روشنی کا لہو

عمران ازفر: وہ رات تھی بہت سیاہ رات تھی جو ہاتھ بھر کے فاصلے سے کیسے مُجھ کو ڈس گئی

یاد ایک جھولنا ہے

عمران ازفر: تمام رات آسماں تھپکتا ہے ہر ایک تارے کی کمر دمِ سحر غلافِ شب لپیٹ لے جو دن جا چکا ہے اور دوپہر کا وقت ہے

تمنا آنکھ بھرتی ہے

عمران ازفر: وہ قصہ رات کی دیوار پر لکھا ہوا ہے نہ آنکھوں میں سِمٹتا ہے نہ سانسوں سے سُلجھتا ہے کوئی گُل آبی ریشم ہے جو پہلو سے لپٹتا ہے

جہلم پر اترتی شام

عمران ازفر:لال گلابی ہو کر سورج جانے کس کو ڈھونڈھ رہا ہے دور اندھیرے سے کمرے کی اندھی ٹوٹی کھڑکی کھولے

دریا مرتا جاتا ہے

عمران ازفر: گرتے پڑتے یگ میں تم بھی شام ڈھلے تک آ جانا کہ اس سے پہلے چرخہ کاتتے، ریشم بنتے، خواب سجاتے ہاتھوں میں جب چھید پڑیں تو بوڑھا دریا کچی مٹی کے پہلو میں لحظہ لحظہ مرتا جائے

آسمان زیور ہے

عمران ازفر: چھے سمتوں میں سب سمتوں کا رس بھرا ہے گاڑھا اور کسیلا مادہ شب کی گرمی سے جو پک کر آنکھ کے رستے اب گرتا ہے