Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

گھنٹی

test-ghori

test-ghori

16 اکتوبر, 2016

[blockquote style=”3″]

ابھی حال ہی میں میں نے بھارت کے جزائر انڈمان کی سیاحت کی اور دوران سفر لیپ ٹاپ پر ہی اس تحریر کو مکمل کر لیا۔ یہ تحریر بہت حد تک صداقت پر مبنی ہے جو شاید سفر نامے سے بہت قریب ہے بلکہ دوسرا حصہ خالص سفرنامہ ہے جبکہ پہلا حصہ خالص افسانہ، اور تیسرا حصہ افسانے اور سفر نامے کے درمیان کہیں واقع کہا جا سکتا ہے۔ دونوں اصناف کے ملغوبے کو میں نے “سفر فسانہ” کا نام دیا ہے۔ لیکن دقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایسی کوئی اصطلاح رائج نہیں ہے تاہم میں اس کو “سفر فسانہ” کہنے پر ہی اصرار کروں گا۔
پسند و نا پسند کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں۔
آصف زہری

[/blockquote]

پھر اس نے، ایک چپراسی کی مدد سے، بہت ہی محنت و مشقت کے بعد بلی کو پکڑ لیا اور احساس فتح سے سرشار،اس کو گود میں لیے ہوئے ہوسٹل کی لابی میں آیا۔ بہت دیر تک بلی کے نرم، ملائم جسم پر ہاتھ پھیرتا ہوا ٹہلتا رہا۔ کینٹین میں خود چائے پی اور بلی کو دودھ پلایا،لیکن اپنے کمرے میں واپس آ کر بلی کے گلے سے ایک ننھی سی گھنٹی باندھی اور اسے کھڑکی سے باہر اچھال دیا۔ بمبئی اور اس کے اطراف کے علاقوں میں گرمی کا موسم بہت ہی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ دن میں حبس اور گھٹن بہت بڑھ جاتی ہے اور راتیں نسبتاً خوشگوار ہوتی ہیں اور رات کی تازی ہوا بھلی لگتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے ہمارے ہوسٹل کا وارڈن: منال زارے (Manaal Zare) کھڑکی کھول کر سویا کرتا تھا۔ اس کے مطابق کھڑکی دروازے بند کر کے سونا بیماریوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔اب اس کی کھلی ہوئی کھڑکی سے بلی جب بھی کودتی اس کو خبر ہو جاتی اور وہ ڈنڈا لے کراس پر پل پڑتا۔ عجیب سنکی آدمی تھا، دو تین دنوں تک وہ رات میں ڈنڈا لے کر سوتا رہا۔ اس ترکیب سے اس کا دودھ تو محفوظ ہو گیا لیکن بلی کو اپنا پیٹ بھرنے کے بھی لالے پڑ گئے۔مطبخ اور کینٹین میں بلی کے پہنچنے سے قبل ہی اس کے گلے میں پڑی ہوئی گھنٹی کی آواز پہنچ جاتی، چوہے بھی گھنٹی کی آواز سے ہوشیار ہو جاتے۔ نتیجتاً بیچاری بلی، چار پانچ روز کے بعد ہوسٹل کے ایک باتھ روم میں مردہ پائی گئی۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ جب اس کو بلی کی موت کا علم ہوا تو اپنے مخصوص انداز میں، ایک ہاتھ میں بید کی چھڑی اور دوسرے میں سگار پائپ کے ساتھ، معائنے کے لیے آیا۔ شاید۔۔۔ پہلی بار ہوسٹل میں مقیم طلبا نے اس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی۔لوگوں کی تیز نگاہوں کی پرواکیے بغیراس نے ہوسٹل کے سوئپر کو بلوایا، گھنٹی کھلوائی، باقاعدہ صابن سے دھلوایا اور اپنی جیب میں ڈال کر چلا گیا۔

دو تین دنوں کے بعد رات کے کھانے سے فارغ ہوکر میں پڑھنے کے لیے بیٹھا ہی تھا کہ وہ گربہ قدم میرے کمرے میں داخل ہوا اور حسب دستور میرے غیرمراٹھی روم میٹ، جو اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھا ، ریڈیو پر گانے سننے میں مگن تھا، ایک چھڑی جمائی، دو چار جملوں میں اسے سخت سست کہا اور پانچ منٹ بعد، مجھے اپنے کمرے میں طلب کرتے ہوئے چلا گیا۔ میں بھی گرچہ غیر مراٹھی تھا تاہم میرے تئیں اس کا رویہ غیر جانبدارانہ بلکہ سفاکانہ نہیں تھا۔ شاید اس لیے کہ اسے اسلامیات سے گہری دلچسپی تھی،یا کم از کم ایسادکھانے کی کوشش کرتا تھا۔ لوگوں نے اکثر اسے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس کے کمرے میں بھی نصف سے زائد کتابیں بھی اسلامیات سے متعلق تھیں۔ غالباً اپنی اسی دلچسپی کے باعث، اکثر مجھے اپنے کمرے میں طلب کر کے اسلام کے بنیادی مسائل پر استفسار کیا کرتا۔ میں وقت مقررہ سے کچھ پہلے ہی اس کے کمرے میں پہنچ گیا۔ اس نے مجھ سے اسلام کے متعلق چند بے تکے سوالات پوچھے کہ نماز کیوں پانچ بار پڑھی جاتی ہے، کیوں نہیں ان کی تعداد چار یا چھ مقرر کی گئی؟ اسلام میں پانچ نمبر کو اتنی اہمیت کیوں حاصل ہے ،مثلا ارکان اسلام پانچ ہیں، نمازیں پانچ ہیں جبکہ آسمانی کتابوں کی تعداد صرف چار ہے؟ میں بے چارہ نویں کا طالب علم کیاجواب دیتا، لیکن حیرت اس بات پر ہوئی کہ موصوف نے اسلامیات سے متعلق اتنی ساری کتابیں پڑھ ڈالی ہیں پھر بھی اس طرح کے سوالات پوچھ رہے ہیں؟ لیکن میری حیرت دیوار پر آویزاں ایک چیز کو دیکھ کر اپنی انتہا کو پہنچ گئی کہ یہ شخص جو درویشوں جیسی زندگی گزارتا ہے، جس کے کمرے میں ہوسٹل سے فراہم کردہ اسباب کے علاوہ چند جوڑے کپڑے، ایک بستر، گلاس اور ایک آدھ برتن جیسی ضروری چیزوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں، جو آسائشی اور زیبائشی چیزوں سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ میرے علم کے مطابق موصوف علم سیاسیات (Political Science) میں نہ صرف پی ایچ ڈی تھے بلکہ موصوف کی بیش بہا خدمات کے عوض مختلف تہذیبی اور رفاہی اداروں نے انہیں تمغوں اور انعامات سے بھی نوازا تھا۔ اس طرح کی بے شمار تصویریں، میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھی تھیں لیکن موصوف ان کو دیواروں پر آویزاں کرنا یہ کہہ کر پسند نہیں کرتے تھے کہ یہ سب ایسی کامیابیاں نہیں ہیں جنہیں امتیازی نشانات سمجھ کر ان کی نمائش کی جائے۔۔۔ آج ان ہی کے کمرے میں بلی کے گلے سے کھولی گئی گھنٹی ایک واضح مقام پر کسی تمغے کے مانند آویزاں ہے!۔۔۔۔ میری حیرت کو بھانپ کر انہوں نے کہا کہ اس کو دیوار پر آویزاں کرنے کا کوئی خاص سبب نہیں ہے بس یہ ننھی سی کانسی کی گھنٹی مجھے بہت پیاری لگی، اس لیے ایک پرانے مومنٹو(Momento) جو ایک شو کیس میں نصب تھا، نکال باہر کر، اس کو لگا دیا اور دیوار پر آویزاں کر دیا۔ گھنٹیاں مجھے اس لیے پسند ہیں کہ قبل از تاریخ، عوامی ذرائع ترسیل کی ابتدا شاید اسی سے ہوئی ہو گی۔ مزید یہ کہ اب تک چوہے اور بلی کی کہانی یہیں پر ختم ہو جاتی تھی کہ بلی کے گلے میں آخر گھنٹی کون باندھے۔ اب۔۔۔میں نے کہانی کو مکمل کر دیا۔ جانتے ہو! گھنٹی کی ایجاد گرچہ چین میں ہوئی لیکن اس کا بامعنی اور با مقصد استعمال شاید سب سے پہلے انگریزوں نے کیا۔اچھا تمہیں معلوم ہے کہ کالا پانی یعنی انڈمان نکو بار کی جیل میں تین ملزموں کو ایک ساتھ، رات کے وقت پھانسی دی جاتی تھی اور پھانسی کے وقت جیل کے ساتوں بازو(Wings) کے درمیان ایستادہ ٹاور پر نصب بڑا سا گھنٹا زور زور سے بجایا جاتا نیز ٹاور پر لگا ہوا سرخ بلب تیزی سے جلنے اور بجھنے لگتا تھا۔ گھنٹی کی آواز پانی کے دوش پر بہتی ہوئی بالخصوص رات کے وقت دور تک پھیلتی تھی جو ایک طبقے کے لیے باعث طمانیت و راحت اور شاید احساس فتح سے ہمکنار کرنے والی تھی تو دوسروں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیتی ہو گی۔ ظالموں نے ہراساں کرنے اور ایذا رسانی کے کیسے کیسے طریقے ایجاد کیے۔ مت پوچھو۔ “ولاد سوم ڈریکولا” کی پسندیدہ سزا “سیخ کرنا” (Impalement) بے انتہا اذیت ناک تھی، لیکن سیخ کرنے کی سزا میں استعمال کیا جانے والا ڈنڈا ملزم کی کوٹھری کے سامنے، تین چار روز قبل ہی لا کر رکھ دینا۔۔۔۔۔۔۔گویا آئندہ کی تکالیف اور موت کا انتظار۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا تصور بھی کس قدر اذیت ناک ہے۔میں تاریخ پر اس کی معلومات سے کافی مرعوب ہوا ساتھ ہی اس کی انسان دوستی سے بھی متاثرہوا کہ برسوں پہلے مجبورانسانوں پر ڈھائے گئے مظالم سے یہ انسان آج بھی کتنا دکھی ہے۔لیکن بلی کے ساتھ اس کے ناروا سلوک کو کس خانے میں رکھا جائے؟

میں نے واپس آکر گھنٹی آویزاں کرنے والی بات جب دوستوں اور چند دیگر نرم مزاج اساتذہ کو بتائی، تو چند ساتھیوں نے بلی کے ساتھ کی گئی کاروائی کو محض بدلے کی کاروائی پر محمول کیا تو کچھ ساتھیوں نے اسے اذیت پسند ذہنیت کا عکاس قرار دیا۔ لیکن ہمارے ریاضی کے استاد: ہریش کالے (Hareesh Kaley) جو کبھی ان کے ہم جماعت تھے، نے ان کے ہوسٹل کے ایام سے متعلق ایک ایسا واقعہ بتایا جس کی روشنی میں ان کی تمام ترحرکات و سکنات ان کی اذیت پسند اور آمرانہ فطرت کی تصدیق کرتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ انہوں نے بتایا کہ ہوسٹل میں قیام کے دوران ایک بار اس نے اپنی سفید شرٹ دھوئی، ایک لکڑی کے درمیان رسی باندھ کر ہینگر بنایا اور شرٹ کو ہینگر کرکے ہوسٹل کے اندر ہی اُگے ہوئے امرود کے درخت کی ایک ٹہنی سے باندھ دیا، لیکن کچھ دیر کے بعد درخت پر بیٹھے ہوئے کوے نے اس کی شرٹ پر بیٹ کر دی۔ اس نے شرٹ دوبارہ دھوئی، مگر اس بار سکھانے کے لیے کمرے میں لٹکایا۔ اس روز اتوار یا کوئی چھٹی کا دن تھا لہذا اس کے پاس فرصت تھی۔ اس نے کوے کو پھنسانے کے لیے باقاعدہ پھندا تیار کیا اور بالآخر شام تک اس نے ایک کوے کو پکڑ ہی لیا۔ دیگر کووں کے حملوں سے بچتے ہوئے وہ اسے اپنے کمرے میں لے گیا، اس کے منہ پر کپڑا رکھا اور کوے کے پروں کو چھوڑ کر اس کے سارے بال نوچ ڈالے۔ پھر اس بے چارے کو آزاد کر دیا۔ کوے کی حمایت میں جمع اس کی برادری، اس نرالے کوے کو دیکھ کر منال کے خلاف نعرہ احتجاج بلند کرنے کے بجائے اس کوے پر ہی چونچیں مارنے لگی۔ وہ کوّا اسی امرود میں چھپنے کی ناکام کوشش کرتا رہا اور دوسری صبح مردہ پایا گیا۔

چند ہی دنوں میں ہمارے ہوسٹل میں یہ مشہور ہو گیا کہ منال صاحب اذیت پسند ہیں۔ تمام طلبا بالخصوص غیرمراٹھی طلبا پہلے ہی ان سے خوف زدہ رہتے تھے لیکن ان واقعات سے آگہی کے بعد طلبا نہ صرف ان سے بچنے کی کوشش کرتے ،بلکہ ان کے گلے میں بھی گھنٹی باندھنے کے طریقوں پر غور وخوض کرنے لگے۔ آئے دن خفیہ طریقے سے میٹنگیں منعقد ہونے لگیں اور بالآخرحل بھی تلاش کر لیا گیا تاہم ہمارے ہوسٹل کی بناوٹ ایسی تھی کہ تمام کمروں پر اس کا اطلاق مشکل تھا۔ دراصل ہوسٹل پرانے طرز کی، محراب دار، یک منزلہ اور باہر سے دیکھنے پر ایک چوکور عمارت تھی جس کے سامنے یعنی مغرب کی جانب ایک بڑا سا محراب والا دروازہ تھا۔اس محراب دار داخلی دروازے کے دونوں جانب پانچ پانچ کمرے نیز شمال، جنوب اور مشرق سمت میں بارہ بارہ کمرے تھے اور ہر کمرے میں دروازے کے بالمقابل ایک ایک کھڑکی تھی جس میں چھ چھ انچ کی دوری پر سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔ کمروں کے سامنے ایک طویل راہداری تھی۔ ہوسٹل کے باہر، شمال جنوب اور مغرب کا حصہ عام طور پر لوگوں کے استعمال میں رہتا، جبکہ مشرقی حصے میں جھاڑیاں اور دس پندرہ درخت تھے۔ اس حصے میں لوگوں کی آمدو رفت بھی نسبتاًکم تھی۔ صدر دروازے سے داخل ہوتے ہی دائیں جانب کے پہلے کمرے میں منال صاحب بحیثیت وارڈن مقیم تھے۔”وارڈن کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی ترکیب” کے مطابق مشرقی کمروں میں مقیم طلبا نے بارہوں کمروں کی کھڑکیوں کی سلاخ سے پھنسا کر پلاسٹک ایک پتلی سی رسی باندھی اور اس سمت کے تمام کمروں میں ایک ایک گھنگرو نما گھنٹی، بارہوں کمروں سے گذرنے والی رسی سے باندھ دی گئی۔جیسے ہی وارڈن صاحب راؤنڈ پر نکلتے، ان کمروں میں رہنے والوں میں سے جو پہلے دیکھتا، رسی ہلانے لگتا اور گھنٹی بجنے لگتی۔اس طرح کم از کم مشرقی کمروں کے طلبا ان کی گرفت میں آنے سے بچ جاتے۔میرا کمرہ بھی مشرقی حصے میں تھا۔ میرے روم میٹ کے علاوہ مزید تین غیرمراٹھی بھی اس حصے میں رہتے تھے۔ ایک ڈیڑھ مہینے تک انہیں اس ونگ سے کوئی، بالخصوص غیرمراٹھی شکار نہیں ملا تو شاید انہیں تشویش لاحق ہوئی اور انہوں نے چھان بین کی ہو یا کسی طالب علم نے جاسوسی کر دی ہو۔بہرحال ہماری ہوشیاری پکڑی گئی۔ پہلے تو انہوں نے اپنی گردن سے گھنٹی اتار پھینکی پھرہم سب کی خوب قاعدے سے دھلائی کی۔ کچھ طلبا کو بہت زیادہ چوٹیں آئیں تو بات پرنسپل اور منیجر تک پہنچ گئی۔ شاید غیرمراٹھی طلبا کی بددعائیں یا ان کی کوششیں رنگ لائیں اور منال کو وارڈن شپ سے برخواست کردیا گیا۔ تاہم بحیثیت استاد وہ سماجیات (Social Studies) پڑھاتے رہے۔ پڑھاتے پڑھاتے اچانک تین مہینوں کے لیے وہ غائب ہو گئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ موصوف بمبئی کے چند ایسے افراد کے براہ راست رابطے میں ہیں جو ملک کی سالمیت اور بقا ،یا پھر شاید اپنی بقا کے لیے قومی اتحاد کو ضروری تصور کرتے تھے۔ موصوف نہ صرف ایسے لوگوں کے مقرب خاص ہیں بلکہ انہیں کے ساتھ، ایک نئے اسکول کے قیام کے لیے چندہ کی غرض سے خلیج ممالک کے دورے پر ہیں۔ واپسی پر انہوں نے چلڈرین(Children School) اسکول کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کر لیا۔ اس کی مینیجمنٹ (Management)سنبھالنے کے علاوہ وہ ہمارے اسکول میں سماجیات (Social Studies)بھی پڑھاتے رہے۔ میری دلچسپی ان کی شخصیت میں مزید بڑھتی چلی گئی اور میں دور ہی دور رہ کر ان کی حرکات و سکنات کامطالعہ اور ان کی شخصیت کا تجزیہ کرتا رہا۔

مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ منال سر سے میری پہلی ملاقات ہوسٹل میں داخلے کی کاروائی مکمل کرنے کے دوران ہوئی۔ دراز قد، چوڑا سینہ،فربہ مائل مگرلجلجا بدن، جبڑے باہر نکلے ہوئے، کشادہ پیشانی پر مسلسل چڑھی ہوئی تیوری کے نشانات،متلاشی متحیر مگر پر عزم بلکہ شراب فتح سے مملوء پرغرور آنکھیں جن سے بے پناہ انانیت ٹپکتی تھی۔گول ناک اور گول چہرہ، ترشی ہوئی گول داڑھی جو ان کے چہرے کو مزید گول گول بنا کر پیش کر رہی تھی۔ گولائی میں ایک خامی یہ ہوتی ہے کہ اس کو دیکھ کر کوئی بھی تصور واضح نہیں ہوتا ہے بلکہ تصور اور تاثر سر اٹھانے سے قبل ہی کولھو کے بیل کے مانند بے حسی کا شکار ہو کر کولھو (مشین) کا ہی ایک حصہ بن جاتے ہیں۔منال سر، گرچہ سبزی خور تھے لیکن مسکراہٹ سے بے نیاز،ان کے موٹے موٹے ہونٹ اس طرح باہر نکلے ہوئے تھے جیسے وہ گوشت کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ اور پکا کر کھانے کے بجائے براہ راست دانتوں اور ہونٹوں سے بھنبھوڑنے کے قائل ہوں۔ قدم نہایت نپے تلے۔ چلتے یا کھڑے ہوتے تو جسم اس قدر سیدھا کہ انہیں سطح کی ہمواری ناپنے والے آلے (Leveler)کی جگہ استعمال کیا جاسکے۔ بولتے کم تھے لیکن جب بھی بولتے بہت ٹھہر ٹھہر کر گویا مد مقابل کے حامی بھرنے کا یقین ہو۔ میں نے شدت سے یہ بھی محسوس کیا جس کسی فرد یا افراد کے گروپ نے ان کے مد مقابل کھڑے ہونے کی کوشش کی اسے شکست سے دوچار ہونا پڑا، یا پھر وہ پس منظر میں چلا گیا،خواہ وہ پرنسپل ہی کیوں نہ ہو۔ گرچہ ان کے زیادہ تر احباب ایسے تھے جو بہت جلد ہی ان کی رفاقت سے گھبرا کر کنارہ کشی اختیار کر لیتے۔ تاہم شخصیت میں کوئی سحر جیسا عنصر تو تھا کہ ہر شخص ان سے مرعوب ہو جاتا۔ داخلہ کروانے کے لیے میں ابو کے ساتھ آیا تھا۔ ابو بھی ان سے اس قدر مرعوب ہوئے کہ مجھے بطور خاص ان کی نگرانی میں دے دیا۔ ابو سے ان کی ملاقات شاید تین چار بار ہی رہی اور ابو کا بمبئی سے علی گڑھ ٹرانسفرہوگیا۔ مجھے ہوسٹل میں ڈالنے کا سبب آئے دن کا ٹرانسفر اور اس سے پیدا ہونے والی پریشانیاں ہی تھیں۔ میں نے بھی والدین کی وجہ سے،دسویں کے بعد علی گڑھ میں داخلہ لے لیا لیکن ایک ہی سال ان کی معیت میں گزارے کہ وہاں سے بھی ان کاٹرانسفر ہوگیا اورگریجویشن مکمل کرکے میں دہلی آگیا۔ پھر بعد میں تعلیمی مصروفیات گھر اور معاش کے مسائل کی وجہ سے منال صاحب اور ان سے منسوب واقعات آہستہ آہستہ ذہن کے نہاں خانوں میں کہیں گم ہوتے چلے گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منال سر سے ملاقات کے تقریباً تیس برس بعد، جب یونیورسٹی نے سرکلر جاری کر کے یہ اطلاع دی کہ (LTC-80)کا چہار سالہ بلاک،سال رواں کے آخیر تک ختم ہو جائے گا۔ میں گذشتہ مواقع کے مانند اس کو بھی گنوانا نہیں چاہتا تھا لہذا یہ فیصلہ کر لیا کہ بچوں کے امتحانات ختم ہوتے ہی مجھے بھی سیر وتفریح کے لیے نکلنا ہی چاہیے۔ کشمیر، کنیا کماری، گوا، وشاکھا پٹنم، شملہ اور نینی تال وغیرہ ہم دیکھ چکے تھے۔ اس بار آخر کہاں چلا جائے؟ کافی غور و خوض کے بعد ہم نے انڈمان نکوبار جانے کا ارادہ کر لیا۔ ٹکٹ حاصل کیے، ضروری معلومات ٹورزم ڈپارٹمنٹ نے فراہم کردیں اور بچوں کے امتحانات ختم ہوتے ہی ہم نے رخت سفر باندھ لیا۔ ائیر انڈیا کے طیارہ بلکہ طیارچہ کا سفر بہت تکلیف دہ تھا۔ طیارچہ اس لیے کہ جہاز بہت چھوٹا تھا، یہاں تک کہ نشستوں کے درمیان پیر رکھنے کی جگہ بھی بہت کم تھی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ناشتہ اور پانی کا مفت انتطام بھی نہیں تھا جبکہ ہمارے ٹکٹ میں اسنیکس کے کالم کے سامنے yes لکھا ہوا تھا۔ طیارچہ کہنا اس لیے بھی درست ہو گا عموماً جہازوں میں ہر صف میں تین ضرب تین یا چار ضرب چار نشستیں ہوتی ہیں لیکن اس میں دو ضرب دو نشستیں ہی تھیں۔ بہرحال چار ساڑھے چار گھنٹے کا یہ مشکل سفر ہم نے ٹرین میں بیچی جانے والی مونگ پھلی اور چائے کے طرز پر پھیری لگانے والی ائیر ہوسٹس سے بہت مہنگی چائے، کافی، پانی اور چاکلیٹ وغیرہ خرید کر گذارا اور دن کے تقریباً ساڑھے گیارہ بجے انڈمان ائیرپورٹ پر اتر گئے۔ ایر پورٹ سے باہر نکلتے ہی ایر انڈیا کی جانب سے فون آیا: مسٹر زہری! ہمیں افسوس ہے کہ کچھ تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے ہم جہاز میں ناشتے کا انتظام نہیں کر پائے۔ میں نے بڑے ہی رسان سے جواب دیا محترمہ! کیا بات کر رہی ہیں آپ کی ائیر ہوسٹس نے تکنیکی خرابی کے باوجود بہت ہی اچھا انتظام کر لیا تھا، بس ایک ہی کمی تھی۔ وہ بھی شاید ترنگ میں تھی۔ استفسار کر بیٹھی کہ کمی کیا تھی؟ میں نے جواب دیا، کمی صرف اتنی تھی کہ ائیر ہوسٹس چائے اور مونگ پھلی والوں کی طرح چائے گرم، چائے گرم یا ٹھنڈا پانی، ٹھنڈا پانی کی آواز نہیں لگا رہی تھی۔ میں نے ائیر ہوسٹس کو یہ مشورہ بھی دیا تھا لیکن وہ ناراض ہو کر توے پر پڑی ہوئی روٹی کی طرح پہلے پھولی اور لال ہوئی پھر پچکی اور کالی ہو گئی۔ مخاطب نے شاید یہ سوچ کر جلدی سے فون رکھ دیا کہ کہیں یہ حضرت مجھے رکشہ پر بیٹھ کر لاؤڈاسپکر سے کھٹمل کی دوا بیچنے والی نہ کہہ دیں۔باہر نکلتے ہی شدید گرمی کا احساس ہوا۔ دراصل خطِ استوا سے قریب اور سمندر کے بیچ میں واقع ہونے کی وجہ سے یہاں دہلی کے مقابلے میں گرمی اور حبس کہیں زیادہ تھا۔ دہلی میں کہاں بغیر پنکھے کے کام چل رہا تھا لیکن یہاں تو باقاعدہ اے سی کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ باہر نکل کر ہاتھوں میں تختی لیے ہوئے لوگوں پر نگاہ ڈالی۔ دراصل دہلی سے ہی ایک جاننے والے کی مدد سے ٹیکسی، گائیڈ اور ہوٹل کا انتظام کر لیا تھا۔

ائیر کنڈیشن گاڑی میں بیٹھنے کے بعد میں نے ائیر پورٹ کی بلڈنگ پر نگاہ ڈالی تو یاد آیا کہ اس ایر پورٹ کا نام بی جے پی (B.J.P)کے عہد میں”ویر سارورکر ایرپورٹ” رکھا گیا، جس پر کافی ہنگامہ ہوا تھا۔اخبارات میں سارورکر کی وطن دوستی اور غداری پر کافی بحثیں ہوئیں۔ لیکن عوام کو مزیدآسانیاں فراہم کرنے کے حوالے سے پارلیمنٹ، اخبارات اور سوشل ورکر تک نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی۔ ہمارے ملک کے ارباب اقتدار ائیرپورٹ، اسپتال، یونیورسٹی وغیرہ بنانے کے بجائے ان کے نام رکھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حیدرآباد کے سفر کے لیے فارم بھرنے کے دوران محسوس کیا کہ جواہرلال نہرو یونیورسٹی کا ایک استاد، اندارا گاندھی انٹرنیشنل ائیرپورٹ، دہلی سے اڑا اور راجیو گاندھی انٹرنیشنل ائیرپورٹ، حیدرآباد میں اترا اور حیدرآباد یو نیورسٹی کے سمینار میں شرکت کی۔ فارم بھرتے ہوئے میرے قلم نے پھسلنا چاہا کہ حیدرآباد یو نیورسٹی کا نام بدل کر راہل گاندھی کے مفروضہ بچے کے نام پر رندھیر گاندھی یو نیورسٹی، حیدرآباد لکھ دیا جائے۔ اس طرح کے بے تکے خیالات کی ڈور کو ڈرائیور کی آواز نے منتشر کر دیا صاحب! اس بازار کا نام ابردین بازار ہے۔ یہ یہاں کامین بازار ہے اور یہ گھنٹہ گھر پہلی بڑی جنگ میں کام آئے لوگوں کی یاد میں 1920 میں تعمیر کیا گیا۔ اور یہ رہا آپ کا ہوٹل۔ ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوتے ہی ڈرائیور کم گائیڈ نے آج کے پروگرام کی لسٹ تھما دی۔صبح ساڑے چار بجے گھر سے نکلے تھے اے سی اور بستر دیکھ کر فوراً آرام کرنے کی خواہش پیدا ہوئی لیکن بچے مصر تھے کہ شام تک گھوما جائے اور رات کا کھانا کچھ سویرے کھا کر ہی سویا جائے۔ لہذا بادل ناخواستہ آدھے گھنٹے کے اندر ہی میں بھی تیار ہو کر سب کے ساتھ ہو لیا۔ گائیڈ نے سب سے پہلے سیلولر جیل (Cellular Jail)دکھایا پھر شام تک، اپنی دانست میں، شہر کے چند دیگر قابل دید مقامات کی سیر کرائی اور شام ساڑھے چھ بجے لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو ( Light and Sound Show)دیکھنے کے لیے ہم سب پھر کالا پانی یعنی سیلولر جیل (Cellular Jail)میں تھے۔ اس پروگرام کو دیکھتے ہوئے منال صاحب اور ان سے منسوب واقعات مجھے شدت سے یاد آئے۔ اس پروگرام میں جیلر ڈیوڈ بیری کے بارے میں جو کچھ بتا یا گیا، کلی طور پر نہ سہی پر دونوں کی ذہنیت اور فطرت میں مجھے بڑی حد تک مماثلت نظر آئی۔ میوزیم میں اس کی تصویر دیکھی۔ یہاں بھی ڈیوڈ کے کھڑے ہونے اور دیکھنے کے انداز میں بھی منال سے مشابہت تھی۔

بلاشبہ یہاں کے تمام تر جزائر بہت خوبصورت ہیں بطور خاص کورل آئی لینڈ، ماؤنٹ ہیریٹ، نیل آئی لینڈ، ہیو لاک وغیرہ تو قابل دید ہیں۔ پانی اتنا شفاف کہ کشتیوں کے پیندے میں لگے ہوئے شیشے سے سمندر میں تیرتی ہوئی مچھلیوں اور کورل وغیرہ کو صاف صاف دیکھا جا سکے۔ کھلے ہوئے سمندر میں ڈوبتے ہوئے بلکہ ڈبکی لگاتے ہوئے سورج کا نظارہ تو ناقابل فراموش ہے۔ساحل ایسا کہ بقول ڈیوڈ بیری کہ یہاں پر رہنے کے لیے سزائے عمرقید بھی گوارہ کی جا سکتی ہے۔ ہم نے آٹھ دنوں تک نیچر کو بہت قریب سے دیکھا، بچوں نے سمندر میں تیراکی کی، آکسیجن ماسک لگا کر زیر سمندر دنیا کو دیکھا اور خوب لطف اندوز ہوئے۔ تاہم میرا معمول قدرے مختلف تھا۔ دہلی میں ہی بچوں نے یہ وعدہ لے لیا تھا کہ دہلی واپس آنے تک پڑھنے لکھنے کا کوئی کام نہیں کروں گا لیکن جیل دیکھنے کے بعد تجسس بیدار ہو گیا۔ دن بھر تو بیوی بچوں کے ساتھ گھومتا اور رات میں آ کر، انٹرنیٹ پر سیلولر جیل، سزائے کالا پانی اور ڈیوڈ بیری (David Barry)پر موجود تحریروں اور تصویروں کو دیکھتا ۔ جن کے مطابق تقریباً ایک ہزار سال قبل چین کے لوگوں کو ان جزائر سے واقفیت تھی۔ لیکن اس کو نقشے پر سب سے پہلے درج کرنے کا سہرا ایک رومن جغرافیہ دان پٹولینی Ptoleny کے سر ہے، جس نے دوسری صدی میں اس کو Angadman یعنی اچھی قسمت کا جزیرہ کہا۔چھٹی صدی میں ان جزائر کوایک بدھسٹ سادھو کے نام پرLo-Jen-Kuo یعنی ننگوں کی سرزمین کہا گیا۔ آٹھویں صدی میں عرب تاجروں نے بھی اسےLaklabalus/ Najabulus یعنی برہنہ لوگوں کی سرزمین کہا۔ دسویں صدی کے ایک ایرانی جہاز راں:”بزرگ ابن شہریار” نے اپنی کتاب”عجائب الہند” میں یہاں پر بسنے والوں کو آدم خور قرار دیا۔ لیکن انگریزوں نے اسے اپنی تعزیری بستی بنا ڈالی۔متحدہ ہندوستان سے قیدی سب سے پہلے 1790 بھیجے گئے جن کو موجودہ چھتم جزیرے پر رکھا گیا۔ لیکن زیادہ تر ملیریا اور دیگر بیماریوں سے مر گئے۔ باقی ماندہ قیدیوں کی مقامی باشندوں سے آئے دن جھڑپیں ہونے لگیں تو ان کو جنوبی انڈمان سے شمالی انڈمان منتقل کر دیا گیا۔آج بھی وسطی انڈمان میں بابا آدم کے زمانے کے یہ لوگ آباد ہیں جن پر حکومت ہند کا کوئی بھی قانون نافذ نہیں ہوتا۔

1857 کی ناکام بغاوت کے مسلح باغیوں کے علاوہ ایسے تمام افراد جن کا تعلق بہادر شاہ ظفر سے تھا یاجنہوں نے بغاوت کے زمانے میں ان کو کسی طرح کی درخواست بھیجی ہو، ان کو بھی تڑی پار(ملک بدر) کرکے انڈمان بھیج دیا گیا۔ ایسے لوگوں کی تعداد 200 سے زائد تھی جنہیں جرم آزادی یا اس میں شمولیت کے شک میں وائپر آئی لینڈ منتقل گیا۔ انہیں زنجیروں سے باندھ کر جنگل صاف کرنے،عمارتیں، سڑک اور بندر گاہ بنانے پر لگایا جاتا اور وقت مقررہ پر کام نہ ہونے کی صورت میں انہیں پھانسی دے دی جاتی۔ دیوان غالب کے پہلے مرتب، عربی فارسی اور اردو کے مشہور عالم مولانا فضل الحق خیرآبادی کو بھی 1859 میں یہاں بھیجا گیا ۔انہوں نے اپنی کتاب “الثوریہ الہندیہ” اور مولانا جعفر تھانیسری نے “تواریخ عجیب” میں قیدیوں کی حالت زار کے بارے میں بڑی ہی تفصیل سے لکھا ہے۔ برج کشور دیو العروف مہاراجہ جگن ناتھ آف پوری کو بھی اسی طرح وائپر آئی لینڈ کی قید مشقت سے گزرنا پڑا۔قیدیوں کو لانے کا یہ سلسلہ بہنوز جاری رہا اورصرف تین مہینوں میں اس جزیرے پر قیدیوں کی تعداد 773 تک پہنچ گئی تو وائپر جزیرے پر جیل اور پہاڑ کی ایک چوٹی پر یہاں کاپہلا پھانسی گھر تعمیر کروایا گیا۔ اس پھانسی گھر میں وہابی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے محمد شیر علی خان کو وائسرائے گورنر جنرل آف انڈیا کو قتل کرنے کی پاداش میں پھانسی دی گئی۔جب ان سے وائسرائے کے قتل کی وجہ دریافت کی گئی تو زنجیروں سے جکڑے ہوئے اس شخص نے بڑے ہی اطمینان سے جواب دیا یہ حکم الٰہی تھا۔ 1921 میں خلافت تحریک سے جنم لینے والی موپلاں بغاوت کے تقریبا 1400 ملزمین کو مع اہل و عیال تڑی پار(ملک بدر) کر کے یہاں بھیجا گیا۔ غیر مقامیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے یہاں کے مقامی قبائلیوں کو بر آنگیختہ کر دیا جس کے نتیجے میں ابردین کی مشہورجنگ واقع ہوئی۔ یہ جنگ 1859 میں مہذب دنیا سے ملک بدر کیے گئے لوگوں اور قبائلیوں کے درمیان ہوئی۔ اسی طرح کی معلومات اکٹھا کرتے کرتے واپسی کا دن نزدیک آ گیا۔

واپسی سے ایک روز قبل صبح میں ڈرائیور کم گائیڈ نے بتایا کہ آج کا پروگرام بہت مختصر ہے۔ آج صرف راس آئی لینڈ جانا ہے اور بارہ ساڑھے بارہ بجے تک ہم وہاں سے بھی فرصت پا لیں گے اس کے بعد آپ چاہیں تو بازار گھوما جا سکتا ہے یا کسی مقام پر دوبارہ جایا جا سکتا ہے۔ بچے ایک قریبی ساحل پر دوبارہ جانا چاہتے تھے لیکن میں نے ان سے کہا کہ آج دوپہر کے بعد کا وقت میں اکیلے سیلولر جیل میں گزارنا چاہتا ہوں۔ میری غیر موجودگی میں ساحل پر جانا مناسب نہیں ہے۔ ہاں چاہو تو گاڑی لے کر بازار جا سکتے ہو۔ گرچہ اخراجات بڑھ جانے کا خدشہ تھا تاہم سیلولر جیل کو دوبارہ قریب سے محسوس کرنے کی خواہش نے ان خدشات سے سمجھوتہ کر لیا۔ طے شدہ پروگرام کے تحت صبح میں ہم نے راس آئی لینڈ کی سیر کی۔ اس چھوٹے سے جزیرے کو انگریز اپنی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔ یہاں پر مخدوش حالت میں ایک چرچ، کلب رہائشی عمارتیں،سوئمنگ پول اور پانی صاف کرنے کے لیے بڑے بڑے بائیلر آج بھی موجود ہیں۔ لیکن میری نظر میں سب سے اہم چیز وہ ہے جس کو دیکھ کر میرے دماغ میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں۔ وہ ہے پریس کی غرض سے استعمال کی جانے والی عمارت کے کھنڈرات، جس کی دیواروں کو آج بھی برگد کی جڑوں نے اس طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ مرور وقت کے ساتھ یہ دیواریں کمزور ہونے کے بجائے اور بھی پختہ ہوتی جا رہی ہیں بلکہ ان جڑوں سے ایسی ہی نہ جانے کتنی ہی عمارتیں پنپتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ انڈمان ٹورزم ڈپارٹمنٹ نے یہاں چند ہرن بھی پال رکھے ہیں جیسے ہی کوئی سیاح اپنے بیگ کی جانب ہاتھ بڑھاتا ہے یہ معصوم جانور فورا ًاس کی جانب لپکتے ہیں لیکن میں نے محسوس کیا کہ یہ ہرن بھی پریس کی عمارت کی جانب جانے سے کتراتے ہیں۔ ان کھنڈرات اور پہلی بڑی جنگ میں جاپانی فتح کی یادگار ایک جاپانی بنکر سے قطع نظر ،یہ جزیرہ بھی بہت خوبصورت ہے۔ یہاں سے جیل کا فاصلہ محض پندرہ منٹ کا ہے نیز اس جزیرے سے جیل پر باقاعدہ نگاہ بھی رکھی جا سکتی ہے۔ شاید اسی لیے انگریزوں نے اسے اپنی رہائش کے لیے پسند کیا تھا۔ اسے دیکھ کر ہم تقریبا ساڑھے بارہ بجے بذریعہ کشتی سیلولر جیل کے نیچے والی بندرگاہ پر پہنچ گئے۔ بیوی بچے گاڑی لے کر بازار کرنے کے لیے نکل گئے اور میں دوبارہ جیل کی چہار دیواری کے اندر۔

انگریزوں نے ساحل سمندر پر ایک اونچی پہاڑی کو ہموار کروا کر اس سہ منزلہ جیل کی تعمیر کروائی تھی۔ اس جیل کی تعمیر سے قبل بھی ان جزائر کو جیل کی طرح استعمال کیا جاتا تھا۔ قیدیوں کا یہاں سے بھاگنا ناممکن تھا اس لیے کہ جزیرے کے چاروں طرف سیکڑوں میل تک یا تو پانی ہے یا چھوٹے چھوٹے جزیرے۔ بعض جزیروں پر تو پینے کا پانی بھی موجود نہیں تھا۔اسی لیے جیل کی چاردیواری بہت اونچی نہیں بنائی گئی کہ کوئی قیدی اگر بھاگ بھی جاتا تو بھوک اور پیاس سے مر جاتا۔ پہلے جیل کی سات ونگ تھیں اور ساتوں کے درمیان ایک اونچا ٹاور، جو آج بھی موجود ہے۔آزادی کے بعد حکومت ہند نے اس جیل کو منہدم کرنا شروع کیا تو جیل سے رہا ہوئے سیاسی قیدیوں کے اعتراض کے سبب تین ونگ کو برقرار رکھتے ہوئے اسے قومی یادگار بنا دیا گیا۔ بنگال کی جیالی خاتون رضیہ خاتون نے بھی یہاں کی اذیتوں کو برداشت کیا۔ ایسی ہی ایک باہمت عورت ‘بی عزیزن’ کو گرفتار کرنے کے بعد رہائی کے لیے صرف یہ شرط رکھی گئی کہ وہ معافی مانگ لیں تو انہوں نے معافی کے بجائے قید اذیت کے لیے یہاں آنے کو ترجیح دی۔ ابھینو بھارت کے بانی، ہندو مہاسبھا کے صدر ونایک دامودر ساورکر کو Indian War of Independent کتاب لکھنے کی پاداش میں دو ٹرم کی یعنی پچاس سال کی سزائے کالا پانی سنائی گئی لیکن دس سال کے بعد انہوں نے معافی مانگ کر آزادی حاصل کر لی اور ہندوتو کا نظریہ پیش کیا۔ان کے بھائی بابو راؤسارورکر کوبھی فنڈ اکٹھا کرنے کی پاداش میں یہاں قید کیا گیا۔ یہاں کی قید تنہائی ایسی تھی کہ دونوں بھائی ایک ہی جیل میں رہتے ہوئے بھی،دو برس تک ایک دوسرے کی موجودگی سے لا علم رہے۔
جیل میں داخل ہوتے ہی سامنے پھانسی گھر ہے اور اس کے سامنے والے چھ کمرے پھانسی کے منتظر ملزموں کے لیے مخصوص تھے۔ بقول منال ڈریکولا قیدیوں کی کوٹھری کے سامنے سیخ کرنے کے عمل میں استعمال کیا جانے والا ڈانڈا پہلے ہی ان کی کوٹھری کے سامنے گڑوا دیا کرتا تھا۔ پھانسی گھر اور پھانسی کے منتظر قیدیوں کی کوٹھریوں سے انگریزوں کی ڈریکولائی ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ پھانسی گھر آج بھی بالکل تیار حالت میں ہے۔ ایک ساتھ تین پھانسی کے پھندے اور کھینچے جانے کے لیے تیار لیور۔ بس ضرورت ہے تو، تین افراد اور لیور کھینچنے والے جلاد اور گھنٹی بجانے والے کی۔ میں نے پھانسی کے تختے کے نیچے اتر کر دیکھا اور چشم تصور سے تین لٹکتے ہوے جسموں کو محسوس کیا۔ ادھر روح پرواز کرتی ادھر گھنٹی پر چوٹ پڑتی جیسے عالم بالا میں جانے سے پہلے روح گھنٹی سے ٹکرا کر جاتی ہو۔ جیل کے کمرے بہت چھوٹے چھوٹے ،سامنے کی جانب ایک تنگ سادروازہ اور اس کے مقابل چھت کے قریب ایک روشندان۔ ان قیدیوں کو دن بھر طرح طرح کی ایذائیں دی جاتی تھیں یا پھر ان کے مقدور سے زیادہ کام لیا جاتا تھا۔ سہولیت کے نام نہانے اور دھونے کے لیے محض تین پیالے فراہم کیے جاتے تھے وہ بھی سمندر کا کھارا پانی۔ بدن پر اس پانی کو ڈالنا تو دور کی بات کپڑا بھگو کر بھی بدن پوچھنے پر نمک جلد پر جم جاتا اور قیدی خارش وقوبا کے مرض میں مبتلا ہو جاتے، زبردست خارش کے ساتھ جلد پھٹنے لگتی۔ ایسی صورت میں فراہم کردہ نمکین پانی مرچوں کی طرح لگتا۔ اس پانی میں دھلے بلکہ بھیگے ہوئے کپڑے سوکھ جانے کے بعد بھی جلد میں بے تحاشہ جلن پیدا کرتے۔ کھانے اور پینے کا پانی بھی ناپ کر دیا جاتا۔ بیمار پڑنے پردوست احباب بھی مدد کرنے سے مجبور ہوتے۔ ساتوں ونگ کے قیدی دوسرے ونگ کے قیدیوں سے ملنا تو بہت دور کی بات ان کو دیکھ بھی نہیں سکتے۔ دن تو جیسے تیسے گزر جاتا تھا۔ لیکن رات۔ بغل کے قیدی کی کراہ اور نیچے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی آواز، بیکار شب و روز کے مانند اکتا دینے والی، جیسے مقید بے کنارو بے قرار، ان گنت لمحے آزادی کی سعی لاحاصل میں مصروف ہوں۔ ایسی یکسانیت اور بے بسی میں رات میں مینڈکوں کی ٹر ٹر بھی غنیمت لگتی ہو گی اور یہ احساس دلانے کے لیے شاید کافی رہی ہو گی کہ اس جہان رنگ و بو سے ان کا رشتہ ہنوز برقرار ہے۔
ٹاور پر چڑھ کر اس گھنٹی کو بھی محسوس کرنے کی کوشش کی جو پھانسی دینے پر بجائی جاتی تھی۔ چونکہ جیل کاہر کام قیدیوں کے ہی ذمے تھا اس لیے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اگر گھنٹی بجانا بھی کسی مخصوص قیدی کی ذمہ داری رہی ہو،تو اکثروبیشتر وہ مشینی انداز میں ہی گھنٹی بجاتا رہا ہو گا۔ شاید جیل میں آنے والا ہر قیدی ابتدائی دنوں میں ایک غیر مرئی شیرازے سے ایک دوسرے سے جڑا ہوا محسوس کرتا تھا لیکن ڈیوڈ بیری کی حکمت عملی اور طویل عرصے کے لیے تھوپی گئی قید رفاقت آہستہ آہستہ اس شیرازے کو منتشر کر دیتی ہوگی، جس کا اثر گھنٹی کی بلند و آہستہ آواز اور گھنٹی بجنے کے دورانیہ پر بھی پڑنے لگا ہو گا۔ بقول بریخت : “جنرل! انسان بہت ہی کارآمد ہوتاہے۔وہ اڑ سکتا ہے اور قتل کر سکتا ہے۔ لیکن اس(انسان) میں بھی ایک خرابی ہے۔ وہ سوچ بھی سکتاہے” کے مصداق وہ گھنٹی کی آواز اور دورانیے کو گھٹا اور بڑھا دیتا ہو گا۔ شاید اس گھنٹی کا اثر راس آئی لینڈ میں واقع پریس کی عمارت بھی پڑتا تھا لیکن ہمیشہ جشن کے انداز میں۔ مجھے منال کی باتیں یاد آئیں: گھنٹی کی آواز پانی کے دوش پر بہتی ہوئی، بالخصوص رات کے وقت دور تک پھیلتی تھی جو ایک طبقے کے لیے باعث طمانیت و راحت اور شاید احساس فتح سے ہمکنار کرنے والی تھی تو دوسروں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیتی ہو گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دہلی واپس آ کر بھی ذہن پر منال، گھنٹی اور سیلولر جیل ایک مثلث نما شکنجے کی طرح جسم و روح کو تکلیف پہنچاتا رہا۔ منال سے ملنے اور اس کے بارے میں جاننے کی شدید خواہش رہ رہ کر سر اٹھاتی رہی۔ اتفاق ایسا کہ ایک سمینار کے سلسلے میں ممبئی جانے کا موقع مل گیا۔ ذہن پر کافی زور دینے کے بعد اسکول کے دنوں کا ایک ‘کوکنی’ جونیر دوست کا نام اور گھر یاد آیا۔ تقریبا ًتیس سال پہلے ایک بار میں بھنڈی بازار میں واقع اس کے گھر جا چکا تھا۔ تلاش بسیار کے بعد میں عبد الکریم کو ڈھونڈنے نکالنے میں کامیابی حاصل کر لی۔ تیس سال میں اس علاقے کا نقشہ ہی بدل گیا تھا ۔ ‘ایرانی ہوٹل’ کی شکل وصورت کی طرح اس کے گھر کی صورت بھی کافی بدل چکی تھی۔ پہلے سڑک ہی سے اس کا گھر دکھائی دیتا تھا لیکن اب، قدیم یک منزلہ مکان، سہ منزلہ عمارت میں تبدیل ہونے کے باوجود، لب سڑک بلند و بالا، نئی تعمیرات کے سائے میں گم ہو گئی تھی۔عبد الکریم سے ملاقات ہوئی، ہم دونوں کی شکلیں بھی کافی بدل چکی تھیں لیکن تعارف کرانے پر ہم نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ اس نے دل کھول کر خاطر تواضع کی۔ اس کے گھر سے رخصت ہوتے ہوئے میں نے بھنڈی بازار میں واقع ایرانی ہوٹل میں چائے پینے کی خواہش ظاہر کی اور وہ تیار ہو گیا۔ یہاں آنے کا مقصد محض اتنا تھا کہ تنہائی میں اس سے منال کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کی جاسکے۔

اس نے بتایا کہ منال صاحب نے تمہاری موجودگی میں ہی اپنا اسکول قائم کر لیا تھا۔ چند ہی برسوں کے بعد ان کے اسکول کا شمار یہاں کے بہترین اسکولوں میں ہونے لگا۔ اسکول کی کامیابی کے بعد انہوں نے ‘آزاد اسکول’ میں جانا اور کلاس لینا بتدریج بند کر دیا تاہم ریٹائرمنٹ سے ایک دو سال قبل تک استعفی نہیں دیا۔ جس کسی نے ان سے باز پرس کرنے کی کوشش کی اسے منہ کی کھانی پڑی۔ ایک پرنسپل نے منال کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا اور بالآخر اسے پرنسپل شپ سے ہاتھ دھونا پڑا۔ منیجمنٹ نے بھی اس کی تنخواہ روکنے کی کوشش کی تو اس کی وجہ سے دو تین مہینوں تک اسکول کے سارے ملازمین کی تنخواہ رک گئی۔ ایسا لگتا تھا کہ شعبئہ تعلیمات اس کی جیب میں ہے۔ منیجمنٹ کی بہت منت سماجت اور شہر کی چند مشہور شخصیات کے درمیان میں آنے کی وجہ سے ابھی چند سال پہلے اس نے والینٹری ریٹائرمنٹ لیا۔اس وقت وہ ایک اسکول، ایک میڈیکل کالج کے علاوہ دو اخبارات کا مالک ہے۔ اس کا مراٹھی ’روزنامہ شوبھنا‘ یہاں کا بااثر اخبار مانا جاتا ہے۔ دوسرا انگریزی اخبار’مراٹھا مڈ ڈے’ کابھی سرکولیشن کافی ہے۔شہر کے ایک مخصوص حلقے میں اس کی اچھی خاصی دھاک ہے۔ آج کل نریمن پوائنٹ پر اس کا دفتر ہے۔ عموماً شام کے وقت اپنے دفتر میں بیٹھتا ہے۔ مجھے کچھ ایسی ہی خبروں کی توقع تھی۔ میں نے عبدالکریم کے سامنے اس سے ملنے کی تجویز رکھی اور وہ بھی مہمان نوازی کاثبوت دیتے ہوئے بادل ناخواستہ راضی ہو گیا اور یہ طے پایا کہ کل شام تین بجے ہم اسی جگہ پھر ملیں گے اور نریمن پوائنٹ جائیں گے۔

منصوبے کے مطابق ہم ساڑھے چار بجے کے قریب نریمن پوائیٹ پہنچ گئے۔بے شمار فلک بوس عمارتوں کے سامنے سے گزر کر ہماری گاڑی جدید طرز کی ایک فلک بوس عمارت کے سامنے رک گئی۔ کریم نے بتایا کہ اسی بلڈنگ میں اس کے دونوں اخبارات کے دفاتر ہیں۔ اس وسیع و عریض عمارت کی پوری ایک منزل اس کے اخبارات کے لیے مخصوص تھی۔ لابی سے ہو کر ہم ایک بڑے سے ہال میں داخل ہوئے۔ سامنے دو بڑے بڑے بورڈ پر اس کے دونوں اخبار کی تازہ کاپیاں پن کی ہوئی تھیں۔ جن میں کسی دہشت گرد کی گرفتاری کی بالتصویر خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا گیا تھا۔ ایک دروازے کے بغل میں، دو تین فون اور چند فائلوں کے ساتھ ایک رسپشنیسٹ بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے رسپشنیسٹ کو اپنا کارڈ دے کر ملنے کا وقت مانگا۔ اس نے عزت کے ساتھ ہمیں ایک صوفے پر بٹھایا، ملازم سے پانی پیش کرنے کو کہا اور ہم سے ملنے کا سبب دریافت کرنے لگی۔ میں نے بتایا کہ ہم دونوں ان کے پرانے اسٹوڈنٹ ہیں۔ اتفاق سے ممبئی آنا ہوا تو سوچا کہ سر سے بھی ملتا چلوں۔ اس نے جواب دیا کہ سر بہت مصروف رہتے ہیں تاہم میں آپ کا کارڈ اندر پہنچا دیتی ہوں۔ یہ کہتے ہوئے وہ اندر چلی گئی۔ہم انے اپنا اپنا گلاس خالی کیا اور اندر سے بلاوا آ گیا۔میں نے قیاس لگایا کہ شاید کارڈ پر موجود میری یونیورسٹی کے نام نے اثر دکھایا۔ اندر داخل ہونے پر لگا کہ آفس بہت شاندار ہے۔ آفس کی ضرورت کی ہر شے یہاں پر موجود تھی لیکن ایسا لگتا تھا کہ آرائش اور تزئین سے بچنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔ ایک بڑی سی میز کے پیچھے، ایک عام سی کرسی پر وہ بیٹھا ہوا تھا۔ لیکن میز کے ایک کونے میں، نمایاں مقام پر، رکھے ہوئے اکلوتے شو پیس کو دیکھ کر میں چونک پڑا۔ ایک سنہرے پلیٹ فارم پر نصب، بیضوی شیشے کے درمیان، بلی کے گلے سے نکالی گئی وہی گھنٹی بڑی خوبصورتی کے ساتھ آویزاں تھی۔ میں نے منال سے سوال کیا کہ سر آج بھی آپ گھنٹی سے منسلک ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ میں اپنی پیدائش ہی سے خود کوگھنٹی سے جڑا ہوا محسوس کرتا ہوں۔ گھنٹی بھگوان کو خوش کرنے اور ان کو جگانے کے علاوہ خوشی، جشن اور غم کے موقع پر بھی بجائی جاتی ہے۔ لوگوں کو اطلاع دینے اور ہوشیار کرنے کے لیے بھی بجائی جاتی۔ خاموشی اکتاہٹ اور یکسانیت کو دور کرنے کے لیے اونٹوں اور دیگر پالتو جانوروں کے گلے میں بھی گھنٹی باندھی جاتی ہے۔ گھنٹی انسانوں کی ایک قابل قدر ایجاد ہے۔ میں آج بھی اس سے وابستہ ہوں اور تا حیات اس سے جڑا رہنا چاہتا ہوں۔ اس دوران چائے آ گئی اور ہم چائے پیتے ہوئے ہندوستان کی سیاست اور تعلیم پر گفتگو کرتے رہے۔ چائے ختم ہوتے ہی اس نے مصروفیات کا حوالہ دے کر معذرت کر لی اور ہم جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ باہر نکل کر میں نے عبدالکریم کا شکریہ ادا کیا اور یونیورسٹی گیسٹ ہائوس کے لیے ٹیکسی لے لی۔ عبدالکریم کو شاید کسی اور سے بھی ملنا تھا اس لیے وہ اپنی کار لے کر کسی اور سمت نکل گیا۔

دوسرے روز فلائٹ پکڑی اور دہلی واپس آ کر روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہو گیا لیکن چند ہی دنوں کے بعد، ایک چھوٹے سے اخبار میں شائع ایک خبر دیکھ کر چونک پڑا۔ خبر کا عنوان تھا: “مہاراشٹر میں بم سازی کی فیکٹری بے نقاب۔” اس خبر کے مطابق ممبئی کے مضافاتی علاقے کے ایک فارم ہاؤس سے بم، جلیٹن راڈ اور ٹائمر ڈیوائس کا ایک بہت بڑا ذخیرہ پکڑا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس فارم ہاؤس میں رہنے والا کرایہ دار اپنے تین ساتھیوں کی مدد سے غیر قانونی طریقے سے بم بنانے کی فیکٹری چلاتے تھے لیکن پولیس کے مطابق یہ کوئی آتنک وادی نہیں بلکہ محض بم بنا کر لوگوں کو بیچا کرتے تھے بہرحال پولیس نے تینوں کو اپنی حراست میں لے لیا ہے۔ غیر مصدقہ معلومات کے مطابق یہ فارم ہاؤس منال زارے کا ہے جنہوں نے گذشتہ تین سال سے اس فارم ہاؤس کو کرائے پر دے رکھا تھا۔ اس خبر کو پڑھ کر مجھے اپنی کانوں میں منال کے جملوں کی باز گونج سنائی دی کی ک”بھی گھنٹی دھیرے سے بجتی تھی تو کبھی زور زور سے، کبھی دیر تک بجتی ہے ۔تو کبھی بس چند لمحوں کے لیے۔” میرے ذہن میں زور سے گھنٹیاں بجنے لگیں، لیکن قومی سطح پر یا تو گھنٹی بجی ہی نہیں یا اگر بجی بھی تو پر بہت ہی آہستہ سے۔ مجھے شدت سے انگریزی کے مشہور شاعر ایڈگر ایلن پو Allan Poe Edgar کی نظم The Bell یاد آئی جس میں مختلف دھاتوں سے بنی ہوئی گھنٹیوں کی آواز سے پیدا ہونے والے تاثرات کو موضوع فکر بنایا گیا ہے لیکن یہاں تو ایک ہی گھنٹی سے حسب منشا آواز نکل رہی ہے، بلاشبہ آوازوں کی یہ تبدیلی منحصر ہے بجانے والے پر۔