ہندوستان میں اردو زبان کے ادبی رسائل کی ایک عظیم تاریخ ہے۔اردو ہندوستانی زبان ہے، لہذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ یہاں سے اس زبان کے رسائل و اخبارات جاری ہوں۔ البتہ تعجب اس بات پر کیا جا سکتا ہے کہ دنیا کی جن عظیم زبانوں نے اردو کے ساتھ جنم لیا ، کیا ان زبانوں میں بھی اردو کی طرح رسائل و اخبارات کا سلسلہ رہا ہے۔ ہمیں لا محالہ اس بات پر تعجب کرنا چاہیے کہ یہ زبان جس کے ادبی سرمائے کے طور پر ہم نے گزشتہ تین سو برس میں خاصہ ذخیرہ جمع کیا ہے ، اس زبان میں رسائل اور اخبارات کی کثیر تعداد موجود ہے۔ ان میں بے شمار ایسے ہیں جن کی اپنی ایک تاریخ ہے اور جو مستقل و مسلسل تقریباً ایک صدی سے نکل رہے ہیں۔ ایسے ہی عظیم اور مسلسل رسائل میں آج کل کا بھی شمار ہوتا ہے۔”آج کل” اردو زبان و ادب کا ایک وقیع رسالہ ہے جس نے ہندوستان میں اردو زبان کو ارتقا بخشنے اور اس کے ادبی مسائل کو وسعت دینے میں کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ اس رسالے کی ابتدا 1942 میں ہوئی تھی اور تب سے اب تک یہ مسلسل جاری ہے اور علمی و ادبی خدمات انجام دے رہا ہے۔تقریباً 77 برس میں اس رسالے نے بے شمار ادبی و علمی مباحث کو جنم دیا ، اس کے فروغ کا سامان بہم پہنچایا اور ادب و زبان کے ارتفا ع سے ہمارے ذہنی ارتقا میں کوشاں رہا۔
"آج کل"کی ابتدا 25 نومبر 1942 کو ہوئی، آج کل کی ابتدا کے سلسلے میں ذرا سا اختلاف پایا جاتا ہے، کیوں کہ 25 نومبر 1942 سے قبل بھی یہ رسالہ جاری ہوا ہے لیکن کسی، دوسرے نام اور فکرکے ساتھ۔ اگر ہم اس کی ابتدائی کڑی کو باقاعدہ تلاش کریں اور تعین کرنے کی کوشش کریں تو متذکرہ بالا تاریخ اور سن ہی طے پائے گا۔ اس تاریخ کو جاننے کے بعد ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ آج کل ہندوستان کے کس سیاسی و سماجی خلفشار کے عہد میں جاری ہونا شروع ہوا تھا ۔ اسے نظر انداز کرنا ہماری کم نظری ہوگی۔ کیوں کہ اس رسالے کے مضامین اور رجحانات کا تعین اسی سے ہوتا ہے۔ یہ تاریخ ان دونوں حوالوں سے ہمیں یہ سمجھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے کہ ادب سے پہلے آج کل کا رشتہ کن موضوعات سے استوار تھا۔
بہر کیف یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آج کل کی ابتدا برطانوی عہد میں ہوئی تھی ۔اس کا مزید پس منظر جاننے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت برطانیہ نے دلی میں ایک ادارہ دوسری جنگ عظیم کے دوران یونائیٹڈ پبلی کیشنز (متحدہ مطبوعات) کے نام سے قائم کیا تھا۔ جس ادارے کے ذمہ کئی ایک صحافتی و ادبی کام آئے تھے۔ ہندوستان کی مختلف ملکی و سرحدی زبانوں میں اس ادارے سے رسالے جاری کیے گیے تھے۔ انہیں میں پشتو زبان کا ایک رسالہ بھی شامل تھا جس کا نام نن پرون تھا۔ یہ نام اردو والوں کے لیے غیر معروف ہے، مگر اس لفظ کے لغوی معنی آج کل کے ہی ہوتے ہیں۔ نن پرون 5 مئی 1941 کو پہلی مرتبہ جاری ہوا، جس کی مقبولیت اور کامیابی کو دیکھ کر اور سرحدی علاقے میں رہنے والے عوام کی خواہشات اور ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا ایک اردو ایڈیشن بھی 10 جون 1942 سے جاری کیا گیا۔ اس وقت جب آج کل، نن پرون کے نام سے نکلنا شروع ہوا تو اس کے صفحات کی تعداد صرف 25 تھی ۔ہر پندرہ روز بعد شائع ہوتا تھا اور ہر ماہ کی 10 اور 25 تاریخ کو نکلتا تھا۔
نن پرون نام سے اردو زبان میں آج کل کے گیارہ شمارے نکلے، مگر اردو حلقے میں ان گیارہ شماروں میں بھی یہ نام اپنی جگہ نہیں بنا سکا، لہذا اس کی تبدیلی پر غور کیا گیا اور جلد ہی اس علاقوں میں جہاں نن پرون نام کی اجنبیت کو شدت سے محسوس کیا جا رہا تھا اس کا نام بدل کر آج کل کر دیا گیا۔ آج کل کے نام سے پہلا رسالہ 25 نومبر 1942 کو جاری ہوا، اور سرحدی علاقوں میں بھی اس نن پرون کے اردو ایڈیشن کا نام آج کل کر دیا گیا۔ پشتو زبان کے رسالے کی وہ جھلک جو نن پرون نامی رسالے میں باقی تھی اس کے نام کی تبدیلی کے باعث وہ یکسر ختم ہو گئی اور اردو کے حلقے کو باقاعدہ ایک نیا اور رسالہ اپنی نئی شاخت کے ساتھ حاصل ہوا۔
آج کل کو نن پرون سے کلیتاً جدا کرنے کے لیے اس کی اشاعت کی تاریخ 4 مئی 1943 سے بدل دی گئی۔ جو رسالہ پہلے ہر ماہ کی 10 اور 25 کو نکلتا تھا اسے 4 اور 20 کو جاری کیا جانے لگا، لیکن تاریخوں کے سلسلے میں استقامت پیدا نہ ہو سکی اور اس میں وقتاً فوقتاً تبدیلی آتی رہی،مثلاً جو رسالہ 4مئی 1943 کی 4 اور 20 تاریخ کو جاری ہوا تھا وہ ایک ماہ بعد 4 جون کے بجائے 1 جون کو جاری کیا گیا اور 20 جون کو نکلنے والا شمارہ 15 جون کو منظر عام پر آ گیا۔ یہ تاریخیں اردو رسالہ کو ہر ماہ کے دو شماروں میں تقسیم کرنے کے لیے کی گئیں تھیں اور اس سے ایک واضح اثر یہ بھی مرتب ہوا کہ جو لوگ آج کل کو اب تک نن پرون کا اردو ایڈیشن سمجھ رہے تھے ان کی ذہنیت بھی بدل گئی۔
1 جون 1943 کا شمارہ آج کل کا اہم ترین شمارہ تھا ، کیوں کہ اسی شمارے سے آج کل صوبہ سرحد)موجودہ خیبر پختونخوا( کے علاقوں سے نکل کر ملکی سطح پر چھا گیا اور اس کو برطانوی حکومت کا ملکی رسالہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اس سے شمارے سے قبل جتنے شمارے نکلے تھے وہ اردو پڑھنے والوں کے ایک بڑے حلقے تک نہیں پہنچتے تھے۔ صرف سرحدی صوبے کے اردو داں حضرات تک اس کی رسائی تھی۔ ان سرحدی علاقوں میں اردو بولنے اور پڑھنے ، لکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی ،اسی وجہ سے یہ رسالہ ان علاقوں میں جلد مقبول ہو گیا تھا۔ مگر ملکی سطح کا رسالہ ہو جانے کے بعد آج کل کی اہمیت بہت بڑھ گئی اور اس میں لکھنے اور اسے بڑھنے والوں کی تعداد میں سیکڑوں گنا اضافہ ہو گیا۔ اس میں اردو کے بڑے ادیبوں اور شاعری کے کلام اور تحریروں کو جگہ ملنے لگی ساتھ ہی اس کے موضوعات میں بھی تنوع پیدا ہونے لگا۔ اول اول یہ رسالہ صوبہ سرحد )موجودہ خیبرپختونخوا(کے سیاسی مسائل کا احاطہ کرتا تھا اور ساتھ ہی اس میں کچھ ادبی مواد بھی شامل کر دیا جاتا تھا ، مگر 1 جون 1943 کے بعد اس کی سیاسی حیثیت یکسر ختم ہو گئی اور یہ خالص ادبی وعلمی مسائل کا رسالے میں تبدیل ہو گیا۔ حالاں کہ آج کل کی اہمیت اور حیثیت میں وقت کے ساتھ ساتھ کئی تبدیلیاں واقع ہوئیں جن کا ہم بتدریج تذکرہ کریں گے۔
آج کل جس وقت سے جاری ہوا اس وقت سے مستقل نکل رہا ہے، صرف درمیان میں یہ تین ماہ کے لیے بند ہوا تھا وہ بھی ملک کی سیاسی اور سماجی صورت حال میں ایک بڑا انقلاب رو نما ہونے کے باعث ۔جون 1943 سے جولائی 1947 تک کے شمارے مستقل نکلے مگر اگست 1947 میں جب ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کا واقعہ پیش آیا تو یہ رسالہ تین ماہ کے لیے بند ہو گیا اور دسمبر 1947 تک اس کا کوئی شمارہ منظر عام پر نہیں آیا۔ اس عرصے میں ملک کی جو صورت حال تھی اس کے پیش نظر یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے ،مگر اس کے بعد اتنی جلد اس رسالے کا دوبارہ جاری ہوجا نا ایک حیرت انگیز بات ہے کہ اسے ہندوستان میں کتنی مقبولیت حاصل ہو گی کہ صرف تین ماہ بعد ہی یہ دوبارہ منظر عام پر آنا شروع ہو گیا۔
دوبارہ جب آج کل کی ابتدا دسمبر 1947 میں ہوئی تو اس میں ایک بڑا تغیر یہ پیش آیا کہ اب یہ پندرہ روزہ کی بجائے ماہنامہ بن چکا تھا ۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ اس عہد کے ماہنامہ شماروں پر بھی پندہ روزہ ہی تحریر ہے۔ عین ممکن ہے کہ سرورق جس انداز میں شائع ہو رہا تھا اس کی عبارت میں کوئی تغیر نہ کرنے کی وجہ سے ایسا ہوا ہو۔ کیوں کہ اس وقت آج کل لیتھو میں شائع ہوتا تھا۔ ماہنامہ ہو جانے کے بعد جنوری اور فروری 1948میں آج کل کا صرف ایک شمارہ سامنےآیا، مارچ سے پھر یہ مستقل ہو گیا اور اگست تک مستقل جاری رہا۔ اگست 1948 میں گاندھی جی کے قتل کا حادثہ پیش آیا تو آج کل کا ایک مستقل شمارہ انہیں کے لیے جاری کیا گیا۔ جس پر کسی مہینے یا تاریخ کا اندرا ج نہیں تھا۔ اگست کے مہینے میں اس طرح دیکھا جائے تو دو شمارے منظر عام پر آنا چاہیے تھے، مگر ایک ہی آیا۔ اسی ماہ سے اس کے سر ورق میں بھی تبدیلی کی گئی اور اس پر شائع ہو نے والی پندہ روزہ کی سرخی کو ماہنامے کی سرخی بنا دیا گیا۔
آج کل کا یہ شمارہ ایک اور اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ جولائی 1948 تک آج کل کا دفتر 15 راجپوت روڈ، دلی پر تھا، یہاں سے آج کل چھپتا بھی تھا اور تقسیم بھی ہوتا تھا، اگست 1948 سے ہی اس کا مستقل پتہ یہاں سے تبدیل کر کے پبلی کیشنز ڈویژن ، پوسٹ باکس نمبر 166 دلی /6 کر دیا گیا۔ پرانی دلی کا یہ پتہ آج کل کے قدیم شماروں پہ تحریر ہے۔ اس پتے کو تبدیل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ راج پوت روڈ پر برطانوی حکومت نے جس ادارے کے تحت اس رسالے کو جاری کیا تھا ، وہاں سے اس ادارے کو ختم کر کے ہندوستانی حکومت نے پبلی کیشنز ڈویژن کے نام سے جو نیا ادارہ قائم کیا تھا اس کا مرکزی دفتر پرانی دلی میں بنایا گیا تھا اور یہیں سے حکومت ہند کے تمام رسالے اور اخبارات شائع ہوتے تھے۔ آج کل کے ساتھ اس دور کے دوسرے رسائل اور اخبارات پر بھی یہ دونوں پتے یکے بعد دیگرے تحریر کیے ہوئے مل جاتے ہیں۔
اسی برس ایک اور واقعہ یہ پیش آیا کہ آج کل کے ماہنامہ کو دسمبر 1948 سے دوبارہ پندہ روزہ کر دیا گیا۔ اس کے سر ورق پر پانزدہ روزہ کا اضافہ کر دیا گیا۔ اس کی کوئی ٹھو س وجہ تو سمجھ میں نہیں آتی، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس کی مقبولیت کے باعث ایسا کیا گیا ہو یا یہ بھی ممکن ہے کہ اس کو دوبارہ سیاسی وجوہات کی بنا پر مختلف معیار سے ترتیب دینے کے لیے ایسا کیا گیا ہو۔ یہ سلسلہ زیادہ نہیں چلا پھر بھی پورے ایک برس تک ایک مہینے میں آج کل کے دو شمارے نکلتے رہے۔ پانزدہ روزہ کی تحریر سال نامہ میں نہیں ہوتی تھی۔ کیوں کہ اگست 1949 کے شمارے میں ہر مہینے کی پہلی اور پندرھویں تاریخ کو شائع ہونے والا مصور رسالہ تحریر کیا گیا ہے۔ دسمبر 1948 سے یہ سلسلہ دوبارہ ماہنامے میں تبدیل ہو گیا اور 15 نومبر 1949 سے یہ اب تک ایک ماہنامے کی صورت میں نکل رہا ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس ایک برس کے دوران جتنے شمارے منظر عام پر آئے ان میں سیاسی نوعیت کی تحریریں زیادہ نظر آتی ہیں ۔ اس لیے گمان گزرتا ہے کہ اسی وجہ سے اس کو پندرہ روزہ کیا گیا ہوگا۔
اس رسالے کے ساتھ ابتدا سے کئی ایسے معاملات پیش آئے ہیں جو عام طور پر کسی رسالے کے ساتھ نہیں آتے۔ مثلاً اس کے نام اور اس کی شروعات کے متعلق ہم اوپر تذکرہ کر آئے ہیں ، اسی طرح اس کے نکلنے کی تاریخ اور اس کے سر ورق کو بھی زیر بحث لایا گیا۔ ان تمام باتوں کے ساتھ اس رسالے کے صفحات بھی اول روز سے متنازعہ فی رہے ہیں ۔ یہ پرچا کئی مرتبہ اپنے صفحات کی تعداد تبدیل کر چکا ہے۔ کبھی مستقل ایک سلسلہ نہیں رہا اور ایک سلسلہ بنا بھی ہے تو کافی عرصے بعد ۔ مثلا ً :
ابتدا سے دسمبر 1942 تک آج کل25 صفحات پر مشتمل تھا۔20 جنوری 1943 سے 4 مئی 1943 تک 28 اور 30 صفحات رہے۔ 1 جون 1943 سے اگست 1944 تک 40 ، 42، 43 صفحات ہوئے۔دسمبر 1944 سے 52 صفحات کا ہو گیا۔15 جون 1945 سے نومبر 1948 تک 60 صفحات کا ہوگیا۔15 دسمبر 1948 سے 36 صفحات کا ہوگیا۔دسمبر 1949 سے پھر 60 صفحے کا ہوا۔مارچ 1950 سے 8 صفحے بچوں کے گوشے کے نام پر مزید بڑھا دیئے گئے اور رسالہ 68 صفحے کا ہو گیا۔اکتوبر 1956 میں رسالہ پھر 60 صفحے کا ہو گیا اور بچوں کا گوشہ ختم ہو گیا۔دسمبر 1956 میں یہ 58 صفحے کا ہوگیا۔مارچ 1969 سے یہ 48 صفحوں کا ہوگیا اور خصوصی شمارے چھوڑ کر اتنے ہی صفحوں کا مسلسل نکل رہا ہے۔
ان تمام تفصیلات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وقت کی ضرورت کے تحت اس سالے میں صفحات کی کمی اور بڑھوتی کی جاتی رہی ہے، اس کے تمام مدیران نے اس کی بہتری کے لیے بہت کچھ کیا ہے اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ کسی منصوبے کے تحت اس کے صفحات بڑھا کر گھٹائے گئے۔ زیادہ تر اس کے صفحات کی تعداد کو بڑھانے پر توجہ دی گئی ہے۔ ایک اور بات غور طلب ہے کہ ابتدائی ایام میں ہی صفحات کی تبدیلی اور تواریخ کی تبدیلی کا واقعہ پیش آیا ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ آزادی کے فوراً بعد کچھ عرصے تک کاغذ کے موصول ہونے کی پریشانی کی وجہ سے اس کے صفحات میں تخفیف کی گئی ہو گی۔ بعدازاں جوں جوں کاغذ دستاب ہونے لگا ۔ اس میں اضافہ کر دیا گیا۔ بچوں کے صفحات کے سلسلے میں بھی یہ امر پیش نظر رکھنا چاہیے کہ آج کل کا 1947 کے بعد سنجیدہ ادب کی طرف رجحان زیادہ رہا ہے ، اسی باعث اسے ہم بچوں کا رسالہ نہیں کہہ سکتے۔ اس میں جو گوشہ وقتاً فوقتاً شامل کیا گیا اس کی ناکامی کی ایک وجہ بھی یہ ہی ہو سکتی ہے کہ سنجیدہ ادب پڑھنے والے ہی اس کے زیادہ خریدار تھے۔ بچوں کے 8 صفحات بڑھانے کے بجائے ڈویژن پبلی کیشنز نے بچوں کے لیے جلد ہی ایک مختلف رسالہ جاری کر دیا اور اس گوشے کو کلیتا ً ختم کر دیا گیا۔ آج کل کا سائز ابتدائی دنوں سے تقریباً ایک جیسا رہا ہے۔ جس سائز اور جس فونٹ میں اسے شائع کیا جاتا ہے۔ اس میں 48 صفحات بالکل درست معلوم ہوتے ہیں ۔ غالباً اسی بنیاد پر مدیران نے 60 صفحات سے کم کر کے اسے 48 صفحات کا بنا دیا جو تب سے اب سے اسی طرح جاری ہے۔
پرانے زمانے میں زیادہ تر کتابیں لیتھو(کانٹے کی چھپائی) پر چھپا کرتی تھیں۔ یہ چھائی کی ایک مشین تھی جس میں پتھر لگا ہوتا تھا، تقریباً چالس، پچاس برس پہلے تک ہندوستان میں اسی مشین سے کتابیں چھپتی تھی۔ اردو کی بھی قدیم کتابیں اسی تکنیک سے چھپی ہوئی موجود ہیں ۔ آج کل کی اتبدا بھی اسی لیتھو پرنٹنگ سے ہوئی۔ 1942 سے جب آج کل الگ ہو ا تب سے 1966 تک ہر شمارہ لیتھو مشین سے چھپا، جنوری 1967 سے اس میں تبدیلی واقع ہوئی جب جدید تکنیک کی مشین آفسٹ پرنٹر آج کل کے پریس میں لگ گیا۔ آفسٹ پر چھپنے سے رسالے کی عبارت مزید صاف اور دلکش ہو گئی۔ اب تک جو عبارت چھائی کے باوجود ذرا گنجلک ہوا کرتی تھی اس میں سدھار پیدا ہوگیا اور پڑھنے والوں کے لیے آج کل مزید محبوب پرچہ بن گیا۔ اس تغیر سے رسالے کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا۔ ہم سب سے ابتدائی قیمت دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسالہ 1942 میں 2 آنے فی پرچہ اور تین روپیہ زر سالانہ پر حاصل ہوتا تھا۔ دھیرے دھیرے اس کی فی پرچہ قیمت چار آنے ہوگئی زر سالانہ 5 روپیہ اور آفسٹ کے بعد قیمت مزید بڑھ کر 60 پیسہ اور زر سالانہ 7 روپیہ ہوگئی تھی۔ اس کے بعد مستقل بڑھتی گئی اور موجودہ عہد میں اس کی قیمت 20 روپیہ فی پرچہ ہے۔
اس تعارف کے اختتام پر ہم اس رسالے کے مدیران کی فہرست پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں تاکہ بحث مکمل ہو جائے۔25 نومبر 1942 سے 4 مئی 1943 تک آج کل کے مدیر مولانا عبدالقادر خاں صاحب رہے جن کا مدیر کی حیثیت سے کبھی نام شائع نہیں ہوا۔4 مارچ 1943 میں شائع ہونے والے ایک خط سے ان کا نام معلوم ہوتا ہے۔1 جون 1943سے شائع ہونے والے نئے دور کے مدیر اعلی آغا محمد خاں داشی تھے، نائب مدیران شان الحق حقی اور شیش چند سکسینہ تھے۔15 اکتوبر 1946 کو سید وقار عظیم آج کل کے مدیر اعلی ہوئے اور 15 اگست 1947 تک رہے۔ان کے ساتھ نائب مدیر کی حیثیت سے فضل حق قریشی، سید آفاق حسین، بھگت سروب کھلر اور رگھوناتھ رینا وغیرہ رہے۔دسمبر 1947،جنوری ،فروری1948 اور گاندھی نمبر کے مدیر رگھوناتھ رینا اور شیش چندر سکسینہ طالب دہلوی تھے۔ اگست 1948 سے جوش ملیح آبادی آج کل کے نئے مدیر اعلی بنے اور 1955 تک 7 سال مدیر اعلی رہے۔1955 سے عرش ملسیانی اس کے مدیر اعلی ہوئے اور 1967 تک رہے۔ان کے ساتھ مظفر شاہ، مہدی عباس حسینی اور شہباز حسین نائب مدیر کی حیثیت سے رہے۔اکتوبر 1967 میں شہباز حسین مدیر اعلی بنے۔ان کے نائب مدیرراج نارائن راز اور نند کشور وکرم تھے۔ اپریل 1972 تک شہباز صاحب اسی عہدے پر رہے۔مئی 1972 سے عباس حسینی مدیر اعلی ہو گئے۔ نند کشور وکرم نائب مدیر ہوئے۔مارچ 1976 تک رہے۔اپریل 1976سے شہباز حسین دوبارہ مدیر اعلی بنے اور مارچ 1981 تک رہے۔ان کے ساتھ بھی نند کشور وکرم اور محمد عادل صدیقی رہے۔اپریل 1981 سے راج نارائن راز اس کے مدیر اعلی ہوئے اور ان کے ساتھ سو ناتھ سکہ اور عابد کرہانی نائب مدیر رہے، مئی 1987 میں خورشید اکرم بھی نائب مدیر ہو گئے۔نومبر 1989 میں ان کی ادارت کا دور ختم ہوا۔پھر دسمبر 1989 سے جون 1990 تک وہی مہمان مدیر رہے۔اگست 1990 میں محبوب الرحمان فاروقی مدیر اعلی ہو گئے اور جون 1992 تک رہے۔جولائی 1992 سے عابد کرہانی مدیر ظاہری ہو گئے اور جولائی 1993 تک رہے۔اگست 1993 میں محبوب الرحمن فاروقی پھر سے مدیر اعلی ہو گئے اوردسمبر 2002 تک رہے۔جنوری 2003 میں ابرار رحمانی مدیر اعلی بنے اور جولائی 2003 تک رہے۔اگست 2003 سے عابد کرہانی مدیر اعلی بن گئے اور دسمبر 2003 تک رہے پھر نائب مدیر ہو گئے۔جنوری 2004 سے وسوناتھ رام سیش مدیر اعلی بن گئے۔سیش کے بعد پھر عابد کرہانی مدیر اعلی ہو گئے اور جنوری2006 تک رہے۔فروری 2006 سے حسن ضیا مدیر اعلی ہوگئےجولائی 2006 تک رہے۔اگست 2006 میں ابرار رحمانی مدیر اعلی ہو گئے جنوری 2007 تک رہے۔ان کے بعد فروری 2007 میں خورشید اکرم مدیر اعلی ہو گئے۔مارچ 2009 تک رہے۔جولائی 2009 سے ابرار رحمانی مدیر اعلی ہوئے اور2016 تک رہے۔ان کے بعد حسن ضیا مدیر اعلی ہوگئے تا حال ہیں۔
بہر کیف 1942 سے اب تک آج کل کا ایک طویل سفر رہا ہے ، جس سفر میں اس رسالے نے کئی ادبی و علمی تحریریں شائع کیں اس کے علاوہ اپنے اب تک کے سفر میں آج کل نے تقریباً 90 خاص نمبر شائع کیے ہیں۔
Leave a Reply