محمد ساجد
یس سر
عبدل معید
یس سر
شاہکار عالم وارثی
یس سر
انیل کمار سنگھ
یس سر
صابر علی صدیقی
یس سر
ہرش سچدیو
’’حفیظ الدین بابر‘‘
’’یس سر۔‘‘ میں کھڑے ہوکر جواب دیتا ہوں۔
پروفیسر ایس پی یادو اپنی آنکھوں سے چشمہ اُتارتے ہیں۔ اُن کی دو لال لال ویران آنکھیں مجھے گھور رہی ہیں۔
’’تمھارا نام حفیظ الدین بابر ہے۔‘‘ وہ مجھے غور سے دیکھ کر کہتے ہیں۔
’’جی۔‘‘
’’والد کا نام۔‘‘
’’ظہیر الدین بابر۔‘‘
’’کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’جی، وہ اب اس دنیا میں نہیں۔‘‘
’’اوہ مجھے افسوس ہے۔‘‘ پروفیسر یادو دوبارہ اپنی لال لال آنکھوں پر چشمہ لگا لیتے ہیں۔
میں چاہوں بھی تو اس منظرسے میرا پیچھا کبھی نہیں چھوٹ سکتا۔ یہ مجھے یاد ہی رہتا ہے۔ ہمیشہ یاد، بلکہ اِسے یاد رہنا بھی کیسے کہا جائے؟
کیا مجھے اپنا گُھٹنا، اپنا ناخن، اپنے کان کا میل یاد رہتا ہے؟مگر وہ ہیں میرے ساتھ۔ میرے جسم کے ساتھ، بالکل اسی طرح شہر میں۔ کالج کے پہلے دن کا یہ منظر میرے ذہن کے ساتھ ہے۔ بے وجہ اور — بغیر کسی مقصد کے ساتھ۔
یہ پالیٹیکل سائنس کی بی۔اے کی کلاس تھی۔ شہر کا یہ سب سے اچھا کالج تھا۔ اس کی عمارت لال رنگ کی اور گوتھک طرز کی بنی ہوئی تھی۔ یہ بہت قدیم کالج تھا اور کسی زمانے میں کلکتہ یونیورسٹی سے منسلک رہ چکا تھا۔ اس کالج کا ہوسٹل دور دور مشہور تھا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ چند بڑی بڑی یونیورسٹیاں بھی اس کالج کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں۔ مجھے بہت آسانی سے ہوسٹل میں کمرہ الاٹ ہو گیا تھا۔
یہ بڑا شہر، ہمارے اُس قصبے نما چھوٹے سے شہر سے بہت دور نہ تھا۔ راستے میں صرف دو ندیاں پڑتی تھیں— ایک تو شہر چھوڑتے ہی قلعہ کی ندی اور دوسری، کچھ ا ٓگے جاکر رام گنگا۔
مگر یہاں آکر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں بہت دور آگیا ہوں۔ جیسے میرا گھر، بہت دور تھا۔ گزرے ہوئے واقعات مجھے اب ایسے بھیانک خواب کی طرح محسوس ہوتے تھے، جنہیں صبح کو جاگ جانے پر، ہنس کر بھلا دیا جائے۔
یہ کچھ قابل تعجب بات تھی۔ شہر آکر میں جیسے ایک ایسی آندھی کی زد میں تھا جو میرے آس پاس کی تمام اشیا یعنی وہ تمام یادیں جو میں اپنے گھر سے اپنے بدن پر چپکائے ہوئے لایا تھا، دھول کے پرُاسرار غبار میں اُڑاتی ہوئی بھیانک تیزی کے ساتھ، مجھ سے دور لے جارہی تھی۔
اور حقیقت یہ ہے کہ مجھے کوئی افسوس بھی نہ تھا۔ شاید میرے لاشعور میں دبی ہوئی خواہش تھی کہ میں وہ سب بھول جائوں۔ وہ سب—؟
اور حقیقتاً، اُن دنوں، شہر میں نیا نیا اور کالج میں نیانیا میں تقریباً سب بہت بے رحمی کے ساتھ بھولنے لگا۔ کچھ دنوں بعد تو میں یہ بھی بھول گیا تھا کہ مجھے گھر پر گڈّو میاں کہا جاتا تھا۔ اب میں حفیظ الدین بابر تھا یا حفیظ الدین۔ یا پھر صرف حفیظ۔ مگر اب میں کسی کے لیے گڈّو میاں نہ تھا۔
یہاں آکر میرے دوستوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ میری شخصیت کا رُخ ہی بدل کر رہ گیا۔ میں چند ذہین لڑکوں کے گروپ میں شامل ہوگیا۔ کالج میں، لڑکیاں بھی ساتھ پڑھتی تھیں۔ اور لڑکوں کے ساتھ اُن کے معاشقے بھی چلتے تھے۔ مگر پابندیاں بہت تھیں۔ آج جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں (کیا واقعی لکھ رہاہوں؟) تو مجھے حیرت ہے کہ ساٹھ کی دہائی ہر لحاظ سے کتنی مختلف تھی اور زمانہ کسی قدر تیزی کے ساتھ بدلا ہے۔
مگر ٹھہریے! مجھے اپنی یادداشتیں اس طرح نہیں لکھنی چاہئیں۔ یہ تو محض بیان ہیں۔ اور بیان سے میرا کام نہیں چل سکتا۔ مجھے یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ میں اپنی سوانح وغیرہ نہیں لکھ رہا ہوں۔ میں تو دراصل کچھ عرض داشتیں، کچھ اپیلیں وغیرہ لکھ رہا ہوں۔ میرا مقصد تو اپنی عدالت کی تلاش ہے۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اگر مجھے ڈھنگ کی ایک بھی سطر لکھنا آتی یا ایک تخلیقی جملہ بھی لکھ سکتا تو پھر تو میں ناول کا صدر دروازہ تیار کر ہی لیتا۔ پھر تو مجھے اور کہیں جانے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ میں اپنے ناول کے اندر ہی رہتا۔ میرا مقدمہ، میری عدالت، میرا انصاف اور میرا گھر سب ناول کے اندر رہتے۔ ناول چیز ہی ایسی ہے۔ بس آپ کو لکھنا آنا چاہئیے۔ اس کے بعد تو، سزا جزا، جنت، جہنم سب ناول کے اندر ہی مل جائیں گے۔
مگر ایک بار پھر افسوس اور صدہا افسوس کہ اس معاملے میں انتہائی بنجر واقع ہوا ہوں۔ اس لیے جو لکھ رہا ہوں، وہ ایک کے بعد ایک عرضیوں کی ڈھیریاں بنتی جارہی ہیں۔ عرض داشتوں کا پُلندہ لگتا جارہا ہے۔ مگر چونکہ ہر اپیل اور ہر عرض داشت میں کوئی نہ کوئی پہلو تو داخلی نوعیت کا ہوتا ہی ہے، بلکہ شاید سب سے زیادہ اہم اور فیصلہ کن پہلو تو لکھنے والے کی داخلی شخصیت ہی ہوتی ہے۔ قابل رحم انداز میں، بھیک کا کٹورا ہاتھ میں لیے کھڑے ہونے میں ہی ایک عظیم آرٹ پوشیدہ ہے۔ اس لیے میں ہر اُس بیان سے کترا رہاہوں جہاں میری اپنی ذات ایک فعال کردار نہ بن سکے۔ اور عرضیاں، اپیلیں سب میں الفاظ کی تعداد محدود ہوتی ہے۔ لفظوں کا پابند رہنا پڑتا ہے اگر لفظ زیادہ ہو جائیں یا بہت کم ہوں تو وہ کاغذ کے یہ ورق پھاڑ کر دھجّیاں دھجّیاں کرکے — تمھارے منھ پر مار دیتے ہیں اور تمھارے بس میں کچھ نہیںرہتا، سوائے اس کے کہ تم کاغذ کے ان چیتھڑوں کو فرش سے بین بین کر اُٹھائو اور خود ہی وہاں رکھے ایک بڑے اور منحوس کوڑے دان میں ڈال دو۔ اپنی عرض داشتوں کے ساتھ لگے ہوئے بیانِ حلفی اور اُن پر چسپاں ٹکٹ۔ لیجیے ایک ذرا سی غلطی پر سب گئے اُس کوڑے دان میں۔
وہ کوڑے دان تو اب ایک آرکائیو، ایک ریکارڈروم ہی بنتا جارہا ہے۔
اسی لیے میں غیر ضروری تفصیلات سے دامن بچانے پر مجبور ہوں۔ حالانکہ مجھے یہ احساس ہے کہ اس سے پہلے میں نے بے وجہ، غیر ضروری تفصیلات اوربے معنی جزئیات سے کام لیا ہے۔ مگر اتنے سنجیدہ قانونی معاملات میں، یہ شوقِ فضول بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کا احسا س بہرحال مجھے ہے۔
بی۔اے میں میرے مضمون تھے معاشیات، سیاسیات، فلسفہ اور انگریزی ادب۔
میری ذہانت میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہاتھا۔ میں کسرِنفسی سے کام کیوں لُوں؟ اور وہ بھی اب جبکہ زندگی کی شام دُھند اور غبار میں لپٹی ہوئی سامنے ہی نظر آرہی ہے۔
میں اپنے — بی۔اے کے ساتھیوں سے بہت کم گفتگو کرتا، زیادہ تر ایم۔اے کے طلبا اور ریسرچ اسکالروں کے ساتھ ہی اُٹھتا بیٹھتا اور بحثیں کرتا۔
بحث، مباحثہ، کرنے کی تو بہت برُی لت پڑ گئی تھی مجھے۔ فلسفے میں منطق نے اس عادت کو اور بھی جلا بخشی تھی۔ حالانکہ فلسفے میں، میری دلچسپی اور مضامین کے مقابلے بہت کم تھی۔ کیونکہ سوائے مجرّد خیالات کے، وہاں کچھ تھا ہی نہیں، خاص طور پر مغربی فلسفہ تو بے ہنگم تصوّرات اور بچکانہ خیالات کے مجموعۂ اضداد کے علاوہ اور کچھ بھی نہ تھا۔
ہاں! مگر ہندوستانی فلسفے میں بعض باتیں اور بعض نکات ایسے تھے کہ جن پر ہمیشہ میں نے بہت سنجیدگی سے غور کیا۔ خاص طور پر روح اور جسم کے معاملات، حیات بعد الموت کے نظریات اور بہت سی چیزیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہندوستانی فلسفے میں نیائے درشن نے جو ترک شاستر پیش کیا ہے، ارسطو اُس کے عشر عشیر بھی کچھ نہ کر سکا۔
روح اور جسم کے باہمی رشتے اور تعلقات انسان کے لیے پوری طرح قابل فہم نہیں رہے۔ اس لئیے میری دلچسپی مجرّد خیالات میں نہ ہوکر، انسانوں میں رہی، میں دوسرے مضامین بہت لگن اور جی توڑ محنت سے پڑھتا رہا۔ اب جاسوسی ناولوں کا شوق بہت کم ہوگیا تھا۔ مگر روح اور جسم کا تعلق مجھے ہمیشہ ایک جاسوسی ناول کا پلاٹ محسوس ہوتا رہا اور اب — میں جو لکھ رہا ہوں، کاش کہ زمانۂ طالب علمی میں ہی اُسے سمجھ لیتا۔ ایک بار، پھر اُن سطروں کو لکھنے کو جی چاہ رہا ہے جو اِس سے پہلے بھی لِکھ چُکا ہوں۔
یہ دنیا ایک حقیر نقطے سے شروع ہوئی تھی۔ اب یہ کیسا شیطانی روپ اور حجم اختیار کر چکی ہے اوراس میں مرنے اور جینے کا سلسلہ چل رہا ہے۔ روح ایک ہوا کی مانند جسم کے اندر رہتی ہے۔ پھر ایک دن جسم کو چھوڑ کر ایک بے حد بے مروت اور خود غرض مہمان کی طرح وہاں سے چل دیتی ہے۔ اپنے اُس آبائی گھر کو چھوڑ کر جس میں اُس کا اتنا خیرمقدم کیا گیا۔ سر آنکھوں پر بٹھایا گیا۔ کتنی خاطر، کتنی تواضع کی گئی، کتنے ناز نخرے اُٹھائے گئے۔ مگر روح کی آنکھوں میں سور کے بال ہیں۔ وہ جسم کو چھوڑ کر اُسے زمانۂ گزشتہ کا واقعہ سمجھ کر رخصت ہوجاتی ہے۔ ایک دوسرے عالم کے لیے، شاید عالم لافانی کے لیے۔
مگر اُس کی روح ایسا نہیں کرے گی۔ وہ اپے میزبان کے گھر کو، بلکہ اپنے گھر کو نہیں بھولے گی۔ وہ عالم بالا کی طرف رُخ نہیں کرے گی، وہ اس دنیا سے، اس گھر سے، اپنے لوگوں سے رابطہ قائم رکھے گی۔
ممکن ہے کہ یہ اس کی روح کے لیے بڑی بدنامی کی اور ذلیل بات ہو جس کے لیے اُس پر لعنت ملامت کی جائے، جھاڑ پھونک کی جائے۔عاملوں کا سہارا لیا جائے، تعویذ اورگنڈے استعمال کیے جائیں۔
مگر اُس کی روح لعنت کے اس طوق کو، اپنی صلیب بناکر، اپنے گناہوں اور اپنے جرائم کواپنے غیر مرئی کاندھوں پر لاد کر، ادھر—یہیں جی ہاں، ادھر ہی بھٹکے گی۔ وہ کسی عالم لافانی کی طرف کوچ نہیں کرے گی۔ اِس کرب، بے چینی اور گھبراہٹ کو وہ اپنا دائمی مقدّر تسلیم کرے گی۔ اور ایک قندیل کی طرح ہوا میں اُڑتی بھٹکتی پھرے گی۔
روح اور جسم کے آپسی گٹھ بندھن نے ہی خوفِ مرگ میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ دنیا جو ایک حقیرنقطے سے شروع ہوئی تھی، انسان کے لیے ایک معمہ بن کر رہ گئی۔
مگر اُس کے لیے یہ معمہ نہیں ہے۔ یہ کوئی سوال نہیں ہے، یہ محض ایک بے تُکے نقطے کا بے ہنگم انداز میںپھیلتے رہنا ہے، ایک مرض— ایک کینسر کی مانند۔
یہ دنیا جس میں انسان رہتے ہیں، بچّے رہتے ہیں اور ایک باورچی خانہ بھی اِسی نقطے میں چھپا رہتا ہے۔
ہاں، باورچی خانہ۔ ایک انتہائی — بھیانک اور خطرناک جگہ۔ اس شیطانی نقطے کو بڑھانے اور پھیلانے میں شاید سب سے زیادہ مدد اِسی باورچی خانے نام کے مقام نے کی ہے۔ یہی تو وہ جگہ تھی جہاںسے اُسے مستقبل کی تمام بدشگونیوں کی علامتیں اس طرح حاصل ہوتی تھیں، جیسے سرپر بارش ہورہی ہو۔
مگر یہ ’’اُس‘‘ کی کہانی ہے جو ابھی اپنے ’’میں‘‘ سے کٹ کر یا نکل کر باہر نہیں آیا۔ مگر یہ اُس ’’میں‘‘ کے صیغۂ غائب میں ایک حلفیہ بیان تو مانا ہی جاسکتا ہے۔ اور مناسب وقت آنے پر، اس کا جائز استعمال ہونے کے امکان سے بھی چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ ابھی ’’اُس‘‘ کی کہانی سنانا یا بات سننا ذرا مشکل ہے۔ ابھی بڑا شور برپا ہے۔ ’’میں‘‘ نے بھیانک شور شرابا اور ہنگامہ برپا کرر کھا ہے۔ ابھی رُکی ہوئی ہوائوں اور سنّاٹوں کی آوازوں کو کوئی نہیں سن پائے گا۔ ابھی شور ہے، بہت شور
Leave a Reply