برگد کے گھنے پیڑ کے نیچے گاؤں کے کچھ گرمی کے ستائے ہوئے لوگ، لڑکے بالے، بڑے بوڑھے، بچے حتی کہ جانور تک پناہ لیے بیٹھے تھے۔ صرف ایک نوعمر لڑکا دھوپ میں کھڑا تھا اور وہ بھی پگڈنڈی کے کنارے لگے نلکے پر نہا رہا تھا۔
برگد کے نیچے چارپائیوں پر بیٹھے اور لیٹے لوگ حقہ پینے سے بھی بیزار تھے لیکن ان میں ایک بوڑھا ایسا تھا جو مسلسل حقے کے کش لیے جا رہا تھا اور کھانسے جا رہا تھا۔ اس نوعمر لڑکے اور بوڑھے میں انفرادیت کے علاوہ ایک اور قدر مشترک تھی کہ وہ گاؤں کے مصلّی اور رشتے میں دادا پوتا تھے۔
“اوئے مانک، تو آج پھر لائلپور نہیں گیا؟”
بوڑھے اللہ یار مصلّی نے کھانستے ہوئے، نلکے پر نہاتے اپنے پوتے سے پوچھا.
“کیا کرنا ہے اس گرمی میں فیصل آباد کے دھکے کھا کر، میں نے نہیں بنوانا شناختی کارڈ”، سیاہ توانا جسم والے نوجوان مانک نے اپنی تہمد درست کرتے ہوئے درشتی سے کہا اور سر جھٹکا جس سے پانی کے قطرے چھینٹوں کی صورت میں غائب سے ہو گئے۔
“اوئے کھوتے دے پترا، تجھے کیوں سمجھ نہیں آتی، الیکشن آنے والے ہیں، حاجی صاحب کہہ رہے ہیں اپنے اپنے شناختی کارڈ بنوا لو، سارا گاؤں چوہدری محمد شفیع کو ووٹ دے رہا ہے۔”
بوڑھے اللہ یار نے پوتے سے کہا اور کن انکھیوں سے ادھر ادھر بیٹھے چند نوجوان دیہاتیوں کو دیکھا، جنہیں شاید وہ بتانا چاہ رہا تھا کہ وہ بھی چوہدری شفیع محمد کو ووٹ دینے والے ہیں۔
“دھت تیرے کی! میں نے نئیں ووٹ دینے اس گنجے مادر جات کو”۔
مانک نے اپنا غسل مکمل کر کے نلکے سے اٹھ کر آتے ہوئے کہا۔
“منظور پتر!” بوڑھے نے اپنے پوتے کی بات نظرانداز کر کے پاس بیٹھے ایک نوجوان کو مخاطب کیا۔ “منظور پتر، تو شہر جاتا ہے، کالج پڑھنے۔ اس مورکھ کو سمجھا کہ شناختی کارڈ کے کیا فائدے ہیں، اسے کل ساتھ لے جانا لائلپور۔ اس کا کارڈ بنوا دے، تیری بڑی مہربانی ہو گی۔
بوڑھے شخص کے سیاہ چہرے پر اتنی جھریاں پڑ چکی تھیں کہ چہرے کے تاثرات تک سمجھ نہ آ سکے تھے لیکن اس کی آواز میں جو التجا اور خوشامد تھی، وہ نوجوان طالب علم کو سمجھ آ گئی۔
“ہاں بابا، لے جاؤں گا، آپ اسے راضی تو کر لیں، میں کیا اسے گھسیٹ کر لے جاؤں؟!”
سانولی رنگت کے منظور لوہار نامی نوجوان نے بوڑھے کے قریب ہو کر اونچی آواز میں کہا۔ اسے اندازہ تھا کہ بابا اللہ یار زرا اونچا سنتا تھا۔ اس کے بعد دیر تک مانک ہمیشہ کی طرح ہیر گاتا رہا، لوگ داد دیتے رہے اور اللہ یار کھانستا رہا۔
شام ہوئی تو اللہ یار مصلّی کے گھر پھر وہی بحث چھڑ گئی۔ مانک کا کہنا کہ وہ لائلپور نہیں جائے گا، اور اس کے دادا کا کوسنا؛
“اوئے مورکھ کی اولاد، ساری دنیا جاتی ہے لائلپور۔ نہیں مر جائے گا ایک دن شہر جا کر۔ پھر شناختی کارڈ ہے، سو جگہوں پہ کام آئے گا۔”
بوڑھا اپنی جھلنگا چارپائی پر بیٹھا کھانسے جا رہا تھا اور کج بحثوں کی طرح ایک ہی بات الفاظ بدل بدل کر سنائے جا رہا تھا۔ گھر میں اس کی بہو، یعنی مانک کی ماں اور مانک ہی دیگر افراد تھے۔
مانک کا باپ مر چکا تھا لہذا مانک چھوٹی عمر سے ہی کسی کے کھیت میں مزارع تھا۔ اس کی ماں لوگوں کے گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کرتی تھی۔ بوڑھے کا کام صرف حقہ پینا اور سارا دن کھانسنا تھا۔ اس کے علاوہ فرصت مل جاتی تو وہ کسی نہ کسی بات پر بہو اور پوتے کو نصیحتیں کرتا اور برا بھلا کہتا رہتا تھا۔
اگلی صبح جب مانک حوائج ضروریہ کے لئے کھیتوں کو جارہا تھا تو سامنے منظور لوہار نظر آیا جسے اس کے دادا نے کہہ رکھا تھا کہ اسے اپنے ساتھ شہر لے جائے۔
“اوئے مانکو۔۔۔” منظور نے دور سے ہی آواز دی۔ اُس نے ہاتھ لہرا کر اُسے جواب دیا ۔ “چل یار، تیاری کر، تجھے شہر لے جاتا ہوں، تیرا شناختی کارڈ بنوا لاتا ہوں”.
منظور کے بائیں ہاتھ میں ایک کتاب تھی اور وہ سر میں تیل لگائے ، صاف سُتھری لیکن بنا استری کے، کالج کی وردی پہنے ہوئے تھا۔
“تو چل میرے گھر بیٹھ، میں آتا ہوں” مانک نے اُسے ٹالنے کیلئے لیکن بظاہر اشتیاق کے ساتھ کہا۔ دن کے نو بجے وہ گاوں سے نکلے۔ مانک نے کارڈ بنوانے کیلئے مطلوبہ رقم سے اضافی بھی کچھ پیسے جیب میں ٹھونس لئے تھے۔ دراصل اُسے منظور نے جھانسہ دیا تھا کہ وہ شناشناختی کارڈ بنوانے کے بعد فیصل آباد کے بڑے سنیما میں مُجرا دیکھیں گے۔
سفر کے دوران پہلے تو وہ ادھر اُدھر کی گپیں ہانکتے رہے، پھر اچانک مانک کو خیال آیا؛
“یار مَنّے، یہ بتا کہ مُجھے کیا فائدہ ہوگا شناختی کارڈ بنوانے کا؟ بس ووٹ دینے کے لئے ہی ہوتا ہے؟؟” مانک نے منظور سے پوچھا۔
“نہیں یار، بڑے کام کی چیز ہوتا ہے یہ۔ اس کا مطلب یہ سمجھ لو کہ ایک بار تمہارا کارڈ بن گیا تو تم ملک کے پکے شہری ہو، اب حکومت پابند ہے کہ تمہیں تمہارا صحت کا حق، تحفظ اور انصاف فراہم کرے ۔ اب تم کسی بھی سرکاری اہلکار سے سر چڑھ کر بات کرسکتے ہو اور اپنے جائز کام کروا سکتے ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ملک کے ایک معزز فرد ہو”.
منظور کالج میں سوشیالوجی پڑھتا تھا لہٰذا پُر جوش ہو کر اُسے سمجھانے لگا۔ پہلے تو مانک کو کچھ سمجھ نہ آئی لیکن پھر اُس نے ذہن پر کچھ ذور دیا تو اسے خیال آیا کہ یہ تو بڑے اعزاز کی بات تھی۔
وہ ‘نادرا’ کے دفتر پہنچے تو باری آنے پر اُسے مختلف مراحل سے گذرنا پڑا جو کہ اس کے لئے بڑے خوشگوار تھے۔ وہ پہلی بار کسی اتنی شاندار، صاف ستھری اور ائر کنڈیشنڈ عمارت میں داخل ہوا تھا۔ اُسے سب سے زیادہ خوشی اور سرشاری اس لمحے ہوئی جب ایک مرحلے پر ایک حس حسیِن لڑکی نے اُس سے اس کے بنیاد ی کوائف اور اُس کے ‘ب’ فارم کے بارے میں چند باتیں کیں۔
“تمہارے نام کا مطلب کیا ہے مانک بابو؟”
لڑکی نے بظاہر بڑی دلنواز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
“پتہ نہیں جی، ابا نے رکھا تھا”، مانک نے مسکرا کر سادگی سے جواب دیا لیکن اُسے اپنے جسم میں ایک خوشگوار سی بجلی کوندتی محسوس ہوئی۔
“اور تمہارے ابّا کا نام، مٹکُو، تمہارے دادا نے رکھا تھا؟” لڑکی نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بھی شرما کر ہنس دیا۔
انگوٹھا لگوانے کا مرحلہ آیا تو اس لڑکی نے مانک کا ہاتھ پکڑ کر اسکیننگ کی مشین پر درست طریقے سے رکھا تو اگلے آٹھ پہر تک مانک کے من میں لڈو پھوٹتے رہے۔
گاؤں واپسی کے سفر میں وہ اسی کے سحر میں کھویا رہا۔ زندگی میں پہلی بار کسی حسینہ نے اور وہ بھی “افسر” حسینہ نے اُس سے یوں ہنس کر بات کی تھی۔ اُس کا خیال تھا کہ یہ شناختی کارڈ کی بدولت تھا ورنہ وہ تو ایک ایسی ذات سے تعلق رکھتا تھا جسے دیہی پنجاب میں کوئی بھی معزز نہیں سمجھتا۔
پنجاب کے ان دراوڑ نژاد باسیوں کو ہزاروں سال گزر جانے کے بعد بھی حملہ آور جہازیوں کی اولادوں نے کبھی انسان تک نہیں سمجھا۔ وہ خود کو کوس رہا تھا کہ پہلے شناختی کارڈ بنوانے کیوں نہیں آیا اور اس کے طفیل آنے والے اچھے دنوں کے سنہرے سپنے دیکھ رہا تھا۔
جس روز ڈاکیے نے ‘نادرا’ کا سفید لفافہ اسے لا کر دیا تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اٹھارہ سالہ زندگگی میں پہلی بار ڈاکیا اس کے لیے کچھ لے کر آیا تھا۔
اب وہ گاؤں بھر کی دیگر باتوں کے علاوہ صوبائی اور ملکی سیاست کی باتیں بھی غور سے سنتا تھا اگرچہ اسے سمجھ کسی بات کی نہیں آتی تھی۔ وہ اکثر منظور سے ریاست اور قانون کی باتیں بھی پوچھتا تھا، جن میں سے کم ہی کسی بات کا جواب منظور کے پاس ہوتا۔
ایک دن منظور نے اسے ایک ایسی بات بتائی جسے وہ بمشکل سمجھ سکا لیکن جب سمجھ آئی تو اسے ایسا لگا جیسے وہ ایک ہی لمحے میں تعلیم یافتہ اور باشعور ہو گیا ہے۔
بات صرف اتنی سی تھی کہ ہر شہری کے کچھ حقوق ہوتے ہیں اور کچھ فرائض ہوتے ہیں۔ وہ اپنے فرائض پورے کرنے کا پابند ہے، جبکہ حکومت پابند ہے کہ وہ شہری کے حقوق کا خیال رکھے۔
مانک کی آنکھیں تب حیرت سے کھل گئیں جب منظور نے اسے چند چیدہ چیدہ شہری انسانی حقوق بتائے۔ اگلے دس پندرہ دن اپنی سمجھ کے مطابق وہ اپنے ذہن میں انہی باتوں کی جگالی کرتا رہا اور الیکشن آ گئے۔
الیکشن کے روز اس کی ماں اور بوڑھے دادا نے صاف دھلے ہوئے کپڑے پہنے، سب نے اپنے اپنے شناختی کارڈ سنبھال کر پاس رکھ لیے۔ صبح صبح چوہدری امتیاز کا بیٹا صحن میں کھڑا پکار رہا تھا۔ “بابا اللہ یار! ماسی بکھاں” مانک کی ماں نے آگے جا کر اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔
“ماسی، باہر ہائی ایس تیار کھڑی ہے، آؤ، تم لوگوں کو پولنگ اسٹیشن لے جانا ہے۔” چوہدری امتیاز کے بیٹے نے بڑی خوش خلقی سے کہا۔ سب کے شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں ہائی ایس میں بٹھایا گیا۔
پولنگ اسٹیشن کی گہماگہمی اپنی جگہ، لیکن ایم این اے کے امیدوار چوہدری شفیع محمد کے مقامی سپورٹر چوہدریری امتیاز نے جس خوش اخلاقی سے اس کی ماں اور بوڑھے دادا کا استقبال کیا، اور جس بے تکلفی سے اس کا شانہ تھپتھپایا، مانک کو محسوس ہوا کہ یہ سب شناختی کارڈ کی برکات تھیں۔
ووٹ ڈالنے کے بعد ایک بڑے شامیانے کے نیچے بیٹھ کر اس نے اپنی ماں اور دادا کے ہمراہ چوہدری صاحب کی جیب خ خاص سے بریانی کھائی اور پیپسی پی۔ ایک عرصے بعد اسے اتنی زیادہ بریانی کھانے کو ملی تھی۔
جو چوہدری امتیاز اسے کبھی سیدھے نام سے بھی نہیں پکارتا تھا، آج ان کو سیاست کی باتیں بتا رہا تھا اور اس کے دادا کے تبصروں پر داد دے رہا تھا۔ مانک بار بار جیب میں ہاتھ ڈال کر اپنے شناختی کارڈ کو ٹٹول رہا تھا۔ ان کے گھر میں شاید ہی اس کے علاوہ کاغذ کا کوئی ٹکڑا یا تحریر موجود ہو، اور یہ واحد تحریر اس کے لیے بہت قیمتی بن چکی تھی۔
الیکشن گزر گئے، زندگی پھر معمول پر آ گئی۔ چوہدری شفیع محمد ایم این اے اور وفاقی وزیر بن چکا تھا۔ چوہہدری امتیاز علی اور ان کے خاندان کو نوازا جا چکا تھا اور علاقے کے اکثر تھانے دار، تحصیل دار، پٹواری اور قانون گو اس کی نظر کرم کے بعد اپنے عہدوں پر مزید پختہ اور باجبروت ہو چکے تھے۔
مانک کی زندگی کا کینوس پھر کھیتوں سے اپنے گھر کے درمیان سکڑ گیا۔ کئی دن بیتے تو ‘نادرا’ والی حسین لڑکی، الیکشن کا یادگار دن، اور چوہدری امتیاز کی باتیں قصۂ پارینہ بن گئیں۔ لیکن شناختی کارڈ پر لکھے الفاظ جو وہ پڑھ بھی نہ سکتا تھا، اس کے ذہن و دماغ پر ثبت ہو چکے تھے۔
گرمیاں ختم ہو گئیں، بھادوں کا حبس گرمیوں سے بھی بڑھ کر جان لیوا تھا۔ مانک اب بھی کھیتوں سے فارغ ہو کر نلکے پہ نہاتا اور پھر دیر تک ڈیرے پر بیٹھا دوستوں کو ہیر سنایا کرتا تھا۔
ایک شام وہ کھیتوں سے سیدھا گھر آیا تو وہاں خواتین کا جمگھٹا دیکھ کر اسے تشویش سی ہوئی۔ گھر کے گرد چاردیواری نہ تھی، اور گھر بھی کیا تھا، بس ایک جھونپڑی تھی جس میں گھر کے تین افراد رہتے تھے۔ وہ دوڑ کر جھونپڑی کے دروازے پر آیا تو دیکھا کہ اس کا دادا نیم بیہوش پڑا ہانپ رہا تھا اور اس کے سر سے خون ایک باریک سی دھار کی صورت میں بہہ کر اس کی سفید داڑھی میں کہیں جذب ہو گئی تھی جبکہ ہمسائیاں اسے پانی پلا کر ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھیں۔
“کیا ہوا دادے کو؟ اماں کہاں ہے؟!” اس نے تیزی سے ایک عورت سے پوچھا۔
بتایا گیا کہ علاقے کا تھانیدار اس کی تلاش میں آیا تھا، اسے گرفتار کرنے، کہ اسے اس پر ڈکیتی کا شبہ تھا۔ اس کی ماں نے یہ سنا تو آپے سے باہر ہو گئی اور تھانیدار کو خوب سنائیں۔ تھانیدار نے اسے حکم دیا کہ اس کی ماں کو ہی گرفتار کر کے تھانے لے جایا جائے۔
جب سپاہیوں نے مانک کی ماں کو گھسیٹنا شروع کیا تو بوڑھے اللہ یار نے آگے بڑھ کر اپنی لاٹھی ایک سپاہی کے رسید کی۔ جواب میں بندوق کے بٹ کی ایک ہی ضرب نے اگلے ایک گھنٹے کے لیے بوڑھے کو خاموش کر دیا۔
کچھ عورتوں نے مانک کو کوسنا شروع کر دیا کہ اس کی ایک بری حرکت کی وجہ سے اس کی بوڑھی ماں اور بوڑھے دادا پر یہ ظلم ہوا۔ وہ قسمیں کھا کر اپنی صفائیاں پیش کرنے لگا لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سنی، تو وہ غصے کے عالم میں سیدھا گھر سے نکلا اور تھانے کی طرف رواانہ ہو گیا۔
تھانے میں داخل ہوا تو علاقے کے نئے ایس ایچ او انسپکٹر مقصود احمد وڑائچ صاحب اپنی جلالت مآب توند اور مونچھوں کو بڑے سلیقے سے اپنی صاف ستھری اور اجلی وردی کے ہمراہ سمیٹ کر تھانے کے صحن میں دفتر جمائے بیٹھے تھے۔ ‘بارک ملازمان’ کے دروازے کے ساتھ اسے اپنی ماں دبکی بیٹھی نظر آئی۔
اس نے جاتے ہی تھانیدار سے اپنا تعارف کرایا اور اپنا شناختی کارڈ نکال کر اس کے سامنے میز پر رکھ دیا۔
“اوئے کہاں گیا تھا تو؟ اب چلا آیا ہے اپنی ماں کی عزت افزائی کروا کے؟” تھانیدار نے سخت ناگواری سے اس کا کارڈ دیکھے بغیر کہا۔
“چوہدری صاحب، میرا قصور بھی تو بتائیں ناں” مانک نے احتجاجی لہجے میں کہا تو پاس کھڑے سب انسپکٹر نے ایک زناٹے دار تھپڑ اس کی گدی پر جمایا اور وہ قریب قریب تھانیدار کی میز پر جا گرا۔ “مصلّی کا بچہ! ایس ایچ او صاب سے پوچھتا ہے، میرا جرم کیا ہے!” سب انسپکٹر نے، جسے سب شاہ صاحب کہہ کر پکار رہے تھے، غصے اور حقارت سے کہا۔
مانک کو تھپڑ اتنے زور سے لگا تھا کہ اس کی آنکھوں میں درد کی شدت سے آنسو آ گئے۔
ایک فیصل آباد پر ہی کیا موقوف، پورے پنجاب کے دیہی علاقوں میں وارداتوں کے بعد شک کی بنا پر سب سے زیادہ پکڑی جانے والی قوم مصلّیوں کی ہے۔ کیونکہ ان کے لیے نہ کوئی سیاستدان آگے آتا ہے اور نہ ہی کوئی وکیل ان کے کیس لڑتا ہے۔
غریب، ان پڑھ، گنوار اور شاید کالے ہونے کی وجہ سے ان کا شمار ہمارے کسی طبقے سے نہیں ہے، اور مانک کی بدقسمتی کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر سکا تھا۔
“صاحب یہ کارڈ ہے میرا۔ دیکھ رہے ہو کیا لکھا ہے اس پر؟ میں ایک شریف آدمی ہوں۔ میری ماں کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔” مانک نے رندھے ہوئے گلے کے ساتھ بمشکل ایس ایچ او کو کہا۔
“کیا لکھا ہے اس پر؟ ایم پی اے کا کارڈ ہے یا ایم این اے کا؟” ایس ایچ او نے ہنس کر کہا تو سب انسپکٹر نے اسے گریبان سے پکڑ کر کھینچ لیا۔ “ہاں ہاں۔ پتہ چل جاتا ہے۔ ناانصافی کس کے ساتھ ہوئی ہے۔”
ایس ایچ او نے ہاتھ سے اشارہ دیا کہ مانک کو دور لے جایا جائے۔
“صاحب! آپ کا فرض ہے انصاف کرنا، ظلم کرنا نہیں۔۔” مانک نے قریب قریب روتے ہوئے کہا تو سب انسپکٹر نے زور سے مانک کے پہلو میں لات رسید کی۔ “ہمیں ہمارا فرض بتائے گا مصلّی کی اولاد!”۔
مانک منہ کے بل گرا تو اس کی ماں چیخ کر دوڑی۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ مانک کے قریب آتی، سب انسپکٹر نے اسے زور سے دھکا دیا اور وہ قلابازیاں کھاتی ہوئی فرش پر اوندھی جا گری۔ مانک نے چیخ کر سب انسپکٹر شاہ کو بہن کی گالی دی اور اُسے زور سے دھکا دے کر اپنی ماں کی طرف دوڑا۔
“مارو اس حرامزادے کو۔۔۔”، ایس ایچ او نے یہ منظر دیکھا تو گرج اٹھا “حرامزادے ہوتے ہیں تیرے جیسے، چوہدری۔۔۔” مانک بھی چلّا کر بولا تو سارے سپاہی دوڑ کر اکٹھے ہو گئے۔ اس کے بعد مانک پر وہی گزری جو تھانوں میں اکثر غریب حوالاتیوں پر گزرتی ہے۔
چوہدری امتیاز علی کے ڈیرے پر بنے نجی ٹارچر سیل میں ایک ہفتہ گزارنے کے بعد مانک میں مزید ایذا برداشت کرنے کی ہمت نہ رہی تو چوہدری مقصود وڑائچ اور سب انسپکٹر سید انتظار حسین شاہ کے نجیب خون نے جوش مارا اور انہوں نے غریب مصلّی کو رہا کر دیا۔ مانک کی ماں اور دادا سے خالی کاغذوں پر انگوٹھے لگوا لیے گئے، دو سپاہی مانک کو چارپائی پر اٹھا کر اسے گاؤں چھوڑ آئے۔
اس کے بعد مانک کی زندگی کے چند واقعات ہی قابل ذکر ہیں۔ ایک تو یہ کہ گاؤں کے لوگوں کو یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ الہڑ عاشقوں کے سے لہجے میں ہیر سنانے والے مانک مصلّی کی زبان تھانیدار صاحب نے گالی بکنے پر بلیڈ کی دھار سےکاٹ دی تھی۔
دوسرا یہ کہ جب وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو اس نے اپنا قومی شناختی کارڈ چولھے میں جھونک ڈالا۔
تیسرا قابل ذکر واقعہ ہونے میں تھوڑا وقت لگا، مانک مصلّی کا نام گونگا مصلّی پڑ گیا۔ اسے اس کی پروا بھی نہیں تھی کہ وہ سبز شناختی کارڈ پر لکھی اپنی شناخت پر اب لعنت بھیجتا تھا۔
گونگا مصلّی اب تو کچھ نیم پاگل سا بھی لگنے لگا ہے۔ کسی نے بتایا ہے کہ لفظ ‘شناختی کارڈ’ سن کر وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور اپنی گونگوں کی بولی میں بہت گالیاں بکتا ہے۔