Laaltain

کل وقتی شعری مزاج کا جز وقتی شاعر

8 مارچ, 2018
Picture of تالیف حیدر

تالیف حیدر

اسید الحق قادری کے متعلق یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ انھیں خدا نے شعر کہنے کی صلاحیت بھی عطا کی تھی۔یہ بات الگ ہے کہ موزونی طبع کے باوجود شعر و شاعری کو انھوں نے کل وقتی مشغلہ نہیں بنایا اور بہت کم شعر کہے۔ لیکن ان کے جتنے اشعار ہمیں دستاب ہیں اس سے ان کی شعری صلاحیتوں کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔اسید الحق صاحب کا جتنا کلام اس وقت میرے سامنے ہے اس میں ایک حمد،چار نعتیں ،ایک منقبت اور چھ دیگر نظموں کا شمار ہوتا ہے۔شاعری ان کے معمولات زندگی میں ثانوی حیثیت رکھتی تھی ،لیکن اس ثانویت کہ باوجودجتنا کلام وہ زینت قرطاس بنا گئے وہ ایسا انتخاب ہے جو بڑے سے بڑے حمد ،نعت اور منقبت نگاروں کے کلیات پر بھاری ہے۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ کلام بھی انھوں نے اپنے اس عہد میں کہا تھا جس دوران وہ اکتساب فیض کر رہے تھے اور ان کا تعلیمی سفر جاری تھا ۔فارغ التحصیل ہونے کے بعد ان کا سارا دھیال دینی علوم اور اپنے اکابرین کی کار گزاریوں کی طرف مبذول ہو گیا ۔پھر اس کام میں وہ ایسے مصروف ہوئے کہ ’غالب خستہ کہ بغیر کون سے کام بند ہیں ‘کے مماثل شاعری کی جانب نگاہ کرنا ہی چھوڑ دی۔جن جن لوگوں نے اسید الحق قاردی سے ملاقات کی ہے وہ اس بات کا اعتراف کریں گے کہ اسیدالحق صاحب مزاجاً ایک قادر الکلام شاعر معلوم ہوتے تھے۔ خود میں نے کئی بار اس بات کا ذکر ان سے کیا تھا کہ آپ کو اس کوچہ جاناناں کی سیر میں ہمہ وقت مصروف رہنا چاہئے کیوں کہ آپ کو اللہ نے شعر کہنے کی جس صلاحیت سے آراستہ کیا ہے آ پ اس کا حق ادا کر سکیں ،اس کے جواب میں وہ اپنے مخصوص تبسم کے ساتھ کیا فرماتے تھے ،اس بات کے ذکر کی یہاں ضرورت نہیں لیکن یہ بات میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اسیدالحق قادری ایک ایسی شخصیت کا نام تھا جو’ کل وقتی شعری مزاج کا جز وقتی شاعر‘ کہا جا سکتا ہے۔

اسید الحق کا ادبی مطالعہ بہت وسیع تھا۔ انھوں نے عربی اور فارسی ادب کا مطالعہ تو کیا ہی تھا لیکن اردو ادب پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی ۔اردو کے کئی کلاسکی شعرا کا کلام ان کی نوک زبان پر رہتا تھا ۔حالاں کہ اسید الحق نئی نسل کے نمائندے تھے لیکن جس علمی اور ادبی سر زمین(بدایوں) اور خانقاہ(عالیہ قادریہ، بدایوں) سے ان کا تعلق تھا اس سے بعید از قیاس نہیں کہ انھیں اتنے اشعار کیسے یاد ہو گئے ہوں گے۔پرانے شعرا ایک دوسرے کو شاعر تسلیم کرانے کے لئے جس کلیہ کو ایک دو سرے پر منطبق کرتے تھے کہ’ اس وقت تک سامنے والے کو شاعر تسلیم نہیں کیا جاسکتا جب تک اسے پانچ ہزار شعر یاد نہ ہوں ۔‘اس کلیہ کو آج کے شعرا پر منطبق کیا جائے تو صف اول کے بہت سے شعرااس حلقے سے باہر ہو جائیں گے ۔یہ کلیہ کہا ں تک درست ہے ؟یہ ایک الگ بحث ہے۔لیکن اسید صاحب کی شخصیت اس عہد میں میرے علم کے مطابق ان دو چار حضرات میں شمار ہوتی ہے، جسے پانچ ہزار نہیں تو اس کے اریب قریب اشعار تو یاد ہی ہوں گے۔ اس سے ان کی موزوں طبیعت کا علم ہوتا ہے ۔اکثر اوقات وہ شکوہ شکایت بھی شعر یا مصروں کے ذریعے کیا کرتے تھے ۔جس دوران دہلی میں اسید الحق صاحب اور خوشتر نورانی کی علامہ فضل حق خیرآبادی پرکتابوں کی رسم اجراعمل میں آئی اس کے بعد ان سے چھ ،سات مہینے تک میری کوئی گفتگو نہ رہی۔میں اپنے کاموں میں مصروف تھا وہ اپنے کاموں میں کہ اچانک ایک روز انھوں نے فیس بک پر مجھے میسج کیا کہ ’میں وہی ہوں مومن مبتلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘میں بہت شرمندہ ہوا اور فوراً ان کا حال احوال طلب کیا۔‘ اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ انھیں موضوع کے مطابق کتنے اشعار یاد تھے۔بہر کیف مجھے ان کو شاعر ماننے میں کچھ کلام نہیں۔ لیکن شاعری کوئی تمغہ نہیں ہے جسے عطا کر کے یہ کہہ دیا جائے کہ فلاں صاحب شاعر ہیں کیوں کہ ان کے پاس شعر کہنے کی سند ہے۔ہر شاعر اپنے کلام سے اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ اس میں شعر کہنے کی کتنی صلاحیت پوشیدہ ہے ۔وہ کس معیار کے اشعار کہہ سکتا ہے ،اس کا کلام اپنے بعد آنے والی نسلوں کو اور خود اس کے معاصرین کو کس حد تک متاثر کرتا ہے ۔اسید الحق قادری کی شاعری پر بھی بہت سے سوال قائم ہوتے ہیں مثلاً وہ شاعر تھے تو کس معیارکے اشعار ان کے وہاں پائے جاتے ہیں؟ ان کے اشعار آفاقی تناظر میں شعر کی تعریف سے کتنے قریب ہیں؟ ان کے کلام میں کس جذبے کی مقدار زیادہ ہے؟اور کیا انھیں ایسا شاعر تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ ان کے کلام سے کسی نوع کا ادبی ، علمی،فکری،جذباتی اور مشاہداتی استفادہ کیا جا سکے؟یا انفرادی طور پر ان کے کلام کی اپنی کوئی اہمیت ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔

شعر کو کن بنیادوں پر شعر تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ اس پر بہت سے مفکرین اور شعرا نے اپنی آراء درج کی ہیں۔جن میں اصمعیؔ ،ابن رشیقؔ اور ملٹنؔ کی رائے میرے نزدیک زیادہ معتبر ہیں ۔اصمعی ؔ کہتا ہے:

’شعر وہ ہیں جس کے معنی الفاظ سے پہلے ذہن میں آجائیں ‘
ابن رشیق ؔ فرماتے ہیں:

’ شعر وہ ہے کہ جب پڑھا جائے تو ہر شخص کو یہ خیال ہو کہ میں بھی ایسا کہہ سکتا ہوں ۔مگر جب ویسا کہنے کا ارادہ کیا جائے تو معجز بیان عاجز ہو جائیں۔‘
اور بقول ملٹنؔ :

’شعر وہ ہے،جوسادہ ہو ،جوش سے بھرا ہوا ہو، اور اصلیت پر مبنی ہو‘

ان تینوں بنیا دوں پر کھرا اترنے کے باوجود بھی اگر شعر، شعر نہیں ہے تو اس کے متعلق کسی اور رائے پر غور کیا جائے گا ۔اس بات کی وضاحت یہاں ضروری ہے کہ جن اشعار میں کسی قسم کا عیب یا سقم موجود ہو یہاں ایسے اشعار کی گفتگو نہیں ہو رہی بلکہ جوا شعار اپنی مبادیاتی سطح سے ہر طور کامیاب ہو کر اس صف میں شامل ہوجائیں جس پر علویت کے ساتھ شعر اور غیر شعر ہونے کی بحث ملحوظ ہو ۔یہاں ایسے اشعار کی بات ہو رہی ہے۔اب اسید صاحب ان شرائط پر کس حد تک کھرے اترتے ہیں اس کا فیصلہ ان کی شاعری سے کیا جا سکتا ہے۔ان کی ایک نظم ’نالۂ درد‘ کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے جس سے سادہ اسلوب،جوش بیان،اصلیت پسندی،اصمعی کی رائے اور ابن رشیق کے خیال کی ترجمانی ہوتی ہے۔اس نظم کا مطلع ہے:

مجھ سے احباب یہ کہتے ہیں قصیدہ لکھو
عید کا دن ہے مسرت کا ترانہ لکھو

اب اشعار ملاحظہ کیجیے:

مگر افسوس میں کس دل سے کروں یار کی بات
کس زباں سے میں کروں زلف ترحدار کی بات
کس قلم سے لکھو رعنائی گلزار کی بات
کیسے لکھوں گل و بلبل لب و رخسار کی بات
مجھ کو آتا ہے فلسطین کے بچوں کا خیال
ان کے سینوں میں اترتے ہوئے نیزوں کا خیال
نوجواں بیٹوں کو روتی ہوئی ماؤں کا خیال
خون سے بھیگی ہوئی ان کی رداؤں کا خیال
غرب اردن کے شہیدوں کا خیال آتا ہے
کبھی غزہ کے یتیموں کا خیال آتا ہے
ان کی مایوس نگاہوں کا خیال آتا ہے
گریہ کرتی ہوئی آنکھوں کا خیال آتا ہے
میرے بغداد پہ چھائے ہیں قضا کے بادل
ظلم کے جور کے وحشت کے جفا کے بادل
فقر و افلاس کے فاقے کے وبا کے بادل
آفت و رنج و مصیبت کے عنا کے بادل
میرے گجرات میں انسانوں کے کٹتے ہوئے سر
بے کسوں مفلسوں مجبوروں کے کٹتے ہوئے سر
بھوک اور پیاس سے بچوں کے بلکنے کا خیال
خاک اور خون میں لاشوں کے تڑپنے کا خیال
میرے کشمیر سے رونے کی صدا آتی ہے
میرے قندھار سے آواز بکا آتی ہے
میرے کابل میں مکانوں سے دھواں اٹھتا ہے
میرے شیشان کی گلیوں میں لہو بہتا ہے
پھر بھی احباب یہ کہتے ہیں قصیدہ لکھوں
عید کا دن ہے کوئی شوخ سا نغمہ لکھوں

ان اشعار کے مطالعے سے خود اندازہ ہو جا تا ہے کہ شاعر نے کس شدید جذبے کو اپنے الفاظ کے ذریعے کامیابی سے بیان کیا ہے ۔اک عجیب سا تسلسل ہے جو کہیں منقطع نہیں ہوتا ،ایسامحسوس ہوتا ہے کہ شاعر کو ان تمام علاقوں میں اور ان تمام بستوں میں ہونے والے حادثات اپنے گھر میں ہوتے معلوم ہو رہے ہیں۔ایک گہرا کرب ہے جس میں ڈوب کر وہ ان اشعار تک رسائی حاصل کر رہا ہے ۔اس نظم میں اسید صاحب نے اپنی جود ت طبع سے اس بات کا احساس بھی دلایا ہے کہ شاعر کتنا حساس ہوتا ہے ۔نظم کا کردار جو بنیادی طور پر شاعر ہے اس سے اس کے احباب مطالبہ کر رہے ہیں کہ عید کا موقع ہے اسے اس خوشی کہ موقعے پر کوئی قصیدہ رقم کرنا چاہئے ۔اس میں بھی کئی پہلو پوشیدہ ہیں کہ شاعر یہ پیغام دے رہا ہے کہ قصیدہ جو شاعری کی ایک صنف ہے اس کا کہنا اس دور میں یا اس عہد میں درست نہیں کیوں کہ ہماری قوم پوری دنیا میں جس ظلم و استبداد کا شکار ہو رہی ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم کچھ عملی کام کریں نہ کہ قصائد اور غزل خوانی میں اپنا وقت ذائع کیا جائے۔

بہر کیف ہم شاعر کے حساس ہونے کی بات کر رہے تھے ۔ظاہر ہے کہ جو احباب شاعر سے قصیدہ رقم کرنے کو کہہ رہے ہیں وہ خود قصیدہ کہنے کی صلا حیت نہیں رکھتے لہٰذا وہ غیر شاعر ہیں اور شاعر جو اس بات کی صلاحیت رکھتا ہے وہ اپنے دوستوں کو ان کی بے حسی پر شرمندہ کر رہا ہے کہ تم جس دن کوخوشی کا دن سمجھ رہے ہو حقیقتاً وہ غم کا دن ہے کہ ہماری قوم پر ہر طرف سے مصیبت کے بادل چھا تے چلے جا رہے ہیں ،جس کا ہم لوگوں کو رائی برابر احساس نہیں ۔ یہ وقت اس کا نہیں کہ خوشیاں منائی جائیں یہ تو تدابیر کا وقت ہے اپنے احتساب کاوقت ہے، جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ آخر ہم اتنے مظالم کا شکار کیوں ہو رہے ہیں۔یہ اور اس طرح کے کئی پہلو اس نظم میں پوشیدہ ہیں جس کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس ایک نظم پر طویل سے طویل تر گفتگو کی جا سکتی ہے ۔ایک اہم بات اور ہے کہ شاعر کی لفظیات پر غور کیا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ اس کو الفاظ کے برتنے کے فن پر کتنی قدرت حاصل تھی۔مثلاًزلف ترحدار،رعنائی گلزار،گل و بلبل ،لب و رخسار،آفت و رنج و مصیبت اور آواز بکا یہ ایسی تراکیب ہیں جو ہماری کلاسکی شاعری میں کثرت سے استعمال ہوئی ہیں اور ہم کئی حوالوں سے ان تراکیب کا مطالعہ کر چکے ہیں ۔پھر بھی اسید صاحب کے کلام میں یہ مختلف انداز میں نہ صحیح تو اتنی بر محل نظر آتی ہیں کہ ایسے الفاظ بھی جن سے نئی شاعری کے خراب ہونے کا خدشہ رہتا ہے اس کے بر عکس ان تراکیب کے استعمال سے یہ اشعار بھلے محسوس ہوتے ہیں ۔اسی طرح دوسرے الفاظ بھی اتنے تنوع اور جامعیت کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں کہ نظم میں پر فیکشن پیدا ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی شاعر نے احوال شہر کو اسی ترتیب سے باندھا ہے جس ترتیب سے ان شہروں کے غمو ں کا احساس کسی حساس شخص کو مغموم کر سکتا ہے۔ہم شعری آہنگ کو نظر میں رکھیں تو شاعر نے جس ترتیب سے شہروں کو بیان کیا ہے اس کی حکمت بھی ہماری سمجھ میں آ جائے گی ۔مثلاً فلسطین،اردن ،غزہ، بغداد، گجرات ،کشمیر ،قندھار ، کابل اور شیشان یہ ترتیب نظم میں اس طرح استعما ل ہوئی ہے کہ شعر کا آہنگ اس سے بتدریج بلند ہوتا جا رہا ہے اور المیے میں جس قسم کے آہنگ کی ضرورت ہوتی ہے یہ اسماء اس آہنگ کو پیدا کرنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں ۔دیگر الفاظ پر نظر کیجئے تو آپ کو اندازہ ہو جائے کا کہ کس طرح شاعر اسماء اور الفاظ کے اشتراک سے اس نظم میں المیے کی کیفیت کو بام عروج تک لے جاتا ہے ۔ہر نئے شہر کا نام اس جگہ استعمال میں آیا ہے جس جگہ شاعر کو اس بات کا خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ اب واقعے کو بدلنے کی ضرورت ہے ورنہ بحث میں تاثیر قائم نہ رہے گی ۔یہ ہی ایک شاعر کی پہچان ہے کہ وہ اپنے کلام کے ذریعے قاری کو باندھنا جانتا ہے ۔اسے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ کس حد تک ایک قاری کا ذہن کسی واقعے سے محظوظ و منغض ہو تاہے اور کس مقام پہ طبیعت کو تغیر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ شاعر کا کوئی فعل مصلحت سے خالی نہیں ہوتا لیکن وہ مصلحت اتنی تیزی سے عمل میں آتی ہے کہ اس کے شعوری ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔یہ سب شاعر کی ذہنی کار کر دگیوں اور اس کی ذہنی اپج کی قوت کا کمال ہے اور اسی سے کسی شاعر کے اعلی و ادنی ہونے میں تمیز کیا جا سکتا ہے ۔اسید صاحب کے ذہن پرخیالات کا بہت تیزی سے نزول ہوتا ہے یہ کوئی بڑی بات نہیں ۔بڑی بات یہ ہے کہ وہ اس آمد کو اسی سلیقے سے تر تیب دینے کے فن سے آشنا ہیں جس تیزی سے وہ خیالات ان پر اتر تے ہیں۔

یہ بات صرف ان کی نظموں ہی میں نہیں ہے ۔بلکہ دیگر اصناف میں بھی وہ اسی قدرت کے ساتھ شعر کہتے ہیں ۔زندگی نے اسید صاحب کا ساتھ بہت جلد چھوڑ دیا ورنہ مجھے یقین تھا کہ ایک نہ ایک روز اسید صاحب اس فن کے لئے بھی وقت نکالیں گے اور کسے معلوم کتنے اشعار وہ روز کہتے ہوں جسے یہاں وہاں لکھ کر چھوڑ گئے ہوں یا صرف ذہن میں ان اشعار کا نقش محفوظ ہو جو صاحب ذہن کے ساتھ ہمیشہ کے لئے ہم سے دور ہو گیا ۔میں اوپر گنوا چکا ہوں کہ ان کا کتنا کلام مجھ تک پہنچا ہے ۔لیکن اس قلیل عرصے میں وہ تین اصناف پر طبع آزمائی کر چکے تھے اور ان تینوں اصناف کے ذریعے با مقصد اشعار کا انتخاب ہم تک منتقل کیا ۔اسید صاحب کو غزل سے بھی لگاؤ تھا لیکن صرف ایسی غزل جو فنی اعتبار سے مکمل ہو ۔انھیں اپنے سے پیشتر شعرا میں احمد فراز کی بعض غزلوں نے متا ثر کیا جس میں سے احمد فراز کی ایک مشہور غزل کی ردیف پر انھوں نے چند نعتیہ اشعار کہے اس میں سے دو شعر ملاحظہ کیجئے:

خرام ناز پہ نبض جہاں ٹھہرتی ہے
فرشتے عرش کے پہلو بدل کے دیکھتے ہیں
وہ بخش دیتے ہیں قدموں پہ گرنے والوں کو
سو ہم بھی قدموں پہ ان کے مچل کے دیکھتے ہیں

یہ اشعاراس بات کا ثبوت ہیں کہ اسید صاحب کو نعت و منقبت سے جو لگاو تھا وہ دیگر اصناف سے نہ تھا۔ایک اور منقبت جو ’استمداد بحضور غوث الثقلین‘کے عنوان سے انھوں نے کہی ہے اس میں ایک مقام پر اپنے چار مصروں کے ساتھ شاہ حمزہ عینی مارہروی کے مشہور شعر کی جو تضمین کی ہے وہ اس خیال کو تقوت پہنچاتی ہے۔اشعار دیکھئے:

تو بھی گر چاہتا ہے غم کا مداوا یوں کر
ایک جملے میں علاج غم فردا یوں کر
دل بیمار کو اک آن میں اچھا یوں کر
آ در غوث پہ اور عرض تمنا یوں کر
غوث اعظم بمن بے سرو ساماں مددے
قبلہ جاں مددے کعبہ ایماں مددے

اسید الحق قادری کا شعر مزاج ان کے آباو اجداد کی شاعری سے ملتا جلتا ہے ۔وہ اپنے خاندانی بزرگ شعرا کے شعری اسلوب سے ہم آہنگی کو اپنے لئے باعث افتخارسمجھتے ہیں جس کا اعتراف انھوں نے اپنی ایک نظم ’میں اپنی عظمت رفتہ تلاش کرتا ہوں‘ میں کیا ہے ۔یہ بات صرف شعر و شاعری کی حد تک محدود نہیں ۔بلکہ جملہ اوصاف کو وہ اپنے خانوادے سے اخذ کرنا چاہتے ہیں اور عادات و اطوار سے لے کر علوم و فنون تک ہر ایک چیز کے لئے دست بہ دعا ہیں کہ اپنے اکابرین سے کچھ حصہ ان کو بھی نصیب ہو ۔مذکورہ نظم کو پڑھتے وقت ایسا لگتا ہے کہ شاعر کی پر ورش جس ماحول میں ہوئی ہے اس نے شاعر کو اس بات کا احساس دلا دیا ہے کہ یہاں زندگی کو آراستہ و پیراستہ کر نے کی ہر شئے موجود ہے ۔بس ان اوصاف کو اپنے باطن میں روشن کرنے کی ضرورت ہے جس سے ایک با وقار اور پر سکون زندگی حاصل کی جا سکتی ہے ۔لیکن یہ ان کی حقیقت پسندی ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے او صاف حمیدہ کو اپنے اندر جتنا بھی پاتے ہیں وہ نا کے برابر ہے ۔انھیں کسی طرح کی خوش فہمی نہیں ہے کہ نسل در نسل وہ اوصاف سب میں منتقل ہوتے چلے گئے ہیں ۔بلکہ وہ اسے انفرادی ارتقا کے زمرے میں شمار کرتے ہیں ۔انھیں اطمنا ن ہے کہ ان اوصاف سے جس طرح ان کے دیگر اہلہ خانہ متصف ہیں وہ بھی ایک دن اپنی کوشش سے ان اوصاف کو خود میں روشن کر لیں گے ۔یہ حقیقت پسندی ہی انھیں دوسروں سے الگ کرتی ہے ۔اس نظم کا پہلا قطع دیکھئے جس میں وہ کس امید اوربھروسے کے ساتھ ان چیزوں کو تلاش کر رہے ہیں جو ان کے خون میں شامل ہیں۔

میں تیز دھوپ میں سایہ تلاش کرتا ہوں
سیاہ شب میں اجالا تلاش کرتا ہوں
نشان پائے مسیحا تلاش کرتا ہوں
ہلال عید تمنا تلاش کرتا ہوں
میں زندگی کا قرینہ تلاش کرتا ہوں
میں اپنی عظمت رفتہ تلاش کرتا ہوں

دیکھئے کہ شاعر کسی باہری دنیا سے کچھ حاصل کرنے کی خواہش ظاہر نہیں کر رہا ہے اور اسے اس بات کا بھر پور احساس ہے کہ جو عظمت اور جو زندگی کا قرینہ اسے تلاش کرنا ہے وہ اس کا اپنا اثاثہ ہے۔ یہ اظہار ہمیں دھوکے میں ڈال سکتا ہے لیکن یہ کمال شعر ہے کہ ایک ہی مصرعے میں شاعر اپنی اس شئے کو تلاش کرنے کی بات کر رہا ہے جو خود اس کی اپنی ہے ۔ظاہر ہے کہ عظمت رفتہ کوئی لکڑی کا کھلونا نہیں ہے نہ ہی کوئی ایسی چیز ہے جسے کوئی چرا سکے ۔وہ تو صرف ایک احساس ہے جو رد عمل کی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے ۔جس کا حصول شاعر کو ان اعمال کی طر ف ڈھکیل رہا ہے جہاں اسے اپنے مقصد میں کامیابی مل سکتی ہے ۔ایک بات اور غور طلب ہے کہ شاعر کو اس بات کا شکوہ نہیں ہے کہ وہ اپنی بے تو جہی کی وجہہ سے اس عظمت کو کھو چکا ہے بلکہ اسے اس یہ خیال پر یشان کر رہا ہے کہ یہی وہ عمر ہے جس عمر میں اپنے اجداد کے ورثے کو خود میں منتقل کیا جا سکتا ہے ۔یہی وہ زمانہ ہے جس زمانے میں اپنے مشاہدات اور مجاہدات سے اس عظمت کے حصول کی طرف قدم بڑھا یا جا سکتا ہے ۔جس میں سخاو ت عثمان ،حضور غوث کے فیضان،معین حق کے قلم دان ،جناب شیخ کے دامان اور نگاہ مقتد آقاوغیرہ جیسی بیش قیمتی اشیاء محفوظ ہیں ۔جو اس بات کی منتظر ہیں کہ ان کا وارث انھیں حاصل کر کے زمانے میں اپنی مثال قائم کرے۔اسید صاحب کی شاعری اتنی جذباتی اور معنی خیز ہے کہ اس پر سیر حاصل گفتگو کی جاسکتی ہے ۔اس کم سے کم کلام میں اتنے سر چشمے پو شیدہ ہیں جو ایک متلاشی کو حیران کر دیں گے ۔ اسیدصاحب ایسے شاعر نہیں ہیں جن کی شاعری سے صرف محظوظ ہوا جا سکے یا کسی نوع کی ذہنی آسودگی حاصل کی جاسکے بلکہ ان کے اشعار ذہن کو سوتے سے جگاتے ہیں ۔فکر کی دعوت دیتے ہیں ،جھنجھوڑتے ہیں اور اپنے مقصد زندگی کی طرف مائل کرتے ہیں ۔ان کے کلام سے ایسے لوگ ہر گز محظوظ نہیں ہو سکتے جو شاعری کو صرف تفنن طبع کا ذریعہ سمجھتے ہیں اس کے بر عکس ان کی شاعری کو ایسے اشخاص اپنی پلکوں پر اٹھا تے پھریں گے جو بامقصد زندگی گزارنہ چاہتے ہیں ۔لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اشعار کا بغور مطالعہ کیا جائے ان کی زندگی کے ہر ہر پہلو سے آشنا ہوا جائے۔ اس عہد میں انفرادیت کو بہت اہمیت دی جاتی ہے لہٰذا انفرادی سطح پر اپنے اعمال کا احتساب کرنے والوں اور اجتماعی سطح پر ایک متحرک کی مانند اپنے مزاج کو تشکیل دینے والوں کے نزدیک اس طرح کی شاعری اہم قرار پاتی ہے ۔اپنی ایک چھوٹی سی نظم ’دوستی کا ہاتھ ‘ میں جو پیغام انھوں نے دیا ہے وہ اس بات کا ضامن ہے کہ ایسی شاعری بہت کار آمد ثابت ہو سکتی ہے جو تالیف قلب کا کام انجام دے ۔احمد فراز کے شعر پر ختم ہونے والی اس نظم میں شاعر نے جس اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ایک بڑے ذہن کی علامت ہے ۔ یہاں نظم کے اقتباس سے بات سمجھ میں نہیں آئے گی لہٰذا پوری نظم ملاحظہ فرمائیں:

مرے عزیز مرے دوست میرے ہم سایہ
ہمارے بیچ جدائی کو اک صدی گذری
نہ تم کو مجھ پہ بھروسہ نہ مجھ کو تم پہ یقیں
اسی نفاق و عداوت میں زندگی گذری
وہ جس کا نقشے کف پا ہمارے سینے میں
اسی کی یاد سے آباد تیرا سینہ ہے
وہ جس کے فیض سے ہم نے بلندیاں پائیں
اسی کا نام مبارک ترا وظیفہ ہے
ہماری کشت پہ برسا ہے جو سحاب کرم
اسی کے فیض کی بارش تمھارے آنگن میں
وہ جس کی بو سے معطر مشام جاں ہے مرا
اسی گلاب کی رنگت تمہارے گلشن میں
وہ بادہ خانہ جہاں ہم نے مئے گساری کی
شراب تم بھی اسی میکدے کی پیتے ہو
ہے جس نگاہ کی مستی ہماری آنکھوں میں
اسی نگاہ سے مخمور تم بھی رہتے ہو
جو عندلیب مرے باغ میں چہکتا ہے
اسی کی نغمہ سرائی ترے گلستاں میں
وہ شمع جس سے منور ہے طاق دل میری
سی کی ضو سے اجالا ترے شبستاں میں
وہ بجلیاں جو مرے آشیاں کو تکتی ہیں
وہی حریف تمہارے نگار خانے کی
تمہارا گلشن صد رنگ جس کی زد پر ہے
وہی خزا ہے عدو میرے آشیانے کی
غرض کہ فرق نہیں کوئی ہم میں بنیادی
نہ فکر میں نہ عقیدے نہ دین و مذہب میں
نہ اختلاف خیالات کا نہ مسلک کا
نہ کوئی فرق ہمارے تمہارے مشرب میں
اگر یہ سچ ہے تو اے محترم حریف مرے
کوئی جواز نہیں ہم میں دشمنی کے لئے
’اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر
چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے‘

میں اس بات سے آشنا ہوں کہ اسید صاحب نے کس اعلی ظرفی کا مظاہرہ اس نظم میں کیا ہے لیکن پھر بھی اس کے اظہار سے پیغام کو محدود نہیں کرنا چاہتا ۔یہ نظم ہر اس شحص ہر اس جماعت اور ہر اس ملک کے لئے سبق آموز ہے جو کسی بھی قسم کی عداوت اور نفاق میں مبتلہ رہتاہے اور صرف اپنی انا کی بنیاد پر اس لڑائی کو نسل در نسل منتقل کرتاچلا جاتا ہے ۔یہ آفاقی تناظر اور آسان زبان میں کہی گئی ایک ایسی نظم ہے جس سے ہر رنگ و نسل کے اذہان مستفید ہو سکتے ہیں ۔ایک بات اور غور طلب ہے کہ جس شخص کو کسی طرح کا سبق حاصل کرنا ہے یا اپنی زندگی کو کسی اصول سے مزین کرنا ہے تو اس کے لئے ایک واقعہ ہی کافی ہے اور جسے کسی طرح کی نصیحت درکار نہیں اس کے لئے پند و نصح کی تمام کتب بیکار محض ہیں۔اسید صاحب کی اس نظم سے جن لوگوں کو سبق حاصل کرنا ہے وہ کر لیں گے اور جنہیں نہیں کرنا وہ صرف اسے تنقید کا نشانہ بنا کر آگے بڑھ جائیں گے۔

(۲)

میر نے ہر صنف میں شعر کہے ہیں ۔اس لئے بھی انھیں اردو کا بڑا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے ۔لیکن جن شعرا کے یہاں اس احتمام کا فقدان ہے ان میں بھی کسی نہ کسی نوع کی عظمت پو شیدہ ہے ۔ ایسے شاعر اپنی اسی صنف کے حوالے سے مشہور ہوئے ہیں جس میں انھوں نے کمال دکھایا ۔مثلاً انیس کو دنیا مرثیے کے حوالے سے جانتی ہے۔سوداؔ کوقصائد کے حوالے سے میر حسن ؔ کو مثنوی کے حوالے سے اورامجد حیدرآبادی کا رباعی کی وجہ سے۔یہ بات الگ ہے کہ ان شعرا نے من جملہ نہ سہی دیگر کچھ اور اصناف میں بھی اشعار کہے ہیں لیکن یہ تمام شعرا کسی ایک صنف کے حوالے سے زیادہ مقبول ہیں ۔میرؔ نے بھی اپنی غزل کے ذریعے جو شہرت حاصل کی وہ دوسری اصناف سے انھیں حاصل نہ ہو سکی ۔لیکن نعت اور منقبت میں اس قد کے شعرا بہت کم نظر آتے ہیں۔نعت کے حوالے سے اگر محسنؔ کاکوروی کو اردو ادب کی تاریخ سے نکال دیا جائے تو ہمارے لئے دوسرا نام تلاش کرنامشکل ہو جائے گا۔اس کی کیا وجوہات ہیں اس سے قطع نظر یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اردو شاعری محسن کاکوروی کو چھوڑ کر حمد و نعت و منقبت کے حوالے سے ہوئی ہے اوربہت! اور بہت اچھی ہوئی ہے۔جس کا مطالعہ کرنے کے بعد سمجھ میں آتا ہے کہ جس طرح عشق کے حقیقی جذبے کے بنا غزل اور قصیدہ نہیں کہا جا سکتا اسی طرح حمد ،نعت اور منقبت بھی نہیں کہی جا سکتی ۔فرق صرف اتنا ہے کہ ایک طرف عشق مجازی ہے تو دوسری طرف عشق حقیقی۔جب ہم غزل میں اس تخصیص کے قائل ہیں کہ مجازی کا اطلاق حقیقی کے معنی پر بھی کیا جا سکتا ہے تو جو اشعار کلیتاً اس بو قلمونی سے آراستہ ہیں ان کو اتنی اہمیت کیوں نہ دی جائے۔انسان کی ذہنی و دلی وابستگی جس شئے سے ہوتی ہے وہ اسی کی جانب مائل ہوتا ہے ۔ اسید الحق نے جو نعتیہ کلام اپنے پیچھے چھوڑا ہے وہ کسی طور ایک اچھے غزل گو یا ایک اچھے نظم نگار سے کم رتبہ نہیں ۔یہ ان کے رجحان کی بات ہے کہ انھوں نے اپنی صلاحیت کو ایک مقدس ہستی سے منسلک کیا اور اپنے اشعار میں ان کی مدح سرائی کو اپنے لئے بہتر جانا ں۔صرف اس لئے اگر کسی شاعر کو کلیتاً نظر انداز کر دیا جائے کہ اس نے محدود دائرے میں رہ کر شعر کہے ہیں یا کسی فرد واحد سے منسلک ہو کر اس فن میں طبع آزمائی کی ہے تو دنیا کی کئی زبانوں میں ہونے والی شاعری کا ایک بڑا ذخیرہ بے کار ہو جائے گا جو اس انفرادیت کو ملحوظ رکھ کر کہا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے۔ ہر محدود نقطہ نظر میں اک آفاقیت پو شیدہ ہوتی ہے اور اسیدالحق عاصم القادری کی شاعری اسی آفاقیت کا خزینہ ہے ۔جو ایک محور تک محیط ہے لیکن اس احاطے میں ایسے مذہبی و ثقافتی اصول پوشیدہ ہیں جو انسانی زندگی میں بہت کار آمد ثابت ہوئے ہیں ۔ان کے چند نعتیہ اشعار ملا حظہ کیجئے ۔ان اشعار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسید الحق جیسے اذہان جس سمت اپنی فکر کو موڑ دیں وہاں کیا کیا گل کھلا سکتے ہیں:

رسول وہ جو رسولوں کا تاجدار ہوا
وہ جس کا ذکر دوائے دل فگار ہوا
رسول وہ جسے محبوب کردگار کہیں
رسول وہ جسے قدرت کا شاہ کار کہیں


جب تصور میں بسالیں آنکھیں
ساری دنیا سے اٹھالیں آنکھیں
خاک طیبہ ہے خبر دار قمر
اس کی آنکھوں میں جو ڈالی آنکھیں


سنا ہے لالہ طیبہ کی تازہ کاری کو
لباس گل سے شگوفے نکل کے دیکھتے ہیں
خرام ناز پہ نبض جہاں ٹھہرتی ہے
فرشتے عرش کے پہلو بدل کے دیکھتے ہیں


تابانی در عدن رخشانی لعل یمن
دندان انور کی ضیا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
تاج سر کسریٰ کہاں پیشانی زہرہ کہا
نعلین پاک مصطفی یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں


بصارت کر رہی ہو گی طواف گنبد خضرا
بصیرت کی جبیں پر عکس روئے مصطفی ہوگا
بوصری، جامعی و قدسی قصائد لکھ رہے ہوں گے
کوئی حسان نعت سرور دیں پڑھ رہا ہوگا

اسید صاحب اس میدان میں جس شاعر سے سب سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں وہ امام احمد رضا خاں بریلوی کی ذات ہے ۔اس کے علاوہ ان کی کل شاعری لہجے کے مطابق علامہ اقبال ؔ اور جوش ؔ سے قریب نظر آتی ہے۔ اس بات کو میں اوپر بیان کر چکا ہوں کہ اسید الحق جس عہد میں شعر کہہ رہے تھے وہ ان کا عہد طالب علمی تھا ۔اس عہد میں زیادہ تر لوگ انھیں شعرا سے متاثر ہوتے ہیں ۔لہٰذا اسید صاحب بھی اسی رنگ میں شعر کہتے نظر آتے ہیں ۔لیکن یہ اشعار تجرباتی نوعیت کے ہیں پھر بھی ان میں اتنا بلند آہنگ پایا جاتا ہے۔ اگر وہ مسلسل شعر کہتے رہتے تو یقیناًاپنے عہد کے بڑے شعرا میں ان کا شمار ہوتا۔

اخیر میں اس بات کا اظہار کرنا بھی میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اسید الحق جتنے اچھے شاعر تھے اس سے کہیں زیادہ اچھے انسان تھے ۔اچھا شعر کہنا اتنا مشکل نہیں ہے جتنا ایک اچھا انسان کہلانا ہے ۔اسید الحق صاحب نے جیسے اشعار کہہ ویسے یا اس سے بہتر اشعار کہے جا سکتے ہیں میرا طلسم اس دن ٹوٹے گا جس دن میں ان سے بہتر انسان دیکھوں گا۔

ہمارے لیے لکھیں۔