بارش کی خواہش بھی اک موت ہے (حفیظ تبسم)
بارش برسی تالاب یکدم سخی ہو گئے اور پھر وحشی۔۔۔
بارش برسی تالاب یکدم سخی ہو گئے اور پھر وحشی۔۔۔
وہ قدیم روایت کے احساس تلے جماہی لیتا ہے اور تاریخ دہرانے کے لیے پرندوں کے قبیلے میں شمولیت کی…
حفیظ تبسم: تمہارے خواب نیلے رنگ کی عینک پہنتے تھے جو سرخ دھبوں کو سبز میں تبدیل کر دیتی ہے
حفیظ تبسم: اے بزرگِ انسان و کائنات ہمارے خواب حدود سے آگے نکل چکے ہیں انھیں مرنے سے بچالے
حفیظ تبسم: روش ندیم! تمہارے ٹشو پیپر پر لکھے دکھ پڑھ کر ہماری نیندیں خدا کے دروازے پر دستک دیتی…
حفیظ تبسم: وہ صنوبر کے سوکھے پیڑوں سے ہاتھ ملاتے سوال کرتا ہے جب ٹہنیوں سے ہزاروں پتے جدا ہوئے…
حفیظ تبسم: پھر خداکے نام کی تختی دیکھ کر گھنٹی بجانے والوں نے کٹہرے کو کئی بار چوما اور اندھیرے…
حفیظ تبسم: کل میری دو نظمیں بازار گئیں (جو جڑواں بہنیں تھیں) مگر واپس نہیں لوٹیں
حٖیظ تبسم:عذرا عباس ! میز پر رکھے تمہارے ہاتھ انگلیاں بجاتے ہیں لکیروں کے ساکت ہجوم میں اور سرگوشی میں…