خالد جاوید ناول نگار، افسانہ نویس، سماجی نقاد اور مضمون نویس کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دلی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ موت کی کتاب، آخری دعوت اور نعمت خانہ آپ کی اہم تصانیف ہیں۔ آپ کا منفرد انداز بیاں آپ کو ہم عصر ادیبوں سے ممتاز کرنے کے لیے کافی ہے۔
اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
محمد ساجد
یس سر
عبدل معید
یس سر
شاہکار عالم وارثی
یس سر
انیل کمار سنگھ
یس سر
صابر علی صدیقی
یس سر
ہرش سچدیو
’’حفیظ الدین بابر‘‘
’’یس سر۔‘‘ میں کھڑے ہوک...
اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
پھر آسمان میں سفیدی کی ایک لکیر نظر آئی۔ سپیدہ سحرنمودار ہوا۔ روز کی طرح آم کے درخت پر چڑیاں آکر بیٹھ گئیں اورچہچہانے لگیں۔ مگر سنبل اپنے پنجرے میں خاموش، اپنی...
خالد جاوید:بہت دنوں سے بڑے ماموں کا وزن گھٹتا جارہا تھا۔ ان کا بھاری بھرکم چہرہ سُت کر رہ گیا تھا اور آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے بن گئے تھے۔ پہلے اُن کی اچھی خاصی توند تھی مگر اب اُن کا پیٹ پچکا ہوا نظر آتا تھا۔ ان کے سارے کپڑے ڈھیلے ہوگئے تھے۔
خالد جاوید: موت کیا ہوتی ہے، اس کا چہرہ کیسا ہوتا ہے، وہ کس طرح چلتی ہے، کسی طرح آتی ہے؟ ان میں سے کسی بات سے میں آشنا نہ تھا۔ مگر جلد ہی وہ وقت بھی آنے والا تھا اگرچہ مجھے اس کا ذرا سا احساس تک نہ ہوا۔
خالد جاوید: میں ڈر گیا۔ اپنے اندر کے اُس پرُاسرار کالے سانپ سے میں ڈر گیا اور مجھے یہ بھی یاد آیا کہ ابھی کل ہی شام تو اندر والے دالان کے کونے میں، میں نے سانپ کی اُتاری ہوئی کینچلی پڑی دیکھی تھی۔
خالد جاوید: تو مجھے یرقان ہوا تھا۔ شام ہوتے ہوتے مجھے گھر اور دنیا کی ہر شے پیلی نظر آنے لگی۔ میرے پیشاب کا رنگ ہلدی کی طرح ہو گیا۔ میرے جسم کی کھال پر جیسے زرد سفوف سا مل دیا گیا تھا جو شاید بستر پر بھی جھڑتا رہتا تھا۔
خالد جاوید: میں ہوش سا کھونے لگا۔ مجھے لگا کہ میں باہر سڑک پر پڑا ہوا ہوں۔ اور میرے اوپر چیل کوّے اُڑ رہے ہیں۔ مری یادداشت بخار کے بھبکوں میں پرزے پرزے ہوکر ہوا میں اُڑ رہی تھی۔
خالد جاوید: وہ پاگل اور مخبوط الحواس چوہا اُسے دیکھ کر مایوس، واپس آٹے کے کنستر کے پیچھے چھپ گیا۔ اس کی یادداشت کام نہیں کر رہی تھی، وہ فیرینی کوپہچان نہ سکا۔
خالد جاوید: غصّے کا وہ تاریک سایہ، وہ میرا ساتھی، اچانک طویل القامت ہوگیا۔ وہ میرے قد سے بہت اونچا اورلمبا ہوگیا۔ وہ مجھ سے باہر آنا چاہتا تھا۔ اور میں اپنے ٹھگنے قد کے ساتھ مکمل طور پر اُس کی دسترس میں آتا جارہا تھا۔ وہ اب میرا ساتھی نہ ہوکر میرا آقا بنتا جارہا تھا۔
خالد جاوید: مجھے اُس وقت یہ علم نہیں تھا کہ چہرے واپس آتے ہیں۔ لوگ واپس آتے ہیں، بھلے ہی اُن کے رویے، اُن کے جسم اور اُن کی روحیں بدلی ہوئی ہوں۔ انسانوں کا یہی مقدّر ہے۔ ازل سے اور ابد تک یہی رہے گا۔
خالد جاوید: مایّوں میں اُنہیں نمک دینا بھی بند کر دیا گیا تھا۔ وہ صرف میٹھا کھا سکتی تھیں۔ زیادہ تر دودھ جلیبی۔ جو بھی عورت اُن سے ملنے آتی، تو کسی برتن میں دودھ جلیبی لے کر ضرور آتی۔ ورنہ انجم باجی کے ہاتھ میں ایک دو روپے دودھ جلیبی کے نام پر تھماکر چلی جاتی۔
خالد جاوید: مجھے اُس وقت تک کچھ پتہ نہ تھا کہ دسمبر میری زندگی کو ہمیشہ کے لیے ایک ایسی ریل گاڑی بناکر رکھ دے گا جو ایک سنسان، چھوٹے اسٹیشن پر اس لیے رُکی کھڑی رہے گی کہ کہرے میں اُسے کوئی سگنل نہ نظر آتا تھا۔
خالد جاوید: میں نے تو انسانوں کو اپنی اپنی آنتوں میں پتھّر باندھ کر ایک دوسرے کی طرف پھانسی کے پھندے کی طرح پھینکتے دیکھا ہے۔ ایک کا گلا دوسرے کی آنتوں میں پھنسا ہوا ہے۔ آنتوں کی لمبائی خاص طور پر چھوٹی آنت کی لمبائی تو خدا کی پناہ!