بے وطن عورت کا مارچ اور دیگر نظمیں – سدرہ سحر عمران
سدرہ سحر عمران: میں زوجہ فلاں ابن فلاں تمہاری وردیوں کے لئے حلال نہیں ہو سکتی
سدرہ سحر عمران اردو میں ماسٹرز ڈگری یافتہ ہیں۔ وہ معاصر اردو نثری نظم کے حلقوں میں ایک نمایاں نام ہیں۔
سدرہ سحر عمران: میں زوجہ فلاں ابن فلاں تمہاری وردیوں کے لئے حلال نہیں ہو سکتی
ہنسی کی جھوٹن لوگ ہمارے دکھوں پر کپاس کے پھول رکھتے رکھتے قہقہے ڈال جاتے ہیں ہم ان قہقہوں کو…
ہم نہیں جانتے دھوپ کا ذائقہ کیا ہے روشنی کی شکل کس سے ملتی جلتی ہے یہ پرندے کون ہیں…
کاش تم بارشوں کی طرح مر جاؤ اور کسی سبز آنکھ میں تمہارے چہرے نہ کھل سکیں تم وہی ہو…
سدرہ سحر عمران: میں مٹی کے صابن سے جھاگ بنا کر آسمان سے رات صاف کرنا چاہتی ہوں
سدرہ سحر عمران: زنجیریں ہمارے دم سے زندہ ہیں ہمیں نیکیوں کے ہار مت پہناؤ
سدرہ سحر عمران: ہمیں وراثت میں اپنی عیاشیاں سونپ جائیں گے حرمزادو! خُدا کے لئے ہمیں بانجھ پن کی دعائیں…
سدرہ سحر عمران: جب بارود کا دن آتا ہے لاشیں گنتی میں بدل جاتی ہیں
سدرہ سحر عمران: تم نے مذہب کو گولی سمجھا اور ہمارے جنازوں پہ دو حرف بھیج کر اسلحہ کی دکانیں…
سدرہ سحر عمران: ہم خدا سے بچھڑنے کے بعد قبروں کی اجتماعی آبرو ریزی کرتے ہوئے قتل کر دئیے جاتے…
سدرہ سحر عمران: تم ہمیں پرچموں سے مکان بنا کر دیتے اور کہتے کہ سمندروں کے حق میں دستبردار ہو…
سدرہ سحر عمران: ہم نے آوازوں کے شہر میں جی کر دیکھا اس خاموشی کو جو موت سے زیادہ خوبصورت…
سدرہ سحر عمران: جب ہماری نفرت کا قومی دن منایا جاتا ہے ہماری زبانیں اگالدان بن جاتی ہیں تم اپنے…
سدرہ سحر عمران: بندوقوں کے بل پر کتنے تابوت اٹھانے باقی ہیں کتنی ماؤں کے دل پر بارود گرانے باقی…
سدرہ سحر عمران: میرا مرد اس ٹیلی فون کی طرح خاموش ہے جس کا نمبر کسی کو نہیں دیا گیا…