میں دماغی معالج کی نگرانی میں گزارا لیکن کبھی ذہنی توازن مکمل بحال نہ ہو سکا۔ میڈیکل بورڈ نے کورٹ مارشل کے ناقابل قرار دے کر میڈیکل پنشن پر انہیں فوج سے نکال دینے کی سفارش کردی جو خداوندانِ جی ایچ کیو نے فوراً قبول کرلی۔ فوج چھوڑی تو میانوالی کو بھی خیرباد کہہ دیا اور پھر یہاں میرے آبائی گاؤں آکر ہمیشہ کیلئے یہیں کے ہو رہے۔
زیدی صاحب یہاں آئے تو ہمراہ بیوی، ایک کمسن لڑکا اور دو جواں سال لڑکیوں پر مشتمل خانوادہ لے آئے۔ لڑکیوں کو تو یہاں آتے ہی، ایک کو شہر کے ایک مہاجر سید، دوسری کو ہمارے ایک چچا سے بیاہ دیا جو سفر مینا کی پلٹن میں سپاہی تھے، لڑکے اور بیوی کے ساتھ یہاں ایک سادہ سی غریبانہ زندگی کا آغاز کیا۔ہمارے ایک بزرگ فرمایا کرتے ہیں کہ سید بھی ہاتھی کے موافق زندہ ہو تو لاکھ کا، مَرجائے تو سوا لاکھ کا، لیکن اگر فاطر العقل ہو جائے تو تین چار لاکھ کا ہو جاتا ہے۔چونکہ سید صاحب موصوف کا ذہنی توازن تا حیات متزلزل رہا، سو اہلِ علاقہ اُن سے دعا لیتے رہے اور پھر بدستور دم درود بھی کرواتے رہے۔ارادتمندوں کے اس حلقے کی وجہ سے آپ کی معاش عمر بھر خطِ غربت پر سہی مگر رواں دواں رہی۔ یہاں دو لڑکے اور ہوئے۔ بڑا لڑکا تو چونکہ زیادہ تعلیم حاصل نہ کرسکا تھا سو جونہی جوان ہوا، اُسے سپاہی کروا دیا۔ منجھلے اور چھوٹے بیٹے کو اسکول بھیجا۔ چاروناچار ان لڑکوں کو پڑھنا تھا کیونکہ پڑھائی میں غفلت کا مطلب تھا کھجور کی گیلی چھڑی سے کھال کا اُدھیڑ دیا جانا۔۔۔ زیدی صاحب کا غصہ کس سے پوشیدہ تھا۔ علاقے کے بلوچ اور سیال سردار، زمیندار بھی اُن کے سامنے سہمے سے رہتے تھے کہ ایک تو جوارِ لکھنئو کی اُردو کی سکہ بند ماں کی گالیاں مع چند مابعدِ ہجرت اضافوں کے، ہمہ وقت آپ کے نوکِ زباں رہتیں۔ سو بھری پنچائیت میں صاحب خاں بلوچ کو غصے میں آکر مادرچود کہہ دیا تو پھر کیا مجال ہے کہ خا ن موصوف بھی اسی ردیف قافیے میں کوئی جواب دے پاتے! دیتے بھی تو بے چارے پھر پنچائیت میں کیا منہ دکھانے کے قابل رہتے کہ ایک سید کو گالی بکی؟ پھر زیدی صاحب کے ہاتھ میں ہر وقت جو گرہ دار لکڑی کی جریب رہتی تھی، اگر اُس کا رُوئے سُخن کسی کی طرف ہو گیا تو بلا تخصیصِ عمر و مرتبہ اُس کا بچنا محال تھا۔ دو گز کی یہ جریب آپ سے ہر شخص کو تین گز کے فاصلے پر ہی رکھتی۔ ایک دفعہ جلال میں بیٹھے تھے، پیارے خاں سیال کی بیوی دعا لینے کو آئی۔ ’’مرشد، شادی کو چھے سال ہونے کو آئے ہیں، اُمید نہیں بر آتی، بیٹے کی دعا کر دیں تو عمر بھر نوکری دوں گی!‘‘۔ زیدی صاحب نے لاٹھی زور سے زمین پر ماری اور غصے میں دھاڑے، ’’چلی جا مادرچود! تیرے لڑکا ہوگا! جا اُوپر سے مانگ، ادھر سے میں نے دعا دے دی ہے، چلی جا مادر۔۔۔‘‘ خُدا کی کرنی، وہ اُمید سے ہوئی تو لڑکا ہوا۔پیارے خاں کا بیٹا عمر حیات خاں عمر بھر ان کا مرید رہا البتہ عمر خاں گالیاں بہت بکتا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ زیدی صاحب کی دعا سے جس کے ہاں بھی اولاد ہوئی، دشنام طرازی میں یگانہ روزگار ہوتی تھی۔
آپ کو عمر بھر ایک ہی دھُن سوار رہی۔ میرے پردادا نے گاؤں میں جس امام باڑے کی بنیاد رکھی تھی، زیدی صاحب کی خواہش تھی کہ اس سے بڑا امام باڑہ مہاجرین سادات بھی گاؤں میں قائم ہو۔ اب گاؤں میں مہاجرین سادات کی کل تعداد ہی جب چھے تھی، یعنی شاہ صاحب کے گھر کے کُل نفر، تو امام باڑہ کیا بنتا اور کون بناتا؟ بات یہ تھی کہ ذہنی اختلال کے باوجود اُنہوں نے ساری زندگی کوئی نماز قضا کی نہ ہی عزاداریٔ سید الشہدأ سے غافل ہوئے۔ نبیﷺ اور آلِ نبیﷺ سے مودت کا جذبہ ان کے ذہنی توازن ڈگمگانےمیں بھی محفوظ رہا۔ عاشور کے دنوں میں راہ چلتے بھی گریہ کرتے پائے جاتے اور نعرۂ یا علیؔ سے اُن کا آنگن سارا سال گونجتا رہتا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اہلِ دیہہ کی سماعتوں میں وہ گونج ایسی پختہ ہوئی کہ میرے گاؤں کے کئی بزرگوں نے اگر زیدی صاحب کی وفات کے بعد بھی اُن کی قبر سے ’یاعلیؔ‘ کی آوازیں آتی ہوئی سُننے کا بیان قسمیں کھاکر دیا ہے تو وہ جھوٹ بھی نہیں کہتے۔ آپ کے، میرے لیے یہ پیراسائیکولوجی کا گھن چکر ہو گا لیکن وہ بوڑھے اپنی سماعتوں پر پورا ایمان لانے والے ہیں۔ بلکہ بیگوُ ماچھی کا ایمان تو سب سے دلچسپ کرشمہ دکھاتا ہے۔ ہم نے کم سنی میں یہ واقعہ کئی دفعہ بیگوُ سے سُنا۔ بیگوُ ماچھی ایک دفعہ، زیدی صاحب کی وفات کے کئی سال بعد امام باڑے کے قریب سے گزررہا تھا کہ اُسے فطری بشری حاجت نے اس قدر تنگ کیا کہ امام باڑے کے قریب ہی ایک جھاڑی کے پہلو میں پیشاب کرنے بیٹھ گیا۔ ابھی بیٹھے ہوئے ایک لمحہ بھی کیا ہوا ہو گا کہ کیا دیکھتا ہے، پناہ حُسین زیدی صاحب سامنے سے ہاتھ میں وہی جریب لہراتے ہوئے آرہے ہیں اور پھر اُن کی آواز آئی ہے، ’’ٹھہر بے مادرچود!! مہاجری امام باڑے کے پہلو میں ہاگتا ہے؟؟ تیری تو نسلوں کا گوبر خطا کر دوں گا بھوس۔۔۔کے!!‘‘ پھر جو بیگوُ ماچھی بھاگا وہاں سے آج تک سہما ہوا ہو گا۔
سید پناہ حُسین زیدی صاحب دُبلے پتلے اور متوسط قامت کے تھے۔ رنگت خالص ہندوستانیوں والی، یعنی سیاہ تھی جو شاید جوانی میں فقط سانولی ہوتی ہو گی۔ڈاڑھی موچھ تمام سفید تھی لیکن اس معمولی سی شکل صورت کے باوجود بات کا لب و لہجہ پرانے زمانے کے دبنگ ہڑدنگ سپاہیوں کا سا تھا۔ یہاں آکر بھی اُردو ہی بولتے تھے اور آخر تک وہی لکھنئو والا لب و لہجہ قائم رکھا۔ لباس صاف ستھرا پہنتے جس میں اپنی وضعداری کا جہاں تک ہو سکتا، پورا پاس رکھتے تھے۔ پگڑی بھی طرے دار باندھتے تھے۔ ایک دفعہ مجالسِ عاشورہ کی پہلی محفل میں آئے، سفید کپڑے اور واسکٹ زیبِ تن کر رکھی تھی اور پگڑی بھی حسبِ معمول باندھ رکھی تھی۔ مجلس کی صفوں میں بیٹھے کچھ تو یوں بھی نمایاں تھے، ذیادہ نمایاں اپنی دستار کے طرے کی وجہ سے ہو رہے تھے۔ اُس زمانے میں تمام مرد بلا تخصیصِ عمر، سر پر پگڑی باندھے رکھتے تھے لیکن ضابطہ اور رواج یہ تھا کہ جب عزاداری کی مجلس میں بیٹھا جائے تو سوگ کے اظہار کے طور پر پگڑی اُتار کر گلے میں ڈال لی جائے مگر زیدی صاحب کو خیال نہ رہا یا شاید کوئی اور وجہ۔ اس وقت جو روضہ خواں شہادت پڑھ رہا تھا، ساتھ کے گاؤں کا بلوچ تھا، اُس کی شامت آئی تو متوجہ ہوا؛ ’’شاہ صاحب قبلہ گستاخی معاف، یہ عزا کی محفل ہےاور امامِ مظلوم کا سوگ ہے، آپ سید ہو کر طُرے کی پگڑی باندھے بیٹھے ہیں، چہ بوالعجبی؟‘‘ زیدی صاحب اگرچہ اس بات سے متفق ہوں گے لیکن شاید تہیۂ طوفاں پہلے کر کے آئے تھے یا ایک بلوچ کی گستاخی پر جلال میں آگئے، ’’بکواس مت کر مادرچود! یہ تیرے جدِ امجد کا سوگ ہے یا میرے؟؟ یہ میرے گھر کا معاملہ ہے!!‘‘ مجلس پر ایک لمحے کے لئے تو گہری خاموشی چھا گئی، پھر چند لوگوں نے اپنی ہنسی کو کھانسی اور چھینکوں میں خارج کر نے کی کوششیں کیں تو روضہ خواں بھی کھسیانا سا ہو کر دوبارہ اپنے موضوع کی طرف آ گیا، زیدی صاحب پلوُ جھاڑ کر مجلس سے اُٹھ آئے۔ شاید اُنہیں پنجابیوں کے امام باڑے میں عزاداری کا کچھ لطف بھی نہ آتا تھا۔کچھ یہ بھی تھا کہ جس روائیت کو میر مستحسن خلیقؔ، انیسؔ اور دبیرؔ نے لکھنئو اور دِلی میں پروان چڑھایا، عزاداری کی اُس روائیت سے پنجابی ذہن ہنوز بہت دور تھا سو اُنہوں نے امام باڑہ مہاجرین سادات بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اسی اثنا میں گاؤں میں موجود مہاجرین میں ایک کی کمی ہوئی کہ وہ پردیس سدھار گیا۔ زیدی صاحب نے منجھلے لڑکے کو بھی فوج میں بھیج دیا جو کہ ایک دفعہ گاؤں سے گیا تو ہم نے دوبارہ کبھی نہ دیکھا۔۔۔ شاید فقط زیدی صاحب کی وفات پر ہی گاؤں آیا تھا۔ مہاجرین سادات کے امام باڑے کا خیال آیا تو بیوی سے اظہارِ خیال کیا، وہ بولیں؛
’’پناہ حُسین، یہاں مہاجرین ہیں ہی کتنے۔ پھر ایک امام باڑہ جو ہے جلال شہانوں کا، اُس میں بھی سارا گاؤں عزاداری کر لیتا ہے، سبھی نماز بھی وہیں پڑھ لیتے ہیں، کافی ہے۔ ہاں، نیکی کا کام ہے، عقیدت کی بات ہے تو بنانے میں کیا برائی ہے لیکن جلدی نہ کرو، جب یہ غریبی کے دن کٹ جائیں گے، ضرور بنائیں گے امام باڑہ۔۔۔‘‘
زیدی صاحب کو سمجھ آگئی۔ اس مسکین خاتون کی وفا شعاری، خُدا رسیدگی اور شرافت بھی بے مثال تھی۔ اُنہوں نے ان کے ساتھ خُوب نباہی تھی۔ ان کی تند وتلخ طبیعت کو بھی سہا اور ان کے بچوں کی پرورش بھی ایسی کی کہ زیدی صاحب کے درویشانہ استغنأ کے بس کی بات نہ تھی۔ البتہ ایک دفعہ بہت بدمزگی ہوئی۔ چھوٹے لڑکے نے میٹرک میں علاقے بھر میں نمایاں پوزیشن لی تو بڑے خوش ہوئے۔ اُس وقت فوج میں جے سی اسکیم ہوتی تھی، ٹھان لی کہ بیٹے کو کپتان کی وردی میں دیکھیں گے! بیٹے کو ساتھ لیا اور راولپنڈی جا پہنچے ۔ بھرتی دفتر والے افسر بڑی عزت سے پیش آئے لیکن لڑکے کے قد میں افسری کے معیارات سے انچ بھر کی کمی کی وجہ سے اُنہوں نے معذرت کرلی۔ اب جو زیدی صاحب کا پارہ چڑھا تو واپسی کے تمام راستے میں کھولتے رہے، گھر آتے ہی لٹھ سنبھالی اور اماں بی کو پھٹک ڈالا،
’’نہ مَیں تُجھ ٹھگنی سے بیاہ کرتا نہ میرے بچے کا قد چھوٹا ہوتا، مادر۔۔۔‘‘
ہمسایہ عورتوں نے بیچ میں پڑ کر اماں بی کی جان بخشی کروائی۔ خیر گزری کہ اگلے دو ایک سال میں ہی ان کا وہ لڑکا ائرفورس میں پائلٹ ہو گیا ورنہ اماں بی تو عمر بھر یہ طعنہ سُنتی رہتیں۔۔۔
پناہ حُسین زیدی صاحب نے اپنے برسرِ روزگار، یعنی فوجی بیٹوں سے کبھی کچھ زیادہ طلب نہیں کیا، بس یہی کہا کہ بیٹا ریٹائرمنٹ پر جو رقم ملے، امام باڑہ مہاجرین سادات ضرور بنوانا۔ بڑے دو بیٹوں نے بالعموم اور چھوٹے نے بالخصوص اس نصیحت کو خوب نباہا، لیکن یہ بعد کی بات ہے۔ ایک دفعہ عاشور کی مجالس میں ایک کم سن لڑکے کو دبیرؔ کا مرثیہ پڑھنے پہ مامور کیا گیا۔ فرمائش گاؤں کے ایک بلوچ بزرگ کی تھی جو کہ مہوؔ چھاؤنی سے پڑھ کر آئے تھے اور اردو مرثیے کا خوب ذوق رکھتے تھے۔ لڑکے نے بھی محنت سے کمال تحت اللفظ تیار کیا۔ اگرچہ یہیں کے سیدوں کا لونڈا تھا مگر اُردو کا لہجہ بھی خُوب پیدا کیا۔ مجلس بپا ہوئی تو لڑکے نے مرثیہ شروع کیا، شہزادہ علی اکبر کا سراپا پڑھا۔ سُنی شیعہ، سبھی سُننے والے تھے، باریکیاں سمجھنے والے اگرچہ معدودے چند تھے مگر پھر بھی بہت پسند کیا گیا۔ ایک شعر پہ زیدی صاحب پھڑک اُٹھے! شہزادے کے چہرہ مبارک کا پسینے میں شرابور ہونے کا منظر؛
؎ یہ قدر عرق کی نہ کسی رُو سے بڑھی تھی
شبنم کبھی خُورشید کے رُخ پر نہ پڑی تھی!
زیدی صاحب نے شعر دوبارہ پڑھوایا۔ لڑکے نے پڑھ دیا۔ زیدی صاحب تو وجد میں ہی آگئے، پھر پڑھوایا۔ لڑکے نے پھر پڑھ دیا، زیدی صاحب آنکھیں موندے، جھومنے لگے۔ ’’پھر پڑھو لڑکے میاں!!‘‘ لڑکے نے پڑھ دیا لیکن پنجابیوں نے پہلو بدلنے شروع کر دئیے۔ ’’واہ! واہ! پھر پڑھ لڑکے!‘‘ زیدی صاحب کہے جاتے تھے، لڑکا بیچارہ سہمے ہوئے پڑھے جارہا تھا، آہستہ آہستہ تحت اللفظ رُخصت ہوا، جوشِ خطابت رُخصت ہوا، پھر آواز دھیمی پڑ گئی، آخر نوبت بایں جا رسید کہ زیدی صاحب نے جو فرمایا ’’واہ! پھر پڑھ بیٹے!!‘‘ سید زادہ منمنا ہی سکا، ساتھ ہی اُس نے مجلس میں حاضر دیگر بیزار بُوڑھوں کی طرف امداد خواہ نظروں سے دیکھا تو چچا دلاور خاں بول اُٹھے: ’’شاہ صاحب اتنا پسینہ تو اب تک شہزادے کے رُخ پر نہ ہو گا جتنا آپ نے بچے کا نکال لیا ہے!‘‘
بس پھر کیا تھا، اتنی دیر کی بیزاری قہقہوں میں اُڑی۔ زیدی صاحب کو پنجابیوں کی کور ذوقی اور بدتہذیبی پر سخت غُصہ آیا۔ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ روضہ خواں سے جو گذشتہ سال بھی زیدی صاحب سے ڈانٹ وصول کر چکا تھا، مخاطب ہوئے، ’’ممتاز خاں! کل سے تُم اوپر ٹیلے پر، مہاجرین سادات والے امام باڑے میں مجلس پڑھو گے!‘‘ اور بڑبڑاتے ہوئے چلے گئے۔ یہ رات اُنہوں نے لکھنئو اور اودھ کی عزاداری کی یادیں تازہ کرتے، آہیں بھرتے اور ہنگامی بنیادوں پر ایک امام باڑہ مہاجرین سادات کھڑا کرنے کی ترکیبیں سوچنے میں گزار دی۔ زیدی صاحب اپنی لکھنوی تربیت کے طفیل ہمیشہ سے قائل تھے کہ عزاداری ہمارے کلچر کے عنصر کے طور پر مذہب سے نکلتے قدقامت کی چیز ہے جسے یہ سطحی پنجابی ذہن نہیں سمجھ سکتا۔ پھر اگلے دن زیدی صاحب نے امام باڑہ مہاجرین سادات قائم کرکے پنجابی ذہن کو حیران کر ہی دیا۔ آپ نے ایک عَلمِ جنابِ عباس لیا اور اپنے گھر کے برابر میں ٹیلے کی چوٹی پر برگد کے پیڑ کی سب سے اونچی پھننگ پر باندھ دیا۔پانی کے دو مٹکے بھر کے چھاؤں میں رکھے، مسجد سے مستعار صفیں لا کر بچھائیں اور نیچے بستی میں آن اُترے جہاں پرانے امام باڑے میں مجلس جاری تھی وہاں جا دھمکے۔ ’’ابے او بلوچ کی اولاد!‘‘ ممتاز خان بلوچ روضہ خواں آپ کی آواز سنتے ہی بوکھلا سا گیا۔ ’’تجھے جو کہا تھا کہ آج کی مجلس وہاں اوپر،ا مام باڑہ مہاجرین سادات میں پڑھو گے!‘‘ روضہ خواں بیچارہ چُپ۔ بستی کے بڑے بوڑھوں نے احتجاج کیا کہ شاہ صاحب وہ کاہے کا امام باڑہ ہے جس کے دیوار ہے نہ در؟؟ زیدی صاحب جلال میں آگئے۔ ’’ابے مادرچودو! ہم نے جو کہہ دیا وہ امام باڑہ ہے، کیا وہ امام باڑہ نہیں ہے؟؟ تو اُسے کیا مویشیوں کا باڑہ سمجھتے ہو؟ ہاں تُم اسے امام باڑہ نہیں سمجھتے، مویشیوں کا باڑہ سمجھتے ہو!‘‘ یہ کہہ کر واپس مُڑے، غُصے میں پگڑی اُتار کر گلے کا پٹکا بنا لی، اوپر جا کر امام باڑے والے برگد کے پیڑ کے نیچے سے صفیں سمیٹیں، مٹکے اُٹھائے اور گھر جاپھینکے، پھر ہمسائے میں جا کر اُن کی بکریوں کو ہانک لائے اور برگد کے پیڑ تلے باندھ دیا۔ بلوچوں کے دو دنبے پکڑے، وہاں لے جا کر باندھ دئیے اور درجوابِ آں غزل یہی نہیں کیا بلکہ مقطع بھی خوب لگایا کہ آخر پہ اپنا گدھا بھی لا کر باندھ دیا، ساتھ ساتھ یہ کہتے جارہے تھے؛ ’’مادرچودو! یہ رہا مویشیوں کا باڑہ! تُم اسے امام باڑہ نہیں سمجھتے ناں!‘‘ اُس وقت تو سبھی چُپ کرکے دیکھا کئے، اگلی صبح کے منظر پہ کوئی چُپ نہ رہ سکا بلکہ آج بھی یاد کرکے بوڑھے لوگ مسوڑھے نکال نکال ہنستے ہیں کہ شاہ صاحب نے جو اُٹھ کر دیکھا تو باقی سب مویشی سلامت ہیں، اپنا گدھا مُردہ پڑا تھا۔ اب گدھے کے پہلو میں لاتیں رسید کئے جارہے ہیں اور تحکمانہ فرمائے جارہے ہیں:
’’اُٹھ مادرچود! اناج کھالے!‘‘
لیکن ایک دُھن تھی کہ شاہ صاحب کو سوار ہوئی تو تادمِ آخر امام باڑہ بنانے کیلئے پائی پائی اور آنہ پیسہ اکٹھا کیا۔ گھر میں مُرغی روزانہ انڈہ دیتی تو ایک دن کا انڈہ اپنے مصرف میں لاتے اور دوسرا فروخت کرکے پیسے ’بنامِ مولا‘ رکھ لئے جاتے۔ اس عرصے میں ہم پنجابیوں کے امام باڑے میں آتے تھے، نماز بھی پڑھتے تھے، عزاداری بھی کرتے تھے لیکن ایک معمول عجیب تھا۔امام حُسینؑ کی ضریح پہ نہ جاتے، جنابِ عباس کی ضریح پہ جا کر سلامی دیتے۔ وجہ پوچھی تو ضریحِ حسینؑ کی طرف اشارہ کرکے کہتے،’’ اُس سید نے اِس سید کو کھُل کر لڑنے کی اجازت نہ دی، مصلحت دکھائی، اس سید کو شجاعت نہ دکھانے دی!یہ سولجر سید تھا، سولجر! ‘‘ پھر ضریحِ عباس کو سلیوٹ کرتے۔ امام حُسینؑ سے ناراض رہے کہ عباس کو کھل کر لڑنے نہ دیا لیکن ہم نے سُنا ہے کہ اما م حُسین اس سید زادے سے ناراض ہرگز نہ تھے۔ یہ قصہ زیدی صاحب کی زندگی کے آخری پہر کا ہے کہ جب ایک اجنبی سا شخص ہمارے گاؤں آیا۔ پوچھا یہاں پناہ حُسین نام کا کوئی سید رہتا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ فلاں خان کے ڈیرے پر بیٹھے ہیں، اجنبی نے حُلیہ پوچھا تو بتایا گیا۔ وہ پہنچا تو کئی لوگ وہاں موجود تھے۔ زیدی صاحب ہلکے بُخار کی وجہ سے دھوپ سینک رہے تھے، ان کا چہرہ قبلہ رُخ تھا۔ اجنبی نے پوچھا ’’آپ میں سید پناہ حُسین کون ہیں؟‘‘۔ زیدی صاحب چونکے اور اجنبی شخص سے بڑی گرمجوشی سے مخاطب ہوئے، ’’مَیں ہوں! تُو بس میری امانت مجھے دے، مجھے جلدی جانا ہے!‘‘ وہ شخص گھبرا گیا، اُس نے خاموشی سے ایک انگوٹھی اور مُٹھی بھر خاکِ کربلا سے بھری تھیلی اُن کے حوالے کی۔ اُنہوں نے لے کر آنکھوں سے لگائی، مُڑ کر سبھی سے مخاطب ہوئے اور بولے؛
’’اچھا یارو، ہمیں ہمارے مالکوں کا بُلاوا آگیا ہے! چلتے ہیں، خُدا حافظ!‘‘
یہ کہہ کر زیدی صاحب اپنے گھر چلے گئے اور بی اماں سے کہا کہ اُن کا اُجلا بستر لگا دیں۔ بستر لگا، زیدی صاحب اس پر دراز ہوئے، شام کو شور اُٹھا کہ سید پناہ حُسین زیدی دارِ فانی سے رُخصت ہو گئے ہیں۔ اب لوگوں نے چہ مگوئیاں شروع کیں تو اجنبی کا قصہ پھیلا۔ اُس شخص نے شاہ صاحب کے اُٹھ کر آنے کے بعد بتایا کہ وہ کربلائے معلیٰ کا زائر تھا۔ وہاں روضۂ امام حُسینؑ پر اُسے خُدام میں سے کسی عراقی نے یہ دونوں چیزیں دے کر کہا تھا کہ تمہارے صحرا میں پناہ حُسین نام کا ایک سید رہتا ہے، یہ اُسے دے دو، کہنا سید الشہدأؑ اپنے عزادار کو سلام بھیجتے ہیں۔ دادا جان سے میں نے سُنا تھا کہ اجنبی نے کہا تھا کہ کربلا میں عالمِ خواب میں امام نے خود زیارت کروا کراس زائر کو یہ حُکم دیا تھا، خیر، ایک سال سے وہ اجنبی صحرائے تھل کے گاؤں گاؤں میں پناہ حسین نام کے سید کو ڈھونڈتا پھررہا تھا۔یہ واقعہ آج تک ہمیں حیران کئے ہوئے ہے۔ پناہ حُسین زیدی صاحب کو اسی امام باڑہ مہاجرین سادات کے احاطے میں، برگد کے پیڑ تلے دفن کیا گیا، ہمراہ وہ انگوٹھی اور مٹھی بھر کربلا کی خاک بھی کی گئی۔ اس امام باڑے کی چاردیواری وہ اپنی زندگی میں آنہ پائی جوڑ کر بنوا چکے تھے۔ ریٹائرمنٹ پر ان کے چھوٹے بیٹے اسکواڈرن لیڈر شہسوار حسین زیدی نے اُسے ایک شاندار، وسیع امام باڑے کی شکل دی۔ وہ جو پنجابی لونڈے اس سید زادے کی اُردو پہ ہنستے تھے، اب ان میں سے کچھ بوڑھے ہو کر اور جو گزر گئے ان کی اولادیں اسی امام باڑے میں سید الشہدأ کا گریہ کرتے ہیں، ہر مسلک کی عورتیں اب یہاں آکر نذر نیاز دے جاتی ہیں، زیدی صاحب کی قبر پہ فاتحہ پڑھ جاتی ہیں۔ جنازہ گاہ کے طور پر بھی یہ سبھی کے لئے کھلا ہے۔
اب چونکہ عزاداری صرف زیدی صاحب کے ہم مسلکوں تک ہی مخصوص رہ گئی ہے کہ باقی سبھی لوگوں کو ’’خالص اسلام‘‘ کا راستہ دکھانے والے راہبر مل گئے ہیں، کچھ مجھ ایسے ہیں جنہیں ’سائینٹفک‘ سوچ کے زعم نے دوعالم کے عقیدوں سے آزاد کردیا ہے (لیکن تہذیب و ثقافت کے بندھن سے پھر بھی آزاد نہیں ہیں ) سو کبھی کبھار اس طرف آنکلتے ہیں جہاں زیدی صاحب کی قبر اُن کی یاد دلاتی ہے، تو اب اُنہیں یاد کرنے والے لوگ کم ہی رہ گئے ہیں۔مگر جب جب اُن کا ذکر ہوتا ہے تو سوچتا ہوں کہ شاید ایک وقت آئے گا جب ہم نام نہاد خرد والے مٹی میں مل جائیں گے، خرد والوں کی ایک نئی نسل آئے گی تو جب جب انہیں ان کے تہذیبی و ثقافتی رشتے کی طنابیں اپنی بُنیاد کی طرف کھینچیں گی تو وہ بھی ہمارا نہیں، ایسے ہی دیوانوں کا تذکرہ لکھنے پر مجبور ہو جائیں گے!!
سرگودھا،
۸ فروری بیس سو اُنیس۔
Image: Nad-e-Ali