Laaltain

مسخ شدہ خواب اور دیگر کہانیاں (عابد میر)

26 اگست، 2020

[divider]شہر کی آنکھ میں اٹکا آنسو[/divider]

شہر اب ڈپریشن کا شکار ہو چلا تھا۔

مسلسل ہونے والے بم دھماکوں ،نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات نے اسے شدید اذیت میں مبتلا کر دیا تھا۔ شہر کبھی بوڑھے نہیں ہوتے،لیکن جبر و ستم اور مسلسل اذیت کے ماحول نے اس شہر کے چہرے پر ابھی سے جھریاں ڈال دیں تھیں۔حالانکہ اسی خطے میں اس سے کہیں زیادہ قدیم شہراپنی آب و تاب دکھا رہے تھے۔ آئے روز ان میں ہونے والے ترقیاتی کاموں نے ان کے حسن کو دوبالا کر دیا تھا۔ لیکن نسل، زبان، فرقہ اور قومیت کا کاروبار کرنے والوں نے اس شہر کی شکل ہی بگاڑ کر رکھ دی تھی۔

شہر کو رہ رہ کر اپنی جوانی کے دن یاد آتے تھے۔ جب وہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہوا کرتا تھا، لیکن کس قدر پرسکون رہتا تھا۔ مختلف نسلوں اور فرقوں کے باسی مختلف زبانوں اور عقائد کے باوجود مل جل کر ہنسی خوشی اس کے دامن میں رہتے تھے۔پھر جب کئی سمندر پار یورپی یہاں آئے تو انہوں نے اسے وہ جوانی اور جوبن عطا کیا کہ لوگ اس کی شکل و شباہت پہ رشک کرنے لگے تھے۔ ایک گرم خطے میں اس کی معتدل آب و ہوا کو قابلِ رشک سمجھا جاتا تھا اور اس کے باسیوں کو لوگ خوش قسمت تصور کرتے تھے۔ ایک وقت تھا کہ صرف اس خطے میں ہی نہیں، دُور پار کے ملکوں میں بھی شہر کی تعریف و توصیف کے قصے مشہور تھے۔ سمندر پار سے آنے والے سیاح جب اس کے گن گاتے اور واپسی پہ اس کی تعریفوں کے پل باندھتے تو شہر اپنے حسن و جوانی کی تعریف پہ پھولے نہ سماتا۔

رفتہ رفتہ شہر کی آبادی بڑھتی رہی۔ خصوصاََ انگریز کے یہاں سے چلے جانے کے بعد بیرونی آبادی کی ایک یلغار شہر پہ امڈ بڑی اور دیکھتے دیکھتے ہی شہر کا دامن تنگ ہونے لگا۔ ایک معنوں میں تو یہ وسیع ہوا ،لیکن آبادی کا تناسب اس بے ڈھنگے انداز میں بڑھا کہ شہر کی سانس اکھڑنے لگی۔ باہر سے آنے والی اس نئی آبادی نے شہر کے ساتھ قدیم حملہ آوروں سے بھی بدتر سلوک کیا۔ حالانکہ باہر سے آنے والی ہر آبادی رفتہ رفتہ یہاں ضم ہوتی چلی گئی، لیکن شہر کے ساتھ ان کا رویہ کسی سوتیلے رشتے جیسا رہا۔ نہ اس کی صفائی ستھرائی کا خیال، نہ کبھی اس کے منہ دھونے تک کا سوچا، جب تک کہ بارش خود اس کا چہرہ نہ صاف کر دے یا برف کے سفید گالے اس کے بدن کو نہ ڈھانپ دیں۔برف پڑتی تو شہر اپنے جوبن پہ آجاتا۔۔۔شہر کو اپنی گزری جوانی یاد آجاتی۔ شہر کے باسیوں کو برف، خوشی کا سماں مہیا کرد یتی، لیکن شہر کو اداس کر دیتی۔

بعض انسانوں کی طرح اُداسی کچھ شہروں کی فطرت میں ہوتی ہے۔جیسے کچھ شہر بہت رنگین مزاج ہوتے ہیں، چلبلے، ٹین ایجر لڑکوں کی طرح ہمہ وقت موج مستی میں گم ۔ ایسے ہی کچھ شہروں میں آپ داخل ہوں تو اداسی کی ایک لہر آپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ شہر کے باسیوں کے سوا، باقی شہر کی ہر شئے میں یہ اداسی آپ کو رچی بسی نظر آئے گی۔ شجر، دیوار و دَر، چرندپرند، ہوافضا، زمیں آسمان ۔۔۔سب ایک گہری اداسی کی دھند میں لپٹے رہتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی تھابوڑھے فلسفی کی طرح کسی گہری سوچ میں ڈوبا یہ شہربھی۔۔۔

اداسی تو خیر شہر کے مزاج کو راس آگئی تھی، لیکن یہ خون خرابا اسے راس نہ آتا تھا۔خون خرابا شہر کی فطرت میں ہی نہیں۔ جب خون خرابہ ہونے لگے تو شہر چلنے سے انکار کر دیتے ہیں، ان میں زندگی کی رمق دم توڑنے لگتی ہے۔ خون خرابہ اور شہروں میں بھی ہوتا رہا تھا لیکن ایک نسل کے لوگوں کو نشانہ بنا کر سو،سو لوگوں کو ایک جگہ ہلاک کردینا، یہ پہلی بار اس شہر میں ہو رہا تھا۔ اس سے پہلے بھی نسلی بنیادوں پر اس شہر میں خون خرابہ ہوتا رہا تھا۔ ایک بڑے قبائلی رہنما کو جب وردی پوشوں نے پیرسنی میں قتل کر ڈالا تو شہر کئی دن بے ہوشی کی حالت میں رہا۔ ایک عرصہ تک اس پر سکتہ طاری رہا۔ اس کے بعد شروع ہونے والے نسلی فسادات نے تو گویا اس کی جان ہی نکال دی۔ کوئی دن خون سے خالی نہ جاتا تھا۔ پھر وری پوشوں نے جب شہر کے باسیوں کو رات کے اندھیرے میں اٹھا کر غائب کرنا شروع کر دیا،تو شہر کی آنکھوں سے نیند غائب ہونے لگی۔ اور پھر جب جوانوں کی مسخ شدہ لاشیں شہر کے ویرانوں سے برآمد ہونے لگیں تو شہر کے وجود میں چھید پڑنے لگے۔

اب اس پر ایک نیا عذاب ٹوٹ پڑا تھا۔۔۔۔مسلک کی بنیاد پر ہونے والے کشت و خون نے شہر کو لہو رنگ کر دیا تھا۔ اس کا مضمحل وجود آئے روز کے دھماکوں سے لرز اٹھا تھا۔ شہر کرچی کرچی ہو کر بکھرنے لگا تھا۔ ہر بڑے شہر کی طرح ،اس شہر نے خطے کے کونے کونے سے اس کی پناہ میں آئے ہر شخص کو اپنا مہربان سائبان عطا کیا تھا۔خدا جانے یہ بے رحم دہشت گرد کہاں سے گھس آئے تھے، جو اس کے وجود کو پارہ پارہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ فلسفی شہر انسانوں کی اس منطق پہ حیران ہوتا تھا کہ کیا کوئی شہر ایسا بھی ہوسکتا ہے جہاں صرف ایک ہی نسل، ایک ہی زبان یا ایک ہی مسلک کے لوگ بستے ہوں؟ یہ تو گویا ایسے ہی ہے جیسے ایک ماں باپ کے تمام بچوں کی شکلیں، قد کاٹھ، عادات و اطوار اور فکر بھی ایک جیسی ہو۔ جب قدرت نے دنیا کو اس قدر رنگا رنگ بنایا ہے۔۔۔ہر نظارا دوسرے سے مختلف ہے۔ سمندر ایک جیسے ہوکر بھی مختلف کیفیات اور خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں۔ تو یہ انسان کیوں اپنے جیسے انسانوں کی انفرادیت کے حق کو تسلیم نہیں کرتا؟!

سوچ سوچ کر شہر کا دماغ پھٹا جاتا تھا!

ایک ہی ماہ میں دو بار ہونے والے خطرناک دھماکوں میں ہر بار ایک سو نفر کی جان جانے کے بعد شہر کی رگوں میں بھی اب جان نہ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں کل کے دھماکے میں شہید ہونے والی اس بچی کا چہرہ اٹک کر رہ گیا تھا ،جس کے کٹے ہوئے ہاتھ میں خون آلود گڑیا مسکرا رہی تھی۔ اپنے باپ کے ساتھ ضد کر کے مارکیٹ آنے والی اس بدقسمت بچی کے باقی اعضا خدا جانے اس کے ورثا کو مل بھی پائے یا نہیں ۔

شہر کے لیے یہ مناظر اب ناقابلِ برداشت ہوگئے تھے۔ وہ اپنے خلاف سازش کی بو محسوس کر رہا تھا۔ اسے اپنے وجود پر بھاری بوٹوں کی دھمک سنائی دے رہی تھی۔وہ کسی طور اپنے سینے پہ آمریت کی علامت ان سنگین بوٹوں کا بار برداشت کرنے کو تیار نہ تھا۔کئی روز ڈپریشن میں مبتلا رہنے کے بعد بالآخر اس نے ایک فیصلہ کر لیا۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ اپنے اس فیصلے سے وہ حکام کو اور اپنے باسیوں کو مطلع کیسے کرے؟۔۔۔آج کل میڈیا کا زمانہ ہے۔ دہشت گرد تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے اس کا سہارا لیتے ہیں۔ شہر نے بھی اسی کا سہارا لینے کا فیصلہ کر لیا۔

شہر میں موجود میڈیا کے نمائندوں کے لیے یہ ایک انوکھی خبر تھی کہ شہر خود میڈیا سے خطاب کرنا چاہ رہا ہے اور ایک انتہائی اہم فیصلے سے باخبر کرنا چاہ رہا ہے، اس لیے شہر بھر کا میڈیا اس کی پریس بریفنگ میں امڈ آیا۔باجود اِس کے کہ اُس نے یہ شرط بھی عائد کر دی تھی کہ کیونکہ نہ وہ کوئی سیاسی سماجی رہنما ہے اور نہ اس کا کوئی ایجنڈا ہے، اس لیے وہ کسی سوال کا جواب نہیں دے گا اور محض اپنا پیغام دینے پر اکتفا کر ے گا۔۔۔میڈیا نے پھر بھی اس کی کوریج میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دی۔

جب میڈیا کے تمام نمائندے آ چکے تو شہر نے اپنی گفت گو آغاز کیا۔ اس کا لہجہ نہایت دھیما اور اداس تھا۔۔۔

’’میں برسوں سے اپنی گود میں آنے والوں کی پرورش کر رہا ہوں۔ ایک چھوٹی سی بستی سے لے کر قصبہ اور پھر شہر کا روپ دھارنے تک ، میں نے فلک کے کئی روپ دیکھے ہیں۔ میں نے مجھے بسانے والوں کا مجھ سے پیار بھی دیکھا، تو سمندر پار سے آئے فرنگیوں کی مجھ پرمہربانیاں بھی مجھے یاد ہیں۔کتنے ہی قبیلے، نسلیں میرے دامن میں آتی اور آباد ہوتی گئیں، میں نے کبھی ان پر اپنا دامن تنگ نہیں کیا۔ لیکن اب خدا جانے کہاں سے میرے دامن میں گھس آنے والے دہشت پسندوں نے مجھ پر زندگی تنگ کر دی ہے۔ میری سانسیں بارود کی بو سے بوجھل ہونے لگی ہیں۔اپنے جن باسیوں کو میں نے اولاد کی طرح پالا پوسا ہے، روز اپنی کوکھ میں ان کا قتل ِعام اب مجھ سے نہیں دیکھا جاتا۔ ان کی لاشوں کو جگہ دینے کے لیے میرا دامن تنگ پڑتا جا رہا ہے۔ میرے ہر چوک اور چوراہے پہ ایستادہ وردی پوش دن بھر میرے باسیوں کی تلاشی کے نام پر تذلیل کرتے رہتے ہیں لیکن وہ ان دہشت گردوں کا راستہ نہیں روک پاتے۔ انہیں لوگوں کی اندورنی جیب میں پڑے ان کے بٹوے میں اڑسے مڑے تڑے نوٹوں کا رنگ تک نظر آجاتا ہے، لیکن ان کی نظروں کے سامنے سے گزرنے والا سیکڑوں ٹن بارود نظر نہیں آتا۔میں نے وہ زمانہ دیکھا ہے کہ جب لوگ میرے دامن میں آباد ہونے والوں پر رشک کیا کرتے تھے، آج وہ انہیں قابلِ ترس سمجھتے ہیں۔ یہ میری اہانت ہے۔ یہ میرے قتل کا منصوبہ ہے۔ لیکن میں اس طرح قطرہ قطرہ موت کو قبول نہیں کرتا ۔۔۔اس لیے میں نے طے کر لیا ہے۔۔۔‘‘

قلم تھم گئے، کیمرے ساکت ہو گئے، سانسیں رک گئیں۔سبھی شہر کا فیصلہ سننے کے منتظر تھے۔

’’میں نے طے کر لیا ہے کہ میں خود کشی کروں گا۔۔‘‘ شہر کا لہجہ گلو گیر ضرور تھا مگر آواز حوصلے کی استقامت کا پتہ دیتی تھی۔

حاضرین پر گویا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ نہ صرف حاضرین بلکہ ناظرین بھی ورطہ حیرت میں مبتلا ہو گئے، کیونکہ شہر کی پریس کانفرنس براہِ راست ملک بھر میں دکھائی جا رہی تھی۔
’’میری خود کشی ان سب کے لیے پیغام ہو گی، جو میری قطرہ قطرہ مو ت پر دم سادھے بیٹھے ہیں۔ میرا زخمی وجود جن کے دل و دماغ پر چرکے نہیں لگاتا۔ جو میرے خون آلود چہرے کو دیکھ کر بھی روز سکون کی نیند سوتے ہیں۔ یہ پیغام ہو گا کہ اگر شہروں کا قتلِ عام نہ روکا گیا ، اور ہر شہر کی کوکھ اسی طرح ویران ہوتی رہی تو ہر شہر خودکشی پرمائل ہو گا۔ اور جب شہروں نے خود کشی شروع کر دی تو انسانوں پر زمین تنگ ہو جائے گی۔۔‘‘

شہر نے حیرت سے اٹھے چہروں اور خوف میں مبتلا کیمروںکی آنکھوں کی جانب دیکھا اور ایک لمحے کے توقف کے بعد یوں گویا ہوا جیسے اپنی بات کو اختتام دینا چاہ رہا ہو۔۔۔

’’میں جانتا ہوں تم سب میری خودکشی کا وقت اور طریقہ جاننا چاہ رہے ہو۔۔۔لیکن میں یہ سب نہیں بتاوں گا۔ میں جانتا ہوں کہ اس پر بھی سیاست چمکائی جائے گی، اس پر بھی کمرشل ازم ہوگا۔ خود کشی کے وقت سے متعلق نشانیاں میرے وجود میں ہی باقی ہیں۔۔۔میرے باسی ، میرے وجود آشنا باسی تمہیں بتائیں گے کہ میری سانسیں کب تک جاری رہ پائیں گی۔۔۔‘‘

کیمرے کی فلیشوں نے ہر طرف چکا چوند پیدا کردی۔ ٹی وی چینلز کے نیوز اسٹوڈیوز میں یہ خبر بڑی بڑی شہ سرخیوں میں بریکنگ نیوز کے طور پر چلنے لگی۔ جلد ہی ملک کے نامور تجزیہ کار اس بابت اپنا تجزیہ دینے لگے ۔

ہر طرف سراسیمگی سی پھیل گئی۔

انہی خبروں اور تجزیوں کے دوران ٹی وی اسکرینوں پر ،پریس کانفرنس کے اختتام پر شہر کے چہرے کا جو کلوز اپ دکھایاجا رہا تھا، اُس میں شہر کی ایک آنکھ میںبچی کے کٹے ہوئے ہاتھ میں خون آلود گڑیاکا عکس اور ایک آنکھ میں اٹکا آنسو واضح دیکھے جا سکتے تھے۔

شہر کے وجود آشنا باسیوں کو یہ یقین ہو چلا کہ اگر یہ آنسو گرنے سے پہلے نہیں پونچھا گیا، تو شہر خود کشی کر لے گا۔

[divider]چیک پوسٹ پر تفتیش[/divider]

’’کون ہو؟‘‘
’’شاعر ہوں‘‘
’’کام کیا کرتے ہو؟‘‘
’’شاعری کرتا ہوں‘‘
وہ تو سب کرتے ہیں، کام بتا۔۔۔‘‘
’’جی، یہی کام ہے!‘‘
’’اچھا،کوئی شعر سنا؟‘‘
’’جی، یاد نہیں‘‘
’’توکیا یاد ہے؟‘‘
’’آج اکتیس تاریخ ہے!‘‘
’’او چل جا یار۔۔۔‘‘

شاعر چل پڑا۔۔۔پیچھے سے آتے قہقہوں کا طوفان دُور تک اُس کے ساتھ چلتا رہا!

[divider]مسخ شدہ خواب[/divider]

دانش گاہ کے مرکزی دروازے پر ایستادہ وردی پوش لشکری ہر آنے جانے والے کی جامعہ تلاشی لے رہے تھے۔اُسے بھی دروازے پر ہی روک لیا گیا۔
ایک وردی پوش نے کڑک دار آواز میں پوچھا،’’کون ہوتم؟‘‘
’’خواب!‘‘
’’تو جاؤ کسی کی آنکھوں میں بسیرا کرو۔یہاں تمہارا کیا کام ؟‘‘
’’میں یہاں کی فضاؤں کا حصہ ہوں۔۔۔یہی تو میری نرسری ہے!‘‘
’’یہاں رہتے کہاں ہو؟‘‘
’’ہر خوبصورت آنکھ میں۔۔۔ہر جواں فکر ذہن میں!‘‘
’’اچھا، تو مطلب یہ جو یہاں کے ذہنوں میں جوش اور آنکھوں میں جوآگ لگی ہوئی ہو، اس کے ذمے دار تمہی ہو۔۔۔جوان ذہنوں کو ریاست سے باغی تم نے ہی کیا ہے۔۔۔‘‘
’’بغاوت تو ظلم سے پھیلتی ہے۔۔۔میں بس ظلم کا حصہ نہیں بنتا، باغی آنکھوں میں بسیرا کرتا ہوں۔۔۔‘‘
’’یہی ہے اصل فساد کی جڑ۔۔۔اٹھا لو اسے۔۔۔‘‘
دو لشکری آگے بڑھے، اور اُس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے ایک بکتر بندگاڑی میں ڈال دیا۔

دو دن بعد اُس کی مسخ شدہ لاش ایک ویرانے سے ملی۔
اُس کے چیتھڑے ہوئے کپڑوں کی جیب سے ایک پرچی برآمد ہوئی۔۔۔
مڑے تڑے اس پرچے پہ جلی حروف میں لکھا تھا؛’’باغی آنکھوں کے خواب کا انجام!‘‘

[divider]حبس بڑھتا گیا۔۔۔[/divider]

شہر کے ابتر حالات کے باعث ہر چوک، چیک پوسٹ بن چکا تھا۔ غیر اعلانیہ اور غیرمعینہ کرفیو کی سی صورت حال تھی۔ ہر آنے جانے والے کی یوں جامع تلاشی لی جاتی تھی کہ لشکریوں کے بس میں ہوتا تو دماغ کا اسکین کر کے اُس کی بھی تلاشی لیتے کہ کہیں کوئی تخریبی خیال اپنے ساتھ لے کر نہ جا رہا ہو۔۔۔
شہر حبس زدہ ہو چکاتھا۔

کچھ ایسی ہی صورتِ حال میں ایک چیک پوسٹ پر ایستادہ لشکریوں نے اُسے روک لیا۔
’’نام؟‘‘
’’آزادی!‘‘
’’کہاں رہتی ہو؟‘‘
’’ہر آزاد ذہن میں۔۔۔‘‘
’’محترمہ، فلسفہ مت سناؤ اور اپنا تعارف کرواؤ۔‘‘
’’میرا کوئی تعارف نہیں۔۔۔‘‘
’’اس ملک کی شہری تو ہو؟‘‘
’’میں سرحدوں کی قید سے ماورا ہوں۔‘‘
’’کوئی سروس کارڈ؟ کوئی شناختی کارڈ؟‘‘
’’غلام معاشروں میں جدوجہد کی ہر سرگرمی میری سروس، اور اس سرگرمی کا ہر رکن میری شناخت ہے۔۔۔‘‘

لشکریوں میں اب کھسر پھسر شروع ہو گئی۔ انہیں سمجھ نہیں آتا تھا کہ اس خوش شکل حسینہ سے کیسے نمٹا جائے۔
’’سر مجھے تو کوئی غیر ملکی ایجنٹ لگتی ہے۔‘‘ ایک لشکری نے صاحب کے کان میں انکشاف کیا۔
’’کام کیا کرتی ہو؟‘‘ صاحب نے پوچھا۔
’’انسانوں کومنظم کرنا، گھٹن زدہ فضاؤں کو حبس سے پاک کرنا۔۔۔‘‘
’’یہ تو سرکار کا کام ہے، تم کارِ سرکار میں مداخلت کی مرتکب ہو رہی ہو۔‘‘
’’سرکار کبھی آزادی پسند نہیں ہوتی۔۔۔‘‘
’’یہ توحکومت مخالف خیالات ہیں۔۔۔یہ ملک سے غداری ہے۔۔۔تخریب کاری ہے۔۔۔تمہارا اس طرح آزاد پھرنا حکومت کے حق میں نہیں۔۔۔گرفتار کر لو اسے۔‘‘
مستعدلشکری آگے بڑھے اور گرفتار کر کے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں۔

آزادی، داخلِ زنداں ہوئی۔
شہر میں حبس کچھ اور بڑھ گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *