Laaltain

Love is a Punishment

18 جون, 2017
Picture of نسرین انجم بھٹی

نسرین انجم بھٹی

[blockquote style=”3″]

نسرین انجم بھٹی پنجابی اور اردو کی ممتاز شاعرہ ہیں۔ ان کے مطابق ‘میں پیدائیشی طور پر بلوچ، ڈومیسائل کے اعتبار سے سندھی اور شادی کے بعد پنجاب کی ہوئی، میرا تعلق پورے پاکستان سے ہے’۔ آپ کا بچپن کوئٹہ میں گزرا، بعد ازاں وہ پہلے جیکب آباد اور پھر لاہور منتقل ہوئیں۔ آپ کی پنجابی شاعری کی دو کتابیں ‘نیل کرائیاں نیلکاں’ اور ‘اَٹھے پہر تراہ’ شائع ہو چکی ہیں۔ اردو شاعری کی ایک کتاب ‘بن باس’ شائع ہو چکی ہے جبکہ دوسری کتاب ‘تیرا لہجہ بدلنے تک’ اشاعت کے مراحل میں ہے۔ نسرین انجم بھٹی 26 جنوری 2016 کو تہتر برس کی عمر میں وفات پا گئی تھیں۔ یہ نظم ان کی آنے والی کتاب ‘تیرا لہجہ بدلنے تک’ میں شامل ہے اور معروف شاعر زاہد نبی کے تعاون سے لالٹین پر شائع کی جا رہی ہے۔ ہم زاہد نبی کے ممنون ہیں کہ انہوں نے نسرین انجم بھٹی کی یہ نظم لالٹین قارئین کے لیے عنایت کی۔

[/blockquote]

Love is a Punishment
آج باہر مت نکلنا!
باہر پیشنگوئیاں زندہ ہو رہی ہیں
جب آسمان سرخ ہو رہا ہو تو زمین بھی چنری رنگواتی ہے
مگر تمہاری شمولیت وہاں ضروری نہیں
ایسی لسٹوں میں میں ہر جگہ سے تمہارانام مٹاتی ہوئی آئی ہوں۔۔۔ مجھے پہنچنے تو دو،
دیکھو میرے ہاتھ،
انہیں پیچھے باندھ دو اور میرے بدن کی تمام سوئیاں نکالواور پوچھو کہ میں کہاں سے آرہی ہوں
وہاں بارش بہت تیز تھی
اور انسانوں کو درمیان سے کاٹتی تھی
سو جلوس کے پانچ ٹکڑے ہوئے اور میں بھاگ نکلی
یہ بتانے کے لئے کہ زندہ تو میں اپنا ثبوت خون خرابے سے ہی دیتی ہیں
منہ سے امن امن کہنے میں کیا ہرج ہے۔۔۔تم بھی کہو!
میں جہاں جہاں سے گزری وہاں وہاں محبت سزا تھی
میں نے دل کو خاموش کیاکہ عشق نہ مانگے
تمہارانام میں نے لوح محفوظ میں محفوظ ہونے کیلئے پر کٹوادئیے اور طاقتِ پرواز دعا کے طور پر جمع کرائی
اب میں کیاہوں اور کتنی ہوں دشت ِ نارسا کا دامن ہوں
اور تم! نافہ عنبر!سیاہ ہرن ہو!
مجھے معلوم ہے اُڑان قید نہیں ہوتی مگر معلوم تو بہت پیچھے کہیں رہ گیااور میں
محبت کرنے کی بجائے محبت کی حفاظت پر مامور ہوئی
میں نے اُسکے نابینا ہونے کا پورافائدہ اٹھایا۔۔۔اُسکے سب تیر میں نے توڑ دئیے
اور باقی میرے لہو میں تیرتے ہیں
لے! انسان اور دیوتا تو میں جیت لائی
مگر ہاروہاں ہوئی
جہاں میں ایک نہیں ایک نسل تھی
اور نسلیں جب اعتبارنہ بن سکیں؛
تو استقاط ہوتی ہیں
خون سے رنگے سب راستے محبت سے جدا ہونے کی سزا بھگت رہے ہیں
باہر سرخ سیال اور سیاہ جلی ہوئی روٹیوں کے ڈھیرپر اب کتے اور گدھ نہیں ہوتے
ہم خود ہی کسی نہ کسی روپ میں یہ کام کرلیتے ہیں
بھوک بیچ کر ہم ایک ایک دن خریدتے ہیں اور جہالت کے جھولے میں ڈال دیتے ہیں
لال میری پت رکھیو!
آج رنگولی ہے!آج سارے رنگ ایک ہونگے کہ نہ ملنے کے بعد تو ملنا ہی ملنا ہی
چلاؤ یہی میری گولی ہے اسے سیکھنا نہیں پڑتا۔۔۔ایکدم سمجھ میں آنے والی بولی ہے
آج اُس کی آنکھوں میں،میں ہی میں ہوں کیونکہ نشانے پر ہوں
آج رنگولی ہے آؤ کھیلیں اور پیشنگوئیاں پیش کریں۔

Image: Imad Abu Shtayyah

ہمارے لیے لکھیں۔