Laaltain

بے وطن عورت کا مارچ اور دیگر نظمیں – سدرہ سحر عمران

14 اپریل, 2020
Picture of سدرہ سحر عمران

سدرہ سحر عمران

ہمارے شناختی کارڈ میں ولدیت کا خانہ نہیں ہے

آپ کے سونے جیسے ہاتھ سائیں
ہمارے ہونٹوں کی کالک سے
نیلے پڑ جاتے ہیں

آپ کے چاندی جیسے پیر سائیں
ہماری گناہ گارپیشانیوں سے
داغدار ہو گئے

آپ کے سفید سوٹ سائیں
ہمارے کفنوں کو خدا غارت کرے
ان کی برابری کا سوچتے ہیں

آپ کے اونچے شملے سائیں
ہمارے جھونپڑوں کا تاج ہیں

آپ کے حکم کے صدقے سائیں
ہماری نمازیں
پچھلی صفوں میں مری پڑی ہیں

آپ کی اوطاق سائیں
ہماری اوقات کا پیمائشی فیتہ ہے

آپ کی مسہریاں سائیں
ہماری عورتوں کی گندمی مہک سے
بھری ہوئی ہیں

آپ کے مزار سائیں
ہمارے جسم کے چراغوں سے
روشن رہتے ہیں

آپ کا حسب نسب سائیں
شاہوں اور سیدوں کی لڑیوں کا
سنہری پھول

اور ۔۔
ہم سائیں
آپ کی پاک زمینوں پر بندھے ہوئے
حرام زادے۔۔!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عورت ایک ایبسٹریکٹ پینٹگ ہے

عورت کی ہنسی کے سو رنگ ہوتے ہیں
اور آنسوؤں کا ایک بھی نہیں
عورت کی آنکھیں
کسی بادشاہ کے محل کی بارہ دری جیسی ہیں
ایک دروازے سے کئی دروازے نکلتے ہیں
(یا پھر کئی مرد)
جیسے ایک ٹہنی سے کئی پھول
عورت کی محبت بھی
کسی مرد کی محبت جیسی ہے
اتنی ہی شدید، پوزیسو اور بے وفا
مرد عورت کے بارے میں
اپنے پیروں سے سوچتا ہے
عورت مرد کے بارے میں
اپنی بے زبانی سے
بھلا کوئی رات کے کاغذ پر اپنے آپ کو
بارش جیسی باتیں لکھ کر روتا ہے
ہاں ۔۔ ایک عورت
خود سے محبت کے دنوں میں
خودکشی پر نظمیں لکھتا ہے
ہاں۔۔۔عورت
کوئی خوشبودار لکڑی سے گڑیا بنا کر
اسے ماچس سے بیاہتا ہے
ہاں۔۔
ایک عورت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قبر ہمارا قومی پھول ہے

کیا تمہیں ایک ایسا ملک چاہئے تھا؟
جس پر اپنے جوتے صاف کرنے کے بعد
تم ایک خوب صورت چھٹی منا سکتے
اپنی محبوبہ کے ہونٹوں سے سرخ رنگ چنتے ہوئے
تمہیں کبھی وہ پھول یاد آئے ہیں
جو ایک نابالغ ماں کی قبر تک نہیں پہنچے
تم نے 5 فروری کا کاغذ پھاڑ کر
اپنے بیٹے کے لئے جہاز بنایا
اور ہمارے لئے ایک جھنجھنا
تمہاری آواز بہت بد صورت ہے
بالکل کسی زنجیر کی طرح
جب بھی گلیوں سے بھونکنے کی آواز آتی ہے
ہم مسجدوں میں اعلان کرتے ہیں
کہ۔۔۔ ہما ری بیٹیاں مر گئیں
ہماری مائیں اپنے دوپٹے پھاڑ کر
دروازے اور کھڑکیاں بناتی ہیں
ہمارے باپ دادا ایسے تہہ خانے
جہاں حرام زادوں کی قلقاریاں
تھوکی نہ جاسکیں!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بایاں ہاتھ اور ماچس کا گیت

فساد فی الارض کا اعلان ہوتے ہی
ترازو والوں نے ایک پلڑے میں
ذلت۔۔
اور دوسرے میں خود کو رکھا
ان کا پلڑا جھک گیا
یہ بائیں ہاتھ والے ہیں

زمین نے اپنا گریبان پھاڑ ڈالا
اور سیاہ چہروں والے
ایک ایک کفن کا حساب دیتے
پہاڑ کے مانند ریزہ ریزہ ہو گئے
یہ دوزخ خریدنے والے ہیں

جب تابوتوں پر جوتے برسائے جارہے تھے
قیامت اپنے آپ میں غرق ہو گئی
آنسو ۔۔ بہت سارے آنسو
خدا کے پیروں سے لپٹ گئے
جیسے ٹانگ سے محرومی کے بعد
ہاتھ میں بیساکھی آ جاتی ہے
ایسے رحم کے چھن جانے پر
آگ کے پاؤں دیے جاتے ہیں
یہ آگ والے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں تمہاری آواز کی تصویر کھینچ سکتا ہوں؟

میں اپنی کلہاڑی کے دستے سے
تمہارے لئے
ایک بنسری بنانا چاہوں گا
تم وہ سارے پہاڑی گیت
اونچی حویلی کی خوابگاہ سے
باہر انڈیل دینا
جو تمہاری ریشمی آواز کو
دیمک کی طرح چاٹ گئے

میں اپنے ڈول سے تمہارے لئے
ایک کشتی بنانا چاہوں گا
تم اپنی سبز آنکھوں میں بہہ کر
کسی دروازے کو اپنا رازداں بنا لینا
میں دریا کی چوکھٹ پر
تمہارا منتظر رہوں گا

میں جولاہا ہوں
تمہارے لئے وطن کا ایک ٹکڑا
کاشت نہیں کر سکتا
تمہیں میری زمین پر رہنا ہوگا
کسی درخت،پھول
یا پھر کسی پہاڑ کا حصہ بن کر

میں تمہارے لئے
اپنی سانسیں ادھیڑ کر
ایک چراغ بُننا چاہوں گا
جس کی حدت سے
تمہارے ہونٹوں کے سرد پتھر
آگ ہو جائیں
اور میں۔۔۔
تمہاری آواز کا ریشم چرا سکوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بے وطن عورت کا مارچ(1)

۔۔۔۔
کوئی رنگ سفیدی کے علاوہ؟
پانی ۔۔ آنسوؤں کے سوا
سرخی ۔۔۔ لہو سے الگ تھلگ
چوڑیاں ۔۔۔ جن میں بیڑیوں سی کھنک نہ ہو
پازیبیں ۔۔ جن کی صورت زنجیروں سے علیحدہ
ایک آزادی میرے کاجل کے لئے
ایک نعرہ میری زندگی کے لئے
ایک دیوار ایسی ہو
جس پر میری مرضی کی سانسیں ٹنگی ہوں
کوئی ایسی زمین
جس پرمیں اپنی مرضی کا وقت کاشت کر سکوں
میرے لیے کوئی بینر
جس پر میرے وطن کا نقشہ ہو
کوئی سڑک
جو میرے ملک کو جاتی ہو
اور راستے میں کوئی قبرستان نہ پڑے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بے وطن عورت کا مارچ(2)

میرے بیٹے
کچھ دیر کے لئے
کیا تو مرنا موخر نہیں کرسکتا تھا
کرتے کا آخری بٹن ٹانکنا باقی تھا
ایسی بھی کیا ناراضی
تو بغیر بٹنوں والا ان سلا لباس پہن کر آگیا
ارے اس میں تو کوئی جیب بھی نہیں ہے
میں یہ چاروں قل والا تعویذ کہاں رکھوں
تیری حفاظت کے لئے جو پانی دم کیا تھا
تیرا باپ بالٹی میں انڈیل کر لے گیا
بیری کے پتے
اور وہ تختہ
جس پر بیٹھ کر تو آزادی کے نعرے لکھا کرتا تھا
میرے لعل
ذرا ٹھہر میں طاق میں سے عطر اٹھا لاؤں
یہ کافور بھی کوئی لگانے کی چیز ہے
دیکھ باورچی خانے میں چولہا جل رہا ہے
کہیں میری سانسیں تو نہیں جل رہیں
یہ میرا دوپٹہ بھیگتا کیوں جارہا ہے
میرے چاند
تیرے ماتھے پر سرخ پھول کھلا ہوا ہے
مجھے اس کی خوشبو سونگھنے دے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بے وطن عورت کا مارچ(3)

مٹی خارش کی طرح
میرے جسم سے چمٹی ہوئی ہے
آزادی کی سرخ چیونٹیاں
میری آنکھوں میں بل بناتے ہوئے
آٹے کی بوریوں پر نعرے لکھتی ہیں
“ایک عورت کے بدلے ،وطن کی ایک اینٹ”
نہیں، نہیں
وطن عورتوں کا متبادل نہیں ہوتے
عورتیں تو غنمیت کی لاٹھیوں سے ہانک کر
کتوں کی شکار گاہ میں لائی جاتی ہیں
اور بدن سونگھنے والے
مٹی کو کھجلی میں بدل دیتے ہیں
دوسری عورتوں کو
سورہ نور والے مرد ملتے ہیں
اور ہمیں
خارش زدہ کتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بے وطن عورت کا مارچ(4)

میں زوجہ فلاں ابن فلاں
تمہاری وردیوں کے لئے حلال نہیں ہو سکتی
میرا خاوند
تمہارے بوٹوں کے نیچے آ کر مر گیا
لیکن میں اس کا جنازہ لینے سے انکاری ہوں
نکاح نامے سے بیوگی کاخانہ پھاڑ کر
میں تمہاری لئے پھانسی کا پھندہ بناؤں گی
یہ میرا بیٹا ایک درخت ہے
اس کی لکڑی ایک دن تختہ دار میں بدل جائے گی
اور میں تمہاری وردیوں سے
اپنے خاوند کے پھٹے پرانے جوتے صاف کرتے ہوئے
تمہاری ماں بہنوں کو گالیوں جیسی بددعائیں دوں گی
میں زوجہ فلاں شہید ابن شہیدابن شہید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ

بجھاؤ۔۔یہ موم بتیاں
اور اس آگ سے اپنے چولہے آباد کرو
اٹھاؤ! ۔۔۔ پھولوں کی چادریں
اور اپنے بدن کی نالیاں ڈھانپ لو
سمیٹو!۔۔۔ خیرات کی تھالیاں
بھوک کے رنگوں سے جسم کی دیواروں پر
عزت کی روٹیاں پینٹ کرو
پھینکو!۔۔پیروں سے سلی ہوئی قمیضیں
اپنی برہنگی پر رقص کرو
ناچو!۔۔۔موت کی مسجدوں میں
جھومو!۔۔۔کلیسا کے سرد خانوں میں
گاؤ۔۔۔مندروں کے اسٹریچرز پر
خدا کے گیت
موت کے قفل توڑ کر
پھلانگو ۔۔ زندگی کی دیواریں
اپنی زبانوں سے پرچم بناؤ
اپنی آوازوں سے ایک سمندر
جو ان ساری مچھلیوں کو پھاڑ کھائے
جو تمہارے یونس نگل گئیں

ہمارے لیے لکھیں۔