میں تیرے قہقہے میں دھنسا جا رہا ہوں
یا تیری رندھی ہوئی ہچکی میں
دونوں میں ایک طویل سکتہ تھا
یہ کوئی دلدل ہے شاید
یا کوئی شہرِ مدفون
وقت کی سِلوں کی عبارتیں مٹ رہی ہیں
خاموشی کی چھپکلی زبان سے اپنے ڈیلے صاف کرتی ہے

(خدایا کیا دھنسنا ہمارا مقدر ہے
اس ماتھے پر تیرے ناخنوں کا لکھا
جبہ سائی کرتے مٹ نہیں سکتا؟ )

سب ہی تو دھنس رہے ہیں
تری برہنہ کمر کا جادہ
ترے سوالوں کی اڑتی گرد
ترے ہونٹوں پر میرا آخری بوسہ
یہ بکھری کتابیں
یہ بوگس فلسفے
میری پانچ گھنٹے سے کچھ کم کی نیند
اور وہ فشارِ خون کہ رگوں کے چیتھڑے بکھیر دے
چمن کو فقط ایک بار دیکھ لینے کی آخری چاہ
اور پھولوں کی دکان میں ملا ایک بلبل کا لاشہ
میرا دو دن کا فاقہ
یہ ابلے آلوؤں کے سوکھے چھلکے
یادداشت کے کواڑوں سے آتی
"کلفی کھوئے والی” کی صدا
2 روپے کا بند سموسہ
ایک روپے کی چھے کولا ٹافیاں
اور چونی کی طلسمی کہانی کا گرانڈیل جن ۔۔۔
سب ہی تو دھنس رہے ہیں

کیا حکم ہے میرے آقا
کہیے تو آپ کی روح کھا لوں، کہیے تو آپ کا جسم
کھانا ہو تو دل سا یہ شعلہ فشاں کھا
وہ شعلہ فشاں جو سینوں کو آسماں بنا دے
یہ جگر پارے کھا
کہ انھیں کھاتے تجھے ستارے نگلنے کا گماں ہو گا
دیکھ یہاں ان دو کنوؤں کو
آبِ آزردگی کے سرچشمے،
جن کا نشہ ہر شرابِ ناب سے بہتر تھا
سوکھ گئے
اے رحمدل مخلوق
مجھے دھنسنے دے کہ دھسنا میرا مقدر ہے
پر کسی ایسے ہاویہ میں
جس کا کوئی اخیر ہو
اے رحمدل مخلوق
تو بن دھوئیں کی آگ سے بنایا گیا
میری خاک کو بھی اس کے اصل سے ہٹا دے
اسے وقت کی مُٹھی سے سرکنا بھلا دے
اے رحمدل مخلوق،
خداؤں نے ہم سے منہ پھیر لیے
اگر ہم پر رحم کر سکے
تو طلسمی کہانی سے نکل آ
اور اس سکتہ کو انت بنا دے

Leave a Reply