Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

نعمت خانہ – سترہویں قسط

test-ghori

test-ghori

04 اگست, 2017
اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

نومبر کے آخری دن تھے یا پھر دسمبرکی شروعات۔ مجھے کچھ ٹھیک سے یاد نہیں آرہا ہے۔ بہرحال زمانہ یہی تھا جب نیازوں اور شادی بیاہوںکا دور آپہنچا۔ ان دنوںمیں نے جتنی دعوتیں کھائیں، ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ میں چونکہ اب بھی گھر میں سب سے چھوٹا تھا بلکہ بچّہ ہی تصور کیا جاتا تھا۔ اس لیے گھر کا ہر فرد دعوت میں مجھے ضرور ساتھ لے جاتا تھا۔ چاہے وہ محلّے کی کوئی شادی ہو یا پھر رشتہ داروں کے یہاں۔ وہ ایک عجیب منظر ہوتا۔ اس زمانے میں شادی ہال یا ہوٹلوں کا رواج نہ تھا۔ محلّے کا کوئی ایک نسبتاً بڑا مکان لے لیا جاتا۔ اس کے آنگن یا دالان میں لکڑی کی تین چار میزیں ملاکر لگا دی جاتیں، ان میزوں پر کالے میل اور سالن اور چکنائی کی موٹی موٹی تہیں جمی ہوتیں۔ میز پوش اگر ہوتے تو سالن کے پیلے پیلے دھبّوں سے بالکل رنگے ہوئے اور پانی سے تر بھی۔ میزوں کے دونوں جانب قطار سے لوہے کی بدرنگ اور بے حد تکلیف دہ کرسیاں لگائی جاتیں، میزیں اور کرسیاں دونوں اوپر نیچے ہلتی رہتی تھیں۔

لوگ اپنی باری کا انتظار الگ بیٹھ کر کم کرتے، وہ کرسیوں کے پیچھے اس طرح کھڑے رہتے جیسے کرسی غائب نہ ہو جائے۔ وہ کھانے والوںکا ہر ہرنوالہ گنتے اور بے چینی کے ساتھ کبھی ایک پاؤں پر زور دے کر ٹیڑھے ہو جاتے تو کبھی دوسرے پیر پر۔ کھانے والے خود بہت جلدی جلدی کھاتے۔ اکثر بغیر چبائے ہی نوالہ منھ میں رکھ کر نگل جاتے، وہ مربھکّوں کی طرح کھانے پر ٹوٹتے تھے۔

کھانے میں بہت زیادہ اشیاء نہیں ہوتی تھیں۔ زیادہ تر قورمہ روٹی (جسے وہ لوگ گوشت روٹی کہتے تھے) ورنہ اگر صاحب حیثیت لوگ ہوتے تھے تو پلاؤ اور زردہ بھی، ہمارے اطراف میں بریانی کا رواج نہیں تھا، حالانکہ آج کل تو پلاؤ کو بھی بریانی ہی کہا جاتا ہے۔
روٹیاں خمیری اور تندوری ہوا کرتیں۔ ان روٹیوں کا حجم بہت بڑا ہوتا،تقریباً ایک تھالی جتنا۔

کھانا لا لاکر رکھنے والے بہت شور مچاتے، ادھر اُدھر سے ایک دوسرے کوآواز لگاتے اوربے حد حواس باختہ نظر آتے۔ اکثر قورمے کا ڈونگہ کسی کھانے والے کے سر پر بھی چھلک جاتا، ایک ہائے توبہ مچی رہتی۔

ڈونگہ جیسے ہی میز پر رکھاجاتا، لوگ اُس میں سے بہتر بوٹیاں اور تار یعنی روغن نکالنے کے لیے ایک ساتھ جھپٹتے۔ کبھی کبھی ڈونگہ میز پر ہی پلٹ جاتا، مگر کھانے والوں کو اس کی مطلق پروا نہ ہوتی۔کوئی کسی کو نہیں پوچھتا، سب کو اپنی اپنی آنتوں کی فکر ہوتی۔ یہ ایسی ہی نفسا نفسی کا منظر ہوتا جو شاید میدانِ حشر میں بھی نہ دکھائی دے۔

میزوں کے پاس المونیم کے ٹب رکھے رہتے جس میں جھوٹی رکابیاں پڑی رہتیں۔ رکابیاں یا تو المونیم کی ہوتیں یا پھر سفید تام چینی کی۔ انھیں ٹبوں میںبوٹیاں، ہڈّیاں اور روٹیوں کے پانی سے تر پھُولے ہوئے، ٹکڑے بھی بھرے رہتے جن پر مکّھیاں ہی مکّھیاں بھنبھناتی رہتیں۔
اس قسم کے ایک دوسرے ٹب میں پینے کا پانی بھرا رہتا۔ اگر گرمیوں کے دن ہوتے تو ٹب پر لکڑی کا ایک تختہ رکھ کر اُس پربرف کی سلّیاں جما دی جاتیں۔ برف پگھل پگھل کر پانی میں گرتارہتا اور اُسے ٹھنڈا کرتا رہتا۔ اسی ٹب میں المونیم کے جگ ڈال ڈال کر پانی بھر کر میزوں پر رکھ دیا جاتا۔ بمشکل دو تین گلاس (وہ بھی المونیم کے ہی ہوتے)میز پر رکھے ہوتے یا اِدھر اُدھر لڑھکتے پھرتے۔

کھانے والے،کھانا خوب برباد کرتے۔ رکابیوں میں ڈھیر سا سالن، ہڈّیاں اور چکنی بوٹیاں نکالتے اور ناک تک کھانا ٹھونس لینے کے بعد ایسے ہی چھوڑ کر اُٹھ جاتے۔ وہ اس بے ہنگم انداز سے اُٹھتے کہ کرسیاں اُلٹتے اُلٹتے بچتیں اور میزیں اتنے زور سے ہلتیں کہ پانی سے بھرے جگ اُلٹ جاتے۔

روٹیاں بھی خوب برباد ہوتیں، بلکہ اُن کی تو بے حد بے حرمتی بھی کی جاتی۔ میں قسمیہ کہتا ہوں کہ میں نے کئی باریش حضرات کو اپنی سفید داڑھی پر لگے ہوئے شوربے اور مسالے کو روٹیوں کے ٹکڑے سے صاف کرتے دیکھا ہے۔ بالکل اس طرح جیسے آج کل لوگ نیپکن کا استعمال کرتے ہیں۔ روٹیاں ہاتھ پونچھنے، منھ، ہونٹ اور ٹھوڑی صاف کرنے اور مرچ کی زیادتی کے سبب ناک سے نکلتے پانی کو صاف کرنے کے لیے اور شوربے میں بھیگی داڑھیاں پونچھنے کے لیے ایک بہترین اور مفت کے رومال کا کام انجام دیتی تھیں۔
اس ہنگامے اور شور پر طرّہ یہ تھا کہ لاؤڈ اسپیکر بھی چھت پر کہیں فٹ ہوتا اور اُس کا رُخ کھانوں کی جانب ہی ہوتا۔ لاؤڈ اسپیکر پر یا توکسی نئی فلم کے واہیات گانوں کے ریکارڈ کان پھاڑ دینے والی آواز میں بجائے جاتے یا پھر حبیب پینٹر کی قوالیاں۔
(آج کی بوفے دعوتوں میں بھی جہاں سب کھڑے ہوکر اپنا کھانا نکالتے ہیں، اور کھڑے ہوکر کھانا کھاتے ہیں، نوعیت کے اعتبار سے کوئی بڑا فرق نہیں ہے)

کیا یہ میدانِ جنگ نہیں تھا۔

ہاں! ایک ایسا میدانِ جنگ جس میںانسان ایک دوسرے سے، اپنے اپنے دانتوں، اپنے جبڑوں، اپنی زبانوں اور اپنی آنتوں کے ذریعے لڑتے ہیں۔

یہی سب اُن کے ہتھیار ہیں جنہیں چلائے جانے کی لذت میں شرابور ہوکر وہ ایک دوسرے کی انسانی بھوک کا شکار کرتے ہیں۔
کون تھے وہ لوگ جو بھوک برداشت کرنے کے لیے پیٹ پر پتھّر باندھ لیا کرتے تھے؟

میں نے ایسے لوگ نہیں دیکھے۔ میں نے تو انسانوں کو اپنی اپنی آنتوں میں پتھّر باندھ کر ایک دوسرے کی طرف پھانسی کے پھندے کی طرح پھینکتے دیکھا ہے۔ ایک کا گلا دوسرے کی آنتوں میں پھنسا ہوا ہے۔ آنتوں کی لمبائی خاص طور پر چھوٹی آنت کی لمبائی تو خدا کی پناہ!

خود میں بھی اسی بے رحم کھیل میں شامل ہوں۔ جاڑوں کی دوپہر میں، زمیندار گھرانے کی روایت کو سنبھالے ہوے ہم سب دیسی گھی میں ڈبو ڈبوکر اُرد کی دال کی کالی کھچڑی کھاتے اور پھر سو جاتے۔ باقاعدہ لحاف اوڑھ کر سو جاتے، اور پھرعصر کے وقت جب اُٹھتے تو سب کا منھ سوجا سوجا اور آنکھیں چھوٹی چھوٹی نظر آتیں۔ چاول اور ماش کی دال کا بادی پن اِس حلیے کا ذمہ دار ہوتا۔
خود میرا بھی یہی حلیہ ہوتا۔ میں آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتا اور شرمندہ ہوجاتا۔ وہ آئینہ جو دالان کے اُس حصّے میں لگا تھا جہاں سے باورچی خانہ بھی آئینے میں صاف نظر آتا تھا۔ خاص طور پر اُس کا چولھا اور ایک طرف رکھا یہ بڑا سا کالا توا۔

یہ سب مجھے شرمندہ کرتا تھا اور کرتا آیا ہے، مگر محض شرمندگی سے کیا ہوتا ہے؟

انسان کب سے شرمندہ ہو تا آیا ہے مگر اُس کی شرمندگی دنیا کا کوڑا کرکٹ صاف کرنے کے لیے کبھی جھاڑو نہ بن سکی۔
احساسِ جرم، شرمندگی، اپنے گناہوں کی فہرست، سب کو لیے لیے میں بھی زندگی جیتا رہا اورجیسے جیسے عمر بڑھتی گئی ویسے ویسے میری زندگی میں بھیانک واقعات بھی بڑھتے گئے۔ کھانا کھانے سے زیادہ خوفناک گناہ بھی مجھ سے سرزد ہوئے ہیں۔ ایسے بھیانک واقعات جو ایک خفیہ تحریر کی مانند میرے دل میں ہمیشہ کے لیے دفن ہیں، مگر اب جب مجھے اپنے بچپن کے کھلونوں کو توڑ کر اُن کا پوسٹ مارٹم کرنے کی دھن سوار ہوگئی ہے، تو پھر مرے حافظے کو اُس مردہ خانے کی طرف رُخ کرنا ہی پڑے گا۔
ذہن کے مردہ خانوں میں مکڑیوں کے جالوں میں ٹھنڈی باسی سے لپٹی لاشیں اور خون کی بو میری یادداشت کو اُدھر— اس طرح کھینچے لیے جارہی ہے جیسے کوئی قصائی کسی گائے کے گلے میں رسّی ڈال کر اُسے مذبح کی طرف لے جاتا ہے۔

لاؤ تو ذرا دیکھوں، رسّی کا یہ پھندا میرے گلے کے ناپ کا ہے بھی یا نہیں؟