راجندر یادو کا نام ہندی ادب کی نمایاں تحریک ‘نئی کہانی’ سے منسوب ہے۔ آپ نے منشی پریم چند کے رسالے ‘ہنس’ کی دوبارہ اشاعت کا بھی اہتمام کیا۔ راجندر یادو کا پہلا ناول ‘پریت بولتے ہیں’ کے نام سے 1951 میں شائع ہوا جس پر بعدازاں باسو چیٹرجی نے فلم بھی بنائی۔ ناولوں کے علاوہ آپ نے کہانیاں بھی لکھیں اور روسی ادب کا ہندی میں ترجمہ بھی کیا۔ محمد عباس ان کی کہانیوں سے اردو قارئین کو متعارف کرا رہے ہیں۔ محمد عباس کے کیے یہ تراجم ‘دستاویز مطبوعات، لاہور’ نے شائع کیے ہیں جنہیں اب لالٹین پر شاٰئع کیا جا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنا کالا چوغہ چمگاڈر کے پروں کی طرح پھڑپھڑاتے وکیل صاحب نے کمرے میں گھستے ہوئے پوچھا: ’’کیوں اتنی زور زور سے ہنس رہے ہو؟ کیا بات ہوگئی؟‘‘
وکیل صاحب کے آتے ہی تینوں چپ ہو گئے تھے لیکن ہنسی تھی کہ مسکراہٹ بن کر پھوٹ رہی تھی۔ جیوتی نے برج کی طرف دیکھا اور میز کے کونے پر سر ٹیک کر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اس نے ساڑھی کا پلّو منہ سے لگا لیا۔ برج دوسری طرف منہ کر کے اس ہنسی پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرتا ہوا پھٹ پڑتا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ دت نے سانس روک کر اپنا زیادہ سے زیادہ دھیان ان ہنستے ہوئے لوگوں سے ہٹا کر جیسے انجان بن کر پوچھا:’’لنچ ہو گیا؟‘‘
’’ہاں جی!‘‘ منہ میں سگریٹ لگا کر وکیل صاحب ماچس کی ڈبیا پر سیک مار رہے تھے، انھوں نے سر ہلایا۔
’’کیا ہوا؟ سرکاری وکیل زیادہ کراس کر رہا ہے کیا؟‘‘ دت نے نہ چاہتے ہوئے بھی دیکھ لیا کہ برج جیوتی کی طرف اس کے بارے میں اشارہ کر رہا ہے۔۔۔ دیکھ سالا کیسا سنجیدہ ہو کر باتیں کر رہا ہے۔ اس کے پیٹ میں بگولا سا اٹھا اور ساری سنجیدگی جھٹکے سے اڑ گئی۔ وہ بھی پھٹ کر ہنس پڑا اور ایک دم اٹھ کر باہر برآمدے میں بھاگ گیا۔ دونوں منشی اور ایک موکل حیرت سے آنکھیں پھاڑے مسکراتے ہوئے ان کی ہنسی میں ساتھ دے رہے تھے۔
وکیل صاحب نے پہلا زور کا کش کھینچا اور ادھر ادھر دیکھ کر پوچھا: ’’کیوں بھائی؟آخر کچھ بات بھی تو بتاؤ گے؟‘‘ وہ یہاں کا ماحول دیکھ کر مسکرائے۔
اس پر دونوں پھر ہنس پڑے۔ دت باہر برآمدے میں کھمبے کے پاس کھڑا ہنس رہا تھا۔ وکیل صاحب نے منشی رام سروپ سے کہا: ’’منشی جی!کیا بات ہے؟‘‘
منشی جی نے ہاتھ کی مسل کے کاغذوں کو الٹا سیدھا کرنا چھوڑ کر ان دونوں کی طرف دیکھا پھر مسکراتے ہوئے کہا: ’’صاحب! ابھی دیوی سہائے جی آئے تھے۔۔۔‘‘
’’آپ کو ڈھونڈتے ہوئے،ملے نہیں؟‘‘ جیوتی نے انگلی سے سنہری کمانی کا چشمہ اوپر اٹھا کر، ساڑھی کے پلے سے آنکھوں کی کوروں کا پانی پونچھتے ہوئے کہا۔
’’کون دیوی سہائے؟‘‘ وکیل صاحب نے یاد کرنے کی کوشش کی۔ اصل میں ان کے دماغ میں ابھی چلتے مقدمے کے سوال جواب ہی گونج رہے تھے۔ لنچ ٹائم میں جھنجھلائے ہوئے وہ چیمبر سے بھاگے آ رہے تھے۔ دماغ پریشان تھا۔۔۔ انھیں کتیا کے پیچھے لگے پلوں کی طرح اپنے ساتھ دونوں طرف لگے چلتے موکلوں سے اور بھی زیادہ چڑ چڑاہٹ ہو رہی تھی۔ ’’وکیل صاحب اس مقدمے میں کیا ہوگا؟ سرکاری وکیل تو یہ کہتا ہے۔‘‘ وغیرہ پوچھ پوچھ کر اس کی تو ناک میں دم کیے جا رہے تھے۔ وکیل صاحب نے انھیں جھڑک دیا تھا۔’’ارے بھائی مجھے کچھ سوچنے بھی دو گے یا یونہی دماغ چاٹتے جاؤ گے، مقدمہ خراب ہو جائے گا تو کہو گے کہ یہ ہوا، وہ ہوا۔‘‘ موٹی موٹی کتابوں کے گٹھڑ اور لاء رپورٹر کی فائلیں لیے دونوں موکل سہم کر پیچھے ہی رہ گئے تھے۔ وکیل صاحب نے سگریٹ کا کش کھینچ کر باہر کھڑے دت سے کہا: ’’چائے کے لیے کہہ دیا؟‘‘
’’جی صاحب! ابھی آرہی ہے۔‘‘ دت نے بڑی مستعدی سے جواب دیا۔ پھر وہ اندر آکر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’وہی دیوی سہائے صاحب ٹلو مار فرم سے جن کا چھ مہینے سے تنخواہ کا مقدمہ ہے۔‘‘ منشی نے بتایا۔
’’اوہ!‘‘ وکیل صاحب کو یاد آگیا، پھر انھوں نے ادھر دیکھا۔
’’کہہ رہے تھے ہماری تنخواہ وکیل صاحب دلا دیں تو اپنی لڑکی کی شادی کر دیں۔ بڑی لڑکی کو ’’چھوچھک‘‘ بھیجنا ہے۔ کوئی ان کی بھانجی بیاہی جا رہی ہے اسے بھات دینا ہے۔‘‘ دت نے بتایا۔ وہ ایک بار وکیل صاحب کی طرف دیکھتا اور ایک بار برج اور جیوتی کی طرف۔ وہ دونوں ایک دم ہنس پڑنے کے موڈ میں منہ پر ہاتھ رکھ کر دیکھ رہے تھے۔
’’وکیل صاحب کیا اپنی جیب سے دے دیں۔ واہ یہ اچھی کہی، تمھارا تو عدالت میں منہ نہ کھلے اور وکیل صاحب روپے دلا دیں؟‘‘
غصے کے مارے وکیل صاحب نے ایک جھٹکے سے ناک میں سے ڈھیر سا دھواں نکال ڈالا اور دو انگلیوں سے چوغے کے اندر سے جھانکتی قمیض کے کالر پر بندھی کلف لگی سفید ململ کی پٹی کو ذرا ٹھیک کیا۔ ان کی انگو ٹھی کا ہیرا زور سے چمک اٹھا۔
’’دیکھیے! وہ آگئے۔‘‘ برج نے کہا۔ جیوتی اور دت نے بھی آنکھیں اٹھا کر ادھر دیکھا۔ وکیل صاحب جان بوجھ کر سنجیدہ بنے بیٹھے رہے۔ سارا ماحول پر سکون ہو گیا۔
بیچ کی ایک لمبی چلی جاتی گیلری کے دونوں طرف وکیلوں کے کمروں کے دروازے تھے اور ان دروازوں کے بالکل سامنے کمروں کے دوسرے دروازے اس گیلری کے متوازی چلے جاتے برآمدے میں کھلتے تھے۔ اس طرف کے کمرے والے برآمدے میں سینکڑوں آدمی ۔۔۔ وکیل، موکل، ٹائپسٹ، چپڑاسی، گواہ اور ان گنت لوگ۔۔۔ آجا رہے تھے۔ عدالت کے لنچ کا وقت تھا، اس لیے پھل والے، دال سیب والے اور وکیلوں کے کمروں میں چائے پانی پہنچانے والے نوکر ادھر سے ادھر بھاگ رہے تھے، اس بھاگ دوڑ میں آدھے وکیلوں کے منشی تھے جو عدالت کے وقت ان کی کتابوں اور مسلوں کے بستے سنبھالتے تھے اورباقی وقت میں ساگ سبزی لانے اور بچوں کو سکول پہنچانے کا کام کر دیتے۔ برآمدے کے دروازے میں تبھی لگ بھگ اڑتالیس سال کا ایک آدمی نمودار ہوا۔ یہ آدمی بہت دھیرے دھیرے جیسے گھسٹ گھسٹ کر چل رہا تھا۔ پیلا اور بہت پرانا سا مڑا تڑا کوٹ، گھٹنوں سے ذرا نیچے لٹکی دھوتی، کالی پتلی پتلی ٹانگیں اور باٹاکے کرِمچ کے جوتے۔ شاید خریدنے کے بعد سے ان پر سفیدی نہیں ہوئی تھی اور فیتوں کا دور دور تک پتا نہیں تھا۔ دونوں جوتوں کی جیبیں دم کٹے کتوں کی پونچھ کی طرح اٹھ آئی تھیں۔ انگوٹھے اور چھوٹی انگلی کی جگہ دو چھید ہو گئے تھے۔ قمیض کے بٹن نہیں تھے اور سکڑی چھاتی کے سفیدی کی طرف بڑھتے بھورے بال جھانک رہے تھے، بنیان نہیں تھی۔ دونوں کندھے اس طرح اوپر اٹھے اور کمر کچھ اس طرح جھک گئی تھی جیسے ان کے دونوں کندھوں کو پکڑ کر کسی نے زور سے دبا دیا ہو۔ گردن نسبتاً لمبی اور ٹینٹوا ابھرا ہوا۔ ناک کے دونوں طرف آنکھوں کے نیچے سے ہونٹوں کے سروں تک دو موٹی موٹی جھریاں چلی آئی تھیں۔ دو دن کی بڑھی داڑھی والی چمڑی میں سفید بال چمک رہے تھے۔ ٹین کے فریم بیضوی میلے گندے شیشوں کا چشمہ ۔۔۔ جس کا ایک کانچ ٹوٹ گیا تھا اور دوسری طرف سے میلے سے ڈورے سے کان پر باندھا گیا تھا۔ کان ذرا باہر کی طرف نکلے ہوئے۔ بے رونق آنکھیں اور آدھے پاگلوں کی سی بے وقوف نگاہیں۔ جھریوں دار ماتھا اور آدھ آدھ انچ کے کھچڑی بالوں کے چاروں طرف پٹی۔۔۔ کیوں کہ چاند کے بیچ کی بڑی سی گول چندھیا گنج کی وجہ سے غائب تھی۔ ہاتھ میں ڈوروں سے بنا ایک تھیلا لے کروہ داخل ہوا۔ ان کی چال ڈھال اور صورت شکل سے لگتا تھا کہ انھوں نے یقیناً ہی بہی کے آگے بیٹھ کر زندگی بھر قلم گھسی ہے۔
’’آؤ بابو دیوی سہائے جی! وکیل صاحب آپ کو ہی پوچھ رہے تھے۔‘‘ کمروں کے بیچوں بیچ رکھی میز کے چاروں طرف یہ لوگ بیٹھے تھے اورا س دروازے کی طرف وکیل صاحب کی پیٹھ پڑتی تھی۔ برج بالکل سامنے تھا، بائیں طرف دت اور داہنی طرف جیوتی۔ برج نے انھیں دیکھتے ہی استقبال میں کہا۔ یہ لوگ اسی سال گریجویٹ ہو کر آئے تھے اور انہی وکیل صاحب کے یہاں کام سیکھتے تھے۔ تینوں ہی ایک دوسرے کی نگاہوں کو بچا رہے تھے۔
تبھی نوکر ان لوگوں کے بیچ میں ٹرے رکھ گیا۔اس بڑی سیاہ پلیٹ میں ککڑی کے پانچ چھ سینڈوچ تھے۔وکیل صاحب نے آخری کش کھینچ کر سگریٹ ایک طرف پھینک دی اور جھٹکے سے اٹھ کر سیدھے ہوتے ہوئے بولے: ’’آؤ بابو دیوی سہائے جی! بیٹھو۔‘‘ نہایت ہی مصروفیت سے وہ اس طرح سینڈوچ اٹھا کر کھانے لگے جیسے وہ جملہ انھوں نے کسی کو بھی مخاطب کر کے نہیں کہا ہو۔ دَت چار پیالوں میں چائے بنا رہا تھا۔ وہاں کوئی بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔
بالکل وکیل کے پاس آ کر دیوی سہائے نے ادھر ادھر بیٹھنے کے لیے جگہ دیکھی۔ پاس پڑے تخت پر اپنے لال بستے، مسلوں کے پلندے اور مختلف کاغذات پھیلائے دونوں منشی دیوار سے لگے بیٹھے تھے۔ وہ دونوں ہی کسی مسل میں سے دیکھ کر کسی کے سمن پر نام اور ولدیت لکھ رہے تھے۔ ایک بولتا، دوسرا لکھتا۔ایک نے کاغذ ذراسے ہٹا کر تخت کے کونے پر ذرا سی جگہ بنا کر انھیں بیٹھنے کو جگہ دیتے ہوئے کہا: ’’بیٹھو بابو جی! بیٹھو یہاں بیٹھو۔‘‘ وہ پھر کام میں لگ گئے۔
دیوی سہائے نے بڑے سنبھل کر بینت کو تخت سے اس طرح ٹکایا جیسے ذرا زور سے رکھ دیں گے تو اس کے لگ جائے گی۔ پھر سیاہی کے دھبوں سے بھری بہت ہی پرانی پھٹی دری والے تخت کے کونے پر ہاتھ ٹیک کر اس پر بہت دھیرے سے بیٹھ گئے۔ بڑے آہستہ سے گود میں انھوں نے تھیلے کو رکھ لیا اور اس پر توجہ سے دونوں ہاتھ رکھ کر وہ جیسے کسی راز کو کھوجنے کے انداز میں وکیل صاحب کی طرف جھک گئے۔ وہ اس طرح ہانپ رہے تھے جیسے بہت دور سے چلے آرہے ہوں۔
’’ہوں!‘‘ وکیل صاحب نے جلدی جتانے کے لیے گھڑی کی طرف دیکھا اور گھوڑے کی نعل کے سائز کا کٹاؤ بناتے ہوئے منہ بھر کر سینڈوچ کتر لی۔ پھر چائے کا کپ ہونٹوں کی طرف بڑھایا۔ اس ’ہوں‘ کا مطلب تھا۔۔۔ جلدی کہو، کیا بات ہے؟
دیوی سہائے نے تینوں طرف دیکھا، پھر ناک سے آواز نکالتے ہوئے کہا:’’وکیل صاحب! ہماری تنخواہ کب تک مل جائے گی؟‘‘
تینوں سکھاڑی پھر ہنسنے کو ہو آئے۔ وکیل صاحب نے کہا:’’بابو دیوی سہائے جی! تم تو کبھی کبھی بے وقوفوں کی سی باتیں کرتے ہو۔ جب تک مقدمہ ختم نہیں ہوگا، تب تک روپے کیسے مل جائیں گے؟‘‘ ہونٹوں سے کپ لگا کر انھوں نے جیوتی کی طرف دیکھا۔
اسی بیچ دَت نے ذرا زور سے، جیسے کسی اونچا سننے والے سے کہہ رہا ہو، کہا: ’’وکیل صاحب کہتے ہیں آپ سے عدالت میں بولا تو جاتا نہیں ہے۔‘‘
دیوی صاحب نے وکیل صاحب کی طرف دیکھاجیسے تصدیق کرنا چاہتا ہو۔۔۔ کیا سچ مچ وہ ایسا کہہ رہے ہیں؟ پھر ڈرے ہوئے مجرم بچے کی طرح کہا: ’’اب کے تو وکیل صاحب ! میں نے بیان بڑے اچھے دیے تھے۔‘‘
’’ہاں! اب تو ٹھیک تھے۔‘‘ وکیل صاحب نے گیلر ی کے پار سامنے والے وکیل کے کمرے میں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ایک بیان اور کروا دو۔ اب کے ایسا بیان دوں گا کہ بس، معاملہ پار ہو جائے۔‘‘ دیوی سہائے ذرا جوش میں آ گئے۔
’’ وہ تو جب ہو گا تب ہو گا۔‘‘ وکیل صاحب نے پیالہ ٹرے میں رکھ دیا۔
’’ نہیں! ایک بیان میرا ویری گڈ اور کرا دو۔‘‘ دیوی سہائے ایسے گڑگڑ ائے جیسے پیر چھو لیں گے۔
’’وکیل صاحب کہہ رہے ہیں تمھارے ویری گڈ بیان ہو جائیں گے۔ فکر مت کرو۔‘‘
وکیل صاحب نے بیزار کن انداز میں برج کو دیکھا کہ ٹالو اس بلا کو۔ اس ’’ویری گڈ۔‘‘ لفظ پر تینوں پھر ادھر ادھر گردن گھما گھما کر ہنسنے لگے تھے۔
’’ہاں وکیل صاحب !مجھے روپے کی بڑی ضرورت ہے۔ سالا مکان والا تنگ کر رہا ہے۔ تمھاری بڑی لڑکی کے لڑکا ہوا ہے سوچھوچھک جانا ہے۔ بھانجی کو بھات دینا ہے اور گھر پر تمھاری بہو بیمار دھری ہے، دو مہینے سے۔ روپے دلا دو گے تو چھوٹی لڑکی کے ہاتھ پیلے کر دوں گا۔ ‘‘ وہ کہتے رہے۔
شاید یہی باتیں وہ اسی طرح کہہ کر گئے تھے کیوں کہ اس بار تینوں بری طرح کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ جیوتی کے منہ میں تو چائے تھی، اسے ایک دم سٹکنی پڑی، بری طرح کھانسی آگئی۔تبھی منشی رام سروپ بولے: ’’بابو دیوی سہائے جی!وکیل صاحب کا شکرانہ تو دلواؤ۔‘‘
’’سب دلواؤں گا، فکر مت کرو۔‘‘ انھوں نے منشی جی کی طرف پنجے پھیلا کر تسلی دی۔
منشی جی کھسک کر مینڈک کی طرح مسل اور کتابیں پار کرتے دیوی سہائے جی کے پاس آگئے:’’فکر تو کر ہی نہیں رہے۔ آج توکچھ دلواؤ۔‘‘
’’ابھی کہاں، روپے مل جائیں گے ۔۔۔‘‘ وہ بدھو کی طرح ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ اصل میں انھیں ان لوگوں کی ہنسی کی وجہ نہیں سمجھ آ رہی تھی۔
’’بھیا! بابو لوگوں کو جب تک کچھ کھلواؤ گے پلواؤ گے نہیں، انھیں جوش کیسے آئے گا؟‘‘ منشی ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔
’’منشی جی! تم نے ان کی عرضی داخلہ دے دی؟‘‘ وکیل صاحب نے نئی سگریٹ جلا لی تھی اور بات کرتے وقت ان کی ناک اور منہ سے دھواں نکل رہا تھا۔
تبھی وہ دونوں موکل جن سے پیچھا چھڑا کر وکیل صاحب آئے تھے، کمرے میں آگئے۔ تخت پر کتابیں سنبھال کر انھوں نے پھر سہمی سی نگاہ سے وکیل صاحب کی طرف دیکھا اور اجازت کے انتظار میں اردلی کی طرح کھڑے ہو گئے۔
’’ابھی نہیں صاحب۔‘‘ منشی جی نے وکیل صاحب کی بات کا جواب دیا پھر دیوی سہائے کے کان کے پاس منہ لگا کر کہا:’’بابو دیوی سہائے! ایک روپیہ سات آنے دلواؤ، عرضی داخلہ دینی ہے۔‘‘
’’ایک روپیہ سات آنے! پہلے روپے دیے تھے، سوا سَو۔۔۔‘‘ دیوی سہائے کے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔
’’ارے پہلے روپے تو کورٹ فیس تھی، یہ تو دیکھو، چھ آنے چھاپنے کے۔۔۔‘‘ منشی نے انگلیاں ہوا میں سرگم کی طرح چلائیں جس کا مطلب تھا ٹائپ۔ ’’ایک آنہ کاغذ اور ایک روپے کے سٹامپ۔ لاؤ نکالو۔‘‘
دیوی سہائے نے جیسے مدد کے لیے دیکھا۔ وکیل صاحب اوپر منہ کر کے پنکھے پرآنکھ گڑائے منہ سے دھواں نکالتے کچھ سوچنے لگے تھے۔ تینوں سکھاڑی تاک لگائے گھور رہے تھے کہ اب کیا بے وقوفی کی بات آتی ہے کہ تینوں ہنس پڑیں۔ دیوی سہائے نے پھر اپنی جیبیں ٹٹولیں۔
’’جب تک عرضی نہیں دی جائے گی تب تک اگلی پیشی کیسے ہوگی؟‘‘ منشی انھیں سمجھا رہا تھا۔
انھوں نے بڑے مرے اورکانپتے ہاتھوں سے چاروں جیبیں ٹٹولنے کے بعد کہیں اندر کی جیب سے چشمے کی ایک بہت پرانی ڈبیا نکالی۔ اس کے چاروں طرف کس کر کئی بار ستلی سے لپیٹے دیے گئے تھے۔ سب لوگ ایسے تجسس سے انھیں دیکھنے لگے جیسے ابھی اس میں سے کوئی سانپ نکل آئے گا۔ دیوی سہائے نے ستلی کھول ڈالی۔ پھر بہت سنبھال کر ڈبیا کھولی۔ بہت پرانے نیلے گندے مخمل پر کچھ کاغذ، جن میں ایک پر جنم کنڈلی کے نقشے چمک رہے تھے، ایک ہسپتال کا پرچہ اور ایک ایک روپے کے کچھ نوٹ رکھے تھے۔ انھوں نے ڈبیا تخت پر رکھ دی اور منہ سے انگلی پر تھوک لے کر اس طرح گننے لگے جیسے سو دو سو نوٹ ہوں لیکن وہ تھے چار ہی۔ ایک بار گن کر دوبارہ شروع کیا۔۔۔
’’ابھی دو ایک بار اور گنیں گے۔‘‘ دت نے جیوتی کو بتایا:’’آپ سے نوٹ بھی نہیں گنے جاتے ہیں، لاؤ، میں گنوں۔‘‘ اور ایک طرح سے منشی نے تو روپے ان کے ہاتھ سے چھین لیے۔ وہ روکتے رہ گئے۔
’’منشی جی! ایک آدھ روپیہ ان سے زیادہ لے لیجیے گا، بعد میں ضرورت پڑتی ہے۔ نوٹس کی رجسٹری ہوگی۔‘‘ وکیل صاحب کو جیسے یکدم یاد آ گیا۔
نوکر ٹرے اٹھا لے گیا۔
’’سرکار۔۔۔!‘‘ دیوی سہائے جیسے ایک دم بوکھلا گئے۔ ایک بار منشی جی کی طرف مڑے اور ایک بار وکیل صاحب کی۔
’’سرکار کیا ہوتا ہے؟ پھر ایک عرضی بھی داخل کرنی ہو تو ہمیں رکنا پڑتا ہے۔ ہم تمھارے پیچھے کہاں کہاں مارے پھریں گے؟‘‘ وکیل صاحب نے جھڑکا۔
’’وکیل صاحب کہتے ہیں، تم تو روڈ انسپکٹر کی طرح سڑکیں ناپتے ہو۔‘‘ برج نے پھر زور سے کہا۔ تینوں پھر ہنس پڑے۔ روپے منشی جی نے سب موڑ کر جیب میں رکھ لیے اور تخت پر رکھی ڈبیا کو زور سے بند کر دیا۔
’’دیوی سہائے جی! یہ بی بی جی کہہ رہی ہیں، کچھ مچھلی وچھلی نہیں کھلواؤ گے؟ یہ کہتی ہیں، وکیل صاحب اور منشی جی کو تم کسی نہ کسی طرح سمجھ لو گے، کچھ ہم بابو لوگوں کو بھی مل جائے۔‘‘ دَت نے بڑی سنجیدہ صورت بنا کر جیوتی کی طرف اشارہ کیا۔
روپے چھن جانے سے دیوی سہائے بڑے مایوس ہو گئے تھے۔ منہ پر ایک جھری آتی، ایک جاتی، جیسے بڑے مشتعل ہوں۔ انھوں نے بڑی مر دہ آنکھوں سے جیوتی کی طرف دیکھا، یہ جاننے کے لیے کہ سچ مچ بی بی جی ایسا کہہ سکتی ہیں؟ جیوتی نے کہنی میز پر ٹکا لی تھی اور ہتھیلی پر ٹھوڑی ٹکائے چپ چاپ فلسفیانہ انداز میں یہ سب دیکھ رہی تھی۔ جب تک وہ ہنستی نہیں تھی اس کی آنکھیں بڑی بے رونق اور بجھی بجھی سی رہتی تھیں، منھ ایسا بے خواہش جیسے کبھی ہنسنا مسکرانا اور چمک نام کی چیز اس نے جانی ہی نہ ہو۔ ایک ایسا بجھاپن اور روکھا پن اس کے چہرے پر تھاجو اکثر خشک موضوعات پر کو رات بھر پڑھنے والوں کے چہرے پر آجاتا ہے۔ اس نے کوئی جذبہ نہیں دکھایا۔
’’یہ کہتی ہیں، ہمیں گول والی مچھلی کھلانا، یعنی چپٹی نہیں۔‘‘ برج نے جوڑا۔
وہ کچھ کہیں، اس سے پہلے ہی منشی جی بولے:’’کھلائیں گے صاحب، کھلائیں گے۔ ذرا اِن کا مقدمہ ٹھیک ہو جائے بس۔۔۔ پھر چاہے جتنی کھائیے۔ ان کی چھوٹی لڑکی تو مچھلی بڑی اچھی بناتی ہے۔ آپ سب کی دعوت کریں گے۔‘‘
’’ہمیں کیسے معلوم ہو، ابھی تک تو انھوں نے ایک پان بھی نہیں کھلایا۔‘‘ دت بولا۔
’’کیوں دیوی سہائے جی! دیکھو، بابو لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘ منشی جی نے اس طرح کہا جیسے اس بات کا انھیں ذرا بھی پتا نہیں تھا۔ پھر انھیں سمجھانے کے لہجے میں بولے: ’’ایسے کہیں کچھ کام ہو تا ہے، بابو لوگوں کو خوش رکھا کرو۔ اس تھیلے میں کیا ہے؟‘‘ انھوں نے تھیلے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
دیوی سہائے جیسے خواب سے چونک اٹھے ہوں، انھوں نے جلدی سے تھیلا بچانے کے لیے دوسری طرف رکھ لیا۔ بڑی مشکل سے ہکلا کر بولے:’’کک کک کچھ نہیں۔‘‘
’’ ارے تو ایسے مرے کیوں جاتے ہو؟لاؤ میں دیکھوں۔‘‘ منشی جی نے جھپٹ کر تھیلا چھین لیا۔دیوی سہائے نے اسے پکڑ کر تھوڑا کھینچا لیکن منشی جی کا کھنچاؤ زیادہ تھا۔ انھوں نے بڑی بے بس اور بے حس نظر سے چاروں طرف دیکھا۔
منشی جی نے تھیلا ہاتھ میں لے کر انھیں سمجھایا: ’’جب تک بابو لوگوں کو خوش نہیں کرو گے، کیسے یہ لوگ وکیل صاحب سے آپ کے کام کی سفارش کریں گے۔‘‘ کہہ کر انھوں نے تھیلے کی آپس میں بندھی تنیاں کھول ڈالیں اور اس میں سے ایک میلا تولیہ نکال کر ایک طرف رکھ دیا۔
دیوی سہائے کے ہونٹ پھڑپھڑائے۔ انھوں نے پھر ایک بار اعتراض کرنے کے لیے ہاتھ پھیلائے لیکن منشی جی نے جھڑک دیا۔ اس نے تھیلے سے دو شیشیاں نکال کر تخت پر کھڑی کر دی تھیں۔۔۔ ایک چھوٹی، ایک بڑی۔ دونوں میں دوا بھری اور کاغذ کے خوراکوں کے نشان کاٹ کر چپکائے ہوئے تھے۔ سب لوگ پھر غور سے دیکھنے لگے تھے۔۔۔ دیکھیں، اب اس میں سے کیا نکلتا ہے۔
منشی جی نے چار سنگترے، تین موسمی اور ایک سیب نکال کر میز کے سرے پر رکھ لیے۔
’’آج تو دیوی سہائے جی! بڑا مال لیے جا رہے ہو اور کہہ رہے تھے کچھ نہیں ہے۔‘‘ دوسرا منشی وہیں دیوار کے سہارے سے بولا۔
’’ارے صاحب! یہ دیوی سہائے جی بڑے خوش مزاج آدمی ہیں۔ ذرا آپ کی تھاہ لے رہے تھے۔‘‘ طنز سے مسکرا کر منشی رام سروپ نے کہا: ’’کیوں، ہے نا دیوی سہائے جی؟‘‘
’’تو یہ ہمارے لیے لائے ہو۔‘‘ برج کی آنکھوں میں چمک آگئی۔
’’ہاں! ہاں! کھائیے۔‘‘ اس بار بڑی مشکل سے جیسے گلے میں اٹکے کف کو صاف کر کے، دیوی سہائے مسکرائے۔۔۔ لگا، رونے لگیں گے۔
’’ارے کھائیے بابو صاحب! آپ تو دیکھ رہے ہیں۔‘‘ منشی جی نے سنگترے کے چھلکے میں انگوٹھا گڑا کر چھیل ڈالا۔
پھلوں میں حصے بانٹ ہو گئے اور دیوی سہائے نے مرے مرے ہاتھ سے تولیہ تھیلے میں ڈالا، اوپر سے شیشیاں ٹھونسیں اور تھیلا کھڑا کر کے چپ چاپ سنگترے اور موسمیاں چوسی جاتی دیکھتے رہے۔
تینوں سکھاڑی بڑے مطمئن تھے۔ کچھ حصہ منشیوں کو بھی مل گیا تھا۔ وکیل صاحب بڑے غور سے سامنے کھلی کتاب میں کچھ پڑھتے ہوئے دوسرے ہاتھ میں چھلے ہوئے سنگترے کی پھانک پکڑے رہے۔۔۔ یاد آجاتا منہ میں ایک ڈال لیتے۔ دیوی سہائے بدھو کی طرح ادھر ادھر دیکھتے رہے۔ سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ انھوں نے چھڑی اٹھائی، تھیلا پکڑا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’تو بابو جی میں جاؤں؟‘‘ کچھ دیر کھڑے رہ کر انھوں نے وکیل صاحب سے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
وکیل صاحب سوتے سے جاگے۔ خوب زور سے سرد ہو کر بولے: ’’ہاں! اب تم جاؤ۔۔۔ اور ہاں، فکر مت کرو۔۔۔ سب ہو جائے گا۔ تمھارے پیسے ہم دلا دیں گے۔‘‘ وہ پھر ڈوب گئے۔
منشی نے تبھی کہا: ’’ایسے تھوڑے ہی ملتے ہیں روپے۔ سب کو تو تم نے خوش کر دیا، منشی جی کیا بھاڑ میں جاپڑیں، ارے، ایک دو آنے بیڑی کے تو دیتے جاتے۔‘‘ اور اس نے بے شرم اور بے لاگ ہو کر دیوی سہائے جی کی ساری جیبیں اوپر سے ٹٹول ڈالیں، پھر ٹینٹ بھی اس طرح ٹٹولی جیسے تھانے میں کسی جیب کٹ کی تلاشی لی جاتی ہے۔ کچھ نہیں تھا۔
’’جانے دو بیچارے کو، زیادہ تنگ مت کرو۔‘‘ وکیل صاحب نے بیچ میں ڈسٹرب ہو کر کہا۔
’’اچھا جائیے لیکن بھولنا مت۔۔۔ ‘‘ منشی نے کافی ہمدردانہ انداز میں کہا۔
دیوی سہائے پاؤں گھسٹاتے گھسٹاتے باہر کی طرف چل دیے۔ جیوتی ایک دم محتاط ہو کر اپنی انگلی میز پر رکھ رکھ کربتا رہی تھی: ’’پہلے یہ کہہ رہے تھے۔۔۔ کیسے انھوں نے ’’ویری گڈ‘‘ بیان دیا تھا۔ جج نے پوچھا یہ بات ہوئی؟ انھوں نے کہا ’نو لکھو، نو‘ اور اس وقت تک اپنا بیان روکے رکھا جب تک برج نے ’نو‘ نہیں لکھ لیا۔۔۔‘‘ تینوں پھر ہنس پڑے۔
’’بے وقوف ہے۔‘‘ وکیل صاحب کہہ ہی رہے تھے کہ باہر کسی کورٹ میں چپڑاسی نے اونچی آواز میں بانگ دی۔۔۔ ’’رگھو مل منے لال حاضر ہو و و و۔۔۔! ‘‘
لنچ ٹائم ختم ہو گیا تھا۔وکیل صاحب جھٹکے سے اُٹھے۔ ان کے گلے کی دونوں پٹیاں او ر کالر ہلے۔
اس وقت باہر وکیل صاحب کے دروازے کے سامنے برآمدے میں کھڑے دیوی سہائے نے تھیلے میں سے ایک ایک کر کے دونوں شیشیاں نکالیں اور ڈاٹ کھول کر کروندے کی جھاڑی میں اوندھی کر دیں۔ جب ساری دوا پھیل گئی تو انھیں جیوں کی تیوں تھیلے میں ٹھونسا۔ زور سے ناک صاف کی اور انگلیوں کو کھمبے سے پونچھتے ہوئے ڈگمگاتے ہوئے قدموں سے سیڑھیاں اترنے لگے۔ تبھی برآمدے سے کالی مرغی کی طرح وکیل صاحب گزر گئے۔۔۔ دوچوزوں کی طرح ان کے ساتھ موکل دونوں طرف لگے تھے۔