پشتون تحفظ موومنٹ (سلمان حیدر)

تم لوگوں کو قتل کرتے رہے یہاں تک کہ احساس تحفظ تمہاری گولیوں کا نشانہ بن گیا تم نے بے گناہوں کو ان کے بستروں کے سکون سے جھپٹ لیا ان کی سواریوں کی راحت سے نیچے دھکیل دیا ان کی خاندان کی عافیت سے کھینچ نکالا اور ...

انتظام (سلمان حیدر)

ہماری گردنوں سے لپٹے ہوئے مفلر ہمارا گلا گھونٹتے ہیں تو بڑھی ہوئی کھردری شیو میں الجھ جاتے ہیں ہماری پتلیاں پپوٹوں کے بند دروازوں کے پیچھے موت کے انتظار میں بے چین ٹہل رہی ہیں گلے آخری ہچکی کی ریہرسل کرتے سوکھ ...

محبت کا سن یاس

سلمان حیدر: لفظ صحیفوں میں ڈھونڈے جا سکتے ہیں لیکن صحیفوں میں لکھے لفظ کثرت استعمال سے بے معنی ہو چکے ہیں

جبر کی دنیا

سلمان حیدر: زندگی کا ہیولہ سرچ ٹاور پر گھومتے سورج کی طرح سیاہ پٹی سے ڈھکی آنکھوں کے سامنے رات جیسے دن میں کئی بار گزرتا ہے

بقا کی دیوار

سلمان حیدر: خون کے داغ ہیں کچھ دیر بھی رہنے کے نہیں کل سحر ہو گی تو بازار سجے گا پھر سے پھر اسی طور سے بہہ نکلے گا لوگوں کا ہجوم

گونگے لفظ چبانے والو

سلمان حیدر: پستولوں کو طمنچہ کہہ دینے سے بولی کو گولی نہیں لگتی اور آئین کے تختہ سیاہ پر لکھ دینے سے کوئی زباں نافذ نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔

نامکمل

سلمان حیدر: نظمیں روتی ہوئی پیدا ہوتی ہیں اور میں ان کے استقبال میں مسکراتا ہوں

صفحے سے باہر ایک نظم

ابھی میرے دوستوں کے دوست لاپتہ ہو رہے ہیں پھر میرے دوستوں کی باری ہے اور اس کے بعد... میں وہ فائل بنوں گا جسے میرا باپ عدالت لے کر جائے گا

ہمیں اس جنگ سے کس دن مفر تھا

قسم رب کی اور اس سب کی جسے اس پالنے والے نے پالا ہے ہمیں اس جنگ سے کس دن مفر تھا مگر یہ کہ عباؤں میں تمہارا اپنی تلواریں چھپانا اور سجدوں میں ہمارا قتل ہو جانا روایت ہے