سپاٹ چہروں، اداس لوگوں سے شہر اپنا بنا ہوا ہے
یہاں میں برسوں سے ہوں مگر
خود کو اجنبی کی طرح اکیلا ہی پا رہا ہوں
یہاں تو رستے تلک بچا کے نگاہ مجھ سے نکل رہے ہیں
کہ جیسے مجھ سے ہوئے مخاطب تو خندقوں میں پھسل پڑیں گے
عمارتیں دیکھتی ہیں مجھ کو
کہ جیسے میں اشتہار ہوں ایک پھوہڑ ان چاہا اور سستا
کہیں نہیں ہوں نظر میں لوگوں کی آج بھی میں
بس اک خلا ہوں، اگ آئے ہیں ہاتھ پاؤں جس کے
خلاؤں کو کوئی نام کیا دے؟
سپاٹ چہروں اداس لوگوں سے شہر اپنا بنا ہوا ہے
کبھی جو ہنستا نہ بولتا ہے
پڑا ہی رہتا ہے ایک اجگر کی طرح جی سے
نگل لی ہو بھیڑ اک کسی دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Image: Pawel kuczynski

Leave a Reply