Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

بلّو، پنکی اور سابو

test-ghori

test-ghori

03 جنوری, 2017
جے پی رائے دہلی ہائی کورٹ میں کئی سال سے پریکٹس کر رہے تھے۔ وکلاء کے ساتھ مصیبت یہ ہے کی وہ زندگی بھر پریکٹس کرتے ہیں اور اس کے بعد براہ راست کم ہی ریٹائر ہوتے ہیں، خاص کر وہ جن کو مشق کے بعد استادی بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ جے پی رائے ایسے ہی وکیل تھے اور ان کی پریکٹس بھی بڑی جمی جمائی ہوئی تھی۔ لیکن یہ کہانی ان کی نہیں بلکہ ان کے تحت پریکٹس کرنے والی اور ان کی اسسٹنٹ نیلم پانڈے کی ہے۔ نیلم، عمر تیس سال، قد مجھولا، رنگ گندمی، غیر شادی شدہ۔ نیلم تین سال سے جے۔ پی رائے کے یہاں کام کر رہی تھی۔ اس کا بنیادی کام کیس سٹڈی کرنا اور اس کے کمزور نکات کو تلاش کرنے کی کوشش کرنا، موکل سے میٹنگ طے کرنا، پیسوں کی لین دین طے کرنا وغیرہ تھا۔ گزشتہ چھ سات مہینوں سے وہ کوئی چھوٹا موٹا کیس آزادانہ طور پر لڑنا چاہتی تھی، ایک دو بار اس نے جے۔ پی رائے کو اس بات کا اشارہ بھی دیا پر انہوں نے ان اشاروں کو نظر انداز کر دیا۔ لیکن گزشتہ کیس میں نیلم کی دی ہوئی تمام باتیں اور اصطلاحات کیس کے لئے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی تھیں، اس لئے نیا کیس، جو باپ بیٹے کے درمیان زمین کے جھگڑے کا تھا، انہوں نے نیلم کو دے دیا۔

نیلم اپنے موکل کا انتظار کر رہی تھی۔ تاہم اس نے پہلے ڈھیروں موکلوں سے ڈیل کیا تھا، لیکن یہ پہلا موکل تھا جس کا کیس وہ خود لڑنے والی تھی اس لیے پورا بدن دماغ بن کر سوچ رہا تھا۔ تبھی آفس کے دروازے پہ دستک ہوئی۔ نیلم نروس تو تھی ہی، یہ دستک بھی سیدھا اس کی دھڑکن پر بجی تھی، جی دھک سے رہ گیا اس کا۔ وہ سنبھل کر بیٹھ گئی۔ جیسے سنبھل کر بیٹھنا کیس جیتنے کی پہلی سیڑھی تھا۔ نیلم کے ‘کم ان’ کہنے کے ساتھ ہی وہ دستک چہرہ بنی۔ ایک جانا پہچانا چہرہ۔ حالانکہ اس کے چہرے پر گزرے بائیس سالوں کی دھول جمی ہوئی تھی لیکن وہ دھول اس کی شناخت چھپانے کے لئے کافی نہیں تھی۔ نیلم جس کرسی پر بیٹھی تھی اچانک جیسے وہ جلانے لگی۔ ایک بچھو جو بہت دن سے اس کے اندر سویا ہوا تھا اس دن پھر جاگ گیا۔ ایک درد سا اٹھا اور وہ گرنے گرنے کو ہوئی۔ ٹیبل پر رکھا ہوا پیپر ویٹ اس کے ہاتھ سے لگا اور بائیس سال پیچھے جا گرا، جب وہ آٹھ سال کی تھی۔۔

جہانگیر پوری میں نیلم کے گھر کے بغل میں ہی اس کے دوست سونو کا گھر تھا۔ دونوں پکے دوست تھے، اور ان کی پکی دوستی میں سیمنٹ کا کام کامکس نے کیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے کامکس ادل بدل کر پڑھا کرتے تھے۔ اسی تبادلہ میں ان دونوں نے ایک دوسرے کے نام بھی کامکس کے کرداروں سے بدل دیے۔ نیلم سونو کو بلّو کہا کرتی تھی تو سونو نیلم کو پنکی کہا کرتا تھا۔ اور ان ناموں کے سامنے دونوں کو اپنے ماں باپ کی طرف سے رکھا گیا نام بیکار لگتا تھا۔ سونو بہت چاہتا تھا کہ وہ بلّو جیسا ہیئر اسٹائل رکھے، لیکن ذرا سے بال لمبے ہوتے تھے کہ اسکول میں ریاضی کے ماسٹر کو اس کو پیٹنے کا من کرنے لگتا تھا، اور وہ سب سے پہلے اس کا بال پکڑ کر ہی گھمانے لگتے تھے۔ ہاں نیلم ایک ہیئربینڈ لگا کر اپنے آپ کو پنکی ضرور سمجھنے لگتی تھی۔ اسے بس افسوس اس بات کا تھا کہ اس کے پاس کوئی گلہری نہیں تھی جس کا نام وہ کامکس والی پنکی کی طرح كٹ كٹ رکھے، اس لئے اس نے محلے کی ایک بیمار کتیا کا نام كٹ كٹ رکھ دیا۔ ایک دن نیلم کا من كٹ كٹ کے ساتھ کھیلنے کا ہوا اور كٹ كٹ کا من نیلم کو کاٹنے کا۔ كٹ كٹ نیلم کو کاٹنے کو آگے بڑھی ہی تھی کی سونو کے پاپا آ گئے، اور كٹ كٹ کو ایک کک مار کر بھگا دیا۔ چچا چودھری کی کامکس میں سابو کی آمد بھی اکثر ایسے ہی موقعوں پر ہوتی ہے۔ جب مصیبت کسی اور طریقے سے نہیں ٹل پاتی ہے تب سابو آتا ہے۔۔۔

سونو کے پاپا اچھے خاصے لمبے چوڑے آدمی تھے۔ محلے بھر میں ان کی بہادری اور پہلوانی کے چرچے ہوتے تھے، جن میں سے زیادہ تر چرچے ان باتوں کے تھے جو باتیں خود خود سونو کے پاپا نے پھیلائی تھیں۔ انہوں نے ایک بار اپنے گھر میں گھسے ایک مريل چور کو پکڑا تھا اور اس کو پیٹھ پر لاد کر تھانے لے گئے تھے۔ نیلم نے جب یہ منظر دیکھا تھا تو اسے سابو یاد آ گیا تھا۔ انہی تمام وجوہات سے نیلم انہیں سابو انکل کہتی تھی، ایسا سابو جس کا کوئی چچا چودھری نہیں تھا۔ سابو انکل بھی نیلم کو اپنے بیٹے سونو کی ہی طرح پنکی بلاتے تھے۔۔۔

سونوجب بہت چھوٹا تھا تبھی اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ سابو انکل نے اپنی بیوی کی یاد سے بچنے کے لئے ان سے منسلک ہر چیز خود سے دور کر دی تھی۔ اس وجہ سے سونو کو بہت وقت تک پتہ بھی نہیں تھا کہ اس کی کوئی ماں بھی تھی۔ ایک دن اسکول میں جب اس نے جانا کہ ہر بچے کی ایک ممی ہوتی ہے تو وہ پہلے بہت اداس ہوا، بعد میں بہت رویا۔ جب وہ رو رہا تھا تو نیلم اس کے ساتھ تھی۔ نیلم نے اسے چپ کرایا اوراسے اس کے گھر تک چھوڑا۔ یہ پہلی بار تھا جب نیلم اس کے گھر گئی تھی۔ وہ جب رو دھو کے چپ ہو گیا تو اس نے نیلم سے جانے کے لئے کہا کیوں کہ اب اس کے کامکس پڑھنے کا وقت ہو چلا تھا۔ ‘کامکس۔۔۔’ یہ لفظ سنتے ہی نیلم اچھل پڑی۔ نیلم نے اسے بتایا کے اس کے پاس بھی ڈھیر ساری کامکس ہے۔ اسے اپنی تمام کامکس کے نام بھی یاد تھے۔ سونو نے اس کے سامنے کامکس ادل بدل کر پڑھنے کی تجویز پیش کی، ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ اس کی بات مان جاتی ہے تو وہ اسے کلاس میں بھی کامکس پڑھنے کا طریقہ بتائے گا۔ نیلم لمبی کتابوں اور كاپيوں میں چھپا کر کامکس پڑھنے کا طریقہ پہلے سے ہی جانتے تھی لیکن پھر بھی اس نے سونو کی بات مان لی۔۔۔

نیلم کئی بار سونو کی کامکس واپس کرکے اپنی کامکس لینے یا اپنی کامکس دے کے اس کی کامکس لینے اس کے گھر جاتی تھی، تواس کی ملاقات سابو انکل سے ہو جاتی تھی، اور نیلم کو دیکھتے ہی ان کا جی اسے گدگدانے کا کرنے لگتا تھا۔ وہ نیلم کو خوب گدگداتے تھے اور گدگداتے ہوئے اپنے منہ سے گدگدی کرنے کی آواز ‘گدگدگدگد’ نکالتے تھے۔نیلم کو کہیں کہیں خوب گدگدی ہوتی تھی کہیں ذرہ بھی نہیں۔ نیلم کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ آخر وہ ایسی جگہوں پر زیادہ کیوں گدگداتے تھے جہاں گدگدی نہیں ہوتی۔ کئی بار گدگداتے گدگداتے وہ اس کے گالوں پر اپنی داڑھی رگڑنے لگتے تھے۔ وہ ہنستے ہنستے ہی چیختی تھی اور ان سب باتوں کو صرف ایک کھیل سمجھتی تھی۔ لیکن اس کھیل میں اسے درد ہوتا تھا۔ ایسا بھی کوئی کھیل ہوتا ہے بھلا؟ درد والا۔۔ وہ اس کھیل سے بچنا چاہتی تھی۔ کبھی کبھی جب گھر پہ جب سونو نہیں ملتا تھا تو سابو انکل اسے پہلے جی بھر کر گدگداتے اور پھر ہانپتے ہوئے کہتے ‘بیٹا ! جب سونو آ جائے تب آنا’۔ اور وہ ‘جی نکل’ کہہ کر بدن میں ہلکا درد سمیٹے ہوئے لوٹ جاتی تھی۔۔

بعد میں سونو کے گھر وہ سابو انکل کی موجودگی کی تحقیقات کرکے جانے لگی۔ وہ ہر طرح سے ان گدگدیوں سے بچنا چاہتی تھی۔ کئی بار جب اسے سابو انکل نہیں ملے تو وہ لاپرواہ ہو گئی اور ایک دن پکڑی گئی۔ سونو گھر میں نہیں تھا، صرف سابو انکل تھے اور انہوں نے صرف چڈی پہنی تھی، ٹھیک کامکس والے سابو کی طرح، لیکن ان کے کانوں میں نہ سابو جیسے کنڈل تھے نہ پیروں میں گم بوٹ۔ وہ نیلم کے قریب آئے اور اسے دیر تک گدگداتے رہے۔ نیلم پہلے ہنسی، پھر ہنستے ہنستے چیخی، پھر صرف چیختی رہی۔ انہوں نے ایک ہاتھ سے اس کا منہ بند کر دیا اور دوسرے ہاتھ سے گدگدانے لگے۔ ان کا دوسرا ہاتھ بہت دیر تک اسے گدگداتا رہا۔ وہ جب اٹھی تو اس کی ٹانگوں کے درمیان درد ہو رہا تھا۔ ایسے جیسے کوئی بچھو ڈنک مار رہا ہو۔ وہ ایک قدم چل رہی تھی تو ایک ڈنک لگ رہا تھا۔ ایک قدم۔ ایک ڈنک۔

وہ کسی طرح گھر پہنچی اور سو گئی۔ ماں نے اسے کھانا کھلانے کی کوشش کی مگر وہ نہیں اٹھی۔ رات میں اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ زمین پر گری ہوئی ہے اور سامنے کھڑے ایک نقاب پوش کے دونوں ہاتھوں سے ڈھیر سارے بچھو نکل رہے ہیں۔ وہ بچھو ٹھیک اس کی ٹانگوں کے درمیان بڑھ رہے ہیں۔ وہ بھاگنا چاہ رہی ہے لیکن بھاگ نہیں پا رہی ہے۔ بھاگنے کی اسی کوشش میں وہ چیختے ہوئے اٹھ بیٹھی۔ اس کی چیخ کا ہاتھ تھام کر وہاں آئی ماں نے جب اسے چھوا تو اس کا بدن بخار سے بھیگا ہوا تھا۔۔

والد کی دی ہوئی دوائی سے دو دن بعد بخار تو اتر گیا لیکن بچھو نیلم کے اندر ہی رہ گیا اور وقت بے وقت وہ اسے ڈنک مارتا رہا۔ نیلم کی نیند ایک کمرہ تھا جس میں وہ نقاب پوش ہمیشہ کے لئے آ گیا تھا۔ اور نیلم کو خواب میں بھی معلوم رہتا تھا کہ اس نقاب کے پیچھے کون ہے؟ نیلم جیسے ہی نیند کے اس کمرے میں پہنچتی تھی، گر جاتی تھی، کوئی پوشیدہ ہاتھ زمین سے نکل کر جیسے اس کے ہاتھ پاؤں پکڑ لیتا تھا اور اس آدمی کے ہاتھوں سے بچھو نکل کر اس کی ٹانگوں کے بيچوں بیچ بڑھنے لگتے تھے۔ بچھوؤں سے بچنے کی کوشش میں وہ ہر بار جاگ جاتی تھی۔ نیند کے اس کمرے سے باہر آنے کا آخر یہی ایک طریقہ تھا۔

نیلم کی آنکھوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ رتجگوں کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔ کئی دن تک جب وہ سونو کے گھر نہیں گئی تو ایک دن اس کے گھر سونو خود ہی چلا آیا۔ وہ اس کے لئے بلّو کی نئی کامکس لایا تھا اور اگر نیلم کے پاس کوئی نئی کامکس تھی تو وہ اسے لینا چاہتا تھا۔ نیلم نے اس سے کہا کہ اس کا کامکس پڑھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور وہ وہاں سے چلا جائے۔ نیلم اداس تھی سونو نے اس سے اس کی اداسی کا سبب پوچھا۔ جواب میں نیلم نے اسے دوبارہ جانے کے لئے کہا لیکن سونو وہیں کھڑا رہا اور تب تک کھڑا رہا جب تک کہ نیلم نے اسے اپنی سرخ سرخ آنکھوں سے گھورا نہیں۔

نیلم کی راتوں کے ٹکڑے ہو گئے تھے۔ سرخ رنگ اب اس کی آنکھوں کا قدرتی رنگ ہو جانا چاہتا تھا۔ اس دن کی گدگدی نے اس کی عمر بڑھا دی تھی اور اس نے کامکس پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ سونو اب بھی بچہ تھا اور اب بھی کامکس پڑھتا تھا۔ وہ اس سے ملنے نہیں آتا تھا۔ اب وہ نئے دوست کی تلاش میں تھا۔ وہ گم سم اسکول جاتی اور گم سم اسکول سے چلی آتی۔ ایک دن نیلم کا کامکس نہ پڑھنا، گم سم رہنا، وقت پہ اسکول جانا اور آ جانا یہ سب اچانک اس کی ماں کو نظر آیا۔ ماں نے اس سے جب کئی بار پوچھا تب نیلم نے انہیں بتایا کہ سابو انکل نے اسے ‘گندی جگہ’ گدگدايا ہے اور اتنا گدگدايا ہے کہ وہاں درد ہو رہا ہے۔ بات ماں سے باپ تک پہنچی اور وہ سونو کے پاپا کے پاس پہنچے۔ سونو کے پاپا نے نیلم کے والد کو بہت مارا، اور پولیس کے پاس جانے پر پورے خاندان کو مار ڈالنے کی دھمکی بھی دی۔ اپنے والد کی یہ حالت دیکھ کر نیلم کا بہت دل ہوا کہ وہ جا کر سابو انکل کو تھپڑ مارے لیکن وہ ان گدگدیوں کو یاد کر کے سہم گئی۔

نیلم اور اس کا پورا خاندان جہانگیر پوری سے لکشمی نگر آ گیا۔ آہستہ آہستہ اس کی نیند کا کمرہ بھی خالی ہو گیا۔ وہ وہاں جاتی اور رات بھر اسی کمرے میں رہتی۔ آنکھوں کا سرخ رنگ بھی کچا ثابت ہوا اور اس کی آنکھوں سے اڑ گیا۔ وہ ٹھیک ہو گئی یا یوں کہہ لیا جائے کہ وہ سب کچھ بھول گئی۔ اب بھول جانا تو ٹھیک ہو جانا نہیں ہوتا نا۔ اس نے پھر سے کچھ کامکس پڑھنی چاہی لیکن اسے احساس ہوا کہ وہ ان سے بور ہو جاتی تھی۔ شاید یہ بڑے ہو جانے کے سائیڈ افیکٹس میں میں سے ایک تھا۔

جب وہ ایل ایل بی فرسٹ ائير میں آئی تب ایک لڑکے وشال نے اس سے اپنی محبّت کا اظہار کیا۔ تھوڑی بہت نا نكر، جو نا نوکر سے زیادہ ہچکچاہٹ تھی، کے بعد نیلم نے اس کی محبت کو قبول کر لیا۔ دونوں پکے عاشق معشوق تھے، اور ان کے درمیان سیمنٹ کا کام کیا قطب مینار، لودھی گارڈن، سنیما ہال، سروجنی نگر مارکٹ وغیرہ نے۔ ایک دن لودھی گارڈن میں بیٹھے بیٹھے وشال نے اس کے ہونٹ چوم لئے۔ نیلم نے بھی اس بات کا جواب دینا ضروری سمجھا اور وشال کے ہونٹ چوم لئے۔ وشال کا ایک ہاتھ نیلم کے سینے پہ سرک آیا۔ نیلم کو گدگدی سی اٹھتی ہوئی محسوس ہوئی جو اس کے پورے بدن میں پھیل گئی۔ اس گدگدی نے کئی سال سے سوئے بچھو کو جگا دیا۔ اس نے اپنے ہونٹ وشال کے ہونٹ سے ہٹا لئے، پھر وہاں سے اٹھی اور چلی گئی۔وشال اسے آواز دیتا رہا جو اس کی پیٹھ سے ٹکرا ٹکرا کر لودھی گارڈن کی گھاسوں پر گرتی رہی۔ اس دن سے اس کی نیند کے کمرے میں پھر ایک نقاب پوش آ گیا۔ نیلم پھر سے نیند کے کمرے میں گرنے لگی اور نقاب پوش کے ہاتھوں سے نکلے ہوئے بچھو اس کی اور بڑھنے لگے۔

ان دنوں وہ سرخ سرخ آنکھیں لئے ہی کالج جاتی تھی۔ وشال اس دن اسے آواز دے دے کر تھک چکا تھا اور چاہتا تھا کہ اب نیلم ہی اس سے بات کرے، لیکن نیلم کی طرف سے پہل ہونے کا انتظار کرنے میں بھی اسے تھکاوٹ لگ گئی۔ اس نے ایک دن پھر نیلم سے بات کرنے کی کوشش کی۔ اس نے وشال کو وہاں سے چلے جانے کے لئے کہا، لیکن وشال وہیں کھڑا رہا جب تک کہ نیلم نیں اسے اپنی سرخ سرخ آنکھوں سے گھورا نہیں۔ اس دن جب وشال گیا تو چلا گیا۔ نیلم اس کی واپسی چاہتی بھی نہیں تھی۔ وقت لگا پر نیند کا کمرہ پھر سے خالی ہو گیا، سرخ رنگ اس بار بھی اڑ گیا اور بچھو پھر بدن کے کسی کونے میں جا کر سو گیا۔ بعد میں نیلم کے ماں باپ نے بہت چاہا کہ وہ شادی کر لے لیکن وہ اس گدگدی اور بچھو کا خیال آتے ہی سہم اٹھتی تھی اور شادی کرنے کی ہمت ہی نہیں جٹا پاتی تھی۔

نیلم ہمت ہمّت جٹا کر کھڑی ہوئی، پیپرویٹ جو اس کے ہاتھ سے لگ کر زمین پر گر گیا تھا اسے اٹھایا۔ تب تک وہ مانوس چہرہ، جسے وہ سابو انکل کے نام سے جانتی تھی، اس کے قریب آ گیا۔

‘ہیلو ۔۔’

نیلم اس ہیلو کے جواب میں پیپرویٹ اس کے منہ پر مار دینا چاہتی تھی، پر آفس میں ہونے کے خیال نے اسے روک لیا۔ اب وہ یہ کیس بالکل نہیں لڑنا چاہتی تھی۔ آخر وہ اس آدمی کی مدد کیسے کرتی جس نے اس کی زندگی کو ایک بچھو گھر بنا دیا تھا۔ پھر اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ وہ یہ کیس لے گی، لڑے گی اور ہار جائے گی۔ اور اس کا کیس ہار جانا ہی اس کا بدلہ ہوگا۔

‘جی سندیپ پال نام ہے میرا۔۔۔ جے۔ پی رائے نے آپ سے ملنے کے لئے کہا ہے، آپ ہی لڑیں گی میرا کیس ۔۔؟’

کتنی حیرت کی بات تھی، جس آدمی نے اس کی زندگی بدل دی تھی آج تک وہ اس کا اصل نام ہی نہیں جانتی تھی۔ سندیپ پال ۔۔ یہ نام سابو انکل جیسے خطاب سے بہت دور تھا۔ یہ بات سوچتے ہوئے نیلم نے سوچا کہ اچھا ہی ہے جو یہ نام سابو انکل سے خطاب سے دور ہے، شاید اس نام سے پکارتے وقت اسے بہت زیادہ دکھ نہیں ہوگا۔

‘بیٹھيے سندیپ جی ۔۔۔’ یہ کہتے ہوئے نیلم نے سامنے والی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے محسوس کیا کہ ‘سندیپ جی’ جیسے خطاب سے پکارنے پر بھی اس کا دکھ کہیں سے کم نہیں ہوا۔ مرچ کو چینی کہہ دینے سے آخر وہ میٹھی تو لگے گی نہیں، نام بدل دینے سے کسی شے کی تاثیر تو نہیں بدل جاتی ہے۔ نیلم کو لگ رہا تھا کے اب یہ آدمی اپنے دونوں ہاتھ سامنے لا کر ‘گدگدگدگد’ بولے گا۔ بس اسی خیال سے نیلم کے اندربچھو تیزی سے کروٹیں بدل رہا تھا، اور وہ اس کا درد برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔ اس نے سندیپ پال سے اگلے دن آنے کو کہا۔

نیند نیلم کے کمرے کے باہر ہی کھڑی رہ گئی۔ وہ رات بھر اپنے کمرے میں ادھر سے ادھر کیرم بورڈ کے اسٹرائیکر کی طرح گھومتی رہی۔ وہ سندیپ کا کیس ہارنا چاہتی تھی۔ بچپن میں جوطمانچہ وہ اسے نہیں مار سکی تھی اب مارنا چاہتی تھی۔ وہ اپنے اندر پڑا بچھو نکال کر سندیپ کے اندر ڈال دینا چاہتی تھی۔ اس نے اور بھی خوفناك سزائیں سوچیں لیکن کوئی بھی سزا اس ناکافی ہی لگی۔

رات اس کی آنکھوں کو لال رنگ میں رنگ کے چلی گئی۔ دیر تک جب وہ آفس نہیں گئی تو جے پی رائے کا فون آیا اور انہوں نے اس کو پہلے ہی کیس میں اتنی لاپرواہی برتنے پر ڈانٹنے کے ساتھ ساتھ اس کو فوراً ہی آفس آنے کو کہا۔ وہ آفس پہنچی تو اس نے سندیپ پال عرف سابو انکل کو اس کا انتظار کرتے ہوئے پایا۔ نیلم نے سندیپ سے کیس کی پوری ڈیٹیل لی، ہارنے کے لئے بھی مکمل ڈیٹیل کی ضرورت تھی ہی چونکہ اسے صرف ہارنا نہیں تھا بلکہ اپنی شکست کو قابل اعتماد بھی بنانا تھا۔ اور یہ کام کیس جیتنے سے بھی مشکل تھا۔ اور اگر وہ ایسا کر لے تو اپنے پہلے کیس میں اس کے لئے اس سے اچھی جیت نہیں ہو سکتی۔ کیس کی ڈیٹیل کے ساتھ سندیپ عرف سابو انکل کی زندگی کے کچھ ریشے اس کے دل سے چپک گئے، جیسے کہ سندیپ پال نے دوسری شادی کی اور دوسری شادی سے ایک بیٹی ہے جس کا نام انیتا ہے، جیسے کہ انیتا کی شادی کے لئے سندیپ سنت نگر کا اپنا پلاٹ فروخت کرنا چاہتا تھا۔ سونو جو کہ نیلم کے اچانک بڑے ہو جانے سے پہلے اس کا دوست تھا اور جو اسے پنکی پنکی کہہ کر بلاتا تھا، اس پلاٹ کو فروخت کرنے کے حق میں نہیں تھا اور اس پلاٹ کو بزرگوں کی جائیداد ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا۔ بزرگوں کی جائیداد کو گھر کے تمام اراکین کی رضامندی کے بغیر فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ سندیپ جس وقت نیلم کو بتا رہا تھا کہ اگر وہ یہ پلاٹ فروخت نہیں کر پایا تو انیتا کی شادی نہیں کر پائے گا، اس وقت اس کی آنکھیں بھری ہوئی تھیں۔ نیلم نے سندیپ کی بھری ہوئی آنکھیں دیکھیں اور اس پر رحم نہ آ جائے اس لئے سوچا ۔۔ ‘تو کیا ہوا ۔۔۔ میں بھی تو شادی نہیں کر سکی اب تک ۔۔’۔ صحرا میں کتنی بھی بارش ہو ریت اسے پی ہی جاتی ہے اور نیلم ایک چلتا پھرتا صحرا تھی۔

سندیپ کی طرف سے آئے گواہوں، ثبوتوں اور سونو کی طرف سے آئے نقلی گواہوں ثبوتوں کے درمیان کورٹ کی پہلی تاریخ بیتی۔ کورٹ کے باہر سندیپ، سندیپ کی بیوی ممتا اور بیٹی انیتا سے نیلم کی ملاقات ہوئی۔ انیتا نے نیلم کو بتایا کہ اس کے والد اس کی بہت تعریف کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ کیس ہم جیت جائیں گے۔ نیلم نے کیس جیتنے کی خوشی انیتا کی آنکھوں میں کیس جیتنے سے پہلے ہی دیکھ لی۔ انیتا کی آنکھیں اسے اچھی لگیں، انیتا کی آنکھیں روشن تھیں اور ان سے سیدھا دل میں جھانکا جا سکتا تھا۔ جیسے صاف پانی کی جھیلوں میں جھانکو تو ان کے نچلے حصے ظاہر ہوتے ہیں، ویسے ہی۔ اس نے سوچا کہ وہ بھی اگر ہمیشہ ٹھیک سے سو پائی ہوتی تو شاید اس کی آنکھیں بھی اتنی ہی اچھی اور روشن ہوتیں اور ان سےبھی سیدھا دل میں جھانکا جا سکتا۔ اچانک اس نے دیکھا کہ ان لوگوں سے تھوڑی دور پر ایک اسی جیسی وکیل، انیتا جیسی ایک لڑکی کو خاموش کرا رہی ہے۔ وہ کیس ہار گئے ہیں اور انیتا جیسی لڑکی کی آنکھیں بہت بھدی نظر آ رہی ہیں۔ وہ ڈر گئی اور اس نے سوچا کی انیتا کی آنکھیں ایسی ہی خوبصورت لگتی رہنی چاہئے۔ سندیپ نے جب جانے کی اجازت مانگی تو نیلم کا دھیان ٹوٹا۔ سامنے نہ کیس ہاری ہوئی کوئی لڑکی تھی نہ اس جیسی کوئی وکیل، پھر بھی اس نے سوچا کہ انیتا کی آنکھیں خوبصورت لگتی رہنی چاہئے۔

نیلم جب بھی کیس کو ہارنے کے بارے میں سوچتی اسے انیتا کی آنکھیں یاد آ جاتیں۔ وہ رات بھر جاگتی اور سندیپ عرف سابو انکل کو سزا دینے کے طریقے سوچتی۔ لیکن دن میں انیتا کی آنکھوں کے بارے میں سوچتے ہی کیس کو جیتنے کے طریقے سوچنے میں لگ جاتی۔ راتیں پھر اس کی آنکھوں میں سرخ رنگ لگانے لگیں۔ اپنے ہی دماغ کے دو خیالات سے لڑتے ہوئے وہ سوچتی کہ ایک دن اس کے جسم سے ایک اور نیلم نکلے۔ ایک نیلم جو سابو انکل کو سزا دے اور جسے کیس کے جیتنے ہارنے سے کوئی مطلب ہی نہ ہو، اور دوسری نیلم جو جا کر وہ کیس جیت لے جسے سابو انکل کو سزا نہ دینے کا کوئی ملال نہ ہو۔ لیکن مشکل تو یہی تھی ان دونوں محاذوں پر ایک تنہا نیلم کو ہی لڑنا تھا اور دونوں میں سے ایک محاذ پر اس کی ہار طے تھی۔

دو تین تاریخیں گزریں اور نیلم نے عدالت میں یہ ثابت کر دیا کہ سنت نگر میں واقع سندیپ پال کا پلاٹ ان کے بزرگوں کی ملکیت نہیں بلکہ اس کی اپنی محنت سے حاصل کی ہوئی جائیداد ہے، اور وہ اسے بیچنے کے لئے آزاد ہے۔ نیلم سرخ آنکھوں میں آنسو لئے عدالت کے باہر کھڑی تھی۔ آنکھوں کے سرخ رنگ سے مل کر آنسو لاوا جیسے لگ رہے تھے۔ جھلمل جھلمل آنکھوں سے اس نے سندیپ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا اور اپنی آنکھوں پونچھ لیں۔ سندیپ کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ یہ کیس اتنی آسانی سے جیت گیا ہے اور اس بات سے نیلم خود کو اور ہارا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ سندیپ کو خوش دیکھ کر نیلم کا دکھ بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ چلا چلا کر آس پاس کے لوگوں کو بتانا چاہتی تھی کہ سندیپ نے اس کے ساتھ کیا کیا تھا۔ وہ اس سے اپنے باپ کو پیٹنے کا بدلہ لینا چاہتی تھی۔ بائیس سال پرانا طمانچہ اب وہ مار ہی دینا چاہتی تھی۔ لیکن نہیں اس نے ابھی ابھی اپنا پہلا کیس جیتا تھا۔ ابھی ابھی وہ انیتا کی خوبصورت آنکھوں کی خوبصورتی کو لے کر مطمئن ہوئی تھی۔ اس کے اندر ماضی اور مستقبل کے کتنے تصادم ہو رہے تھے۔ کتنے ہی بادل گرج رہے تھے۔ پر سندیپ کی آنکھوں پر خوشی کا شیشہ چڑھا تھا اور اسے نیلم سے گزرتا ہوا ماضی نظر نہیں آ رہا تھا۔ اسے جلد سے جلد گھر پہنچ کر یہ خوشی گھر والوں سے بانٹنی تھی۔ وہ جانے لگا اور جاتے جاتے ایک بار مڑا۔۔۔

‘بیٹی ۔۔۔ انیتا کی شادی کا کارڈ بھیجوں گا ضرور آنا۔۔۔’
یہ کہہ کر وہ جانے لگا کہ اس کے پاؤں میں نیلم کی آواز چبھ گئی۔۔۔ وه ٹھہر گیا ۔۔

‘ٹھیک ہے سابو انکل۔۔۔’

سابو انکل ۔۔؟ سندیپ کے دماغ میں سوال اٹھا۔ پھر بائیس سال پرانا ایک آسیب اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ وہ مڑا تو اس کے سامنے آٹھ سال کی ایک بچی کھڑی تھی جس کے ہاتھ میں ایک کامک بک تھی۔