Laaltain

دلت کہانی: جیون ساتھی (تحریر: پریم کپاڑیا، ہندی سے ترجمہ: فروا شفقت)

20 فروری، 2021
Picture of فروہ شفقت

فروہ شفقت

ہندی سے ترجمہ: فروا شفقت
جیون ساتھی
ـــــــ پریم کپاڑیا

“میں اپنے سمے اور سماج سے جڑا ہوں۔ دلت جیون کی تاریخی حالتوں اور آج کے دور میں ان کی تکلیفوں کے ساتھ کھڑے ہونا میری تخلیق کی ذمہ داری ہے۔”

زندگی بڑی عجیب پہیلی ہے۔ کبھی دکھ، کبھی سکھ۔۔۔۔ کبھی کبھی خاموشی۔۔۔ ایک عجیب طرح کی کشمکش۔ اس دن بھی تو ایسی ہی کشمکش تھی۔ مجھے یاد آ رہے ہیں کالج میں گزرے وہ دن جب میں انٹر میں پڑھتا تھا۔ اگست کا مہینہ تھا۔۔۔ بوندا باندی کے بیچ میں اسکول گیا تھا۔

تب گیٹ کے اندر لمبا چوڑا کھلا میدان تھا۔ طلباء طالبات اپنی اپنی کلاس کی جانب بڑھ رہے تھے۔ تبھی میں نے دبی زبان سے سناـ “ابے ! چمرؤ آ رہے ہیں۔ کیسے چشمہ لگائے ہیں جیسے نواب کی اولاد ہوں۔”

یہ لفظ میرے کانوں میں پگھلے ہوئے کانچ کے جیسے ہی گھس گئے۔ میں بےعزتی کی آگ سے جلنے لگا۔ شروع سے میرے اندر برداشت نہیں تھی۔ صرف ہتک کے خلاف، ورنہ مجھے چاہے کوئی چار گالیاں بھی دے جائے تو میں برداشت کر لیتا۔ میں نے آتے جاتے سنا تھا۔ وہ لڑکا آوارہ ہے اور ذات کا پنڈت ہے چار لڑکے اور بھی اس کے گروہ میں رہتے ہیں۔ میں نے ایک طرف گھوم کر دیکھا۔ وہ سب مجھے ہی گھور رہے تھے۔ چند لمحوں تک میں نے کچھ سوچا پھر واپس اپنی کلاس کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

کلاس میں آ کر میں نے ایک عرضی لکھی اور پرنسپل کو دے آیا۔ پرنسپل صاحب نے مجھ سے کوئی سوال نہیں کیا۔ کلاس ختم ہوئی تو میرا دوست راوت میرے ساتھ چلتے چلتے بولا، “یار پریم۔ کیا بات ہے؟ آج تُو بہت سنجیدہ ہے۔”

”معاملہ ہی گمبھیر ہے۔”

“کیسے؟”
میں نے صبح کا واقعہ اسے بتا دیا۔ سن کر وہ بھی سنجیدہ ہو گیا۔ چند لمحے سوچنے کے بعد اس نے کہا، “یار اصل میں ہمارے دلت لڑکے ہی ڈرتے ہیں ورنہ یہ تیری طاقت کے آگے ایک بھی ٹک نہیں سکتے ہیں۔ یہ سب ریکھا کی چاہ میں پاگل ہیں۔”

“کیا؟” سن کر میں چونک اٹھا۔ ریکھا میری اچھی دوست تھی۔ میں من ہی من اسے چاہتا بھی تھا۔ ایک بار وہ بس میں چڑھتے سمے گر گئی تھی۔ میں بھی اسی بس میں چڑھنا چاہتا تھا۔ میں نے اس کی مدد کی۔ ہمدردی سے اسے اس کے گھر چھوڑنے گیا۔ تب وہ مجھے اپنا دوست ماننے لگی تھی۔

“مجھے یہ بھی شُبہ ہے کہ کہیں وہ ریکھا سے زیادتی نہ کریں۔”

“چُپ یار۔۔۔۔۔” میں تڑپ کر بولا۔ “جب تک پریم زندہ ہے ایسا کبھی بھی نہیں ہو سکتا ہے۔”

“ایسا ہی ہو۔۔۔۔ مگر تمہیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ سنا ہے راکیش چھٹا ہوا غنڈہ ہے۔ دو لڑکیوں کے ساتھ زیادتی بھی کر چکا ہے۔ اسکول کی انتظامیہ کمیٹی کے صدر کا بیٹا ہے۔”

“تو کیا ہوا؟ اگر اس نے ریکھا کو چھیڑا تو اس کا انجام خوفناک ہو گا۔” راوت چپ ہو گیا۔ ہم دونوں کینٹین کی جانب بڑھتے چلے گئے۔ آج ریکھا نہیں دکھائی دی تھی۔ اس کا سیکشن دوسرا تھا۔ ہمیں ایک کونے کی میز خالی مل گئی اور کئی میزوں پر لڑکے لڑکیاں اپنے اپنے ساتھی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔

ابھی ہمیں بیٹھے ہوے کچھ ہی لمحے بیتے تھے، تبھی وہاں ریکھا دکھائی دی۔ آج تو وہ بلا کی حسین لگ رہی تھی۔ گلابی رنگ کے سوٹ میں وہ بےحد خوبصورت لگ رہی تھی۔ کئی لڑکیاں اسے گھورنے لگی تھیں اور لڑکے سیٹیاں بھی بجانے لگے تھے۔

” ہیلو۔۔۔۔۔۔۔ کیسے ہو پریم؟” وہ میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھتے ہوے بولی۔

“ٹھیک ہوں۔ تم کہاں تھی آج؟

“ٹیچر نے نوٹ لکھوایا تھا۔ اس میں بِزی رہی۔” اس نے مسکراتے ہوے کہا۔ میں اس کے تیکھے ناک نقش۔۔۔۔ ہونٹ دیکھتا چلا گیا۔

کیا آرڈر دیا ہے؟”

“کچھ بھی نہیں۔ کیا لو گی؟”

“جو تم چاہو۔۔۔۔۔۔۔” ہم نے کافی اور ہیم برگر کا آرڈر دے دیا۔ کافی پیتے ہم لوگ پڑھائی کے موضوع پر باتیں کرتے رہے۔ اسی دوران راوت اپنے گھر چلا گیا۔

“آؤ۔ آج تمہیں اپنی ماں سے ملوا دوں۔ بہت دنوں سے کہہ رہی ہے۔ پریم سے ملوا دے۔”

“انھیں پتہ ہے تم میری دوست ہو؟”

“ہاں۔ میری ممی میری ماں ہی نہیں دوست بھی ہے۔ میں نے تمہارے بارے میں بتا رکھا ہے۔”

“یہ نہیں بتایا کہ میں دلت خاندان سے تعلق رکھتا ہوں؟”

“یہ بتانے کی کیا ضرورت ہے؟ میں تمہاری دوست ہوں۔ پھر دلت ہونا کوئی گناہ تو نہیں۔ تم خوبصورت ہو۔۔۔۔۔ پڑھے لکھے ہو۔۔۔۔۔ میں تمہیں پسند بھی۔۔۔۔”

“صرف پسند کرنے سے ہی آدمی کو جیون ساتھی نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کے لیے خاندان۔۔۔۔۔ اور سوسائٹی کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔”

“یہ سب سوچنا فضول ہے۔ آؤ چلیں۔”

میں چپ چاپ ریکھا کے ساتھ چل دیا تھا۔

“دیکھو بیٹے۔ ہمارا کاروبار ہے۔ بھگوان کی دیَا سے کوئی کمی نہیں ہے۔ چاہتی ہوں کہ میری اکلوتی بیٹی ہے وہ جہاں بھی رہے خوش رہے۔ پھر جب اس کی شادی ہو جائے گی تو داماد ہماری جائیداد کا مالک ہو گا۔ ویسے تمہارا کیا خیال ہے؟” ریکھا کی ماں نے مجھ سے سیدھا سوال کر دیا۔

میں سوچ میں پڑ گیا۔ کیا جواب دوں؟ یہی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا۔

“بولو۔۔۔۔۔۔ تم ریکھا کو پسند نہیں کرتے تو اور بات ہے مگر ریکھا تمیں پسند کرتی ہے اس لیے میں نے تم سے پوچھا۔”

“دراصل میرے ماں باپ نہیں ہیں۔ اس لیے میں کچھ سوچ نہیں پا رہا ہوں۔ اگر شادی کی ہاں بھی کر دوں تو شادی کے لیے روپیہ کہاں سے آئے گا؟ میں اپنی پڑھائی بھی بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر ہی پوری کر پا رہا ہوں۔”

“اس کی فکر تم مت کرو۔”

“آپ کہتی ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔”

میرا جواب سن کر وہ مسکرانے لگیں۔ پھر ریکھا کو آواز دے کر بلایا۔ وہ شرماتی ہوئی کمرے میں آئی اور صوفے پر سمٹ کر بیٹھ گئی۔

“لو۔۔۔۔ یہ انگوٹھی پریم کو پہنا دے۔۔۔ یہ آج ہمارے یہاں سے کھانا کھا کر جائیں گے۔ تیری منگنی پکی۔” کہنے کے ساتھ ہی انہوں نے ایک ڈبیہ ریکھا کو تھما دی۔

ریکھا نے ڈبی کھولی۔ سونے کی قیمتی انگوٹھی چمچما رہی تھی میں نے نہ چاہتے ہوے بھی اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے انگوٹھی پہنا دی۔ میں نے اٹھ کر ماں جی کے پیر چھوئے۔ انہوں نے آشیرواد دیا۔ ریکھا اٹھ کر اس کمرے سے بھاگ گئی۔

“سگائی ہوتے ہی لڑکیاں کیسے شرمانے لگتی ہیں؟ پہلے قینچی جیسی زبان چلاتی تھی۔ “مَیں سن کر مسکراتا رہا۔ پھر ریکھا کی ماں میرے گھر اور خاندان کے بارے میں باتیں کرتی رہی۔ رات کا کھانا ہم نے ایک ساتھ کھایا۔ کھانا کھا کر جب میں جانے کو تیار ہوا تو ریکھا کی ماں نے مجھے روک لیا۔

“یہاں سو جاؤ۔ کل میں تمہیں اپنی فیکٹری لے چلوں گی۔ کچھ دنوں بعد تمہیں ہی تو کاروبار سنبھالنا ہے۔”
میں نہ نہیں کر سکا۔

اور اسی رات۔۔۔۔۔۔

میں سونے ہی جا رہا تھا تبھی دروازے پر ریکھا کو دیکھ کر حیرت ہوئی۔ یہ دوسری منزل تھی۔ جہاں میں سونے کے لیے لایا گیا تھا۔

“تو تم۔۔۔”

“ہاں۔ کیا میں تمہارے پاس آ بھی نہیں سکتی؟”

“نہیں۔ میں سوچ رہا ہوں، اگر ماں جی یا نوکر آ گیا تو کیا سوچے گا؟”

“کیا سوچے گا۔۔۔۔۔؟ تم میرے منگیتر ہو۔” کہتے ہوے ریکھا میرے ہی بستر پر آ کر بیٹھ گئی۔

“اے۔۔۔۔ کچھ بولو نا۔۔۔۔۔؟” اس نے کپکپاتے لہجے میں کہا۔

“کیا بولوں؟”

“آج تم بہت خوبصورت لگ رہے ہو۔”

” تم بھی تو کم حسین نہیں ہو۔۔۔۔۔ تمہارے یہ ہونٹ۔۔۔۔۔” میں نے اس کے ہوٹھوں کو اپنی انگلی سے چھوتے ہوے کہا۔

میں نے دیکھا۔ وہ شرمائی اور میرے سینے سے لپٹ گئی۔ تبھی باہر تیز بارش ہونے لگی تھی۔ بجلی رہ رہ کر گرجنے لگی۔ کمرے میں دو جوان دل سبھی حدیں توڑ کر ایک ہونے لگے۔ مجھ پر ایک عجیب نشہ سا چھا چکا تھا۔ جب طوفان تھما تو ہم دونوں ہی خاموش پڑے تھے۔ باہر بارش اب بھی بڑی تیزی سے ہو رہی تھی۔

جب ہمارے حواس لوٹے تو میں گھبرا گیا۔ اور اس کی جانب دیکھتا افسوس بھرے لہجے میں بولا، “سوری ریکھا۔ ہمیں یہ بھول نہیں کرنی چاہیئے تھی۔”

” بھول میری تھی۔۔۔۔۔ میں ہی پاگل ہو گئی تھی۔ اچھا میں کل ملوں گی۔” کہہ کر وہ چلی گئی۔

میں چھت کو دیکھتا لیٹ گیا۔ میرے من میں ایک ہی ڈر تھا۔ اگر ریکھا نے اپنی ماں سے کہہ دیا تو؟ سوچ کر میں گھبرا اٹھا مگر پھر من نے تسلی دی۔ میں نے جبراً تو ایسا نہیں کیا ہے۔ ریکھا کی رضامندی سے یہ سب ہوا ہے۔ انہیں سوچوں میں کھویا نہ جانے کب نیند کی گود میں چلا گیا معلوم نہیں۔ صبح ریکھا تڑکے چائے لے کر آئی اور مجھے اٹھا دیا۔

اگلے دن۔۔۔۔۔۔

میں کالج پہنچا تو وہاں عجیب ماحول تھا۔ سارے طلباء پارک میں جمع تھے۔ پتہ چلا کالج نہیں لگے گا۔ ایک طالب علم کی موت ہو گئی ہے۔ میں اور ریکھا واپس چلنے لگے تبھی کالج کے گیٹ پر ایک کار آ کر رکی۔ کار ایک ادھیڑ عمر کا آدمی چلا رہا تھا۔ اسی کے بغل میں ریکھا کی ماں بیٹھی تھی۔ تکلف سے ہمیں کار میں بیٹھنے کو کہا گیا۔ میں ریکھا کے ساتھ ہی پچھلی سیٹ پر جا بیٹھا۔ ہمارے بیٹھتے ہی کار آگے بڑھ گئی۔

کچھ دیر بعد ہم پھر ریکھا کی بیٹھک میں بیٹھے تھے اور وہ ادھیڑ جو ریکھا کا ماما تھا مجھ سے پوچھ رہا تھا، “تم ایک معمولی آدمی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم اچھوت خاندان کے ہو۔۔۔۔۔۔ یہ کیسے سوچ لیا کہ تم اس خاندان کے داماد بننے کے قابل ہو؟”

“کیوں نہ سوچتا؟ آپ مجھ میں کیا کمی دیکھ رہے ہیں؟” میں بھی طیش میں آ گیا۔ ہتک مجھے کبھی برداشت نہیں ہوتی۔

“تم میں سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ تم اچھوت ہو۔۔۔۔۔۔ چمار کا بیٹا ہماری بہن کی بیٹی کا داماد بنے۔۔۔۔۔۔ یہ میں کیسے برداشت کر سکتا ہوں۔”

“دیکھیے محترم۔ آپ میری بے عزتی کر رہے ہیں۔ کسی کو “چمار” کہنا جرم ہے۔ میں نے اپنی مرضی سے یہ رشتہ قبول نہیں کیا ہے۔ آپ کی بہن نے مجھ سے پیشکش رکھی تھی۔۔۔۔۔۔”

“دیکھو رمیش۔۔۔۔۔ ” ریکھا کی ماں بول پڑی، “اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ پھر ذات پات کو آج کل کون پوچھتا ہے۔ لڑکا مہذب، خوبصورت اور پڑھا لکھا ہو تو حرج کیا ہے؟ کیا اچھوت آدمی نہیں ہوتا۔”

“تم چپ رہو سبِتا۔۔۔۔۔میں کچھ سننا نہیں چاہتا۔ ریکھا کی شادی میری مرضی سے ہو گی۔ ہماری ایک ہی تو کزن ہے۔ اے مسٹر۔ تم یہاں سے شرافت سے چلو جاؤ۔۔۔۔۔۔”

“ٹھیک ہے میں جا رہا ہوں۔ مگر ریکھا سے پوچھ لو۔۔۔۔ ایک میچورڈ لڑکی ہے۔ آپ جبراً اس کی شادی کہیں نہیں کر سکتے۔”

“مجھے دھمکی دے رہے ہو؟”

“نہیں جناب، صرف راے دے رہا ہوں۔ یہ مت بھولیں۔۔۔۔ اور قانون بھی ہے اور قانون کی نظروں میں اٹھارہ سال کی لڑکی اپنی اچھا سے من پسند بر کا چناؤ کر سکتی ہے۔” کہنے کے ساتھ ہی میں کمرے سے باہر نکل گیا۔ جیسے ہی میں گیٹ پر پہنچا، ریکھا پیچھے سے بھاگتی ہوئی آئی۔

“پریم۔ تم فکر مت کرو۔۔۔۔۔ ماما بڑا مکار ہے۔ ہماری پراپرٹی کی وجہ سے اپنی مرضی کے لڑکے سے میری شادی کرانا چاہتا ہے۔ ہم لوگ کورٹ میں شادی کریں گے۔”

”سچ۔۔۔۔۔” میں خوش ہو گیا۔

“ہاں۔ تم کل مجھے ریگل پر ملنا۔ میریج ایپلیکیشن فارم بھروا لے آنا، میں سائن کروں گی۔ ہمیں جیون ساتھی بننے سے کوئی بھی روک نہیں سکتا ہے۔”

میں وِش کر کے آگے بڑھ گیا۔

میں نے اگلے دن ہی فارم کورٹ میں جمع کروا دیا ہمیں ایک ہفتے بعد کی ڈیٹ بھی مل گئی۔ مگر چار دن ہو گئے تھے ریکھا کالج نہیں آئی تھی۔ میں اس سے ملنے کو بے چین ہو گیا۔ راوت سے بھی بات ہوئی۔ مگر ریکھا کا کہیں پتہ نہیں چلا۔ اس کے گھر جانا بےعزتی کروانے جیسا تھا۔ میں سوچتا رہا کیا کروں؟ کیا نہ کروں؟ میں آج اپنے ٹوٹے پھوٹے مکان کے اندر بیٹھا تھا۔ تبھی دروازے پر کسی کے قدموں کی آہٹ سنی۔ میں چارپائی سے اٹھ کر باہر آ گیا۔ اندر آنگن میں ہی ریکھا دکھائی دی۔ اداس چہرہ، ہاتھ میں بھاری سوٹ کیس تھامے۔

“کیا بات ہے ریکھا؟ تم اتنی پریشان کیوں ہو؟”

“پریم۔ یہ گھر بند کرو اور آؤ ہم اس شہر سے دور بھاگ چلتے ہیں۔ میرے ماما میرے دشمن بن گئے ہیں۔ وہ میری شادی کہیں اور کر دینا چاہتے ہیں۔”

“مگر ہمارا مستقبل۔۔۔۔۔ پڑھائی۔۔۔۔ بیکار ہو جائیں گے۔”

“نہیں پریم۔ “وہ رو پڑی۔ “میں تمہارے بِنا جی نہیں سکتی۔ میں گھر سے تمام روپے اور زیور لے کر آئی ہوں۔”

“نہیں ریکھا۔ یہ غلط ہے۔ جب تک ہم کورٹ میں شادی نہیں کر لیتے، قانون کی نظروں میں مجرم رہیں گے۔۔۔۔۔۔”

“کہیں بھی چلو۔۔۔۔۔ یہ شہر چھوڑ دو۔۔۔۔۔ اور چل کر شادی کر لیں گے۔”

میں عجیب الجھن میں پڑ گیا۔ ریکھا میرا پیار تھی۔۔۔۔ چاہت تھی۔۔۔۔۔ اسے چھوڑ بھی تو نہیں سکتا تھا۔ میں نے اپنی ضرورت کا سامان باندھا اور گھر میں تالا لگا کر ریکھا کے ساتھ بھاگ لیا۔ دوسرے دن میں ریکھا کے ساتھ اپنے ماما جی کے گاؤں جا پہنچا۔ میرے ماما کا اکلوتا بیٹا گاؤں میں رہتا تھا۔ تھوڑی کھیتی باڑی تھی اسی سے ان کا گزر بسر ہو رہا تھا۔ چھوٹا سا خاندان تھا میرے کزن کا۔ ہم وہاں رہنے لگے۔ تمام سوال پوچھے تھے میرے ممیرے بھائی نے۔ میں سب جگہ جھوٹ ہی بولتا رہا۔

ایک ہفتے بعد وکیل کی مدد سے ہم نے شادی بھی کر لی۔ ہم خوش تھے۔ مگر وہاں کا ماحول بڑا عجیب تھا۔ دلتوں کو لوگ نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ٹھاکروں اور پنڈتوں کو زمینداری کا رعب بارابنکی شہر میں اور گاؤوں میں آج بھی برقرار ہے۔ کئی جگہ میری پتنی کو چھیڑا گیا برداشت کرتا گیا۔ مگر اس دن تو صبر کی حد ہی پار ہو گئی۔ ہوا یہ کہ ہم بارابنکی شہر سے لوٹ رہے تھے۔ راستے میں ریلوے لائن پڑتی تھی۔ وہاں تین آدمی بیٹھے تھے۔ ایک نے لپک کر میری پتنی کا ہاتھ تھام لیا۔

“خبردار۔ ہاتھ چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔” میں کڑک کر سامنے آ گیا۔

“چل بے چمار۔ دلتوں کی بیوی ہماری بھی بیوی ہوتی ہے۔” کہنے کے ساتھ ہی اس نے ریکھا کو ایک جانب کھینچا۔

میرا غصہ کھول اٹھا۔ پھر مار پیٹ شروع ہو گئی۔ چیخ پکار میں راستے میں آتا ایک سپاہی آ گیا۔ پولیس کے آ جانے سے وہ غنڈے بھاگ کھڑے ہوے۔ میں سیدھا پولس اسٹیشن گیا۔ رپورٹ لکھنے والے کمرے میں کوئی اہلکار نہیں تھا۔ پوچھتے پوچھتے پتہ چلا ہیڈ کانسٹیبل صاحب چائے پینے گئے ہیں۔ ایک گھنٹے بعد رپورٹ لکھنے والے صاحب آئے۔

“کیا بات ہے؟”

“سر رپورٹ لکھوانی ہے۔”

“کس بات کی۔۔۔۔۔؟”

میں نے ساری بات بتا دی۔ سب کچھ سننے کے بعد لاپرواہی سے وہ بولا، “جب تم بدمعاشوں کا نام نہیں جانتے پھر رپورٹ لکھا کر کیا ہو گا؟”

“آپ موقع واردات پر چلیے تو۔ وہاں منجھلے پور میں چل کر پوچھیے۔ بدمعاش اسی گاؤں کے ہیں۔ میں نے انہیں دیکھا ہے، پہچانتا بھی ہوں۔”

“ہوں۔ تو تم منجھلے پور کے رہنے والے ہو؟”

“کیا ذات ہے تمہاری؟”

سن کر میں بھونچکا سا رہ گیا۔ “رپورٹ لکھنے میں ذات کا کیا کام؟”

“بولو نا۔۔۔۔ منھ کیا دیکھ رہے ہو؟” اس نے گُھڑکی دکھاتے ہوے کہا۔

“سر! رپورٹ لکھوانے میں ذات کا کیا کام؟”

“ہمیں قانون مت بتلاؤ۔ ذات کا نام بتلانا ہے تو بتلاؤ ورنہ دفع ہو جاؤ یہاں سے۔”

“پریم چند جاٹو۔”

“اوہ اچھوت ہو۔۔۔۔۔ اس پر اتنی اینٹھ۔ جاؤ۔۔۔۔ رپورٹ نہیں لکھی جائے گی۔ تم اچھوتوں کے دماغ خراب ہو گئے ہیں۔ سرکار نے تم لوگوں کو سر پر چڑھا رکھا ہے۔ بھاگو یہاں سے۔۔۔۔۔۔” اس بار وہ چیخ اٹھا تھا۔

میں سناٹے کی سی حالت میں اپنی پتنی کو لے کر واپس آ گیا۔ من میں تمام سوال گونجنے لگے تھے۔۔۔ سرکار انہیں تنخواہ دیتی ہے کہ کوئی بھی جرم ہو تو عوام کی مدد کریں، الٹے یہ غریبوں کو تنگ کرتے ہیں؟ آخر کیوں؟ کیا میں دلت ہوں اس لیے؟ انہیں رشوت دینے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں ہیں اس لیے؟ کیا ان میں اتنی اینٹھ بھری ہے؟ اتنا گھمنڈ کس لیے؟ کیا ان کی نوکری کوئی چھین نہیں سکتا صرف اس لیے۔ بیشک۔ ورنہ اتنی ہیکڑی دکھانے کا کیا مطلب؟

مجھے یاد آیا۔ گجرولا کانڈ میں جہاں دو ننھوں کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی۔ وہاں بھی متعلقہ افسر کا صرف تبادلہ ہی ہوا، نوکری نہیں گئی ورنہ کس کی مجال جو لاپروائی برتے۔ یعنی ہماری سرکار ہی ڈھیلی ہے۔ سرکاری کارندوں میں جب تک ڈر نہیں ہوگا لوگ اور ہی قانون کی بےعزتی کرتے رہیں گے۔ میں اپنا من مار کر واپس گاؤں لوٹ آیا۔

وقت بیتتا رہا۔ میری گرہستھی خوشحال تھی۔ میں نے ایک جگہ میگزین اور اخبار بیچنے کے لیے ایک دکان کرائے پر لے لی تھی۔ میری دکان چل نکلی۔ گزارے لائق میں کمانے لگا تھا۔ صبح ناشتا کر کے دکان پر چلا جاتا تھا۔ شام سورج چھپنے پر ہی لوٹتا تھا۔ راستے میں سنسان سا علاقہ پڑتا تھا۔ ریکھا مجھے دوپہر کو کھانا لے کر آتی تھی۔ ایک دن جب وہ کھانا لے کر نہیں آئی تو میں بے چین ہو اٹھا۔ کیا بات ہے؟ ریکھا کھانا لے کر کیوں نہیں آئی؟ من میں تمام وسوسے سر اٹھانے لگیں۔ میں نے فوراً دکان بند کی اور گاؤں کی طرف چل دیا۔

ریلوے لائن پار کرتے ہی ایک جگہ بھیڑ دیکھ کر میں ٹھٹھکا۔ کچھ لوگ کھڑے تھے۔ سہما سا میں بھی پاس جا پہنچا۔ “کسی عورت کی لاش ہے۔ ایسا لگتا ہے کچھ لوگوں نے زیازتی کی ہے۔ ساڑھی پر خون لگا ہوا ہے۔” لوگوں کو کہتے سنا۔ میں گھبرا گیا۔ بھاگ کر جھاڑی کے پاس پہنچا۔ لاش کا چہرہ دیکھ کر میرے منہ سے چیخ نکل گئی۔

“نہیں۔۔۔۔۔ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔۔”

اور صدمے اور گھبراہٹ سے میں چکرایا۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھاتا چلا گیا۔ پھر میں بیہوش ہوکر گر پڑا۔

مجھے ہوش آیا تو میں تھانے کے اندر تھا۔ میں نے نظر اٹھا کر ادھرادھر دیکھا۔ ایک طرف ریکھا کی لاش پڑی تھی۔ ایک طرف وہی رپورٹ لکھنے والا بیٹھا تھا پاس ہی بندوق رکھی تھی۔ ایک طرف میرا کزن بھی کھڑا تھا۔

“تم ہوش میں آ گئے؟” ہیڈ کانسٹیبل نے پوچھا۔

“جی۔۔۔۔ آپ نے میری پتنی کو مروا دیا نا۔۔۔۔”

“کیا بکتے ہو؟” وہ ابل پڑا۔

“میں ٹھیک بک رہا ہوں مسٹر۔۔۔۔۔ میری پتنی کے قاتل تم ہو۔۔۔۔۔ تم۔ اس دن اگر تم ان مجرموں کو میری رپورٹ پر پکڑ لیتے تو ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ تمہاری ڈھیل سے ان غنڈوں کا حوصلہ بڑھا۔”

“لگتا ہے تم پاگل ہو گئے ہو؟”

سنتے ہی میرے بدن میں آگ لگ گئی۔ مارے غصے کے میرا سارا بدن تھرتھر کانپنے۔ “تم ٹھیک کہتے ہو۔۔۔۔۔ پاگل ہی ہو گیا ہوں۔” کہنے کے ساتھ ہی میں نے جھپٹ کر بندوق اٹھا لی۔ سیفٹی ہٹا کر اس کانسٹیبل پر تان دی۔ “سالے مجھے پاگل کہتا ہے۔ میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔ تیری ہی وجہ سے میرا جیون ساتھی مجھ سے جدا ہوا ہے۔ میرا جیون برباد ہو گیا۔” اس سے پہلے کہ وہ سنبھل پاتا، میں نے گولی چلا دی۔

“دھائیں۔” گولی اس کی کھوپڑی میں دھنس گئی۔ وہ کٹے درخت کی طرح گر گیا۔ میں سمجھ گیا۔ اب میری خیر نہیں ہے۔ گولی کی آواز سن کر تمام لوگ اس کمرے میں آ گئے تھے۔ مگر میرے ہاتھ میں بندوق دیکھ دور ہی رہے۔ وہاں کہرام مچ گیا۔ میں نے سوچا کتے کی موت مرنے سے اچھا ہے خود کشی کر لوں۔ اس کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔

میں نے بندوق کی نلی کو کنپٹی سے لگایا اور ٹرایگر دبا دیا۔ “دھائے۔”

ایسا لگا میرا وجود بکھر گیا ہے۔ سب کچھ صفر میں کھو گیا ہے۔ اندھیرا۔۔ اندھیرا۔۔۔۔۔ اس اندھیرے میں نہ جیون تھا۔۔۔۔۔ جیون ساتھی۔

One Response

  1. انتہائی خوبصورت تحریر اور اور ایک انقلابی خیال اس کہانی میں دیا گیا ہے لہذا پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ کس طرح سے ہم اپنے معاشرے میں جرم کا بیج بوتے ہیں ہیں نہ صرف جرم کا بیج بوتے ہیں ہیں بلکہ مجرموں کی آبیاری بھی کرتے ہیں اور اس کے لیے ہم اپنی جھوٹی انا اور جھوٹی ذات پات کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ہی جیسے انسانوں کو معاشرے کا مکروہ ترین چہرہ بنا دیتے ہیں ہیں یہاں پر صیغہ ہم سے مراد وہ تمام انسان ہیں جو اپنے آپ کو دنیا کے خدا سمجھتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

  1. انتہائی خوبصورت تحریر اور اور ایک انقلابی خیال اس کہانی میں دیا گیا ہے لہذا پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ کس طرح سے ہم اپنے معاشرے میں جرم کا بیج بوتے ہیں ہیں نہ صرف جرم کا بیج بوتے ہیں ہیں بلکہ مجرموں کی آبیاری بھی کرتے ہیں اور اس کے لیے ہم اپنی جھوٹی انا اور جھوٹی ذات پات کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ہی جیسے انسانوں کو معاشرے کا مکروہ ترین چہرہ بنا دیتے ہیں ہیں یہاں پر صیغہ ہم سے مراد وہ تمام انسان ہیں جو اپنے آپ کو دنیا کے خدا سمجھتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *