Laaltain

شمیم حنفی : اس بزم میں پھر لوٹ کے آنے کے نہیں ہم (تصنیف حیدر)

7 مئی، 2021

اس (ادیب) کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو عمومیت زدہ مسئلوں اور عامیانہ باتوں میں ضائع نہ کرے اور اپنی پوری توجہ ادب یا آرٹ پر مرکوز رکھے۔ اپنی تخلیقی سرگرمی کا سودا نہ کرے اور ہر قیمت پر فن کی حرمت اور فن کی تشکیل کے عمل کی حفاظت کرے۔ عام مقبولیت کے پھیر میں نہ پڑے۔ ایسی باتیں نہ کہے جن کا مقصد سب کوخوش کرناہو۔ اسے اپنی ترجیحات کاپتہ ہونا چاہیے۔ روزمرہ کی سیاست اور سمجھوتوں سے بچنا چاہیے اور اس وقت جب سچ کو خطرہ لاحق ہو، اس کی حفاظت کے لیے کھل کر سامنے آجانا چاہیے یا پھر اپنے اخلاقی ملال اور احتجاج کوسامنے لانے کا ایک طریقہ جو بظاہر تجریدی ہے، ایک لمبی گہری خاموشی کے طور پر رونما ہوتاہے۔

(، شمیم حنفیادب میں انسان دوستی کا تصور

سیاسی قدروں کے زوال نے ادب اور آرٹ کی دنیامیں بھی ایک ہولناک درباری کلچر کو فروغ دیا ہے اور ’’ادب اور آرٹ کی تخلیق کا جوکھم اٹھانے والوں‘‘ کے ضمیر کو داغدار کیا ہے۔ انعامات، اعزازات، مناصب، مراعات، ادب اور آرٹ کی ترقی اور نمائندگی کے لیے اوپر سے بچھائے ہوئے راستوں پر اور معینہ مقاصد کے ساتھ دور دراز ملکوں کے دورے، یہ تمام باتیں ادیب اور آرٹسٹ کی بصیرت کے گرد لکیریں کھینچنے والی ہیں، اس کے شعور کو محدود کرنے والی اور ادب یا آرٹ کے مقدس اور پاکیزہ مقاصد سے توجہ ہٹانے والی ہیں۔ اس قسم کی مراعات اور سہولتیں قبول کرنے میں ہمیشہ کسی جانے انجانے راستے سے ذہنی غلامی کے درآنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اور ذہنی غلامی چاہے کسی فرد کی ہو یا ادارے یا نظریے کی، انسانی ضمیر اور تخلیقی اظہار کو ہمیشہ راس نہیں آتی۔ آرٹ اور ادب کی دنیا میں اس طرح کے موسم اورمعاملات انسان دوستی کے اس عظیم تصور کو بھی راس نہیں آتے جس کی تعمیر اور ترویج کا قصہ، تہذیب و تاریخ کی کئی صدیوں سے پھیلا ہوا ہے۔ اپنے شعور اور حافظے کو جھٹلا کر ادب اور آرٹ کی بامعنی تخلیق ممکن نہیں اور یہ معنی بہرحال انسان شناسی اور انسان دوستی کے دائرے میں ہی گردش کرتے آئے ہیں۔

(ادب میں انسان دوستی کا تصور، شمیم حنفی)

اوپر دیے ہوئے ان دو ٹکڑوں سے میں شمیم حنفی کے نظریہ ادب اور نظریہ زندگی کی وضاحت کرنا چاہتا تھا۔ اب اپنے آس پاس نظر دوڑائیے اور کہیے کہ اردو میں اس طرح کی باتیں کرنے والے لوگ بھی کتنے رہ گئے ہیں۔ یہ تو ہم سب کہیں گے کہ ایک عہد ختم ہوا، ایک ایسا زریں دور جس نے جدیدیت کو ہندوستان میں پروان چڑھتے دیکھا۔ جو ریڈیو کی گھڑگھڑاتی سوئی سے 4G تک کا زمانہ اپنی آنکھوں میں بسائے تھا۔ مگر ادب کی جو تعریف شمیم حنفی نے گڑھی تھی، وہ اس پر قائم رہے۔

نہایت گورا چٹا رنگ، درمیانہ قد، ماتھے پر گمبھیرتا کی کچھ گہری لکیریں اور گفتگو میں ایک خاص قسم کی نفاست۔ یہ ان کی پہچان تھی۔ آپ ان سے پہلی بار ملیں یا کئی ملاقاتیں کرچکے ہوں، وہ تپاک سے ملتے تھے۔آپ کی لکھی پڑھی چیزوں پر ایماندارانہ رائے دیتے تھے۔ جو نہ پڑھا ہو، اس کے لیے صاف انکار کردیتے تھے۔ ایسے لوگوں سے گھبراتے تھے، جواپنی صلاحیتوں کو بڑھ چڑھ کر بیان کرتے ہوں اور سب سے اہم بات اپنے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔ میں نے ان میں ایک خاص بات یہ نوٹ کی کہ وہ آپ کی شخصیت کو صرف علمی معیار پر جانچتے تھے یا تخلیقی بنیاد پر۔ ذاتی حوالے سے آپ زندگی میں کیا کررہے ہیں کیا نہیں، اس پر رائے زنی کرنا، کوئی مشفقانہ یا بزرگانہ مشورہ دینا ان کا وطیرہ نہیں تھا۔

شمیم حنفی اب اس دنیا میں نہیں ہیں، مگر ان کی شخصیت سے جو باتیں میں نے سیکھی ہیں، وہ میرے اور ان بہت سے دوسرے ہم عصروں کے ساتھ رہیں گی، جو ان سے ایک بار یا کئی بار مل چکے ہیں۔ ان سے میرا تعارف دہلی آنے سے پہلے ہو چکا تھا۔ میں جدیدیت پر لکھی ہوئی ان کی کتاب (جو کہ غالباً ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی تھا) جدیدیت کی فلسفیانہ اساس کو پڑھ چکا تھا، مگر اس سے بھی پہلے میں نے کہانی کے پانچ رنگ پڑھی تھی، جو میرے لیے ان کی دوسری تحریروں یا کتابوں کو پڑھنے کی ترغیب بھی بنی تھی۔ مگر کچھ آگے چل کر فاروقی اور عسکری جیسے ادیبوں کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ میں نے شمیم حنفی کو پڑھنا بہت کم کردیا تھا۔ بہت بعد میں منٹو پر لکھی ہوئی ان کی ایک کتاب اور میرا جی کا نگار خانہ میں نے پڑھی، جس کو انہوں نے ترتیب دیا تھا۔

پی ایچ ڈی کے مقالے کا ذکر ہوا تو یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ شمیم حنفی اس نسل کے ادیب تھے، جہاں پی ایچ ڈی کے کچھ کام اردو کے ادب کا اہم سرمایہ بن کر لوگوں کے سامنے آئے۔ مثال کے طور پر خلیل الرحمٰن اعظمی کی کتاب اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک، محمد حسن کی کتاب دہلی میں اردو شاعری کا تہذیبی اور فکری پس منظر، گوپی چند نارنگ کی کتاب اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب۔اب تو ہم دیکھتے ہیں کہ یونیورسٹیاں پڑھائی کے نام پر نوکری کی لجلجی خوشامدوں اور چاپلوسیوں کا گڑھ بنی ہوئی ہیں۔ ایسے لوگ جن کے اندر تنقیدی، تخلیقی صلاحیت نام کو نہیں اور جنہیں کسی ڈھنگ کے ادبی و علمی سماج میں ایک اچھے طالب علم کی حیثیت حاصل نہ ہو، وہ پروفیسر بنے بیٹھے ہیں۔ شمیم حنفی اس بات سے خود بھی زیادہ خوش نہیں تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ چیزیں جس تیزی سے بدلی ہیں اور خاص طور پر ہندوستانی یونیورسٹیوں کے شعبہ اردو کے طلبا، ذہنی بلندی سے دور مذہبی شناخت پر مصر ایک ایسے خول میں ڈھل گئے ہیں، جہاں علم کا گزر ہرگز نہیں ہے، تبدیلی کی خواہش نہیں ہے اور ارتقا کی گنجائش نہیں ہے، وہ لائق تشویش بات ہے۔

اس وقت مجھے ان کی کہی ہوئی کئی باتیں یاد آرہی ہیں۔ وہ باتیں اس انداز سے کرتے تھے کہ آپ بیٹھ کر انہیں گھنٹوں سن سکتے تھے۔ شمیم حنفی کے یہاں یہ جو فن تھا، وہ دوسرے نقادوں میں ویسا نہیں تھا۔ گفتگو بھی ایک قسم کا سلیقہ مانگتی ہے، میں نے دوسرے ادیبوں کو بھی بات کرتے سنا ہے مگر شرط ادب کے لحاظ سے یہاں نام لینا مناسب نہیں سمجھتا، مگر شمیم حنفی جیسی صاف و شفاف اور دل کو چھوتی ہوئی گفتگو میں نے کسی ادیب کے یہاں نہیں پائی۔ وہ اگر آپ کو کسی شہر کے بارے میں بتاتے تو کوئی ایسا نکتہ ضرور ہوتا جو اس شہر کی خاصیت کو بالکل نئے سرے سے آپ پر روشن کرتا۔مثال کے طور پر انہوں نے اپنے آبائی وطن سلطانپور کے حوالے سے ایک دفعہ بتایا تھا کہ ’سلطانپور وہ واحد جگہ ہے، جہاں تقسیم ہند کے وقت ایک بھی فساد نہیں ہوا۔‘

میں جب بھی ان کے پاس جاتا، کسی نہ کسی ادبی موقف پر اختلاف کا کوئی پہلو بھی نکل آتا۔ میں ججھکتے ہوئے اپنی بات ان کے سامنے رکھتا تو کبھی جھلاتے نہیں تھے، وہ پوری طرح بات سنتے اور پھر اپنی رائے کو دوبارہ واضح کرتے۔ آپ یوں سمجھ لیجیے کہ دہلی شہر اردو کے ہی نہیں، ہندوستانی ادب کے ایک ایسے ادیب سے محروم ہوا ہے، جس کی رگوں میں اختلاف رائے کا احترام، رواں دواں تھا۔ ادب میں ان کا اصرار بھی یہی تھا کہ زندگی کو کسی بھی چیز پر فوقیت نہ دی جائے، چاہے وہ پڑھنا لکھنا ہی کیوں نہ ہو۔ ان کا ماننا تھا کہ آدمی کا تعلق براہ راست زندگی سے ہے، اس لیے زندگی کی اہمیت کو سمجھنا زیادہ ضروری ہے۔ اسی مضمون میں انہوں نے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے، جو زبانی بھی مجھے ایک دو مرتبہ سنایا تھا۔ بھاگلپور کے فسادات کے وقت ایک صاحب نے جو نظمیں لکھی تھیں، انہیں کتابی شکل دے کر شمیم حنفی کو بھیج دیا اور اس بات کو بڑے فخر سے بیان کیا کہ جس وقت میرے پڑوس میں آگ لگی تھی اور ایک گھر بھائیں بھائیں جل رہا تھا۔ میں نے تب یہ نظمیں لکھی ہیں۔ شمیم حنفی نے کتاب تو ایک طرف اٹھا کر رکھ دی، ساتھ میں ان صاحب کو یہ جواب لکھا کہ انسانی ہمدردی کا تقاضہ یہ تھا کہ آپ اس وقت ان نظموں کو لکھنے کے بجائے ایک بالٹی پانی لے کر جاتے اور پڑوس میں لگی آگ بجھانے کی کوشش کرتے۔

میں جب بھی ان سے ملا، انہیں مطالعے کی اہمیت پر ہمیشہ زور دیتے ہوئے پایا۔ ہمیشہ پوچھتے کہ آج کل کیا پڑھ رہے ہو۔ میں کسی کتاب کا نام لیتا تو اس کے بارے میں بات کرتے۔ ان کی نظر وسیع تھی، مطالعہ جس سنجیدگی کا تقاضہ کرتا ہے، وہ شمیم حنفی سے سیکھنا چاہیے۔ اردو کے کسی ادیب نے مجھ سے یہ کہا تھا کہ شمیم صاحب کی یادداشت پر رشک آتا ہے۔ وہ جو کچھ پڑھتے ہیں، انہیں یاد بھی رہ جاتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ یادداشت کے کونوں میں وہی پڑھائی رہ جاتی ہے، جسے بہت سنجیدگی سے پڑھا گیا ہو۔ شمیم حنفی سے ملنے پر ایسے لوگوں کو جو ادب میں آپ کے invisible ہیروز رہے ہیں، دیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ اگر میں کہوں کہ میں نے شمیم حنفی کے قالب میں کبھی محمد سلیم الرحمٰن، کبھی احمد مشتاق، کبھی زاہد ڈار اور کبھی اکرام اللہ جیسے عظیم ادیبوں سے ملاقاتیں کی ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ وہ پاکستان دوروں کی اپنی روداد اور ان ادیبوں سے اپنی دوستیوں یا ملاقاتوں کے جو قصے سناتے، جی چاہتا کہ بس انہیں سنے جاؤ۔کیا اب اس شہر میں کوئی ایسا ادیب ہے، جو ہمیں سرحد پار کے ان ادیبوں کی پسند ناپسند، لکھائی، پڑھائی، ہنسنے بولنے کے قصے یوں سنا سکے، گویا ہم نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہم ایک ادیب سے ہی نہیں، شمیم حنفی کے جانے سے بیک وقت بہت سے اساتذہ ادب کی صحبت سے محروم ہوگئے ہیں۔

اسی طرح ہم بلراج مین را، سریندر پرکاش، عمیق حنفی اور ان گنت ہندوستانی ادیبوں کو بھی ان کی گفتگو میں دریافت کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ فراق گورکھپوری کی تنقیدی کتاب پر میں نے کچھ اعتراض کیا تو انہوں نے ایک یاد رکھنے والی بات کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا” ہر ادیب و شاعر کتاب کے ذریعے نہیں سمجھا جاسکتا، کئی ایسے ادیب ہیں جن کے ادبی وتخلیقی قد کو جاننے کے لیے ان کی گفتگو سننی ضروری ہے، کاش کسی نے فراق صاحب کی باتوں کو سن کر محفوظ کرلیا ہوتا تو وہ ان کے لکھے ہوئے تنقیدی سرمایے سے بڑی چیز ہوتی۔” آج یہی بات میں شمیم حنفی کے لیے بھی کہہ سکتا ہوں۔ انہیں اب پڑھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے چاہے بہت غیر معمولی قسم کی تنقید نہ لکھی ہو، چاہے وہ غزل کے اعلیٰ نمونے پیش نہ کرسکے ہوں، چاہے ان کے یہاں وہ تخلیقی صفت موجود نہ ہو، مگر ان کی باتیں ہمیشہ کے لیے محفوظ کیے جانے کے لائق تھیں۔ اور بہت ممکن تھا کہ ان باتوں میں ادب اور زندگی، دونوں کی راہیں اگلے مسافروں کے لیے زیادہ روشن ہوجاتیں۔

میں ان سے پہلی دفعہ کب ملا، مجھے یاد نہیں۔آخری ملاقات بھی ذہن میں تازہ نہیں کہ اسے بھی شاید کافی لمبا عرصہ گزر گیا۔ فون پر بھی اتنی باتیں نہیں ہوتی تھیں۔ مگر دل کو ایک احساس رہتا تھا، ایک اطمینان سا تھا کہ دلی میں شمیم حنفی ہیں۔ زندگی کی بھاگ دوڑ، چیخ پکار اور پاگل کردینے والی الجھنوں سے کچھ وقت چرا کر ان کے پاس بیٹھا جاسکتا ہے، ان سے بہت کچھ جانا اور سیکھا جاسکتا ہے۔ مگر اب یہ شہر، شہر افسوس میں بدل چکا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ وہ شاعری پر فکشن کو بہت ترجیح دیتے تھے۔ شاعری بھی انہیں پسند تھی، مگر کہتے تھے کہ یہ دور ناولوں کا دور ہے۔ میرے مضامین پڑھتے تھے، اس پر رائے دیتے تھے اور زور دے کر کہتے تھے کہ آپ ناول ضرور لکھیے۔اب جب میرا پہلا ناول شائع ہونے والا تھا، تو میں نے سوچا تھا کہ خود جاکر انہیں دوں گا اور پوچھوں گا کہ اسے پڑھ کر بتائیے کہ کیا آپ کی مجھ سے جو توقعات تھیں، وہ مناسب تھیں؟ مگر افسوس۔۔۔۔۔یہ حسرت بھی آج صبح نذر خاک ہوگئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *