اس طویل کہانی کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں۔
اس کے پڑوسیوں نے اسے بتایا تھا کہ آسمان کی تعمیر سات روز میں ہوئی تھی۔ جب آسمان بنا تو اس کے پڑوسی وہاں تھے اور وہ بھی تھا۔ ہوا یہ تھا کہ بہت سے انسانوں اور بہت سے شیطانوں نے مل کر ایک رات یہ سوچا کہ زمین کی دوسری طرف سے جو روشنی آتی ہے اسے ایک پردے سے ڈھک دینا چاہیے۔کیوں کہ اس روشنی سے ان کے بچے اندھے ہو جاتے تھے۔ اس وقت انسان اور شیطان ساتھ مل کر رہتے تھے۔ انسانوں نے شیطان کے کندھے سے کندھا ملا کر ایک بڑا سا پل بنا یا، جو پل سیدھا تھا اور آسمان کی طرف جاتا تھا۔ اس پل کو بنانے میں شیطانوں نے اپنی ریڑ ھ کی ہڈیوں کو زخمی کیا اور اوپر جاتے ہوئے پل کو گرنے سے بچائے رکھا۔ حالاں کہ زمین کی دوسری طرف سے جو روشنی آ رہی تھی وہ بہت تیز تھی مگر شیطانوں کے پاس آنکھوں پر باندھنے کی ایسی پٹیاں تھیں جن سے انسان کو اس روشنی سے آنکھیں ملانے میں پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ انسان اینٹ پہ اینٹ رکھتے اور شیطان انہیں سہارا دیتے۔ جب پل ذرا اور اونچائی پر جاتا تو ایک شیطان کے کندھے پہ دوسرا شیطان کھڑا ہو جاتا۔ یہ کام زور و شور سے چھے روز تک چلتا رہا۔ اس پل کی تعمیر کے لیے دنیا کے ہر حصے سے اینٹیں لائی گئیں۔ جب اینٹوں کی قلت ہونے لگی تو زمین کو کھود کر اس کی مٹی سے اینٹوں کو تعمیر کیا گیا۔ اس عمل سے جلد ہی زمین کے نیچے کا پانی سطح آب پر آ گیا اور دنیا میں پانی کی مقدار بڑھنے لگی۔ جب شیطانوں نے یہ منظر دیکھا تو انہوں نے اپنے بدن کی نکلی ہوئی اضافی ہڈیاں انسانوں کو کاٹ کاٹ کر دیں تاکہ وہ پل کی تعمیر کا کام جاری رکھ سکیں۔ انسانوں نے دھیرے دھیر ےاتنا اونچا پل بنا لیا جہاں سے پردہ کھینچ کر آنے والی روشنی کو روکا جا سکتا تھا۔
جب انسانوں اور شیطانوں کے مرد پل تعمیر کر رہے تھے تو ان کی عورتیں مل کر آسمان کی ناپ کا پردہ سی رہی تھیں۔ اس پردے کی تعمیر میں کئی طرح کے درختوں کی چھالوں، پھولوں کی پنکھڑیوں، نازک پیڑ کی پتیوں، شیطانی عورتوں کی جلد کے اضافی حصوں، جانوروں کی کھالوں اور سانپ کی کیچلیوں کا استعمال کیا گیا تھا۔ دھاگے کے طور پر بیلوں اور جٹھاوں سے کام لیا گیا تھا۔ ادھر چھے دنوں میں مردوں نے پل تیار کیا اور ادھر چھے روز میں عورتوں نے پردہ سیا۔ اس سلائی میں شیطانی عورتوں نے اتنی صفائی کا مظاہرہ کیا کہ ایک پیوند سے دوسرے پیوند کا جوڑ نظر نہ آتا تھا۔ انسانی عورتیں اشیا جمع کرتیں اور شیطانی عورتیں انہیں سیتیں۔ دن بھر انسان مرد اور شیطان مرد مشقت کرتے اور رات کو شراب پیتے۔ دن بھر انسان عورتیں اور شیطان عورتیں سلائی کرتیں اور رات کو اپنے مردوں کے پہلو میں برہنہ ہو کر لیٹ جاتیں۔ جب عورتوں نے چھٹے روز آسمان پر تانے جانے والا پردہ مردوں کے حوالے کیا تو انہوں نے خوشی سے اپنی عورتوں کے ماتھے چوم لیے۔ سب خوش تھے۔ پردہ اور پل دونوں تیار ہو چکے تھے۔ انسانی مردوں نے جوں ہی اس پردے کو کھولا تو چاروں جانب سے آنے والی روشنی غائب ہو گئی وہ تیز نیلی روشنی جو انسان اور شیطان کے بچوں کو اندھا کر دینے والی روشنی تھی اب ایک مدھم اور ہلکی روشنی میں بدل گئی۔ انسانوں اور شیطانوں نے جب یہ منظر دیکھا تو ان کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ انسانوں نے اپنی آنکھوں پر لپٹی ہوئی وہ پٹیاں نوچ پھینکیں جو انہیں شیطانوں نے دی تھیں پردے کو آسمان کے چار الگ الگ کونوں میں چار ستاروں سے باندھ کر جب انسان پل سے زمین پر آئے تو شیطانوں نے اپنی پیٹھ کاسہارا پل سے ہٹا دیا۔ جوں ہی شیطان ہٹے پل آن واحد میں زمین پر آ گرا۔ پل کی اینٹیں دنیا میں چاروں طرف پھیل گئیں سمند ر کا پانی پھر زمین کے نیچے چلا گیا۔ شیطانوں کی ہڈیاں پل کی اینٹوں میں مل کر خاک کا ڈھیر بن گئیں جس سے زمین کے دلدلی علاقے سخت اور ٹھوس ہو گئے۔
اس واقعے کے بعد چند روز تک سب معتدل رہا انسانوں نے شیطانوں کی دعوت کی اور شیطانوں نے انسانوں کی۔ مگر جلد ہی شیطانوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ اتنی کم روشنی میں انہیں کچھ صاف دکھائی نہیں دیتا ہے۔ ان کی آنکھیں کمزور ہو رہی ہیں۔ انہوں اس بات کا احساس انسانوں کو دلایا تو انسانوں نے اسے شیطانوں کا وہم قرار دیا۔ پھر کچھ دنوں میں شیطانوں کے بڑے بڑے سردار اندھے ہونے لگے یہ دیکھ کر شیطانوں کے گروہ میں ہلچل مچ گئی۔ انہوں نے انسانوں سے کہا کہ وہ اس حالت میں زندہ نہیں رہ سکتے۔ انہیں آسمان پر کھنچا ہوا پردہ اتارنا ہوگا جس کے لیے انہیں انسانوں کی مدد درکار تھی۔ انسانوں نے انہیں اپنے اور ان کے بچوں کا واسطہ دیا تو انہوں نے اپنے بچوں کے گلے گھونٹ کر ان کی لاشیں انسانوں کے سامنے بچھا دیں۔ اس منظر نے انسانوں کے دل میں شیطانوں کے لیے نفرت پیدا کر دی۔ انہوں نے اپنے بچوں کا گلا گھونٹنے سے اور ان کی مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ شیطانوں کے گروہ میں ہاہاکار مچ گئی، کیوں کہ وہ انسانوں کی مدد کے بغیر آسمان تک پہنچنے کا پل تیار نہیں کر سکتے تھے۔ دھیرے دھیرے روشنی کی کمی کے باعث شیطانوں کی موت ہونے لگی۔ وہ انسانوں کے آگے ہاتھ جوڑ جوڑ کر گڑ گڑاتے مگر انسان ان کی ایک نہ سنتے۔
آخر کار بچے کھچے شیطانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک کے کندھے پر دوسرا کھڑا ہو اور آسمان کی اونچائی تک پہنچ کر اس پرد ے کو نوچ دیں۔ انہوں نے ایک رات جب سارے انسان گہری نیند سو رہے تھے تو ایک دوسرے کے کندھے پر سوار ہو کر آسمان کےپردے تک پہنچنے کی کوشش کی مگر بڑی مشکل سے صرف سب سے اوپر والا جو اندھیرے کے باعث بہت لاغر اور کمزور ہو چکا تھا آسمان کے پردے تک پہنچ پایا۔ اس نے چاروں کونوں کے ستاروں سے رسی کھینچ کر اسے کھول دینا چاہا مگر بری طرح ناکام رہا۔ رات بھر کی کوشش کے باوجود کچھ ہاتھ نہ آیا۔تھکن اور کمزوری کے باعث جب شیطانوں کامینار ڈگمگانے لگا تو سب سے اوپر والا شیطان ایک ستارے کی رسی پکڑ کر اس میں لٹک گیا اور سارے شیطان زمین پہ گر کر نیست و نابود ہو گئے۔ دوسرے روز جب انسانوں نے دیکھا تو انہیں چاروں طرف شیطانوں کی لاشیں بکھر ی ہوئی نظر آئیں۔ یہ منظر دیکھ کر انہوں نے خوب جشن منایا اور آسمان کے ستارے سے لٹکا ہوا آخری شیطان ان کی ظالمانہ حرکت کو دیکھ کر بہت رویا۔ اس کے دل میں انسانوں کی نفرت بیٹھ گئی اور اس نے سوچا کہ آج سے زندگی کی آخری سانس تک یہا ں سے لٹکا ہوا انسانوں کی بستی پر اپنے پیشاب کی بارش کرتا رہوں گا تاکہ اس کی بوندیں ان کےمعدوں میں جائیں اور ان میں بھی شیطانی صفات پیداہونے لگیں۔ اس نے قسم کھائی کہ انسانوں نے جس طرح اپنے ظلم سے شیطانوں کو خاک میں ملایا ہے ویسے ہی میں اپنے پیشاب سے انسانوں کو خاک میں ملا کر شیطانوں کی ایک نئی دنیا پیدا کروں گا۔ یہ کہہ کر اس نے ایک روز دار چیخ ماری۔ جس چیخ کی آواز دھیرے دھیرے تیز ہوتی چلی گئی۔ وہ آواز اتنی تیز ہوئی کہ اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ اس کے ماتھے پہ پسنے کی بوندیں ابھر آئی تھیں اور ابھی تک اس چیخ کی آواز اس کےکانوں میں گونج رہی تھی جو کچھ لمحے کے لیے دھیمی ہوئی اور پھر تیز ہوتے ہوتے اتنی تیز ہو گئی کہ اس کی آنکھیں سرخ ہو کر ابل پڑیں۔
(6)
شہر کے جنوبی علاقے میں مختلف اخباروں کے پرنٹگ پریس لگے ہوئے تھے۔ ان تنگ گلیوں کے درمیان روز صبح پورے شہر کی کرتوتوں کا نقشہ تیار ہوتا تھا ۔ہر صبح کئی گاڑیاں اخباروں کے ہزاروں گٹھڑ لاد کر پورے شہر میں پہنچاتیں، ہر عمر کے اخبار والے اپنی سائیکلوں پر سوار ہو کر آتے اور لائن لگا کر کھڑے ہو جاتے۔ اپنی باری آنے پر ہر شخص اپنی روز کی تعداد کے حساب سے اخبارات جمع کرتا، انہیں سائیکلوں کی پشت پر بنے کیریر میں دباتا اور شہر کی جانب نکل جاتا۔تمام سائیکل والے جب یکے بعد دیگرے جنوبی علاقے سے نکلتے تو ایسا لگتا جیسے شہر میں سائیکل ریس ہو رہی ہے۔ اکثر وہ صبح پانچ،چھ بجے قریب اٹھ کر ٹہلتا ہوا شہر کے میدانی علاقے کے پاس بنے لوہے کے پل پر آ کر کھڑا ہوجاتا۔ جب آوازیں اسے بہت زیادہ پریشان کرتیں یا دیر رات تک نیند نہ آتی تو وہ اس لوہے کے پل پر کھڑا ہو کر شہر کے چوڑے راستوں کو دیکھتا۔ اخبار والوں میں اسے اپنی عمر کے لوگ بھی دکھائی دیتے تھے۔ وہ سب بہت جلدی میں ہوتے۔ سائیکل کے پیڈلوں پہ پیر جمائے تیزی سے لوگوں کے دروازوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔ انہیں معلوم تھا کہ شہر کا صاف ستھرا علاقہ صبح کی چائے پہ اپنے ارد گرد کے حالات جاننے کا کتنا شوقین تھا۔ ایک اخبار یعنی ان کا مہینے بھر کا ایک کسٹمر جسے اخبار اگر وقت پہ نہ پہنچا تو وہ روپیہ کی ادائیگی میں آنا کانی کر سکتا ہے جس سے اس کی محنت ضائع جائے گی۔ وہ جانتے تھے کہ ہر گھر تک پہنچنے کا ایک وقت ہے اگروہ ایک گھر پہ صحیح وقت پہ نہ پہنچے تو یقیناً انہیں ہر گھر تک پہنچنے میں دیر ہو جائے گی۔
وہ انہیں دیکھ کر سوچتا کہ اس زندگی سے بہتر تو اس کا چمنی کے منہ پر کھڑے ہو کر بوتلیں کھینچنا ہے۔ جس میں چمنی خود بتا دیتی ہے کہ اب بوتلیں باہر کھینچی جانی ہیں۔ اسے صرف لوہے کا ایک اوزار اپنے ہاتھوں میں تھامنا ہوتا ہے۔ کسی کو جواب دیے بنا۔ کہیں پہنچنے کی خواہش سے دور صرف ایک جگہ دونوں ٹانگیں مضبوطی سے جمائے کھڑے رہنا ہے۔ مگر پھر اسے شہر کے راستے نظر آتے جن پہ رنگ برنگی گاڑیاں بھی چلا کرتی تھیں۔ لوگوں کے رنگین اور خوشبو دار کپڑے۔پھر وہ خود کے کپڑوں کو سونگھتا جن میں کارخانے کی مہک بسی ہوئی تھی۔ اس نے کارخانے کی مہک کو ہمیشہ بہت دیر دیرتک سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ وہ پہچان ہی نہیں پاتا تھا کہ کار خانے میں کس چیز کی مہک آتی ہے۔ جب اسے لگتا کہ کانچ کی بوتلیں یا چمنی مہکتی ہے تو وہ باری باری سب کو سونگھتا۔ مگر کسی بھی شئے سے مہک اٹھتی محسوس نہ ہوتی۔ یہ اشیا کے ملے جلے تعفن کی مہک تھی۔ اسے لگتا جیسے کارخانہ کہیں اندر سے سڑ رہا ہے جس کی ہر شئے ابھی تک ظاہری طور پر سلامت ہے۔ مگر اس کا علم شائد مالک کو نہیں ہے کہ کار خانے میں ساری چیزیں اند رسے سڑ رہی ہیں۔ اسے اپنے وجود کے سڑنے کا احساس بھی ہوتا۔ مگر خود اعتمادی سے وہ اس خیال کو ذہن سے جھٹک دیتا اور لوہے کے پل کا ہتھا تھام کر صبح کے اگتے سورج سے نظریں ملانے کی کوشش کرتا۔ اسے صبح کا سورج پسند تھا وہ اکثر غور کرتا تھا کہ اس میں بہت اپانیت ہے۔ اس نے کئی مرتبہ اپنے پڑوسیوں سے صبح کے سورج کی کشش کے متعلق جاننے کی کوشش بھی کی تھی۔ مگر اس معاملے میں وہ خاموش ہی رہتے تھے۔ وہ اس معاملے میں اخبار بیچنے والوں کو خوش نصیب سمجھتا تھا کہ وہ روز صبح کے سورج کا استقبال کرنے کے لیے سائیکلوں پہ سوار ہو کر شہر کی سڑکوں پہ چکر لگاتے ہیں۔ اچانک اسے خیال آیا کہ اسے بھی کچھ دنوں تک اخبار بیچنا چاہیے، کم سے کم صبح کے سورج کی محبت میں۔مگر اس نے اسے خیال کو فوراً جھٹک دیا۔ اس نے سوچا کہ جب تک وہ چمنی کی مہک کا راز نہیں جان لے گا تب تک کار خانے کو ہر گز الودعی نہیں کہے گا۔
آج وہ کارخانے پہنچا تو سینٹ سے بھری بوتلوں کا ایک ڈبہ اسے مالک کے کاونٹر کے پاس رکھا دکھائی دیا۔ مالک نے اس پہ نظر ڈالی اس کی حاضری کا اندراج کرتے ہوئے اسے آواز دی۔ اس نے مالک کی آواز سن کر اپنے بڑھتے قدم روک لیے۔”اس ڈبے میں سے ایک بوتل تیری ہے۔” وہ کچھ سمجھ نہ سکا۔ مالک نے پھر کہا” آج سینٹ کی بوتلوں کے چار نئے کنسائنمنٹ ملے ہیں۔اب ہمیں الگ الگ طرح کی بوتلیں بنانی ہیں اور کمپنیوں تک پہنچانی ہے۔ یہ سینٹ ہمیں اپنی ایک نئی کمپنی نے گفٹ کیا ہے۔ ان میں سے ایک تیرا ہے۔ دیکھ لے اب ایسی ہی بوتلیں بنیں گی۔ "و ہ مالک کی یہ بات سن کر خوش ہو گیا۔ اسے یقین آ گیا کہ اس کا مالک اس کے کام سے خوش ہے۔ "آج سے تجھے ساٹھ کے بجائے اسی رپیہ روز کا ملا کرے گا۔یہ لے اور جا کام کر۔” اسے بہت حیرانی ہو رہی تھی۔ نہ جانے اس نے ایسا کیا کیا کہ اس کے پیسے بھی بڑھا دیے گیے اور مالک نے اس سے اتنی باتیں بھی کیں۔ وہ اسی روپے سے زیادہ خوش اپنے مالک کے رویے سے تھا۔
اسے لگا جیسے یہ کار خانہ ایسی جگہ ہے جہاں وردی والے اس کا احترام کرنے پہ مجبور ہو گئے ہیں۔ جیسے شہر کے تمام رئیس اسے اپنے برابر کا تصور کرنے لگے ہیں۔ اس کا مالک اس کا اپنا دوست بن گیا ہے اور وہ رنگ برنگی گاڑیاں جو ٹیلے کے سامنے والی سڑک سے گزرتی ہیں انہوں نے اسے دیکھ کر منہ چڑھانا بند کر دیا ہے۔ اس نے سینٹ کی بوتل کو غور سے دیکھا جیسے یہ کوئی غیر نہیں بلکہ اس کی اپنی اولاد ہو۔جس نے اس کا نام فخر سے اونچا کر دیا ہو۔ اس نے اسے اپنی قمیض کی اوپری جیب میں رکھا اور چمنی کے منہ پر کھڑے ہونے والے موٹے دستانے پہن کر لوہے کی روڈ ہاتھوں میں اٹھا لی۔ آج وہ دن بھر اندر ہی اندر گنگناتا ہوا چمنی کے پیٹ سے بوتلیں نکالتا رہا اور انہیں دفتی کے ڈبوں میں بند کر کے محبت بھرے انداز میں آگے کی طرف کھسکاتا رہا۔
شام کو جب وہ کارخانے سے نکلنے لگا تو اس کے مالک نے اسے اسی روپے دیئے اور روز والا سوال پوچھا۔ اس نے دوسرے دن آنے کا وقت بتایا اور باہر نکل گیا۔ وہ کار خانے سے باہر نکلا تو جھٹپٹے کا وقت ہو چلا تھا۔ سورج تیزی سےاندھیروں کی گپھا کی طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ اپنے گھر تک پیدل ہی جاتا تھا، کیوں کہ کار خانے کی گلیوں میں کسی سواری کو لانے کا مطلب تھا منٹوں کی مسافت گھنٹو میں طے کرو۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہو ا گھر کی جانب بڑھ رہا تھا اور بار بار اپنی قمیض کی جیب سے سینٹ کی بوتل نکال کر اسے اپنے ہاتھ میں تھام لیتا تھا۔ پھر کچھ سوچ کر قمیض کی جیب میں رکھ دیتا اور پھر نکال لیتا۔ اس نے اب سے پہلے کبھی سینٹ کی بھری ہوئی بوتل استعمال نہیں کی تھی۔ کانچ کی خوبصورت بوتل جس میں ہلکے کتھئی رنگ کا سیال بھرا ہوا تھا۔ وہ اسے استعمال کرنا چاہتا تھا اور کیسے کیا جاتا ہے اسے یہ بھی معلوم تھا، مگر اس کے لیے اسے ایک صحیح موقع کا انتظارکرناتھا۔ اسے آج تک خوشبو لگانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ یوں بھی زندگی میں جتنے قسم کی بد بووں سے اس کا واسطہ پڑا تھا ااس کی ایک چوتھا ئی خوشبوئیں بھی اس نے نہیں سونگھی تھیں۔ وہ ٹیلے کے متعلق سوچنے لگا جہاں طرح طرح کی بدبووں سے اس کی ناک بھر جاتی تھی۔ سڑے ہوئے پانی، نشہ آور اشیا، جلے ہوئے ٹائر، مرے ہوئے پرندے، گائے اور بھینس کے گوبر اور انسانی پاخانے، پیشاب کی ملی جلی بدبو۔ اسے لگتا جیسے ہزاروں انسانی لاشوں کو جلا کر ان کا دھواں ٹیلے کی مٹی میں ملا دیا گیا تھا جس وجہ سے اس کے چپے چپے سے سڑتی ہوئی انسانی آنتوں کی مہک آتی تھی۔ اس کے باوجود وہ ٹیلے کو ایک پر سکون مقام سمجھتا تھا جہاں سگرٹ کے کشوں سے اسے زندگی کے بوجھل لمحوں اور وردی والوں کے جبر سے راحت ملتی تھی۔
اس نے گھر پہنچ کے اپنی سینٹ کی بوتل کو بہ حفاظت تمام اپنے صندوقچے میں رکھا۔ اپنی قمیض تبدیل کی اور دوبارہ گھر کے باہر آ گیا۔ اب اس کی رفتار سے لگتا تھا جیسے اسے کہیں پہنچنے کی جلدی تھی۔ اس کی جیب میں اس وقت اسی روپے تھے۔ وہ شہر کے ایک سرے سے دوسرے سے تک سواری سے آ جا سکتا تھا۔ اس نے سڑک پہ آ کر سواری روکی اور شہر کے شمال مغربی حصے میں جو کالج تھا اس کی طرف چل دیا۔ جب وہ کالج کے گیٹ پہ پہنچا تو کالج کا دروازہ اسے مقفل نظر آیا۔ اس نے سواری چھوڑ دی۔ کچھ دیر تک کھڑا کالج کے گیٹ کو تکتا رہا پھر ان گول سرکاری عمارتوں کی فٹ پاتھ پہ آ گیا جہاں پیدل چلنے والے لڑکے لڑکیوں کاریلا دائیں سے بائیں اور بائیں سےدائیں کی طرف آ جا رہا تھا۔ وہ بھی اسی بھیڑ میں شامل ہو گیا۔ اس نے کچھ آگے جا کر دوبارہ پلٹ کے کالج کے گیٹ کی طرف دیکھا۔ اس طرح جیسے اپنے دیکھے پر یقین کرنا چاہ رہا ہو اور پھر اس ریلے کے پیچھے چلنے لگا۔ وہ چلتے چلتے آتی جاتی لڑکیوں پہ نظریں جماتا ان کے قریب سے گزرتے ہوئے زور سے اپنی سانس کھینچتا اور ان کے کھولے ہوئے بالوں سے اٹھنے والی مہک کو اپنے نتھنوں میں جمع کرنے کی کوشش کرتا وہ کافی دیر تک اسی طرح حکومتی عمارتوں کی فٹ پاتھ پہ ریلے کے پیچھے چلتا رہا۔ کچھ لوگ کسی فٹ پاتھ سے ایک خاص گلی میں مڑجاتے تو کچھ لمحوں میں دوسری گلی سے کچھ نئے چہرے نکل کر اس بھیڑ کا حصہ بن جاتے۔ اس نے سوچا کے یہ مہکتا ہوا شہر اوپر سے کتنا خوبصورت ہے۔ نہ جانے کیوں اسے یہ سب ڈھونگ لگا، مگر وہ اس ڈھونگ سے لطف اندوز بھی ہو رہا تھا۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ مختلف لوگوں کے کپڑوں اور بالوں سے اٹھنے والی مہک اسے پل بھر کے لیے زندگی کا ایک نیا احساس عطا کرتی ہے۔ جب جب وہ کسی لڑکے یا لڑکی کے قریب سے گزرتا ہے تو اس کی مہک کے تجربات میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے ذہن کوان خوشبو وں کے درمیان گردش کرتا ہوا پا کر خوش ہو رہا تھا۔ اسے لگتا جیسے چمنی کی مہک جس کا سراغ لگانے کے لیے وہ اتنا پریشان تھا اس کے ان خوشبووں کے مقابلے میں اس پہ وقت صرف کرنا خود کو اندر سے سڑانے کی طرح ہے۔
اسے ٹیلے کی بدبو اور دھلے دھلائے صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس لوگوں کی خوشبوں میں ایک بڑا فرق معلوم ہوا۔ اسے لگا کہ ٹیلے پہ اٹھنے والی خوشبویں اسے سکون تو عطا کرتی ہیں مگر اس میں غم کی ایک لہر ہو تی ہے ایسی جو اسے اندر سے مرجھا دیتی ہے، جبکہ یہاں کی خوشبوں میں اسے انجانی خوشی کا احساس ہو رہا تھا۔ جیسے پیپر منٹ کی گولیاں اس کی سانس میں گھل کر انہیں تازہ کر رہی ہوں۔ اس نے سوچا کہ یہاں کی خوشبووں سے لطف اندوز ہونے کے لیے اب وہ روز شام کو یہاں آیا کرے گا۔ ان سڑکوں پہ چلنے والے صاف ستھرے لوگوں کے بدن سے اٹھنے والی خوشبوں میں ڈوب کر زندگی کا نیا احساس حاصل کرے گا۔ اسے اپنا ٹیلے پہ جانا فضول معلوم ہونے لگا۔ اس نے سوچا کہ اگر اسے سگریٹ کے کش ہی لینا ہیں تو وہ لوہے کے پل پہ جا کر بھی لے سکتا ہے یا ان سڑکوں پہ گردش کرتے ہوے بھی سگریٹ پی سکتا ہے۔ پھر اچانک کچھ سوچ کر اس نے اپنے آخری فیصلے کو غلط تصور کیا اور ہولے کے پل کو سگریٹ کا اڈا بنانے کی ٹھان لی۔ مگر اسے اپنے ٹیلے سے نفرت سی ہو رہی تھی جہاں سے سوائے زندگی کے افسردہ رنگوں کے اس نے کچھ حاصل نہ کیا تھا۔
Leave a Reply