فہرست
(پہلا حصہ)
- چند باتیں
- اُردو رسائل کی تاریخ: چند نمایاں ادبی رسائل
- صحافت اور ادبی صحافت: امتیاز و حدود
- پاکستان کے اردو ادبی رسائل
- ادبی اور صحافتی رسالہ میں فرق
- ادبی رسالے کی ڈکلیریشن
- ادبی رسالے کی نظریاتی پالیسی
چند باتیں
ادبی صحافت بہت مختلف سبجیکٹ ہے۔ اس پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ ایک رسالہ عموماً مدیر کے ذوق کا عکاس ہوتا ہے۔ یا کسی ادارے کے ترجیحی منصوبے کا حصہ، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ رسالہ اپنے اصول اپنے مدیر سے بناتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جب مدیر بدل جائے یا وفات پا جائے تو اس کے ساتھ ہی رسالہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اگرچہ کچھ رسالے اردو میں طویل عرصے سے نکل تو رہے ہیں مگر وہ محض نام کے علاوہ کسی طرح بھی ایک جیسی ادارتی پالیسی نہیں رکھتے۔دوسرے لفظوں میں مدیر ہی رسالہ ہوتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو اخبارات کی پالیسی معروضی طور پر اپنائی جا سکتی ہے، کیونکہ اس میں ذوق، معیار اور انتخاب شامل نہیں ہوتا، مگر ادبی رسالہ مدیرانہ انتخاب کا منتِ مرہون ہوتا ہے، اس کی پالیسی نہیں بنائی جا سکتی۔ ادبی رسالہ موضوعی پالیسی کے ساتھ چلتا ہے۔
ادبی رسائل کی تاریخ و روایت پر اردو میں کافی مواد مل جاتا ہے، جو اردو رسائل کے ڈیڑھ سو سالہ دور پر نقادانہ انداز سے جائزہ لیتا ہے۔ اس سلسلے میں چند ایک کتابیں تو مفصل تبصرہ ہیں مگر اردو رسائل کی ادبی صحافت کے اصولوں اور مسائل کو زیرِ بحث نہیں لایا گیا۔ ادبی صحافت کے کیا اصول ہونے چاہیے اور کن مسائل سے دوچار ہوا جا سکتا ہے؟ اس سلسلے میں بہت کم رہنمائی ملتی ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ مدیر ادبی صحافت سے آگاہ نہ ہو اور ایک اچھا رسالہ بھی نکال رہا ہو۔ یقینا مدیر کے پاس بہت سے ترجیحی اصول ہوتے ہیں، جن کی روشنی میں وہ رسالہ مرتب کرتا ہے، مگر ضرروت اس امر کی ہے کہ وہ اختلافی اصول کیا ہو سکتے ہیں، جن کے مطابق ادبی رسائل کو ہونا چاہیے۔ ان میں کچھ اصول تو یقینا ترجیحاً ہو سکتے ہیں، مگر بہت سے اصول مصنف کا ذاتی دائرہ اختیار نہیں، مدیر کو ان کی ہر حال میں پیروی کرنی چاہیے۔
اس تحقیقی منصوبے میں چند ایک اصولوں اور مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جو کسی نتیجے پر پہنچنے سے زیادہ محض نشان دہی تک محدود ہیں۔ انھیں ادبی صحافت کے حتمی اصول سمجھ کے پیش نہیں کیا گیا۔ اگر بڑے پیمانے پر ان تمام اصولوں کو ادبی صحافت کے مسائل سمجھ لیا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ کیوں کہ ایک مدیر یا ادارہ جب رسالہ مرتب کرنے لگتا ہے تو اس طرح کے مسائل سے لازمی گزرتا ہے اور اپنی دانست میں کچھ اصول بناتا ہے۔
اس موضوع پر اجتماعی نقطہ نظر مرتب کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ ادبی صحافت کو بھی کچھ اصولوں سے گزرنا چاہیے تاکہ دم توڑتی اس ادبی روایت کو نہ صرف محفوظ بنایا جا سکے، بلکہ اس کو قانونی شکل بھی دی جا سکے۔ اس سلسلے میں ایک بڑے اجتماع کی ضرورت ہے جس میں مل بیٹھ کے کچھ اصول مرتب کیے جا سکیں۔
میں چونکہ خود بھی ایک ادبی رسالے کا مدیر ہوں اور گزشتہ ۱۷ سال سے ادبی صحافت سے وابستہ ہوں، اس لیے ان مسائل کا چشم دید گواہ بھی ہو۔ یہ تمام مسائل اور ان کے مرتب کردہ اصول میرے ذاتی تجربے اور اعلیٰ ادبی رسائل (فنون، اوراق، شب خون،نقوش، ساقی، شعرو حکمت، سمبل، دنیا زاد، آج، تسطیر، سویرا، ارتقا وغیرہ)کی ورق گردانی کا نتیجہ ہیں۔
میں اس سلسلے میں اپنے محترم اور نہایت زیرک مدیر علی محمد فرشی (مدیر سمبل) کا شکر گزار ہوں، جن سے میں مسلسل مشاورت کرتا رہا۔انھوں نے مجھے کئی مسائل کی نشان دہی کروائی اور کچھ اصولوں پر زور دیا کہ انھیں لازمی ادبی صحافت کا حصہ ہونا چاہیے۔ آنجہانی آصف فرخی (مدیر دنیا زاد) کا بھی شکریہ جنھوں نے مجھے ادبی رسائل کی فنی جمالیات سے آگاہ کیا۔ اپنے بڑے اور سینئر دوست انجم سلیمی (مدیر خیال) کا بھی مشکور ہوں جنھوں نے ادبی سفر کے بہت آغاز میں ہمارے سامنے ادبی صحافت کو جمال آفرینی کا مرقع پیش کر کے دکھایا۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد کے ادارے اورک (ORIC) کا بھی شکریہ، جن کے تحقیقی پراجیکٹ نے مجھے اس دریا میں غوطہ زنی کا موقع دیا۔ اس سلسلے میں اورک کی تمام ٹیم نے بہت تعاون کیا۔
قاسم یعقوب
لیکچرار شعبہ اردو
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد
۱۹ جون، ۲۰۲۳ء
–
اُردو رسائل کی تاریخ: چند نمایاں ادبی رسائل
مجلہ یا رسالہ مخصوص وقفے کے بعد شائع ہونے والا منتخب تحاریر کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ایسی کتاب بھی جو منتخب تحریروں کو جمع کرکے شائع کی جائے اور وقفے کے بعد بار بار شائع ہو، رسالہ کہلائے گی۔اخبار ی صحافت سے وابستہ میگزین یا رسالے سماجی اعتبار سے مواد کو شائع کرتے ہیں۔ ان میں فیچرز، خبریں، انٹریوز یا کہانیاں شامل ہو سکتی ہیں۔ تصویری صحافت کے آنے کے بعد میگزین صحافت نے بہت ترقی کی ہے۔ اب اخباری میگزین تصویروں سے مزین ہوتے ہیں۔ فیچر کا تصویر کے بغیر تصور ہی ختم ہو گیا ہے۔رپورٹ بھی تصاویر کے ساتھ شائع ہوتی ہے۔ البتہ ادبی میگزین تصویری صحافت سے بہت مختلف اورمواد کے اعتبار سے صرف ادبی تحاریر پر مشتمل انتخابِ متن ہوتا ہے۔
مجلاتی صحافت کا آغاز اخبار کی اشاعت کے ساتھ ہی برصغیر میں ہو گیا تھا۔انیسویں صدی کے آخری ربعہ صدی میں اخبارات ہی وہ واحد میڈیم تھا جس کے ذریعے خیالات کی پرورش ہو جانے لگی تھی۔ ایک طرف انگریز اپنی حاکمیت کے بیانیے کو نافذ کرنے جا رہا تھا تو انھی اخباروں کے ذریعے مقامی خیالات کو بھی ترویج مل رہی تھی۔ اسی دور میں اردو میں میگزین صحافت نے انگڑائی لی۔ بہت سے رسالوں نے اپنے سفر کا آغا کیا۔
یوں دیکھا جائے تو اردو کی صحافت عمر ڈیڑھ سو سال سے زیادہ نہیں بنتی۔ سرسید کا رسالہ ”تہذیب الاخلاق“ اگرچہ سماجی مسائل کا ترجمان تھا، اُردو کی صحافتی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی رسالے نے ادبی صحافت کو بھی پروان چڑھایا۔ قوم کی اصلاح اس رسالے کا بنیادی مقصد تھا، اس رسالے کے راستے ہی ادب میں اصلاح نگاری کی راہ ہموار ہوئی۔ بہت سے ادبی جرائد نے اصلاح نگاری کے لیے ادبی تحاریر کو جمع کرنا شروع کیا۔ اسی دور میں مخزن، اودھ پنچ،دلگداز وغیرہ جاری ہوئے۔
تقسیم ہندوستان کے وقت بہت سے ادبی رسائل ادب اور سماجی مسائل کی تصویر کشی کے لیے پیش پیش تھے۔ یہی وہ دور تھا جب ترقی پسندی، جدیدیت اور اسلامی ادب کی تحریکوں نے ادب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اس دور میں لاہور اور کراچی سے موقر جرائد نکلنے شروع ہوئے۔ جو بذاتِ خود تحریک کی صورت اختیار کر چکے تھے۔ان میں ”ساقی“ جسے ممتاز ادیب شاہد احمد دہلوی نکالتے تھے۔ شامل ہے۔ اس کے علاوہ مختلف چھوٹے اور بڑے شہروں سے بھی سینکڑوں ادبی رسائل و جرائد جارے ہوئے۔
ان رسائل میں ایسے ادیب بھی روشناس ہوئے جو بعد میں ارود ادب کا اثاثہ قرار پائے۔ ان جرائد میں علمی، ادبی، لسانی و تحقیقی اور تنقیدی مضامین لکھے گئے جن کے مطالعے سے اردو ادب میں جدید میلانات کو رواج ملا۔تحقیقی حوالے سے بھی یہی دور اہم ہے۔ حافظ محمود شیرانی، قاضی عبد الوود، مولوی عبد الحق وغیرہ نے گم شدہ کڑیوں کو ملانے کا اہتمام شروع کیا تو انھی رسائل میں مباحث کو گرم کیا جاتا۔ دکن مین اردو، پنجاب میں اردو، اردو کے ماخذ، قدیم اردو وغیرہ جیسی بحثیں پہلے پہل ادبی رسائل میں شائع ہوئیں۔
یہاں ذیل میں اردو کے چنداہم رسائل کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔
مخزن:
مخزن اپریل ۱۹۰۱ء میں سر عبد القادر نے لاہور سے شائع کیا تھا۔ آغاز ہی سے علامہ اقبال جیسے نوجوانوں کو شائع کرنا شروع کیا۔آزادی کے بعد مخزن کو مولانا حامد علی خان نے جاری رکھا۔ مخزن کی یہ خوبی ہے کہ اس نے بہت سے نئے لکھنے والوں کو ادبی دنیا میں متعارف کروایا۔ یہ رسالہ اردو میں مغربی تراجم، نئے فکری رویوں اور تہذیبی زاویوں کا ترجمان بن گیا
مخزن نے اردو کو بڑے ادیب بھی دیے اور ساتھ ہی جدید ادبی تحریکوں سے جوڑے رکھا۔سیاسی گروہ بندیوں اور ادبی دھڑے بندیوں سے اس رسالے کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے اددبی دنیا میں آج تک یاد رکھا جاتا ہے۔
ہمایوں:
ہمایوں کو جنوری ۱۹۲۲ء میں میاں بشیر احمد نے اپنے والد گرامی کی یاد میں لاہور سے شائع کیا۔ منصور احمد، مولانا حامد علی خان، یوسف ظفر، شیر محمد اختر، مظہر انصاری اور ناصر کاظمی مختلف اوقات میں اس پرچے کی ادارت سے منسلک رہے۔
نگار:
نگار کو مولانا نیاز فتح پوری نے ۱۹۲۲ء میں بھوپال (مدھیہ پردیش) سے جاری کیا۔ مولانا اپنی وفات تک (۱۹۲۲ء سے لے کر ۱۹۶۶ء) اس رسالے سے وابستہ رہے ور باقاعدگی سے رسالہ چھاپتے رہے۔ مولانا کے بعد ان کے بیٹے ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ”نگار“ کی ادارت سنبھالی۔ نگار کے ”اصناف شعری نمبر“، ”مسائل ادب نمبر“، ”غالب نمبر“خصوصی نمبر کے طور پر شائع ہوئی۔
نگار کسی بڑی تحریک کا موجب تو نہ بن سکا البتہ ادبی اخلاص اور معیار کو پیش کرتا رہا۔انیسویں صدی کے آغاز سے شروع ہونی والے رومانوی تحریک ”نگار“ کا خاصا رہی۔ کیوں کہ اس کی بڑی وجہ خود نیاز فتح پوری کا رومانوی مزاج تھا۔یہ الگ بات کہ رومانویت کے حوالے سے بھی نگاراعلیٰ تحریروں کی اشاعت تک محدود تھا کسی بڑے تحرّک کا باعث نہ بن سکا۔
نیرنگِ خیال:
حکیم یوسف حسن نے ۱۹۲۴ء میں لاہور سے جاری کیا۔ تقسیم سے پہلے یہ لاہور سے جاری ہوتا تھا مگر بعد میں یہ راولپنڈی منتقل ہو گیا۔راولپنڈی سے شائع ہونے والے اہم ادبی جرائد میں شمار کیا جاتا ہے۔”مصر نمبر“، ”افغانستان نمبر“، ”افسانہ نمبر“، ”اقبال نمبر“، ”ایڈیٹر نمبر“، ”رام نمبر“، ”خواتین نمبر“ اس رسالے کے خاص نمبر ہیں۔ نیرنگِ خیال کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے”اقبال نمبر“ کی اشاعت علامہ اقبال کی زندگی ہی میں ہوئی۔اگرچہ یہ ابھی تک مختلف مدیران کی سربراہی میں جاری ہے، مگر اس کا معیارِ انتخاب پہلے جیسا نہیں رہا۔
اوریئنٹل کالج میگزین:
پنجاب یونیورسٹی کا ”اوریئنٹل کالج میگزین“ لاہور سے پروفیسر محمد شفیع کی ادارت میں ۱۹۵۲ء میں جاری ہوا۔ اس رسالے میں محض اردو ہی کو جگہ نہیں دی جاتی بلکہ بیک وقت عربی، فارسی، اُردو، پنجابی، سنسکرت، ہندی اور گورمکھی کی تحریریں بھی شائع کی جاتیں۔ یوں یہ اپنی طرز کا واحد رسالہ تھا۔
اورئنٹل کالج ہی سے ”بازیافت“ کی اشاعت کے بعد اس کی اہمیت میں واضح کمی آئی۔ اب اس کی اشاعت بھی باقاعدہ نہیں رہی۔ مدیر ایک نہ ہونے کی وجہ سے اس کے معیار میں بھی فرق آتا رہا ہے۔
ادبی دنیا:
اردو کا ایک اہم ادبی رسالہ ”ادبی دنیا“ بھی ہے، جس نے پاکستان بننے سے پہلے ادبی تحریکوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ادبی دنیا کو ۱۹۲۹ء میں مولانا تاجور نجیب آبادی نے شروع کیا۔ اس کے بعد اس رسالے کو کچھ عرصے کے لیے شیخ عبد القادر کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ادبی دنیا خود ایک تحریک کا درجہ رکھتا ہے، کیوں کہ مختلف ادیبوں نے بطور مدیر اس کے ساتھ کام کیا، جن میں منصور احمد، حفیظ ہوشیار پوری، عاشق حسین بٹالوی اور قیوم نظر وغیرہ شامل ہیں۔سب سے اہم دور مولانا صلاح الدین احمد کا ہے۔ جنوری ۱۹۳۸ء میں مولانا صلاح الدین احمد ”ادبی دنیا“ میں بطور مدیر آئے۔کچھ عرصے کے لیے وزیر آغا بھی اس رسالے میں مولانا صلاح الدین احمد کی معاونت کرتے رہے۔
شاہکار:
ادبی دنیا کے بعد ۱۹۵۳ء میں مولانا تاجور نجیب آبادی نے ”شاہکار“ لاہور سے شائع کیا۔شاہکار اپنے مختلف ادبی موقف کی وجہ سے ادب میں زندہ و جاوید ہے۔ شاہکار نے ترقی پسند فکر کے سیاسی موقف کے خلاف لکھا۔ اگرچہ اس رسالے کا مزاج بعد میں فلمی تحریروں تک محدود ہو گیا تھا، مگر اس رسالے سے چوہدری فضل حق،محمد آصف،ساحر لدھیانوی، رام پرکاش اور شورش کاشمیری وابستہ رہے،جو بذاتِ خود ایک ادبی واقعہ ہے۔ ۱۹۵۶ء کے بعد یہ فلمی دنیا کا رسالہ بن کے رہ گیا۔ شاہکار کا ”ترقی پسند ادب نمبر“بہت اہم خصوصی نمبر تھا۔
ادبِ لطیف:
ادبِ لطیف ایسا ادبی رسالہ ہے جو گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتا ہوا جوان ہوا ہے۔ اسے چوہدری برکت علی نے ۱۹۳۶ء میں لاہور سے نکالا۔ اس رسالے سے طالب انصاری،مرزا ادیب، فیض احمد فیض، راجندر سنگھ بیدی، ممتاز مفتی، قتیل شفائی، فکر تونسوی، احمد ندیم قاسمی اور عارف عبد المتین،سید قاسم محمود، انتظار حسین، ناصر زیدی، ذکاء الرحمن اور اظہر جاوید وابستہ رہے۔ حال ہی میں اسے دوبارہ فعال کیا یا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے صدیقہ بیگم نے ادب لطیف کی ادارت ذمہ لی ہوئی تھی۔رنگ رنگ کے ادیبوں کی مدیرانہ سوچ کی وجہ سے اس کا کوئی ایک موقف نہیں بن پایا۔آج کل حسین مجروح لاہور سے نکال رہے ہیں۔اس پرچے کا ایک اعزاز یہ ضرور ہے کہ اس میں بہت اہم ادیب شائع ہوتے رہے ہیں۔ اگر انتخاب کیا جائے تو نہایت اعلیٰ پائے کی ادبی تحریروں کا مرقع بن سکتا ہے۔
سب رس:
حیدر آباد دکن تلنگانہ ریاست کا اہم شہر ہے، جو اردو ادب میں گولکنڈہ دور کا اہم حوالہ ہے۔ اسے اردو کا مرکز کہا جاتا رہا۔ اس شہر سے ۱۹۸۳ء میں ادارہ ادبیات اردو کے زیرِ اہتمام ایک رسالہ ”سب رس“حیدر آباد (دکن) جاری ہوا۔ ڈاکٹر محی الدین زوراس کے مدیر تھے۔ تقسیم کے بعد”سب رس“ کراچی منتقل ہو گیا۔ اس جریدے کے ”یادِ رفتگاں“، ”اقبال نمبر“ اور ”ممتاز حسن نمبر“ یادگار خصوصی شمارے ہیں۔
نقوش:
نقوش وہ رسالہ ہے جس نے ادبی دنیا کو ایک عرصے تک اپنے خاص نمبروں کی وجہ سے متوجہ کیے رکھا۔ نقوش کو ۱۹۴۰ء میں محمد طفیل نے لاہور سے جاری کیا۔ محمد طفیل کے علاوہ احمد ندیم قاسمی،سید وقار عظیم اور ہاجرہ مسرور بھی اس اہم رسالے کی معاون ادارت سے منسلک رہے۔
نقوش کے خاس نمبروں کو خاس شہرت حاصل رہی،بلکہ یہ نمبر ادبی دنیا میں حوالے کا درجہ اختیار کر گئے ہیں، ان میں ان میں ”غزل نمبر“، ”منٹو نمبر“، ”لاہور نمبر“، ”پطرس نمبر“، ”اقبال نمبر“، ”غالب نمبر“، ”شوکت تھانوی نمبر“، ”شخصیات نمبر“، ”خطوط نمبر“، ”آپ بیتی نمبر“، ”میر تقی میر نمبر“ اور ”میر انیس نمبر“ وغیرہ شامل ہیں۔
افکار:
اپنے دور کا سب سے نمایاں راسلہ ”افکار“ ۱۹۴۵ء میں صہبا لکھنوی اور رشدی بھوپالی نے بھوپال سے جاری کیا۔ جوش کے علاوہ افکار کے ”منٹو نمبر“، ”غالب نمبر“ اور ”افسانہ نمبر“ یادگار نمبر ہیں۔
نیا دور:
ہندوستان کی کرناٹک ریاست کے دارالحکومت بنگلور سے ۱۹۴۶ء میں ممتاز شیریں اور صمد شاہین کی زیرِ ادارت جاری ہوا۔ تقسیم کے بعد اس کے مدیران نے اسے کراچی سے شائع کیا۔ نیا دور پاکستانی ادب اور تہذیبی اقدار کی بازیافت کا رسالہ تھا، جسے بعد میں ڈاکٹر جمیل جالبی اور شمیم احمد نے جاری رکھا۔
سویرا:
سویرا کو جنوری ۱۹۴۸ء میں چوہدری نذیر احمد نے لاہور سے جاری کیا۔ احمد ندیم قاسمی، فکر تونسوی اور نذیر احمد’سویرا‘ سے منسلک رہے۔ اگرچہ تقسیم ہندوستان سے پہلے ”سویرا“ کے دو شمارے آچکے تھے، مگر اس کا اصل دور تقسیم کے بعد شروع ہوتا ہے۔ عارف عبد المتین، ظہیر کاشمیری، احمد راہی، حنیف رامے، محمد سلیم الرحمن، ریاض احمد چوہدری اور ظفر اقبال نے بھی مختلف وقفوں میں سویرا کی ادارت کی۔ سویرا کو رجحان ساز ادبی جریدہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ حنیف رامے نے خصوصی طور پر اس رسالے کو ایک مزاج عطا کیا، جس کی پیروی میں آج کل سلیم الرحمن جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ساقی:
ساقی ۱۹۴۸ء کراچی سے شاہد احمد دہلوی کی ادارت میں جاری ہوا۔ شاہد دہلوی ایک علمی ادبی خاندان کے چشم و چراغ ہیں،وہ مولوی بشیر الدین کے بیٹے اور ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے ہیں۔ ساقی کو ادبی رسالوں میں ممتاز مقام حاصل ہے۔ شاہد احمد دہلوی کی وفات ۱۹۶۸ء کے بعد یہ پرچہ مسلسل جاری نہ رہ سکا۔رفیق حسین جیسے ادیب بھی اسی رسالے سے بام عروج تک پہنچے۔ ساقی کا آخری خصوصی نمبر خود ”شاہد احمد دہلوی نمبر“ ہے جسے ڈاکٹر جمیل جالبی نے مرتب کیا۔
قومی زبان:
قومی زبان ماہنامہ بنیادوں پر جاری اہم ادبی رسالہ تھا، جسے مولوی عبد الحق نے ۱۹۴۸ء کو کراچی سے جاری کیا۔ یہ بنیادی طور پر انجمن ترقی اردو پاکستان کی کارگردگی پر مشتمل ماہنامہ تھا جسے بعد میں پندرہ روزہ کر دیا گیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اہم ادبی مضامین بھی شائع کیے جاتے۔ جمیل الدین عالی، محترمہ ادا جعفری اور مشفق خواجہ اس کے مدیر مقرر ہوئے۔ ”بابائے اردو“، ”قائداعظم نمبر“، ”قدرت اللہ شہاب نمبر“ اس کے خصوصی نمبرز ہیں۔
اقبال:
بزم اقبال لاہور کا سہ ماہی رسالہ ”اقبال“ ۱۹۵۲ء جاری ہوا۔اس رسالے کے ساتھ ایم ایم شریف، بشیر احمد ڈار، سعید شیخ، ڈاکٹر جہانگیر احمد خان، گوہر نوشاہی، پروفیسر محمد عثمان وابستہ رہے۔ اس رسالے کا بنیادی مقصد اقبالیات کی ترویج ہے، اس سلسلے میں اس رسالے کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔اس رسالے کو ایک عرصے تک ڈاکٹر وحید قریشی بطور مدیر شائع کرتے رہے۔
صحیفہ:
یہ جریدہ مجلس ترقی ادب کے زیرِ اہتمام لاہور سے جون ۱۹۵۷ء کو جاری ہوا۔اس رسالے کا بنیادی مقصد وہی ہے جو مجلس کی پالیسی ہے، یعنی کلاسیکی ادب کی ترویج۔ اس کے پہلے مدیر سید عابد علی عابد تھے۔بعد میں حمید احمد خان، احمد ندیم قاسمی شہزاد احمد، تحسین فراقی بھی اس کے مدیر رہے۔
بادبان:
کراچی سے شائع ہونے والا ادبی رسالہ بادبان“ ہند اسلامی فکریات کا نمائندہ رسالہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسے نوے کی دہائی میں ناصر بغدادی نے جاری کیا۔ اس کے چند شمارے ہی شائع ہوئے مگر ان میں تراجم اور جدید ادبی مباحث نے اہم فکری تحریک کا کام کیا۔ بادبان کے اداریوں کو خاصی شہرت حاصل ہوئی۔
قند:
مرکز سے دور ایک اہم ادبی جریدہ ’قند‘ بھی ہے جسے تاج سعید نے ۱۹۵۷ء میں جاری کیا۔ اسے مردان شوگر ملز کی انتظامیہ کا تعاون حاصل رہا۔ اس رسالے نے ”ناولٹ نمبر“، ”موسیقی نمبر“ اور ”ڈرامہ نمبر“ کے علاوہ ”مجید امجد نمبر“ اور ”ممتاز شیریں نمبر“ جیسے یادگار نمبر دیے۔
فنون:
جن رسائل نے ادبی دنیا پر تادیر نقوش چھوٹے، ان میں ایک رسالہ ”فنون“ بھی ہے۔ فنون نے ایک نسل کو تیار کیا۔ کئی اصناف کو زندہ و جاوید کردیا۔احمد ندیم کی سربراہی میں ۱۹۶۳ء سہ ماہی فنون جاری ہوا۔ احمد ندیم قاسمی ترقی اگرچہ ترقی پسند نظریات کے حامی تھے مگر انھوں ہر قسم کا ادیب اپنے رسالے میں شائع کیا۔ فنون کا ”جدید غزل نمبر“ ایک یادگارنمبر ہے۔ فنون نے مصوری،خطاطی، تراجم، موسیقی اور فلم کو بھی اپنے دائرہ اشاعت میں شامل کیا ہے۔ فنون نے ادبی مباحث کو بھی بھرپور جگہ دی۔
سیپ:
یہ ایک فکر نو کا ترجمان رسالہ تھا جو ستمبر ۱۹۶۴ء میں نسیم درانی کی ادارت میں شائع ہوا۔ سیپ ادب کا ایک ایسا غیر جانبدار رویہ ہے۔ جہاں سے ہر صنف ادب سے اور ہر ادبی گروہ سے تعلق رکھنے والوں نے اپنی آواز بلند کی۔ نسیم درانی ایک بلند حوصلہ اور پختہ ادارے کے مالک مدیر تھے۔ انہوں نے مضامین اور شاعری کے اعتبار سے سیپ کے ہر شمارے کو یادگار شمارہ بنانے کی کوشش کی۔ سیپ کے اداریوں میں نسیم کا فکری احساس نمایاں تھا۔ وہ ان اداریوں میں اپنے احساس، اپنی کیفیت اور اپنے تجربے کی باتیں کرتے تھے اور یہ باتیں کرنے میں انہیں کمال حاصل تھا۔ ایک اداریے میں انہوں نے نقادوں کی تنقیدکو ہدف بنایا اور لکھا ”اگر نقاد اپنا فرض منصبی صحیح طور پر ادا نہیں کرتے تو تخلیق کار کو اس طرف متوجہ ہونا چاہیے۔
دستاویز:
معروف افسانہ نگار رشید امجد نے ۱۹۷۱ء کوراولپنڈی سے ”دستاویز“ کیا۔ احمد جاوید افسانہ نگار بھی رشید امجد کی معاونت کرتے رہے۔ ”دستاویز“ نے خالص ادب کی تحریک کی زندہ کیا۔ فکشن کو خاص جگہ دی جاتی۔ اگرچہ طویل مدت کے بعد شائع ہوتا مگر معیار کے اعتبار سے دستاویز کو الگ پہچان ملی۔ پنڈی کی طرف سے اس پایہ کا جریدہ کوئی اور نہیں تھا۔ فنون اور اوراق کی موجودگی میں دستاویز نے پہچان بنائی۔
پاکستانی ادب:
یہ ایک ترقی پسندانہ فکریات پر مشتمل رسالہ تھا جس کے مدیر سید سبط حسن تھے۔ یہ رسالہ ۱۹۷۴ء میں کراچی سے جاری ہوا۔ ”نئی نسل اور امیر خسرو اس کے یادگار اور اہم نمبر ہیں۔ ”پاکستانی ادب“ نے ترقی پسند ادب کی معدوم ہوتی فکریات کو مجتمع کرنے کی کوشش کی۔
سہماہی غالب:
یہ رسالہ کراچی سے مرزا ظفر الحسن نے ادارۂ یادگارِ غالب کے زیرِ اہتمام جنوری ۱۹۷۵ء میں شائع کیا۔ اپنے نام کی مناسبت سے غالبیات اس پرچے کا منفرد اور مخصوص موضوع تھا۔ طنز ومزاح کے علاوہ اقبالیات کو بھی اس نے اہمیت دی۔ فیض احمد فیض اس کے مدیر اعلیٰ تھے۔ ان کی وفات کے بعد اس کا دوسرا دور مختار زمن اور مشفق خواجہ کی ادارت میں شروع ہوا۔ ”اقبال نمبر“ اس رسالے کی یادگار اشاعت ہے۔ غالب کی تحقیق و تنقید میں اس پرچے نے انفرادی خدمات انجام دیں۔
تحقیق:
یہ لاہور سے ۱۹۷۸ء میں ڈاکٹر وحید قریشی کی ادارت میں شائع ہوا۔ کلیہ علوم اسلامیہ و ادبیات شرقیہ پنجاب یونیورسٹی لاہور کا یہ مجلہ تحقیقی کارناموں کے لیے مختص تھا۔ اگرچہ اب اس کی اشاعت بے قاعدہ ہے مگر اس مجلے نے اساتذہ تحقیق کے تحقیقی کارناموں کو نمایاں کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
جریدہ:
پشاور سے تاج سعید نے جریدہ ۱۹۸۳ء میں شائع کیا۔ اس ماہنامے کی معاون مدیر معروف افسانہ نگار بیگم زیتون بانو تھیں۔ اگرچہ یہ رسالہ بطور ماہنامہ شائع ہوا مگر اس کی اشاعت ماہنامہ نہیں تھی۔ تاج سعید نے اس میں ایک ادبی رسالے کی مہک پیدا کی۔ شعر و ادب کے ساتھ اس جریدے نے ڈرامہ، تھیٹر، ٹی وی اور ریڈیو کو بھی فروغ دینے کا عہد کیا اور شعراء کا کلام مع تعارف شائع کیا۔ جریدہ کی دوسری کتاب موسم بہار ۱۹۴۸ء میں منظرِ عام پر آئی اور اس کی تیسری اشاعت موسم بہار ۱۹۸۵ء میں عمل میں آئی۔ ۱۹۴۸ء میں اس کی چوتھی اور ۱۹۸۷ء میں پانچویں کتاب شائع ہوا۔ ہر بار جریدہ اپنے دور کے ممتاز ادیبوں کی نمائندہ تخلیقات سے مزیّن ہو کر منظرِ عام پر آتا ہے۔ یہ ایک سالانہ پرچہ ہے جسے لکھنے والوں نے نہ صرف پسند کیا بلکہ اسے اپنی نمائندہ تحریروں سے بھی نوازا۔
اخبار اردو:
اسلام آباد سے جاری ہونے والا مقتدرہ قومی زبان کا سرکاری پرچہ ہے۔ یہ سب سے پہلے کراچی سے ڈاکٹر معین الدین عقیل کی سربراہی میں جاری ہوا۔ ۱۹۸۳ء کے بعد جب مقتدرہ کا دفتر کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو اخبارِ اُردو بھی اسلام آباد سے شائع ہونے لگا۔ شریف کنجاہی، جمیل جالبی، ڈاکٹر وحید قریشی، انوار احمد، فتح محمد ملک، افتخار عارف اس سے وابستہ رہے۔ یہ ماہنامہ بنیادوں پر شائع ہوتا ہے، مگر اس کا دائرہ کار اردو زبان کی ترویج و اشاعت ہے۔ ادب کو کم جگہ دی جاتی ہے۔ تخلیقی ادب اس میں شائع نہیں کیا جاتا۔
ادبیات:
یہ ایک سہ ماہی جریدہ ہے جو اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے زیرِ انتظام جولائی ۱۹۷۸ء میں جاری ہوا۔ سرکاری سرپرستی میں شائع ہونے والے یہ واحد ریگولر رسالہ ہے۔ اس وقت اس کے مدیر عاصم بٹ اور اختر رضا سلیمی ہیں۔اس رسالے کا ایک اور اختصاص یہ بھی ہے کہ یہ قلمی معاونین کو رقم مہیا کرتا ہے۔ قومی زبانوں کو اس رسالے میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔تحقیق و تنقید، طنز ومزاح، سفرنامہ، انشائیہ، غیر ملکی تراجم، فکشن کے لیے الگ گوشے بھی بنائے جاتے ہے۔ ادبیات نے بہت سے ادیبوں کے نمبر جاری کیے جن میں امرتا پریتم، عبد اللہ حسین، احمد ندیم قاسمی، فراز، فیض وغیرہ شمال ہیں۔ مقامی زبانوں کے ادیبوں کے گوشے بھی بنائے جاتے ہیں۔ نثری نظم نمبر اور ناول نمبر کی خصوصی اشاعت بھی ادبیات کا معیاری کام ہے۔
ماہ نو:
وزارتِ اطلاعات پاکستان کے زیرِ اہتمام جاری ہونے والا ”ماہِ نو“ واحد سرکاری رسالہ ہے جسے معیار اور آزادی کے حوالے سے غیر سرکاری رسالوں کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔اصل میں اسے سید وقار عظیم جیسے فکشن شناس ادیبوں نے وقار عطا کیا اور اس کی سمت نمائی کی۔اس پرچے کے ساتھ بھی بہت سے مختلف ادیب وابستہ رہے، ہر ادیب نے بطور مدیر اپنی پالسیوں کی نظر سے پرچے کو بہتر کرنے کی کوشش کی۔ محمد حسن عسکری، رفیق خاور، چراغ حسن حسرت، فضل حق قریشی اور فضل قدیر نے اس رسالے کو مختلف زاویہ عطا کیا۔ اس رسالے کے خصوصی نمبروں میں ”اقبال نمبر“، ”غالب نمبر“، ”میر انیس نمبر“، ”مرزا دبیر نمبر“، ”قائد اعظم نمبر“، ”انقلاب نمبر“ اور ”سارک نمبر“ شامل ہیں۔ ماہ نو کا چالیس سالہ انتخاب نمبر دو جلدوں میں شائع ہوا۔ کشور ناہید نے اسے جدید رنگ عطا کیا۔ تخلیقی ادب کا اعلیٰ انتخاب کشور ناہید کی بدولت اس رسالے کی زینت بنتا۔ تراجم بھی کثرت سے شائع کیے جاتے۔ ادب کے علاوہ مصوری، نقاشی، فوٹوگرافی، سنگ تراشی، موسیقی اور آثار قدیمہ کو بھی جگہ دی جاتی۔
تسطیر:
راولپنڈی سے شائع ہونے والا کثیر اشاعتی رسالہ تسطیر معروف نظم نگار نصیر احمد ناصر کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔۔ نوے کی دہائی کے آخری سالوں میں شائع ہونا شروع ہوا مگر چند ہی سال کے بعد بند ہو گیا۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اسے دوبارہ شائع کیا جانے لگا۔ اب تسلسل سے شائع ہو رہا ہے۔ دو درجن سے زائد شمارے شائع ہو چکے ہیں۔
خیال:
خیال ایک کتابی سلسلہ تھا، جسے فیصل آباد سے انجم سلیمی اور نذر جاوید شائع کرتے رہے۔صرف تین شمارے شائع ہو سکے۔ ۱۹۹۹ سے ۲۰۰۱ء تک جاری رہا۔
آفرینش:
یہ رسالہ بھی کتابی سلسلہ تھا، جسے غزل گو شاعر مقصود وفا نے جاری کیا۔ اس کے تین شمارے شائع ہوئے مگر ناگزیر وجوہات کی بنا پر بند ہو گیا۔ ۲۰۰۳ء میں اس کا آخری شمارہ شائع ہوا۔
آثار:
فیصل عجمی اسے اسلام آباد سے شائع کرتے تھے، جس کے درجنوں شمارے شائع ہوئے۔ منفرد طباعت اور صوری خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا۔ احمد فراز جیسے شاعر اس رسالے کی ادارت و مشاورت میں شامل رہے۔
ان رسائل کی تاریخ پر نظر دوڑائے جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے رسائل انتظامی امور کی وجہ سے جلد بند ہوگئے۔ یا دوسرے مدیروں کے پاس چلے گئے۔ ایک رسالے کو مختلف ادیبوں نے جاری رکھنے کی کوشش کی۔ ہر ادیب اپنے نظریاتی پالیسی سے رسالہ جاری کرتا، جس کی وجہ سے رسالے کا پورا مزاج ختم ہو کے رہ جاتا۔ ان رسالوں نے ڈھیروں ادب کو شائع کیا۔ سرکاری سطح پر جاری ہونے والے رسالے محدود اور کمزور ادبی رسالے کہلائے جا سکتے ہیں۔ذاتی سطح پر جاری رسالوں ہی نے ادب کی صحیح معنوں میں خدمت کی۔
بیسویں صدی اہم اصناف سفرنامے، ناول، افسانے، ڈرامے، تنقید کو فروغ دینے میں ان رسائل کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔
–
صحافت اور ادبی صحافت: امتیاز و حدود
رسالہ، جریدہ یا مجلہ کسے کہتے ہیں:
جریدہ، رسالہ اور مجلہ کے الفاظ ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان کے اصلاحی معنوں میں بھی زیادہ فرق نہیں۔ لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو:
جریدہ:
’جریدہ‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں:”وہ لکڑی جس پر شمار کے نشان بنے ہوں“، یا حساب کا دفتر، حساب کی کتاب“
رسالہ:
’رسالہ ‘عربی زبان کا لفظ جس کے معنی ہیں ”فوجی دستہ“،اصطلاحی معنوں میں ایسی کتاب جس میں مختلف مضامین کا انتخاب شائع ہو۔
مجلہ:
عربی زبان کا لفظ جس کے معنی ہیں : ”وہ کتاب جس میں مضامین (تحریریں) شائع کیے جائیں۔
رسالہ:
گویا مجلہ رسالہ کا ہم معنی ہے۔جریدہ بھی رسالے ہی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو تینوں الفاظ ہم معنی ہیں۔ اس تحقیقی منصوبے میں بھی تینوں کو ہم معنی ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ انگریزی لفظ میگزین بھی انھی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ البتہ میگزین کا لفظ ادبی جرائد کے علاوہ اخباری صحافت کے لیے بھی لکھا جاتا ہے۔ اس لیے ادبی جریدوں کو رسالہ، جریدہ یا مجلہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔
ادبی صحافت سے کیا مراد ہے:
’ادبی صحافت ‘اور’ صحافت میں ادبیت‘ دونوں کے تصور معنی میں گہرا فرق ہے۔ادب سے وابستہ صحافت ’ادبی صحافت کہلاتی ہے، جس میں ادب کی ترویج و اشاعت کا بندو بست شامل ہے۔ ظاہری بات ہے یہ خالصتاً ادبی تخلیقات یا ادبی سرگرمیوں سے جڑی ادبی جمع آوری اور معیار بندی کا کام ہے۔ صحافتی زبان کاادبی استعمال یک سر ایک دوسری سرگرمی ہے جس کا ادب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بعض صحافی اخبارات میں ادارتی یا کالم طرز کی تحریروں کے لیے ادبی زبان کو بروئے کار لاتے ہیں۔ اسی طرح فیچرز یا سماجی مضامین میں بھی ادبی حسن کاری سے کام لیا جاتا ہے۔اخبارات کی شہ سرخیوں، فیچرز کی پیش کش یا اخباری میگزینوں میں مضامین نگاری چوں کہ براہِ راست خبر سے منسلک نہیں ہوتے، اس لیے ان کو زیادہ جاذبِ نظر بنانے اور ادبی چاشنی سے رنگین کرنے کے لیے ادبی زبان کا سہارا لیا جاتا ہے۔ میگزین صحافت میں ادبی زبان ایک ناگزیر ضرورت بن جاتی ہے۔ مگر ادب میں ادبی صحافت بالکل ایک مختلف موضوع ہے۔
یوں ہم دونوں کو دو مختلف تصورات سمجھتے ہوئے کہ سکتے ہیں:
۱۔ ادبی صحافت (Literary Journalism) سے مراداخبارات یا کالموں میں آنے والی ادبیت ہے۔یعنی ایسی صحافت جس کا انداز ادبی ہو۔
۲۔ ادبی صحافت سے مراد تخلیقی ادب کی اشاعت و فروغ ہے۔ ادب سے وابستہ ادبی صحافت کا بنیادی مقصد خبروں کی اشاعت نہیں، بلکہ ادبی تخلیقات کی اشاعت اور ادب میں جنم لینے والے نئے سوالات کی پیش کش ہے۔
اردو ادب کی ادبی صحافت کے کیا پیمانے ہوں؟ ادب کی ترویج و اشاعت کے وقت کیا اصول پیشِ نظر ہونے چاہیے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن پر زیادہ تفصیل سے لکھنے کی ضرروت ہے۔ اس تحقیقی منصوبے میں انھیں جاننے کی کوشش کی جائے گی۔
–
پاکستان کے اردو ادبی رسائل
ادب کی ترویج و اشاعت میں جو کردار رسائل کا رہا ہے وہ کتاب کلچر یا دیگر ادبی سرگرمیوں سے کہیں بڑھ کے ہے۔ خوش قسمتی سے اُردو میں بہت سے اہم جرائد و رسائل اس اہم ذمہ داری کو نبھاتے رہے ہیں۔ رسائل کلچر اصل میں انگرےزعہد میں آیا جب ادب کو ایک سماجی حقیقت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ پریس نے برصغیر میں ایک نئی تخلیقی دنیا کا دروازہ کھول دیا۔ اخبارات اور کتابوں کی اشاعت نے ہماری سماجی اور تخلیقی زندگی پر بہت سے اثرات ڈالے۔ ادب بھی ان اثرات سے بہرہ مند ہونے لگا۔ نِت نئے رسائل جاری ہونے لگے۔ بیسویں صدی میں خصوصاً اس اہم شعبے کی طرف ادیبوں نے توجہ دی۔سرسید نے ”تہذیب الاخلاق“ نکالا۔ جو ادبی رسالہ تو نہ تھا مگر ادب پر گہرے اثرات مرتب کرتا گیا۔ ”تہذیب الاخلاق “کے رد عمل میں ایک بہت اہم رسالہ ”تیرہویں صدی“ بھی ہے جو میر ناصر علی خان دہلوی نے ۱۸۷۶ء کو جاری کیا۔ یہ اہم رسالہ رومانوی فکر کا نمائندہ تھا جو سرسید کی عقل پرستی کے رد میں جاری ہوا۔ چار پانچ سال کے بعد یہ بند ہو گیا پھر میر ناصر علی دہلوی نے نام تبدیل کر کے ”صلائے عام“ کے نام سے ایک اور رسالہ نکالا جو ۱۹۰۸ء سے ۱۹۳۳ء تک جاری رہا۔ اس رسالے کی تنقیدی اور فکری سرمائے پر ابھی نظر نہیں پڑی۔ جامعات کو اس پر پوری توجہ دینی چاہیے اور میر ناصر علی دہلوی کی ادبی خدمات پر کام کروانا چاہیے۔ صلائے عام میں اُس وقت کے تناظرات کو پہچاننے میں مشکل پیش نہیں آتی۔ وہ عقل پرستی کے خلاف ایک جہاد کی طرح کام کرتے رہے۔ بہت کم لوگوں کو پتا ہے کہ اُردو میں رومانوی تحریک کے پس منظر میں میر ناصر علی کا نام اور کام ایک تحریک کی طرح تھا۔اسی عہد میں ”مخزن“ کا کام اور ادبی خدمات نمایاں ہیں جسے سر عبد القادر نکالتے تھے۔ ”مخزن“ میں خصوصاً جدید شاعری کو زیادہ موضوع بنایا گیا۔ یہ بھی رومانوی تحریک کا نمائندہ رسالہ بن کر سامنے آیا۔ آگے چل کر ”ساقی“ اور” ادبی دنیا“ کی اہمیت کا کون انکار کر سکتا ہے۔ادبی دنیا کو میرا جی اور ساقی کو شاہد احمد دہلوی نے اپنے اعلیٰ ادبی ذوق سے اعلیٰ ادب کا مرکز بنا دیا۔ان دو جریدوں نے مجموعی طور پر ادب کی شکل نکھارنے میں ایک قدم بڑھ کے کام کیا۔ یہی وہ دور تھا جب اُردو میں تخلیقی ادب اپنی جون بدل رہا تھا۔ نئے نئے سوالات نئی اصناف کے ساتھ مرکز گفتگو بن رہے تھے۔ ساقی میں حسن عسکری نے باقاعدہ ”جھلکیاں“ کے عنوان سے کالم لکھنے کا آغاز کیا جس میں ادب میں اٹھنے والے نئے سوالات کو اپنا موضوع بنایا جاتا۔اسی دور میں محمد طفیل کا ”نقوش“، وزیر آغا کا ”اوراق“ اور احمد ندیم قاسمی کا ”فنون“ بھی جاری ہوئے جنھوں نے ایک عہد کی تعمیر کی۔ محمد طفیل نے تقریباً تمام اصناف کو اپنا موضوع بنایا۔نقوش کے رسول نمبر، افسانہ نمبر، آپ بیتی نمبر، خطوط نمبر وغیرہ اہم شمارے تھے۔ ہمارا عہد اگرچہ ”اوراق“ اور فنون“ کے عہد سے آگے آ چکا ہے مگر ہمیں ابھی تک ”اوراق“ اور ”فنون“ کے تربیت یافتہ ادیبوں کی رہنمائی میسر ہے اور ہمارے عہد کی تعمیری و تخلیقی شناخت انہی رسائل کے تربیت یافتہ افراد سے متعین ہوتی نظر آتی ہے۔ ”اوراق“ کا قد اس لیے زیادہ برا ہے کہ اس میں نئے تنقیدی مباحث اورجدید نظم کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ حتیٰ کہ ”سوال یہ ہے“ کے عنوان سے باقاعدہ ایک سلسلہ شروع کیا گیا جس میں جیّد لکھاری حصہ لیتے جو ادب کے ہم عصر مسائل کے مختلف تناظرات کو سمیٹنے کی اہلیت رکھتا۔ ”فنون“ غزل کی ترویج کا باعث بنا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اُردو کو اعلیٰ طرز کے غزل گو ”فنون“ نے ہی فراہم کیے۔
پچھلی کچھ ایک دو دہائیوں سے اُردو میں جرائد کا اسلوبیاتی انداز بھی بدلا ہے اور پیش کش کے لیے مواد کی ترجیحات میں واضح فرق بھی آیاہے۔آج کے ادبی جرائد، ادب کو موضوع بناتے ہوئے اپنے تناظرات کو سمجھنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں اور کسی حد تک سمت نمائی بھی۔میں اگرپچھلی ڈیڑھ دہائی میں سامنے آنے والے چند رسالوں کا نام لوں تو اُن میں کراچی سے شائع ہونے رسائل میں دنیا زاد (آصف فرخی)، آج (اجمل کمال)، مکالمہ (مبین مرزا)، ارتقا (محمد علی صدیقی)، اسالیب (عنبرین عنبر)، اجرا (احسن سلیم) اپنی وضع اور مباحث میں منفرد اور کچھ ہٹ کے پیش کرنے والے رسائل ہیں۔ راولپنڈی سے سمبل (علی محمد فرشی)،تسطیر(نصیر احمد ناصر) اور ادبیات (محمد عاصم بٹ، اختررضا سلیمی)نمایاں اور اپنی شناخت بنانے والے جرائد ہیں۔
لاہور سے جرائد کے اعتبار سے کوئی خاص شمولیت نظر نہیں آتی۔ ایک عرصہ ہو گیا جب محمد سلیم الرحمن کا رسالہ ”سویرا“ نظر نواز ہوتا تو کچھ ہٹ کے دیکھنے کو ملتا۔ ایسا لگتا ہے انیس ناگی اور سہیل احمد خان کے بعد ”سویرا“ تو خاموش سا ہو گیا ہے۔ لاہور میں اس رسالے کے علاوہ کوئی دوسرا اہم ادبی رسالہ نظر نہیں آتا۔کچھ اور رسائل بھی سامنے آئے ہیں جنھیں میں بہت اہمیت دیتا ہوں ان میں تناظر (ایم خالد فیاض) اور ڈاکٹر تحسین فراقی کا ادبی شاہکار ”مباحث“ ہیں۔ ”مباحث“ نے اپنی فکریات کو خالصتاً ادبی جمالیات کے ایک خاص حصے تک منسلک رکھنے کو ترجیح دی ہے۔ شاید اس وجہ سے ”مباحث“ ادبی دنیا کے موجودہ فکری رجحانات کا نمائندہ نہیں بن سکا۔ مگر ڈاکٹر تحسین فراقی کا علمی اور ادبی وقار اپنی جگہ مسلّم ہے۔ اس لیے اس جریدے کی اہمیت بھی مسلّم ہے۔ تحسین فراقی صاحب اس رسالے کے علاوہ بھی ایک جریدہ ”صحیفہ“ مرتب کر رہے ہیں جو مجلس ترقی ادب کا نمائندہ ہے۔ یہ جریدہ خالصتاً تحقیقی موضوعات کو سمیٹتا ہے اس لیے اپنی فکریات میں محدود ہے۔ کچھ اسی قسم کا ایک رسالہ ”مخزن“ بھی ہے جو قائد اعظم لائبریری لاہور کا نمائندہ ہے۔ اس رسالے کا نام مخزن (عبدالقادر) کے نام بھی ہی رکھا گیا ہے مگر اس کی فکری مباحث اور مخزن سے کوئی تعلق نہیں۔ صوری اور اپنی اشاعت کی باقاعدگی کے حوالے سے یہ بھی ایک اچھا رسالہ ہے مگر کسی بڑے فکری تحرک کا باعث نہیں بن سکا۔
ادبی جرائد کو کیسا ہونا چاہیے! یہ ایک ایسی بحث ہے جو ہمارے ادبی مسائل کو سمجھنے کے مترادف ہے۔ ادبی جرائد اب ادب کی خالص شکل کو پیش نہیں کر سکتے یعنی محض تخلیقی ادب چھاپ کر ایک رسالہ ادب کی کوئی خدمت انجام نہیں دے سکتا کیوںکہ تخلیقی ادب کے اشاعتی اظہار کے بہت سے موثرذرائع پیدا ہو چکے ہیں۔ رسائل کے وظیفے کا معاملہ ادب کے اندر پیدا ہونے والے فکری مسائل کو سمیٹنے کا زیادہ ہے۔ ہر چیز اپنے تناظرات کی ایک توجیح ہے۔ ایک وقت تھا جب ادبی جرائد اصناف تک محدود رہ کر مدیر کی فکری یا جمالیاتی ذوق کی خام حالت سے ٹھوس شکل میں پیش ہوتے تھے۔ اب ادب کا معاملہ دو جمع دو والا نہیں رہ گیا۔ ادب کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ ادب کا سب سے اہم ذریعہ ”زبان“ ہے جس کو ایک ثقافتی تشکیل قرار دے دیا ہے۔ گویا ادب مصنف کی ”تخلیق“ نہیں، مصنف بھی زبان کے ذریعے” تشکیل “ہوتا ہے اور یوں صرف فن پاروں کی جمع آوری ہی مدیر کا کام نہیں رہ گیا۔ ادب کے اندر جن سوالات کو اُٹھایا جا رہا ہے اگر جرائد اُن کا حصہ نہیں بنتے تو وہ کارِ زیاں میں مشغول ہیں۔ ادب خلا میں تیار نہیں ہوتا اور نہ ہی ادیب اپنے تخلیقی کرب میں ذات کی جمالیاتی یا فکری الجھنوں تک محدود رہتا ہے۔ ادب کے تخلیقی عمل میں دیگر علوم کا ناگزیر حد تک عمل دخل ہو گیاہے۔ ایک شاعر یا کہانی کار اپنے ماحول کے جملہ فکری مباحث سے کٹ کے کچھ لکھ ہی نہیں سکتا۔یہ سارا عمل غیر شعوری ہوتا ہے۔ یوں ایک شاعر کا نقطہ نظر یا کہانی کا کرداری مطالعہ ایک تناظر Context میں سمجھنے سے ہی سمجھ میں آتاہے ورنہ فن پارہ اکہرا اور شخصی تشریح یا حظ اندوزی تک رک جائے گا۔
جرائد نے اپنے Context کو پھیلایا ہے۔ ایسا نہیں کہ اُردو ادبی جرائد میں پہلے ایسا نہیں تھا۔ کم از کم ”اوراق“ کو ہم اپنے معاصرین میں مختلف رسالہ پاتے ہیں۔ مگر بات وہی کہ ’اوراق ‘کے مسائل اور تناظر بھی کچھ محدود تھے اور خاص سطح سے آگے نہیں آ سکے۔ شاید اُس وقت کے حالات کے تابع ہو کے ہی ”اوراق“ اپنی فکری تشکیل کرتا رہا۔اب حالات محض غزلوں یا کہانیوں کو پیش کرنا نہیں رہ گیا بلکہ ادب کی جمالیاتی اور فکری بنت کاری کو اُس مکالمے کے اندر دکھانے کا کام بھی آن پڑا ہے جو رسالے کا مدیر اپنی ادبی اور سماجی فکریات میں چنتا ہے۔
اس حوالے سے کتابی سلسلہ ”دنیا زاد“ نے اپنی فکری شناخت سے سب سے زیادہ حصہ ڈالا ہے۔ نو گیارہ کے بعد کی صورتِ حال اور خطے کو درپیش جن حالات میں تخلیقی سطح پر شاعر اور کہانی کار جن جن کرب انگیز کیفیات سے گزرا ہے آصف فرخی نے کمال ہنر مندی سے جوڑ کر محفوظ کر لیا ہے۔ اُردو جس پر جتنا بھی ناز کرے وہ کم ہوگا۔” دنیا زاد“ ادب کی ادبیت کو سمجھنے کا رسالہ ہے۔ ایک ادب اپنی تخلیقی سماجیت میں کن مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے اور اُس کی فکری بنت میں کون کون سے عوامل ہوتے ہیں، ان سوالات کا بخوبی جواب ”دنیا زاد“کے خصوصی شماروں میں ملتا ہے۔ ’دنیازاد‘ کا ایک اور کارنامہ اُردو کو عالمی تناظر میں دیکھنے کا ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والا شمارہ ”مین بکر ایوارڈ“ کے شرکا کو اُردو میں متعارف کروایا گیا ہے۔ یہ صرف تعارف ہی نہیں بلکہ اُردو کے ادبی وقار کو ماپنے کی طرف بھی کامیاب کوشش ہے۔کیونکہ ان میں ناول نگار اور کہانی کار انتظار حسین بھی شامل ہیں۔ آصف فرخی ایک کہانی کار اور معروف مترجم بھی ہیں۔ یہ دونوں خصوصیات اُن کے مدیرانہ منصب کے لیے بہت ممد ثابت ہوئی ہیں۔ ’دنیا زاد‘ ایک ایسی کھڑکی ہے جس نے اُردو کی تنگ فکری فضا کو باہر کی وسیع تخلیقی اور تنقیدی دنیا سے جوڑ رکھا ہے۔ عموماً اس کام کو ترجموں کی شکل میں پورا کیا جاتا ہے مگر دنیا زاد میں انگریزی اور دنیا کی دیگر دوسری زبانوں میں اعلیٰ ادب کے مسائل پر ڈھیر ساری بحث بھی ملتی ہے جس سے اُردو لکھاریوں کی براہِ راست شمولیت سے اس پرچے کے قد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی طور پر دنیا زاد کا مزاج فکشن کی طرف ہے۔ خالص تنقید اور شاعری دوسری ترجیح میں شمار لگتی ہیں۔
پچھلی کچھ ایک دہائی کے اہم ادبی مباحث میں ”سمبل“ نے بھی بہت اہم حصہ لیا ہے۔ سمبل کے مدیر”علی محمد فرشی“ خود بھی ایک صاحب طرز نظم نگار ہیں شاید اسی لیے بھی انھوں نے ادب کی کھڑکی کے اندر ہی ادب کی جمالیات متعین کی ہیں۔ ”سمبل“ کا سارا زور ادب کی جمالیات کی تلاش رہا ہے اور وہ رسالے کے اندر ادب کی تخلیقی پیمائش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ مجموعی طور پر ”سمبل“ نے ادبی تخلیقی فن پاروں کی عظمت پر ادب پر اثر انداز عناصر کو کھوجنے کا پیغام دیا ہے۔ یہ بھی ایک اہم پہلوہے جس کا بخوبی اندازہ ”سمبل“ کے تمام شماروں کی ورق گرادانی کرتے ہوئے ملتا ہے۔ ”سمبل“ کا ایک اور اختصاص اعلیٰ درجے کے نظم نگار اور غزل گو شعرا کو متعارف کروانا ہے۔ سمبل کو نئی جدید نظم کی انتھالوجی بھی کہا جاتا ہے۔ تنقیدی حوالے سے نئی بحثوں کو جگہ دی گئی ہے۔ قرات خوانی کا جتنا خیال’ سمبل ‘میں رکھا گیا ہے شاید ہی کسی اُردو رسالے میں اس کا اہتمام کیا جاتا ہو۔ مختلف گوشوں کو مختلف ناموں سے علیحدہ کر دیا ہے جن کے نام بھی مدیر کی اعلیٰ ذوقی کا پتا دیتے ہیں۔
کتابی سلسلہ”آج“ کو کہانی کا نمائندہ جریدہ کہا جاتا ہے مگر میرے خیال میں اُردو کی شعریات کی تلاش میں بہت زیادہ حصہ ”آج“نے بھی لیا ہے۔ اجمل کمال کا یہ رسالہ اُردو میں اُن تراجم کو پیش کرنے میں کوئی اڑھائی دہائیوں سے مصروف ہیں جو ادب کے اُن جملہ فکریات سے جڑا ہُوا ہے جن کے حصار میں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ادیب کو رہنا پڑتا ہے۔ ہمارے قومی المیے اور فکری بحران کا اظہار اجمل کمال نے جس طرح کیا ہے اُردو میں کوئی بھی رسالہ اُس طرح کا اظہار نہیں کر سکا۔ کہانیوں میں جس ادبی وقار کا خیال اجمل کمال رکھتے آ رہے ہیں اُردو کے چند ایک ہی رسالے کو وہ نصیب ہو سکا ہے۔ اجمل کمال کا انتخاب صرف خوش ذوقی تک محدود نہیں، بلکہ ”آج“ کے صفحات پر اپنی جگہ بنانے والی ہر کہانی اُردو کے فکشن کے مجموعی سرمائے میں اضافہ بھی بنی ہے۔ شاعری بھی ترجمے کی صورت ہی سامنے آئی ہے مگر ”آج“ میں طبع زاد کہانیوں کی طرح شاعری بھی خال خال نظر آ جاتی ہے۔ شاعری میں بھی اجمل کمال نے کہانیوں کی طرح Contentکو ہی سامنے رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ”آج“ میں غزل اپنی جگہ نہیں بنا پائی۔ شاعری میں بھی نثری شاعری کا پلڑا بھاری ہے۔
ادبی رسالہ ہی کیوں؟ یہ سوال اب پہلے سے زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ اگر رسالہ نکالا ہی جائے تو وہ ادب کی ”ادبیت“ اور فن پاروں کی”تخلقیت“ کو سمیٹنے سے قاصر کیوں ہو؟ ایک ادبی رسالہ اپنے حاضر اور غائب سے اس قدر نابلد کیوں ہو؟ سماجیت کا عمل ادب میں کس طرح کارگر ہوتا ہے، ان سوالوں کے جواب ادبی رسالے کا موضوع کیوں نہیں ہوتے؟ ادب کو ادب کے طور پر لیتے ہوئے صرف اُردو تک کیوں محدود رہا جائے یا صرف ایک صنف کی محدود تکنےکی جمالیاتی گرہ کشائی تک ہی محدود کیوں رہا جائے؟
ادبی رسالوں کے مدیران کو اس طرف بھی دھیان دینا ہو گا۔چند رسالوں کے ’شور‘ کے علاوہ اُردو کے اندر ایک قسم کا جو جمود ہے، وہ رسالوں کی خموشی بھی ہے۔ جو چھپ رہے ہیں، اُن کے مدیران ادبی تناظرات کی تشکیل میں اب اتنا وقت نہیں دینا چاہ رہے۔ اسی لیے رسالے پھیکے اور بے رونق ہوتے جا رہے ہیں۔رسالوں میں ادبی مباحث تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔برائے نام کچھ مضامین میں ہلکی پھلکی بحثیں شائع ہوتی ہیں جو اس ادبی جمود کو توڑ نہیں پاتے۔
_____________
ادبی رسائل کسی بھی زبان کے ادب میں جاری سرگرمیوں کی جان ہوتے ہیں۔ ادبی صحافت محض تخلیقی، تنقیدی یا تحقیقی ادب کی جمع آوری کا نام نہیں، بلکہ اس کی ادبی پیش کش میں مجموعی تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں کی نمائندگی اور احیا بھی موجود ہوتا ہے جو دیگر ادبی سرگرمیوں (تقاریب، مشاعرے، طباعتِ کتب وغیرہ) سے اس طرح ممکن نہیں۔
افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں ادبی صحافت کو ایک اضافی یا ادب کے حاشیے کی سرگرمی سمجھا جانے لگا ہے۔ ادبی صحافت سے وابستہ افراد عموماً ’مکمل ادیب‘ تصور نہیں کیے جاتے اور جو ’مکمل‘ ادیب ہوتے ہیں، ان کی بطور مدیرانہ کارگزاری کو اُن کے مجموعی تخلیقی یا تنقیدی کام میں ایک اضافی کام تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُردو میں ادبی صحافت بطور ایک مضمون (Subject) کے ابھی تک قبول نہیں کیا گیا۔ ادبی صحافت کے اصول مرتب نہیں کیے جا سکے۔ ادبی صحافت ایک نجی عمل ہی سمجھا جاتا رہا ہے، جو چند افراد کی ذاتی دلچسپی تک محدود ہے۔
ادبی صحافت کیا ہے؟ اس کے اصول کیا ہونے چاہئیں؟ ادبی صحافت کی اہمیت اور ضرورت کیا ہے؟ ان موضوعات پر تفصیلی لکھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں اُردو میں ادبی صحافت کو درپیش موجودہ مشکلات کا ذکر کرنا چاہوں گا، جن پر گفتگو کی ضرورت بھی کچھ کم اہم نہیں۔ پہلے زمانہ تھا، جب معروف ادیب اور ادب شناس افراد ادب کی ترویج و اشاعت کا ذمہ لیتے اور اپنے ذاتی اخراجات پر رسائل چھاپتے تھے۔ اُردو میں ادبی رسائل کی باقاعدہ اشاعت انیسویں صدی کے آخری دہائیوں سے شروع ہوئی۔ بیسویں صدی کے آغاز سے ہی ادبی رسائل نے اہم سرگرمی کے طور پر جگہ بنا لی۔ ایک اہم ادبی رسالہ ”مخزن“ از سر عبدالقادر، جس کی ایک مثال ہے، اسی عہد میں”دل گداز“ (از عبد الحلیم شرر) اور”خیالستان“ (از مولانا صلاح الدین احمد) بھی کچھ کم اہم ادبی رسالے نہ تھے۔ مولانا نے بعد میں ۱۹۴۳ء میں ’ادبی دنیا‘ بھی جا ری کیا۔جس نے ادب پر تادیر نقوش چھوڑے۔ اصل میں ایک ادبی رسالے میں مندرجہ ذیل تمام سرگرمیاں سما سکتی ہیں جو ادبی محافل، اشاعتِ کتب، مشاعرے اور تقاریبِ قراتِ نثر وغیرہ سے ممکن نہیں۔
یہ تو کچھ نکات ہیں، جو ادبی رسائل میں پیش کیے جا سکتے ہیں، جن کی وجہ سے ایک رسالہ کسی طرح بھی دیگر ادبی سرگرمیوں کے مقابلے میں کمتر یا کم اہم سرگرمی نہیں ہو سکتا۔ اس وقت ادبی رسائل کو بہت سی مشکلات میں سے ایک اس مشکل کا سامنا بھی ہے کہ اس وقت ادبی رسائل واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ ایک، وہ رسائل ہیں جو ذاتی سطح پر شائع ہو رہے ہیں اور دوسرے، وہ رسائل ہیں جو مختلف اداروں سے وابستہ ہیں، ان اداروں میں جامعات، کونسل خانے، این جی اوز، سرکاری ادارے وغیرہ شامل ہیں۔ ذاتی سطح پر جاری رسائل تو اسی نہج پر شائع ہو رہے ہیں، جو صدیوں سے ادبی روایت کا حصہ ہے، جس میں تخلیقی ادب اور تنقیدی ادب کو ساتھ ساتھ شائع کیا جاتا رہا ہے۔ مکالمے، انٹرویوز، خطوط، سوال نامے وغیرہ بھی پیش کیے جا رہے ہیں، البتہ اداروں کی طرف سے شائع ہونے والے رسائل تحقیقی سرگرمیوں تک محدود کر دیے گئے ہیں۔ ان میں ادبی رسائل کی تاریخ و روایت سے قطعی انحراف کیا گیا ہے جن میں تخلیقی ادب، سوال نامے، مکالمے، خطوط وغیرہ مکمل طور پر ناقابلِ اشاعت قرار دے دیے گئے ہیں۔ اداروں سے جاری رسائل وسیع وسائل رکھتے ہیں، جو براہِ راست، جامعات میں موجود اساتذہ اور سکالرز کے مضامین و تحقیقی سرگرمیوں کو شائع کرتے ہیں۔ان رسائل نے ایک خاص ضرورت کے تحت جنم لیا ہے، جس کی وجہ سے ان کا دائرہ کار بہت محدود ہے۔
اصل میں ادبی رسائل کو تحقیقی پیٹرن پر شائع کرنے کی روایت سائنسی و علمی جرائد و رسائل سے لی گئی ہے، جو صرف تحقیقی سوالات ہی اٹھاتے ہیں۔ یہی سائنسی ریسرچ ہی سائنس میں نئے سوالات سامنے لاتی اور مجموعی سائنسی کارکردگی کو آگے بڑھاتی ہے۔ سائنسی جرائد میں تحقیقی اور تخلیقی سرگرمیوں کی کوئی واضح تفریق موجود نہیں ہوتی۔ اسی قسم کی ریسرچ سوشل سائنسز میں بھی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں کچھ اسی پیٹرن پر ادبی رسائل کو بھی شروع کر دیا گیا، جس کی وجہ سے معاشرتی ادبی سرگرمی نچڑے ہوئے لیموں کی طرح سامنے آنے لگی۔
جامعاتی رسائل کی تعداد زیادہ بھی ہے اور باقاعدہ بھی۔ جب کہ دوسری طرف ذاتی سطح پر جاری رسائل کی روایت تقریبا دَم توڑ چکی ہے۔ اس وقت چند ایک رسائل ہی باقی بچے ہیں جو باقاعدہ اور مضبوط ادبی روایت کو پیش کرنے میں کامیاب ہیں۔ جن میں کراچی والوں کا پلڑا بھاری ہے۔ تخلیقی ادب کی اشاعت اب سوشل اور سائیڈ میڈیا کی طرف منتقل ہو گئی ہے۔ سوشل میڈیا اور دوسرے میڈیائی ذرائع تخلیقی ادب اور ادبی سوالات کو پیش کرنے میں مصروف ہیں مگر یہ تمام صورتِ حال انتہائی غیر تسلی بخش اور کسی حد تک غیر مہذب انداز سے سامنے آ رہی ہے۔ جو ایک بازار میں برپا شور کی مثل ہے، جو سرِشام ختم ہوجاتی ہے اور اگلے دن نئے شور کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ تخلیقی ادب سوشل میڈیا کی طرف رُخ تو کر رہا ہے مگر یہاں کے ہنگامِ بے انتظام کی چکا چوند لہروں میں ادبی جمالیات اور مراقبے جیسی مقدس کیفیات کو کھو بھی رہا ہے۔ جہاں ادبی متن کی قرات کسی اشتہار کی قرات کی طرح ہو گئی ہے۔ نظمیں، غزلیں اور ناول کے ابواب اور افسانے قارئین پڑھ تو رہے ہیں، مگر اُن پر طرح طرح کی غیر مہذب آرا اس پوری عمل کو شدید نقصان پہنچا رہی ہیں اور پھر پڑھنے کا عمل بھی ادھورا اور ناقص ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر ذوق اور ہر سطح کا قاری محض ایک کلک پر ادبی جمالیات کی وادی میں داخل ہو سکتا ہے اور غیر وابستگی کے باوجود اپنی غیر منطقی و غیر متعلقہ رائے کا اظہار کر سکتا ہے۔
- ادبی رسائل کے بھرپور تشخص والی روایت اب ختم ہو چکی ہے جس کے تابوت میں آخری کیل جامعات کے ادبی رسائل نے لگائی ہے، جہاں تخلیقی ادب اور سوالات و مکالمات کی پیش کش ممنوعہ جرم ہے۔ نام نہاد قسم کی تحقیق و تنقید کے انبار لگائے جا چکے ہیں۔ باقاعدہ طالب علمانہ سطح کی مضمون نگاری اور نوآموز مشق سازی کو مجموعی ادبی سرگرمی کے طور پر پیش کیا جا رہے۔ ضرورت اس امر کی ہے:
- ادبی رسائل کی موت کا انتظار کرنے کی بجائے دوبارہ اُسی روایت کا احیا کیا جائے جو صدیوں سے اردو روایت کا حصہ رہی ہے۔
- سوشل میڈیا کی مہلک دنیا سے ادبی سرگرمی خصوصا تخلیقی ادب کی جمالیات کو بچایا جائے۔
- جامعاتی رسائل کو ادبی رسائل کی بجائے سوشل سائنسز طرز کی تحقیقی و علمی سرگرمی تک محدود سمجھا جائے۔ ادبی رسالے کا اصل مفہوم وہی ہے جو اردو ادبی رسائل کی روایت سے منسلک ہے۔
ادبی صحافت اور مراسلہ میں فرق
ادبی رسالہ | صحافتی رسالہ |
1۔ ادبی رسالے کا بنیادی سروکار ادب کی ترویج و اشاعت ہوتی ہے۔ | 1۔ صحافتی رسالے کا بنیادی مقصد خبر کی اشاعت ہے۔ اس کے |
2۔ ادبی رسالے کا انتخاب مدیر (ادارتی ٹیم) کے ذوق کا آئینہ دار | 2۔ صحافتی رسالے کو مدیر کی بجائے قارئین کے ذوق کے مطابق |
3۔ ادبی رسالہ ادب کے فنی (Artistic) اصولوں کو جانے بغیر نکالنا ناممکن ہوتا ہے۔ | 3۔ صحافتی رسالے کے لیے ادبی اصولوں کی بجائے صحافت کے |
4۔ ادبی رسالہ ادب کے خاص قارئین کے لیے ہوتا ہے، جو ادب کی | 4۔ صحافتی رسالہ ہر اس قاری کے لیے ہوتا ہے جو اخبار |
–
ادبی رسالے کی ڈکلیریشن
ادبی رسالہ عمومی طور پر حکومت پاکستان کے ڈکلیریشن سے شائع کیے جاتے ہیں۔ یہ ڈکلیریشن رجسٹریشن آف پرنٹنگ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈینس ۱۹۹۰ءکے نام سے قانون کا حصہ ہے۔ ڈکلیریشن بنیادی طور پر وہ اجازت نامہ ہے جس کے تحت ایک رسالے کو طباعت کی اجازت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس قانون کے تحت ایسا کوئی بھی مواد جو ریاست کے قوانین کے خلاف ہو، اسے شائع کرنا انضباطی کارروائی کے زُمرے میں آتا ہے۔ ڈکلیریشن کے تحت شائع ہونے والے ادبی جرائد کو ضابطے میں شمارہ نمبر، جلد نمبر اور تاریخِ اشاعت لکھنا ضرور ہے۔ قانون کے مطابق پبلشر اور مدیر کی الگ الگ ذمہ داریاں ہوتی ہیں، مگر بعض اوقات مدیر ہی پبلشر کے فرائض انجام دیتا ہے اور شائع شدہ مواد کی اخلاقی و قانونی حیثیت کا خود ذمہ دار ہوتا ہے۔
ادبی رسائل میں شائع ہونے والے مواد کو عموماً فن یا تخلیقی آرٹ کی وجہ سے زیادہ سخت قوانین کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، مگر پھر بھی بعض اوقات مذہبی اقدار، اخلاقی رشتوں اور حکومت وقت کی پالیسیوں کے خلاف مواد پر انضباطی کارروائی ہوتی ہے اور مدیران کو سخت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کی ادبی سرگرمیوں میں رسالوں کی بندش بڑا موضوع رہا ہے۔ جنسی مواد، غیر اخلاقی متن یا حکومتِ وقت کے خلاف تحریروں کی وجہ سے ڈکلیریشن کو منسوخ کر دیا جاتا تھا یا رسالہ ہی بند کر دیا جاتا۔ بعض اوقات تو مدیران کو بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتیں۔ ڈکلیریشن میں مدتِ اشاعت بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اگر مدیر ڈکلیریشن کی مدتِ اشاعت کے خلاف زیادہ عرصے تک رسالہ شائع نہیں کرتا تو اس کا ڈکلیریشن کینسل کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح کی صورتِ حال سے بچنے کے لیے مدیران رسالوں کو خاص نمبرز کی شکل دے کے چند جلدوں کو اکٹھا ظاہر کر دیتے ہیں۔
ایسے رسالے بھی شائع ہو رہے ہیں جن کا کوئی ڈکلیریشن نہیں ہوتا، ایسے رسالے اپنی اشاعتوں کو ڈکلیریشن کے ماتحت کرنے کی بجائے کتابی سلسلہ متعارف کرواتے ہیں۔ چوںکہ کتاب کی اشاعت کے لیے ڈکلیریشن کی ضرروت نہیں ہوتی، اس لیے رسالوں کے کتابی سلسلوں کی اشاعت عام ہو گئی ہے۔
–
ادبی رسالے کی نظریاتی پالیسی
۱۔ رسالہ ہمیشہ مدیر کے ذاتی تاثر، نظریات اور رجحانات پر مبنی ہوتا ہے۔ ادبی رسالے کو معروضی پالیسی کے تحت یکساں یا غیر متغیر معیار نہیں دیا جا سکتا۔
۲۔ رسالے کو واضح ہونا چاہیے کہ وہ کس قسم کے ادب کی ترویج چاہتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ کسی تحریری صورت میں بیان کرے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔ زیادہ بہتر ہے کہ وہ مواد کے انتخاب اور پیش کش سے رسالے کی پالیسی اور معیار کی وضاحت کرے۔ فنون اور اوراق کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں؛ فنون تخلیقی ادب اور اوراق تنقیدی ادب کے لیے مشہور تھے۔ ان میں شائع ہونے والے ادیب ملک گیر شہرت حاصل کر جاتے۔ اوراق نے جدید تنقیدی مباحث کو آگے بڑھانے میں حصہ لیا۔ کراچی سے صریر بھی اس ضمن میں منفرد رسالہ تھا جس میں جدید تنقید کو اولیت سے پیش کیا جاتا۔
۳۔ ایسے رسالے جن کی نظریاتی پالیسی واضح نہیں ہوتی، ناکام اور غیر اہم ادبی رسالے سمجھے جاتے ہیں۔
۴۔ منظم اداروں کے نمائندہ ادبی رسالے ایک خاص طرز کی ادبی ترجیحات رکھتے ہیں۔ ان ادبی رسالوں میں مخصوص ادیبوں کے علاوہ مخصوص ادبی میلانات ہی کا ادب شائع ہوتا ہے۔اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی پالیسی واضح کریں کہ وہ کس قسم کے ادب کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔
اردو میں معروف اور بڑے ادبی رسائل کے مدیران:
محمد طفیل اور صہبا لکھنوی
احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا
شاہد احمد دہلوی اور مولانا صلاحالدین احمد
ادبی رسائل کے چند اشتہارات:
چند ادبی رسائل کے سراوراق:
فنون اور نقاط
آج اور نگار
نقوش اور نیرنگ خیال
دنیا زاد اور سمبل
سوغات اور شبخون
نیا دور اور نیا ورق
(جاری ہے۔۔۔)
اس مقالے کا دوسرا اور آخری حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔