Laaltain

اردو کی ادبی صحافت: دوسرا حصہ

4 فروری، 2025

اس مقالے کا پہلا حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 

فہرست

(دوسرا حصہ)

اردو میں مجلاتی صحافت

ادارت اور فنِ ادارت

ادبی رسالے کے نظری اصول

ادبی رسالے کی اہمیت

ادارت کے مسائل

i۔ فیصلہ سازی کا مسئلہ

ii۔ ادارتی مجلس کی ضرورت

iii۔ مدیر بطور لکھاری

iv۔ رسالے کی ادبی ترجیحات

v۔ کسی صنف یا ادبی مسئلے سے تعصب کا اظہار

v ادبی صحافت کے عملی مسائل

v اداریہ نویسی

i۔رسالے کے بانی اورمہمان مدیر کے اداریے

ii۔ اداریے کا موضوع

iii۔اداریے کی طوالت

iv۔اداریے میں رسالے کے مندرجات کے مباحث

v۔’مہمان اداریہ‘کا تصور

v فہرست سازی مسئلہ

v رسالے میں مصنف کے نام کے اندراج کا مسئلہ

v مکرر اشاعت کا مسئلہ

v املا اور پروف ریڈنگ کا مسئلہ

v رسالے کا سر ورق

v ادبی رسالے کے موادکا حصول

v ادبی رسالے میں شائع ہونے والے خطوط / مراسلہ نگاری

v رسالے میں تجارتی اشتہارات کی اشاعت

v انٹرویو نگاری کے اصول

v شائع مواد کا اغلاط نامہ

v طباعت و تقسیم کے مسائل

اردو میں مجلاتی صحافت

ادبی مجلہ کتابی سلسلہ بھی ہو سکتا ہے اور ماہنامہ، سہ ماہی یا ششماہی بھی۔ مجلاتی صحافت پر اردو میں باقاعدہ انداز میں دو کتب لکھی گئی ہیں:

۱۔ مجلاتی صحافت کے ادارتی مسائل (روشن آرا راؤ)

۲۔ پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ (ابتدا تا ۱۹۸۸ء) (ڈاکٹر انور سدید)

مجلاتی صحافت کی اقسام:

دنیا بھر میں ادب کی اشاعت کے لیے مختلف قسم کے ادبی جرائد شائع ہو رہے ہیں۔ نئے اشاعتی ذرائع نے ادب پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔اس وقت اردو مجلاتی صحافت مندرجہ ذیل چار طرح کے ذرائع استعمال کر رہی ہے:

آن‌لائن ادبی میگزین:

کچھ ادبی رسالے آن لائن بھی شائع ہونے لگے ہیں۔ مگر آن لائن ادبی صحافت ہمارے موضوع کا حصہ نہیں۔ اس حوالے سے اتنا بتاتا ضروری ہے کہ مواد کے انتخاب کے لیے مدیر یا ادارتی ٹیم کو انھی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جو پرنٹ ادبی صحافت کے مراحل ہیں۔ االبتہ آن لائن ہونے کی وجہ سے مواد میں ہر وقت کانٹ چھانٹ یا ترمیم (پروف) کا اختیار رہتا ہے۔ نئے مضامین یا تخلیقی مواد کی اشاعت کی چوںکہ کوئی حد نہیں ہوتی، اس لیے کسی بھی وقت شائع کیا جا سکتا ہے۔ آن لائن ادبی رسائل ایک مسلسل ادبی صحافت ہے، جس کی ذمہ داریاں اور مسائل بھی مختلف ہیں۔

الیکٹرانک ادبی مجلاتی صحافت:

الیکٹرانک ادبی مجلے پی ڈی ایف یا دوسری سافٹ شکلوں میں شائع کیے جاتے ہیں۔ یہ پرنٹ ادبی مجلوں کی ہوبہو نقل ہوتے ہیں، جسے الیکٹرانک شکل میں ریلیز کر دیا جاتا ہے۔ چوں کہ آج کل ہر دوسرے آدمی کے پاس کمپیوٹر،گیجٹ (Gadgets) یا موبائل کی سہولت موجود ہے۔ اس لیے الیکٹرانک صحافت کو فروغ مل رہا ہے۔ طباعت، تقسیم کاری، افرادی قوت اور دیگر اخراجات سے بچنے کے لیے جدید طریقوں کو اپنایا جا رہا ہے۔

مطبوعہ ادبی مجلاتی صحافت:

اس تحقیقی پراجیکٹ میں ہمارا بنیادی سروکار مطبوعہ ادبی مجلاتی صحافت کے اصول و قواعد مرتب کرنا ہے۔

ادبی رسائل چونکہ ادبی تخلیقات اور ادبی حلقوں سے متعلق ہوتے ہیں، اس لیے ان کا دارومدار ادبی سرگرمی پر ہوتا ہے۔ادبی سرگرمی روزانہ کی خبروں کی طرح وقوع پذیر نہیں ہو رہی ہوتی، جن میں سے انتخاب کرکے صحافی خبروں کی زینت عطا کر دے۔ ادبی حلقوں میں ہونے والی سرگرمیوں تخلیق اور تنقیدی سوالات سے جڑی سرگرمی ہے، جس میں سے انتخاب کرکے مدیر کو مجلے میں شائع کرنا ہوتا ہے۔

یوں تو روزانہ کی بنیاد پر بھی مختلف اخبارات میں ادب کا ایک الگ سے گوشہ شائع ہوتا رہا ہے۔مگر ہم اسے ادبی جریدہ نہیں کہہ سکتے۔ سہ روزہ ادبی جریدے بھی ملتے ہیں، مگر ان کا بنیادی مقصد اشتہارات کی اشاعت ہوتا یا ادب بننے والی خبروں کو عوام تک پہنچانا تھا۔ ایک وقت تھا جب ادبی سرگرمی سماج کی اہم سرگرمی تھی، جسے سننا یا پڑھنا عوام پسند کرتے۔ ہفت روزہ ادبی جریدہ نکالنا سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔ ہر ہفتے ادبی سرگرمیوں کو پیش کرنا اور پھر معیار کو بھی قائم رکھنا بہت مشکل کام ہے۔ البتہ ہم دیکھتے ہیں کہ تقسیم ہندوستان سے پہلے اور بعد میں بھی ایک عرصے تک ہفت روزہ رسائل نکلتے رہے۔پندرہ روزہ اور ماہنامہ رسائل میں کثرت سے شائع ہوتے رہے۔ سب سے مقبول ادبی رسائل سہ ماہی اور ششماہی رہے ہیں۔ اردو کے بڑے ادبی جرائد سہ ماہی تھے یا ششماہی۔ سالانہ بنیادوں پر شائع ہونے والے ادبی جرائد بہت کم ہیں، ان کی جگہ کتابی سلسلوں کو مقبولیت حاصل رہی۔

اگر ادبی رسائل کو وقفۂ اشاعت کی ترتیب سے دیکھا جائے تو مندرجہ ذیل قسم کے ادبی جرائد پائے جاتے ہیں:

۱۔ ہفت روزہ
۲۔پندرہ روزہ
۳۔ماہنامہ

ہفت روزہ، پندرہ روزہ اور ماہانہ بنیادوں پر ادبی جریدہ نکالنابہت مشکل کام ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ادبی رسالے کا بنیادی کام معیاری ادب کو سامنے لانا اور ادبی سرگرمیوں پر نئے سوال قائم کرنا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو روزانہ، ہفتہ وار یا ماہانہ وار معیاری ادب کو جمع آوری ایک مشکل بلکہ ناممکن کام ہوتا ہے۔ ادبی تخلیقات اور تحریروں کو وقت دینا چاہیے تاکہ ہر طرح کی لکھی جانے والی تحریر سامنے آ سکے۔ ماہنامہ ادبی رسائل میں ’ادبِ لطیف، شاعر، شب خون، معاصر‘ کو خاص شہرت حاصل رہی ہے۔

۴۔سہ ماہی/تماہی (مالک رام اپنے رسالے ’تحریر‘ کو، جو علمی مجلس دلی، کی طرف سے شائع ہوتا تھا، تماہی لکھتے)
ایسے رسائل جو تین ماہ بعد شائع ہوتے ہیں سہ ماہی جریدے کہلاتے ہیں۔ سہ ماہی جرائد میں اوراق، فنون، نیا ورق، سیپ، روشنائی، ارتقا، آج وغیرہ خاصی شہرت ملی۔

۵۔ششماہی

چھ مہینوں کے بعد شائع ہونے والے ادبی جرائد ششماہی جریدے کہلاتے ہیں۔ اردو کے ادبی جرائد کی ایک بڑی ششماہی ادبی سلسلوں پر مشتمل ہے۔ جن میں سمبل، تسطیر، نگار،سیپ وغیرہ شامل ہیں۔

۶۔ سالانہ

ہر سال شائع ہونے والے ادبی جریدے سالانہ جرائد کہلاتے ہیں۔ ایسے جریدوں میں، خیال، آفرینش، وغیرہ شامل ہیں۔

۷۔ کتابی سلسلہ

کتابی سلسلہ اصل میں رسالے کی کتابی شکل ہے، جس کی کوئی خاص وقت ِاشاعت متعین نہیں ہوتا۔ جس طرح کتابی مواد کو کسی بھی وقت شائع کیا جا سکتا ہے، اسی طرح رسالے کا کتابی سلسلہ کسی وقت بھی شائع کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے لیے کسی ڈکلیریشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ کتابی سلسلوں میں آج، شعر و حکمت، دنیا زاد، زر نگار، لوح نقاط، مباحث وغیرہ شامل ہیں۔

۸۔ خصوصی شمارے، خاص نمبر

کسی بھی ادبی رسالے کا خصوصی یا خاص نمبر کسی اہم موضوع، شخصیت کے حوالے سے شائع کیے جاتے ہیں۔ جیسے منٹو نمبر، اقبال نمبر، غالب نمبر، غزل نمبر، نظم نمبر،آزادی نمبر، مابعد جدید نمبر وغیرہ۔ یوں دیکھا جائے تو خاص نمبر موضوع، شخصیت اور صنف کے حوالے سے ترتیب دیا جاتا ہے۔ خاص نمبروں میں رسالے کے موضوع کی مناسبت سے مواد جمع کیا جاتا ہے۔ ایسے شماروں میں طبع زاد مضامین یا تخلیقی ادب کے علاوہ شائع شدہ مواد بھی شامل کیا جاتا ہے۔ مدیر یہ کوشش کرتا ہے کہ موضوع پر زیادہ سے زیادہ مواد اکٹھا ہو سکتے اور قاری کو اس حوالے سے بہتر ادب کا مطالعہ اور نئے سوالات اجاگر کرنے میں سہولت ہو۔ بھارت سے اثبات، شعر و حکمت، نیا ورق وغیرہ، جب کہ پاکستان سے استعارہ، نقاط، سمبل، ارتقا، تسطیر، لوح وغیرہ نے خاص نمبروں کے ذریعے قارئین کے لیے بہترین ادب کا انتخاب پیش کیا۔ ادبی دنیا،نگار، نقش، ساقی، اوراق، فنون اور نقوش کے خصوصی نمبروں کو خاصی شہرت ملی۔

موضوع کے لحاظ سے

کچھ ادبی رسائل میں خاص موضوعات اور مخصوص اصناف کو جگہ دی جاتی رہی ہے۔ جیسے راولپنڈی سے شائع ہونے والا ’’معاصر شاعری‘‘ (مدیر: سعید احمد) صرف شاعری کو شائع کرتا رہا۔ اسی طرح کراچی سے شائع ہونے والا رسالہ ’’آج‘‘ (مدیر: اجمل کمال) میں فکشن تراجم کو اہمیت دی جاتی ہے۔ موضوعاتی ادبی صحافت جو مخصوص ادبی موضوعات یا اصناف پر مشتمل ہو، اردو میں نہ ہونے کے برابر ہے۔

ادارت اور فنِ ادارت

ادب چونکہ ایک فن ہے اور کسی فن کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے پہلے اس فن کے رموز کو جاننا ضرروی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص صحافتی سطح پر مہارت رکھتا ہو، اسے طباعت کے اصول و ضوابط کا علم ہو اور مطبوعہ مواد کی تقسیم کاری کا ہنر بھی آتا ہو، مگر ادب سے کم واقف یا مکمل نابلد ہو۔ ایسا شخص کسی ادبی رسالے کا کامیاب مدیر نہیں ہو سکتا۔ اُسے انتخاب اور جمع آوری کے لیے اصل ذرائع تک رسائی نہیں ہو پائے گی۔ وہ ادبی معیار کیسے متعین کرے گا اگر وہ ادب کی الف ب سے بھی واقف نہیں۔ سو ہو سکتا ہے کہ ایسے رسالے کو اعلیٰ طباعت کے باوجود پذیرائی نہ ملے اور رسالہ معیار بندی قائم کرنے میں ناکام رہے۔

فنِ ادارت اور مدیرکے اوصاف کیا ہونے چاہیے۔ ادارت کے لیے مدیر یا خود رسالہ نکالتا ہے یا مہمان ادارت کے طور پر کسی رسالے میں بطور مدیر فرائض سر انجام دیتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اسے مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے:

۱۔ مدیر کوواضح ہونا چاہیے کہ وہ رسالہ کیوں شائع کرنے جا رہا ہے;۔ اس کی نوعیت کیا ہوگی۔

۲۔ مدیر کے سامنے واضح ہو کہ اس کے رسالے کی ادارتی پالیسی کیا ہوگی۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بس جیسا بھی ادب ہو اُسے شائع کر دینا مدیر کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

۳۔ مدیر کو فنِ طباعت اور کتاب کی جدید شکل(سافٹ فارم) کا مکمل علم ہونا چاہیے۔

۴۔ جس زبان میں رسالہ نکالا جا رہا ہو، اس زبان کی معاصر تخلیقی، تحقیقی و تنقیدی سرگرمیوں کا بھی علم ہونا چاہیے۔ کس سطح کا ادیب کیا ادب لکھ رہا ہے، مدیر کو مکمل آگاہی ہو۔

۵۔ فنِ عروض سے آگاہی ہو، اگر فن عروض نہیں جانتا تو شاعری کے ماہرین سے مدد لازمی لیتا ہو۔ اسی طرح ادبی تاریخِ اصناف سے مکمل آگاہ ہو۔

۶۔ املا کے حوالے سے بنیادی معلومات رکھتا ہو تاکہ اشاعت کے دوران بڑی اغلاط سے پرچہ محفوظ رہ سکے۔

ادبی صحافت کے نظری اصول

اصل میں ہر رسالے کے پس منظر میں نظریاتی پالیسی کام کر رہی ہوتی ہے۔ مخصوص طرز کے ادیب یا تحریریں محض مدیر کے حلقہ احباب سے نمایاں نہیں ہوتے بلکہ ان کا براہ راست تعلق نظریاتی پالیسی سے ہوتا ہے۔

انور سدید نے ادبی صحافت کے جو نظری اصول پیش کیے ہیں، وہ مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ ادبی صحافت میں تخلیقی ادب کی پیش کش، تعارف اور فروغ کو فوقیت حاصل ہے۔

۲۔ (ادبی صحافت) کا مقصد ادبا کی تخلیقی اور ذہنی کروٹوں کو محفوظ کرنا بھی ہے۔

۳۔ تخلیقی ادب سے پیدا ہونے والے مباحث اور ان اصناف کی نئی بوطیقا وضع کرنا۔

۴۔ ہر دور میں پروان چڑھنے والی تحریکوں اور رجحانات کا احوال رقم کرنا۔

۵۔ (مجلہ) کہنہ مشق ادیبوں کی فکر کی جولاں گاہ ہے اور اس کے ساتھ ہی نئے ادیبوں کی تربیت کا گہوارہ بھی۔

یہ ادبی پالیسی کا مکمل چارٹ ہے، جس کے تحت ایک پرچے کو جانچا جا سکتا ہے۔ اب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ادبی دنیا، ساقی، شب خون، فنون، اوراق یا آج کے نمایاں ادبی جرائد، آج، سویرا، دنیا زاد، سمبل، نقاط یا تسطیر ایک دوسرے سے مختلف کیوں دکھائی دیتے ہیں۔

ادبی رسالے کی اہمیت

۱۔ کسی بھی موضوع پر سوال نامہ پیش کر کے طویل بحثیں کروائی جا سکتی ہے۔ (’ادبی دنیا‘، ’ساقی‘، ’اوراق‘ اور ’نقوش‘کے سوال نامے جس کی ایک مثال ہیں)

۲۔ تازہ اور متنوع تخلیقی ادب کو ایک جگہ پیش کیا جاتا ہے، تاکہ تخلیقی ادب کے تازہ مجموعی مزاج کو سمجھا جا سکے اور ادب کی تخلیقی سمت کو دیکھا جا سکے۔

۳۔ عصر حاضر کے ہر خطے اور تمام نسلوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ بہت نو آموز اور نہایت سینئر ادیب رسالوں میں اکٹھے شائع ہوتے رہے ہیں۔

۴۔ جینڈر (صنفی) تقسیم کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ مرد ادیبوں کے ساتھ خواتین ادیبوں کے تخلیقی و تنقیدی ادب کو پیش کیا جا سکتا ہے۔

۵۔ ادب کی ہر صنف کی ترویج و اشاعت کی جا سکتی ہے۔ شعری اصناف سے لے کر بڑی نثری اصناف تک کو ایک جگہ شائع کیا جا سکتا ہے، جس سے چھوٹی بڑی ہر صنف ترقی کرتی ہے اور قرات کا حصہ بنتی رہتی ہے۔ کم لکھنے یا محدود ہونے کی وجہ سے مر کے منظر سے غائب نہیں ہوجاتی۔

۶۔ ادیبوں کے انٹرویوز شائع کیے جا سکتے ہیں، جس سے ادب میں مکالمے کی فضا تیار ہو سکتی ہے۔

۷۔ خطوط کی شکل میں ہر قاری بھی ادبی سرگرمی میں شامل ہو سکتا ہے۔ کسی بھی تخلیقی و تنقیدی فن پارے پر سوال قائم کر سکتا ہے۔

۸۔ ادب کے ساتھ فنونِ لطیفہ کی دیگر شاخوں (مجسمہ سازی، تصویر سازی اور گائیکی) کو بھی جگہ دی جا سکتی ہے،جن سے ادبی متن بالواسطہ اثر انداز و اثر پذیر ہوتا رہتا ہے۔

۹۔ تراجم کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ عالمی زبانوں کے ادب سے مقامی زبانوں میں ادب کی منتقلی ہمیشہ سے ادبی رسائل کا حصہ رہی ہے۔ اب تو کچھ دہائیوں سے علاقائی ادب کو بھی غیر ملکی زبانوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ ادبی رسائل اس اہم فریضے سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہو سکتے۔

۱۰۔ یادِ رفتگاں کے حوالے سے ادیبوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جا سکتا ہے۔

۱۱۔ خاص نمبرز یا گوشوں کی شکل میں اہم شخصیات اور خاص موضوعات پر مکالمہ کیا جا سکتا ہے۔

ادارت کے مسائل

کسی بھی ادبی رسالے کی ادارتی انتظامیہ میں کئی طرح مدیر ہو سکتے ہیں، جو رسالے کی متنی اور اشاعتی مسائل کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ مدیر اُن تمام ذمہ داریوں سے گزرتا ہے جو ادبی رسالے کے آخری متن کی تیاری تک موجود رہتی ہے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ مدیر ہی رسالے کے متن کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ کسی بھی قسم کی قانونی، اشاعتی یا تخلیقی اغلاط کا ذمہ دار صرف مدیر ہوتا ہے۔ اس لیے مدیر کو چاہیے کہ وہ رسالے کے متن کی تمام ذمہ داری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، اپنے مدیرانہ فرائض انجام دے۔ مدیر کے معاون کار تمام اہم مدیرانہ اُمور ادا کرنے کے باوجود اُس اہم مسئلے سے دوچار نہیں ہوتے جسے۔ ادبی ذمہ داری۔ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اسی ذمہ داری کی بدولت ایک ادبی رسالہ بعض اوقات تخلیقی، اشاعتی یا قانونی مسائل کا بھی سامنا کر سکتا ہے۔ معاون کار تو محض سہولت مہیا کر رہے ہوتے ہیں، متن ان کی ذمہ داری نہیں ہوتا۔ اکثر ادبی جرائد کے مدیران وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریاں اپنے معاون کاروں کو دینا شروع کر دیتے ہیں اور صرف پالیسی ساز فیصلوں تک محدود ہو جاتے ہیں۔ اردو کے بہت سے بڑے ادبی رسالے اس طرح کے مراحل سے گزرے ہیں۔ چونکہ اکثر بڑے اردو ادبی رسائل سے وابستہ ادیب خود بھی بڑے تخلیق کار تھے، اس لیے ان کی بے پناہ تخلیقی اور ادبی مصروفیات کی وجہ سے انھیں اپنے ساتھ معاون کار رکھنے پڑے۔ یہ معاون کار ادبی متن کو پڑھتے، آنے والی تخلیقات کی معیار بندی کرتے اور ادیبوں کی درجہ بندی جیسے حساس معاملات سنبھالنے لگے، جس سے رسالے کے حوالے سے مدیر کی پالیسی متاثر ہونی لگی۔ اکثر جرائد تو غیر معیاری ہو کے رہ گئے۔ کچھ مدیران نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں اپنے معاون کاروں کو مختلف ذمہ داریاں دے کے ادبی رسالہ ان کے حوالے کر دیا اور محض اشاعت کے بعد کاپیاں دیکھنے لگے۔ ہوا یہ کہ ایسے بڑے ادبی رسالے اپنے آخری وقتوں میں بہت زیادہ غیر معیاری اور ہلکے متون کی اشاعت کی وجہ سے بد نام ہو گئے۔ اس سلسلے میں وزیر آغا اور شمس الرحمن فاروقی نے بالترتیب اپنے رسالے “اوراق” اور “شب‌خون” کو اپنی زندگی میں ہی بند کر دیا۔ کچھ لوگ تذبذب کا شکار تھے کہ رسالہ کیوں بند کر دیا گیا حالاںکہ بہت سے معاون کار ان دونوں ادبی جرائد کو میسر تھے۔ ان کا موقف تھا کہ وہ اپنے رسالوں کو وہ توجہ نہیں دے پا رہے جو کسی بھی رسالے کی معیار بندی کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ پرچہ غیر معیاری اور بعض اوقات کچھ تکنیکی مسائل کی وجہ سے بدنامی کا شکار ہونے لگتا ہے۔

فنون کی مثال سامنے کی ہے، جو مدیر احمد ندیم قاسمی کی زندگی میں ہی ان کی معاون کار منصورہ احمد کے حوالے ہو گیا تھا تاکہ یہ رسالہ ان کی زندگی کے بعد بھی جاری رہے۔ منصورہ احمد نے احمد ندیم قاسمی کے بعد اپنا رسالہ “مونتاج” جاری کیا جس کے چند شمارے ہی شائع ہو سکے اور خود منصورہ دنیا سے چلی گئیں۔ مونتاج اور (قاسمی کی زندگی کے آخری ایام میں) فنون کی ادبی ادارتی پالیسیوں میں انیس بیس کا بھی فرق نہیں تھا۔ فنون کے پیچھےقاسمی کی ادبی پالیسیوں کا نصف کا پہیہ چل رہا تھا مگر مونتاج کے چند شمارے کی آسکے اور رسالہ بند ہو گیا۔ احمد ندیم قاسمی رسالے کو پورا وقت نہیں پاتے تھے مگر ان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی کے بعد بھی رسالہ جاری رہے۔ یاد رہے کہ ادبی رسالہ صرف اپنے مدیر کے ساتھ ہوتا ہے۔ گو قاسمی صاحب کہتے رہے کہ وہ ہی ہر طرح کے ذمہ دار ہیں مگر درپردہ یہی ایک مسئلہ درپیش تھا کہ وہ مدیرانہ ذمہ داریوں کو تقسیم کر چکے تھے۔

اس لیے مدیر کی سب سے اہم ذمہ داری ہی یہ ہے کہ وہ رسالے کا خود مختار ذمہ دار ہے۔ اس کے معاون کار کسی طور بھی ادبی رسالے کی نظریاتی پالیسی کے ذمہ نہیں کہلائے جا سکتے۔ اس سلسلے میں مدیر کے لیے مندرجہ ذیل مسائل سے گزرناضروری ہے۔

۱۔ فیصلہ سازی کا مسئلہ

فیصلہ ساز ایڈیٹر صرف ایک ہونا چاہیے۔ ایڈیٹر کے ساتھ سب ایڈیٹرز کا ہونا بھی ضروری ہے، جو طباعت و اشاعت کے مختلف مراحل کو دیکھ سکیں۔ اگر مدیر یہ سمجھتا ہے کہ وہ تمام اشاعتی اور انتخابی معاملات کو فرداً فرداً دیکھ سکتا ہے تو یہ طریقہ کار خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ بہت سی اغلاط اور متنی و اشاعتی مسائل کی وجہ سے ادبی رسالے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ معاون کار یا سب ایڈیٹرز کی خدمات ضرور حاصل کرنی چاہیے۔

۲۔ ادارتی مجلس کی ضرورت

مجلسِ مشاورت یا ادارتی بورڈ ادبی رسائل کی فکری و فنی مسائل کے علاوہ بعض اوقات قانونی معاملات پر مدیر کو مشاورت فراہم کرتا ہے۔ عموماً مجلسِ مشاورت میں مدیر اپنی مرضی سے ادب و علم سے وابستہ ایسے ناموں کا انتخاب کرتا ہے، جو ادبی حلقوں میں ادبی مقام رکھنے کے ساتھ ساتھ مدیر اور رسالے کے معیار اور وقار کے لیے کام کر سکیں۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ رف وہی نام رکھیں جائیں جو ادب میں اعلیٰ مقام ہی رکھتے ہوں۔ ایسے ادیب بھی مجلسِ مشاورت کا حصہ ہو سکتے ہیں، جو ادبی مسائل پر اچھی دسترس تو رکھتے ہوں مگر ادبی حوالے سے غیر معروف ہوں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ ادارتی بورڈز ان رسالوں کے لیے زیادہ مفید رہتے ہیں جہاں ادبی رسالہ کسی انجمن یا ادارے کے ماتحت شائع کیا جا رہا ہو۔ جہاں ادارتی بورڈ اُس ادارے کی پالیسیوں پر کاربند رہنے کے لیے مدیر کو ہدایات جاری کرتا رہے۔ ایسے رسائل جہاں مدیر ہی سب کچھ ہوتا ہے، وہاں مجلسِ مشاورت یا بورڈ کا قیام بعض اوقات مسائل کھڑے کرتا ہے۔ مدیر اپنی مجلسِ مشاورت کی آرا کا پابند تو نہیں ہوتا مگر اس کی کوشش ہوتی ہے کہ بورڈ کو رسالے کے معاملات سے آگاہ کرتا رہے۔ کہیں یہ صورتِ حال بھی پیدا ہو سکتی ہے کہ ادارتی بورڈ مدیر کی آزادانہ کے خلاف رائے رکھتا ہو۔ اس لیے تخلیقی ادب کے نمائندہ ادبی رسائل کے لیے مجلسِ مشاورت یا ادارتی بورڈ کا تصور محض تصوراتی ہے، اسے نہیں ہونا چاہیے۔ مجلسِ مشاورت ادبی متن کی معیار بندی کے لیے بنائی جاتی ہے مگر دیکھا گیا ہےکہ ان مجلسوں کا شراکتی کردار نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

۳۔ مدیر بطور لکھاری

مدیر کو بطور مصنف یا شاعر بہت کم سامنے آنا چاہیے۔ عموماً مدیران اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ادبی فرائض انجام دینا اور خود بطور ادیب اپنی تخلیقات کے ساتھ مباحث کا حصہ بننا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ کچھ مدیران دونوں کو ایک ساتھ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مدیران کو اپنے ادبی پرچوں کا ضرور حصہ بننا چاہیے مگر ان کی حیثیت بھی ایک لکھاری کے طور پر ہی ہونی چاہیے۔ اگر وہ خود کو نمایاں کرنے اور مختلف ذرائع سے خود کو زیرِ بحث لانے کی کوشش کریں گے تو ادبی رسالہ انجمن ستائشِ باہمی کا مرقع بن جائے اور جلد ادبی حلقوں میں پذیرائی لینے میں ناکام ہو جائے گا۔

۴۔ رسالے کی ادبی ترجیحات

مدیر کو اپنی ترجیحات کی بجائے ادب کی مجموعی ترجیحات کو سامنے رکھنا چاہیے۔ ایک مدیر کی ذاتی ترجیحات اور مجموعی ادبی ترجیحات میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک ادیب کی کسی خاص صنف، موضوع یا ادبی مسئلے میں دلچسپی ہو مگرمجموعی ادبی سطح پر یہ ادبی دلچسپیاں زیادہ فائدہ مند یا وسیع تخلیقی و ادبی سرگرمی نہ ہوں۔ ایسے میں مدیر کو چاہیے کہ وہ ذاتی دلچسپی کو قربان کرکے مجموعی ادبی سرگرمی کو سامنے رکھے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مدیران کسی خاص ادبی صنف یا بڑی سطح پر نثر یا شاعری میں سے کسی ایک کے حمایت یافتہ ہوتے ہیں۔ تنقید یا تخلیق میں بھی مدیران کی ترجیحات متعین ہوتی ہیں۔ کچھ کے ہاں تخلیقات کو زیادہ جگہ دی جانی چاہیے اور کچھ کے نزدیک تنقیدی مضامین ادبی مباحث کو جنم دیتے ہیں۔ کئی ادبی رسالے نثر اور شاعری کی مقدار میں عدم توازن کا شکار ہو جاتے ہیں اور انتہاپسندانہ نقطہ نظر پالیسی اپنا لیتے ہیں۔ بعض مدیران کے ہاں کسی خاص صنف جیسے ناول، افسانہ یا نظم وغیرہ کے حوالے سے خاص ادبی تعصب نظر آتا ہے۔

ہر مدیر کا یہ حق ہے کہ وہ خاص زاویہ نظر سے ادب کی معیار بندی اور پیش کش کو اپنے رسالے میں بطور ترجیح شامل کرے مگر اس کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک ادبی صنف سے وابستہ تخلیق کار رسالے سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ رسالہ صرف تخلیقات کی اشاعت کا ہی بندوبست نہیں کرتا بلکہ ان کی معنوی درجہ بندی بھی متعین کرنے کا انتظام کرتا رہتا ہے۔ فکشن کو ترجیح دینے والے ادبی رسائل میں فکشن کے لکھاری زیادہ شوق سے رجوع کریں گے جب کہ شاعری کے نمائندہ رسالے اچھے شاعروں کی ترجیحات کا حصہ بنیں گے۔

پچھلی صدی کی آخری دو دہائیوں میں اوراق اور فنون  نے اپنے لکھاریوں کو اسی قسم کی تقسیم سے دوچار کیے رکھا۔ غزل لکھنے والے زیادہ تر فنون میں چھپنا پسند کرتے اور زیادہ زیرِ بحث آتے۔ اسی طرح تنقید، ادبی سوالات اور نظم کے حوالے سے اوراق کو زیادہ اہمیت ملی۔ یاد رہے کہ یہاں ان ادبی رسالوں کا ذکر نہیں کیا جا رہا جو خالصتاً کسی ایک صنف (Genre) کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے رسالوں میں کبھی کبھار دوسری اصناف بھی شائع ہوجاتی ہیں مگر ان کی اشاعتی ترجیح صرف ایک صنف تک محدود ہوتی ہے۔ اجمل کمال کا رسالہ ” آج” فکشن کا نمائندہ رسالہ ہے۔ فکشن میں بھی آج نے تراجم کو بہت جگہ دی۔ آج میں شائع ہونے والے عالمی ادب کے تراجم اردو ادب میں نہایت اہم ادبی اثاثہ تصور کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح راولپنڈی سے سعیداحمد نے صرف شاعری کی ترویج و اشاعت اور ادبی مباحث کے لیے ایک رسالہ “معاصر شاعری” نکالا۔ اس پرچے میں سعید کا مطمحِ خاص تخلیقی متون میں صرف شاعری تھا۔

۵۔ کسی صنف یا ادبی مسئلے سے تعصب کا اظہار

جس طرح کسی خاص صنف کو ترجیح نہیں دینی چاہیے، اسی طرح کسی ادبی مسئلہ یا ادبی شخصیت سے تعصب یا نفرت کا بھی اظہار بطور پالیسی نہیں ہونا چاہیے۔ مدیران بعض اوقات کسی ادبی شخصیت،کسی ادبی مسئلہ (علامت نگاری، ادبی تھیوری، کلاسیکی ادب وغیرہ) اورصنف سے کد رکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے رسالے کی غیر شعوری طور پریہ پالیسی بن جاتی ہے۔ ایسی صورتِ حال سے بچنا چاہیے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کچھ رسالوں میں کچھ ادبی شخصیات کا چھپنا ممنوع تھا اور بعض موضوعات کے خلاف پالیسی کے طور پر زہر اُگلا جاتا تھا۔ مدیران کچھ اصناف کے خلاف احباب سے کہہ کے مضامین لکھواتے تاکہ ان کے لکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ ادبی رسالہ کے مدیران کو بطور پالیسی اس طرح کے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے۔

۶۔ ادبی رسالے کے مدیر کو مندرجہ ذیل نکات کا بھی خیال رکھنا چاہیے:

i۔ کسی بھی تحریر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

ii۔ ادیبوں سے براہِ راست رابطہ ہونا چاہیے، ڈاک پر کلی انحصار نہیں کرنا چاہیے۔

iii۔ ادب میں پیدا شدہ نئے سوالات پر مکالمہ کروانا یا تحریریں لکھوائی جانی چاہیے۔

iv۔ رسالہ ادب میں کسی نئی تحریک یا رجحان کا آغاز کر سکتا ہے۔

v۔ ادبی سطح ہونے والی ہر تخلیقی سرگرمی پر نظر ہونی چاہیے۔

vi۔ ملک، مذاہب یا کسی شخص یا ادارے کے خلاف کے نفرت کو نہیں شائع کرنا چاہیے۔ قانونی معاملات میں ادبی رسالے کو نہیں الجھانا چاہیے۔

ادبی صحافت کے عملی مسائل

اداریہ نویسی

اداریہ (Editorial) ادبی رسالے کا اہم حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ اداریہ ایسی تحریر کو کہا جاتا ہے، جس میں کسی اہم سماجی مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہو۔ اداریہ ہمیشہ مدیر یا ادارے کی نمائندہ تحریر ہوتی ہے۔ اخبارات میں اداریہ مدیر کے علاوہ ادارتی عملہ، معاون مدیر یا مدیر کی طرف سے نمائندہ کوئی بھی فرد تحریر کر سکتا ہے۔ اخبارات میں شائع ہونے والی ادارتی تحریر بغیر نام یا دستخط کے ہوتی ہے،جب کہ ادبی رسالے کے اداریے مدیر ِ رسالہ کے نام سے شائع کیے جاتے ہیں۔ اخبارات میں اداریے کی جگہ ادارتی صفحہ ہوتی ہے، جہاں کالم یا آرا شائع کی جاتی ہیں۔ اخبارات کی طرح ادبی رسالے میں بھی مدیر ادارتی نوٹ یا تحریر پیش کرتا ہے۔ اخبارات کے اکثر اداریوں میں حالاتِ حاضرہ کے موضوعات کو پیش کیا جاتا ہے۔ اداریوں میں کئی مربوط واقعات کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ کئی موضوعات کو باریک بینی سے چھانا جاتا ہے۔ کئی واقف لوگ اداریوں کو اخبارات کی ذاتی رائے بھی قرار دیتے ہیں۔

ادبی رسالے کا اداریہ لکھتے ہوئے مدیر کے سامنے مندرجہ ذیل مسائل ہوتے ہیں:

۱۔ رسالے کے بانی اور مہمان مدیر کے اداریے

کسی بھی ادبی رسالے کے مدیران دو طرح کے ہو سکتے ہیں۔ اگر رسالہ کسی تنظیم، ادارے یا کونسل وغیرہ کاہے اور اس کا مدیر بطور مہمان مدیر کام کر رہا ہے تو ایسے مدیر کے لکھے ہوئے اداریے، تنظیم یا ادارے کی فکر کے نمائندہ تصور کیے جائیں گے۔ ایسے اداریوں میں مدیران کی فکر کا ذاتی جھکاؤ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ادارے کی پالیساں اور نمائندہ فکر کی ترجمانی ضروری ہوتی ہے۔ عموماً ایسے اداریوں میں تنظیم یا ادارے کی طرف سے غیر ادبی مسائل پرزیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اداریوں میں مدیران اپنا نام بھی نہیں لکھتے۔ البتہ ایسے رسالے جن کے مدیران خود بانی بھی ہیں،ان کے اداریوں میں ان کی ذاتی رائے یا رجحان کو ان کا جمائندہ ہی تصور کیا جانا چاہیے۔

۲۔ اداریے کا موضوع

ادبی رسالے کے اداریے کا موضوع ادب یا ادبی معاملات ہی ہونے چاہیے۔ ادب سے متعلقہ مسائل یعنی فلسفہ، تہذیب، تاریخ، جمالیات، لسانیات وغیرہ بھی اداریوں کا موضوع ہو سکتے ہیں۔ غیر ادبی موضوعات یعنی سیاست، سماجی مسائل، مذہبی شخصیات وغیرہ کو اداریوں کا موضوع نہیں ہونا چاہیے۔ کچھ ادبی ارسالوں کے مدیران نے سیاسی موضوعات اور غیر ادبی شخصیات کو بھی اپنے اداریوں کا حصہ بنایا جیسے؛ ملالہ یوسف زئی کو نوبل انعام کا ملنا، بھٹو کی سیاست، ملکی سیاست میں عدالتوں کا کردار وغیرہ۔ ایسے موضوعات ادبی رسالے کے اداریے ہرگز نہیں ہو نے چاہیے۔

ادبی رسالے کے موضوعات ادبی حوالے سے نظری (Theoretical) بھی ہو سکتے ہیں اور عملی (Practical) بھی۔ نظری موضوعات پر بات کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ اس میں کسی اہم ادبی مسئلے یا جہت کی طرف توجہ دلائی گئی ہو۔ اندازِ تحریر بہت واضح اور مختصر ہو۔ اداریوں میں حوالہ جات یا کوٹیشنز کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔ ناگزیر صورت میں حوالہ جات کو مختصر یا تحریر میں رہنمائی کی حد تک کسی کے خیال کوپیش کیا جانا چاہیے۔

۳۔ اداریے کی طوالت

اداریے کی طوالت بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اداریوں میں کسی اہم ادبی مسئلے کی طرف اشارہ ہی کاف ہوتا ہے مگر اردو میں کچھ مدیران کے ہاں اداریے اس قدر طویل اور بوجھل نظر آتے ہیں کہ وہ اداریے سے زیادہ تحقیقی مقالہ معلوم ہوتے ہیں۔ تحقیقی مقالوں کی طرح ہی ان میں حوالہ جات اور بحث کے لیے طویل دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ ادبی رسالوں کے لیے ایسے اداریے نہیں لکھے جانے چاہیے۔ کچھ مدیران اداریوں کی جگہ کتابوں کا تعارف کرواتے ہوئے طویل بحث بناتے ہیں جس سے اداریہ مقالے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ادبی رسالہ ’’بادبان‘‘ اس حوالے سے خاصی شہرت رکھتا رہا، جس کے مدیر ناصر بغدادی طویل تر اداریے لکھتے تھے۔ یہ اداریے اب الگ سے کتابی شکل میں شائع بھی ہو چکے ہیں۔
اداریہ کی طوالت زیادہ سے زیادہ دو یا تین صفحات ہونی چاہیے۔ اداریہ آدھے صفحے کا بھی ہو سکتا ہے مگر اس میں ادبی مسئلہ کے اہم نکات شامل ہونے چاہیے۔

۴۔ اداریے میں رسالے کے مندرجات کے مباحث

کچھ ادبی رسائل کے مدیران اداریے میں کسی ادبی مسئلے کو اجاگر کرنے کی بجائے رسالے کے مندرجات کو زیرِ بحث لاتے ہیں۔ ایسی تحریریں اداریے نہیں کہلاتیں بلکہ انھیں رسالے کا دیباچہ یا تمہیدی الفاظ کہا جا سکتا ہے۔ ایسی تحریروں میں مدیر بتاتا ہے:

i۔ اس نے رسالے میں مواد کی دستیابی کو کیسے ممکن بنایا۔

ii۔ رسالے کی اشاعت میں کون سی مشکلات کا سامنا رہا۔

iii۔ قارئین کوکن تحریروں یا فن پاروں پر توجہ دینی چاہیے۔

iv۔ رسالے کا مجموعی مزاج کیسا ہے۔

v۔ پچھلے شماروں میں کسی تحریر کی اشاعت پر وضاحت وغیرہ

گویا حرفِ آغاز طرز کی تحریر میں مدیر قارئین سے ہر وہ بات کر سکتا ہے جو مدیر یارسالے کے حوالے سے وضاحت طلب یا اسے بتانا ضروری ہو۔ ایسے مدیر کے نوٹ اداریہ نہیں کہلائے جاتے۔ اداریہ مندرجات پر گفتگو نہیں بلکہ کسی ادبی یا ادب سے متعلقہ کسی اہم موضوع یا مسئلے پر اظہار خیال کا نام ہے۔ لہٰذا رسالے کے مدیر کو وضاحتی تحریروں اور اداریوں کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ دونوں طرز کی تحریریں بھی ایک ساتھ شائع کی جا سکتی ہیں۔

۵۔ ’مہمان اداریہ‘ کا تصور

بعض ادبی رسالے خود اداریہ لکھنے کی بجائے کسی سینئر ادبی شخصیت سے مہمان اداریہ لکھواتے ہیں۔ مہمان اداریہ بھی کسی اہم ادبی مسئلے یا جہت پر مشتمل ہوتا ہے۔ مہمان اداریہ کسی ادبی مسئلے یا نیا ادبی سوال پیش کرکے بھی مدیرِ رسالہ کی طرف سے لکھوایا جا سکتا ہے۔ مثلاً مدیر کسی شخصیت کو کہ سکتا ہے کہ ’’اردو ادب میں ناول بطور بیانیہ‘‘ کے موضوع پر اداریہ لکھے۔ مدیرِ رسالہ ایک سے زیادہ شخصیات سے بھی کہہ سکتا ہے کہ آپ اس ادبی مسئلے پر اپنی رائے کا اظہار کریں یا اس پر آپ کا کیا موقف ہے، بطور اداریہ تحریر کریں۔

مہمان اداریہ مدیرِ رسالہ کی نہیں بلکہ رسالے کی نمائندہ تحریر تصور کی جاتی ہے، مگر مہمان شخصیت کے نام ہی سے شائع ہوتی ہے۔

فہرست سازی کا مسئلہ

ادبی رسالے میں فہرست (Content List) بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ فہرست ہی رسالہ میں موجود ادبی و علمی مواد کو تخلیقی جہت عطا کرتی ہے۔ کسی بھی رسالے کے مطالعے سے پہلے قاری فہرست پر نظر دوڑاتا ہے اور اپنے مزاج کے مطابق مواد کا انتخاب کرتا ہے۔ فہرست ہی سے پتا چلتا ہے کہ مدیر یا ادارتی ٹیم  نے کس طرح کے ادب کا انتخاب کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں فہرست رسالے میں موجود مواد پر طائرانہ نگاہ ڈالنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ فہرست کی اہمیت کا اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر رسالے کا مواد فہرست میں پوری تخلیقی توانائی سے نظر نہیں آپایا تو رسالے کے انتخاب کا تاثر بہت برا ہو سکتا ہے۔ تخلیقی توانائی سے مراد ہے. رسالے میں موجود مواد کو اس کی ادبی چاشنی کے ساتھ پیش کرنا۔ اگر مضامین، تجزیے، تبصرے، خطوط، تراجم کو ایک ہی جگہ ’تنقید‘ کے نام سے شائع کر دیا جائے تومدیر کی تنقیدی بصیرت پر سوال اٹھے گا۔ اسی طرح شاعری کے حصے میں ہر صنفِ شعر کو اکٹھا کر دیا جائے تو قاری کے لیے مواد کا اعلیٰ انتخاب ہونے کے باوجود دلچسپی کم ہو جائے گی۔ اسی طرح لکھاریوں کے حفظِ مراتب کا خیال نہیں رکھا گیا تو قاری محسوس کرے گا کہ مدیر ادبی حلقوں سے پوری طرح آگاہ نہیں۔ اس لیے مدیر کو چاہیے کہ وہ رسالے کی فہرست پر بہت توجہ دے۔

ادبی رسالے کی فہرست بناتے ہوئے، مدیر کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ مدیر کو چاہیے کہ ان مسائل کو حل کرتے ہوئے اپنے رسالے کے لیے کچھ اصول مرتب کر لے۔ اس کا حق ہے کہ فہرست بناتے ہوئے جس بھی نقطۂ نظر کو بہتر سمجھے اس کو فہرست سازی کے دوران ایک اصول کے طور پر اپنے رسالے میں جاری رکھے۔ مگر ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ رسالے کے ہر شمارے میں مدیر، فہرست بناتے ہوئے اپنے گذشتہ موقف سے انحراف کرتا ہوا دکھائی دے۔

کچھ ادبی رسائل فہرست بناتے ہوئے مواد کی کسی بھی قسم کی تقسیم کے قائل نہیں ہوتے۔ ان کے نزدیک جتنا بھی مواد شائع کیا جائے، اسے کسی ترتیب یا اصناف کی تقسیم کے بغیر شائع کر دینا چاہیے۔ چوں کہ ادب کا قاری عام قاری نہیں ہوتا جس کو کسی خاص تقسیم کے ذریعے مواد کی اہمیت بتائی جائے، اس لیے فہرست کا اصل مقصد، تخلیق کار یا نقاد کی تحریر کے صفحہ نمبر کی نشان دہی ہے، اس کے علاوہ اس کی اہمیت کچھ نہیں۔ عموماً ایسے موقف والے ادبی رسائل بہت کم تعداد میں ادبی مواد شائع کرتے ہیں، اس لیے ان کو ادبی مواد کی فہرست سازی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ دنیا زاد میں آصف فرخی فہرست میں مراتب نہیں بناتے تھے اور نہ ہی اصناف یا موضوعات میں مواد کو تقسیم کرتے تھے۔

ایسے رسائل جن کا ادبی مواد زیادہ ہوتا ہے اور وہ فہرست بناتے ہوئے مواد کو اصناف اور موضوعات میں تقسیم کرتے ہیں، ان کے لیے فہرست بنانے کے مسائل مندرجہ ذیل ہو سکتے ہیں:

حفظِ مراتب سے فہرست میں اندراج کا مسئلہ:

فہرست میں شامل تخلیق کار اور ناقدین کے ناموں میں تقدیم و تاخیر کا اندراج کیسے ہو، حفظِ مراتب کیسے رکھا جائے، مدیر کو چاہیے کو وہ ناموں کے اندراج کے وقت اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ ہر لکھاری کے ادبی مقام و مرتبے سے آگاہ ہے، جو نام شامل کیا جار ہا ہے، وہ گمنام یا جعلی نہیں۔ اگر کسی تخلیق کار کو اس کے مقام و مرتبے کے مطابق شائع نہ کیا جائے تو رسالے کے مدیر کے بارے میں برا تاثر پیدا ہوتا ہے کہ وہ ادیبوں اور ادبی عمل سے پوری طرح واقف نہیں۔
فہرست بناتے ہوئے ناموں کے اندراج کے مندرجہ ذیل مسائل پیدا ہو سکتے ہیں:

i۔ ایک ہی نسل سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کے حفظ مراتب کا مسئلہ:

اگر ایک صنف میں ایک ہی نسل اورادبی قد رکھنے والے ادیب اکٹھے ہو گئے ہیں تو یہ مدیر کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ کسے پہلے اور کسے بعد میں شائع کرے۔ ادبی رسالہ ایک رائے بھی ہوتا ہے اور قارئین کی رائے بھی بناتا ہے۔ جب کسی ایک ادیب کو پہلے شائع کیا جائے اور دوسرے کو بعد میں تو لامحالہ یہ ایک طرح کا ادبی فیصلہ بھی ہوتا ہے۔ مثلاً افسانے کے باب میں تین بڑے اور اہم افسانہ نگار شامل ہونے جا رہے ہیں، تینوں افسانہ نگاروں کا مقام و مرتبہ یا اہمیت ایک جیسی ہے۔ ایسے صورت میں مدیر کو بڑی ذمے داری سے مراتب کو ترتیب دینا چاہیے۔ اس صورت میں مدیر کو چاہیے کہ وہ ادبی قامت کو سامنے رکھے محض عمر یا شہرت کی وجہ سے کسی ایک کو اہمیت نہ دے۔ ایک ہی نسل سے تعلق رکھنے والے بزرگ تخلیق کاروں کے بارے میں رسالے کے مدیر کو پالیسی کے طور پر کچھ اصول بنا لینے چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ ہر دفعہ یہِ مراتب کی ترتیب بدلتی رہے۔

الفبائی ترتیب سے ناموں کا اندارج

ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مراتب تشکیل دینے کی بجائے مدیر الف بائی ترتیب سے ناموں کا اندراج کر دے، جس سے ادیبوں کے فن کی تعین ِ قدر کا مسئلہ ختم ہو سکتا ہے۔ مگر یاد رہے اس طرح ادبی رسالے نظریہ ساز ادب کی تشکیل دینے میں ناکام رہتے ہیں۔

فن پارے یا تحریر کے مرکزی یا ذیلی عنوان میں تبدیلی کا مسئلہ:

بعض اوقات مصنف کی طرف سے بھجوایا ہوا عنوان مدیر کو زیادہ پُر کشش محسوس نہیں ہوتا۔ مضمون کے مرکزی موضوع کی مناسب سے مدیر کو حق حاصل ہے کہ وہ عنوان کو تبدیل کر دے، مگر اس کام کے لیے مصنف سے اجازت ضروری ہے۔ نظموں کے عنوانات، تنقیدی مضامین یا انٹرویوز کی شہ سرخی بنانے کے لیے مدیر زیادہ جاذب نظر عنوانات ترتیب دیتا ہے تاکہ قاری فوری تحریر کو پسند کرے۔ مثلاً فرض کریں مجید امجد پر ناصر عباس نیر کا ایک مضمون بہ عنوان ’’مجید امجد کی شاعری کے بارے میں‘‘ شائع ہو، دوسری طرف اسی مضمون کو ’’مجید امجد کی نظموں میں اجل‘‘ کے نام سے شائع کیا جائے تو خود فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ قاری فوری کس عنوان پر توجہ دے گا۔

فہرست میں مضامین یا مصنف کا گوشہ:

کسی خاص مضامین یا ایک مصنف کی مختلف تحریروں پر قارئین کی توجہ دلانے کے لیے مدیر اُن کے گوشے ترتیب دیتا ہے تاکہ قاری انھیں الگ سے پڑھے۔ رسالے کی دیگر تحریروں میں کہیں گم نہ ہو جائیں۔ فہرست میں مناسب جگہ پر ان کی شہ سرخی بناتا ہے۔

فہرست کے مندرجات کی مختلف حصوں میں تقسیم اور ان کے ناموں کا مسئلہ:

یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ فہرست میں اصناف کو کن ناموں سے پیش کیا جائے۔ اس سلسلے میں کچھ موقف مندرجہ ذیل ہیں:

i۔ کچھ مدیران کا خیال ہے کہ تخلیقی نثری یا شعری ادب کو ان کی اصناف ہی سے شائع کیا جائے، جیسے افسانہ، غزل، نظم، نثری نظم، ڈراما، ناول، انشائیہ، خاکہ، تنقید __ مگر دیگر اصناف کو موضوعاتی سطح پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

ii۔ مگر کچھ رسائل کے مدریران کا موقف ہے کہ اصناف کو بھی اپنے نام دیے جا سکتے ہیں جیسے ’’نثری خیال پارے، شعر بولتا ہے، شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا، لمسِ رفتہ، سُرمایا، زبان غیر سے، دیر آید، نامے میرے نام، تبرک، افکارِ تازہ، اوراقِ فکر ونظر، شعر کا غنچہ کھلا، جہانِ تازہ، افکارِ تازہ‘‘ وغیرہ۔

iii۔ ایک صنف میں زیادہ مصنفین ہوں تو اسے دوحصوں میں تقسیم کرکے دو مختلف جگہوں پر رکھا جا سکتا ہے۔ مگر دونوں کو الگ کرنے کا جواز ہونا چاہیے۔ ایک طرف نوجوان نسل ہو جائے یا ایک طرف نوآموز اور دوسری طرف کہنہ مشق وغیرہ۔

iv۔ ہر حصے میں متعلقہ صنف کا ہونا ضروری ہے۔ عموماً مدیران اس بات کا خیال نہیں کرتے۔ شاعری میں نثری نظم، غزل، نظم، یا حتیٰ کہ افسانچے تک ڈال دیے جاتے ہیں۔ تنقید اور تبصرہ نگاری میں بھی فرق ہونا چاہیے۔ کسی کتاب پر تعارفی مضمون تنقیدی مضمون نہیں ہوتا، اسے کتاب مطالعے یا اس طرح کے کسی الگ حصے میں شائع کیا جانا چاہیے۔

فہرست کی درجہ بندی میں اصناف کو ترجیح دینے کا مسئلہ:

یہ بھی ترجیحی مسئلہ ہے کہ کس صنف کو پہلے شائع کیا جائے اور کس کو درمیان یا آخر۔ کچھ مدیران کا موقف ہے کہ تنقید پہلے شائع کی جائے، کیوں کہ تنقیدی سوالات پیدا کرنا ہی رسالے کا بنیادی کام ہے، جب کہ کچھ مدیران کا موقف ہے کہ تخلیقی ادب اولیت رکھتا ہے، تنقیدی مضامین نہیں۔ تخلیقی ادب کا اعلیٰ انتخاب قارئین کو پہلے روشناس کروایا جائے۔ ایسی تمام ترجیح مدیران پر منحصر ہے۔ اسے کسی بھی طرح رسائل میں اولیت دی جا سکتی ہے۔

رسالے میں مصنف کے نام کے اندراج کا مسئلہ:

اکثر ادبی رسالے مصنف کے نام پر توجہ نہیں دیتے کہ رسالے میں مصنف کا نام کیسے لکھا جائے۔ کیا عہدہ، ذات یا دیگر خاندانی نام بھی ساتھ شائع کیے جاسکتے ہیں۔کیا مدیر کو یہ حق ہے کہ وہ مصنفین کے ناموں کو جس طرح چاہے شائع کرے۔ اس سلسلے میں مدیر کوبہت سے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نام کے اندراج کا مسئلہ فنِ ادارت کے اصولوں میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ کچھ اصول اور مسائل مندرجہ ذیل ہیں:

i۔ اگر مصنف بطور تخلیق کار شائع کیا جا رہا ہے تو اس کے نام کے ساتھ ڈاکٹر (پی‌ایچ ڈی) نہیں لکھا جانا چاہیے۔ اگر مصنف بطور محقق یانقاد کے طور پر رسالے میں شائع ہو رہا ہے تو اس کے ساتھ ڈاکٹر اُس کی تعلیمی قابلیت یعنی ڈگری یا سپشیلائزیشن کا لکھا جانا ضروری ہے۔ تنقید یا تحقیق کے زمرے میں نقاد یا محقق کی تعلیمی قابلیت اُس کے تنقیدی کام یا تحقیقی نتائج پر مستند رائے قائم کرے گی۔ ادب کے علاوہ کسی اور شعبے کی تعلیمی ڈگریاں جیسے ڈاکٹر (ایم بی بی ایس)، انجینئر، وغیرہ ادبی رسالے میں کسی بھی مقام پرلکھنا غلط ہے۔

ii۔ مصنف کے نام کے ساتھ ذاتوں (رانا، ڈوگر، جٹ، میر، بنگش، طوری،سومرو، مزاری، اعوان،ملک، بٹ وغیرہ)، عہدوں (میجر، بریگیڈئیر، پروفیسر، سیکرٹری، سکوارڈن لیڈر وغیرہ) اور مختلف شناختی ناموں (علامہ، میاں، چوھدری، برخودار، صاحب زادہ وغیرہ) کو لکھنا غلط ہے۔ عہدہ توکسی صورت نام کے ساتھ نہیں لگایا جانا چاہیے البتہ کچھ مصنفین اپنی ذات یا کسی شناخت کو اپنے نام کا حصہ بناتے ہیں۔ اگر مصنف خود اپنے نام کا لازمی حصہ بنا رکھا ہے اور وہی اس کی اصل شناخت بن چکا ہے تو اس صورت میں اس کے نام کو اسی طرح شائع کیا جائے جس طرح مصنف لکھتا ہے۔ جیسے مستنصر حسین تارڑ، الیاس بابر اعوان، کرنل محمد خان، سید ضمیر جعفری وغیرہ۔

iii۔ تخلیقی ادب شائع کرتے ہوئے مصنف کا نام وہی لکھا جانا چاہیے جو مصنف خود لکھوانا چاہ رہا ہے۔ عموماً نام کے ساتھ ذات، خاندانی نام اور تخلص وغیرہ مصنف خود لگاتا ہے۔ مدیر کو چاہیے کہ وہ خود تحریف کرتے ہوئے اس نام کو تبدیل یا نامکمل حالت میں شائع نہ کرے۔ اردو شاعرہ نسرین انجم بھٹی اپنے نام کے ساتھ اپنی ذات بھی لگاتی تھیں، یوں مدیر کو نہیں چاہیے کہ وہ بھٹی کو الگ کرکے صرف ’نسرین انجم‘ شائع کرے یاناصر عباس نیر کو ناصر نیر، ارشد محمود ناشاد کو ارشد ناشاد، نہیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح کچھ مصنفین نام کے ساتھ اپنی نسبت یا تخلص کا اضافہ کرتے ہیں، جیسے؛ عباس تابش، انجم سلیمی، کامران کاظمی۔ اس لیے جس نام سے مصنف لکھتا آرہا ہے، اس کو اسی طرح شائع کیا جانا چاہیے۔ البتہ محمد فرخ ندیم، پروفیسر شمس الرحمن فاروقی، محمد علی فرشی، ارشد علی معراج، محمد صلاح الدین درویش وغیرہ ناموں میں اختراع موجود ہے،جس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

مکرر اشاعت کا مسئلہ:

مکرر اشاعت کا معاملہ بہت پیچیدہ ہے۔ ادبی رسائل کی اولین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ ایسامواد شائع کیا جائے جو پہلے سے قارئین کی دسترس میں نہ ہو۔ ادبی رسائل کے بنیادی مقاصد میں یہ بات شامل ہے کہ ادبی رسالہ غیر مطبوعہ تنقیدی و تخلیقی متن شائع کرے گا۔ پہلے سے موجود متن کی مکرر اشاعت کسی ’مرتبہ کتاب‘ (Compiled Work) میں تو ہو سکتی ہے مگر رسالے کے لیے مناسب نہیں۔ قاری کی بھی یہ توقع ہوتی ہے کہ ایسا متن پڑھنے کو ملے جو پہلے سے اس کے مطالعے میں نہیں۔ اس سلسلے میں ادبی رسالے کے متن کا معاملہ بالکل اخبار کی طرح ہے۔ اخبار میں باسی خبریں غیر ضرروی اور غیر متعلقہ ہو جاتی ہیں اور کسی پہلے سے معلوم خبر کا جواز ہی نہیں رہتا، بالکل اسی طرح ادبی رسالے سے بھی قاری کی توقع اور تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اسے غیر مطبوعہ مواد (Unpublished Matter) پڑھنے کو ملے، مگر ادبی رسالے میں شامل ہر تحریر غیر مطبوعہ نہیں ہوتی۔ غیر مطبوعہ کی تعریف ذرا پیچیدہ اور غیر روایتی ہے، اس پر تفصیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے ہم غیرمطبوعہ ادبی تحریر کی تعریف کو متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی تحریر جو تخلیق کار کے قلم سے نکلی اور ابھی کسی شائع شدہ (Printed) صفحات کا حصہ نہیں بنی۔ پرنٹ ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ تحریر کو قارئین کے مطالعے کے لیے دے دیا گیا ہے۔ اب وہ تمام تحریریں جو پرنٹڈ یا شائع شدہ نہیں ہیں، وہ تخلیق کار کی ڈائری، صفحات، مسودہ وغیرہ غیر مطبوعہ متن کہلائیں گے۔ سوشل میڈیا پر شائع کوئی تحریر بھی اب شائع شدہ متن کہلائے گی، کیوں کہ وہ بھی ہزاروں قارئین تک شائع شدہ مواد کی طرح پہنچ چکی ہے۔ رسالے کا مقصد کہ وہ تازہ اور ایسے متن سے اپنے قارئین کو متعارف کروائے جس سے وہ پہلے نہیں پڑھ چکے، سوشل میڈیا پر پڑھی ہوئی تحریروں کی صورت میں ختم ہو جاتا ہے۔

کچھ صورتوں میں پہلے سے طبع شدہ تحریریں بھی ازسرِ نَو شائع ہو سکتی ہیں مگر مکرر اشاعت کے سلسلے میں مصنف کو مکمل علم ہونا چاہیے کہ وہ پہلے کس طرح اور کہاں کہاں شائع ہو چکی ہے۔ کسی شائع شدہ تحریر کی مکرر اشاعت رسالے کی ادبی ساکھ کو متاثر کرسکتی ہے، جو مندرجہ ذیل صورتوں کے علاوہ نہیں ہونی چاہیے:

۱۔ اگر تحریر کسی دوسرے ملک یا ایسی جگہ شائع ہو چکی ہو، جہاں مدیر کے رسالے کا دائرہ عمل بہت کم یا بالکل بھی نہیں۔

۲۔ تحریر کی نوعیت ایسی ہو کہ وہ کسی گوشے یا خصوصی نمبر کے لیے ضروری ہومگر شائع شدہ بھی ہے۔ مثلاً مارکیز پر گوشہ ترتیب دیا جا رہو ہو، اردو محققین کی خدمات پر ایک خصوصی نمبر نکالا جا رہا ہو۔ معروف ادیب کے لیے یادِ رفتگاں کے نام سے تحریریں ترتیب دی جا رہی ہوں۔ ایسی صورتوں میں مکرر اشاعت ہو سکتی ہے۔

۳۔ تحریر کسی ایسی جگہ شائع ہوچکی ہو، جہاں وہ توجہ حاصل نہ پا سکی ہو، جیسے، اخبارات کے ادبی ایڈیشن، بلاگ ویب سائٹ، کالم، غیر معیاری یا کم اشاعتی رسالے یا مصنف کی ذاتی کتاب میں،جو اب ناپید ہو چکی ہو۔

۴۔ تحریر پہلے کسی جگہ نامکمل، مسخ شدہ یا ترمیم شدہ حالت میں شائع ہوئی ہو اور اب مصنف اسے نئی صورت میں شائع کروانا چاہ رہا ہو۔

۵۔ کسی خاص واقعہ کی اہمیت کے پیشِ نظر، کسی معروف شائع شدہ تحریر کو بھی دوبارہ شائع کیا جا سکتا ہے۔

رسالے کا سرورق:

ادبی رسالے کا پہلا صفحہ جس پر رسالے کا نام، مدیران کا تعارف یا ادارے کا نام لکھا جاتا ہے، سرورق (Title Cover) کہلاتا ہے۔ عموماً اسے رسالے کی جلدی بندی بھی کہا جاتا ہے۔ کسی بھی رسالہ کا سرورق محض ابتدائی صفحہ تک محدود تصورنہیں رکھتا، اسے رسالے کا چہرہ (Index) بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ رسالے کی پالیسی، مقاصد، مندرجات اور ادارت کے ذوق کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ اخباری جرائد میں تو اسے کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ سرورق ہی قاری کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے کہ اسے خریدنا چاہیے یا نہیں۔ البتہ ادبی رسالوں کا قاری محض سرورق کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرتا۔ اس کی ادبی تربیت پہلے ہی سے موجود ہوتی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد رسالے میں موجود مواد تک پہنچنا ہوتا ہے مگر یہ بھی طے ہے کہ سرورق کی جمال آفرینی قاری کو رسالے کے مندرجات تک پہنچنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

سرورق پر کس طرح کا مواد شائع کیا جانا چاہیے:

۱۔ سرورق پر رسالے کا نام جلی حروف میں لکھا جانا ضروری ہے تاکہ قاری کو رہنمائی مل سکے کہ یہ کون سا رسالہ ہے۔ جلی حروف سے مراد محض بڑا یا نمایاں ہونا نہیں، بلکہ اسے ایسی خطاطی میں لکھا جانا چاہیے کہ وہ واضح طور پر پڑھا جا سکے۔ رسالے کا نام اُسی خط میں لکھا جانا چاہیے جو ادارے کی طرف سے مسلسل لکھا جا رہا ہو۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہر اشاعت پر اُس خط کو بدل دیا جائے۔

رسالے کا نام ہر اشاعت پر اسی طرح لکھا جاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ یہ ادارے کا لوگو (Logo) یا ٹریڈ مارک کی طرح بن جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ رسالے کا نام ہی نہیں بلکہ رسالے کی پہچان بن جاتا ہے۔

۲۔ رسالے کے سرورق پر مدیران اور بانی مدیران، سرپرست کے نام بھی لکھے جاتے ہیں۔ اگر مدیران اعزازی خدمات انجام دے رہے ہوں تو اُس ادارے کا نام لکھا جاتا ہے جو رسالے کا مالی منتظم ہے۔ اس کے ساتھ جلد نمبر یا اشاعت کا نمبر بھی درج کیا جاتا ہے۔

۳۔ رسالے کے سرورق پر پرنٹر کانام، قیمت، اداراتی پالیسیاں، معاون کاران کے نام یا دیگر ضروری معلومات جو اندرونی صفحات یا ضابطے میں دی جاتی ہے، سرورق پر لکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

۴۔ ایسی تحریر بھی لکھی جاتی ہے، جو رسالے کے مقصدِ اشاعت کی نمائندگی کر رہی ہو۔ یا ادارے کی پالیسی کی وضاحت کر رہی ہو۔ جیسے ’’نئے ادب کا ترجمان، ترقی پسند ادب کی پہچان، ادب کے باذوق قارئین کی پسند‘‘ وغیرہ۔

۴۔ رسالے کے سرورق پر رسالے کے مواد کے نمایاں نکات یا مندرجات پیش کرنے کا بھی رواج موجود ہے۔ یہ عموماً اخباری صحافت کا اسلوب ہے۔ ادبی رسائل اس سے احتراز کرتے رہے ہیں۔ مگر اب کچھ ماہنامہ ادبی رسائل اس اسلوب کو اختیار کر رہے ہیں۔

۵۔ ادبی جرائد کے رسائل کے سرورق کو خطاطی یا مصوری کے ذریعے مخصوص اسلوب عطا کیا جاتا ہے۔ اس اسلوب میں اس قدر انفراد ہوتا ہے کہ بعض ادبی رسائل کے سراوارق اپنی پہچان خود بن گئے۔

۶۔ سرورق کو دیدہ زیب مصوری سے سجانے کی روش بھی عام ہے اور ایسا مصورانہ تھیم دینے کا بھی رواج ہے جو مواد کی فکری نمائندگی کر رہا ہو۔ جیسے مزاحمتی ادب پر مصورانہ اظہار، مابعدجدید ادب پر پینٹنگز وغیرہ۔

اردو ادبی جرائد کی تاریخ بتاتی ہے کہ غیر معروف ادبی رسائل کی ایک بڑی تعداد کے مدیران سراوراق پر توجہ نہیں دیتے۔ ادبی جریدہ نہ صرف مدیر کے تخلیقی مزاج کا آئینہ ہوتا ہے بلکہ ادب کی جمالیاتی قدروں کا امین بھی بنتا ہے۔ اس لیے اوراق کو بہت خوبصورت اور با معنی ہونا چاہیے۔ سرورق میں مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے:

۱۔ سرورق مجلے کی نظریاتی عکاسی کرتا ہے، لہٰذا اس پر غیر سنجیدہ، بیہودہ، سماجی اخلاقیات کے خلاف مواد یا تصویریں شایع نہیں کی جانی چاہیے۔

۲۔ مجلے کے سرورق کے ذریعے مصوری کے شعبے کو فروغ دیا جا سکتا ہے، لہٰذا اعلیٰ فن پاروں کو جگہ دی جانی چاہیے۔

۳۔ مجلے کے سرورق پر کسی گروہ، نظریے، شخص کی توہین کا پہلو نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی معاشرتی طور پر کسی غیر اخلاقی پہلو کا ظن نمایاں ہو۔

۴۔ ایک ہی جیسے سر اوراق نہیں ہونے چاہیے۔ ہر شمارہ نئے سرورق پر مشتمل ہونا چاہیے۔

۵۔ سرورق پر اشتہار نہیں دیا جانا چاہیے، البتہ سرورق کی پشت پر اشتہار دیا جا سکتا ہے۔ اشتہار بھی اس طرز کا ہو کہ اس سے ادبی جمالیات کو گزند نہ پہنچے۔

۶۔ ادبی رسالے کے سرورق کو اخباری (یا علمی، سائنسی، مذہبی وغیرہ )رسالے کے سرورق سے الگ دکھائی دینا چاہیے اور اس امتیاز کو جمالیات سے نمایاں کیا جا سکتا ہے۔

تراجم کی اشاعت:

کسی بھی رسالے کے بنیادی مقاصد میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنے قارئین کو غیر زبانوں میں لکھے جانے والے ادب سے رُوشناس کروائے۔ اگر رسالہ اردو زبان میں شائع ہوتا ہے تو اردو کے علاوہ ہندی، انگریزی، فرانسیسی، لاطینی وغیرہ زبانوں میں لکھے جانے والے ادب تک رسائی حاصل کرے اور ان کو تراجم کے ذریعے اردو زبان میں شائع کروائے۔ مقامی زبانوں کے ادب کے تراجم بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، جس سے ادب کا دائرہ کار ایک زبان تک محدود نہیں رہتا۔

تراجم کے سلسلے میں چند امور کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے:

۱۔ ترجمہ مستند ترجمہ نگاراور اصولِ ترجمہ کے اصولوں کے قریب تر ہو۔

۲۔ مدیر کو چاہیے کہ ترجمے کے معیار کو خود جانچے یا کسی مستند مترجم سے رہنمائی حاصل کرے۔ ترجمے کے غیر مستند ہونے سے رسالے کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ کچھ مترجم ایسے ترجمے بھی رسالوں کو بھجوا دیتے ہیں، جن کے اصل متن کو دریافت کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ اگر مل بھی جائے تو اصل سے اس قدر مختلف (غلط) ترجمہ ہوتا ہے کہ اسے ترجمہ کہہ ہی نہیں سکتے۔ اس سلسلے میں ساری ذمہ داری مدیر کی ہے کہ وہ ان سب امور کا دھیان رکھے۔

۳۔ کسی فن پارے (نظم، افسانہ، مضمون، تقریر، ناول کا باب) کا ایسا ترجمہ جو پہلے ہو چکا ہو، اسے مکرر اشاعت کی معقول وجہ کے بغیر شائع نہ کیا جائے۔ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں :

i۔ پہلا ترجمہ نہایت غلط ہو یا قابلِ اصلاح ہو اور اس میں درستی کے امکانات بہت زیادہ ہوں۔

ii۔ ترجمہ ایسے جگہ شائع ہوا ہو، جس کی رسالے کے قارئین تک رسائی نہ ہو۔

۴۔ ترجمہ شائع کرتے وقت آغاز میں مترجم کا پورا تعارف ضروری ہے تاکہ قارئین مترجم کے آگاہ ہو سکیں۔

۵۔ ترجمے کے متعلق بھی بنیادی معلومات ضروری ہےں۔ مثلاً یہ اصل متن جس کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے، پہلے کس جگہ شائع ہوچکا ہے۔ اصل متن کا عنوان کیا تھا۔

۶۔ بنیادی متن کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی جا سکتی ہے۔ رسالہ ’’آج‘‘ اپنے قارئین کو متن کے بارے میں ادارتی رائے بھی پیش کرتا ہے۔ اس کی اہمیت سے بھی آگاہ کرتا ہے۔

۷۔ شاعری کے تراجم کے بارے میں مدیررانہ نوٹ میں یہ بات بتائی جا سکتی ہے کہ یہ منظوم ترجمہ ہے یا آزاد ترجمہ ہے یا اس ترجمے کو لفظی ترجمے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

۸۔ ایسے رسالے جو بغیر کی تعارف کے ترجمے کو شائع کرتے ہیں، مدیرانہ فرائض سے غفلت برتتے ہیں۔ ان تراجم کو حوالہ جاتی حوالے سے کمزور کہا جا سکتا ہے۔

ادبی رسالے کے مواد کا حصول

ہر مدیر کے پیشِ نظر یہ بات تو ہوتی ہے کہ ادبی رسالے کا مواد بہت معیاری ہونا چاہیے، مگر اس مواد کا حصول کیسے ممکن ہے، اس پر بھی مدیر کی اتنی ہی توجہ کی ضرورت ہونی چاہیے۔

مواد کی مندرجہ ذیل اقسام ہو سکتی ہیں، جو ایک رسالے کی اشاعت کے لیے مختلف ذراءع سے اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔

i۔ غیر مطبوعہ مواد

مواد کو غیرمطبوعہ ہونا چاہیے۔ یعنی تخلیقی و تنقیدی ادب کا انتخاب کرتے ہوئے اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھا جانا چاہیے کہ رسالے میں کوئی مطبوعہ مواد شائع نہ ہو۔ ایسے رسالے جو مطبوعہ مواد شائع کرتے رہتے ہیں، قارئین میں معیار قائم نہیں کر پاتے۔

ii۔ مطبوعہ مواد یا مکرّر اشاعت

مطبوعہ مواد کے حوالے سے گزشتہ صفھات میں تفصیل سے بات ہو چکی ہے۔ مطبوعہ مواد شائع ہو سکتا ہے مگر مدیر اس کے لیے تخلیقی جواز بناتا ہے یا اُس کی ضرورت از خود جواز بن کے آتی ہے۔

iii۔ غیر تصدیقی مواد

ایسا مواد جس کے مصنف کا علم نہ ہو یا مصنف کا علم ہو مگر یہ شبہ ہو کہ اس کا لکھا ہوا ہے بھی یا نہیں، اُسے شائع نہیں کرنا چاہیے۔

iv۔ غیر فنی مواد

ایسے مواد کو بھی شائع نہیں کیا جانا چاہیے جس میں اغلاط موجود ہوں اور اغلاط بھی ایسی کہ جس پرلکھاری کے مصنف ہونے پر شبہ آئے۔

رسالے کے لیے مواد کے حصول کے ذرائع:

i۔ ڈاک

رسالے یا اُس کے مدیر کو بہت سی ڈاک موصول ہوتی ہے جس میں سے بہتر انتخاب کرکے رسالے میں شائع کیا جاتا ہے۔

ii۔ ذاتی ذرائع

ادارتی ٹیم یا مدیر اپنے ذاتی ذرائع سے ادیبوں یا مصنفین تک پہنچتا ہے اور غیر مطبوعہ تخلیقی یا تنقیدی مواد کو حاصل کرتا ہے۔

iii۔ تحقیقی سوالات

مدیر یا ادارتی ٹیم کی طرف سے مخصوص سوالات یا موضوع دیا جاتا ہے جس پر مصنفین یا لکھاری اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ اس مواد کو بھی رسالے میں شائع کیا جاتا ہے۔

iv۔ ذاتی تحقیقی منصوبے یا جامعات کے تحقیقی مقالات

بعض اوقات مصنفین ذاتی سطح پر کسی تحقیقی منصوبر پر کام کرتے ہیں جسے بعد میں ادبی رسالے میں شائع کروانے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ جامعات یا تحقیقی اداروں میں بعض اوقات ایسے تنقیدی مضامین یا تحقیقی مقالات لکھے جاتے ہیں جن میں ادبی رسائل کے حوالے سے بحث و مباحثہ کی بہت گنجائش ہوتی۔

v۔ کانفرنسوں میں پڑھا جانے والا تنقیدی یا تحقیقی مواد

بعض اوقات مدیر یا ادارتی ٹیم خاص موضوع پر تقریب، کانفرنس یا سیمینار کا اہتمام کرتے ہیں اور اس میں پڑھے جانے والے مضامین کو ادبی رسالے میں خصوصی اشاعت کے طور پر شائع کرواتے ہیں۔ اسی تناظر میں مشاعرے یا قرات ِنظم کی محفلوں میں پیش کردہ تخلیقی مواد بھی رسالے میں شائع ہوتا ہے۔

ادبی رسالے میں شائع ہونے والے خطوط، مراسلہ نگاری

ادبی رسائل میں خطوط کی اشاعت کیوں؟

کسی ادبی رسالے میں ادبی خطوط رسالے کی پالیسی، مواد اور معیار کے حوالے سے قارئین کا ردعمل (Feedback)ہوتا ہے، جس سے آگاہ ہوئے بغیر کوئی بھی مدیر اچھا رسالہ مسلسل شائع نہیں کر سکتا۔

مدیر کے نام مکاتیب کی اقسام:

۱۔ نجی نوعیت کے خطوط

۲۔ گذشتہ شمارے کی مطبوعہ تحریروں پر تنقیدی آرا

۳۔ رسالے میں جاری کسی ادبی بحث میں شمولیت

۴۔ مدیر کے لیے تجاویز

۵۔ نئے ادبی سوالات

۶۔ رسالے کی پالیسی سے اختلاف

خطوط کی اشاعت – اصول و مسائل:

۱۔ خطوط کو رسالے کے سب سے آخری حصے میں شائع کیا جانا چاہیے۔

۲۔ خط کو خط ہی کی شکل میں شائع کرنا چاہیے، خط کو کوئی عنوان دے کے یا آرٹیکل کی شکل میں شائع نہیں کرنا چاہیے۔

۳۔ قاری کی طرف سے بھجوائے گئے خطوط کو ہو بہو شائع کرنا درست نہیں۔ صرف اتنے حصے کو شائع کیا جانا چاہیے جو رسالے کو موضوعِ بحث بنا رہا ہو۔ غیر ضروری مباحث کو حذف کر دینا چاہیے۔

۴۔ ایسے خطوط جو رسالے کے مواد کے حوالے سے لکھے گئے ہوں، انھیں اگلے ہی شمارے میں جگہ دی جانی چاہیے تاکہ ان کا مطالعہ پچھلے شمارے کے مطابق کیا جا سکے۔ اگلے شماروں تک موخر کرنے سے خط کے مندرجات کی اہمیت ختم ہو سکتی ہے۔

۵۔ خطوط میں قارئین کی آرا کو شائع کرتے ہوئے تنقید اور تنقیص کے فرق کو ملحوظِ خاطرر کھا جانا چاہیے۔ شخصیات، اداروں، ملک، یا مدیر کی ذات کے خلاف اظہارِ خیال کو شائع نہیں کیا جاناچاہیے، البتہ مثبت تنقید کو لازمی شائع کیا جانا چاہیے جو کسی بھی تناظر میں کی گئی ہو۔

۶۔ ایسے خطوط جو ذاتی رنجش، جوابی حملوں یا خود غرضانہ دفاع پر مشتمل ہوں، یا دوسروں کے ادبی مقام و مرتبہ کو چیلنج کرنے کے لیے رسالے کا سہارے لیتے ہوئے محسوس ہوں، کسی صورت شائع نہیں کرنے چاہیے۔ کچھ مدیر ایسے خطوں کو جگہ دیتے ہیں، جس سے ادبی گروہ بازی پروان چڑھتی ہے۔

۷۔ بہت مختصر(چند سطروں پر مشتمل) خط تو ہو سکتے ہیں مگرایسے خطوط جو بہت طویل ہوں، انھیں مختصر کرنے کا اختیار بھی مدیر کو ہوتا ہے۔

رسالے میں تجارتی اشتہارات کی اشاعت:

رسالے میں اشتہارات کی پیش کش کے سلسلے میں دو طرح کے مسئلے درپیش ہوتے ہیں، جس کا فیصلہ کرتے ہوئے یکساں پالیسی کے طور اپنانا چاہیے:

۱۔ رسالے میں اشتہارات کو فہرست سے پہلے شائع کیا جائے، یا درمیان میں، یا سب سے آخر پر۔

۲۔ کسی ایسے ادارے کا اشتہارات شائع کرنا چاہیے، جس سے بالواسطہ یا براہِ راست طور پر ادبی سرگرمیوں یا ادبی نظریات پر زد پڑتی ہے۔

عموماً ایسے ادارے جو ادب کے ذریعے مخصوص فکر کو پیش کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، ادبی رسائل کو زیادہ سے زیادہ فنڈنگ کرتے ہیں اور ساتھ ہی مخصوص طرز کی تحریروں کی فرمائش کرتے ہیں۔ لہٰذا مدیر کو اس سلسلے میں بہت واضح موقف رکھنا چاہیے کہ اشتہار کی اشاعت صرف تجارتی مواد کی اشاعت تک محدود ہو، اگر اشتہار کے ساتھ خاص فکر کی ترویج بھی جڑی ہوئی ہے اور مدیر اس پر راضی بھی ہے تو اس کی نظریاتی پالیسی متاثر ہونے کا امکان رہے گا۔

ایسے اشتہارات کو شائع نہیں کرنا چاہیے جن میں ادبی حوالے سے غیر ادبی یا غیر جمالیاتی مواد شامل ہو۔ جنسی، غیر اخلاقی یا بد تہذیب اقدار کو فروغ دینے سے بچنا چاہیے۔ یہاں آغاز میں کچھ اشتہارات دیے گئے ہیں، جن کا مطالعہ الگ سے پورا موضوع ہے۔ بیسویں صدی کے ادبی رسائل اس بات کا پورا خیال رکھتے تھے کہ ادبی رسائل میں کس قسم کے اشتہارات شائع ہونے چاہئے۔ آج کل کے جرائد خاص طور پر آن لائن ادبی رسائل اس سلسلے میں بہت غیر محتاط ہیں۔

انٹرویو نگاری کے اصول:

انٹرویو نگاری کسی بھی ادبی جریدے کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ہر ادبی رسالے میں اہم ادبی شخصیات سے انٹرویو کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ انٹرویو نگاری کے مندرجہ ذیل فوائد ہو سکتے ہیں:

۱۔ اہم ادبی شخصیات کے فن، کام اور خیالات سے قارئین کو آگاہی دینا۔

۲۔ مصنفین کے تخلیقی عمل سے آشنائی حاصل کرنا۔

۳۔ ادب میں نئے سوالات اور فنی مسائل کو بحث کا حصہ بنانا۔

۴۔ ایسے واقعات، یاد گار لمحات جن کا انٹرویو نگار کسی بھی جگہ اظہار نہیں کر پایا۔

۵۔ انٹریو نگار کے ادبی موقف یا نقطہَ نظر کی وضاحت

ادبی رسائل میں شائع ہونے والے انٹرویوز عموماً ادارتی ٹیم سے وابستہ افراد کے نہیں ہوتے۔ ایک ہی طرز کے سوالات پوچھ کے اسے انٹرویو کی شکل دے دینا اچھا انٹرویو نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسا انٹرویو ادبی رسائل میں نئے مباحث کا باعث بن سکتا ہے۔ اس طرح کے انٹرویوز خالصتاً انٹرویو لینے اور دینے کے مابین سوال و جواب کی تحریری شکل ہوتی ہے۔ مگر بعض اوقات رسالے کی ادارتی ٹیم یا مدیر خود بنفسِ نفیس انٹرویو لیتا ہے اور اسے احاطہَ تحریر میں لاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں مدیر پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن کا ملحوظِ خاطر رکھنا نہایت ضروری ہے:

۱۔ انٹرویو لینے والے(interviewee) کو چاہیے کہ وہ انٹرویو دینے والے (interviewer)سے نجی زندگی کے متعلق سوالات نہ کرے جس کی اشاعت انٹرویو دینے والے کو ناگوار گزرے۔ اگر وہ خود بتانا چاہیے یا نجی زندگی کو جاننا ضروری ہو تو مصنف کی اجازت سے ضرور سوال کیا جا سکتا ہے۔

۲۔ انٹرویو نگار کو چاہیے کہ انٹرویو دینے والے کے الفاظ کو تروڑ مروڑ کے پیش نہ کرے اور نہ ہی حقائق کو چھپائے۔

۳۔ ایسی گفتگو جس کی اشاعت ادبی نزاع کی بجائے معاشرتی نزاع کا مسئلہ بن سکتی ہے۔ انھیں شائع کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ مثلاً متنازعہ مذہبی معاملات، جنسی روابط، غیر اخلاقی یا بد تہذیب گفتگو وغیرہ

۴۔ ایسے معاملات کو نہ اچھالا جائے جس پر مصنف نے جواب دینے سے گریز کیا، یا بتاتے ہوئے اسے شائع کرنے سے منع کر دیا ہو۔

۵۔ انٹرویو دینے والے کی ایسی شناخت کو دریافت کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے جس کو چھپا رہا ہو، جیسے مذہبی، صنفی شناخت، خاندانی شجرہ، اولاد یا بیویوں کی تعداد یا ان سے تعلق وغیرہ۔

۶۔ انٹرویو میں ہر بات شائع کرنے والی نہیں ہوتی، لہٰذا انٹرویو کی ضخامت کو کم کیا جا سکتا ہے، مگر اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ انٹریو دینے والے کی کوئی بات ادھوری شائع نہ ہو اور نہ ہی اہم نکات رہ جائیں۔ یہ بھی کوشش ہونی چاہیے کہ گفتگو کو اس طرح پیش نہ کیا جائے کہ اس کا مفہوم ہی بدل جائے۔

۷۔ رسالے میں تصاویر کی اشاعت کو لازمی حصہ بنایا جانا چاہیے تاکہ قاری کو تازہ ترین تصاویر دیکھنے کا موقع ملے اور جس ماحول میں گفتگو ہوئی ہے، اس کے ذہن میں تازہ رہے۔

شائع مواد کا اغلاط نامہ:

سافٹ یا الیکٹرانک شکل میں شائع ہونے والے جرائد میں ایک سہولت ہوتی ہے کہ اس میں اغلاط (پروف، حقائق، یا مس پرنٹنگ) کی اغلاط کو درست کرکے دوبارہ شائع کیا جا سکتا ہے، مگر ہارڈ فارم میں زیورِ طباعت سے آراستہ ادبی رسائل میں اغلاط یا مس پرٹنگ کو درست کرنا تقریباً ناممکن عمل ہوتا ہے۔ بعض اوقات کاپیوں کو اکھاڑ کے دوبارہ سے جلد بندی کی جاتی ہے۔ یا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ غلط املا یا مس پرنٹ صفحات پر نیا ورق چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ موثر طریقہ یہ ہے کہ رسالے کے آخر میں ایک ورق اضافی لگا دیا جائے جس میں پورے رسالے کی اغلاط کو درست شکل میں لکھ دیا جائے۔ مگر یہ صرف اُس صورت میں ہے جب اغلاط کی نوعیت بہت سنگین قسم کی ہو۔

اب یہ میں دیکھنا ہوگا کہ کس طرح کے املا نامے جاری کرنا ضروری اور مدیر کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

۱۔ ایسی اغلاط جس سے متن (خصوصاً تخلیقی متن) کی فنی حیثیت پر حرف آنے کا اندیشہ ہو۔ کیوں کہ غلط طباعت مصنف کے لیے غلط تشہیر کا باعث بن سکتی ہے، جس سے مصنف کی شہرت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ مصنف تو رسالے میں شائع ہوتا ہے کہ اُس کو ادبی اعتبار حاصل ہو، مگر اُس کی غلط اشاعت سے اُس کی ادبی نیک نامی، بدنامی میں بھی بدل سکتی ہے۔ اس کی تمام ذمہ داری مدیر پر ہوتی ہے۔

۲۔ ایسا متن جسکی غلط املا یا مبہم چھپائی، گمراہ فکری خیالات کو جم دینے کا اندیشہ ہو، جیسے سنِ پیدائش، نام، تحریر کا عنوان وغیرہ۔ بعض اوقات فہرست میں دیا گیا عنوان کچھ اور ہوتا ہے جب کہ متن کے اوپر عنوان کچھ اور۔ اسی طرح بعض اوقات کسی ایک مصنف کی تحریریں کسی اور کے نام سے شائع ہو جاتی ہیں۔ یہ ایک سنگین غلطی ہے، جس کا ازالہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔

۳۔ غلط کاپیوں کا جڑنا بھی بعض اوقات خلطِ مبحث کا باعث بنتا ہے۔ اسے درست کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ مدیر کو چاہیے کہ رسالے کی ایسی کاپیوں کی تقسیم روک دے اور جب تک درست نہ ہو جائے تب تک ترسیل و فروخت نہ کروائے۔

۴۔ ایسی تحریریں جس سے مقدس ہستیوں یا متون کی توہین کا شائبہ پیدا ہوتا ہو، اسے فوراً درست کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مدیر کی ذمہ داری ہے کہ ایسا متن جس کی اشاعت، طباعت میں نقائص یا دیگر املائی اغلاط دَر آئیں تو اس کو درست کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔

اس طرح کی صورتِ حال میں مدیر کے سامنے تین طریقے ہو سکتے ہیں:

i۔ مدیر رسالے کے آخر میں غلطی کی نشان دہی کرکے اسے درست شکل میں لکھ دے۔ آخر پر چسپاں کئے جانے والے یہ اوراق بھی پرنٹ شدہ ہو سکتے ہیں۔

ii۔ جہاں غلطی موجود ہو، وہیں پرنٹ شدہ یا ہاتھ سے املا کی درستی کر کے رسالے کی تقسیم و ترسیل کی جائے۔

iii۔ اگلے شمارے میں پچھلے شمارے کی سنگین اغلاط کو درست کرنے کے لیے دوبارہ اشاعت سے گزارا جائے یا اداریہ میں یا اشتہار کی صورت کسی صفحے میں نشان دہی کر دی جائے کہ قارئین گذشتہ شمارے میں آنے والی اغلاط کو درست کر لیں۔

طباعت و تقسیم کے مسائل:

۱۔ رسالے کے رسم الخط کا سائز اتنا ہونا چاہیے کہ اسے آسانی سے پڑھا جا سکے۔ اس قدر باریک فونٹ نہیں ہونا چاہیے کہ اسے عام آنکھ سے پڑھنا ہی مشکل ہو۔ اسی طرح سرخیوں، اہم نکات اور متن میں فرق کرنے کے لیے ان کے فونٹ میں فرق واضح طور پر موجود ہونا چاہیے۔ مدیر کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ طبع شدہ مواد کم بینائی رکھنے والا شخص بھی پڑھ سکے۔

۲۔ عموماً ادبی رسائل کی طباعت کے لیے اعلیٰ کاغذکا استعمال نہیں کیا جاتا۔ یہ اس لیے بھی گوارا کر لیا جاتا ہے، کیوں کہ ادبی رسائل کی عمر کتاب کی عمر سے کم ہوتی ہے۔ اگلے شمارے کی اشاعت کے بعد گزشتہ شماروں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ بہت سا تخلیقی و تنقید ادب مصنفین اپنی کتب میں شامل کر لیتے ہیں، جس سے ادبی رسائل کی اہمیت تاریخی اہمیت سے زیادہ نہیں رہتی، مگر کاغذ کا انتخاب کرتے ہوئے رسالے کے مجموعی صوری حسن کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ایسا گھٹیا کاغذ نہیں ہونا چاہیے کہ چند ماہ بعد ہی خراب ہو کے پورے رسالے کے حسن و طباعت کو نقصان پہنچانے لگے۔
۳۔ اعلیٰ جلد بندی پر بھرپور توجہ ہونی چاہیے۔ جلدی بندی دو طرح کی ہو سکتی ہے۔ گتے کی جلد بندی اور کارڈ جلد بندی۔ عموماً اردو کے رسائل کارڈ کی جلد بندی کو ترجیح دیتے ہیں، مگر زیادہ عرصے تک محفوظ بنانے کے لیے رسالے کی گتے کی جلد بندی بھی کی جا سکتی ہے۔ خصوصی نمبر، یادگار شمارے وغیرہ گتے کی جلد سے مزین کیے جاتے ہیں تاکہ لائبریریوں میں تادیر محفوظ ہو سکیں۔

۴۔ ہر ادبی رسالہ عام قارئین کے لیے شائع کیا جاتا ہے۔ اس لیے اسے بک سٹال تک پہنچنے کے تمام وسائل استعمال کرنے چاہیے۔ اردو تمام بڑے ادبی رسائل ادبی دنیا، ساقی، مخزن، شب خون، اوراق، نقوش، فنون وغیرہ دکانوں، کتاب گھروں اور بُک سٹالوں کی زینت بنتے رہے ہیں۔ رسالہ عوامی بنتا ہی اُس وقت، جب تک وہ عوام کی دسترس میں ہوتا ہے۔ اب یہ چلن عام ہو چکا ہے کہ رسالہ عام آدمی کے لیے شائع ہی نہین کیا جاتا۔ اُسے ادبی اشرافیہ تک محدود رکھا جاتا ہے۔ یا اُن چند ادبی خریداروں تک فروخت کر دیا جاتا ہے، جو مدیر کے ساتھ پہلے ہی رابطے میں ہوتے ہیں۔ اچھا مدیر رسالے کو عام قارئین تک پہنچانے کا بند و بست کرتا ہے۔ اور اس کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے اسے دکانوں، بُک سٹالوں تک پہنچایا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *