مرے چراغ
علی اکبر ناطق: مرے چراغ بجھ گئے میں تیرگی سے روشنی کی بھیک مانگتا رہا ہوائیں ساز باز کر رہی…
حفیظ تبسم: آج پھر بوڑھے ہوتے شہر میں بے بسی قہقہے لگاتی رہی اور نیند کے سگریٹ پھونکتے پہرے دار…
حفیظ تبسم: میں کچھ دن اور زندہ رہ سکتا تھا اگر۔۔۔۔ میرے ہاتھ میں پھول نہ ہوتے
سید کاشف رضا: تاریخ سے اجتماعی مباشرت ہم نے کھیل سمجھ کر شروع کی پھر شور بڑھتا گیا
علی اکبر ناطق: زہر در و دیوار کے ڈھانچے کھا جائے گا شہر کا ماتم کرنے والا کون بچے گا…