Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

تصوریت اور حقیقت

test-ghori

test-ghori

28 جولائی, 2016
شروع جوانی سے ہی میری خواہش رہی کہ میں مطالعے میں سینئر کسی اہل قلم یا پروفیسرسے تصورّیت اور حقیقت نگاری (Idealism and Realism )پر یورپی ناول کے حوالے سے بات کروں۔ اس سنگلاخ زمیں یعنی یورپ (بالخصوص فرانس) میں حقیقت نگاری کی جڑیں تلاش کرنے کے لیے فطرت نگاری یعنی (Naturalism) کی شروعات کی تلاش ضروری تھی۔ قطع نظر اس بات کے کہ ترقی پسندوں کو اس اصطلاح یعنی نیچرل ازم سے بغضِ محض تھا، میں نے مطالعے کی عرق ریزی کے دنوں میں یہ محسوس کیا کہ دونوں ایک دوسرے کی ضد نہ ہو کر ابتدا اور انتہا کی بہم دگر کشش ثقل کی سی کیفیت میں گھومتی ہیں۔ ایک دوسرے سے پیوست بھی نہیں ہو سکتیں اور ایک دوسرے کے مدار میں ہونے کی وجہ سے دور بھی نہیں جا سکتیں۔ ایک جانب تو نیچرل ازم حقیقت نگاری کی وہ جہت ہے جو عام آدمی کی روز مرہ کی زندگی کے ان پہلوؤں کو پیش کرتی ہے، جو مذہب یا اخلاقیات کے زیر اثر پہلے منصۂ شہود پر نہیں آئے۔ عقلی ثبوتیت یا منطقی شہادت اگر ایک منظر نامے اور اس میں جڑے ہوئے کرداروں اور ان کے کام کاج، گفتگو اور رسم و رواج کو صحیح تصور کرتی ہے تو روحانی یا مذہبی تقاضوں کو رد کیا جا سکتا ہے۔ فرانس میں گون کور (دو بھائی)، فلابیئرؔ، ایمل زولاؔ اور گائی دی موپاساںؔ کو سامنے رکھیں تو یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

نیچرل ازم حقیقت نگاری کی وہ جہت ہے جو عام آدمی کی روز مرہ کی زندگی کے ان پہلوؤں کو پیش کرتی ہے، جو مذہب یا اخلاقیات کے زیر اثر پہلے منصۂ شہود پر نہیں آئے۔
ایک اور جہت جس پر میں کسی سے بات کرنے کے لیے موقع ہی تلاش کر رہا تھا وہ ادب میں فطرت نگاری اور پلاسٹک آرٹس، خصوصی طور پر پینٹنگ میں Impressionism کا فرانس میں بیک وقت ظہور پذیر ہونا تھا۔ ایمل زولا کا یار غار اور پینے پلانے والا دوست سیزانؔ Cezanne نہ صرف اس کا محرک تھا، بلکہ نظریہ ساز بھی تھا۔ اس نے کہا، “زندگی کی صحیح صورت تبھی پیش کی جا سکتی ہے جب کہ اس کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اس کی بدصورتی کو بھی پیش کیا جائے۔ میں نے کچھ مناظر میں بھدّے اور کھردرے رنگ اسی لیے استعمال کیے ہیں کہ روز مرہ کی زندگی کی ہو بہو نقاشی کی جائے۔” اس کا اسٹائل یہ تھا کہ رنگوں کو باریکی اور نفاست سے کینوس پر استعمال کرنے کے بجائے ان کے انبار بکھرا دیے جائیں اور ان کی جیومیٹری کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ ان پر پڑتی ہوئی روشنی ان کو مدھم کرنے کے بجائے زیادہ اجاگر کرے۔

ایمل زولاؔ اور گون کور بھائیوں کے ہاں کردار اور واقعات نگاری میں بھی یہی طریقِ کار ہے۔ صرف معمولی سا فرق ہے، جو مجھے دکھائی دیا، شاید دیگر فرانسیسی نقادوں نے بھی اس کا ذکر کیا ہو لیکن یہ میری دسترس سے باہر تھا کہ میں ان کو پڑھ سکتا۔ فرق صرف یہ تھا کہ گون کور بھائی کرداروں کو واقعات پر ترجیح دیتے ہوئے بھی انہیں آس پاس کے ماحول کو تابع رکھنے کا ہنر جانتے تھے اور ایک مضمون میں جو اٹلی کے گنتھرمارتوؔ نے لکھا تھا، ان کو اس بات کا کریڈٹ بھی دیا گیا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ سب لکھنے والے پہلے اس ماحول سے کماحقہ واقفیت حاصل کر لیں جس میں وہ اپنے کرداروں کو ’پھنسانا‘ چاہتے ہیں۔ (انگریزی میں یہ لفظ entangled تھا)۔

گون کور بھائی کرداروں کو واقعات پر ترجیح دیتے ہوئے بھی انہیں آس پاس کے ماحول کو تابع رکھنے کا ہنر جانتے تھے
اس بات کا ذکر کرتے ہوئے بھی میں خود کوئی شرم نہیں محسوس کر رہا کہ میں نے بھی کون کورؔ صاحبان کی طرز پر اپنی character-oriented کہانیوں میں اس طریق کار کو اپنایا ہے اور اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے۔ دوسری طرف زولاؔ کا طریقِ کارمجھے مختلف دکھائی دیا۔ اس کے بارے میں تحریر کردہ دو مضامین (جو انسائکلو پیڈیا بریٹانِکا کے1956ء ایڈیشن میں مجھے نظر آئے) ایک نقاد نے لکھا ہے کہ زولاؔ کے خیال میں ایک کہانی یا ناول کو لیباریٹری کے تجربے کی طرح ہونا چاہیے، یعنی اگر ہم ایک کردار کا انتخاب کر رہے ہیں اور ہم نے اسے ایک کاریگر، مزدور یا جسمانی مشقت کا کام کرنے والا دکھانا ہے، تو پہلے اس کی لیباریٹری میں استعمال کیے جانے والے کیمیکل اجزاء کی طرح اس کی عمر، جسامت، حجم، بولنے کے انداز کا تعین کر لیں اور تب اسے کاغذ کی سطح پر اتاریں۔ آج کل ہم اسے Type-characterکا نام دیتے ہیں، لیکن زولا کے وقتوں میں یہ اصطلاح عام نہیں تھی۔ مجھے اس طرز سے اختلاف تھا کیونکہ اس میکانکی طریقے سے ہم اپنے کرداروں میں individualistic خصوصیات پیدا نہیں کر سکتے۔ ہر کردار پہلے ایک فرد ہے اور بعد میں ایک جماعت۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے یاد ہے کہ ایک بار دہلی میں میرے ساتھ میرے پرانے دوست رام لالؔ، ہیرا نند سوز اور ہرچرن چاولہ تھے، اس میں فلابیئرؔ کا ناول “مادام بوواری”، اسی مصنف کا ایک اور ناول (جو انڈیا میں بہت کم پڑھا گیا ہے) “سلامبوو”، اور زولاؔ کے علاوہ گون کورؔ بھائیوں کے ناول اور گائی دی موپاساںؔ کے افسانوں پر دو تین گھنٹوں تک بحث ہوئی۔ جب یہ مسئلہ زیر بحث آیا۔ مقابلتاً میرے تینوں احباب کا مطالعہ بہت کم تھا اور کافی لے دے کے بعد، ہیرا نند سوز کو چھوڑ کر باقی کے دونوں دوست میرے ساتھ اس بات پر ایمان لے آئے کہ ستیہ پال آنند کی بات صحیح ہے۔ سوزؔ کا نکتۂ ارتکاز یہ تھا کہ یہ بات ترقی پسند نظریے کے منافی ہے، یعنی آپ ایک اچھے کارکن کو ہڑتالی مزدور کے طور پر کارخانے کو آگ لگاتے ہوئے تو دکھا سکتے ہیں، لیکن کارخانے کے مالک کے بیٹے یا بیٹی کو اغوا کرتا ہوا نہیں دکھا سکتے۔ جب کہ ہم تینوں اس سے متفق نہیں تھے۔

جب تک اردو شاعری غزل سے دامن چھڑا کر نظم کی طرف متوجہ نہیں ہوتی، اس بات کا کوئی تدارک نہیں ہے کہ اس میں وہ خصوصیات پیدا ہو سکیں جس سے یہ یورپی ادب کے شانہ بشانہ کھڑی ہو سکے۔
افسانہ نویسی کے دنوں میں رات رات بھر بیٹھ کر ان مسلمہ اصول اور قاعدوں پر سوچتا تھا جن کے بارے میں انیسویں صدی کے شروع میں ہی یورپ میں بحث و مباحثے، تکرار و مناظرہ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ اردو میں ابھی ان باتوں کا چلن شاید کچھ جامعات میں ہوا ہو لیکن سیمیناروں اور کانفرنسوں میں (ترقی پسند تحریک کا بھلا ہو!) صرف ادبی سیاست ہی دکھائی دیتی تھی۔ مثال کے طور پر 1957ء میں میرا ایک مضمون کراچی کے ایک جریدے میں شائع ہوا جس میں بر اعظم یورپ میں اظہاریت Expressionism کی تحریک کی اطالوی شروعات کے بارے میں لوئی پیرانڈیلو Louise Pirandelloکے حوالے سے میں نے imagism یعنی ’تصویریت‘ کے بارے میں اردو غزل کی بے مائیگی کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ جب تک اردو شاعری غزل سے دامن چھڑا کر نظم کی طرف متوجہ نہیں ہوتی، اس بات کا کوئی تدارک نہیں ہے کہ اس میں وہ خصوصیات پیدا ہو سکیں جس سے یہ یورپی ادب کے شانہ بشانہ کھڑی ہو سکے۔

اسی رسالے کے دوسرے شمارے میں کراچی کے ہی ایک بزرگوار نے میرے مضمون کے حوالے سے مجھے لتاڑا کہ میں، یعنی ایک ’مبتدی‘ جو غیر مسلم بھی ہے، اس لیے اردو شاعری کو نقصان پہنچا رہا ہے کیونکہ وہ ہندی میں بھی لکھتا ہے اور اردو کی شاخ نازک پر یورپی شاعری کا پیوند لگا کر اس کا ستیا ناس کرنا چاہتا ہے۔ بعینہ یہی بات برسوں بعد، یعنی گذشتہ صدی کی اسی کی دہائی میں میرے ساتھ دہلی میں پیش آئی۔ انجمن ترقی اردو کے ایک مناظرے میں بر سبیل تذکرہ میں نے یورپ کی کچھ تحاریک کا ذکر کیا کہ کیسے انیسویں صدی میں ہی اظہاریت کے بعد اثریت Impressionism اور ما بعد اثریت Post Impressionism یا مستقبلیت Futurism اور تصویریت Imagism نے مختلف اصناف سخن کو نئی جہات سے روشناس کروایا، تو جناب خلیق انجمؔ، جو انجمن کے روح رواں تھے، مجھے آڑے ہاتھوں لیا اور کہا، (ان کے الفاظ میرے دل پر نقش ہیں، کیونکہ اس سے زیادہ غیرذّمہ دارانہ اور غیر مہذب کامینٹ میں نے پہلے کسی ذمہ دار شخص سے نہیں سنا تھا !) ، “ڈاکٹر آنند کا بس چلے تو یہ اردو شاعری کو ایک “سی ڈی” میں بند کر کے کمپیوٹر میں ڈال دیں، کچھ بٹن دبائیں اور جب کمپیوٹر سے یہ طلسمی سی ڈی واپس نکلے تو میر اور غالب کی شاعری کو مسخ کرنے کے بعد یہ یورپی شاعری بن چکی ہو۔”

Image: Girl before a mirror by Picasso