ایک خط: روش ندیم کے نام

حفیظ تبسم: روش ندیم! تمہارے ٹشو پیپر پر لکھے دکھ پڑھ کر ہماری نیندیں خدا کے دروازے پر دستک دیتی ہیں مگر دروازہ کُھلنے سے انکار کر دیتا ہے

کائنات کا آخری دکھ

حفیظ تبسم: پھر خداکے نام کی تختی دیکھ کر گھنٹی بجانے والوں نے کٹہرے کو کئی بار چوما اور اندھیرے کے آگے سجدہ ریز ہوگئے

میں رات ہوں

حفیظ تبسم:میں 'خود کشی کا دعوت نامہ ہوں' جسے ڈاکیے نے چپکے سے کھول کر پڑھا اور مر گیا

ایک معمول کا دن

حفیظ تبسم: آج پھر بوڑھے ہوتے شہر میں بے بسی قہقہے لگاتی رہی اور نیند کے سگریٹ پھونکتے پہرے دار کی میت سردخانے کی دیوار میں چُن کر لاوارث کا لیبل چسپاں کر دیا گیا

ایک یاد رہ جانے والا خواب

حفیظ تبسم: ہم ہررات خوابوں میں زیادہ تیزی سے کشتی بنانا شروع کردیتے ہیں جو دور کہیں ہرروز پانی کے اوپر تیرتی ہے غائب ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔