Laaltain

عامر صدیقی کے تین افسانے

14 جون، 2018
کارنس

’’میں اسے گڑیا سے کھیلنے نہیں دوں گی۔‘‘
کمرے کے سناٹے کو چیرتی، تین سایوں میں سے ایک کی سرگوشی ابھری۔۔۔۔۔۔اور دلوں میں اتر گئی۔۔۔۔
۔۔۔سنگدلی، سفاکیت، پختہ ارادہ
۔۔۔تذبذب، نیم دلی،پس و پیش
۔۔۔مظلومیت،بے بسی، تاریکی
’’چوں چوں چوں‘‘
’’اس کارنس کو صاف کرو۔۔۔۔سارے گھر کو بھنکادیا ہے۔جہیز میں اور تو کچھ لائی نہیں کلموہی، سوائے ان منحوس پرندوں کے۔۔۔ ‘‘
۔۔۔تہمت، بہتان، اتہام
۔۔۔تردد،نیم رضامندی، فرمانبرداری
۔۔۔نصیب، قسمت،آنسو
’’چوں چوں‘‘
’’بس میں نے کہہ دیا، اس گھر میں گڑیا نہیں آنے دوں گی۔۔۔۔‘‘
’’میں بھی۔۔۔۔۔۔‘‘
’’میں گڑیا سے ہی کھیلوں گی۔۔۔۔‘‘
’’چوں چوں چوں‘‘
’’کارنس سے گند ہٹاؤ ابھی۔۔۔۔۔‘‘
۔۔۔بدبو، تعفن، سرانڈ
۔۔۔قصد، عزم،کارروائی
۔۔۔چیخیں، سسکیاں، کراہیں
’’چیں چیں چیں‘‘
’’چیں چیں چیں‘‘
خون،سفیدی، زردی
زردی، سفیدی، خون


الگنی کی تلاش میں بھٹکتا پیار

’’جھاگ نہیں بن رہا۔‘‘
’’تھوڑا پاؤڈر اور ڈالو نا۔‘‘
’’بہت جھاگ بن جائے گا۔‘‘
’’تمہارا کیا جاتا ہے۔‘‘
’’میرا کیا جائے گا؟ میرا ہی تو جاتاہے۔۔۔اچھااسے بھی دھو ڈالو،اوراسے بھی۔‘‘
’’جھاگ مرجائے گا۔۔۔‘‘
’’کام چل جائے گا۔ ‘‘
’’بہت مشکل ہے۔ویسے بھی الگنی چھوٹی ہے۔‘‘
’’الگنی بڑی کئے دیتا ہوں۔‘‘
’’مگر جھاگ کا کیا؟اوراب پاؤڈر بھی نہیں۔‘‘
’’تم کیا ان سے دھوتی ہو۔‘‘
’’کون میں ؟ اور کس سے بھلا۔تم کیا سمجھے؟‘‘
’’میں سمجھا۔۔۔۔‘‘
’’کیا سمجھے؟‘‘
’’ارے جھاگ نیچے گر رہا ہے۔‘‘
’’کچھ نہیں، لاؤکیا دھونا ہے،کیازندگی؟‘‘
’’رائیگاں گئی۔‘‘
’’قسمت؟‘‘
’’وہ تو پھوٹی نکلی۔‘‘
’’روپیہ پیسہ۔‘‘
’’ہاتھوں کا میل تھا۔ سواتار پھینکا۔‘‘
’’توجوانی۔‘‘
’’اسے ادھارپرلیا تھا، واپس کردی۔‘‘
’’عزت۔‘‘
’’ٹکے بھاؤ بیچ دی۔‘‘
’’شہرت۔‘‘
’’بہت داغدار ہے۔تمہارے بس کی بات نہیں۔‘‘
’’پھرحوصلے کا کیا۔‘‘
’’ماند پڑ گیا۔‘‘
’’اورجذبات۔‘‘
’’ان کا رنگ پھیکا پڑگیاہے۔‘‘
’’حسن ہی سہی۔‘‘
’’اب کہاں، ناپید ہوچکا۔‘‘
’’بشاشت۔‘‘
’’اس پرحالات کا پکا رنگ چڑھ چکاہے۔اب یہ نہ اترے گا۔‘‘
’’تو پھر اپنی کھال ہی اتار کردو۔‘‘
’’کئی بار اتاری جا چکی، اب اتاری تو پھٹ جائے گی۔‘‘
’’جب کچھ دھلوانا ہی نہیں تو اتنا جھاگ کیوں بنوایا؟‘‘
’’پیار کو جو دھلوانا تھا۔‘‘
’’فقط ایک پیارکو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’پکا۔‘‘
’’پکااورہاں خوب رگڑ رگڑ کر دھونااور اچھی طرح نچوڑنا۔‘‘
’’ارے کتنا گندہ ہے۔‘‘
’’ہاں صدیوں سے یونہی جوپڑا تھا، کسی الگنی کی تلاش میں۔‘‘


بیر بہوٹی کی تلاش میں

میں بیر بہوٹی کی تلاش میں تھا۔
میں کہاں کہاں نہیں بھٹکا۔
نامعلوم اور خوابیدہ عدم کو ممکنات میں لے آیا۔
ساتوں آسمان، تمام جنتیں، سارے جہنم۔
یہاں تک کہ تخلیق کی دیوارِ گریہ تک بھی جا پہنچا۔
چیخوں اور کراہوں کی موسلادھار بارش کی پھسلن کو ان دیکھا کرکے۔
ناامیدی کے بھنور میں امید کے پر لگا کر
روح کی بے کسی کو متاعِ عزیزجان کر
بدن کی شکستگی و کہنگی کو مومیائی بنا کر
نفس کی منہ زوری کو لگام ڈال کر
ہر خواہش، ہر امید، ہر تمنا، ہر چاہت کوپیچھے د ھکیلتے۔۔۔۔
فقط بیر بہوٹی کو پانے کی چاہ میں۔۔۔۔۔
ایک جھلک دیکھنے کی آرزو میں۔۔۔۔۔
میں دیوار پر چڑھ گیا۔اوراب میرے سامنے تھے،تمام مناظر،تمام موجودات۔۔۔ ساحل پر پڑی کسی مردہ سیپ کی مانند۔۔۔ بے ٹھور۔۔۔بے سدھ۔۔۔بے بال وپر۔۔۔بے پا۔۔۔۔بے بود۔۔۔ مگر بیر بہوٹی۔۔۔ بیر بہوٹی کہاں تھی۔۔۔
کسی نے مجھ سے کہا تھا۔۔۔
’’ اس کی تلاش تو بہت آسان ہے۔۔۔
اسے پانی کی تلاش ہے۔۔۔۔
توُ اسے پانی کی بھینٹ دے اور وہ تجھے مل جائے گی۔۔۔‘‘
پر میں نہ مانا۔ میں مان بھی نہیں سکتا تھا۔ میرے اندر یہ صلاحیت ہی نہیں تھی۔
’’پانی جیسی حقیر شے۔۔۔ مجھے بیر بہوٹی کے شایانِ شان نہیں لگتی۔۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے کہ تُو ماننے والا نہیں۔۔۔اگر ماننے والا ہوتا تو بھلا بیر بہوٹی کی تلاش ہی کیوں ہوتی تجھے،وہ خود تجھ تک پہنچ جاتی۔ جا پھر اسے اپنے طریقے سے تلاش کر۔‘‘
سوچوں کو پرے ڈال کر میں دیوار سے نیچے اترا۔۔۔۔اور بڑبڑایا،’’اگر اسے پانی کا ہی تحفہ دینا ہے تو یہ پھر میرے مطابق ہو گا۔۔۔’’میں‘‘۔۔۔ میں ہوں۔۔کوئی مشت غبار تو نہیں ہوں۔۔‘‘
اب میں ساتوں سمندروں کی جستجو میں تھا۔ بیر بہوٹی کے لئے، اس کی شان کے مطابق، تحفے کی تلاش میں۔۔
اور
وہیں دور کہیں،کسی سوکھے صحرا میں لب دم کوئی شخص،اپنی بے بسی پر بے اختیاررو پڑا۔۔اس کی آنکھوں سے چند قطرے گرے۔۔۔اور ریت میں جذب ہوگئے۔۔۔
بہر بہوٹی کو اس کی بھینٹ مل گئی تھی۔۔۔۔۔
Image: Wassily Kandinsky

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *