وہ مجھے اپنی تصویریں بھیجتی ہے
اور مجھ سے میری نظموں کی توقع رکھتی ہے
میں نے لفظوں کا پھوک
اخباروں سے چن کر
لیکچروں کے بیچ ٹھونگتے رہنے کے لیے
اپنی جیبوں میں بھر رکھا ہے
ان لفظوں سے نظمیں نہیں لکھی جا سکتیں
اخبار جن چٹپٹے لفظوں سے بھرے ہوتے ہیں
وہ چائے کے ساتھ اچھے لگتے ہیں
نظم صرف سگریٹ کے ساتھ لکھی جا سکتی ہے
تصویر صرف کسیلے پانی کے ساتھ بنائی جا سکتی ہے
میں اپنی لائف انشورنس کا پریمیم کم کرنے کے لیے
سگریٹ چھوڑ چکا ہوں
کسیلے پانی پر خدا کا پہرہ ہے
اور اخبار میں لکھے لفظ صرف ری سائیکلنگ کے لیے بھیجے جانے کے قابل ہیں
لفظ صحیفوں میں ڈھونڈے جا سکتے ہیں
لیکن صحیفوں میں لکھے لفظ کثرت استعمال سے بے معنی ہو چکے ہیں
میں نے ان میں لکھی دعائیں رٹ ڈالیں
لیکن خدا کے کانوں میں ریشہ اتر آیا تھا
میں نے لفظوں کی تلاش میں ڈکشنریاں کھود ڈالیں
لیکن لفظ دب کر مر چکے تھے
میں نے ان مرے ہوئے لفظوں کو جوڑ کر گالیاں بنائی
لیکن کسی کو غصہ نہیں آیا
جن لفظوں پر کسی کو غصہ نہیں آتا
ان پر پیار آنے کی توقع بے سود ہے
ہم جیسے مردوں کو پیار کرنے کے لیے عورتیں درکار ہیں
اور غصہ کرنے کے لیے بھی
ہمیں نظمیں لکھنے کو عورتیں چاہئیں
اور گالیاں دینے کو بھی
ہم بچے پیدا کرنے کے لیے ان کے محتاج ہیں
اور لفظ جننے کے لیے بھی
خدا جانے تمہاری تصویر محبت کرنے کے لیے بوڑھی ہو چکی ہے
یا میں نظمیں جننے کے لیے نامرد۔۔۔
Image: Pawel kuczynski