اک کسی دن

سوئپنل تیواری: سپاٹ چہروں اداس لوگوں سے شہر اپنا بنا ہوا ہے کبھی جو ہنستا نہ بولتا ہے

امید

سوئپنل تیواری: مجھے یہ پتا تھا کہ دیوار گھر کی ندی کی طرح بہ نہ پائے گی

وہ خوشبو بدن تھی

سوئپنل تیواری: تبھی سے تعاقب میں ہوں تتلیوں کے کئے جا رہا ہوں انہیں جمع ہر دم کہ اک روز ان سے دوبارہ میں تخلیق اس کو کروں گا جو خوشبو بدن تھی

بلّو، پنکی اور سابو

سوئپنل تیواری: بائیس سال پرانا ایک آسیب اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ وہ مڑا تو اس کے سامنے آٹھ سال کی ایک بچی کھڑی تھی جس کے ہاتھ میں ایک کامک بک تھی۔

ٹیک

سوئپنل تیواری: تیری روح پہ اک دن جاناں میرا روغن لگا ملے گا

لیک

سوئپنل تیواری:ہمیں ہنسنا تھا ان سب منزلوں پر مگر ہم پونچھ تھامے چل رہے ہیں

کالی رات ہے

سوئپنل تیواری: کالی رات پہ رنگ نہیں چڑھنے والا ہے میں نے اپنی نبض کاٹ کر اپنا لہو برباد کر دیا۔۔۔۔

سون مچھلی

ایک شہر تھا جس میں تھوڑی سی دہلی، تھوڑی ممبئی، تھوڑا بنارس، تھوڑا کلکتہ، تھوڑا پٹنہ، وغیرہ ٹھیک ویسے ہی تھے جیسے دہلی میں تھوڑا پٹنہ، تھوڑا کلکتہ، تھوڑا بنارس وغیرہ ہیں۔