شب بھر میں نے
کمرے کی کھڑکی سے جھک کر, باہر دیکھا
اپنا ہونا
اجلے بیڈ کے کونے پر جو راکھ پڑی تھی
خوب کریدی
انگلی چھیدی,ماس جلایا,خوب تلاشا
اپنا چہرہ
وہ چہرہ جو روزوشب کی چکی کے پاٹوں میں پستا
چپٹی ٹیڑھی شکلوں کی ترتیب بدلتا
کتنی راتوں کی مجبوری کے گھیرے میں تنہا تنہا
پگھل رہا تھا
چہرہ گویا برف کی سل ہے
جلتی مشعل جیسا جس میں بھید بھرا ہے
درد چھپا ہے
کھڑکی سے تم جھانکو اندر
دیکھو کتنے آدھے پورے چہرے ہر سو بکھر رہے ہیں
کاغذ کی کشتی ہے گویا
اور سمندر ریت کے ذروں کا حاصل ہے
پھولوں کا اک طشت دھرا ہے
باس بھرا ہے
خالی آنکھیں چاروں جانب گھور رہی ہیں
اس کے خط میں میری نظمیں,اس کے قہقہے
میری چپ ہے
اس کی حدت دھوپ کی مانند
چاروں جانب کھیل رہی ہے
کاغذ کی کشتی سے لپٹے,کنگھے کے دانتوں سے الجھے
بال پڑے ہیں
خالی آنکھیں چاروں جانب گھور رہی ہیں
شب بھر میں نے
تجھ کو دیکھا,خود کو ڈھونڈا
اور سویرا سر پر آ کر ناچ رہا ہے