[blockquote style=”3″]

راجکمار کیسوانی تقسیم ہند کے بعد سندھ سے ہجرت کر کے بھوپال میں سکونت اختیار کرنے والے ایک خاندان میں 26 نومبر 1950 کو پیدا ہوے۔ ان کی بنیادی پہچان صحافی کی ہے۔ 1968 میں کالج پہنچتے ہی یہ سفر ’’سپورٹس ٹائمز‘‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر شروع ہوا۔ ان کے لفظوں میں ’’پچھلے چالیس سال کے دوران اِدھر اُدھر بھاگنے کی کوششوں کے باوجود، جہاز کا یہ پنچھی دور دور تک اڑ کر صحیح جگہ لوٹتا رہا ہے۔‘‘ اس عرصے میں چھوٹے مقامی اخباروں سے لے کر بھارت کے قومی ہندی اور انگریزی اخباروں دِنمان، السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا، سنڈے، سنڈے آبزرور، انڈیا ٹوڈے، جَن ستّا، نوبھارت ٹائمز، ٹربیون، ایشین ایج وغیرہ اور پھر بین الاقوامی اخباروں (مثلاً نیویارک ٹائمز، انڈیپنڈنٹ) سے مختلف حیثیتوں میں وابستہ رہے۔
2 اور 3 دسمبر 1984 کی درمیانی رات کو بھوپال میں دنیا کی تاریخ کا ہولناک ترین صنعتی حادثہ پیش آیا۔ کیڑےمار کیمیائی مادّے تیار کرنے والی یونین کاربائیڈ کمپنی کے پلانٹ سے لیک ہونے والی میتھائل آئسوسائنیٹ (MIC) نامی زہریلی گیس نے کم سے کم 3,787 افراد کو ہلاک اور اس سے کئی گنا بڑی تعداد میں لوگوں کو اندھا اور عمربھر کے لیے بیمار کر دیا۔ اس حادثے سے ڈھائی سال پہلے یہ گیس تھوڑی مقدار میں لیک ہوئی تھی جس میں دو افراد ہلاک ہوے تھے۔ راجکمار کیسوانی نے تب ہی تحقیق کر کے پتا لگایا کہ مذکورہ گیس نہایت زہریلی اور کمیت کے اعتبار سے ہوا سے بھاری ہے، اور کارخانے کے ناقص حفاظتی نظام کے پیش نظر اگر کبھی یہ گیس بڑی مقدار میں لیک ہوئی تو پورا بھوپال شہر بہت بڑی ابتلا کا شکار ہو جائے گا۔ انھوں نے اپنی اخباری رپورٹوں میں متواتر اس طرف توجہ دلانا جاری رکھا لیکن کمپنی کی سنگدلی اور حکام کی بےحسی کے نتیجے میں یہ بھیانک سانحہ ہو کر رہا۔ اس سے متاثر ہونے والوں کی طبی، قانونی اور انسانی امداد کے کام میں بھی کیسوانی نے سرگرم حصہ لیا جسے کئی بین الاقوامی ٹی وی چینلوں کی رپورٹنگ اور دستاویزی فلموں میں بھی سراہا گیا۔ 1998 سے 2003 تک راجکمار کیسوانی این ڈی ٹی وی کے مدھیہ پردیش چھتیس گڑھ بیورو کے سربراہ رہے اور 2003 کے بعد سے دینِک (روزنامہ) بھاسکر سے متعلق رہے۔ اب وہ اس اخبار میں ایک نہایت مقبول کالم لکھتے ہیں۔ انھیں بھارت کے سب سے بڑے صحافتی اعزاز بی ڈی گوئنکا ایوارڈ سمیت بہت سے اعزاز مل چکے ہیں۔
راجکمار کیسوانی ہندی کے ممتاز ادبی رسالے ’’پہل‘‘ کے ادارتی بورڈ میں شامل ہیں جو ہندی کے معروف ادیب گیان رنجن کی ادارت میں پچھلے چالیس برس سے زیادہ عرصے سے شائع ہو رہا ہے۔ 2006 میں کیسوانی کی نظموں کا پہلا مجموعہ ’’باقی بچے جو‘‘ اور اس کے اگلے سال دوسرا مجموعہ ’’ساتواں دروازہ‘‘ شائع ہوے۔ انھوں نے ’’جہانِ رومی‘‘ کے عنوان سے رومی کی منتخب شاعری کا ہندی ترجمہ بھی کیا ہے۔ کئی کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ ’’باجے والی گلی‘‘ ان کا پہلا ناول ہے جو ’’پہل‘‘ میں قسط وار شائع ہو رہا ہے۔
اس ناول کو اردو میں مصنف کی اجازت سے ’’لالٹین‘‘ پر ہفتہ وار قسطوں میں پیش کیا جائے گا۔ اس کا اردو روپ تیار کرنے کےعمل کو ترجمہ کہنا میرے لیے دشوار ہے، اس لیے کہ کہیں کہیں اکّادکّا لفظ بدلنے کے سوا اسے اردو رسم الخط میں جوں کا توں پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ بات آپ کی دلچسپی کا باعث ہو گی کہ اسے ہندی میں پڑھنے والوں میں سے بعض نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ یہ دراصل ناگری رسم الخط میں اردو ہی کی تحریر ہے۔
تعارف اور پیشکش: اجمل کمال

[/blockquote]

لال فیتہ شاہی کے چلتے ’’ایک پریوار، ایک کمرہ‘‘ کی سرکاری پالیسی نے کئی سارے ریفیوجی پریواروں کو پہلے کاغذ پر، پھر حقیقت میں توڑ ڈالا۔ ہمارا پریوار بھی اس کا شکار ہوا۔ یہاں آنے تک ایک گھر، ایک پریوار، زیادہ کشادہ جگہ حاصل کرنے کے چکر میں ٹوٹ کر تین گھروں میں بٹ گیا۔ اس بکھرتے پریوار کی مالی حالت بھی کنگالی کے کگار تک جا پہنچی تھی۔ یہاں تک آتے آتے کچھ دن سرکاری راشن کا آسرا رہا تو کچھ گھر کے برتن بھانڈے بیچ کر گزر ہوتا رہا۔ ہاتھ کی نقدی، زیور زٹا کچھ بھی باقی نہ بچا تھا۔ گھر کی غریبی کی اس حقیقت کو پریوار کا ہر فرد دل ہی دل میں محسوس کرتا تھا لیکن زبانی طور پر سویکار نہیں کرتا تھا۔ ہمیشہ خود کو دوسروں کی مثالیں دے کر بہتر بتاتے۔ اپنے سے زیادہ بدحال لوگوں کی باتیں کرتے ہوے اپنی غریبی کو ڈھارس بندھاتے رہتے۔ دادا پوری جان لگا کر گھر کی مالی حالت سدھارنے کی کوشش میں صبح سے کرائے کی سائیکل لے کر نکل جاتے تھے۔ اخباروں کے لیے رپورٹنگ کے بدلے ملنے والا پیسہ بہت کم تھا۔ پڑھے لکھے انسان ہو کر سڑک پر بھجیے [پکوڑے] یا شکر بیچنے میں جھجک تھی۔ سو اپنی بی اے کی ڈگری کی مدد سے ایک وکیل کے ساتھ کچھ دن کام کر کے، بنا ایل ایل بی والے وکیل ہو گئے۔ مگر سندھی وکیل کے پاس کیس کہاں سے آتے۔ اور آتے تو غریب سندھیوں کے، جو فیس کے نام پر دام کم اور دعائیں زیادہ دیتے تھے۔

اس ماحول میں بھی وکیل صاحب کے ادھار کے بھروسے کھانے پینے اور صاف ستھرے رہنے کے شوق کے چلتے کبھی کبھی باہر والوں کے ساتھ ساتھ خود گھر والوں کو بھی اپنی خوشحالی کا یقین ہونے لگتا۔ لیکن تقاضے کی بڑھتی آوازوں سے خواب ٹوٹ جاتا۔ گھر کے دوسرے مرد بھی ہر دن کمائی بڑھانے کی نئی نئی تجویزوں پر بات کرتے۔ کچھ پر عمل کرتے۔ کبھی کامیاب، کبھی ناکام ہوتے۔ اِدھر مہیلائیں اپنی اپنی طرح سے اسی دِشا میں کام کرتیں۔ ماں اور اس کی بہنیں کپڑے سیتے وقت تو ہنستے بولتے، قہقہے لگاتے کام کرتیں لیکن اکیلے ہوتے ہی غریبی، بھوت کے سائے کی طرح پیچھے لگی ہی رہتی۔

ماں نے ایک دن تاج محل میں رہنے والی اپنی ایک سہیلی شیلا کے تیزی سے بدلتے حالات کو دیکھا تو حیران رہ گئی۔ معمولی سے ٹھیکیدار کے منشی سے اس کا باپ ٹھیکیدار ہو گیا۔ اپنا گھر بھی بنا لیا۔ ایک ایمبیسیڈر کار بھی خرید لی۔ ڈرائیور بھی رکھ لیا۔ بھوک کو ٹھینگا دکھا کر گھر میں دعوتوں کا سلسلہ چل پڑا تھا۔ ایک دن شیلا اپنی کار سے ماں کو اپنے گھر بھی لے گئی۔ اس کی خوشحالی دیکھ کر ماں کو رشک ہوا۔ بات چیت میں شیلا نے گھر میں لگا ایک بڑا سا پھلتا پھولتا منی پلانٹ دکھایا۔ مذاق مذاق میں یہ بھی کہہ دیا که یہ پودا ایک بوتل میں تاج محل والے گھر میں لگایا تھا، یہاں آ کر خوب پھل پھول رہا ہے۔ ماں نے اسی دن اس کے گھر سے ایک شاخ توڑ کر، آ کر اپنے گھر میں لگا لی۔ ایک بوتل میں۔ ہر دن صبح اٹھ کر سب سے پہلے پودے پر نظر ڈالتی۔ اکثر ہمیں بلا بلا کر دکھاتی، ’’دیکھو بڑھ رہا ہے نا؟ یہ دیکھو ایک نیا پتّا نکل رہا ہے۔‘‘

خدا جانے کیوں اور کیسے، ماں کا یہ منی پلانٹ کبھی سرسبز نہ ہوا۔ کبھی دھوپ میں، کبھی ایک دم چھاؤں میں۔ کبھی مندر کے پاس۔ پر جو وہ نہ پنپا تو نہ پنپا۔ محلے کی عورتوں میں اس کو لے کر ایک چھیڑ بھی بن گئی۔ طنز بھرے انداز میں ماں سے دریافت کرتیں، ’’کیسا ہے تمھارا منی پلانٹ؟‘‘ پھر خود ہی آگے بڑھ کر اس دم توڑتے چار پتے والے پودے کو دیکھ کر صلاح دیتیں، ’’پانی بدلو اس کا، پانی گندا ہو گیا ہے۔‘‘ کوئی صلاح دیتا، ’’اسے زمین میں لگاؤ۔‘‘ اور سب سے لاجواب صلاح یہ تھی که ’’دیکھو کرشنا، یہ مانگے کا پودا ہے۔ مانگ کر لایا ہوا پودا نہیں پنپے گا۔ اسے تو چپ چاپ چوری سے کسی اچھے پنپے ہوے گھر سے توڑ کر لگاؤ، تبھی پنپتا ہے۔‘‘

اس منی پلانٹ کی وجہ سے گھر کی غریبی پر تو کوئی اثر نہ پڑا البتہ ماں کا مذاق بنانے والی تین چار عورتوں کے گھروں میں منی پلانٹ کی لٹکتی بوتلیں ضرور نظر آنے لگیں۔ کچھ کی بیل بھی بنی، پر اس بیل کے باوجود ان گھروں میں جینے کے لیے ہر روز بیلے جانے والے پاپڑ کبھی بند نہ ہوے۔ سلائی مشینیں کبھی نہ رکیں۔

حویلی کے ان آٹھ پریواروں کے مرد ہر روز صبح صبح گھروں سے نکل پڑتے تو گھر کی عورتیں کام کرتے کرتے کفایت شعاری سے جیون کو بہتر بنانے کے اپنے اپنے تجربے ایک دوسرے سے بانٹتیں۔ نتیجہ یہ که کپڑے تو پہلے ہی گھر پر دھلتے تھے لیکن اب صابن بھی گھر پر ہی بننے لگا۔ شہر بھر میں گھوم گھوم کر پاپڑ بیچنے والی ساوتری مائی ہر دوسرے چوتھے دن کوئی نیا آئیڈیا لے کر آتی اور پوری حویلی کی کشش کا مرکز بن جاتی۔ اس دور کے چلن کے مطابق ساوتری مائی کو اس کے نام سے نہیں بلکہ اس کے بیٹے گھنشیام عرف ’گنو‘ کے نام سے جوڑ کر ’گنو ماؤ‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ اس کا مطلب تھا، گنو کی ماں۔

ایک دن یہی ساوتری مائی بڑی زبردست خبر لائی۔ سب سے پہلے اپنے گھر گئی اور ہاتھ میں ایک بڑی بالٹی لی۔ پھر دھیرے سے ایک ایک کر سب کو بالٹی لے کر چلنے کی دعوت دی۔ یہ دعوت تھی گھر سے کچھ دور منگلوارا میں نئے نئے کھلے صابن کارخانے کا صابن والا پانی لانے کی دعوت، جسے کارخانے والے پائپ کے ذریعے پیچھے بنے نالے میں بہا دیتے تھے۔ اب یہاں آئیڈیا یہ تھا که کپڑے دھونے کے لیے صابن خرچ کرنے کے بجاے صابن کے اس پانی کا استعمال کیا جائے جو مفت میں مل رہا ہے۔

محلے بھر کی عورتوں کے چہرے یکایک کھل اٹھے۔ اس طرح کی مفت یا سستے کی جگاڑ سے یہ چہرے ہمیشہ ہی چمک اٹھتے تھے۔ انھی کوششوں کے نتیجے میں چولھا جلانے کے لیے ضروری ایندھن کو لے کر بھی کئی کامیاب ناکام تجربے ہو چکے تھے۔ سب سے پہلے جلاؤ لکڑی کے بجاے لکڑی کٹائی کے دوران پیٹھے پر اِدھر اُدھر بکھرنے والے لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں (چھپٹیوں) کا استعمال۔ کافی سستی پڑنے والی ان چھپٹیوں کو کسی ٹوکری یا تگاڑی میں پورے پیٹھے میں گھوم گھوم کر خریدار کو خود ہی بیننا پڑتا تھا۔ پھر انھیں بڑی لکڑی کے بیچ پھنسا کر چولھے سلگائے جاتے تھے۔ کچھ گھروں میں لکڑی کے بھوسے سے جلنے والی لوہے کی سِگڑیاں بھی آ گئی تھیں۔ اس بھوسے کے لیے انھیں چھاؤنی میں آباد آرا مشینوں کے چکر لگانے پڑتے تھے، جبکہ چھپٹیاں محلے میں ہی تین تین پیٹھوں سے مل جاتی تھیں۔

سٹیشن کے پاس رہنے والی میری بوا کے لڑکے گرمُکھ اور جےپال ریل پٹریوں سے سٹیم انجن سے گرنے والا کوئلہ بین کر لے آتے تھے۔ کوئلہ بیننے کے دوران ہونے والی مشکلوں، لڑائی جھگڑوں اور پولیس کے پنگوں کی کہانیاں سن سن کر کوئلہ بیننے کو من بہت للچاتا تھا، لیکن ماں اسے چوری بتاتی تھی جو پاپ ہو جاتا ہے۔ سو بس ایک بار کے بعد پھر کبھی نہ گیا۔ آج ساوتری مائی ایک نئی رومانچک کھوج لے کر آئی تھی۔ اس دن بس دو اور گھروں سے گنو کی اس امّاں کے ساتھ لوگ بھری دھوپ میں بالٹیاں بھرنے نکلے۔ اب حویلی میں نل ایک ہی تھا۔ سو جس گھر کو کپڑے دھونے ہوتے، وہ شام میں ہی اس ارادے کا اعلان کر دیتا که کوئی اور کپڑے دھونے کی تیاری نہ کر لے، کیونکہ نہانے دھونے اور پینے کا پانی بھرتے بھرتے ہی نل بند ہو جاتے تھے۔ غنیمت یہ تھا که ان دنوں شام کو ایک بار پھر پانی آتا تھا که جس سے کسی ایک گھر کے کپڑے دھل پاتے تھے۔

اب تک حویلی میں کپڑے دھونے کے لیے رات میں ٹین کے بڑے ڈبوں میں پانی کے ساتھ کاسٹک سوڈا اور صابن کے چُورے کو ملا کر کپڑے ڈال دیے جاتے تھے۔ چھوٹے کپڑوں کے لیے آنے دو آنے میں ملنے والے مالتی گھی کے خالی ڈبے اور بڑے کپڑوں کے لیے بال وہار کے لوہاروں کے بنائے گئے ٹین کے بڑے ڈبے استعمال ہوتے تھے۔ دھوبی کی بھٹی کی طرح آنگن کے ایک کونے میں بنی سِگڑی پر خوب اُبال آنے تک گرم کیا جاتا تھا۔ ایک ڈبا ابل گیا تو دوسرا یا تیسرا۔ اس نئی کوشش کا مطلب تھا صابن کے چورے کا خرچ بچانا۔ اگلے دن جب ساوتری مائی موگری سے پیٹ پیٹ کر کپڑے دھو رہی تھی تو اسکی آواز کی طرف حویلی بھر کے سارے گھروں کی عورتوں کے کان لگے ہوے تھے۔ بیچ بیچ میں اپنا کام چھوڑ کر بھی کوئی کوئی دیکھنے چلا جاتا که کپڑے دھل کیسے رہے ہیں۔ آخری نتیجہ تو بہرحال کپڑے سوکھنے کے بعد ہی آنا تھا۔

ساوتری کی یہ کوشش خاصی کامیاب رہی۔ حالانکہ سب مہیلائیں ایک رائے نہیں تھیں که کپڑے ایک دم صاف دھلے ہیں لیکن اس بات پر سب سہمت تھے که بچت اچھی ہو جائے گی۔ اس اکیلی بات نے دھیرے دھیرے سب کو کوئی ڈیڑھ دو فرلانگ کی دوری پر صابن کارخانے کے نالے سے بالٹیاں بھر کر لانا سکھا دیا۔ ایک دن جب میری باری آئی تو میرے ساتھ میرا وہی دوست للّن بھی گیا، جس کی بہن سے پہلے جھگڑا ہوا تھا اور پھر وہ میری بہن بن گئی تھی۔

للّن بہت تیز دماغ تھا۔ وہ بھاگ کر گھر گیا اور خاصا موٹا اور مضبوط بانس لے آیا۔ دونوں بالٹیوں کو بانس کے بیچ ڈال کر ہم دونوں گاتے مسکراتے چل پڑے صابن فیکٹری کی طرف۔ ایک سرا میرے ہاتھ اور دوسرا للن کے ہاتھ میں۔ میں للن کی اس ہوشیاری سے بہت خوش تھا۔ میری یہ خوشی نہایت وقتی ثابت ہوئی۔ کارخانے کے پچھواڑے پہنچے تو دیکھا که نالے کے پاس ڈنڈا لیے ایک آدمی بٹھا دیا گیا تھا۔ پائپ کا پانی جمع کرنے کے لیے ڈرم رکھے ہوے تھے۔ ڈنڈے والے آدمی نے ہماری بالٹیاں دیکھتے ہی للکارا: ’’پیسے لاؤ ہو؟‘‘

میں نے حیرت سے پوچھا، ’’پیسے؟‘‘
وہ بولا، ’’ہاں، پیسے۔ جاؤ جاؤ پیسے لاؤ۔ نہیں تو چلتے نظر آؤ۔‘‘

للن مجھ سے عمر میں دو ایک سال بڑا تھا۔ بات بات پر تھوک کو پچکاری کی طرح استعمال کرتا اِدھر اُدھر پھینکتا رہتا تھا۔ اور غصہ آ جائے تو اس کی رفتار ایک دم بڑھ جاتی تھی۔ اس گھڑی بھی یہی ہوا۔ ایک پچکاری چھوڑکر بولا، ’’چلو خاں لالو، یاں تو اندھے کے آنکھ نکل آئی ہیں!‘‘

بیوپاری نے کمائی کی گنجائش تاڑ لی تھی، اب اس سے جیتنا مشکل تھا۔ لیکن ہر روز کے حالات سے ٹکراتے ٹکراتے اس کمسنی کے دور میں بھی دل دماغ میں غصہ اور زبان پر زہر جب تب اتر کر آنے لگا تھا۔ اس وقت بھی غصہ اپنے اوج پر چڑھ کر زبان کی نوک پر اتر ہی آیا۔ اسی غصے میں میں نے کہہ دیا، ’’رکھ لو سمھال کے۔ گانڈ دھونے کے کام آئے گا۔‘‘

ڈنڈے والے کا ہاتھ ڈنڈے تک پہنچتا اور ہم پر چل جاتا، اس سے پہلے ہی للن نے بانس میں پھنسی بالٹیاں نکال کر ہاتھ میں تھام لیں اور میں نے نیچے گرا بانس کا ڈنڈا اٹھا کر دوڑ لگا دی۔

گھر پہنچ کر ماں کے سامنے غصے بھرے انداز میں اپنی ناکامی بیان کرتے ہوے اس صابن فیکٹری کے مالک کو ایک ہلکی سی گالی بھی دے ڈالی۔ ماں نے حیرت اور صدمے سے بھری نظروں سے میری طرف دیکھا۔ ایسا بالکل نہ تھا که اسے میری بدزبانی اور بداخلاقی کا اندازہ ہی نہ تھا۔ میری گالیوں کی عادت سے وہ واقف تھی، لیکن آج سیدھے اسی کے سامنے ہی منھ سے گالی نکل آئی تو وہ گھبرا گئی۔

گھبرا تو میں بھی گیا، بلکہ بہت بری طرح گھبرا گیا۔ اب تک صرف باپ کے منھ سے سنتا آیا تھا که میں مسلمانوں کی سنگت میں غنڈا بن گیا ہوں۔ لیکن ماں کو اپنے ایشور پر اور اپنی بھکتی پر بڑا بھروسا تھا که میں ابھی بہت چھوٹا ہوں اور دھیرے دھیرے سدھر جاؤں گا۔ آج اس بھروسے کو چوٹ لگی تھی۔ میں نے ماں کی آنکھوں میں جو کچھ اس گھڑی دیکھا وہ میرے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔ میں گھر سے بھاگ کر پائیگاہ کی طرف چل پڑا۔ تالا لگے بڑے دروازے کے پاس والی ایک ٹوٹی ہوئی کھڑکی کے راستے اندر گھس گیا۔

نظروں کی حد سے باہر تک پھیلی پائیگاہ کے بھیتر چاروں اور نوابی خاندان کے جانوروں کے باندھنے کے باڑے بنے ہوے تھے، اور بیچ میں تھا وشال سا خالی میدان۔ باڑے تو برسوں سے یوں ہی خالی پڑے تھے لیکن میدان بارش کے پانی سے اگ آئی گھاس سے پوری طرح ڈھکا ہوا تھا۔ میں گھاس کا ایک تنکا توڑ کر باڑے والے حصے کے بھیتر جا کر بیٹھ گیا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے ایک تنکے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑتا کچھ سوچتا جاتا تھا۔ حالانکہ کسی نے مجھ سے کچھ بھی نہیں کہا تھا لیکن پھر بھی میں بہت ڈرا ہوا تھا۔ باربار یہی سوچ سوچ کر شرمندہ ہوتا رہا که میں نے ماں کے سامنے گالی بک دی۔ مجھے رونا آ رہا تھا مگر میں رو نہیں رہا تھا۔ پھر خود پر غصہ آنے لگا۔ اسی غصے میں خود کو کس کر چار چھ تماچے مار لیے۔ اب رونا بھی شروع ہو گیا۔ روتے روتے منھ سے باربار ایک ہی لفظ نکلتا تھا: ماں۔۔۔

کچھ دیر بعد مجھے یوں لگا جیسے ساری پائیگاہ میں یہی لفظ گونج رہا ہے: ماں۔ میں ڈر گیا، رونا بند کر کے اس گونج کو سننے کی کوشش کرنے لگا۔ اب ایسی کوئی گونج نہیں تھی۔ بس ہوا کے جھونکوں میں ضرور کچھ تیزی آ گئی تھی جس نے اب تک میری طرح اداس کھڑے گھاس کے تنکوں پر گدگدی کا سا کام کر دکھایا۔ گھاس کے یہ ہزاروں تنکے ایک ساتھ جھوم جھوم کر ہواوٴں کی سنگت میں ناچتے گاتے سے معلوم ہونے لگے۔ اس سنگت میں سنگیت بھی آ شامل ہوا اور پورب کی طرف سے سیٹی سی بجاتا پچھم کو چھیڑنے لگا۔

میری خوفزدہ آنکھوں کے سامنے ہو رہے اس رومانی بدلاؤ نے چند لمحوں کے لیے میرے بھیتر کے سارے دکھ درد کو ایک مسکان میں بدل دیا۔ میں سب کچھ بھول اس جادوئی بیار [ہوا] کے ساتھ بہنے سا لگا۔ تبھی لیلیٰ بُرج والی دِشا سے ہوا میں تیزی سے اڑتا ایک پتھر آ کر پائیگاہ کے بھیتر کے ایک ٹین کے دروازے سے ٹکرایا اور اس ماحول میں ایک نہایت بےسُرا رنگ بھر دیا۔

میری نظریں قدرت کے اس کھیل سے ہٹ کر اِدھر اُدھر گھومنے لگیں۔ نظروں کو کہیں کچھ بھی بدلاؤ نظر نہیں آیا لیکن پھر اچانک ہی یوں لگنے لگا جیسے کوئی اور بھی یہاں موجود ہے، جس نے مجھے روتے ہوے دیکھ لیا ہے۔ نظروں نے ایک بار پھر چاروں طرف کی تلاشی لی لیکن کوئی نہیں تھا۔
میں نے جلدی جلدی اپنے گالوں پر پھیل چکے آنسوؤں کو جیسے تیسے پونچھ کر پوری ہمت سے ایک بار پھر گھوم گھوم کر اِدھر اُدھر تلاش شروع کر دی۔
کوئی بھی تو نہیں تھا۔

تو پھر کون تھا؟

اب تک میری ساری بہادری چیں بول چکی تھی۔ اس تیزی سے دوڑ لگائی که اگلے ہی پل میں اسی ٹوٹی کھڑکی کے پاس پہنچ گیا جو برسوں سے بند پڑے دروازے کے بدلے یہاں آنے جانے کے راستے کا کام دیتی تھی۔

گلی میں اس وقت کوئی خاص چہل پہل نہیں تھی۔ میں بھی دھیرے دھیرے گھر کی طرف قدم بڑھاتا چل پڑا۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

Leave a Reply