گذشتہ اقساط کے مطالعہ کے لئے درج ذیل لنکس استعمال کیجئے (لنک نئے ٹیب میں کھلیں گے)

قسط نمبر 1قسط نمبر 2

باب نمبر 2: آکسفورڈ اور کیمبرج

میرے والد کی شدید خواہش تھی  کہ میں آکسفورڈ یا کیمبرج میں سے کسی ایک یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کروں ۔ وہ خود بھی یونی ورسٹی کالج آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ تھے لہذاٰ اُن کا خیال تھا  کہ مجھے بھی وہیں داخلہ لینا چاہئے کیونکہ وہاں میرے لئے داخلے کے امکان زیادہ روشن تھے۔ اُس وقت یونی ورسٹی کالج میں ریاضی کا کوئی وظیفہ مختص نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میرے والد مجھے کیمسٹری میں اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتے تھے: کیونکہ میرے لئے ریاضی کی بجائے کسی نیچرل سائنس میں سکالر شپ کے لئے کوشش ممکن تھی۔

(اس دوران) میری باقی فیملی ایک سال کے لئے انڈیا چلی گئی لیکن میں ساتھ نہیں جا پایا کیوں کہ مجھے اے لیولز  کرنا تھا اور بعد ازاں یونی ورسٹی میں داخلہ لینا تھا۔ میرے ہیڈ ماسٹر کے خیال کے مطابق میں آکسفورڈ میں داخلے کیلئے ابھی میں بہت چھوٹا تھا ، اس کے باوجود میں مارچ 1959 میں سکالر شپ کا امتحان دو اور لڑکوں کے ساتھ دینے گیا جو مجھ سے ایک سال سینئر تھے۔ مجھے یقین تھا کہ میرا امتحان بہت برا ہوا ہے اور تب بہت زیادہ پریشان بھی تھا جب پریکٹیکل امتحان کے دوران یونی ورسٹی کے لیکچرار دوسرے طلباء سے بات چیت کیلئے آئے لیکن مجھ سے کسی نے بات نہیں کی۔اور پھر آکسفورڈ سے واپسی کے چند دنوں بعد، مجھے ایک ٹیلی گرام موصول ہوا جس میں بتایا گیاتھا کہ مجھے سکالر شپ کے لئے منتخب کر لیا گیا ہے۔

میں تب سترہ برس کا تھا اور میرے ہم جماعت طالب علموں میں بہت سوں نے ملٹری سروس بھی کر رکھی تھی اور مجھ سے عمر میں کافی بڑے تھے۔ اس وجہ سے پہلا پورا سال اور دوسرے سال کے کچھ حصے کے دوران میں نے خود کو بہت تنہا محسوس کیا۔ میرا تیسرا برس تھا جب میں نے خود کو بہت خوش و خرم محسوس کیا۔ تب آکسفورڈ کا ماحول بہت سہل پسند (anti-work) ہوا کرتا تھا۔ آپ کے لئے بغیر محنت کے ایک شاندار طالب علم ہونا وہاں کے کلچر کے مطابق فرضِ عین تھا ، یا پھر اپنی حدود کو قبول کریں (یعنی اپنی کند ذہنی کا اقرار کریں اور)چوتھے درجے کی ڈگری حاصل کر لیں۔ محنت کر کے ایک بہتر ڈگری حاصل کرنے والے کو gray man سمجھا جاتا تھا، جو کہ ‘آکسفورڈ کی لغت’ کے مطابق ایک  بد ترین صفت تھی۔

اُس دور میں فزکس کی ڈگری کو آکسفورڈ میں یوں مرتب کیا گیا تھا کہ اس کے طالب علموں کا کام سے بچے رہنا (دوسروں کی نسبت) خاص طور سے آسان تھا۔ میں نے صرف ایک امتحان دیا اور دوسرے سال میں داخل ہو گیا اور بعد ازاں آکسفورڈ کے بقیہ تین سالوں میں بھی صرف سالانہ امتحانات دیے۔ ایک مرتبہ تخمینہ لگانے پر مجھے  یہ آشکار ہوا کہ میں نے اپنے تین برسوں کے دوران کوئی ایک ہزار گھنٹے کا کام کیا تھا، جو اوسطاً ایک گھنٹہ روزانہ بنتا تھا۔ مجھے کام کی اس قلت پر فخر نہیں ہے۔ میں صرف اپنا تب کا اپنا رویہ بیان کر رہا ہوں، اور ایسا ہی رویہ وہاں کے زیادہ تر طالب علموں کا تھا: ایک مکمل بوریت کا احساس اور یہ رویہ کہ کچھ بھی ایسا نہیں ہے جس کے لئے کوشش کی جائے۔  مجھے بیماری سے حاصل ہونے والے اسباق میں سے ایک یہ ہے کہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے یہ تبدی ہونا چاہئے۔۔ جب آپ قبل از وقت موت کے امکان سے دوچار ہوں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ زندگی جئے جانے کی شے ہے اور بہت کچھ ایسا ہے جو آپ کرنا چاہتے ہیں۔

کام (کرنے) کی قلت کی وجہ سے ، میں نے یہ سوچ رکھا تھا کہ میں نظری طبیعیات کے سوالات حل کروں گا اور ان سوالات سے احتراز برتوں گا جو اطلاقی علم (applied physics) کے متقاضی تھے۔ تاہم (اسی دوران ہونے والے) امتحان سے ایک رات قبل نروس ٹینشن کے باعث میں سو نہیں پایا تھا، اور امتحان میں اچھی کارکردگی نہ دکھا سکا۔ میں درجہ اول اور درجہ دوم کی ڈگری کے بین بین تھا، اور ممتحن حضرات نے میرا گریڈ متعین کرنے کے لئے میرا انٹرویو لینا تھا۔ انٹرویو میں انھوں نے مجھ سے میرے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں پوچھا۔ میں نے بتایا کہ میں ریسرچ کرنا چاہتا تھا۔ اگر وہ مجھے درجہ اول میں پاس کرتے تو میں کیمبرج جاتا اور درجہ دوم میں پاس ہونے پر آکسفورڈ میں ہی رہتا۔ انھوں نے مجھے درجہ اول میں پاس کر دیا۔

میرا احساس تھا کہ نظری طبیعیات کے دو ممکنہ دائرے ہیں جو بنیادی تھے اور جن میں مجھے تحقیق کرنی چاہئے تھی۔ ان میں سے ایک کُونیات (cosmology) تھا، یعنی بہت بڑے اجسام کا مطالعہ۔ اور دوسرا بنیادی ذرات (elementary particles) تھا، یعنی بہت چھوٹے اجسام کا مطالعہ۔ میرے خیال میں بنیادی ذرات کم پر کشش تھے کیونکہ ، اگرچہ سائنس دان بہت سے نئے ذرات ڈھونڈ نکال رہے تھے لیکن اس وقت تک کوئی مناسب نظریہ سامنے نہیں آیا تھا۔ زیادہ سے زیادہ وہ یہ کر رہے تھے کہ ان ذرات کو مختلف categories میں تقسیم کر دیں، جیسا کہ botany میں ہوتا تھا۔ جبکہ دوسری جانب، کُونیات میں ایک متعین نظریہ تھا، جو کہ آئن سٹائن کا جنرل نظریۂ اضافت (General Theory of Relativity) تھا۔

آکسفورڈ میں کوئی بھی نہیں تھا جو کُونیات پر کام کر رہا تھا ، لیکن کیمبرج میں Fred Hoyle کونیات پر کام کر رہے تھے، جو اپنے وقت کے ممتاز ترین برطانوی ماہرِ فلکیات تھے۔ اسی وجہ سے میں نے Hoyle کی سرپرستی میں پی ایچ ڈی کے لئے اپلائی کر دیا۔ چونکہ میں اول درجے میں کامیاب ہوا تھا اس لئے مجھے کیمبرج میں پی ایچ ڈی میں داخلہ مل گیا۔ لیکن یہ جان کر میں بہت الجھن کا شکار ہوا کہ میرے سپروائزر Hoyle نہیں بلکہ Denis Sciama تھے، جن کو میں نہیں جانتا تھا۔ تاہم انجام کار ایسا میرے حق میں بہترین ثابت ہوا۔ Hoyle زیادہ تر بیرون ملک رہتے تھے اور  غالباً اس وجہ سے میں ان سے زیادہ استفادہ کر بھی نہ پاتا۔ جبکہ دوری جانب، Scima کیمبرج میں ہی ہوتے تھے اور ہمیشہ  حوصلہ افزائی کرتے تھے، اگرچہ میں اکثر ان کے خیالات سے متفق نہیں ہوتا تھا۔

چونکہ میں نے سکول اور آکسفورڈ میں زیادہ ریاضی نہیں پڑھی تھی، اس وجہ سے ابتداً مجھے جنرل نظریۂ اضافت سمجھنے میں بہت مشکل پیش آئی اور میں کوئی زیادہ progress نہیں کر سکا۔ مزید برآں میں نے آکسفورڈ میں اپنے آخری سال کے دوران غور کیا کہ میری جسمانی حرکت بد سلیقہ ہوتی جا رہی ہے۔ کیمبرج جانے کے بعدجلد ہی، مجھ میں ALS (amyotrophic lateral sclerosis) کی تشخیص ہو گئی، جسے برطانیہ میں موٹر نیوران (motor neuron) کی بیماری کہا جاتا ہے۔ (امریکہ میں اسے Lou Gehrig’s disease بھی کہتے ہیں )۔ ڈاکٹر حضرات میرا علاج کر پائے نہ ہی مجھے یہ یقین دہانی کرا پائے کہ میری بیماری میں مزید اضافہ نہیں ہو گا۔

ابتداً یوں محسوس ہوا کہ بیماری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔(اس وجہ سے) مجھے اپنا تحقیقی کام بے وقعت لگنے لگا، کیونکہ مجھ اتنی بھی امید نہ رہی تھی کہ میں اپنی پی ایچ ڈی کی تکمیل تک زندہ رہ پاؤں گا۔تاہم، جوں جوں وقت گزرتا گیا، بیماری میں بظاہر آہستگی آتی گئی۔ میں نے جنرل نظریۂ اضافت بھی سمجھنا شروع کر دیا اور اپنا (پی ایچ ڈی کا) کام بھی شروع کر دیا۔ لیکن جو امر فیصلہ کن ثابت ہوا وہ میری Jane Wilde سے منگنی تھا، جس سے میری ملاقات اپنی بیماری کے تشخیص کے آس پاس ہی ہوئی تھی۔ جین کی شکل میں مجھے اپنا زندہ رہنا بامقصد نظر آنے لگا۔

ہماری شادی کے لئے میرے پاس ملازمت کا ہونا ضروری تھا، اور ملازمت ہونے کیلئے پی ایچ ڈی ہونا ضروری تھا۔ اور یوں آخرِ کار زندگی میں پہلی مرتبہ میں نے کام کرنا شروع کیا۔ اور مجھے حیرانی ہوئی کہ مجھے کام کرنا پسند آ رہا تھا۔ شاید اسے کام کہنا مناسب نہ ہو (کیونکہ) کسی نے کہہ رکھا ہے: سائنس دان اور طوائفوں کو اُن کی پسند یدہ سرگرمیوں کا معاوضہ ملتا ہے۔

میں نے Gonville اور Caius کالج میں ریسرچ فیلو شپ کے لئے درخواستیں جمع کرائیں۔ میں امید کر رہا تھا کہ میری درخواست جین ٹائپ کرے گی لیکن جب وہ مجھ سے ملنے کیمبرج آئی تو اُس کے ٹوٹے ہوئے بازو پر پلستر چڑھا ہوا تھا۔ مجھے اقرار کرنا چاہئے کہ مجھے اس واقعے پر جتنی ہمدردی دکھانا چاہئے تھی وہ میں نے نہیں دکھائی۔ اُس کا چونکہ بایاں بازو ٹوٹا تھا اس وجہ سے وہ میری درخواست لکھنے کے قابل تھی۔ میں بولتا گیا اور وہ لکھتی گئی، اور یوں بالآخر مجھے خود درخواست نہیں لکھنا پڑی

درخواست جمع کرانے کے لئے مجھے دو افراد اپنے کام کے حوالہ (reference) کے طور پر درکار تھے ۔ میرے سپروائزر نے تجویز دی کہ مجھے Herman Bondi کا نام دینا چاہئے۔ Bondi اس وقت kings College لندن میں ریاضی کے پروفیسر تھے۔، اور جنرل نظریۂ اضافت کے ماہر تھے۔ میری ان سے ایک دو مرتبہ ملاقات تھی، اور انھوں نے Proceedings of the Royal Society نامی جرنل میں میرا لکھا ہوا تحقیقی مقالہ شائع کرایا تھا۔ میں نے ان سے (ان کا نام بطور ریفرینس کے درج کرنے کے لئے) پوچھا، جب وہ کیمبرج میں ایک لیکچر دے کر فارغ ہوئے، تو انھوں نے مبہم انداز سے مجھے دیکھتے ہوئے حامی بھر لی۔ یقیناً میں انہیں یاد نہیں رہا ہوں گا کیونکہ جب کالج نے ان سے ریفرینس کے لئے رابطہ کیا تو جواباً انھوں نے کہا کہ وہ مجھے نہیں جانتے تھے۔ آج کل کالج ریسرچ فیلو شپ کے لئے اتنی کثیر تعداد میں درخواست گزار ہوتے ہیں کہ اگر کسی بھی درخواست گزار کا ریفرینس یہ کہہ دے کہ وہ اسے نہیں جانتا، تو وہیں اس درخواست گزار کے داخلے کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔ لیکن وہ وقت کافی خاموش تھا۔ کالج نے مجھ سے رابطہ کر کے Bondi کا شرمندہ کردینے والا جواب بتایا، اور پھر میرے سپروائزر نے Bondi کی یادداشت تازہ کی۔ Bondi نے میرے لئے ایسا ریفرینس لکھا جس کا شاید میں مستحق نہیں تھا۔ مجھے فیلو شپ مل گئی اور تب سے میں Caius کالج کا فیلو ہوں۔

اس فیلو شپ کا مطلب یہ تھا کہ جین اور میں شادی کر سکتے تھے، جو ہم نے جولائی 1965 میں کی۔ ہم نے ہنی مون کا وقت Suffolk میں ایک ہفتے کے لئے گزارا، اور اس سے زیادہ اخراجات میں برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ بعد ازاں ہم Cornell University نیویارک کے summer school میں گئے جہاں جنرل نظریۂ اضافت پڑھایا جانا تھا۔ وہاں جانا ایک غلطی تھی۔ ہم ایک ایسی اقامت گاہ میں ٹھہرے جہاں ایسی جوڑے رہ رہے تھے جن کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے جو بہت شور مچاتے تھے، اس وجہ سے اس رہائش نے ہماری شادی شدہ زندگی پر کافی بوجھ ڈالا۔ اس کے علاوہ summer school بہت مفید رہا کیونکہ میں اپنے شعبے کے بہت سے قافلہ سالاروں سے مل پایا۔

1970 تک میں نے کُونیات میں تحقیق کی، جو کہ کائنات کی بڑے پیمانے پر تحقیق تھی۔ اس دورانیے میں میرا سب سے اہم کام Sigularities پر تھا۔ دور دراز کہکشاؤں کا مشاہدہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ وہ ہم سے دور جا رہی ہیں : کائنات پھیل رہی ہے۔ یہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ماضی میں کہکشائیں ایک دوسرے کے قریب رہی ہوں گی۔ اس کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے: کیا ماضی میں کوئی ایسا وقت تھا جب تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی تھیں اور یوں کائنات کی کثافت غیر متناہی تھی؟ یا ماضی میں ایک ایسا دورانیہ تھا جب کہکشائیں (قریب تو تھیں لیکن) ایک دوسرے سے ٹکرانے سے محفوظ رہی ہوں گی؟ ممکن ہے وہ ایک دوسرے کے قریب سے گزر گئی ہوں پر ایک دوسرے سے ٹکرانے سے محفوظ رہی ہوں؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے ایک نئے ریاضیاتی طریقۂ کار کی ضرورت تھی۔ یہ طریقہ ہائے کار 1965 سے 1970 کے درمیان وضع کئے گئے جن میں راجر پینروز (Roger Penrose)اور میرا کردار بنیادی تھا۔ پینروز اس وقت Birkbeck کالج لندن میں تھے، اور اب آکسفورڈ میں ہیں۔ ہم نے ان ریاضیاتی طریقہ ہائے کار کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ اگر جنرل نظریۂ اضافت درست ہے تو ماضی میں غیر متناہی کثافت کی ایک حالت لازماًرہی ہو گی۔

غیر متناہی کثافت کی یہ حالت big bang singularity کہلاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر جنرل نظریۂ اضافت درست ہے تو سائنس یہ بتانے کے قابل نہیں ہو پائے گی کہ کائنات کیسے شروع ہوئی تھی۔ تاہم، میرا تازہ ترین تحقیقی کام یہ نشان دہی  کرتا ہے کہ کائنات کا آغاز جاننا ممکن ہے اگر ہم کوانٹم فزکس کی مدد سے اسے سمجھنے کی کوشش کریں، جو کہ مادے کا ذرات کی سطح پر مطالعے کا نام ہے۔

جنرل نظریۂ اضافت اس امر کی بھی پیشین گوئی کرتا ہے کہ دیو ہیکل ستارے جب اپنا نیوکلیائی ایندھن استعمال کر چکے ہوں گے تو وہ آپس میں ٹکرائیں گے۔ میرے اور پین روز کے کام نے یہ ثابت کیا کہ ستارے آپس میں تب تک ٹکرانا جاری رکھیں گے جب تک کہ وہ غیر متناہی کثافت کی اکائی (singularity) کو نہیں پہنچ جاتے۔ یہ اکائی کم از کم ان ستاروں اور ان پہ موجود ہر شے کے لئے وقت کا اختتام (end of time) ہو گا۔ اس اکائی کی کششِ ثقل اس قدر شدید ہو گی کہ اس کےاطراف موجود جگہوں سے روشنی بھی باہر نہ نکل پائے گی اور gravitational field اسے واپس کھینچ لائے گا۔ ایسا علاقہ جہاں سے روشنی کا فرار نا ممکن ہو، بلیک ہول (black hole) کہلاتا ہے اور اس کی حدود event horizon کہلاتی ہیں۔ کوئی بھی شے جو event horizonکے ذریعے بلیک ہول میں گرتی ہے، اس کا end of time اکائی پر جا کر ہوتا ہے۔

یہ 1970 کی بات ہے کہ میں ایک مرتبہ جب سونے کے لئے بستر پر لیٹا تو بلیک ہولز کے بارے میں سوچ رہا تھا، او ر یہ میری بیٹی Lucy کی پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعد کی بات تھی۔ اچانک مجھے یہ ادراک ہوا کہ میں نے پین روز کے ساتھ مل کر اکائی کو ثابت کرنے کے لئے جو طریقہ ہائے کار وضع کئے تھے وہ بلیک ہولز پر بھی منطبق کئے جا سکتے تھے۔ بالخصوص بلیک ہولز کا باہری کنارہ جو event horizon کہلاتا ہے، اس میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی واقع نہیں ہو سکتی۔ اور دو بلیک ہولز  کے ٹکرانے سے جب ایک نیا بلیک ہول وجود میں آئے گا، تو اس نئے بلیک ہول کے افق کا رقبہ ان دو بلیک ہولز کے مشترکہ رقبہ سے بڑا ہو گا۔ اس نتیجے سے بلیک ہولز کے آپس میں ٹکرانے سے خارج ہونے والی توانائی کی مقدار پر ایک اہم حد بندی عائد ہو گئی۔اس اچانک ادراک سے میں اس قدر پر جوش تھا کہ اس رات ٹھیک سے سو نہ سکا۔

1970 سے 1974 کے درمیان میں نے بلیک ہولز پر کام کیا۔ لیکن 1974 میں غالباً میں نے اپنی سب سے حیران کن دریافت کی: کہ بلیک ہولز مکمل طور پر بلیک نہیں ہیں! جب ہم مادے کا بہت چھوٹی سطح پر تعامل دیکھتے ہیں ، تو بلیک ہولز سے بھی ذرات اور شعائیں خارج ہو سکتی ہیں۔اور بلیک ہول ایک گرم شے کی طرح شعائیں خارج کرتا ہے۔

1974 سے میں جنرل نظریۂ اضافت اور کوانٹم میکانکیات (quantum mechanics) کو باہم ملا کر ایک متوازن نظریہ بنانے پر کام کر رہا ہوں۔ اور اس کا ایک نتیجہ وہ تجویز (proposal) ہے جو میں نے 1983 میں نے جم ہارٹل (Jim Hartel) کے ساتھ مل کر 1983 میں پیش کیا۔ جم ہارٹل کا تعلق یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا سانتا باربرہ (Santa Barbara) سے تھا: پروپوزل یہ تھا کہ وقت (time) اور خلاء (space) محدود ہیں لیکن اُن کی کوئی حد بندی (boundary) یا کنارہ (edge) نہیں ہے۔ وہ زمین کی سطح جیسے ہی ہوں گے ، لیکن ان کی دو اضافی  جہات یا طول و عرض (dimensions) ہوں گے۔ زمین کا بیرونی علاقہ اپنے رقبہ میں محدود ہے لیکن اس کا کوئی کنارہ نہیں ہے۔ دنیا میں اپنے تمام تر سفر کے دوران میں (me) کبھی بھی زمین کے کنارے سے باہر نہیں گرا۔ اگر یہ پروپوزل درست ہے تو اس کا مطلب ہے اکائی (singularity) وجود نہیں رکھتی اور سائنس کے قوانین ہر جگہ پر لاگو ہوں گے، اور کائنات کے نکتۂ آغاز پر بھی یہ قوانین لاگو ہوں گے۔ یعنی کائنات کے آغاز کا تعین ہم سائنس کے قوانین سے کر پائیں گے۔ میں اپنے اس ارادے میں کامیاب ہو چکا ہوتا کہ یہ دریافت کروں کہ کائنات کا آغاز کیسے ہوا لیکن میں یہ ابھی تک نہیں جانتا کہ اس کا آغاز کیوں ہوا۔

Leave a Reply