Laaltain

کتھا کالے رنگ کی

5 اگست، 2016
Picture of اسد رضا

اسد رضا

مجھے یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ میں رنگوں کی اجتماعی قبر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا ہو کہ اگر اپنا سینہ چیر دوں اور تمام رنگ پھڑپھڑاتے ہوئے اُڑ جائیں اور میں بے جسما ہو جاوں۔ مجھے اپنے ہونے پر اتنا ہی شک ہے جتنا آپ سب کو اپنے ہونے پر۔ ٹھہرئیے مجھے وہ رات یاد کرنے دیں جب پہلی دفعہ مجھے اپنے ہونے کا گمان گزرا تھا۔ جو کہانی میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں وہ ایک سب بیتی ہے۔ یہ اُن سب لوگوں کی کتھا ہے جو میری طرح بے جسمے تھے۔

 

میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا ہو کہ اگر اپنا سینہ چیر دوں اور تمام رنگ پھڑپھڑاتے ہوئے اُڑ جائیں اور میں بے جسما ہو جاوں۔
شہر کے بیچوں بیچ انار کلی بازار میں ایک چھوٹی سی ہوزری کی دکان ہے۔ اس دکان کے سامنے لکڑی کا ایک بڑا سا تختہ اینٹوں کے سہارے کھڑا ہے جس کے اوپر مختلف رنگوں کے کپڑے بندھے پڑے ہیں۔ تختے کے ایک کونے میں پرانی اخباروں کے ٹکڑوں میں مختلف رنگوں کو لپیٹ کر رکھا گیا ہے۔ اس کے داہنی جانب کچی مٹی پر کچھ اینٹیں جوڑ کر اس کے اوپر لوہے کی ایک بڑی سی کڑاہی رکھی ہوئی ہے۔ اینٹوں کے اندر مختلف سائز کی لکڑیاں گُھسی ہوئی ہیں اور جل رہی ہیں۔ اس تختے کے چاروں کناروں پر لکڑی کی کچھ ٹہنیاں عموداً کھڑی کر کے ان کے اوپر کالے رنگ کا ایک موٹا سا کپڑا بطور سائبان لگایا گیا ہے۔ انہی ٹہنیوں میں سے ایک کے اوپر والے حصے کے ساتھ نائلون کی ڈوری بندھی ہوئی ہے جس کا دوسرا سرا ہوزری کی دکان کے ساتھ دیوار پر موجود ایک مڑے ہوئے زنگ آلود کیل کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ اس ڈوری پر مختلف رنگوں کے چند دوپٹے سوکھنے کے لئے لٹکائے گئے ہیں۔ یہی حُب دار حسین رنگریز کی چھوٹٰی سی دوکان ہے۔

 

حُب دار حسین چالیس بیالیس برس کا پکے رنگ کا ایک شخص ہے۔ اس کے چہرے پر چھوٹی سی داڑھی ہے ہاتھ کی تقریباً تمام انگلیوں میں مختلف پتھروں کی انگھوٹھیاں پہنی ہوئی ہیں۔ وہ ایک محنتی اور حساس شخص ہے۔ یوں تو اس چھوٹے سے شہر میں درجنوں رنگ ریز ہیں لیکن حُب دار حسین کے رنگ سب سے پکے مشہور ہیں۔ اسے خود بھی اس بات کا ضرورت سے زیادہ احساس ہے۔ وہ اکژ خواتین گاہکوں کے سامنے شوخی بگھارتے ہوئے کہتا ہے “باجی ایک دفعہ کپڑوں پر مجھ سے رنگ کروا کر تو دیکھیں، بڑی بات نہیں بولتا جی لیکن کپڑا پھٹ جائے گا مگر حُب دار کا لگایا ہوا رنگ نہیں اُترے گا۔ آپ میرے رنگ کئے ہوئے کپڑے چاہے مشین میں دوسرے کپڑوں کے ساتھ دھوئیں یا ہاتھ پر دھوئیں اگر رنگ اُتر جائے تو میں خود اپنی باجی کو ایسے دس سوٹ دلوا دوں گا”۔

 

حُب دار حسین کو رنگوں کی خوب پہچان ہے۔ اُسے جو بھی رنگ نمونے کے طور پر دکھایا جائے وہ عین وہی رنگ دئیے گئے کپڑے پر اُتار دے گا۔ جسے ہی کوئی کپڑا رنگنے کے لئے آتا تو پہلے وہ کڑاہی میں پانی کو خوب گرم کرتا جب وہ کھولنے لگتا تو وہ اخباروں کی پُڑیوں سے چٹکیاں بھر بھر کے رنگ پانی میں ڈالتا۔ جب پانی میں جھاگ اُبھرنے لگتی تو وہ کپڑا پانی میں ڈالتا اور لوہے کے چمچے سے اچھی طرح سے اُسے اُلٹتا پلٹتا رہتا۔ وہ زیادہ دیر تک کپڑے کو پانی میں نہیں رکھتا تھا بس چند منٹ بعد اُسے پانی سے نکال کر تار پر سوکھنے کے لئے پھیلا دیتا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ رنگ کپڑوں کا جسم ہوتے ہیں۔ سفید کپڑا تو محض روح ہوتا ہے تبھی تو اُس سے مُردہ کا تن لپیٹا جاتا ہے۔ اُس نے خود بھی کبھی سفید لباس نہیں پہنا تھا۔ عموماً وہ کالے رنگ کے ڈھیلے ڈھالے لباس میں نظر آتا تھا۔

 

حُب دار حسین کو رنگوں کی خوب پہچان ہے۔ اُسے جو بھی رنگ نمونے کے طور پر دکھایا جائے وہ عین وہی رنگ دئیے گئے کپڑے پر اُتار دے گا۔
پہلے وہ رنگ ساز بھی تھا اور رنگنے کے لئے خود رنگ تیار کرتا تھا۔ جب اُس کی بیوی زچگی کے دوران وفات پا گئی تو اُس نے رنگ بنانا چھوڑ دئیے تھے اب وہ محض بازاری رنگ استعمال کیا کرتا تھا۔ بیوی کے زکر پر وہ اکثر آبدیدہ ہو جاتا اور کہتا “بس جی امیراں مرتے ہوئے مجھ سے رنگوں کی پہچان بھی لے گئی۔ اب تو مجھے سُرخ اور لال رنگ میں فرق ہی سمجھ نہیں آتا، آسمانی رنگ بنانے لگوں تو وہ کالا ہو جاتا ہے۔ اب رنگ بنانے کا کام مجھے خود سے آگے کا لگ رہا ہے اب تو رشید رنگ ساز سے بنا بنایا رنگ لے آتا ہوں اور اُسی سے کام چلا لیتا ہوں۔” امیراں مرنے سے پہلے اُسے ملازم حسین کا تُحفہ دے گئی تھی۔ پیدائشی طور پر ملازم حسین کا نچلا دھڑ اوپر والے سے بہت چھوٹا تھا۔ اُس کی پولیو زدہ پنڈلیوں پر گوشت برائے نام تھا۔ حُب دار کو یقین تھا کہ امیراں نے خُدا کے ساتھ مل کر یہ سازش رچائی تھی تا کہ وہ ادھورے بچے کے ساتھ بالکل ادھورا ہو جائے اور کبھی بیاہ نہ کر سکے۔ امیراں کے مرنے کے بعد کے دس سال اُس نے بڑی مشقت سے کاٹے تھے۔ پہلے دو تین سال تو اُس کی بڑی بہن نے اس کا ہاتھ بٹایا تھا لیکن جب آس کے شوہر نے اُسے اپنے پاس دبئی بلوا لیا تو ملازم حسین کی دیکھ بھال کی ساری زمہ داری حُب دار حسین کے کندھوں پر آ پڑی۔ اُس نے گھر کے ساتھ ہی قاسم ہوزری والے کی دوکان کے سامنے اپنا پھٹہ لگا کر کام شروع کر دیا۔ اُس کا ایک کان اور ایک آنکھ ہر وقت گھر کی طرف لگی رہتی اور دوسرے کان اور دوسری آنکھ سے وہ گاہک تلاشتا۔

 

ملازم حسین سارا دن ٹی وی کے سامنے بیٹھا ویڈیو گیم کھیلتا رہتا اور جب بھی اُسے ہگنے موتنے کی حاجت ہوتی وہ گلے سے عجیب و غریب آوازیں نکالنی شروع کر دیتا۔ جس پر حُب دار دوڑتا ہوا گھر آتا اُسے بازوں پر اُٹھا کر لیٹرین لے جاتا پھر اُسے دھلا کر واپس ٹی وی کے سامنے چھوڑ دیتا ۔ ملازم حسین کو بھی لگتا ہے اپنے باپ سے خدا واسطے کا بیر تھا جیسے ہی کوئی گاہک آتی وہ گلے سے وہی حیوانی آوازیں نکالنا شروع ہو جاتا اگر حُب دار ذرا سی بھی تاخیر کرتا تو وہ کپڑوں ہی میں فارغ ہو جاتا جس پر اُسے باپ سے نہایت سخت سننی پڑتی اور کبھی کبھی تو حُب دار اُسے ایک دو ہاتھ بھی لگا جاتا۔

 

ایک دوسرا انکشاف جو اُس پر ہوا ہو یہ تھا کہ لڑائی کے دوران ہی مخلف گروپوں کے تما شائیوں کے ایک گروہ سے ایک لڑکا اور دوسرے گروہ سے ایک لڑکی اس جنگلے سے اوپر اُٹھ کر ایک دوسرے کا بوسہ لیتے اور پھر واپس نیچے جُھک کر نعرے لگانے لگتے
صفورا بیگم ایک پنتیس سالہ بیوہ خاتون تھی۔ جس کی عین جوانی میں بیوگی بھی اُس کی فطری شوخی کو ختم نہ کر سکی تھی۔ جب وہ اپنے کسے ہوئے جسم پر خوب کسا ہوا لباس پہنے کسمساتی ہوئی حُب دار کے پاس کپڑے رنگ کروانے آتی تو اُس کے وجود کی ہر رگ میں تناو پیدا ہو جاتا۔ اُس کے کپڑوں کے رنگ حُب دار رنگ ریز کی آنکھوں میں آٹکھلیاں کرنے لگتے اور اُس کے دل کا رنگ گلابی ہو جاتا۔ ایسے میں حُب دار کا من کرتا کہ وہ اُس کے تمام کپڑوں کو اُس کے وجود سمیت گلابی رنگ میں رنگ دے لیکن ملازم حسین تو گویا اسی موقع کی تاک میں ہوتا وہ فوراً ہی بے وقت کا راگ الاپنا شروع کر دیتا اور جب وہ اُسے اٹھا کر لیٹرین کے اوپر کرتا تو وہ کچھ بھی نہیں کرتا تھا بس ٹکڑ ٹکڑ اپنے باپ کو دیکھتا رہتا ایسے میں اُس کی آنکھیں بالکل اپنی ماں جیسی لگنے لگتی اور حُب دار حسین کا دل زور زور سے دھک دھک کرنے لگتا نتجتاً وہ اپنے بیٹے کو دو چار ہاتھ لگا دیتا۔

 

جب وہ دوپہر کو کھانا کھانے گھر جاتا تو ملازم حسین ویڈیو گیم کھیلنے میں مصروف ہوتا اور وہ اُسے حیرانی سے ویڈیو گیم کھیلتے دیکھتا رہتا اُسے آج تک اس کے ویڈیو گیم میں اس قدر انہماک کی سمجھ نہیں آئی تھی۔ ویڈیو گیم میں دو کردار تھے جو ہمہ وقت لڑتے رہتے تھے۔ ایک دوسرے کو دیکھتے ہی اُن کی آنکھوں میں خون اُتر آتا اور وہ ایک دوجے پر پل پڑتے۔ حُب دار کو ان کی دشمنی کی وجہ کبھی پتہ نہ لگ سکی۔

 

ایک دن جب وہ صفورا کے کپڑے رنگ کر آیا تو وہ بیٹے کو گیم کھیلتے ہوئے غور سے دیکھنے لگا۔ اُس ان پہلی دفعہ اُس پر انکشاف ہوا کہ ان دو لڑتے ہوئے کرداروں کے پس منظر میں دونوں کا حمائتی مجمع لگا ہوا ہے اور مخلف گروپوں کے درمیان لوہے کا ایک جنگلہ ہے وہ سب لوگ ہر مکے ہر لات پر کھڑے ہو ہو کر تالیاں بجاتے تھے۔ حُب دار حسین کو یقین تھا کہ اُس کی طرح یہ سب لوگ بھی ان دونوں کرداروں کی دشمنی سے آگاہ نہیں ہوں گے۔ ایک دوسرا انکشاف جو اُس پر ہوا ہو یہ تھا کہ لڑائی کے دوران ہی مخلف گروپوں کے تما شائیوں کے ایک گروہ سے ایک لڑکا اور دوسرے گروہ سے ایک لڑکی اس جنگلے سے اوپر اُٹھ کر ایک دوسرے کا بوسہ لیتے اور پھر واپس نیچے جُھک کر نعرے لگانے لگتے۔ ان دونوں کے چہرے واضح نہیں تھے۔ لیکن ہر پانچ منٹ کے بعد وہ دونوں اوپر اُٹھ کر اُسی انداز میں ایک دوجے کا بوسہ لیتے اور پھر مجمع کا حصہ بن جاتے۔ اب حُب دار حُسین کی نظر لڑتے ہوئے کرداروں کے پس منظر میں محبت کی اُس داستان پر ٹھہر گئی۔ اُس پورے گروہ (شاید پوری دنیا) میں سوائے حُب دار کے کسی کو اُن کی محبت کی کہانی کی خبر نہ تھی۔

 

صفورا کب کی جا چُکی تھی حُب دار کے اندر رنگوں کا سیلاب امڈ آیا تھا، رنگوں کی لہریں ایک دوسرے پر چڑھتی ہوئی سیاہ رنگ میں بدلتی جا رہی تھیں۔ اُس کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے شروع ہو گئے اور وہ واپس گھر آ گیا۔
اگلی دوپہر تک حُب دار کی آنکھوں کے سامنے وہی داستان دہرائی جاتی رہی ۔ اُس کا دل کام میں بالکل نہیں لگ رہا تھا۔ دوپہر کے وقت صفورا اُس کی دوکان پر آئی وہ ایک سفید دوپٹے پر کالا رنگ کروانے آئی تھی کیونکہ کل سے محرم شروع ہو رہا تھا۔ عموماً وہ گاہکوں کو یہی کہتا تھا “ آپ زرا بازار سے گھوم آئیں میں پانچ منٹ میں رنگ کر دوں گا اُس کے بعد آپ کپڑے گھر بھی لے جا کر سُکھا سکتے ہیں”۔ لیکن اُس دن اُس کا دل کر رہا تھا کہ صفورا بس وہی سامنے کھڑی رہے اور وہ اُسے ویڈیو گیم کے انکشاف سے آگاہ کرے۔ اُسے لگ رہا تھا کہ اُس نے کائنات کا کوئی عظیم ترین راز پا لیا ہے۔ لیکن وہ شدید ترین کوشش کے باوجود اُسے کچھ نہ بتا پایا۔ جب وہ اُسے رنگ آلود دوپٹہ واپس کر رہا تھا تو اُس کی اُنگلیاں دانستہ طور پر صفورا کی انگلیوں سے ٹکرا گئیں تو دفعتاً اُس کے دل میں خیال آیا کہ کاش وہ آہنی جنگلہ درمیان سے ہٹ جائے۔ صفورا کب کی جا چُکی تھی حُب دار کے اندر رنگوں کا سیلاب امڈ آیا تھا، رنگوں کی لہریں ایک دوسرے پر چڑھتی ہوئی سیاہ رنگ میں بدلتی جا رہی تھیں۔ اُس کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے شروع ہو گئے اور وہ واپس گھر آ گیا۔ غسل خانے میں جاتے ہی وہ کپڑے اتار کر اپنے وجود کو دیکھنے لگا۔ اس کے جسم میں برقی لہریں دوڑ رہی تھیں۔ اُس نے ہاتھوں پر صابن لگایا اور مشت زنی کرنے لگا۔ پتہ نہیں وہ کتنے سالوں بعد مشت زنی کر رہا تھا۔ یکایک اُس کے کانوں میں ملازم حسین کی بے ہنگم آوازیں ٹکرانے لگیں وہ شعوری طور پر ان آوازوں سے لا تعلقی اختیار کر کے زور زور سے ملنے لگا۔ وہ پنجوں کے بل اُٹھ چکا تھا اُس کی سُرین سکڑ رہی تھی ۔ اُس کے دونوں بازوں، کہولوں، پنڈلیوں اور رانوں میں درد ہونے لگا تھا۔ ملازم حسین کی آوازٰیں بلند ہو چکی تھیں۔ حُب دار تھک چکا تھا اُس کے کندھوں کے بیچ میں درد ہونے لگا تھا اُسے یقین ہو گیا تھا کہ اُسے انزال نہیں ہونے والا۔ وہ جلدی سے کپڑے پہن کر باہر نکلا تو دیکھا کہ ملازم حسین کپڑوں میں ہی پیشاب کر چکا ہے۔ وہ تقریباً اُسے گھسیٹتے ہوئے غسل خانے میں لایا اور اُسے نل کے نیچے کر دیا۔ حُب دار کو شدید غصہ آ رہا تھا۔ وہ چیختے ہوئے بولا “بد بخت تو اپنی ماں کے ساتھ مر کیوں نہیں گیا۔ اب آئندہ اگر تو نے کپڑوں میں پیشاب کیا تو میں تیری پُھلو کاٹ کے کتوں کو کھلا دوں گا” ملازم بے تاثر چہرہ لئے اُسے دیکھ رہا تھا۔ اُس کی ٹانگیں بُری طرح سے کانپ رہیں تھیں اور اُس کی آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اففففف اُس کی آنکھوں میں قیامت کا سوگ جھلملا رہا تھا۔ محرم کا چاند نظر آ چکا تھا۔

 

آج عاشور کا دن تھا۔ یہ دن تمام دنوں سے زیادہ تاریک اور سیاہ تھا۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی حُب دار حسین نے اذانِ علی اکبر کے ساتھ ہی ملازم حسین کو قیدی بنا کر امام باڑہ کے صحن میں موجود علم کے ساتھ باندھ دیا تھا۔
آج عاشور کا دن تھا۔ یہ دن تمام دنوں سے زیادہ تاریک اور سیاہ تھا۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی حُب دار حسین نے اذانِ علی اکبر کے ساتھ ہی ملازم حسین کو قیدی بنا کر امام باڑہ کے صحن میں موجود علم کے ساتھ باندھ دیا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ہر سال کی طرح اس سال بھی یہ دن آہستہ آہستہ گزرتا جا رہا تھا۔ حُب دار حسین نے سُرخ شربت کی سبیل لگائی تھی گو کہ وہ خود فاقے سے تھا لیکن نہایت دلجمعی سے مومنین کو شربت پلا رہا تھا۔ ظہرین سے ذرا پہلے اُس کے کان اُس کی توجہ کھینچتے ہوئے امام بارگاہ کے صحن میں موجود علم کی طرف لے گئے جہاں چند نوجوان نہایت غصے میں ملازم حسین پر چیخ رہے تھے۔ وہ دوڑ کر اُس طرف جانے لگا وہ قریب پہنچا تو اُس پر صورتحال واضح ہوئی ملازم حسین نے وہی پر اپنے کپڑوں میں پیشاب کر دیا تھا۔ اس سے پہلے کے حُب دار وہاں پہنچتا ایک نوجوان آگے بڑھا اور اُس نے ایک زور دار تھپڑ ملازم کے گال پہ دے مارا اور دہاڑتے ہوئے کہنے لگا “ ابے او معا۔۔۔۔ کی اولاد تو نے امام بارگاہ میں موت دیا ہے” ایک اور نوجوان آگے بڑھا اور ملازم حسین کو ٹھوکر مارتے ہوئے بولا “اس حرامی کو لایا کون ہے یہاں” حُب دار کے بڑھتے قدم رُک گئے۔ ایک اور نوجوان ملازم حسین کو کھینچ کر علم سے دور لے جانا چاہتا تھا پر اُس سے ملازم کے پاوں میں پڑی بیڑی نہ ہٹتی تھی۔ حُب دار گنگ تھا وہ خود اپنے بیٹے کو تھپڑ مارنا چاہتا تھا لیکن اس کے باوجود بھی اُس نوجوان کا تھپڑ گویا اُس کے دل پر لگا تھا۔ اتنے میں امام بارگاہ کے منتظم فواد بخاری آگے بڑھے اور گونج دار آواز میں بولے ” پرے ہٹ جاو سب۔ بد بختو دیکھتے نہیں مجذوب ہے بیچارہ۔ کم از کم آج کے دن تو اپنے دلوں کو وسیع رکھو کیا یہ سبق پڑھایا تھا مولا نے ہمیں” وہ ایک بالٹی پانی کی بھر کر لائے اور ملازم حسین پر انڈیل دی۔ ملازم حسین کے ہونٹوں سے خون رس رہا تھا، کھینچا تانی نے اس کی پنڈلیوں کو زخمی کر دیا تھا وہ اپنے اوپر گرتے پانی کو چاٹنے لگا۔ حُب دار تھکے قدموں کے ساتھ واپس سبیل کے پھٹے کے پاس چلا گیا۔ مولانااسد کاظمی کے گھر سے سو فٹ اونچا علم برآمد ہو چکا تھا اور اُس کے وسیع پھریرے نے پورا امام بارگاہ پر سایہ کر دیا۔

 

ظہرین کے بعد ہی مختصر مجلس کے بعد ہی شبہیہ ذوالجناح بھی مولانا اسد کے گھر سے برامد ہوئی۔ پورے شہر میں اس کے مقابلے کا زولجناح نہیں تھا۔ ۔ مکمل سیاہ چمکتے ہوئے بھاری بھرکم ذوالجناح (جس کا قد سات فٹ سے بھی نکلتا ہوا تھا) کو صرف عاشور کے دن باہر نکالا جاتا تھا تبھی تو پورا شہر ہی اُسے دیکھنے کو اُمڈ پڑتا تھا۔ آج ایک تو شدید گرمی اور حبس تھی، رش بھی پچھلے سال کی نسبت زیادہ تھا۔ اس قدر گھٹن میں ذوالجناح بے قابو ہو کر دائیں طرف کو دوڑ پڑا۔ اس کے ساتھ ہی امام بارگاہ میں بھگڈر مچ گئی۔ بھاگتے ہوئے لوگوں کے قدم امام بارگاہ کے صحن کی طرف تھے اور حُب دار حسین کا دل کُچلا جا رہا تھا۔ ۔ وہ بھاگ کر اندر کی طرف دوڑا مگر رش اس قدر زیادہ تھا کہ وہ ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ پا رہا تھا۔ ماتمی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ لوگ اونچی اونچی اواز میں درود پڑھنے لگے۔ ۔ تھوڑی ہی دیر میں مجمع قابو میں آیا تو حُب دار حسین مجمع کو چیرتے ہوئے آگے بڑھنے لگا اُس نے دیکھا امام بارگاہ میں جگہ جگہ جوتیاں بکھری پڑی ہیں۔ اور آخری کونے میں ملازم حسین کو وجود پڑا ہے۔ اُس کا سر ایک طرف کو ڈھلکا ہوا تھا ۔ اُس کے کپڑے گیلے ہو رہے تھے، اب پتہ نہیں وہ پسینہ تھا یا خوف کے عالم میں اُس کا پیشاب نکل گیا تھا یا پھر یہ اُسی کا خون تھا۔ اُس کا کالا لباس تمام رنگوں کو نگل چکا تھا۔ حُب دار حسین کے پہنچنے سے پہلے ہی امامیہ سٹوڈنٹس کے سکاوٹس اُسے سٹریچر پر ڈال کر ایمبولینس کی طرف لے جا چکے تھے۔ عصر کا وقت ہو چکا تھا لیکن دھوپ کی شدت میں تا حال کمی واقع نہ ہوئی تھی۔ حُب دار ایمبولینس تک نہ پہنچ پایا تھا کہ جلوس چل پڑا اور وہ بوجھل قدموں کے ساتھ سینہ کوبی کرتے ہوئے جلوس میں شامل ہو گیا۔ مغربین کے بعد جلوس مرکزی امام بارگاہ پہنچا۔

 

شام غریباں آ چکی تھی۔ امام بارگاہ کی تمام بتیاں گُل کر دی گئیں تھیں۔ جلتے خیموں کی یاد دلوں کو جلا رہی تھی۔ امام بارگاہ کی دیواروں پر بین کرتے ہوئے سائے نمودار ہونے لگے۔
شام غریباں آ چکی تھی۔ امام بارگاہ کی تمام بتیاں گُل کر دی گئیں تھیں۔ جلتے خیموں کی یاد دلوں کو جلا رہی تھی۔ امام بارگاہ کی دیواروں پر بین کرتے ہوئے سائے نمودار ہونے لگے۔ ایک طمانچے کا ذکر چلا تو لوگوں نے طمانچوں سے اپنے منہ پیٹ لئے۔ ہر طرف آہیں اور سسکیاں ایک دوجھے کے گلے لگ کر ماتم کر رہیں تھیں۔ ذاکر پوری شدت کے ساتھ مصائب پڑھ رہا تھا۔ جب وہ ہر جملے کے بعد کہتا “خدا تمہیں کوئی غم نہ دے سوائے غم حسین کے” تو بے ساختہ حُب دار حُسین کے لبوں سے کُوک نکل جاتی اور وہ بلند آواز سے بی بی کو پُرسہ دینے لگتا۔

 

شام غریباں کی مجلس کے بعد سب کچھ لُٹے جانے کا احساس لئے حُب دار حُسین بکھرے گرد آلود بالوں، کُھلے گریبان اور سوجی ہوئی آنکھوں کے ساتھ سول ہسپتال میں داخل ہوا تو ہسپتال کے اندرونی دروازے کے ساتھ ہی ٹی وی چل رہا تھا۔ نیوز چینل کا لوگو آج کے دن کی مناسبت سے سیاہ تھا۔ نیوز کاسٹر ایک خوش شکل نوجوان تھا جو اپنے چہرے پر مصنوعی سوگواری سجائے خبر پڑھ رہا تھا۔

 

“آج عاشور کے حوالے سے ملک بھر میں سیکیورٹی انتہائی سخت رہی، کہیں سے بھی کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *