پردہ داری انسانی فطرت ہے، انسان پردہ کرتا ہے یا شاید پردہ ڈالتا ہے، ان تمام چیزوں پر جو اسے دکھانا ٹھیک نہیں معلوم ہوتیں یا اور زیادہ نفسیاتی توجیح کیجیے تو جن کو دکھانا برا یا معیوب سمجھا جاتا ہے یا جن کے دکھ جانے سے کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ آج اس مضمون میں یہ سمجھنے کی کوشش کرکے دیکھنی چاہیے کہ آخر انسان کیوں چاہتا ہے کہ عورت پردے میں رہے۔ انسان کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے، اول بات تو یہ تنگ نظری کسی خاص مذہب اور خاص خطے تک محدود نہیں ہے۔دنیا کے بہت سے ایسے ممالک اورکئی ایسی قومیں ہیں جو مختلف طریقوں سے عورتوں کے بدن، ان کے چہروں، بالوں اور حتیٰ کہ ناخنوں کے دکھ جانے سے خوف زدہ رہتی ہیں۔ دوسری وجہ انسان کہنے کی یہ ہے کہ اس میں صرف مرد حضرات ہی شامل نہیں، بلکہ بہت سی عورتوں کا اصرار بھی اسی بات پر ہے کہ پردہ کیا جائے۔ انٹرنیٹ پر ایک روز لفظ نسا کے تعلق سے کسی کھوج بین میں کوئی دلچسپ سا آرٹیکل نظر آیا۔ دیکھا کہ ایک صاحبہ نے لکھا ہے کہ لفظ نسا کے معنی بھی چھپانے کے ہیں، پردہ کرنے کے ہیں۔میں عربی سے واقف نہیں، اس لیے اپنے کچھ عربی داں دوستوں سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ نسا کا لفظ دور و نزدیک چھپانے سے کسی بھی طرح تعلق نہیں رکھتا۔مگر فرض کر ہی لیجیے کہ ایسا کوئی مطلب بڑی کوششوں اور عرق ریزی کے بعد برآمد بھی ہو جاتا ہے تب بھی یہ سوال قائم کیا جا سکتا ہے کہ آج کے انسان کو سینکڑوں اور ہزاروں سال پرانے قوانین اور فرسودہ معاشروں کی دلیلوں سے کس طرح قائل کیا جاسکتا ہے۔ یہ تو ان خاتون کی بات تھی، اب میں اپنے گھر کی بات بتاتا ہوں، حالانکہ لکھنے والے اکثر ایسی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں، مگر میں چانکیہ کی اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہمارا سماج ہمارا گھر ہی ہے، یعنی جن چند افراد کے ساتھ مل کر آپ زندگی گزار رہے ہیں اور جو آپ کے چوبیس گھنٹوں کے رفیق ہیں، دراصل وہی آپ کا سماج ہیں، یہی وہ لوگ ہیں، جو بات بات پر آپ کو دھیان دلاتے ہیں، شرم دلاتے ہیں، باہر کے ایک خیالی سماج کی ننگی آنکھوں سے ڈراتے رہتے ہیں، لوگ کیا کہیں گے، لوگ کیا سوچیں گے جیسے جملے اتنی تیزی سے آپ کے دماغ میں گڑھتے ہیں کہ آپ بھی ایک خاص عمر تک پہنچتے پہنچتے اس ‘غیر موجود باہری سماج’ سے خوف کھانے لگتے ہیں اور اپنے کسی دوسرے بھائی بندو کو ڈرانا شروع کر دیتے ہیں۔خیر، بات یہ تھی کہ ایک دن جب گھر میں عورتوں، لڑکیوں کے لباس کے تعلق سے بحث چلی تو میری والدہ نے مجھے دلیل پیش کی کہ لڑکیوں اور عورتوں کو اپنے لباس کا خیال اس لیے رکھنا چاہیے کیونکہ اگر بازار میں کسی دکان پر گوشت ٹنگا ہوگا تو کتے ضرور آئیں گے۔میں نے ان کی بات کے جواب میں انہیں سمجھایا کہ اول تو عورت بازار میں ٹنگا ہوا گوشت نہیں ہے،دوسرے یہ کہ سماج میں رہنے والا ہر شخص کتا نہیں ہے۔ ہم انسانوں کی بستی میں رہتے ہیں، ہم نے بقول مذہب خدائی احکامات کی مدد سے بہت سی برائیوں کو گھٹنوں کے نیچے دبایا ہے، تو پھر اس برائی میں ایسی کیا طاقت ہے کہ مذہب نے کتوں سے خوف کھاکر، عورت پر ہی پردہ ڈالنا مناسب خیال کیا ہے۔ایسا بالکل غلط ہوگا کہ کوئی مضمون عورت کے تعلق سے اور خاص طور پر اسے تقدس کا شرف بخشنے کے حوالے سے لکھا جائے اور اس میں صرف مذہبی اخلاقیات کو دوش دیا جائے، اس میں سماج بھی برابر کا حصہ دار ہے۔ابھی زیادہ دن نہیں گزرے، اسی اور نوے کی دہائی میں بننے والی بالی ووڈ فلموں میں ہمارے معاشروںں کی ایک خاص کمزوری کو بھنا بھنا کر خوب روپیہ بٹورا گیا ہے، بلکہ آج بھی ایسا ہوتا ہے، ایسی غیر عقلی اور غیر منطقی قسم کی باتیں بالی ووڈ کا حصہ ہیں کہ کیا بتایا جائے، دونوں کی مثالیں پیش کرکے پھر اپنی بات پر واپس آتا ہوں۔گزشتہ دو یا تین سالوں کے دوران کوئی فلم آئی تھی، جس میں لڑکا اور لڑکی دونوں کے کرداروں کو بہت آزاد خیال، بے پروا اور معاشی طور پر مستحکم دکھایا گیا تھا، اسی فلم میں ایک منظر ہے، جہاں لڑکے اور لڑکی کے درمیان ایک رومانٹک گانے کے دوران اچھا خاصا رومانس ہوتا ہے، بات آگے بڑھنے والی ہوتی ہے کہ گانا ختم ہوجاتا ہے، اس بے موقع گانے کے ختم ہونے پر جو اعتراض ہوسکتا ہے وہ تو اپنی جگہ مگر سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ گانے کے آخر میں لڑکا اشاروں اشاروں میں ہی لڑکی سے اس کے بیڈ پر سونے کی اجازت طلب کرتا ہے، مگر لڑکی اسے لات مار کر بھگا دیتی ہے اور وہ اسی کمرے میں پڑے ہوئے ایک صوفے پر جاکر سوجاتا ہے۔کنڈوم کے زمانے میں دو نہایت آزاد خیال لوگوں کے درمیان ہونے والے جنسی عمل کو صرف اس لیے روکنا کیونکہ اس سے ایک خالص باکردار ‘ہندوستانی لڑکی’ کی امیج بلڈنگ کی جاسکے، نہایت احمقانہ بات ہے۔پہلی بات تو سیکس کرنے سے کوئی خراب یا اچھا نہیں ہوجاتا اور دوسری بات یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر ہمیشہ لڑکی کو بیڈ اور لڑکے کو صوفہ عطا کردینے سے فیمنزم کی حمایت کرنا، حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کے برابر ہے۔اب دوسرے منظر کی بات بھی کرلیتے ہیں، جو اسی نوے کی دہائی میں زیادہ دکھایا گیا اور اب حالانکہ کم ہے، مگر کہیں نہ کہیں موجود ہے،ہوتا یہ ہے کہ جب کبھی کچھ لوگ کسی عورت کا ریپ کرنے آگے بڑھتے ہیں، تو عورت ان سے بچنے کے لیے اپنے ہی پیٹ میں چاقو مار لیتی ہے، یہ بہت عام منظر رہا ہے، حالیہ کسی فلم میں دو اندھے کرداروں کی اچھی خاصی کہانی میں بھی ایک عورت کا دو بار ریپ ہوجانے پر اسے پھانسی لگانی پڑگئی تھی، اور وجہ صرف یہ تھی کہ ہیرو کو اپنی محبوبہ کی موت کا بدلہ لینا تھا۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ریپ ایک شدید قسم کا نفسیاتی دکھ ضرور پیدا کرتا ہے،جذباتی مسائل بھی اس سے پیدا ہوجاتے ہیں، مگر کسی عورت کے ریپ ہونے سے اس کی عزت میں بال برابر بھی فرق نہیں آنا چاہیے، دوسری بات یہ ہے کہ کوئی بھی حادثہ، خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو، اس سے بچنے یا اس کے ہوجانے کے نتیجے میں موت کو ترجیح دینا یا اس نظریہ کی توسیع کرنا ایک غلط اور جاہلانہ بات ہے۔آپ کہیں گے کہ میں نے پردے کے تعلق سے لکھتے لکھتے یہ کون سی بحث چھیڑ دی، مگر اس کا تعلق پردے کی بحث سے اس لیے ہے کیونکہ دونوں کا مقصد ایک ہے، ایک شدید عمل کی طرفداری۔یعنی ایک خطرے سے بچانے کے لیے، اس سے بھی بڑے خطرے کی جانب دھکیل دینا۔

گزشتہ دنوں ہم کچھ دوست بیٹھے تھے، باتیں ہورہی تھیں تو پردے کا ذکر بھی نکل آیا۔اس ذکر میں کسی دوست نے اعتراض کیا کہ لوگ چار یا پانچ سال کی بچیوں کو بھی نقاب میں ڈھانپے رکھتے ہیں۔میں نے کہا کہ ٹھیک یہ مسئلہ اس سوسائٹی میں ساٹھ ستر سال کی عورتوں کے ساتھ بھی ہے۔ماورائی اور خیالی قسم کی ثواب و گناہ والی دنیا کو ایک منٹ کے لیے نظر سے اوجھل کرکے دیکھیے،جنت کی لالچ میں انسان بہت کچھ کرتا ہے، سو اس نے یہ بھی سوچا ہوگا کہ بچے کو اتنی کم عمری سے اس لبادے میں ڈھال دو کہ اسے ایک عمر کے بعد یہ اپنی ‘آزادی انتخاب لباس’ جیسی کوئی چیز معلوم ہونے لگے۔ایسی زیادہ تر لڑکیاں، جن پر پردہ ٹھونسا گیا ہے، اور جن کو اپنے تنگ نظر خاندان کا دفاع کرنے کی اور کوئی سبیل نظر نہیں آتی، وہ پردے کو اپنی پسند کا نام دے دیتی ہیں۔اس سے نکلنا بعض اوقات بے حد مشکل کام ہوتا ہے، اسی بحث میں ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ انہیں لباس کا ایسا عادی بچپن سے بنایا گیا ہے کہ وہ شارٹس پہننے کا تصور چاہ کر بھی نہیں کرسکتے، میں نے خود بہت زمانے تک رہنے والی اپنی ایک نفسیاتی الجھن کو اس محفل میں پیش کیا۔ہوتا یہ تھا کہ ایک وقت تک جب کپڑے پر سے بھی عضو تناسل کو ہاتھ لگ جاتا تو میں جاکر ہاتھ دھویا کرتا تھا۔یعنی اپنے ہی بدن کے ایک صاف حصے سے اس قسم کی الجھن پیدا کردی گئی تھی کہ وہ الجھن رفتہ رفتہ ‘ناپاکی کے نام نہاد خوف’ میں تبدیل ہوگئی۔

شاید دو یا تین برس پہلے اردو کے ایک معروف محقق، جو کہ امریکا میں کئی برسوں سے رہتے ہیں، ان کا ایک مضمون پڑھا تھا، پردے کے ہی تعلق سے تھا۔انہوں نے اس میں لکھا تھا کہ نائن الیون کے بعد وہ شناخت کے جس بحران کا شکار ہوئے، اس سے تب باہر نکل سکے، جب انہوں نے کسی جگہ ایک لڑکی کو بھرے مجمع میں یہ کہتے سنا کہ پردہ اس کی پہچان ہے، اور وہ اسے نہیں بدل سکتی۔میری پچھلے سال ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے یہ اعتراض ان کے سامنے بھی پیش کیا کہ آپ کا مضمون اپنی شناخت کے بچائو سے زیادہ پردے کے بچائو میں نظر آتا تھا۔انسانی تشخص اور اس کی شناخت کادفاع ایسے ماحول میں ضروری ہے، جہاں اسے، اس کے نام، مذہب، رنگ، وطن یا کلچر کی بنیاد پر نشانہ بنایا جارہا ہو، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپنے ہی معاشرے کی بے سر پیر کی تقدیس آمیز چیزوں کو اپنی شناخت بھی سمجھ لیا جائے۔جس لڑکی کو چار پانچ سال کی عمر سے پردہ اڑھایا جارہا ہے،اگر وہ صرف اس بنیاد پر اسے اپنی شناخت سمجھنے لگی ہے تو اس میں اور ایسے شخص میں کوئی فرق نہیں ہے جو بہت سی روڑھی وادی سوچوں کابچائو صرف اس لیے کرتا ہے، کیونکہ وہ اس کے دماغ میں بہت چھوٹی عمر سے ٹھونسی گئی ہیں۔

اس ذیل میں ایک واقعہ اور سن لیجیے، فیس بک پر پچھلے دنوں اپنی کسی شناسا لڑکی کی ایک پوسٹ دیکھی، جس میں اس نے لکھا تھا کہ اسے ایک جگہ ٹیوشن پڑھانے کا موقع صرف اس لیے نہیں دیا گیا کیونکہ اس بچے کے ماں باپ کو اس بات پر اعتراض تھا کہ وہ حجاب پہنتی ہے۔محض حجاب پہننے پر کسی سے نہ پڑھوانے کا فیصلہ بظاہر بہت متعصب معلوم ہوتا ہے، مگر ممکن ہے کہ وہ ماں باپ کسی ایسے ٹیچر سے بھی اپنے بچے کو نہ پڑھوانا چاہیں جو ٹیکہ لگاتی ہو، بھگوا رنگ کے کپڑے پہنتی ہو اور گلے میں مالا ڈال کر گھومتی ہو۔جب آپ حجاب کو اپنی شناخت سمجھتے ہیں تو آپ کو نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ شناخت مذہبی ہے اور دنیاوی معاملات میں بھی اپنی مذہبی شناخت کو ہرحال میں قائم رکھنے کا رویہ بھی تعصب کی ہی ایک صورت ہے۔میں نے دو تین سال قبل ایک جگہ نوکری کی تھی، یہ کوئی سرکاری دفتر تھا، مگر تھا اردو زبان سے تعلق رکھنے والا، چنانچہ لوگ منہ اٹھاکر یہاں ٹوپی لگائے، کرتاپاجامہ پہنے آجایا کرتے تھے۔پھر ایسے لوگوں کو اس بات پر اعتراض کرنے کا کیا حق رہ جاتا ہے کہ دوسری قومیں اپنی مذہبی شناخت کے قائم رکھنے پر مصر ہیں اور اس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔کپڑا کسی کی شناخت نہیں ہوسکتا، جیسے کھانا کسی کی شناخت نہیں ہے، یہ خود پر اوڑھی ہوئی چیزیں ہیں اور ان سے باہر نکلنے کے لیے ضروری ہے، اپنے ہی سماج یعنی اپنے ہی گھرکی پیدا کی ہوئی فکر پر سوالیہ نشان داغنے کی جرات کرنا۔

میں بہت برسوں پہلے ایک جگہ ٹیوشن پڑھانے گیا تو پہلے ہی دن دیکھا کہ وہاں ایک خاتون ہیں، جو اپنے ہی گھر میں سر سے پیر تک کالے لباس میں صرف اس لیے ملبوس ہیں کیونکہ میں انہیں پڑھانے جارہا ہوں، اور ایسا نہ تھا کہ جب میں انہیں پڑھارہا تھا تو ان کے شوہر موجود نہیں تھے۔مگر مسئلہ خوف سے زیادہ مذہبی شناخت کے تحفظ کا تھا۔ اور ایسا کوئی بھی شخص جو کسی کی مذہبی شناخت کے تحفظ پر اصرار کرتا ہو، اسے کسی دوسرے مذہب کی مذہبی شناخت یا شناخت کی علامتوں پر سوال اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر پردے کی حفاظت ضروری ہے تو گائے کی حفاظت بھی ضروری ہے اور گائے تو اس معاملے میں زیادہ نمبر لے جاتی ہے کہ وہ جاندار ہے، کوئی گز بھر کا کپڑا نہیں۔
Image: Parastou Forouhar

Leave a Reply