اردو مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا فقرہ ہے جو رائج الوقت کی حیثیت رکھتا ہے اوریہ بات کافی حد تک درست بھی ہے کہ یہ زبان جسے ہم اردو کہتے ہیں صرف مسلمانوں کی نہیں۔ جب اس طرح اس زبان کے تعلق سے ایک نظریہ قائم کیا جائے کہ یہ صرف ایک خاص قوم کی زبان ہے تو یہ ایک منفی عمل ٹھہرتا ہے، مگر جب اسی بات کو اس طور سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ اردو مسلمانوں کی بھی زبان ہے تو اس کو Positive approach کہا جائے گا۔ بے شک اردو مسلمانوں کی زبان ہے اور رہے گی۔ ہر زبان کسی نہ کسی قوم کی زبان ہوتی ہے اور یہ کسی زبان کی معراج ہے کہ وہ بیک وقت کئی قوموں کی زبان بن جائے،مثلاً اگر عصر حاضر میں ہم یہ کہیں کہ عربی، انگریزی، فرانسسی، جرمنی، اردو، ہندی اور فارسی دنیا کی بیش تر اقوام کی زبانیں ہیں تو اس میں کچھ غلط نہیں۔ یہ ایک عمومی رویہ ہے کہ اردو کے تعلق سے اس بات پر ناک، بھوں چڑائی جائیں کہ یہ مسلمانوں کی زبان نہیں۔خواص کا رویہ اس سے مختلف ہوتا ہے، بلکہ غور کرنے والا ذہن اور دلیل کی روشنی میں کسی نتیجے پر پہنچنے والادماغ اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے کہ کسی زبان کا کسی ایک قوم میں بہ نسبت دیگر مختلف اقوام کے زیادہ رواج ہوتا ہے، عیسائیوں میں جس طرح انگریزی کا ہندووں میں سنسکرت اور ہندی کا،ایرانیوں میں فارسی کا اسی طرح مسلمانوں میں اردو کا۔ موجودہ صورت حال اس بات کو بحسن و خوبی ظاہر کرتی ہے کہ ہند اور بیرون ہند اردو زبان کا چلن غیر مسلموں کے بالمقابل مسلمانوں کے یہاں زیادہ ہے۔ لہذا اس طرح سے اگر دیکھا جائے تو یہ کہنے میں کچھ مضائقہ نہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ جب ہم اس کلیے کےپیش نظر اس زبان کا جائزہ لیتے ہیں کہ مسلمانوں کی زبان ہونے سے اردو زبان کو کس نوع کا فائدہ اور کس طرح کا نقصان پہنچ رہا ہے، تو بہت سے سوالات، مسائل اور کوتاہیاں ہمیں گھیر لیتی ہیں۔ اس زبان کی بیرون ہند کیا حالت ہے اس سے بھی صرف نظر کرتے ہوئے صرف ہندوستان میں مسلمانوں کے درمیان اور ان کی معاشرتی اور تہذیبی اقدار کے مابین اس زبان کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو بھی بہت سےاستفسارات سےہمارا سامنا ہوتا ہے۔مثلا ًہندوستان میں مسلمانوں کی کتنی فی صد آبادی اردو زبان جاننے کا دعوی کرتی ہے؟ کتنی واقعتاً جانتی ہے ؟ کتنی فی صد آبادی کے زیر معاملات اس زبان کا عمل دخل ہے؟ اور کتنی فی صد آبادی اردو کے معاشی نظام سے وابستہ ہے؟

میں نے ہندوستان کے جتنے مسلم علاقے دیکھے ہیں اور جہاں جہاں رہا ہوں اس کے تجربے کی روشنی میں میں یہ بات بالیقین کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اردو زبان سے رائی برابر بھی واقف نہیں۔ اس زمرے میں خواندہ اور ناخواندہ ہر طرح کے لوگ آ جاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ خواندہ اشخاص کے یہاں اردو کے بالمقابل انگریزی کا رواج زیادہ ہے اور ناخواندہ جماعت بازاروں میں بولی جانے والی وہ مشترکہ زبان بولتی ہے جس کو انگریزی میں Street Languageکہا جاتا ہے۔ مہاراشٹر، گجرات، راجستھان، پنجاب، دلی، اتر پردیش، بہار، بنگال، ہماچل پردیش، کشمیر اور مدراس وغیرہ کے مسلم علاقوں کی کثیر آبادی کی یہ ہی صورت حال ہے۔ ایسی مسلم آبادی کو نہ اردو زبان کی تاریخ سے کچھ واقفیت ہے نہ اس کی تہذیب و ثقافت سے۔ ان کو اردو کے مفادات اور نقصانات کسی سے کچھ علاقہ نہیں۔ دوسرے درجے پر جو لوگ ہیں ان میں ان مسلم گھرانوں کا شمار ہوتا ہے جو اردو جانتے ہیں مگر صرف اس حد تک کہ ان کے خاندان میں اردو کا کبھی چلن تھا اور سینہ بہ سینہ وہ ان کی گفتگو تک چلی آتی ہے۔ اس زبان میں لکھنے، پڑھنے اور اس کے عروج و زوال سے ان کو بھی دور کا علاقہ نہیں۔ ایسے مسلمان حیرت انگیز طور پر ان گھرانوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں جن کے بزرگوں کی تخلیقی اور تحقیقی کاوشوں سے اس زبان کو زبان کا درجہ نصیب ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ایک طبقہ اردو زبان کے جاننے والوں کا ایسا ہے جو اردو میں تعلیم حاصل کرتا ہے، اس میں لکھتا، پڑھتا ہے اور اس کے عام معمولات میں اردو کا عمل دخل ہے۔ یہ اردو زبان کا وہ متوسط طبقہ ہے جس پر اردو زبان سے وابستہ زیادہ تر نقصانات کا راست اثر پڑتا ہے۔ اسی طبقے کی وجہ سے اردو زبان اب بھی ہندوستان میں رائج ہے، مگر افسوس نا ک صورت حال یہ ہے کہ اردو کے معاشرتی اور معاشی انحطاط کی وجہ سے اس طبقے کو خاصے شدائد جھیلنا پڑتے ہیں۔ آخر میں ایک طبقہ اردو جاننے والے مسلمانوں کا ایسا بھی ہے جو ہندوستان میں اردو کی وجہ سے معاشی طور پر مستحکم ہے اور اردو زبان و ادب سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی ترویج و اشاعت اور درس و تدیس میں ملوث ہے۔ یہ اردو کا سب سے مستحکم اور حکمراں طبقہ ہے جس کی وجہ سے اردو کو اشرافیہ کے طبقے میں بولی جانے والی زبانوں کی صف میں شامل کیا جاتا ہے۔

مسلمانوں میں اردو جاننے والوں کی اس درجہ بندی کو جان لینے کے بعد ہمیں اس بات کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا اردو کو کسی طور ان تمام طبقات میں یکساں طور پر رائج نہیں کیا جا سکتا۔ ساتھ ہی اس سوال پر غور کر نا بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں میں یہ زبان کیوں یکساں طور پر رائج نہیں؟ پہلے سوال کے پیش نظر ہم اس کو رائج کرنے کی تدابیر پر غور کر سکتے ہیں اور دوسرے سوال کے ذیل میں اس امر میں ہونے والی کو تاہیوں پر۔ یہ بات ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی زبان کا ادب ایک مخصوص گروہ تک ہی محدود ہوتا ہے ادب کا مطالعہ کرنا ہر زبان جاننے والے کے نزدیک اہم نہیں ہوتا مگر اردو زبان کی یہ خاصیت ہے کہ اردو زبان میں ادب کے نام پر شاعری کا جو رواج ہے اس سے اردو کو نہایت فروغ نصیب ہوا ہے اور مزید ہو سکتا ہے۔ اردو شاعری سے اردو زبان کے مندرجہ بالا چاروں طبقے پوری طرح سے منسلک نظر آتے ہیں۔ لہذا اگر اس زبان کے فروغ کے حق میں ہمیں کوشاں ہونا ہو تو شاعری کو کسی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری ایک بڑی اہم بات اردو کے حق میں یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا مذہبی ذخیرہ زیادہ تر اسی زبان میں موجود ہے۔ مذہب چونکہ عوام سے خواص تک سب کے لیے زندگی کا لازمہ ہوتا ہے اس لیے مذہبی تعلیمات کے ذریعے بھی اس زبان کو فروغ دینے کی کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ حالاں کہ ہندوستان میں آج بھی اسلامی تعلیمات کے نام پر چھوٹی،بڑی پچاسوں کتابیں شائع کی جاتی ہیں۔ انہیں تقسیم کیا جاتا ہے، مگر افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ان کو کسی ایک باقاعدہ التزام کے تحت پڑھا یا، سمجھایا اور سکھایا نہیں جاتا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک کثیر آبادی ایسی ہے جو اس کام کو انجام دے سکتی ہے اگر وہ مشترکہ طور پر اس کا عزم کر لے۔ یہ بات ہر اس شخص کے لیے اہم ہے جو اردو زبان میں تعلیم حاصل کرتا ہے یا کر سکتا ہے کہ کسی زبان میں کسی مذہب کا سرمایہ اچھی خاصی مقدار میں پایا جانا ایک بہت بڑی Opportunityکے مترادف ہوتا ہے اور اردو میں تو اسلامی تعلیمات کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے کہ دنیا کی کسی زبان میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے، حتی کہ عربی اور فارسی میں بھی ایسی کتابیں موجود نہیں جو اردو میں پائی جاتی ہیں۔ ابھی چند روز قبل کی بات ہے کہ میں الحکمہ فاونڈیشن کے ایک سیمینار میں شریک تھا جس کی صدارت ہندوستان کے مشہور اسلامی اسکالر مولانا ظفر الاسلام صاحب کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی صدارتی تقریر میں یہ بات کہیں کہ مولانا شبلی نعمالی نے سیرت نبی کا جو کارنامہ انجام دیا ہے اس کی نظیر دنیا کی کسی زبان میں موجود نہیں، حتی کے عربی میں بھی نہیں۔ اردو کے حق میں یہ ایک فعال نیک ہے کہ اس زبان میں تعلیم الاسلام، بہشتی زیور، سامان آخرت، دس بیووں کی کہانی، میلاد اکبر اور قبر کی پکار جیسی کتب سے لے کر کیمیائے سعادت، کتاب اللمع، تاریخ طبری، ابن اسحق، تفسیر کشاف، احیا العلوم الدین اور صحاح ستہ تک تمام کتابیں موجود ہیں۔ شاعری میں بھی نعتیہ اور غزلیہ کلام جو مسلم عوام میں زیادہ مقبول ہے اس میں بھی میر، غالب،داغ، امیر مینائی، حالی، اقبال، فیض اور فراز کے ساتھ محسن کاکوروی، احمد رضا خاں بریلوی، شاہ نیاز بریلوی، آسی غازی پوری، ابو المجاہد زاہد اور رشید وارثی جیسے نابغہ روز گار شعرا کا کلام اس زبان میں موجود ہے۔اردو میں مسلمانوں کا جتنا علمی اور ادبی ذخیرہ ہے اس تک مسلمانوں کی رسائی بہت کم ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرے میں اس زبان کے رائج ہونے کے باوجود اس کو ہندوستان میں حکومتی سطح پر اب کوئی شناخت نصیب نہیں ہو پا رہی ہے۔ اردو کے اخبارات مسلمانوں کے گھروں میں پانچ سے دس فی صد بھی نہیں پہنچتے نہ کوئی مسلمان کاروباری ان اخبارات کو اپنے صرفے سے کچھ دینے کا روادار ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی زبان ہونے کا الزام تو اردو پر ایک عرصے سے لگا ہوا ہے مگر افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں میں اس زبان کی وہ قدر و منزلت نظر نہیں آتی جو دوسری قومیں اپنی زبانوں کی کرتی ہیں۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کاروبار میں یہ اپنی زبان کو ہی زیادہ اہمیت دیتے ہیں جس کے باعث دوسری قوموں کو ان کی زبان کی طرف مائل ہونا پڑتا ہے۔

مسلمانوں میں چونکہ دنیا کی دوسری اقوام کی مانند یک جہتی نہیں ہے اس لیے ان کی موجودہ صورت حال ہر اعتبار سے ابتر ہے۔ ہمیں اردو کے فروغ کو مسلمانوں میں بہت سی تدابیر کے ساتھ رائج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس زبان میں موجود علمی اور مذہبی ذخائر بے کار محض ہو کر نہ رہ جائیں۔ اردو کے مشہور صحافی اورسماجی رہ نماپروفیسر اخترالواسع صاحب اکثر یہ بات مجمع عام میں کہتے نظر آتے ہیں کہ اردو کو مشاعروں، مدرسوں اور فلموں نے ہندوستان میں زندہ رکھا ہے۔ ان کی اس بات کو میں کلیتاً تسلیم کرتا ہوں مگر اس بات پر ہمیں مزید غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا کسی زبان کے زندہ رہنے کا عمل ہی سب کچھ ہے۔ میرے خیال میں ہمیں اس زبان کو نہ صرف یہ کہ زندہ سے زندہ تر کرنے کی سعی کرنی چاہیے، بلکہ اس کو اگر ایک قوم سے منسوب کیا جاتا ہے تو اس قوم کی مذہبی جذباتیت کا سہارا لے کر اس کا احیا کرنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ ہندوستان میں اردو کا مستقل روشن ہوگا، بلکہ زبان کو جاننے والو ں تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔ حکومت اس زبان کے مسائل کی جانب نگاہ کرے گی اور مسلمانوں کا ادبی اور علمی سرمایہ جو ایک عظیم تاریخی ورثے کی صورت میں کتب خانوں میں پڑا دھول چاٹ رہا ہے وہ عوام الناس تک پہنچے گا۔ اگر صرف ہر مسلمان اپنے اوپر یہ فرض کر لے کہ وہ اردو زبان سیکھے گا۔ اس میں تعلیم حاصل کرے گا۔ خط و کتابت کرے اوراپنے کارو باری مسائل میں اس زبان کا سہارا لے گا تو اس زبان کے حق میں اتنی بڑی خدمت انجام پائے گی جس کا اندازہ بھی لگانا مشکل ہے۔ حکومت کو اس امر کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑے گا کہ ہندوستان کے تمام سرکاری اور نیم سرکاری، ذاتی اور اشتراکی اسکولوں اور مدرسوں میں اردو کو نصاب کے طور شامل کیا جائے۔ یہ کام ہندوستان میں سوائے مسلمانوں کے اور کوئی نہیں کر سکتا کہ اردو کو پوری آب و تاب سے روشن کر دے۔ انگریزی کو اپنی تہذیب اور اپنے معاشرے میں دوسرے درجے کی زبان بنائے اور اردو کو ہر طور اولیت دے۔ ہندی سیکھنا ہر ہندوستانی پر فرض نہیں۔ انگریزی کاروباری زبان ہے اس لیے اس کا جاننا ضروری ہے مگر اردو سیکھنا مسلمانوں کو اپنے لیے لازمہ حیات بنا لینا چاہیے۔ اس زبان میں رسائل و جرائد۔ اخبارات و کتب کی کچھ کمی نہیں۔کمی ہے تو ان کو پڑھنے والوں کی اور ان کو استعمال میں لانے والوں کی۔ مسلمانوں میں جب تک بالاتفاق اس بات کی لہر نہیں دوڑے گی کہ اردو کو زندہ کرنے میں کوشاں ہونا ہے تب تک وہ فلموں میں نا کے برابر رائج رہے گی۔ مدرسوں سے باہر اہمیت کی نگاہ سے نہیں دیکھی جائے گی اور مشاعروں میں ہو ہلڑ کی نذر ہو جاتی رہے گی۔

ادب پڑھنے والے اور لکھنے والے اردو کے معیار کو تو بلند کر سکتے ہیں۔ اس کے ادب کے شاہکاروں کو عالمی ادب کے عین مطابق تخلیق کر سکتے ہیں، مگر اس زبان کے فروغ کے حق میں اتنا بڑا کام کسی طور انجام نہیں دے سکتے۔ یہ کام تو صرف مسلم عوام کر سکتی ہے۔ جس کا بچہ بچہ اردو بولے اردو سمجھے اور اردو لکھے۔ گھروں میں اردو کا ہی رواج عام کرے۔ آج ہم جس دو راہے پر کھڑے ہیں وہاں سے ہندوستان میں اردو کے حق میں دو راہیں متعین کی جا سکتی ہیں۔ ایک وہ جو اس کو تاریکی میں لے جاتی ہے اور ایک وہ جو اس کو آزادی ہند سے قبل کی روشنی کی جانب کھینچ سکتی ہے۔ اس کا تمام تر دارو مدار صرف مسلمانوں پر ہے کہ اگر وہ اردو کو چاہے تو اسی صورت حال میں نظر انداز کر دیں اور اگر چاہے تو اس کو اپنے سر پر سوار کر کے اس کا مستقبل روشن کر دیں۔ غیر مسلم خواہ وہ کسی بھی قوم سے تعلق رکھتا ہو وہ اردو کے حق میں جو کرے اس کی مسلمانوں کو قدر کرتے ہوئے اردو کے لیے ایک نئی تہذیب کو وضع کرنا شروع کردینا چاہیے، کیوں کہ اگر مسلمانوں نے اب بھی مزید وقت اس امر کے نہ کرنے میں ضائع کیا تو اس کا قعر مزلت میں جانا طے ہے۔

Leave a Reply