Laaltain

سپاہی تنویر حسین کی ڈائری (ذکی نقوی)

16 دسمبر، 2021
Picture of ذکی نقوی

ذکی نقوی

۱۹۷۱ء تین دسمبرسے سترہ دسمبرکی رات تک کی یادداشتوں میں سپاہی کےشب وروزکےمعمول، جنگ کےسچ، جھوٹ، افواہیں، اپنی بقاء کیلیئے بے رحمی سے لڑنے والے کُچھ سپاہی، کُچھ مُکتی جوت، کُچھ قاتل، جنگ سے یکسر لا تعلق کُچھ لوگ، کُچھ چہروں کی مُسکراہٹیں اور کُچھ آنکھوں کے آنسُو؛ سابق مشرقی پاکستان سے وابستہ کئی احساسات کی باز آفرینی کرتا ہوا یہ ؔپندرہ روزہ سلسلہ سقوطِ ڈھاکہ کے بیالیس سال مکمل ہونے پر قسط وار شائع کیا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان کےایک سرحدی گاوں میں تعینات کسی پلٹن کے سپاہی کی فرضی ڈائری سے چند داغ ہائےسینہ کو تازہ کرتے ہوئے یہ چند صفحات اب ایک ہی پوسٹ کی صورت میں شائع کیے جا رہے ہیں۔

[divider]3 دسمبر 1971- اعلانِ جنگ[/divider]

آج دن کا آغاز ہی شدید ہنگامے سے ہوا۔فارمیشنوں کو باقاعدہ جنگ کے آرڈر مل گئے ۔صبح کی فالنی کے بعد الفا،چارلی، ڈیلٹا اور ہیڈکوارٹر کمپنی کو ہندوستانی بارڈر کی طرف موو کر جانے کا حکم ملا۔ ہم یہاں درّانی صاحب کی کمان میں براوو کمپنی کے ساتھ رہیں گے اور رحیم پور گاوں ہولڈ کرنے کا حُکم ہے۔میں نے ایجوٹنٹ صاحب سے گزارش کی کہ پُنّوں کو یہیں رہنے دیں۔مُجھے گھر والوں نے سخت تاکید کررکھی ہے کہ اُسے اپنے ساتھ رکھوں اور اس کا خیال رکھوں کیونکہ وہ اس کم سِنی میں میرے ساتھ رہنے کے شوق میں ہی فوج میں بھرتی ہوا ہے۔
جانے والی پلٹونیں بہت خوش تھیں کہ اب انہیں بارڈر پہ دُشمن سے کُھل کے لڑنے کا موقع ملے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم بھی آس پاس کے دیہاتوں میں مُکتی باہنی سے بے ڈھنگی لڑائیاں لڑ لڑ کے اُکتا گئے ہیں۔ اُستاد نوبہارخان بہت خوش تھے،جاتے ہوئے مُجھے کہنے لگے “رِٹانی بابو، تُم مُفتی باہنی سے لڑو، ہم تو شاستری کو جنگ کا مزا چکھائے گا” حوالدار صاحب اب بھی شاستری کو دُشمن مُلک کا وزیر اعظم سمجھتے ہیں۔

رات کو راشن گارڈ کی ڈیوٹی تھی ۔سی ایچ ایم صاحب بتا رہے تھے کہ راشن کی بہت کمی ہے، خاص خیال رکھا جائے۔وہ بتا رہے تھے آج شام کوہماری ائر فورس نے دُشمن پر تباہ کُن فضائی حملے کئے ہیں اور دُشمن کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ اب جب بنگالی ہمارے ساتھ رہنا بھی نہیں چاہتے اور دُشمن کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ہمارے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں تو اس جنگ کے بعد یہ لوگ کس منہ سے ہمارے ساتھ رہیں گے؟ خیر، یہ جرنیلوں اور لیڈروں کے سوچنے کی باتیں ہیں۔

رات گئے تک ڈیوٹی پہ کھڑا رہا۔ سوچ سے سوچ کے سفر میں خیال آیا کہ اب تک گھر سے کوئی اچھی خبر آجانی چاہئے تھی۔ آخری خط ستمبر کے آخر پر،یا اکتوبر میں ملا تھا جس میں ریحانہ نے لکھا تھا : “تین ماہ بعد تُمہاری یہ شکائیت بھی ختم ہوجائے گی کہ ہمارا بیٹا آنگن میں اکیلا کیوں کھیلتا ہے؟ “میری خواہش ہے کہ اب کی بار اللہ ہمیں بیٹی دے۔ میری خواہش ہے کہ میں بیٹی کا نام سلمیٰ رکھوں۔ مرحومہ بہن کی روح کو اس سے بہت سکون ملے گا۔

ہلکی ہلکی بارش ہوئی تو اِدھر اُدھر کے مینڈکوں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔بانسوں کے جنگل تو رات کو بہت بھیانک لگتے ہیں ۔ بنگالی لوگ انہیں مُولی بانس بھی کہتے ہیں۔

[divider]4 دسمبر 1971- گرفتاریاں[/divider]

صبح دیر سے جاگا۔ ورکنگ لگی تھی لیکن کیپٹن دُرّانی صاحب نے بُلوا لیا۔اُنہوں نے کہا کہ میں اُن کے ساتھ رنر ڈیوٹی کروں۔وہ مُجھ پر بہت مہربان ہیں اورشائد میری پڑھائی کی وجہ سے مجھ پر خاص نظر رکھتے ہیں۔

آج صبح ہیڈکوارٹر کمپنی بھی موو کر گئی اور سی او صاحب بھی آگےچلے گئے۔ دوپہر کو البدر کے رضاکار آئے تھے ،اُنہوں نے بتایا کہ گھنشام گھاٹ والے راستے پر مُکتی باہنی کی ریکی ہوئی ہے۔ہماری دو پلٹونیں تیار ہوئیں اور دن بارہ بجے ہم نے گھنشام گھاٹ والے راستے پر ریڈ کیا۔ یہاں سے سات باغی گرفتار ہوئے۔ساری رات یہاں کیمپ میں ہلچل مچی رہی۔ ان بنگالیوں کو ناریل کےدرختوں سے باندھ دیا گیا اور رات بھر ڈیوٹی سنتری چوکس رہے۔بنگالیوں کے پاس سے بھارتی فوج والی ایک رائفل بھی پکڑی گئی تھی جسے میں نے بھی دیکھا۔ میرا خیال ہے رُوسی ساختہ ہے۔ان لوگوں کے پاس بہت سارا اسلحہ ایسا ہے جو بھارتی فوج نے انہیں سال کے آغاز میں فراہم کیا تھا۔بابو لوگ تو شکار کے سوا اسلحے اور ہتھیار رکھتے ہی نہیں تھے،بھارتی فوج نے انہیں کلاشنکوف سے لے کر ریکائل لیس تک کی تربیت دی ہے بلکہ کچھ جگہوں پر تو انہوں نے باقاعدہ اینٹی ٹینک ہتھیار استعمال کئے ہیں۔ یہ لوگ ہندوستان سے تربیت بھی لے کر آرہے ہیں۔

رات دیر تک گرفتار ہونے والے بنگالیوں سے دُرّانی صاحب پُوچھ تاچھ کرتے رہے اور وہ شور مچاتے رہے۔ وہ لوگ ہماری فوج کو ‘خان سینا’ کہتے ہیں اور تمام فوجیوں کو کپتان صاحب کہہ کر پکاررہے تھے۔ان میں ایک میرا ہم نام بھی تھا لیکن سب اسے تنویرُل پُکاررہے تھے۔

پُنّوں کو سزا کے طور پہ سات دن کا پِٹھوُ لگاہوا تھا لیکن بٹالین مُوو کر جانے کی وجہ سے کیپٹن صاحب نے معاف کر دیا اور مُجھے کہا کہ اپنے بھانجے صاحب کو ڈسپلن سکھاوں۔اُس نے چند دن پہلے کمانڈنگ افسرصاحب کی جیپ کے ٹائروں سے ہوا نکال دی تھی۔اور شُکر ہے کہ پکڑا تو گیا لیکن کسی کو وجہ نہ بتائی۔ بے وقوف مُجھے کہنے لگا کہ چونکہ سی او صاحب بنگالی ہیں لہٰذہ اُس نے اپنی نفرت کا اظہار کیاتھا۔ میں نے اُسے ڈانٹ کے سمجھایا کہ باباجی اچھے بنگالی ہیں اور غدّار نہیں ہیں۔

[divider]5 دسمبر 1971- ماں کا خط[/divider]

میں ابھی سویا ہی ہوا تھا کہ جی ۔تھری کے فائر کی آواز نے جگا دیا۔ باہر نکل کے دیکھا تو میں گھبرا کے رہ گیا۔کیپٹن صاحب نے کل گرفتار ہونے والے سات بنگالیوں میں سے تین کو شُوٹ کرنے کا حُکم دے دیا تھا۔ باقی لوگ بوڑھے تھے اور ایک تو شکل سے بھی بنگالی نہیں لگ رہا تھا اور وہ تھا بھی گونگا۔ درختوں سے بندھے ان باغیوں کو نائیک سردار صاحب اور اُستاد پاجامے نے فائر مارے۔ یہ خدائی فوجدار۔۔۔۔ جی۔ تھری نیا ہتھیار ہے اور بڑا ظالم ہے۔ان باغیوں کے خون کے چھینٹے دُور دُور تک اُڑے اور ناریل کے درختوں کے تنے چھلنی ہوگئے۔ پُنّوں اُس وقت کوت گارڈ تھا اور دیکھ رہا تھا۔ وہ یہ منظر دیکھ کر چکرا گیا اور قے کرنے لگا۔ نرسنگ اردلی نے اُسے دوا دی جبکہ اُستاد نے اُسے بہت گالیاں دیں۔

تین بجے سرچ پارٹی کی فالنی ہوئی ۔ کیپٹن صاحب بتا رہے تھے کے فارورڈ ڈپو سے راشن آرہا تھا جسے مُکتی والوں نے گھات لگا کر تباہ کر دیا ہے اور نصیب شاہ بھی شہید ہو گیاہے۔کیپٹن صاحب بہت غصّے میں تھے آج۔ برگیڈ ہیڈ کوارٹر سے ڈی ۔آر آیا تھا۔اُس کے پاس میرا ایک خط بھی تھا۔ کافی پُرانی تاریخ کا تھا۔ماں نے لکھا ہے کہ میں نادِ علی پڑھا کروں اور پُنّوں کو بھی پڑھاوں کیونکہ بنگالی عورتیں مَردوں پہ کالا جادو کر دیتی ہیں۔اب میں اپنی سیدھی سادی ماں کو کیا بتاتا کہ واقعی سی ایم ایچ ڈھاکے کی ایک بنگالن نرس نے تو اگست میں، چند دن کے لیے مُجھ پہ جادو ہی کر دیا تھا، یہ تو شُکر ہے کہ میں وہاں چنددن ہی رہا۔

اقبال بھائی کی ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر ترقی کی خبر پڑھ کر خوشی ہوئی ۔گھر کے قریب، چکوال کے ہی ایک اسکول میں تبادلہ ہوا ہے اُن کا۔اُنہوں نے لکھا تھا کہ بچے کی پیدائش کے دن قریب ہیں لیکن فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ، بھائی سب معاملات سنبھال لیں گے۔ میری تنخواہیں گھر پہنچ گئی ہیں۔

[divider]6 دسمبر 1971- چھاپہ اور تعاقب[/divider]

فجر کی نماز کے لئے جاگا۔ابھی نماز کے لئے ہاتھ باندھے ہی تھے کہ کیمپ ایک زوردار دھماکے سے گونج اُٹھا اور پھر فائرنگ شروع ہو گئی۔ میں نماز توڑ کے بھاگا اور مارٹر والوں کی خندق میں کود گیا۔ دس پندرہ منٹ تک عجیب ہلچل رہی۔ تمام سنتری اندھیرے میں فائر کرنے لگے۔ پھر کیپٹن صاحب نےہولڈ آن کا حکم دیا تو فائر رُکے۔سورج اُبھرا تو مُجھے صورت حال کا ندازہ ہوا کہ فجر کے وقت مُکتی باہنی نے کیمپ پر راکٹ مارا تھا جس سے کوت، جو کہ اس سکول کی لائبریر ی بھی ہے، کی دیوار گر گئی اور راشن والا ڈمپ بھی جل گیا۔ لائبریری کی کتابوں نے جو آگ پکڑی تو راشن کی دالیں تک بُھون دیں لیکن شُکر ہے ایمونیشن کو جلدی سے نکال لیا گیا ورنہ تباہی ہوتی۔

آج ناشتہ بھی نہ کرسکے۔ ریکی پارٹی نےفوری طور پہ مُکتی والوں کے فرار کا راستہ چھان مارا لیکن بے سُود۔ کیمپ سے پچاس گز کے فاصلے پر ایک مسلح باغی مُردہ حالت میں پایا گیا جو کہ ہماری اندھیرے میں فائرنگ سے مرا تھا۔ نرسنگ اردلی جب اُس کا معائنہ کر رہا تھا تو میں نے بھی اسے دُور سے دیکھا۔ اس نے دھوتی باندھ رکھی تھی اور قمیص پر بھارتی فوج کے سپلائی اِشُو والا کیمو فلاج جیکٹ پہن رکھا تھا۔

سارا دن مصروف رہے۔ کوت کپتان صاحب کے دفتر میں، جو کہ دراصل ہیڈماسٹر آفس تھا، منتقل کرنے کا حکم ملا تو سارا اسلحہ اور ایمونیشن یہاں منتقل کردیا۔رات سونے سے پہلے گھر سے آنے والے خط کا جواب لکھا لیکن سنبھال کے رکھ دیا کیونکہ سُننے میں آیا ہے کہ خطوط پر سنسر لگ گیا ہے۔یوں بھی بڑی پکی خبر ہے کہ مغربی پاکستان سے ڈاک کا رابطہ ختم ہو گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ خط وکتابت بند ہونے کے بعد مشرقی پاکستان ذیادہ ہی اجنبی سی دھرتی محسوس ہونے لگا ہے۔

برگیڈ سے وائرلیس آیا تھا کہ صوبیدار بختیار صاحب کے والد سی ایم ایچ ڈھاکے میں فوت ہوگئے ہیں۔میں نے صوبیدار صاحب کو بتایا جس پر شام کو کپتان صاحب سے بہت ڈانٹ پڑی کہ میں نے اُنکی اجازت کے بغیر صوبیدار صاحب کو کیوں خبر دی۔۔۔


(مارٹر: تین انچ دہانے کی چھوٹی توپ۔کوت:اسلحہ خانہ۔ریکی:دُشمن کے علاقے کاگشت اور جائزہ)

[divider]7 دسمبر 1971- سچ یا جھوٹ[/divider]

آج سارا دن ہم لوگ سٹینڈ ٹُو رہے لیکن کسی موو کا حکم ملا نہ کوئی ناگوار واقعہ ہوا۔ پُنّوں میرے پاس رہا۔بے چارہ گزشتہ چند روز کے واقعات سے بہت گھبرایا ہوا تھا، مُجھ سے اپنے خوف کا اظہار کرکے رونے لگا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، مَیں بھی جب رنگروٹی پاس کرکے پلٹن میں آیا تھا تو پینسٹھ کی جنگ چھڑ گئی تھی لیکن سب خیر خیریت سے گزر گیا۔اسے حوصلہ اور دلاسہ دیا اورچند لطیفے سُنائے تو ہنستے ہوئےاس کے سانولے گالوں پر دو گڑھے سے بن گئے۔سلمیٰ باجی کہتی تھیں کہ جب میرا بیٹا پُنّوں جوان ہوگا تو اس کی ہنسی اور گالوں کے یہ گڑھے کتنی ہی چھوریوں کو اسکا دیوانہ کردیں گے۔کاش وہ زندہ ہوتیں تو دیکھتیں کہ پُنوں ہنستے ہوئے کتنا پیارا لگتا ہے۔

کیپٹن دُرّانی صاحب نے دوپہر کو ہمیں فالن کیا ۔ وہ بہت غصے میں تھے۔ہم سے خطاب کرتے ہوئے بولےکہ ریڈیو اور دیگر ذرائع سے افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ پاک فوج کے جوان بنگالی خواتیں کی عزت لوٹنے میں ملوث ہیں وغیرہ۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ خبریں جھوٹی ہیں اور رضاکاروں، مُکتی باہنی، سنٹرل پیس کمیٹی اور دیگر آوارہ تنظیموں کی غلط کارروائیوں کا الزام ہم پر لگایا جا رہا ہے اور اگر کوئی جوان ان خبروں پر تبصرہ کرتا ہوا پایا گیا تو اُس کا فوری طور پر کورٹ مارشل کیا جائے گا۔ اُنہوں نے ہمارے ریڈیو سُننے پر بھی پابندی لگا دی۔لانس نائیک غلام شبیر صاحب عُرف چمڑا، جو کہ گانے کے بہت شوقین ہیں ،یہ سُن کر کہنے لگے”سر اب ان تمام جوانوں کو گانا سُنانے کی ڈیوٹی میرے ذمے لگائی جائے”دُرّانی صاحب مُسکرا اُٹھے اور کہا “تاکہ جوانوں کو دوگُنی بوریت ہو؟”ہم لوگ ہنس دیئے اور کچھ ماحول ہلکا ہوا۔

شام کے وقت کیپٹن صاحب نے حُکم دیا کہ کھانا اُن کے ساتھ کھاوں۔آج تمام کیمپ نے صرف شام کا کھانا ہی کھایا۔میں نے ڈرتے ڈرتے دن کی افواہ کے بارے میں پوچھ لیا تو کیپٹن صاحب نے کہا “سب بکواس ہے یار۔ دیکھو تنویر ، تم بچے نہیں، بارہ جماعتیں پاس ہو، ہم ان حالات میں جس طرح دشمنوں میں گھِرے ہیں، کیا ہمارے پاس ان کارروائیوں کی فرصت ہے؟” پھر کچھ دیر خاموش رہ کر دوبارہ بولے “تنویر حُسین، جنگ میں سب سے پہلا قتل سچ کا ہوتا ہے—کُچھ بھی ممکن ہے”


(سٹینڈ ٹو:چوکس، تیار۔ فالن: انگریزی کا لفظ Fall-in ، مراد اکٹھا ہونا، صف میں)

[divider]8 دسمبر 1971- پُنّوں کی سُپاری[/divider]

فجر کی نماز کے بعد لنگر کمانڈر سے ملا۔اُس نے بتایا کہ ابھی جے کیوُ صاحب اور کیپٹن صاحب کی بات ہوئی ہے، آج تمام نفری کو ناشتہ ملے گا لیکن دوپہر کے کھانے کا مسئلہ درپیش ہے۔ایک افسر کیلئے اپنے جوانوں کو کھانا فراہم نہ کرسکنا بہت بڑی اہانت کی بات ہوتی ہے۔صاحب آج سی او صاحب اور برگیڈ سے بھی مشورہ کریں گے۔ ناشتے کے وقت بھی یہی بات موضوعِ گفتگو تھی۔ سردارصاحبان کی باتیں سُن کر پتہ چلا کہ ہماری فوج نے چھمب اور حُسینی والا فتح کرلئے ہیں۔

دوپہر کو ایک اورپلٹون محاذ کی طرف جانے کیلئے تیارتھی، لیفٹیننٹ عثمان بھٹی آج ہی پہنچے تھے، پلٹون کی قیادت اُن کے حوالے کر کے اُنہیں آگے بھیج دیا گیا۔آج کئی دنوں بعد دُرّانی صاحب کو بھٹی صاحب کے گلے لگ کے خدا حافظ کہتے دیکھا، دراصل بھٹی صاحب کو چھے ماہ پہلے ڈھاکے میں دُرّانی صاحب نے شراب پی کے گالیاں دی تھیں جس کے بعد ان کے تعلقات ٹھیک نہ تھے۔ عثمان صاحب کئی نسلوں سے سولجر ہیں اور بہت ہی قابل افسر ہیں لیکن وہ دُرّانی صاحب کی بہت ذیادہ کتابیں پڑھنے کی عادت کو زنانہ صفت قرار دیتے ہیں، اسی بات پہ ان کی لڑائی ہوئی تھی ۔وہ دونوں کورس میٹ ہیں لیکن اُس لڑائی کی وجہ سے بھٹی صاحب کی کپتانی آنے میں سزا کے طور پر ،چھے ماہ کی تاخیر کردی گئی۔ بھٹی صاحب سے سُنا ہے کہ فرنٹ پر،ہلّی، سیتا پور اور گردونواح میں شدید لڑائی ہو رہی ہے۔دُرّانی صاحب بتا رہے تھے کہ اسی وجہ سے سی او اور برگیڈ سے رابطہ ہو سکا ہے نہ راشن کا مسئلہ حل ہوا ہے۔

ظہر کے وقت ہماری ایک پارٹی تشکیل دی گئی جس کی کمان خود دُرّانی صاحب کررہے تھے۔ مَیں اور پُنّوں بھی اس میں شامل تھے۔ہم پندرہ لوگ کیمپ سے نکلے اور ساتھ کے گاوں پہنچے جو کہ آدھے سے ذیادہ خالی ہو چکا ہے۔ یہاں بازار میں چند بڑی دُکانیں تھیں جو کئی دنوں سے بند تھیں۔ہم نے وہاں جاکر اُن کے تالے توڑے اور ان میں سے جتنی دالیں اور چاول مل سکا، سب اُٹھا لیا۔چند لوگوں نے مزاحمت کی کوشش کی لیکن دُرّانی صاحب نے سیدھی فائرنگ کرکے اُنہیں ایسا خوفزدہ کیا کہ وہ تتر بتر ہوگئے۔اُن کا ایک آدمی زخمی ہوکر سڑک کے کنارے گرا اور دیر تک مدد کیلئے پُکارتا رہا۔

دیر تک ہم “مالِ غنیمت” کا راشن کیمپ لانے میں لگے رہے۔رات کو پُنّوں میرے پاس آیا تو سُپاری چبا رہا تھا۔ میں نے پُوچھا کہ کہاں سے لی ،تو کہنے لگا”ماموں، وہ بابووں کی دُکان سے اُٹھائی ہے”


(پلٹون:تیس جوانوں کا دستہ، ایک پلٹن میں پانچ کمپنیاں اور ہر کمپنی میں تین پلٹونیں ہوتی ہیں۔سردار صاحب: صوبیدار/جیونیئر کمیشنڈ افسر)

[divider]9 دسمبر 1971- بُری خبریں[/divider]

ج کپتان صاحب اپنے دفتر میں ہی رہے۔اُنہوں نے کوت والے کو باہر بھیج دیا۔میں بھی شام تک اُن کے ساتھ رہا۔لکھنے کاکافی سارا کام اُنہوں نے مُجھ سے کروایا۔ میرے کام سے بہت خوش ہوئے اور کہا کہ جنگ کے بعد وہ مُجھے لانگ کورس کے امتحان میں ضرور بٹھوائیں گے۔میں نے اُن کو بتایا کہ میں گھریلو حالات کی وجہ سے اگر ایف ۔اے کے دوران ہی فوج میں بھرتی نہ ہوتا تو بھائی اقبال مُجھے بھی پرائمری ماسٹر لگوانا چاہےتھے۔ کپتان صاحب اچھے موڈ میں تھے تو میں نے اُنہیں اپنی تازہ شاعری بھی سُنائی۔وہ کہتے تھے کہ میں عشقیہ شاعری کی بجائے نثر لکھا کروں، بہتر ہوگا ۔کیونکہ عشقیہ شاعری کا شوق سولجر کو بُزدل بنا دیتا ہے۔

میں نے اُن سے جنگ کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ ہر طرف سے بُری خبریں ہیں۔دُشمن کئی راستوں سے ڈھاکے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ہماری ائیرفورس ناکارہ ہوگئی ہے اور تیج گاوں کا ہوائی اڈہ تو دُشمن نے بالکل تباہ کردیا ہے اور ہماری نیوی کے دو جہاز بھی ڈبو دیئے گئے ہیں۔وہ اندرا گاندھی کو ننگی گالیاں دے رہے تھے۔ اُنہوں نے یحیی خاں اور ٹکِا خاں صاحب کو بھی گالیاں دیں لیکن بعد میں مُجھے کہا کہ کسی سے ان باتوں کا ذکر نہ کروں۔وہ کہہ رہے تھے کہ ان بنگالیوں کے ساتھ بہت ذیادتیاں ہوئی ہیں لیکن انہوں نے جس طرح دُشمن سے ساز باز کی ہے، ہم ان غداروں کو معاف نہیں کریں گے۔پھر وہ شیخ مُجیب کو بھی گالیاں دینے لگ گئے۔میں بہت پریشان سا ہوگیا کہ اگر جنگ لمبی ہو گئی تو نجانے کب دوبارہ گھروں کا دروازہ دیکھنا نصیب ہو گا۔

کھانے کے بعد کپتان صاحب تو کوئی انگریزی ناول پڑھنے لگ گئے اور میں نے جاکر وائرلیس آپریٹر کو کھانے کیلئے ریلیف دیا۔اسی دوران برگیڈ سے کپتان صاحب کیلئے وائرلیس آیا۔ اُنہوں نے بی ۔ایم سے انگریزی میں بات کی۔ میرا خیال ہے کہ 6 تاریخ والے حملے کے حوالے سے کوئی احکامات تھے۔

آج رات دیر تک جنگی جہازوں کی گرج اور دور سے”Ack-Ack” توپوں کی آوازیں آتی رہیں۔پٹرول پارٹی بتا رہی تھی کہ قریب کے کسی گاوں پر بھارتی مگ طیاروں نے بم گرائے ہیں اور کافی سارے دیہاتی مر گئے ہیں۔ پُنّوں آج میرے پاس آکر سویا۔مُجھے بڑے فخر سے بتا رہا تھا کہ آج اُس نے غسل خانے کے پاس ایک سانپ مارا ہے۔یہاں سانپ بہت ذیادہ ہیں۔ رات کو پُنوں کی ڈیوٹی بھی تھی۔


(لانگ کورس:افسر بننے کیلئے لازم تعلیمی قابلیت۔ریلیف:آرام،چھُٹی۔ Ack-Ack :طیارہ شکن)

[divider]10 دسمبر 1971- گھاٹ کی طرف[/divider]

وہی ہوا جس کا گزشتہ رات میں نے اندازہ لگایا تھا۔فجر کے وقت ہمیں حکم ملا کہ پوری مسلح پلٹون تیار کی جائے ۔گھنشام گھاٹ گاوں کو کلیئر کرنے کا حُکم تھا کیونکہ ہمیں اس طرف سے مُکتی باہنی بہت پریشان کر رہے ہیں۔ وہ لوگ چھاپہ مار کارروائیاں کرکے دیہاتوں میں چلے جاتے ہیں اور عام لوگوں میں گھل مل جاتے ہیں۔پلٹون کی کمان خود دُرّانی صاحب کررہے تھے۔پُنّوں کو کپتان صاحب نے ساتھ جانے سے روک دیا۔

صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہم گھنشام گھاٹ گاوں پہنچے جس میں سارے گھر بانس اور گارے کے تھے اور ان کے درمیان ناریل کے بہت سارے پیڑ تھے۔دُوسری جانب ندّی بہہ رہی تھی،ہماری جانب راستہ خشک تھا۔دُرّانی صاحب نے اُردو اور ٹوٹی پھوٹی بنگالی زبان میں لاوڈ ہیلر پر اعلان کیا کہ بیس منٹ کے اندر ندر سارا گاوں خالی کردیا جائے۔یہ بالکل چھوٹی سی بستی ہے جو کہ دس منٹ میں بھی خالی ہو سکتی تھی۔اُنہوں نے کہا کہ دن چڑھے تک اگر کوئی مَرد ندی کے اِس طرف نظر آیا تو مار ڈالا جائے گا۔ٹھیک بیس منٹ کے بعد ہمیں حکم ملا کہ تمام جھونپڑیاں جلا دی جائیں۔یہاں کی زبان میں ان کو کُرے کہتے ہیں۔حکم پر عمل درآمد ہونے میں بمشکل آدھا گھنٹہ لگا ہوگا۔ان گھروں میں گھریلو سامان نہ ہونے کے برابر تھا جس سے ہمیں اندازہ ہوگیا کہ یہ بستی پہلے سے ہی خالی کر دی گئی ہے۔چند گھروں میں سے مزاحمت ہوئی لیکن غیر مسلح۔ یہ لوگ پکڑے گئے لیکن دُرانی صاحب نے انہیں ندی پار دفع ہوجانے کا حُکم دے دیا۔تھوڑی دیر بعد ندی کی جانب سے برین گن کا شدید فائر آیا جس سے اُستاد پاجامہ شدید زخمی ہوگئے۔جواباً ہم نے مشین گن اور رائفل کے فائر سے بوچھاڑ کردی۔آٹھ یا نو بجے کا عمل ہوگا کہ فائر نگ بند کی گئی۔ندی پار کی سرچ پارٹی نے آکر بتایا کہ وہاں گیارہ لاشیں ملی ہیں اور آٹھ مختلف اقسام کی بندوقیں اور رائفلیں قبضے میں آئی ہیں اور ایک برین گن بھی ملی ہے۔جلے ہوئے گھروں سے دو لاشیں برامد ہوئیں جو ایک عورت اور ایک بچے کی تھیں۔ یہ بچہ بمشکل ایک سال کا ہوگا۔ میں نے زندگی میں پہلی بار جلی ہوئی انسانی لاش دیکھی تھی، میرا سر چکرانے لگا۔

دوپہر تک ہم واپس لوٹے اور برگیڈ کو گھنشام گھاٹ کلیئر ہونے کی خبر دی جبکہ شام کو ندی پار کے علاقے پر ایف۔ ایف کی ایک کمپنی کی جمگاہ آ لگنے کی خبر بھی ملی۔ رات کو جب اُستاد پاجامے کو انتہائی تشویشناک حالت میں ملٹری ہسپتال بھجوانے کیلئے فیلڈ ایمبولینس منگوانے کا وائرلیس بھیجاتو پتہ چلا کہ ان کا صل نام مرزا خاں ہے۔رات گئے تک جب فیلڈایمبولینس نہ آیا تو دُرانی صاحب خود اُنہیں جیپ میں ڈال کر تین سپاہیوں کے ہمراہ فیلڈ ہسپتال کی طرف روانہ ہو گئے۔ کیمپ کی کمان صوبیدار بختیار صاحب کے سپرد ہو گئی۔


(ایف۔ایف: فرنٹِئیر فورس ، پاک فوج کی ایک پُرانی رجمنٹ۔ جمگاہ:کیمپ،پڑاو، حملے سے پہلے ٹھہرنے اور تہار ہونے کی جگہ)

[divider]11 دسمبر 1971- “یومِ بختیار صاحب”۔[/divider]

آج چونکہ کیمپ کی کمان صوبیدار بختیار صاحب کے سپرد تھی لہٰذہ آدھی نفری تو سارا دن” چِندی اور پُھلترُو “لئےرائفلیں صاف کرتی رہی۔باقی نفری صوبیدار صاحب کے اخلاقیات، ملٹری، سیاست اور جنسیات کے موضوع پر دیئے گئے درس سے لطف اندوز ہوتی رہی۔اُنہوں نے کُچھ کام کی باتیں بھی بتائیں۔وہ کہہ رہے تھے کہ رُوس اس جنگ میں بھارت کی مدد کررہا ہے جبکہ پاکستان کو بھی چین نے فوجی امداد کا عندیہ دیا ہے۔اُنہوں نے امریکی مدد کا بھی بتایا۔وہ کہہ رہے کہ اُنہوں نے تو سن پینسٹھ والی جنگ کے بعد ہی ان حالات کی پیشن گوئی کردی تھی۔کیا پتہ وہ حسبِ عادت ‘لنگر گپ ‘چھوڑ رہے تھے۔

صوبیدار صاحب نے ایک لطیفہ بھی سُنایا کہ بارڈر پہ پاکستانی اور بھارتی وائرلیس کی فریکنسی مل گئی، بھارتی کرنیل نے پاکستانی آپریٹر سے کہا “اوئے سپاہی، اٹن شن ہو کے بات کرو مُجھ سے” پاکستانی آپریٹر نے ترنت جواب دیا “سر آپکی ماں کی۔۔۔اوور اینڈ آوٹ” ہم لوگ اس پربہت ہنسے۔اس کے بعد اُستاد چمڑے نے گانا سُنایا اور ساتھ بِہاری تندورچی نے ڈھولکی کی جگہ جَیری کین بجائی۔۔۔

شام کو کیپٹن دُرانی صاحب بخیرئیت واپس آگئے لیکن ازحد غمگین تھے۔اُنہیں فیلڈ ہسپتال سے یہ خبر ملی تھی کہ اُن کےخالہ ذاد بھائی جو کہ بیناپول میں میڈیکل افسر تھے، اپنی بیوی اور بچوں سمیت مُکتی باہنی کے ہاتھوں بے دردی سے قتل کر دیئے گئے ہیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ کئی شہروں میں مُکتی باہنی والے بِہاریوں کا قتل عام کررہے ہیں ۔ اُن سےسُنا کہ شہروں میں عام بنگالیوں پر بھی بہت سختی ہے اور ہندووں کی تو خاص سختی آئی ہے۔شام ہوئی تو تمام کیمپ پہ اُداسی اور خاموشی چھائی ہوئی تھی۔

پُنوں سارا دن اِدھر اُدھر رہا اور رات کو میرے پاس آیا اور بولا “ماموں، اپنی جیکٹ دےدو، صبح صبح اُستاد سردار کے ساتھ گھنشام گھاٹ والی پکٹ پہ ناشتہ پہنچانے جانا ہے” میں نے اپنی جیکٹ اُٹھا کر دے دی۔آج کچھ راشن کی سپلائی بھی ملی تھی۔


(چندی:نرم کپڑا جو بندوق /جوتے صاف کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔پُھلترُو: انگریزی لفظ Pull-Through کا پنجابی/فوجی بگاڑ، سلاخ جس میں چندی اُڑس کر بندوق می نالی صاف کی جاتی ہے۔پکٹ:مورچہ)

[divider]12 دسمبر 1971- ۔۔۔قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور؟[/divider]

یہ دن کاش میری زندگی میں نہ آیا ہوتا۔آج دودن گزرنے کے بعد بھی مُجھے یہ لکھنے کی ہمت نہیں ہورہی کہ اس دن کیا قیامت بیت گئی۔دن چڑھے کیمپ میں بھگدر مچی کہ گھنشام گھاٹ والی پکٹ پہ ناشتہ پہنچانے والی پارٹی پہ حملہ ہوا ہے۔میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔میں بھاگ کر کوت سے نکلا ،گراونڈ میں لگے مجمعے کو چیر کر بڑھا تو درمیان میں ،زمین پر دو جسم پڑے دیکھے۔ اُستاد سردار اور پُنّوں۔ میری آواز حلق میں ایک نامکمل چیخ بن کر اٹک گئی اور میں بڑھ کر پُنّوں کے گلے لگا تو دیکھا کہ اُسکی گردن کسی تیز دھار آلے سے کانوں کی لو تک کٹی تھی اور خاکی وردی تمام سُرخ تھی۔ “پُنّوں، تُو کیوں مَرا یار؟؟تیرا ماموں کس لئے تھایہاں؟؟” میں چیخا اور مُجھے یہ یاد ہے کہ اُس کے سانولے رُخساروں پر دھیمی سی مُسکراہٹ تھی اور نیم کھُلی آنکھوں میں معصومیت۔پھر مُجھے تو کُچھ ہوش نہیں رہا۔میری سسکیاں رات بھر نہ رُک سکیں۔عشاء کا وقت ہو گا کہ جب میرے حواس کچھ بحال ہوئے۔ کیمپ میں ہر آنکھ اشکبار تھی۔کسی نے شام کا کھانا نہیں کھایا تھا اور سب مُجھے دلاسہ دینے کو لگے تھے۔میں کسی کو کیا بتاتا کہ سلمیٰ بہن کے مرنے کے بعد میں نے پُنّوں کو کس پیار سے پالا تھا۔وہ پورے گھر والوں کی طر ف سے میرے پاس امانت تھا۔ میں رات تک اُس کی میت کے پاس بیٹھا سسکیاں لیتا رہا پھر نرسنگ اردلی نے زبردستی مُجھے اُٹھا دیا۔ میں وہاں سے اُٹھ کر کیپٹن دُرّانی صاحب کے پاس چلا گیا اور وہ مُجھے دلاسے دیتے رہے۔برگیڈ سے پیغام آیا کہ پاکستانی بحریہ نے دُشمن کا ایک جنگی جہاز ڈبو دیا ہے، تمام جوانوں کو مبارکباد دی جائے تاکہ اُن کا مورال بلند ہو۔ دُرّانی صاحب نے ٹرانسمیٹر بند کرکے ایک بہن کی گالی دی اور چُپ بیٹھ گئے۔ رات پل بھر کو بھی نہ سو سکا۔ وقفے وقفے سے غم کی لہر آ کر دل پہ وار کرتی تھی۔ پُنوں کی اٹھارہ سالہ زندگی کی یادوں میں ہی یاد آیا کہ آج اُسکی فوجی نوکری کا ایک سال بھی مکمل ہوا۔۔۔

[divider]13 دسمبر 1971- الوداع[/divider]

بختیار صاحب نے فجر کی اذان دی تو میں جاگ رہا تھا۔ رورو کر میری آنکھیں خشک ہو چکی تھیں،غم سے پتھرا گئی تھیں۔سچ تو یہ ہے کہ پوری پلٹن کا مورال ایک صدمے سے دوچار تھا۔برگیڈ سے حُکم آیا کہ دونوں شہید یہیں دفن کر دئیے جائیں کیونکہ دیگر تمام بڑی چھاونیوں اور فارمیشنوں سے رابطے اور مواصلات ازحد مشکل ہیں اور معلوم نہیں کب تک رہیں گے۔باقی پلٹن سے بھی رابطہ کٹ چکا تھا جس وجہ سے سی او اور پُنوں کی کمپنی کو ان شہادتوں کی اطلاع نہ دی جاسکی۔میں نے برگیڈ میں بھی منع کروادیا کہ گھروالوں کو تار نہ بھیجا جائے۔وہ کہ رہے تھے کہ مغربی پاکستان کے ساتھ رابطہ یوں بھی ناممکن ہے۔دوپہر کو قبریں تیار کی گئیں،کفن یہاں ضروری نہ تھے لہٰذا ضابطے کے مطابق ایک پلٹون کی اعزازی گارڈ کی سلامی کے ساتھ انہیں سہ پہر کے قریب سپردِخاک کردیا گیا۔ میں بُت بنا یہ منظر دیکھتا رہا اور اپنے لاڈلے بھانجے کو خاموشی کی زبان میں ہی الوداع کہہ سکا۔ آخری وقت تک میرے دل سے آواز اُٹھتی رہی کہ پُنوں ابھی اُٹھ کھڑا ہوگا اور مُجھ سے لپٹ کر کہے گا “ماموں، میں نے تو مذاق کیا تھا” لیکن جب قبروں پہ مٹی ڈال دیئے جانے کے بعد بگلچی نے لاسٹ پوسٹ کی اُداس دُھن بھی بجادی اور ایسا کچھ نہ ہوا تو میں پھوٹ پھوٹ کے رویا۔

سرِشام کپتان صاحب نے لگ بھگ چالیس کی نفری مسلّح کی اور گھنشام گھاٹ کے راستے سے قریب ترین گاوں رحیم پور کا رُخ کیا۔میں تو کیمپ میں ہی رہا، خداجانے وہاں کیا ہوا۔ کپتان صاحب رات گئے تک گھنشام گھاٹ، رحیم پور اور گردونواح میں ایف۔ایف والوں کے ایک لفٹین اور اسکی پلٹون کے ہمراہ مُکتی کے گوریلوں کا تعاقب کرتے رہے۔ آج جب افواہ سُنی کہ سلہٹ، تانگیل اور کاکس بازار میں دُشمن کی چھاتہ بردار سپاہ اُتر گئی ہے تو دل ڈوب سا گیا۔ ایسا لگا کہ ہم یہ جنگ ہار جائیں گے۔

آدھی رات کے وقت کیمپ میں پھر ہنگامہ ہوا ۔میرا خیال تھا کہ پارٹیاں واپس آگئی ہیں اور شائد کچھ باغیوں کو بھی پکڑ کر لائے ہیں ۔آج میری سسکیاں آہوں میں بدل گئیں ۔ تمام ساتھی مُجھے آکر دلاسہ دیتے رہے۔

[divider]14 دسمبر 1971- بونگلہ دیش سے پہلے۔۔۔[/divider]

میں صبح وردی پہن کر باہر نکلا تو دیکھا کہ اسمبلی گراونڈ میں چھے بنگالی درختوں سے بندھے کھڑے تھے اور کوت نائیک صاحب ان سے برآمد ہونے والے اسلحے کا معائنہ کررہے تھے۔ سنتریوں نے ہر طرف سے ان بنگالیوں پر رائفلیں تان رکھی تھیں۔ان میں دو کم سن لڑکے بھی تھے جو سکول کی وردی میں تھے۔میں نے انہیں شدید نفرت سے دیکھا کیونکہ اسی لمحے میری آنکھوں کے سامنے پُنّوں کا چہرہ گھوم گیا جس کو دونوں مُلکوں کی باہمی دُشمنی کا کچھ پتہ تھا نہ وہ مجیب، یحیی، اندرا یا پچھلے انتخابات کے بارے میں کچھ جانتا تھا۔میرا دل غم اور غصے کے ملے جلے تاثرات سے بھر گیا اور میں بھاگ کر دُرّانی صاحب کے دفتر میں آگیا۔ہم دونوں دیر تک چُپ بیٹھے رہے۔کپتان صاحب نے وائرلیس پر برگیڈ کےکسی افسر سے چند انگریزی مکالمے کئے، میں نے ان کی میز،کُرسی ،وائرلیس اور دیگر سامان کی جھاڑ پونچھ کردی۔پھر کافی دیر بعد دُرّانی صاحب اُٹھ کر باہر چلے گئے۔پھر ایک دم رائفل جی ۔تھری کا فائر چلنے کی فلک شگاف آواز آئی، شور اُٹھا تو میں نے باہر جھانک کر دیکھا۔کیپٹن دُرّانی صاحب نے ایک باغی کو گولی مار دی تھی۔میں اب اس قتل و غارت سے عاجز آچکا تھا، میں نے کھڑکی بند کرکے آنکھیں بھینچ لیں۔ پھر یکے بعددیگرے برسٹ چلنے کی آوازیں آئیں اور بنگالی زبان کی تمام چیخ پکار بند ہوگئی۔ کچھ دیر کے بعد کیپٹن دُرّانی دوڑتے ہوئے اندر آئے،رائفل جی ۔تھری ایک طرف رکھی،اندر سے دروازے کی چٹخنی چڑھائی اور کُرسی پر بیٹھ کر سسکیاں لے کر رونے لگے۔وہ اپنی آواز دبا رہے تھے۔میں یہ منظر دیکھ کر مات و مبہوت رہ گیا۔ “تنویر، یہ سب بکواس ہے،یار انہیں ہم سے الگ ہو جانا چاہیئے، لیکن میں اس زمین کے بونگلادیش بننے سے پہلے مرجانا چاہتا ہوں۔میں مشرقی پاکستان میں مرنا چاہتا ہوں” وہ عجیب باتیں کیے جا رہے تھے، سسکیاں لیے جارہے تھے اور میں انہیں دلاسہ دیے جارہا تھا۔

[divider]15 دسمبر 1971- اچانک حملہ[/divider]

فجر سے بہت پہلے تمام کیمپ سٹینڈ ٹُو کردیا گیا۔ہم سب کو دفاعی پوزیشنیں لینے کا حُکم ملا اور بتایا گیا کہ ہماری آگے کی کمپنیاں لڑائی سے باہر ہو چکی ہیں اور دُشمن کی ایک بٹالین ہمارے جنوبی بازو سے گزر کر عقب میں کہیں آگے نکل گئی ہے لہٰذا ہماری پوزیشن پر کسی بھی وقت ،کسی بھی جانب سےحملہ ہو سکتا ہے۔ہم سب تیار ہوگئے۔کچھ کاغذات اور نقشے کیپٹن دُرّانی صاحب نے میرے حوالے کیے کہ انہیں جلادوں۔وہ میں نے جلادیے۔ابھی صبح ہوئے کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ مغرب کی جانب سے تین انچ مارٹر اور مشین گن کا فائر آنے لگا۔کافی دیر کے بعد جب بڑھتا ہوا دُشمن ہمارے چھوٹے ہتھیاروں کی زد میں آنے لگا تو ہم نے جوابی فائرنگ کا آغاز کردیا۔کیمپ ایک اسکول کی عمارت میں تھا جس کی جنوبی دیوار میں ایک چوڑا شگاف تھا جس پر سے دشمن کے فائر اور حملے کا ارتکاز ذیادہ تھا۔یہاں میں نے عجیب منظر دیکھا کہ دھوتیوں میں ملبوس چند بنگالی ،دُشمن کی صفوں میں دوڑ دوڑ کی ایمونیشن اور مشین گن کے لنک تقسیم کررہے تھے اور انہوں نے دشمن کا سارا سامان بھی اٹھا رکھا تھا۔مُجھے میجر وڑائچ صاحب کی وہ بات یاد آئی کہ اس احسان فراموش قوم کے ساتھ وہی کُچھ ہونا چاہیئے تھا جو کُچھ ہم نے آپریشن سرچ لائٹ میں کیا تھا۔ ہماری پلٹن نے پچھلے سیلاب میں اسی علاقے میں امدادی کارروائیاں کی تھیں۔ جب دشمن کا حملہ شدید ہونے لگا اور دو گھنٹے کی مسلسل لڑائی کے بعد ہمارے پندرہ بیس جوان زخمی ہو چکے تو دُرّانی صاحب نے فیصلہ کیا کہ وہ دیوار کے شگاف کی طرف دُشمن کو اکیلے روکیں گے اور تمام کمپنی کو مین گیٹ کی طرف سے کیمپ خالی کرکے گھنشام گھاٹ کی طرف چلے جانے اور وہاں ایف۔ ایف والی کمپنی سے جاملنے کا حکم دیا۔ کیپٹن دُرّانی نے کمال دلیری سےتن تنہا ایک گھنٹے تک مشین گن کے فائر سے دُشمن کو روکے رکھا اور ہم سب لوگ گھنشام گھاٹ والی پوزیشن کی طرف نکل گئے۔ راستے میں ایک جیپ ندی میں پھنس گئی تو اُسے وہیں چھوڑ کے ہم لوگ بھاگ نکلے۔ایف۔ایف کی کمپنی بھی دُشمن کے ایک اور حملے کو روکے ہوئے تھی۔رات پھیلی تو گھنشام گھاٹ والی پوزیشن سے دُشمن پسپا ہوگیا۔اپنےہائی اسکول رحیم پور والے کیمپ سے سہ پہر تک فائر کی آواز آتی رہی۔شائد تب تک کیپٹن دُرّانی صاحب نے دُشمن کو مصروف رکھا ہوا تھا۔

ابھی یہاں خاموشی ہے۔اگرچہ سنتری پہلے سے ذیادہ چوکنّے ہیں لیکن پھر بھی ہم آرام کر رہے ہیں۔ بلا کی سردی پڑ رہی ہے۔


(آپریشن سرچ لائٹ: ڈھاکا اور چٹا گانگ میں باغیوں کے خلاف کیا گیا آپریشن جس میں بنگالیوں کو سختی سے کچلنے پر جنرل ٹکا خان “قصابِ بنگال” کے نام سے بدنام ہوئے)

[divider]16 دسمبر 1971- پسپائی[/divider]

صبحدم ہماری اور ایف۔ایف کی مشترکہ جمگاہ پر شدید قسم کا اٹیک آیا۔میڈیم توپخانے کی گولہ باری سے ایک دم کیمپ میں ہلچل مچ گئی۔ہماری کمپنی کا ایک جوان شہید اور کئی لوگ چند منٹ کی گولہ باری میں زخمی ہوگئے۔تمام نفری بُری طرح تتر بتر ہوگئی۔توپخانے کا فائر لفٹ ہوا توہمیں کچھ سمجھنے کا موقع ملا لیکن پوری طرح سنبھل نہ پائے تھے کہ ایک ٹینک کی آڑ میں دُشمن کی پیادہ کو اپنی پوزیشن کی جانب بڑھتے دیکھا۔پھر گھنٹہ بھر گھمسان کا رن پڑا ، دونوں طرف سے شدید فائرنگ ہوئی۔ہمیں حیرت تھی کہ اس دلدلی اور ندیوں سے گھری جگہ پہ یہ ٹینک کہاں سے آن ٹپکا۔ایف ۔ایف والوں کے او سی صاحب ایک بھارتی کے ساتھ دست بدست لڑائی میں شہید ہوگئے تو سیکنڈ ان کمان نےحکم دیا کہ جنوب کی طرف والے گاؤں کی جانب پسپا ہو جائیں۔افسران کو حکم تھا کہ دُشمن کو مصروف رکھیں جبکہ ہم سپاہیوں نے زخمیوں کو کاندھوں پر اُٹھایا اور بانسوں کے قریبی جنگل کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔اگرچہ ہم لوگ شدید قسم کی بھگدر میں وہاں سے نکلے لیکن ایف ۔ایف کے افسران نے کمال ڈسپلن کا مظاہرہ کیا۔دُشمن نے ہمارا تعاقب نہیں کیا۔

شام سے پہلے ہم لوگ اس چھوٹی سی بستی میں آ پہنچے۔ پتہ نہیں نام کیا ہے اس کا۔معلوم ہوا کہ بنگالی دیہاتیوں نے ہماری پسپائی کے ممکنہ راستوں پر کل رات ہی بوبی ٹریپ اور بارودی سُرنگیں لگا دی تھیں جس کی وجہ سے ایف ۔ایف والوں کے ایک لفٹین صاحب اور ہمارے صوبیدار بختیار صاحب راستے میں ہی ان کا نشانہ بن کر شہید ہوگئے ہیں۔میری آنکھوں کے سامنے جب اُستاد صاحب کا ہمیشہ ہنسنے ہنسانے والا چہرہ آیا تو میں اُس چہرے پر موت کی بھیانک خاموشی کا تصور نہ کر سکا۔

یہ بستی چھوٹی سی ہے اور لگ بھگ بالکل خالی ہے۔رضاکار بتا رہے تھے کہ یہ بِہاریوں کی بستی تھی جسے مُکتی والوں نے لُوٹا تھا اور یہاں کافی خون خرابا کیا تھا۔سرچ کے بعد کیپٹن لہراسپ خاں صاحب کے حُکم سے بستی کے کچھ حصے کو جلا دیا گیا۔رات گئے ہمیں یہاں پر پوزیشنیں لے کر آرام کرنے کا موقع ملا لیکن کہاں آرام کرتے۔ ایک تو زخمی ساتھیوں کے کراہنے کی آوازیں دوسرے صبح کی گولہ باری سے دہل جانے کی وجہ سے مُجھے بخار چڑھ گیا تھا۔رات کو سنتریوں نے بتایا کہ ایک جلے ہوئے گھر میں ایک بنگالی شدید زخمی پڑا ہے۔ کپتان لہراسپ خاں صاحب نے اپنی پوٹھوہاری زبان کی ایک گالی دیتے ہوئے کہا “مرنے دو ماں کے۔۔۔کو” اور سنتری واپس چلا گیا۔

رات میرے سونے سے پہلے البدر کا ایک زخمی رضاکار بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگیا۔لڑکے بتا رہے تھے کہ وہ شہید بی ۔اے پاس تھا۔

ابھی یہاں خاموشی ہے۔اگرچہ سنتری پہلے سے ذیادہ چوکنّے ہیں لیکن پھر بھی ہم آرام کر رہے ہیں۔ بلا کی سردی پڑ رہی ہے۔


(ایف۔ایف: فرنٹِئیر فورس ، پاک فوج کی ایک پُرانی رجمنٹ۔ )

[divider]17 دسمبر 1971- سرنڈر[/divider]

دن بھر ہم اپنی پوزیشن میں رہے۔ایف۔ ایف والوں نے بتایا کہ ہماری بٹالین تیسرے دن سے کہیں غائب ہے جبکہ ہمارے سی او صاحب شدید زخمی ہو کر ایف۔ ایف کی ایک اور کمانڈ پوسٹ پر آئے پڑے ہیں۔کیپٹن لہراسپ خاں صاحب نے بتایا کہ کیپٹن دُرّانی صاحب پرسوں کے ایکشن میں شہید ہوگئے تھے۔ اب مُجھ میں مزید رونے کی ہمت نہ تھی ورنہ دُرّانی صاحب کیلئے خون کے آنسو رونے کو جی چاہا۔حکومت کو گالیاں دینے والے کیپٹن دُرّانی نےکس کیلئے جان دی ، کتابوں میں نجانے کیا لکھا جائے گا، لیکن مُجھے پتہ ہے کہ اُنہوں نے صرف اپنے جوانوں کے لئے جان دی ہے۔

دن بھر افواہیں گردش کرتی رہیں کہ کمانڈر ایسٹرن کمانڈ جنرل عبداللہ خاں نے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔کچھ لوگوں نے بتایا کہ جنرل عبداللہ نیازی ہیلی کاپٹر کریش میں شہید ہوگئے ہیں۔بعد میں پتہ چلا کہ دونوں خبریں غلط ہیں بلکہ چینی پیراٹروپ سپاہ کے مشرقی پاکستان پہنچنے پر دُشمن نے جنگ بندی کا اعلان کردیا ہے۔سہ پہر کو پتہ چلا کہ تمام خبریں غلط ہیں اور پاک فوج کو آخری سپاہی تک لڑنے کا حُکم ہے اور ہم ہر جگہ ڈٹے ہیں۔

شام کے وقت کیپٹن لہراسپ خاں صاحب نے تمام نفری کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا۔ہمارے ذہنوں میں عجیب سوالات آنے لگے۔اندھیرا پھیل چکا تھا جب بلوچ رجمنٹ کے ایک میجر صاحب آئے اور اُنہوں نے بتایا کہ جنگ ختم ہو چُکی ہے ،مشرقی کمان نے ہم سب کو شاباش دی ہے اور کہا ہے کہ حکومتی سطح کا فیصلہ ہے کہ ہم اپنے قریبی بھارتی یونٹوں کے آگے ہتھیار رکھ دیں۔

ابھی رات کا کافی وقت بیت چکا ہے۔ ٹارچوں کی ہلکی سی روشنی میں لوگوں کی پتھر جیسی تاثرات سے خالی آنکھیں اور وہ سارا ایمونیشن جو اکٹھا کرکے ندی میں پھینک دینے کا حُکم ملا ہے،بڑے تکلیف دہ انداز میں چمک رہے ہیں۔ایک دو پٹھان سپاہیوں نے کہا کہ وہ “سلنڈر” نہیں کریں گے لیکن حُکم ملنے پر چُپ ہوگئے۔افسروں کی زبان کو بھی تالے لگے ہیں اور وہ اکّا دُکّا احکامات جاری کررہے ہیں۔کاندھوں سے اُترتے مشین گن کے پٹوں کی جھنکار، اسلحے کا ڈھیر لگنے کی آواز اور اس کے علاوہ چند بے جان سی آوازیں ہی سُنائی دے رہی ہیں۔میں نے اسلحہ پھینک کر ایک کمبل، یہ ڈائری اور پُنّوں کی بَیری ٹوپی اپنے پاس رکھ لی ہے۔یہ ڈائری تو شائد اب کبھی نہ لکھی جاسکے اور اگر یہ بھی دُشمن نے چھین لی تو اس جنگ کی شائد ایک ہی نشانی گھر تک لے جاسکوں گا۔۔۔جنگ کی نہیں، اپنے لاڈلے پُنّوں کی نشانی۔


ہتھیار ڈالنے کے بعد تنویر حسین کی پلٹن کے بیشتر جوانوں کو بھارتی فوج نے مُکتی باہنی کے حوالے کردیا جنہیں بعد ازاں ایشُردی لے جاکر قتل کردیا گیا۔ تنویر حسین کو آگرے میں جنگی قیدیوں کے کیمپ میں قید کے دوران فالج کا دَورہ ہوا اور 1973 میں وطن واپسی پر اسے طبی وجوہ پر ریٹائر کردیا گیا۔ سپاھی (ریٹائرڈ) تنویر حسین کے دونوں بیٹے مڈل سے آگے نہ پڑھ سکے اور اب باپ کی سرپرستی میں اپنے گاوں میں کھیتی باڑی کرتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *