Laaltain

ہم ملتے ہیں تاکہ بچھڑ سکیں (اویس سجاد)

13 مئی, 2020
Picture of اویس سجاد

اویس سجاد

ہم پہلی ملاقات کرتے ہیں
کسی مہنگے چاۓ خانے میں
اس احساس کے ساتھ
کہ کبھی جدا نہیں ہوں گے
وہاں بیٹھے بیٹھے
ہم ماپنے کی بے کار کوشش کرتے ہیں
اپنے درمیان حائل
بھورے میز جتنا فاصلہ

ہم چلتے رہنا چاہتے ہیں
کیمپس کے من پسند رستے پر
اس خواہش کے ساتھ
کہ تازہ کریں گے
اپنے ان قدموں کو
جو خاکروب نے دھندلے کر دیے ہوتے ہیں
اس رستے پر چلتے چلتے
بے خیالی میں جب کئی وعدے کر لیتے ہیں
تو واپسی پر ایک دوسرے کو چومنے کی کوشش کرتے ہیں
اس دھیان کے ساتھ
کہ سیکورٹی گارڈ ہمیں نہیں دیکھ رہا

کسی انجان نمبر پر
ہم کوئی پیغام بھجتے ہیں
اس یقین کے ساتھ
کہ وہ رضامند ہو جائے گا
ہمیشہ ساتھ رہنے کے لیے
اور کسی روز
ہم اسے دیکھ سکیں گے
برہنہ حالت میں

مگر افسوس ہم ایک دوسرے کو
بھول جاتے ہیں
اس قہقہے کی طرح
جو کسی روز بٹوے سے برآمد ہوتا
چائے خانے کے بل میں لپٹا ہوا

ایک دوسرے کی خواہشوں کو مار دیتے ہیں
اس وعدے کی طرح
جس کو کچل دیا ہوتا ہے
ہم نے اپنے قدموں سے
من پسند رستے پر

خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں
اس سرد بوسے کی طرح
جو کہیں چھپ کر
ہمیں ہماری یاد دلا رہا ہوتا ہے

اور ہم اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں
اس آخری میسج کی طرح
جس میں دعوی کیا ہوتا ہے
ہمیشہ یاد رکھنے کا

ہمارے لیے لکھیں۔