ہم پہلی ملاقات کرتے ہیں
کسی مہنگے چاۓ خانے میں
اس احساس کے ساتھ
کہ کبھی جدا نہیں ہوں گے
وہاں بیٹھے بیٹھے
ہم ماپنے کی بے کار کوشش کرتے ہیں
اپنے درمیان حائل
بھورے میز جتنا فاصلہ
ہم چلتے رہنا چاہتے ہیں
کیمپس کے من پسند رستے پر
اس خواہش کے ساتھ
کہ تازہ کریں گے
اپنے ان قدموں کو
جو خاکروب نے دھندلے کر دیے ہوتے ہیں
اس رستے پر چلتے چلتے
بے خیالی میں جب کئی وعدے کر لیتے ہیں
تو واپسی پر ایک دوسرے کو چومنے کی کوشش کرتے ہیں
اس دھیان کے ساتھ
کہ سیکورٹی گارڈ ہمیں نہیں دیکھ رہا
کسی انجان نمبر پر
ہم کوئی پیغام بھجتے ہیں
اس یقین کے ساتھ
کہ وہ رضامند ہو جائے گا
ہمیشہ ساتھ رہنے کے لیے
اور کسی روز
ہم اسے دیکھ سکیں گے
برہنہ حالت میں
مگر افسوس ہم ایک دوسرے کو
بھول جاتے ہیں
اس قہقہے کی طرح
جو کسی روز بٹوے سے برآمد ہوتا
چائے خانے کے بل میں لپٹا ہوا
ایک دوسرے کی خواہشوں کو مار دیتے ہیں
اس وعدے کی طرح
جس کو کچل دیا ہوتا ہے
ہم نے اپنے قدموں سے
من پسند رستے پر
خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں
اس سرد بوسے کی طرح
جو کہیں چھپ کر
ہمیں ہماری یاد دلا رہا ہوتا ہے
اور ہم اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں
اس آخری میسج کی طرح
جس میں دعوی کیا ہوتا ہے
ہمیشہ یاد رکھنے کا