ہم نہیں جانتے دھوپ کا ذائقہ کیا ہے
روشنی کی شکل کس سے ملتی جلتی ہے
یہ پرندے کون ہیں
ہم درختوں کو چراغ لکھتے ہیں
ہوا کو موت
یہ پتے ہمارے آنسو ہیں
ہمیں کیا خبر کہ آسمان کا رنگ
تمہارے لہجے کی طرح
نیلا کیوں ہے؟
ہم نے سیڑھیوں کے ہجے نہیں سیکھے
ہم دیواروں میں آنکھیں لپیٹ کے سوتے ہیں
ہم نے پھولوں کو جنازہ گاہوں سے پہچانا
بارشوں کو اپنی آنکھوں سے
جس رات ہماری باتوں میں کم نمک ہوتا ہے
ہم سوکھی لکڑیوں پر
اپنے دن پینٹ کرتے ہیں
دیکھو ہمارے خواب سوکھ گئے
اب ہمارے لئے
بغیر کھڑکیوں والے مکان پیدا کرو
Image: Yves Tanguy