دنیا شاعروں کے سپرد کر دو
مطمئن رہو
شاعر لفظوں کو بیدار کرتے ہیں
اور صفحوں پر پھول اور گندم کاڑھتے ہیں
دنیا شاعروں کے سپرد کر دو
بیابان اور بہار دونوں خوشحال ہو جائیں گے
اور دونوں ہمیشہ جوان رہیں گے
دنیا شاعروں کے سپرد کر دو
اطمینان رکھو کہ سپاہی ترانے
گاتے ہوئے عاشق بن جائیں گے
اور بندوق پر سر رکھ کر ہمیشہ
کے لئے سو جائیں گے
اور کبھی بیدار نہیں ہوں گے
دنیا شاعروں کے سپرد کر دو
یہ دیواروں کو گرا دیں گے
اور سرحدوں کو قوس قزح کی
طرح خوش نما کر دیں گے
درخت چلتے ہوئے سڑکوں پر آ جائیں گے
اور بسوں کی قطار میں
شگوفوں کی طرح بیٹھ جائیں گے
پرندے ان پر سوار ہو جائیں گے
اور اپنے ساتھی شہریوں کو
سورج کی روشنی سے
متعارف کروائیں گے
کیا تم یہی نہیں چاہتے تھے؟
پس کیوں بے وجہ خاموش کھڑے ہو؟
اس تامل اور ہچکچاہٹ کو ختم کرو
اور دنیا شاعروں کے حوالے کرو
اگر یہ سرگرداں مصرعے صندوق
سے باہر نہ آئے تو بوڑھے ہو جائیں گے
اور کبھی بھی پرندہ نہیں بن پائیں گے
اور پرندوں کے بغیر دنیا ایک جہنم ہے
جو ہر وقت آگ برساتی رہتی ہے
محمد رضا عبد الملکیان
ترجمہ : مدثر عباس