Laaltain

غیرمطبوعہ ناول: ایک خنجر پانی میں (خالد جاوید)

19 اگست, 2020
Picture of خالد جاوید

خالد جاوید

[divider]انتساب[/divider]

زینو کے نام

 

صبح قیامت ایک دم گرگ تھی اسدؔ
جس دشت میں وہ شوخ دو عالم شکار تھا
اسد اللہ خاں غالب

قاری کی پیدائش اس وقت ہوتی ہے جب مصنف کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
رولاں بارت

یہ قطعی ضروری نہیں کہ سب آسان ہو۔ زندگی میں ایسی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں جن کو بغیر سمجھے ہی ہم ان سے لطف حاصل کرتے ہیں مثلاً سیکس۔
ایلن شاپرو

نوحہ گری بھی کبھی کبھی نہایت خوش آئیند واقعات کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔
اتالو کیلوینُو

انسانوں کے ذریعے کیے گئے تمام کام غیر متجانس، غیر مطابق، غیو موزوں اور بے موقع ہوتے ہیں۔ چاہے وہ شاعر اور ادیب ہوں یا قواعددان۔
ہرمین بروخ

چھند سے خالی کوئی سبد نہیں اور نہ ہی شبدوں سے خالی کوئی چھند۔
ناٹیہ شالتر

یہ یقیناً موت کی تیسری کتاب ہے۔ جس کو حاضرِ خدمت کرتے ہوئے میں بس دو یا تین باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ میری تمام گذشتہ تحریروں کی طرح اس کتاب میں بھی وہی خرابیاں موجود ہیں جن کا کافی شہرہ رہا ہے بلکہ ممکن ہے کہ اس بار پہلے سے کچھ زیادہ ہی ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ زبان کا ایک کام اشیاء کی نمائندگی کرنا ضرور ہے۔ مگرکسی بھی تخلیقی بیانیے میں الفاظ محض خارجی یا داخلی حقیقت کی نمائندگی نہیں کرتے۔ ورنہ اس طرح تو ہر آرٹ ایک ثانوی درجے کی شے بن کر رہ جائے گا یعنی نمائندگی کرنے کا محض ایک وسیلہ، تخلیقی زبان میں لفظ آپس میں مل کر جو بیانیہ خلق کرتے ہیں۔ اُسے اپنے آپ میں ایک مکمل اور سالم دنیا ہونا چاہیے۔ خود مکتفی اور مقصد بالذات حقیقت۔ میرے لیے پریشانی کا سبب یہی ہے کیونکہ انسانوں کے الفاظ پر چھائیوں کی طرح ہوتے ہیں اور پرچھائیاں روشنی کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں سمجھا سکتیں۔ روشنی اور پرچھائیں کے درمیان ایک دھندلی سطح ہوتی ہے جہاں سے لفظ پیدا ہوتے ہیں۔ زبان کی یہ دوسرحدیں جہاں ملتی ہیں وہاں کھینچی گئی ایک لکیر پر میری تحریراکیلی اور بے یارومددگار بھٹکتی رہتی ہے۔ اپنے معنی کی تلاش میں جو زبان کے اس دو منھ والے پُراسرار سانب جیسے رویے کی وجہ سے کبھی ایک مقام پر نہیں ٹھہرتے۔ ممکن ہے کہ اس کتاب میں یہ مسئلہ زیادہ گھمبیر ہو۔ تیسری اورآخری بات یہ کہ یہاں اُردو کی مستند لغات، قواعد، صرف و نحو اور ادقاف سے انحراف تو نہیں کیا گیا ہے مگر ہر جگہ سختی سے پابند بھی نہیں رہا گیا ہے۔ اس لیے کہ یہ کتاب دراصل بہتے ہوئے وقت اور پانی کی کتاب ہے۔
خالد جاوید

عادت ہمیں فرصت فراہم کرتی ہے اور ہم محفوظ ہو جاتے ہیں۔ عادت ہمیں حساس نہیں رہنے دیتی۔ عادت حساسیت کی دشمن ہے۔
جے کرشنا مورتی

کسی بھی فن پارے کو سمجھنے سے زیادہ اُس کو محسوس کرنا چاہیے۔ جہاں تک سمجھنے کی بات ہے ہم ریاضی کے ایک سوال تک کو نہیں سمجھتے ہیں۔ اور نہ ہی محسوس کرتے ہیں۔ ہم وہاں کچھ پہلے سے فرض کرلیتے ہیں۔ اورپھر سوال حل کرنے کی مشق کرتے رہتے ہیں۔ پھر یہ مشق ہماری عادت بن جاتی ہے۔ ہم ہر مسئلے سے عادتاً گزرنا سیکھ جاتے ہیں۔
برگمین

تواس طرح دنیا ختم ہوجائے گی۔ دھماکے کے ساتھ نہیں بلکہ ایک کمزور سی سِسکی کے ساتھ۔
ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ

[divider]ایک خنجر پانی میں[/divider]

 

[dropcap size=big]صبح[/dropcap]
کے ٹھیک آٹھ بجے سرہانے لگے ہوئے الارم نے اُسے جگا دیا۔ سر درد سے پھٹا جارہا تھا۔ وہ آنکھیں مَلتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ کھرکی کے شیشے سے پردہ سرکایا۔ باہر وہی پیلا پیلا سا دُھند تھا۔ تین دن پیشتر ایک دھول بھری، پیلی آندھی آئی تھی مگرپھر یہیں آکر رُک گئی، آگے نہیں گئی۔ اب ہوا بالکل بند تھی مگرآندھی کا غبار ٹھہرا رہا۔ اگربارش ہو جاتی تو یہ غبار دُھل جاتا مگربارش کا دور تک پتہ نہ تھا۔ کچھ چیزیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ وہ ایک جگہ پہنچ کر رُک جاتی ہیں، وہ جن پہیوں پر سفرکرتی ہیں وہ جام ہو جاتے ہیں۔

یہ بڑا منحوس موسم ہوتا یہ، بڑا حبس پیدا کرتا ہے۔ اُس نے کہا۔ ہر موسم خراب ہوتا ہے۔ اُس کی بیوی اُکتا کربولی۔ وہ کمرے سے نکل کر سیدھا ٹوائیلٹ میں چلا گیا۔ آٹھ منت بعد، ٹھیک آٹھ منٹ بعد اُس نے فلش کی زنجیر کھینچی۔ پانی کے ریلے کی گڑ گڑاہٹ کے ساتھ ناقابلِ برداشت بدبو کا ریلا بھی آیا۔ اُس نے گھبرا کر ناک بند کرلی۔ پھر نالی بند ہو گئی۔ اس نے سوچا، سڑاندھ ہی سڑاندھ ہے۔ اُس کے سر کے درد میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ باہر آیا، واش بیسن پر جھک کر کلّی کرنے لگا۔ منھ کچھ نمکین ہوگیا اور زبان کڑوی، دانت کر کرانے لگے۔ وہ بڑبڑانے لگا۔ کئی دن سے رات میں سو نہیں پاتا۔ منھ کے ذائقے کا ستیاناس ہوکر رہ گیا۔ سوؤ گے بھی تو کیسے۔ آدھی آدھی رات کو اُٹھ کر تو میرے اوپر چڑھنے کی کوشش کرتے ہو۔ تم چڑھنے دیتی ہو۔ ہو بھی اس قابل۔ میرا کیا بس یہی مصرف رہ گیا ہے، کیا میں کوئی کائی لگی ہوئی چٹان ہوں کہ تم چڑھتے رہو اور پھسلتے رہو بلکہ پھسلو کچھ زیادہ ہی۔ کڑک چائے بنا کر لاؤ۔ رات میں بتاؤں گا چائے لاؤ، پھر میں جاؤں نہانے، جلدی آفس پہنچنا ہے۔ اُس نے کہا، دفتر جا کرکرتے کیا ہو، ایک پیسے کی کمائی نہیں۔ بیوی ترش روئی سے بولی۔ اچھا، اتنے عیش تو کررہی ہو۔ عیش؟ اتنا بجٹ تو بڑھا نہیں سکے کہ ایک بچہ ہی پیدا ہو جاتا۔ یہی رٹ لگا رکھی ہے کہ ابھی نہیں۔ ابھی نہیں۔ تین سال ہو گئے، شادی کو، اس منحوس شادی کو۔ دیکھ لینا میں جلد ہی اس عمر سے نکل جاؤں گی۔ چائے، میں نے کہانا کہ چائے کی پیالی۔ گرم، بہت گرم۔ آج موسم بہت خراب ہے۔ بیوی پیر پٹکتی ہوئی کچن کی طرف جانے لگی۔ تمھارے ہاتھ کے بنائے ہوئے مکانوں کے نقشے کسی کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ کوئی انھیں پسند نہیں کرتا۔ پتہ نہیں کیسے آرکی ٹیکٹ ہو۔ ہو بھی یا جعلی ڈگری ہے۔ اوپر سے آفس کھول کر بیٹھے ہیں۔ گلوبل کنسٹرکشن کمیٹی، ہونہہ۔ وہ اُسے کچن میں اِدھر سے اُدھر چلتا پھرتا دیکھ رہا تھا۔ اُس کی چال میں شہوانیت تھی۔ وہ زہریلے انداز میں مسکرانے لگا۔

یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ آس پاس کے چھوٹے چھوٹے گاؤں سے گھرا ہوا۔ شہر کے علاقے سے وہ شاہراہ بہت نزدیک ہے جو ملک کے مغربی خطے کو مشرقی خطے سے ملاتی ہے۔ اس شہر میں یا تو مالدار بنیے ہیں جن کی اولادیں ڈونیشن کے ذریعے ڈگری پاس کرکرکے اپنے کلینک اور نرسنگ ہوم کھولتی جارہی ہیں یا پھر اہلِ حرفہ اور معمولی کاریگر ہیں، بڑھئی درزی، کارچوبی اور راج گیرتو یہاں کے دور دور تک مشہور ہیں۔ یہاں کا سرمہ اور فرنیچر بیرونِ ملک تک جاتا ہے۔ یہ ایک صاف ستھرا شہر ہے (اب تو خیر سارے شہر میں کھدائی کا کام چل رہا ہے) اور مذہبی رواداری نیز امن و امان کے لیے بھی پورے صوبے میں شہرت رکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ضلع کے سارے اعلیٰ حکام اپنی ملازمت سے سبک دوشی ہوجانے کے بعد مستقل طورپر یہیں بس جانا چاہتے ہیں۔ اس لیے شہری ترقی کے نام پر پچھلے پانچ چھ سالوں سے یہاں کئی قیمتی پراجیکٹ چل رہے ہیں اور بلڈر مافیا شہر میں روز بروز مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ کئی چھوٹے چھوٹے گاؤں کی زمینیں کٹ کٹ کر کالونیوں میں بدل چکی ہیں۔ شہر پھیلنے لگا ہے اور مضافاتی علاقوں میں دور تک نئے نئے فلیٹ بنتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ انھیں اطراف میں کئی شاپنگ مال بھی کھل گئے ہیں اور کچھ فیکٹریاں بھی جو مقامی سیاست کی کشمکش کے خوش آئند نتائج ہیں۔ انھیں میں وہ مشہور گوشت کی فیکٹری بھی ہے جہاں جدید ترین مشینوں کے ذریعے بڑے جانور ذبح کیے جاتے ہیں اوراُن کے گوشت کی، انٹرنیشنل معیار کے مطابق عمدہ پیکنگ کی جاتی ہے اوراُسے نہ صرف ملک کے دوسرے خطوں میں بے حد احتیاط، صفائی اور حفظانِ صحت کے اُصولوں کا خیال رکھتے ہوئے پہنچایا جاتا ہے بلکہ کئی خلیجی ممالک کو ایکسپورٹ بھی کیا جاتا ہے۔ ذبح میں نکلے ہوئے خون کو مشینوں اور پائپوں کے ذریعہ زمین کے اندر پہنچا دیا جاتا ہے۔ سافٹ اور کولڈ ڈرنک بنانے والی مشہور کمپنیوں نے بھی اپنی اپنی فیکٹریاں کھولنا شروع کردی ہیں۔ جہاں ان مشروبوں کا ڈرائی فارمولا سفوف کی شکل میں تیار شدہ بھیجا جاتا ہے مگرپانی نہیں۔ پانی کو مقامی سطح پر ہی فراہم کیا جاتا ہے۔ آؤٹ سورسنگ اورسرمایہ کاری کا یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم کے نجی سیکٹر میں شامل کیے جانے کے بعد سے یہاں انجینئرنگ، میڈیکل اور مینجمنٹ کالج بہت بڑی تعداد میں کھلتے جارہے ہیں یہ شہر چھوٹا ہے اور اتنا پھیلاؤ برداشت نہیں کرسکتا۔ اس لیے جنگل، کھیت، تالاب اور جھیلیں سب سیمنٹ کے گھروندوں میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ یہی نہیں جگہ جگہ فلائی اوور بنائے جارہے ہیں، اس لیے پچھلے کئی سالوں سے یہ پورا شہر اُدھڑے ہوئے سوئیٹر کی طرح نظرآنے لگا ہے۔ سڑکیں، گلیاں سب کھدی ہوئی نظرآتی ہیں۔ چلنے والوں کو اسی ملبے سے بچ کر نکلنا ہوتا ہے۔ چاہے اُنھیں اسپتال جانا ہو یا کچہری یا پھر سڑک کنارے کھڑے ہوکر گول گپّے ہی کیوں نہ کھانا ہوں۔ بہت سنبھل کر چلنا ہوتا ہے۔ کہیں بھی کوئی گڈّھا راستے میں آسکتا ہے۔ جس میں کیچڑ اور پانی بھرے ہوں۔ گڈّے میں گرکر کوئی بھی اپنے ہاتھ پیر تڑواسکتا ہے یا پھر سڑک کے بیچوں بیچ ڈالی جا رہی سیورلائن کے کھلے ہوئے مین ہول پَل بھرمیں کسی کے پیٹ سے نکلے ہوئے فُضلے یا کینچوئے کی طرح آپ کو شہر کے دوسرے حصے پر بہنے والی قلعے کی ندی کے کنارے پر واقع بائیو گیس کے پلانٹ میں پہنچاکر جہنم رسید کرسکتے ہیں۔ ان نئی بنی ہوئی کالونیوں تک جانے کے لیے آپ کو اتنا ہوشیار تو رہنا ہی پڑے گا۔ چاہے آپ کے پاس بائیک ہو، سائیکل ہو یا رکشہ ہو مگرسب سے زیادہ خطرہ تو پیدل ہی چلنے والوں کو اُٹھانا پڑے گا اور اگر اتفاق سے بارش ہو رہی ہو، پھر تو کہنا ہی کیا۔

یہ بھی ایک نئی سوسائٹی بن کر تیا رہوئی ہے۔ تین منزلہ فلیٹوں کی۔ اس کا نام لائف اپارٹمنٹ ہے۔ اس کالونی کے سارے مکان باہر سے پیلےے رنگ کے پُتے ہوئے ہیں اور مکان کے اندر باہر کے رنگ سے کچھ کم پیلا رنگ کیا گیا ہے۔ پچھلے آٹھے سالوں سے یہی رنگ فیشن میں ہے اور آرکی ٹیکٹ مکانوں کے نقشے تیار کرنے کے بعد اس رنگ کی سفارش کرتا ہے۔ اُس کا خیال ہے کہ مکانوں کے ڈیزائن سے اِسی رنگ کی ایک خاص مطابقت ہے۔ اس رنگ کا فی الحال ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ باہر پھیلی ہوئی پیلی دُھند کی وجہ سے یہ چھوٹے فلیٹ کچھ پھیلے ہوئے اور وسیع و عریض نظرآنے لگے ہیں۔ ایک چھوٹا سا پارک۔ چند ضروری سامان کی دکانیں اور ہمہ وقت یہاں تک کہ دن میں بھی روشن نیون لائٹس۔ یہ وہ عناصر ہیں جن سے لائف اپارٹمنٹ کی تشکیل و تعمیر ہوتی ہے۔ یہ جس زمین پر بنی ہے وہ پہلے ایک تالاب تھی،جسے پاٹ پاٹ کر اور مٹی ڈال ڈال کر خشک زمین میں بدل دیا گیا ہے۔ تالاب کے کنارے کبھی ایک بہت پرانا قبرستان بھی ہوا کرتا تھا جس کی قبریں نہ جانے کب کی دھنس چکی تھیں اوراب وہ ایک بڑے سے گڈھے میں بدل چکا تھا۔ ایک زمانے سے اس قبرستان میں کوئی فاتحہ تک پڑھنے نہیں آتا تھا اور نہ ہی کوئی مُردہ دفن ہونے۔ چند سال پیشتر تک کچھ آسیبی روایات بھی اس جگہ سے منسوب رہی تھیں مگراب شہری منصوبہ بندی اور ترقی کی شاندار اور جگمگاتی ہوئی روشنیوں نے توہم پرستی، خوف اور دہشت کو ہمیشہ کے لیے اپنے اندر نگل لیا تھا۔ اب شاید ہی کسی کو یہ بھی یاد رہ گیا ہو کہ اُس تالاب سے منسلک ایک بہت چھوٹی اور پتلی سی ندی بھی بہا کرتی تھی اوراس طرح کی کالونیوں میں بنے ہوئے مکانات کی بنیادیں انسانی پنجروں اور ہڈیوں کی راکھ اور چونے پر ٹکی ہوئی تھیں۔ ویسے بھی اس قسم کی باتوں کو یاد کرنا یا یاد رکھنا سرے سے بے تُکا تھا۔ اورکسی حد تک غیر اخلاقی بھی کیونکہ اخلاقی اقدار کا تعلق ہمیشہ اپنے زمانے سے ہوا کرتا ہے۔ ‘زمانے’ کو تو بُرا کہا ہی نہیں جا سکتا ممکن ہے کہ زمانہ ہی خدا ہو۔ اور یہ زمانہ ایک دوسری متبادل اخلاقیات گڑھ رہا تھا۔

لائف اپارٹمنٹ میں بجلی کا کنکشن تو بہت جلد ہوگیا تھا مگرپانی کی قلّت ابھی بھی کسی حد تک موجود تھی۔ ضلع جل بورڈ کا پانی چوبیس گھنٹے میں صرف دوبار آتا تھا جس کا کوئی وقت متعین نہ تھا۔ اس لیے اُسے اسٹور کرکے رکھنا پڑتا تھا۔ پانی کے ذخیرے ساری دنیا میں تیزی سے کم ہوتے جارہے ہیں آئندہ سو سال میں ہمیں پانی کے بغیر خوش دِلی کے ساتھ زندہ رہنا سیکھنا ہوگا اور نسلِ انسانی کو پانی کا کوئی متبادل ڈھونڈنا ہوگا۔ سوسائٹی کی انتظامیہ کمیٹی نے اپنا بورنگ الگ سے کروا رکھا تھا مگربورنگ کا پانی بہت کھارا تھا اوراُس میں کیلشیم، میکنیشم، سوڈیم اور پوٹیشیم کی مقدار خطرناک حد تک تھی۔ اس پانی میں ریت اور مٹّی کے ذرات بھی ملے ہوئے تھے جن کی وجہ سے پانی کا رنگ دھندلا اور مٹیالہ تھا۔ ظاہر ہے کہ اِس پانی کو پینا مشکل بھی تھا اورمُضر بھی۔ خاص طورسے گردوں اور پھیپھڑوں کے لیے۔ بورنگ کے پانی کو اُبال کریا چھان کر بلکہ آر۔او۔ کے ذریعہ بھی آلودگی دورنہیں کی جاسکتی تھی۔ یہ پانی صرف ٹوائلٹ اورکسی حد تک نہانے یا کپڑے دھونے میں ہی بحالتِ مجبوری استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اوپر سے طرّہ یہ کہ ہردوتین مہینے کے بعد بورنگ بند ہو جایا کرتا تھااورپھر نئے سرے سے کوئی دوسری جگہ تلاش کرکے وہاں کی زمین کو کھودنا پڑتا اور بورنگ کرانا پڑتا۔ مگرمحلے کے ذلیل اور نچلے طبقے کے لوگون کے درمیان رہنے سے کہیں بہتر تھا کہ ہر شریف آدمی کو اِس طرح کی نئی کالونیوں میں آکربس جانا چاہیے۔ یہاں اتنی روشنی تھی، اتنا سکون تھا اور بلند سماجی مرتبہ تھا۔ سب سے برھ کر یہ کہ یہاں شریفوں کے بچوں کو کھیلنے کے لیے اچھے اچھے پارک ہیں اور وہ اَب محلے کے گھٹیالوگوں کے بچوں کے ساتھ کھیل کر بگڑیں گے نہیں۔ اب رہا وہ زردغبار اور رہی وہ پیلی دُھند تو جہاں نئی تعمیر ہوتی ہے وہاں یہ غبار اور ملبہ ہونا لازمی ہے۔ اِس غبار کو دیکھا ہی کیوں جائے۔ زمین کھودی جارہی ہے۔ اُس میں گڈّھے کیے جارہے ہیں۔ چاروں طرف مٹی اُڑ رہی ہے یا پھر کوّے۔ اس غبار کو دیکھا ہی کیوں جائے اِن کوؤں کی کائیں کائیں سنی ہی کیوں جائے۔ آنکھوں پرکالا چشمہ لگا لیا جائے اورگھرسے نکلنے سے پہلے اورگھر پہنچنے کے بعد اچھی طرح مَل مَل کر نہا لیا جائے۔ بس اتنا ہی تو کرنا ہے۔ اپارٹمنٹ کے تقریباً تمام افراد مع بچوں کے کالا چشمہ لگا کر باہر نکلتے ہیں اور واپس آکر خوشبودار صابنوں سے غسل کرلیتے ہیں۔ ایک معیاری زندگی گزارنے کے لیے کیا یہ زیادہ ہے۔

[dropcap size=big]اُس[/dropcap]

نے بیوی کے ہاتھ سے سے لے کر چائے کا کپ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ بیوی نے جلدی جلدی اپنے ہاتھ کو اوپر نیچے کرنا شروع کردیا۔ یہ اُس کی مدتوں پُرانی عادت تھی۔ اُسے یہ وہم تھا کہ بار باراُس کا ہاتھ سُن ہو جاتا ہے۔ نہ تو میرے اندر خون بچا ہے۔ سارا خون جل گیا ہے اور نہ ہی کچھ اور وہ بڑبڑاتی۔ ویسے دیکھنے میں وہ ایک صحت مند اور طویل القامت عورت تھی جسے سطحی نظررکھنے والے خوبصورت بھی کہہ سکے ہیں اگرچہ عورت کو مرد سے زیادہ خوبصورت سمجھنا تمام جانداروں میں صرف انسانوں کا ہی حماقت آمیز فیصلہ ہے۔ عورت عقل مند اور طاقت ورتو ہے۔ بشرطیکہ طاقت کو اُس کے اصل مفہوم میں سمجھا جائے مگراُس کی خوبصورتی کے بارے میں ہمیشہ شک کیا جانا چاہیے کیونکہ وہ معاشرے کی تشکیل کرتی ہے اور سماج پر مردسے زیادہ حاوی ہے۔ چاہے لاکھ اس سماج کو مردوں کا سماج کہا جائے۔ کیا اس قسم کی کوئی بھی جابرشے خوبصورت ہوگی مگرعورت کا سماج پر حاوی ہونا انسان کی ننگی آنکھوں سے ہرگز نہیں دیکھا جاسکتا۔ اُس کی طاقت خون کی بال کی طرح باریک رگوں میں اپنا جال بنا کر معاشرے کی پوری ذہنیت کی ساخت کی تشکیل کرتی ہے۔ عورت کی طاقت کو اُس خوردبین کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے جس سے کسی جرثومے یا وائرس کو۔ کیڑے مکوڑے تک اس معاملے میں انسانوں سے زیادہ عقلمند ہیں بلکہ کہنا چاہیے کہ انسانی معاشرے کے نروں سے زیادہ سمجھ دار وہی ہیں۔ اس لیے عورت کے جسم کو حسین سمجھ لینا ایک اندھے حیوان تک کے لیے مشکل بات ہے۔ عورت کے جسم کا ہر حصہ اتنا زیادہ فاضل گوشت سے بھرا ہوا اور تھل تھل کرتا ہوا چربی زدہ ہے کہ یہی ایک بات اس امر کی گواہ ہے کہ یہ خوبصورتی نہیں ہے۔ عورتوں کے جسم کا رنگ بھی قدرتی طورپر اتنا چمکیلا نہیں جتنا کہ ایک مرد کے جسم کا ہوتا ہے۔ اسی لیے اُنھیں میک اپ کی ضرورت پڑتی ہے۔ نئی نویلی دلہن کو بغیر میک اپ کے زیادہ دن دیکھنے سے مرد کا دماغ خراب ہو سکتا ہے۔ دن میں، گھاس میں پڑا ہوا، سکڑا ہوا، پرڈالے ہوئے ایک بے سدھ نرپتنگا بھی اپنے رنگوں کے لحاظ سے رات کو اُڑنے والی مادہ پتنگے سے زیادہ چمکیلا ہے۔ مردتو صرف جنگ کے لیے پیدا ہوتے ہیں اوراب توجس طرح کی جنگ ہوتی ہے اس میں بھی مردوں کا کوئی خاص کام نہیں رہ گیا ہے۔ اب ان کا ایک ہی کام ہے کہ وہ عورتوں کے پیٹ میں اپنا بیج ڈالتے پھریں۔ ایک بد عقل آوارہ گھومتے ہوئے سانڈ کی طرح اوراس طرح انھیں اور بھی زیادہ مضبوط بناتے پھریں۔ اصل حاکم یقین مانیے کہ عورت ہی ہے۔ اُس نے یونہی کھڑے کھڑے چائے کا ایک گھونٹ لیا اور فوراً منھ سے اُسے باہر نکالتے ہوئے کلّی سی کرڈالی۔ چائے ہے یا زہر؟ وہ چلاّیا۔ میرے منہ پر ہی کلّی کردیتے نا۔ وہ زور زورسے اپنا ہاتھ اوپر نیچے کرنے لگی اوراُس کے بھورے بالوں کا جوڑا کھل کر بکھر گیاجس کی وجہ سے اُس کی ایک آنکھ ڈھک گئی۔ وہ اسی چہرے سے ڈرتا تھا جب بھی اُس کی ایک آنکھ ماتھے سے سرکے ہوئے بالوں سے ڈھک جاتی اور بس ایک آنکھ چہرے پر نظرآتی۔ اس ایک آنکھ میں ایک سرد اور خوفناک حکم تھا۔ دراصل یہی ایک اصل جابر حاکم کی آنکھ تھی۔ کسی دیو مالائی کردار کی غصہ ورآنکھ۔ اگراُس کے چہرے پر دونوں آنکھیں نظرآتی رہتیں تو وہ اس غضبناک چہرے کا مقابلہ کر بھی سکتا تھا مگرماتھے پر صرف ایک بڑی بھوری اورسرخی مائل آنکھ گھورتی نظرآتی ہے۔ تقریباً ایک شیطانی آنکھ جس پر کبھی گہائی تک نکلنے کی ہمت نہیں کرسکتی۔ وہ واقعی ڈرگیا۔ اُسے معلوم تھا کہ بُری نظر بھی ایک ہی آنکھ سے لگتی ہے اورجس آنکھ سے لگتی ہے اُس میں کبھی آنسو نہیں ہوتے۔ چائے کا کپ اُس نے ایک اسٹول پر پہلے ہی رکھ دیا تھا۔ اُس خشک آنکھ سے اپنی آنکھیں پھیرتے ہوئے غسل خانے میں جاکر اُس نے دروازہ اندر سے بند کرلیا۔ وہ شدید سے شدید گرمی میں بھی گرم پانی ہی سے نہاتا تھا۔ اُس نے سب سے پہلے گیزر کا سوئچ آن کیا۔ سوئچ آن کرنے پر ہلکا سا اسپارک کرتا تھا۔ گیزر کی لال بتی روشن ہوئی مگراُس لال بتی کا کوئی بھروسہ نہیں تھا۔ گیزر میں ایک عجیب خرابی پیدا ہو گئی تھی وہ کبھی گرم پانی دیتا تھا اور کبھی برف کی طرح ٹھنڈا۔ پوری سردیاں اسی طرح بیت گئیں۔ گرم پانی کی علامت اُس لال بتی کے نیچے وہ کانپتا اور ٹھٹھرتا رہا۔ درمیان میں کبھی کبھی گرم پانی کا ریلہ بھی آجاتا جیسے خواب میں کسی دوست کا چہرہ نظرآجائے۔ وہ اپنی مصروفیات کی بنا پر (اگرواقعی اُس کی کوئی مصروفیت تھی) اورکچھ اس یقین کی بنا پر کہ ایسی عجیب و غریب تکنیکی خرابیاں جلدی دور نہیں ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان کا ایک نادیدہ رشتہ انسانوں کے مقدر اور ستاروں کی گردش سے ہوتا ہے۔ یہ پُراسرار باتیں ہیں اور فی الحال وہ پُراسرار باتوں کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑا ہوا شیو کررہا تھا۔ یہ بھی ایک چٹخا ہو ا آئینہ تھا۔ چٹخے ہوئے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ دیکھ کر شیوکرنے کے دوران اکثراُس سے اندازے کی غلطی ہو جاتی۔ بلیڈ کہیں کا کہیں چل جاتا۔ چہرے پر لگے ہوئے صابن کے سفید گاڑھے جھاگوں میں خون کی لکیریں شامل ہو جاتیں۔ آئینے کا نہ بدلنا یقیناً اُسی کی لاپرواہی تھی مگروہ یہ نہیں جانتا تھا کہ آئینہ چاہے چٹخا ہوا نہ بھی ہو تب بھی ہر آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر آدمی کی آنکھیں ہمیشہ اندھیرے میں غلطاں ہوتی ہیں۔ وہ مستقبل کے بارے میں تو زیادہ ہی بے خبرہوجاتا ہے۔ صابن کے سفید جھاگوں سے اُس کا سانولا چہرہ اس طرح ڈھک گیا جیسے کسی گڈھے میں کالے اورسڑتے ہوئے پانی پر سفید ریت اور چونا ڈال کر وقتی طورپر ڈھک دیا جاتا ہے۔ اُس نے اس چہرے سے جھانکتی ہوئی آنکھوں سے اپنے دائیں ہاتھ پر نکلے ہوئے پھوڑے کے پرانے نشان کو دیکھا۔ وہ ہمیشہ شیو بناتے ہوئے اس زخم کے نشان کو دیکھتا۔ یہ نشان ہتھیلی کے بالکل نیچے کلائی پراُس جگہ واقع تھا جو گالوں پر ریزر چلاتے وقت بار بار نمایاں ہوجاتی تھی۔ اگریہ زخم اُس کے چہرے پر اپنا نشان چھوڑتا اور کسی پھوڑے کے باعث نہیں بلکہ چاقو یا تلوار کے کسی خطرناک وار کے نتیجے میں وجود میں آیا ہوتا تو کسی بھی عورت کے لیے اُس کی شخصیت میں سیکس اپیل بہت بڑھ جاتی۔ اُس نے شیو کرنے والےبُرش سے کلائی پرآئے ہوئے اس بھدے نشان پر صابن کے سفید جھاگ لگادیے، بالکل اُسی طرح جیسے دیوار پر اُبھرآئے ہوئے کسی بدنما سیلن کے دھبے پرسفیدی پوت دی جاتی ہے۔ غسل خانے کی کھڑکی کے باہر پھیلا ہوا پیلا غبار اُسی طرح ساکت و جامد موجود تھا۔ آج دفترپہنچ کر وہ اُن تصاویر سے کچھ نئے گوشے نکال کر مکانوں کے چند نقشے نمونے کے طورپر بنائے گا۔ جن کا البم کئی ہفتوں کی محنت کے بعد وہ حاصل کر پایا تھا۔ یہ قبرستانوں کی تصویریں تھیں اور شمشان گھاٹوں کی بھی۔ قبرستان میں جاجاکر طرح طرح کی پکی قبروں کی تصویریں جو اُس نے پوشیدہ طورپر اپنے کیمرے سے لی تھیں۔ کئی ہفتوں سے وہ شہر کے قبرستانوں کا چکر لگاتا پھررہا تھا۔ کبھی فاتحہ پڑھنے کے بہانے کبھی کسی عزیز یا دوست کی قبرتلاش کرنے کے بہانے اوراُن دنوں کسی کی تدفین تواُس نے چھوڑی ہی نہیں تھی کیونکہ قبرستان تک جانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔ قبرستانوں کے گرداب فصیل بندی کردی گئی ہے اوربے وجہ قبرستان میں گھومنے پھرنے والے کو شک کی نظرسے دیکھا جانے لگا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انسان بجّو جیسے قبرکھودو حیوان سے بھی بدتر ہوگئے ہیں۔ بجّو توپھر بھی اپنا پیٹ بھرنے کے لیے قبر کھود کر مُردے کھاتا ہے۔ مگرانسان تو قبروں سے لاشیں نکال نکال کر بیرونی ممالک کے میڈیکل کالجوں میں اسمگل کرنے لگے ہیں تاکہ ان کے اعضانکال کراُن پر نئے نئے تجربے کیے جاسکیں۔ تجربہ تو وہ بھی کرنا چاہتا تھا۔ وہ مکانوں کی تعمیر میں وہی رمز پیدا کرنا چاہتا تھا جو قبروں میں پایا جاتا ہے اور یہ یقیناً فنِ تعمیر میں ایک نیا اضافہ ہوگا سنجیدہ باوقار فکرانگیز اور روحانی بھی۔ آجکل اتنے اوٹ پٹانگ قسم کے نقشوں پر مبنی مکان تعمیر کیے جاتے ہیں اور اتنے بچکانہ، بھدے اورآنکھوں میں چبھنے والے تیز رنگوں کا استعمال کیا جاتا ہے کہ ان مکانوں میں رہ کر انسان صرف ڈپریشن کا شکار ہوسکتا ہے۔ یا ہسٹیریا کا یا پھر کابوسوں کے ایک کبھی نہ ختم ہونے والے سلسلے کا۔ انسانوں کو اگرحقیقی سکون اپنے گھر میں چاہیے تواُس کے بنائے ہوئے مکانوں کے ان نقشوں اور ڈیزائنوں میں ملے گا جو مختلف النوع قسم کی قبروں کی اسمبلاژ سے تیار کیے جائیں گے۔ انسانوں کی زندگی میں ہمیشہ موت کی ایک جھلک، ایک آہٹ ضرور شامل رہنی چاہیے۔ موت کو اپنے گھروں کی دیواروں سے بے دخل نہیں کرنا چاہیے۔ ہم اپنے پاس نئے اور پرانے نوٹ ایک ساتھ جمع کرکے رکھتے ہیں پھرایک دن آتا ہے جب پرانے نوٹ ایک ساتھ جمع کرکے رکھتے ہیں پھرایک دن آتا ہے جب پرانے نوٹ واپس لے لیے جاتے ہیں اور نئی سیریز کے نوٹ بازار میں داخل کردیے جاتے ہیں۔ لوگ نہ مرتے مرتے تھکتے ہیں اور نہ پیدا ہوتے ہوتے اسی لیے گھروں میں دونوں رنگ شامل ہونا چاہئیں۔ زندگی اور موت کی ایک جُگل بندی۔ وہ جب بھی قبرستان سے باہر آتا موت کا کوئی چیتھڑا اُس کے جوتے کے تَلے میں چپک کر اُس کے ساتھ باہر آجاتا۔ وہ اُسے اپنے پیروں کے تلوؤں میں صاف اور واضح طورپر محسوس کرتا۔ اُس کی ٹھنڈک کو، اُس کی اُداسی کو اور اُس کےرمز کو یا اسرار کو۔ اسرار توکسی بھی قسم کا ہو اُسے جانا نہیں جاسکتا صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اُسے یہ احساس تھا کہ اُس کی بیوی بھی ایک اسرار ہے بلکہ یہ شادی بھی ایک اسرار ہی تھی جو کیوں ہوئی۔ اُس کی کوئی خاص وجہ آج تک سمجھ میں نہیں آئی ہے۔ بس اتنا ضرور تھا کہ اُن دنوں شادی سے کچھ ماہ پہلے اُس کی جنسی خواہش ناقابلِ یقین حد تک بڑھ گئی تھی۔ اُسے ایک ہی رات میں کئی کئی بار احتلام ہوجایا کرتا تھا۔ اُسے احتلام سے ہمیشہ سے ہی بہت ڈرلگتا تھا کیونکہ خواب میں نکیلے اور لمبے دانتوں والی چڑیلیں پاؤں میں پائل باندھے چھن چھن چھن کرتی ہوئی اُس کے جسم کا سارا خون پی جانے کے لیے اُس کی چھاتی پر آکر سوار ہو جاتیں۔ اُسے لگتا جیسے وہ پیلا پڑنے لگا ہے۔ اِس لیے اب یہی ایک شریفانہ حل رہ گیا تھا اور وہی اُس نے تلاش کرلیا۔ دوستوں سے کہہ کہلا کر ایک رشتہ طے کیا اورایک عورت کو گھرمیں لے آیا۔ عورت جس کے کہنے کے مطابق خود اُس کے اپنے جسم میں بھی خون جل گیاتھا مگرپھر بھی وہ ایک صحت مند عورت تھی اورحکم چلانے کا مادہ رکھتی تھی۔ بیوی نے کچن میں جا کر انڈے تلاش کرنا شروع کردیے۔ وہ ہمیشہ انڈے کہیں رکھ کر بھول جاتی تھی۔ فریج میں انڈے رکھنے کے وہ سخت خلاف تھی۔ اُس کا خیال تھا کہ فریج کی ٹھنڈک سے انڈوں کی زردی جم جاتی ہے اوراُسے کسی بھی جمی ہوئی چیز کو پگھلانا سخت ناپسند تھا۔ پگھلنے کا منظر اُسے کر یہہ نظر آتا تھا۔ وہ تو پگھلتا ہوا مکھن، گھی اور یہاں تک کہ برف کو بھی پگھلتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھی، اسی لیے اُس نے پاورکٹ کے زمانے میں اپنے گھر میں آج تک موم بتی نہیں جلائی۔ یہ اتفاق نہیں تھا کہ اپنے شوہر کے کہیں بھی ہاتھ لگانے سے،چھو لینے سے یا بوسہ لینے کی رسمی اوراخلاقی کوشش سے بھی وہ نہیں پگھلی۔ اُس کے جسم میں رقیق مادوں اور پانی کی بہت کمی تھی۔ اُس کے ہونٹ بھی خشک رہتے تھے اور آنکھیں بھی۔ دل کا پتہ نہیں، دل کا پگھلنا تو محض محاورہ ہے۔ اب یہ تو بالکل صاف ہے کہ اُن دونوں میں محبت نہیں تھی اور اگرہوتی بھی تو کیا۔ محبت اور نفرت دو ایسی ندیوں کی مانند ہیں جو تھوڑا سافاصلہ برقرار رکھتے ہوئے برابر برابر چلتی ہیں، مگرکبھی کسی شہر یا گاؤں میں پہنچ کر الگ الگ سمتوں میں نکل جاتی ہیں۔ چکر کاٹتی ہیں، بل کھاتی ہیں، کبھی تو سانپ کی طرح پھر بہت دور کہیں آگے جاکر کوئی ایسا مقام ضرور آتا ہے جہاں دونوں ایک دوسرے میں مدغم ہوجاتی ہیں۔ پھر جو پانی آگے بڑھتا ہے اُس میں سوائے تکلیف، حسدو جلن اوراوچھے پن کے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ آگے بڑھتا ہوا پانی محبت اور نفرت دونوں سے زیادہ کمینے اورخطرناک سمندر میں جا کر گرجاتا ہے۔

جہاں تک ان دونوں کے یہاں بچوں کے نہ ہونے کا سوال ہے تو اس کا ذمہ داراپنے شوہر اوراُس کی معاشی مجبوریوں کو ٹھہرانا ایک غلط الزام تھا۔ وہ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کے جسم میں ایک بھیانک خشکی تھی۔ یوں تو وہ ماں بننا چاہتی تھی مگراِسے کیا کیا جائے کہ شوہر سے مباشرت کے وقت(اگراِسے مباشرت کہا جا سکتا ہو) بغیر کسی محبت اور خواہش کے ساتھ سوکھے ہوئے ہونٹ، لعاب سے یکسر خالی منھ، زبان اورخشک اندام نہانی کے ساتھ لیٹے رہنا داصل ریپ کے عمل سے بھی زیادہ گھناؤنا اور بدتر تھا۔ اگرایسی صورتِ حال میں اتفاق سے اُس کی کوکھ میں کسی بچے کا بیچ پڑ بھی جاتا تو وہ ایک بدنصیب اور بِن بُلائی جان ہی ہوتی۔ وہ خود بھی برف کی ایک جمی ہوئی چٹان تھی۔ اُسے اپنے آپ سے بھی چڑتھی اواپنے آپ کو پگھلتے ہوئے دیکھنے سے تواُس سے بھی زیادہ۔ جہاں تک خواہش کا سوال ہے تو وہ جسم کی ایک بڑی غلط فہمی ہے۔ وقت کا ایک ذرا سا پانسہ پلٹنے پر، جسم کے اندر بہنے والے کیمیائی مادوں کی معمولی سی غداری سے ہی وہ کینہ پرور، مذاق اُڑاتی ہوئی کٹنی روشنی پیدا ہو جاتی ہے جس میں محبت، نفرت، خواہش اورمامتا سب ایک ساتھ کسی جادوئی طاقت کے زیرِ اثر سرکے بَل کھڑے نظرآتے ہیں اس لیے اصل بات جو بغیر کسی اخلاقی فراڈ کے اور لاگ لپٹ کے، کہی جا سکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ مراد اپنے، تقریباً ہروقت ایستادہ عضوِ تناسل سے عاجز تھا اورعورت اپنی سوکھی ہوئی معذور اندامِ نہانی سے۔

ٹھیک اُسی لمحے میں بجلی چلی گئی۔ جب اُس نے فرائی پان میں انڈے توڑے، گرم گرم تیل میں ایک ناگوار آواز کے ساتھ زردی اور سفیدی دونوں اپنی اپنی الگ دنیا میں سکڑتی جا رہی تھیں۔ آج کل صبح صبح بھی جانے لگی ہے۔ وہ بڑبڑائی۔ گرمی بڑھ رہی ہے، بجلی جانے کا سب سے بڑا نقصان تو یہی ہے کہ پسینہ آئے گا۔ اندھیرا تو برداشت کرہی لیا جاتا ہے۔ روشنی کوئی اتنی اچھی چیز بھی نہیں مگرپسینے میں جسم پگھل پگھل کر بہتا ہے۔ جسم اپنے کناروں سے باہر آنے لگتا ہے۔ نمکین گندے رقیق مادے کی شکل میں اوربدبودار پانی کی شکل میں۔ بجلی کیوں چلی گئی؟ اتنی دیر میں بجلی آگئی۔ لابی میں لگے ہوئے چھت کے پنکھے کے پَر ابھی پوری طرح گھوم بھی نہ پائے تھے کہ بجلی پھر چلی گئی۔ اُس نے بجلی کو کوسنا شروع کردیا اوراپنے ہاتھ کو اوپر نیچے کرنا بھی۔ مگربجلی کو کوسنے سے بہتر تھا کہ اپنے مقدر کو کوس لیا جائے۔ بجلی کی اپنی ایک الگ شخصیت ہے جیسے پانی کی۔ اُس کے اپنے اُصول ہیں اوراپنی اخلاقیات۔

 

پیار محبت
غم غصہ
رونے اور شہوت میں
وہ پیدا ہوتی ہے
پانی سے اُس کی عظیم دوستی کی
مچھلیاں قسمیں کھاتی ہیں
مچھلیاں جو اپنی دُم کے/آخری حصے میں اُسے سلا کررکھتی ہیں
شارک نے اُس کے جھٹکے کو محسوس کیا اور شِو کے تانڈوجیسا رقص دیکھا
پانی میں رقص
اس رقص کے کوئی معنی نہ تھے
اس رقص میں لفظ نہ تھے
نصاب کی کتابیں کبھی کافی نہیں ہوتیں
ربڑ کے دستانے پہن کر
لکڑی پر پیر یا ہاتھ جما لینے سے
ہم اُس سے آزاد نہیں ہو سکتے
اُس میں ایک رمز ہے
جو اس نظم میں نہیں
خالد جاوید

Tell me when the storm is over
When all the lights are down and the sound of
Thunder claps
Bringing silence than a flash
Only the electricity brings light
Shooting from the sky
Brings a new life to the ground
Killing everything around
The smell of dirt and brunt tissue forming dust and smoked death
Azzy writes

[dropcap size=big]کیا[/dropcap]

صابن سڑرہا ہے؟ اُس نے غسل خانے میں بہت ہی عجیب سی ناگوار بُو محسوس کرتے ہوئے سوچا۔ گیزر کی ٹونٹی کے نیچے بالٹی پانی سے آہستہ آہستہ بھر رہی تھی۔ بجلی چلی گئی تھی۔ بس کھڑکی کے شیشے سے پیلا غبار اپنا عکس پانی پر ڈال رہا تھا۔ اُس نے بالٹی کے پانی میں جھانکا۔ پانی زرد نظرآیا۔ باہر پھیلے ہوئے اُس حبس زدہ غبار کو دل ہی دل میں برا بھلا کہتے ہوئے اُس نے بالٹی کے پانی سے مگ بھرکر اپنے سرپر انڈیلا۔ پانی پہلے اُس کی آنکھوں میں داخل ہوا پھر وہاں سے بہتا ہوا ناک کے نتھنوں میں اوراُس کے بعد اُس کے کی گنجی اور چکنی کھوپڑی سے پھسلتا ہوا کنپٹیوں اورکانوں کے درمیان ایک پَل کو رُکتا ہوا بہت تیزی کے ساتھ دونوں کانوں کے اندر چلا گیا۔ اُس کے تازہ تازہ شیو کیے ہوئے چہرے پر سے پھسلا اور ہونٹوں کے کناروں کو گیلا کردیا۔ اُس نے ایک سانس منھ کھول کر لی تو کچھ بوندیں منھ کے اندر پہنچ گئیں۔ پانی اب گردن سے بہتا ہوا، اُس کے کندھوں، پیٹ اور پیٹھ تک آکررُک گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ دوسرا مگ بھرپتا، اُس نے اپنے منھ، چہرے، آنکھیں، ناک، کان اوریہاں تک کہ اپنے دماغ کو بھی بھیانک بدبو کی یلغار اورنرغے میں پایا۔ اُس کے منھ میں تو جیسے کھارا پیشاب بھرا جارہا تھا۔ اُس کا جی بری طرح متلایا۔ معدے میں اُلٹیوں کا اوراُبکائیوں کا ایک طوفان باہر نکلنے کو بے چین تھا۔ جسے روکتے ہوئے اُس نے مگ کو دور دیوار پر دے مارا اور بہت زور سے چیخا۔ یہ کیسا پانی ہے، دروازہ کھولو۔ بیوی نے ایک بار میں نہیں سنا اُسے پسینہ آرہا تھا۔ وہ پسینے سے پریشان تھی۔ اُس نے نہیں سُنا۔ دروازہ کھولو سُور کی بچی، کھول دروازہ۔ غصے نے اُسے دنیا کا سب سے بہادر مرد بنا دیا۔ خود کیوں نہیں کھولتا کتے، دروازہ تونے اندر سے بند کیا ہے۔ عورت دہاڑی۔ وہ دروازہ کھولتا ہے اورغصے میں حواس باختہ ہوکر ننگا ہی باہر آجاتا ہے۔ اُس کے بدن سے پھوٹنے والی بدبو لابی میں بھر گئی ہے۔ وہ اُس کےسامنے تن کر کھڑی ہے۔ اندرجاؤ، بے حیا، بے شرم، عورت چیختی ہے۔ تونے پانی نہیں دیکھا کتیا۔ صبح سے پڑی پھنّا رہی ہے۔ تو نے پیشاب اورپاخانے کی چائے مجھے پلادی۔ دیکھا نہیں پانی میں کیا ملا ہوا تھا، سُور کی بچی۔ اندر جا بے حیا، باپ کو گالی مت دے ننگے۔ ننگا ہوکر اور ذلیل لگ رہا ہے تُو اور تیرا یہ۔ عورت پوری طاقت سے چلاتی ہے۔ اُس کے سرکے بال کھل گئے ہیں جن سے اُس کی ایک آنکھ ڈھک گئی ہے مگراب وہ اس چہرے سے نہیں ڈرا۔ وہ غصے میں اپنی پرانی ہستی کھو چکا ہے۔ ابھی پوچھتا ہوں تجھ سے، آج تو نہیں بچے گی میرے ہاتھ سے ماری جائے گی۔ وہ پاگل کی طرح بڑ بڑاتا ہوا دوبارہ غسل خانے میں جا رہا ہے۔ شاید تولیہ باندھنے۔ عورت اُس سے بھی زیادہ پاگل ہوتی ہوئی اُس کے پیچھے پیچھے غسل خانے میں گھس آتی ہے، کسی بَلا یا وَبا کی طرح۔ کیا کرے گا، مار ڈالے گا، کیا پوچھے گا بھڑوے کی اولاد۔ وہ بے لباس، گیلا اور بدبودار اُس کےسامنے کھڑا غیظ و غضب سے کانپ رہا ہے۔اُس کا ہاتھ اوپر اٹھتا ہے۔ وہ عورت کو پوری طاقت کے ساتھ پیچھے کی طرف دھکا دیتا ہے۔ وہ تھوڑا سا پیچھے کی طرف جھکتی ہے اورپھر سنبھل کر جواباً اُس کی گردن پکڑ کر دیوار کی طرف دھکیلتی ہے۔ گیزر کے بالکل نیچے۔ اچانک بجلی آجاتی ہے، گیزرکی لال بتی روشن ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو گرنے سے بچانے کے لیے وہ کسی چیز کا سہارا لینا چاہتا ہے۔ وہ دیوار پر لگے ہوئے بجلی کے ساکٹ کو تھام لیتا ہے۔ ایک دھماکہ، روشنی کا ایک جھماکہ، شارٹ سرکٹ۔ ایک زوردار جھٹکا کھاتے ہوئے اُس کا مادرزاد برہنہ جسم کسی وزنی پتھر کی مانند لڑھکتا ہوا بالٹی سے ٹکراتا ہے۔ بالٹی اُلٹ گئی، گندے بدبودار پانی سے اُس کے جسم کا نچلا حصہ ترہوگیا ہے۔ اُس کے دانت پہلے کٹکٹاتے ہیں، پھر بھنچ جاتے ہیں۔ منھ ٹیڑھا ہوکر نیلا پڑنے لگا ہے۔ نیلاہٹ آہستہ آہستہ سارے جسم میں رینگ رہی ہے۔ چند لمحوں تک کے لیے اُس کا نیلا جسم کسی عامیانہ قسم کے آلہ موسیقی کی طرح جھنجھناتا ہے۔ پھر بے جان ہوجاتا ہے۔ غسل خانے میں اب ایک بُو اوربھی آکر شامل ہوجاتی ہے، یہ موت کی بُو ہے۔ چند کھیتوں بعد یا زیادہ سے زیادہ ایک دن کے بعد، اُس کے کمرے میں الماری کے نیچے رکھے ہوئے اُس کے جوتوں کے تلوں میں چپکی ہوئی موت واپس قبرستان کی طرف رینگ جائے گی۔ موت کا یہ محبوب مشغلہ ہے، گھرسے قبرستان۔ قبرستان سے گھر۔

ساڑھے دس بجے عورت پولیس اسٹیشن فون کرتی ہے۔ پونے گیارہ بجے ایک پولیس انسپکٹر دو سپاہیوں کے ساتھ اندر داخل ہوتا ہے۔ لاش کہاں ہے؟ باتھ روم میں۔ انسپکٹر سپاہیوں کے ساتھ باتھ روم کے اندر جاتا ہے پھر ناک پر رومال رکھ کر واپس آتا ہے۔ حادثہ کیسے ہوا؟ انسپکٹر پوچھتا ہے۔ پتہ نہیں۔ عورت جواب دیتی ہے۔ پولیس اور کھلا دروازہ دیکھ کر چند پڑوسی اندرآگئے ہیں۔ دونوں میں روز جھگڑا ہوتا تھا۔ ہمارا جینا حرام کررکھا تھا۔ ایک کہتا ہے۔ شاید وہ مارا گیا۔ دوسرا کہتا ہے۔ انسپکٹر رک کر عورت سے پوچھتا ہے۔ یہ قتل ہے؟ معلوم نہیں۔ عورت جواب دیتی ہے۔ سچ سچ بتاؤ، تم نے قتل کیا ہے۔ تمہیں گرفتار کیا جارہا ہے۔ انسپکٹر کہتا ہے۔ نہیں، ہاں۔ عورت انسپکٹر کی آنکھوں میں اپنی ایک کھلی ہوئی آنکھ ڈالتے ہوئے کہتی ہے۔ اُس کے سر کےبال ماتھے پرابھی بھی لٹکے ہوئے ہیں اورایک آنکھ اِن بالوں سے بری طرح ڈھک گئی ہے۔ وہ اپنے ایک ہاتھ کو بار بار اوپر نیچے کررہی ہے۔ انسپکٹراُس کی کھلی ہوئی آنکھ کو غورسے دیکھتا ہے۔ وہ حیرت انگیز حد تک خشک ہے۔ مگراُس میں ایک بے حس سی چمک ہے جو محبت اور نفرت دونوں کے دائمی فقدان سے پیدا ہوتی ہے۔ جواب دو۔ انسپکٹر گرجتا ہے۔ ہاں وہ مارا گیا۔ اُسی چکر میں۔ عورت بڑ بڑاتی ہے۔ کس چکر میں؟ انسپکٹر چوکنا ہوکر دلچسپی سے سوال کرتا ہے۔ پانی کے چکر میں۔ وہ پانی کے چکر میں مارا گیا۔ عورت اپنے بال ماتھے سے ہٹاتی ہے اوراب دونوں آنکھوں سے انسپکٹر کو دیکھتے ہوئے اطمینان کے ساتھ جواب دیتی ہے۔

[dropcap size=small]لائف[/dropcap]

اپارٹمنٹس کے ہرگھر میں اب گندا اور بدبودار پانی آرہا تھا۔ تین دن گزر چکے تھے۔ انھوں نے پینے کا پانی نہانے اور ٹوائلٹ کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔ مگرپینے کے پانی کا ایک وقت مقرر تھا اور وہ بہت کم مقدار میں آتا تھا۔ تین ہی دنوں میں وہ سخت بیمار پڑگئے۔ بیمارہونے والوں میں زیادہ تعداد بچوں کی تھی۔ انھیں دست آنے لگے جن میں خون ملا ہوا تھا۔ اُن کے پیت میں اینٹھن اور مروڑ رہنے لگی۔ پھرانھیں بے تحاشہ خون میں ملی ہوئی اُلٹیاں شروع ہو گئیں۔ اُنھیں تیز بخار رہنے لگا۔ یہاں سے آدھے کلو میٹر کی دوری پر ایک نرسنگ ہوم تھا۔ جب اُس میں مزید مریضوں کے لیے کوئی بیڈ خالی نہیں رہا تو وہ شہر کے دوسرے اسپتالوں کی طرف بھاگنے لگے۔ مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ بورنگ والے گندے پانی کی سپلائی روک دی گئی۔ کچھ لوگ سوسائٹی چھوڑ کر اپنے رشتہ داروں یا احباب کے یہاں منتقل ہوگئے۔ یا کسی دوسری جگہ ضروری سامان ساتھ میں رکھ کر کرایہ پر رہنے لگے۔ ماہ کی آخری تاریخ تھی جب اس بیماری میں مبتلا ایک آٹھ سالہ بچے کی موت ہو گئی۔ کسی بھی پھیلنے والی بیماری میں پہلی موت کی ہی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ جس طرح پہلی محبت کی۔ اُس کے بعد تو سب عمومی بن کر رہ جاتا ہے۔ مریضوں کے لواحقین اوراسپتال کے عملے کے بیچ جھگڑا شروع ہوگیا۔ سب کا خیال تھا کہ محض اسپتال والوں کی لاپرواہی کی وجہ سے بچے کی جان گئی ہے ورنہ کالراسے آج کے زمانے میں کوئی نہیں مرتا۔

مگرکیا یہ واقعی وہی تھا؟ یعنی محض کالراجس سے اب کوئی نہیں مرتا۔ ضلع سرکاری اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے سامنے ایک طویل راہداری میں کھڑے ہوئے لمبی ناک والے اور ایک پیشہ ورمکے باز کا سا چہرہ رکھنےو الے نوجوان ڈاکٹر نے کہا، اُلٹیاں ہو رہی ہیں، کھال سوکھ رہی ہے، رگ پٹھے سکڑ رہے ہیں۔ ہاتھوں اورپیروں پر جھریاں پڑرہی ہیں۔ دست رُک نہیں رہے ہیں، بخار اُتر نہیں رہا ہے۔ آنکھوں سے چمک غائب ہو رہی ہے۔ یقیناً یہ علامات کالرا کی ہیں یا بگڑی ہوئی پیچش کی مگراینتی بائیوٹک دوائیں اثر نہیں دکھا رہی ہیں۔ سیلائن اور گلوکوز چڑھانے پر بھی جسموں میں پانی کی مقدار بڑھ نہیں پارہی ہے۔ ایک ہزار ملی گرام پیراسیٹامول دینے پر بھی بخار ایک ڈگری بھی نیچے آرہا ہے۔ مریض کے جسم کے دوسرے ضروری اعضا گردے، جگر، پھیپھڑے اوردل آہستہ آہستہ اپنا کام چھوڑ رہے ہیں۔ کالراجراثیمی بیماری ہے مگرمریضوں کے خون کی جانچ میں کسی جراثیم کا سراغ بھی نہیں مل رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ وائرس سے پھیلنے والی پیٹ کی بیماری میں اس طرح کے دست نہیں آتے اور نہ ہی مریض کا جسم اس حد تک پیلا پڑجاتا ہے۔ مگرممکن ہے کہ یہ کسی نئے وائرس سے پھیلنے والی بیماری ہو۔ اس پر تحقیق شروع ہو چکی ہے۔ مگریاد رکھئے جو بھی ہو رہا ہے وہ اُس پانی کے استعمال کی وجہ سے ہورہا ہے۔ جس میں سیورلائن کا گندا پانی آکر مل گیا ہے۔ اب ہمیں کرنا یہ ہے کہ کسی مریض کو بغیر دستانے پہنے چھونا نہیں ہے۔ مریض کے گندے کپڑوں کو جلانا ہے اوراس کے فضلے کو بھی۔ جی جی، ہم اپنا کام کررہے ہیں۔ آپ یہ کیمرہ تھوڑا مجھ سے دور رکھئے۔ جی، اب بالکل ٹھیک ہے۔ جی تو آپ لوگ بھی اپنا کام کیجئے۔ اب میرے پاس اورکسی سوال کا جواب نہیں ہے۔ آپ لوگ چیف میڈیکل آفیسر سے بات کرسکتے ہیں۔ سی۔ایم۔او۔، جی ہاں سی۔ ایم۔او۔ صاحب سے۔ وجہ؟ میں نے بتایا نا کہ وجہ صرف گندا پانی ہے۔ پانی سے آپ لوگوں کو معلوم نہیں کہ کتنی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ مثلاً معیادی بخار تک۔ بہت سی بیماریوں کے بارے میں ابھی پتہ نہیں۔ یہ کیمرہ تھوڑا، اوراِدھر اُدھر پیچھے کر لیجئے۔ شکریہ، جی اب ٹھیک ہے۔ لیکن پانی کی سپلائی روک دینے کے بعد بھی کیس لگاتار بڑھ رہے ہیں۔ ایک رپورٹر نے پوچھا۔ وائرس نہیں مرتا۔ ڈاکٹر نے جواب دیا۔ سوکھی ہوئی سطح پر عام وائرس ایک گھنٹہ فعال رہ سکتا ہے اور گیلی سطحوں یا پانی میں تو لگاتار اپنی نسل بڑھاتا رہتا ہے۔ باتھ روم کی ٹونٹیوں، بالٹیوں، مگوں سے بہت ہوشیار رہنا ہے۔ استعمال شدہ صابنوں کو پھینک دیجیے، باتھ روم کی دیواروں اورفرش کو ہاتھ نہیں لگانا ہے۔ ایسی جگہوں پر تو وہ بارہ بارہ گھنٹے تک فعال رہ سکتا ہے۔ پانی سے بہت بچنا ہے، بہت ہوشیار رہنا ہے۔ آپ لوگ تو باتھ روم جانا ہی بند کردیجئے۔

باتھ روم جانا بند کردیں؟ اس کا کیا مطلب ہوا۔ کیمرہ مین کے برابر میں کھڑی ہوئی چشمہ لگائے ایک جاذب النظر لڑکی نے سوال کیا۔ لڑکی ٹی۔ وی۔ کے کسی چینل کی رپورٹر معلوم ہوتی تھی۔ وہی مطلب ہوا جو آپ سمجھ رہی ہیں۔ ڈاکٹر نے جواب دیا۔ تو کیا جنگل میں فارغ ہونا پڑے گا۔ لڑکی بولی، اُس کے ہاتھ میں مائیک تھا جو اُس نے ڈاکٹر کی طرف برھا دیا۔ یہ۔۔۔۔۔۔یہ میں نہیں جانتا۔ ڈاکٹر نے لاپرواہی سے اپنے کندھے اُچکانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ اُس صورت میں خواتین کا کیا ہوگا۔ ان کالونیوں کے آس پاس اب ایسے جنگل یا زمینیں نہیں بچی ہیں جہاں خواتین اپنی شرم و حیا کو برقرار رکھتے ہوئے فارغ ہو سکیں اوراپنی عزت و عصمت بھی برقرار رکھ سکیں۔ کیا آپ کے خیال میں یہ ممکن ہے؟ لڑکی نے پیشہ ورانہ انداز میں تیزی کے ساتھ جملے اداکیے جس کی وجہ سے اُس کی آنکھوں کی چمک اڑگئی۔ اور کیسے؟ دیکھئے ہمارا کام صرف مریضوں کا علاج کرنا ہے۔ ہم اس صنفی ڈسکورس میں پڑکراپنا وقت کیسے برباد کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر نے جواب دیا۔ مگرآپ ایک ذمہ دار شہری بھی ہیں اور دانشور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے کہ کیا ایسی بیماری سے خواتین کی ذہنی اور معاشرتی زندگی پر منفی اثرات پرنے کا خدشہ ہے۔ لڑکی نے اپنا سنہری فریم کا چشمہ اُتارا اوراپنی آنکھوں کو رومال سے صاف کرتے ہوئے پوچھا۔ لڑکی کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔ اُس کے چشمے سے بھی زیادہ خوبصورت۔ ڈاکٹرایک پَل کو اُس کی آنکھوں میں دیکھتا ہی رہ گیا۔ پھر کہا، مردوں کے لیے بھی شرم و حیا اُتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ خواتین کے لیے۔ کیا آپ واقعی اس پر یقین رکھتے ہیں؟ آپ نے جرنلزم کا کورس کب مکمل کیا؟ اچھا ابھی ایک ماہ پہلے ہی، ویری گُڈ۔ کِس انسٹی ٹیوٹ سے؟ اوہ اچھا، وہ تو بہت اچھا انسٹی ٹیوٹ ہے۔ دیکھئے میں لگاتار آپ سے گزارش کیے جارہا ہوں کہ اپنے کیمرے مجھ سے دور رکھئے۔ جی براہِ کرم مجھے کیمرے سے وحشت ہوتی ہے۔ آپ مجھ سے خالی وقت میں میرے کمرے میں آکر مل سکتی ہیں۔ ڈاکٹر نے لڑکی کی طرف مسکراتے ہوئے کہا اور لڑکی نے مسکراتے ہوئے اپنے وینٹی بیگ سے سفید رنگ کا وِزیٹنگ کارڈ نکالا اورڈاکٹر کے ہاتھ میں تھمادیا۔

[dropcap size=big]لائف[/dropcap]

اپارٹمنٹس کے فلیٹ آدھے سے زیادہ خالی ہوچکےے تھے۔ چالیس مریض جو شہر کے مختلف اسپتالوں میں بھرتی تھے اُن میں سے صرف پندرہ مریض ہی جانبرہوسکےہیں۔ ضلع کے حکام اورانتظامہ کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ تھا۔ جگہ جگہ اعلیٰ افسران کی میٹنگیں ہونے لگیں۔ مقامی سطح کے سیاست دان بھی فعال ہو گئے اور مخالف پارٹیوں پر خطرناک سازش کا الزام دھرنے لگے۔ وہ بلڈر بھی اُن کی زد میں آگیا جس نے لائف اپارٹمنٹس کی سوسائٹی کے لیے فلیٹ تعمیر کروائے تھے۔ اس بلڈر کی ایک مخصوص سیاسی پارٹی کے ساتھ سانٹھ گانٹھ تھی۔ یہ مخصوص پارٹی کچھ ماہ پہلے ہی اقتدار کی کرسی سے نیچے آئی تھی اس لیے بلڈر پر مقدمہ چلوانے کے مطالبے اور اپیلیں ہونی شروع ہو گئیں۔ میونسپل کارپوریشن کےدفتر میں بے چارے بلڈر کو طلب کیا گیا۔میٹنگ میں ضلع مجسٹریٹ اور میئر کے علاوہ دوسرے کئی اعلیٰ افسران شامل تھے۔ علاقے کا کارپوریٹر بھی موجود تھا۔ سوال یہ ہے کہ سوسائٹی میں پانی فراہم کرنے کے لیے آپ نے کس کمپنی کو ٹھیکہ دیا تھا۔ ضلع مجسٹریٹ نے سوال کیا۔ وہ ایک نوجوان آئی۔اے۔ایس آفیسر تھا، ٹرینگ کے بعد اس کی پہلی پوسٹنگ اسی شہر میں ہوئی تھی، وہ سفیدبے داغ قمیض اور فاختئی رنگ کی پتلون میں ملبوس تھا، اس کی آنکھیں الو کی طرح گول گول تھیں جن پراس نے گول شیشوں والی عینک لگا رکھی تھی۔ فی الحال اس کےسرخ و سپید چہرے پر چالاک قسم کی ایمانداری کی چکنائی تھی مگرجلد ہی وہ ایمانداری کے اس روغن کو اپنے خشک چہرے پر لگانا چھوڑدے گا۔ کسی کمپنی کو نہیں جناب۔ پانی فراہم کرنے کے لیے کسی کمپنی کو ٹھیکہ نہیں دیا جاتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ پینے کے پانی کے لیے جل نگم میں عرضی دینا کافی ہوتا ہے۔ جل نگم کی فیس ادا کردی جاتی ہے اور نگم وہاں اپنی پائپ لائن بچھا دیتا ہے۔ بلڈر نے ادب کے ساتھ جواب دیا۔ ٹھیک ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ وہاں پینے پانی بھی آلودہ ہوچکا ہے۔ وہ پیلا اور بدبودار ہے۔ اُس میں انسان کے پیٹ سے نکلا ہوا فضلہ موجود ہے۔ ضلع مجسٹریٹ نے بلڈر کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا، نہیں جناب! مجھے اس بارے میں علم نہیں۔ آپ کو کس بارے میں علم ہے؟ بلڈر نے خاموشی کے ساتھ سرجھکا لیا، اسے پہلی بارکسی سرکاری میٹنگ میں شرکت کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا اس لیے اس نے اپنی کالی قمیض کے کالر میں تیز نیلے رنگ کی ٹائی بھی لگا رکھی تھی۔ ٹائی کی گرہ اتنے کامل طریقے سے باندھی گئی تھی کہ اس کے ایک چھوٹے بندر جیسے چہرے کو مضحکہ خیز بنا رہی تھی۔ کاملیت میں حماقت کا یک پہلو ہمیشہ نمایاں رہتا ہے خاص طورپر جب آدمی بلڈر کی طرح جوانی کے دورسے باہر نکل گیا ہو۔ سیورلائن بچھانے کا کام کس شعبہ کا ہے؟ میونسپل کارپوریشن کے چیف انجینئر نے ہاتھ اٹھایا اور کہا، ہمارا شعبہ اس ذمہ داری کو نبھاتا ہے۔ یہ کام آپ کی نگرانی میں ہوا تھا؟ جی جناب، مگرہم بعض معاملات میں پی۔ ڈبلیو۔ ڈی۔ والوں سے بھی مشورہ کرتے ہیں کیونکہ وہ لوگ سڑکیں وغیرہ بنواتے رہتے ہیں اورسڑک کے نیچے ہی نالیوں کے پاس تھوڑا اوپر کی طرف سیورلائن بھی ڈالی جاتی ہے۔ چیف انجینئر نے اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔ مگرشاید ضلع مجسٹریٹ کو اُس کا یہ پُراعتماد لہجہ اچھا نہیں لگا کیونکہ وہ آئی۔ اے۔ ایس۔ تھا۔ ضلع مجسٹریٹ نے برا سا منھ بنایا اور کہا یہ آپ مجھے مت بتائیں ہم لوگوں کو سب پڑھایا جاتا ہے۔ انجینئرنگ سے لے کر شاعری تک۔ یس سر، ساری۔ میرا مطلب تھا کہ۔ P.W.D والوں کا بھی اس کام میں رول رہتا ہے۔ چیفف انجینئر نے اپنی غلطی سدھارتے ہوئے کہا۔ آپ کے خیال میں پینے کے پانی میں یہ گندگی کیوں آرہی ہے؟ سر، ہمارا خیال ہے، یہ سیورلائن کا پائپ کہیں کریک ہوگیا ہے یا کسی جنکشن پر لیک ہوررہا ہے۔ زمین کھودکھود کر دیکھنا پڑے گا کہ کہاں خرابی پیدا ہوئی ہے۔ اچھا۔ ہوں، اب یہ بتائیے کہ آپ لوگ سیور کے پائپوں کی فراہمی کے لیے کس کمپنی کو ٹھیکہ دیتے ہیں؟ سر، ہر بارٹینڈراِیشو ہوتے ہیں۔ کوئی ایک کمپنی کا اجارہ نہیں، ہم سب کو موقع دیتے ہیں اوراُن کو کو ٹیشنز کا بغور مطالعہ کرتے ہیں۔ چیف انجینئر نے جواب دیا۔ ضلع مجسٹریٹ نے کہا۔ ان پائپوں کی سپلائی کرنے والی کمپنی اورٹھیکے دار دونوں کو فوری طورپر نوٹس بھیجئے۔ اُس کا لہجہ تحکمانہ تھا۔ یس سر، بالکل سر۔ مگرمیں ایک بات اور کہنا چاہوں گا۔ چیف انجینئر نے کچھ لجاجت سے کہا۔ ہاں بتائیے، کیا بات ہے؟ چیف انجینئر نے کنکھیوں سے میئر کی طرف دیکھا۔ اُس کی میئر سے ایک آنکھ نہ بنتی تھی کیونکہ وہ مخالف پارٹی کے ٹکٹ پرالیکشن جیت کرآیا تھا۔ چیف انجینئر ایک ادھیر عمر کا موٹا آدمی تھا۔ اتنا زیادہ موٹا کہ اس کے بیٹھنے کے لیے یہ کرسی ناکافی پڑ رہی تھی اوروہ اس میں کچھ اس طرح پھنس گیا تھا جیسے چوہے دان میں کوئی موٹا سا چوہا پھنس کر ہانپتا ہے اس کی توند کے دباؤ کی وجہ سے اس کی قمیض کے درمیان میں لگے ہوئے بٹن بار بارکھل جاتے تھے جس کی وجہ سے اس کی ناف کے اوپر پیٹ پر سفید بالوں کی ایک بدنما لکیر نمایاں ہو جاتی تھی۔ اچانک ہال کا دروازہ کھلا۔ علاقے کا ایم۔ایل۔ اے۔ اندر داخل ہوا۔ سارے افسران مع ضلع مجسٹریٹ مؤدبانہ انداز میں اُٹھ کر کھڑے ہو گئے کیونکہ اُن کا نہ اُٹھنا پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتا تھا۔ اب کھادی کے سفید کُرتے اور پاجامے کا زمانہ بیت چکا تھا۔ وہ تیز گیروئے رنگ کا اونچا سا کُرتہ پہنے ہوئے تھا اوراُس نے موٹی موٹی ٹانگوں پر نیلی جینز منڈھ رکھی تھی جس پر عورتوں کے آڑے تنگ پاجامے کا گمان گزرتا تھا۔ اُس کے کو لہے بھی عورتوں کی طرح پیچھے نکلے ہوئے تھے۔ وہ جوان آدمی تھا اوراُس کی رنگت جی گھبرا کررکھ دینے کی حد تک سفید تھی۔ گلے میں گیروئے رنگ کا انگوچھا ڈال رکھا تھا۔ سر تقریباً گنجا تھا۔ مگرمونچھیں لٹک کر ٹھوڑی پر آرہی تھیں۔ چند ماہ پیشتر تک وہ صرف ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کا مالک تھا جس کے ٹرکوں پر گھٹیا اشعار لکھے ہوئے تھے۔ الیکشن کے بعد وہ ایم۔ایل۔ اے۔ ہو گیا، ایم۔ایل۔ اے ہونے سے پہلے وہ شہر میں بہت بڑے اغلام باز کی حیثیت سے مشہور تھا اگرچہ اب وہ عورت اور مرد کے فطری اور اخلاقی رشتے کی اہمیت پر اخبارات میں بیان دینے لگا تھا۔ ایم۔ایل۔ اے۔ نے ہاتھ جوڑ کر سب کو نمسکار کیا اورمسکراتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گیا۔ اب وہ سب بھی اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ باہر آندھی آنے والی ہے۔ وہ بولا۔ اچھا۔ سارے افسروں نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر کہا۔ سیاسی لیڈروں کی چمچہ گیری کرنے کا یہ ایک پرانا طریقہ تھا۔ اچھا آندھی آنے والی ہے۔ اوہ آندھی، وہ کہتے رہے۔ ہاں آنا چاہیے، بہت دنوں سے آسمان پر غبار چھایا ہوا تھا۔ بہت دن ہو گئے سرجی۔ ایم۔ایل۔اے۔ نے انگوچھے سے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔ یہاں اے۔سی۔ چل رہا ہے نا۔ جی سر، چل رہا ہے۔ ضلع مجسٹریٹ نے کہا، کولنگ اور بڑھا دوں؟ نہیں مجھے نزلہ ہوجاتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے، ایم۔ایل۔اے۔ تو کاروائی چل رہی ہے آپ لوگوں کی؟ جی بالکل، ہاں تو آپ کیا کہہ رہے تھے؟ ضلع مجسٹریٹ نے چیف انجینئر سے پوچھا جو ایم۔ایل۔اے۔ کے آجانے کے بعدسے کچھ زیادہ خوش اورپُراعتماد نظرآنے لگا تھا۔ جی سر، میں عرض کررہا تھا کہ ہمارے میئر صاحب کے زوردینےپر شہر کے چند علاقوں میں رسوئی گیس کی پائپ لائن ڈالنے کا کام بھی ایک گیس کمپنی نے میرا مطلب ہے کہ پرائیویٹ گیس کمپنی نے کیا تھا۔ ان علاقوں میں لائف اپارٹمنٹس والی سوسائٹی بھی آتی ہے۔ اس گیس کمپنی میں میئر صاحب کی پارٹی کے کئی عہدے داروں کے بڑے بڑے شیئر ہیں۔ چیف انجینئر بول کر چپ ہوا تو میئر کہہ اُٹھا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ میئر پختہ عمر کا ایک وجیہہ آدمی تھا۔ اس کے چوڑے چکلے چہرے پر ایک قسم کا خاندانی وقارتھامگراس وقار میں بے رحمی اور غرور کے رنگ زیادہ شامل تھے۔ اس کی بالوں سے صاف اور چکنی کھوپڑی ان رنگوں کواوربھی چمکیلا بناتے ہوئے منعکس کررہی تھی۔ چیف انجینئر نے جواب دیا، کچھ نہیں بس یہی کہ گیس کمپنی نے بھی تو سڑکوں کی کھدائی کروائی تھی۔ تو؟ تواس سے کیا ہوتا ہے۔ سڑک کی کھدائی تو بجلی والے بھی کرتے ہیں، زیرِ زمین تارڈالنے کے لیے ٹیلی فون والے بھی کرتے ہیں۔ ان سب کو بھی بلائیے اورجواب طلب کیجئے۔ گیس کمپنی – آپ کو بس گیس کمپنی یاد آئی۔ میئر نے ناخوشگوار اور بلند لہجے میں کہا۔ ایم۔ایل۔ اے۔ نے میئر کی طرف ہاتھ اُٹھا کر اشارہ کیا اور بولتا رہا۔ میں چاہتا تھا کہ رین بو گیس کمپنی کو یہ کام سونپا جائے وہ بہت شریف لوگ ہیں۔ یہ اسٹار گیس کمپنی تو بدنام رہی ہے۔ یہ تو غنڈے موالی قسم کے لوگوں کو اپنی لیبرکے لیے ہائر کرتی ہے۔ سیورلائن کے پائپ انھیں مزدوروں نے توڑے ہیں۔ ایم۔ایل۔اے۔ بولا۔ آپ کے پاس کیا ثبوت ہیں؟ میئر نے کہا انکوائری ہونے دیجئے، ثبوت مل جائیں گے۔

آپ کیا کہیں گے؟ ضلع مجسٹریٹ نے بلڈر سے پوچھا، جو اَب تک سرجھکائے بیٹھا تھا۔ جناب میں کیا کہوں، میں نے تو صرف مکان بنوائے ہیں وہ بھی ٹھیکیداروں کے ذریعے، بلڈر پشیمان سا ہو کر بولا۔ اچھا مگرکیا آپ نے مکان خریدنے والوں سے یہ وعدہ کیا تھا کہ آپ بجلی پانی کی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اُنھیں پائپ لائن والی گیس بھی فراہم کریں گے؟ جی وعدہ کیا تھا۔ اچھا کتنے عرصے بعد؟ جناب، میں نے میئر صاحب کے رشتہ داروں کے لیے دو ایچ۔ آئی۔ جے۔ فلیٹ بُک کیے تھے۔ تب میئر صاحب کے مشورے سے یہ طے کیا گیا جناب کہ پائپ لائن گیس کی سہولت حاصل ہو جانے سے سوسائٹی میں رہنے والے لوگوں کو زیادہ اچھی زندگی، میرا مطلب ہے کہ کوالٹی لائف مل سکتی ہے۔ بلڈر نے جواب دیا اور میئر کی طرف چور نظروں سے دیکھنے لگا۔

اسٹارگیس کمپنی کو بھی نوٹس بھیجئے۔ ضلع مجسٹریٹ نے فیصلہ سنایا۔ میئر ایک بار زورسے کھانسا پھر کہا۔ ہم اس بات کو فراموش کررہے ہیں کہ سب سے پہلے بورنگ والا پانی جو سب مر سبل پمپ (Submersible Pump) کے ذریعے زمین کے اندر سے کھینچا جاتا ہے، آلودہ ہوا ہے۔ یہ کام ظاہرہے کہ مقامی سطح پر کام کرنے والے پلمبروں اورنل لگانے والوں نےکیا ہوگا، ہمیں سب سے پہلے اُن سے رابطہ قائم کرنا ہوگا کہ انھوں نے مقررہ اور طے شدہ گہرائی میں ہی بورنگ کیا تھا یا نہیں؟ اُن سے دریافت کرنا پڑے گا کہ جہاں انھوں نے بورنگ کیا تھا۔ وہاں سے سیور لائن کتنی دور تھی۔ میراخیال ہے کہ انھیں پلمبروں کے ذریعے پائپ لائن ڈ میج ہوئی ہے۔ جناب ہم نے سارے پلمبروں کے ذریعے پہلے ہی ساری لائن چیک کروالی ہے۔ کہیں کوئی خرابی نظر نہیں آرہی ہے۔ بلڈر نےاپنی صفائی پیش کی۔ میونسپل کارپوریشن کے چیف انجینئر نے فوراً ہی لقمہ دیا۔ سر، میں نے انجینئروں کی ایک ٹیم وہاں روانہ کی تھی۔ اُن کی رپورٹ کے مطابق پینے کے پانی والی لائن میں کہیں کوئی خامی نہیں ہے، وہ محفوظ ہے۔ ضلع مجسٹریٹ نے بلڈر کی طرف سردمہری سے دیکھا، پھر کہا۔ آپ اُن سارے نل کا کام کرنے والوں اور پلمبروں کو دوبارہ طلب کیجئے اور محکمہ صحت کے کارکنوں کی موجودگی میں کل اُن کے ساتھ میٹنگ کیجئے۔ کارپوریٹر صاحب آپ بھی شامل رہئے گا۔ اورایم۔ایل۔اے۔ صاحب کو اگروقت ملے تو پبلک کا حوصلہ بڑھ جائے گا۔ ایم۔ایل۔اے۔ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ میں ضرور سیوا میں حاضررہتا مگرکل مجھے راجدھانی جانا ہے۔ وزیرِ داخلہ نے بلایا ہے۔ کچھ خاص بات کرنے۔ کوئی بات نہیں یہ لوگ دیکھ لیں گے، تو آج کی میٹنگ برخواست میرا مطلب ہے کہ ختم ہو گئی ہے۔ اس کے مِنٹس تیار کرکے ایک گھنٹے کےاندر سارے ممبران تک پہنچا دو۔ ضلع مجسٹریٹ نے اپنے بوڑھے اسٹینو سے کہا جو ایک ماہ پہلے ملازمت سے سبکدوش ہوچکا تھا، مگرابھی تک کسی نے اُس کا چارج نہیں لیا تھا۔ چائے نہیں آئی ابھی تک۔ ضلع مجسٹریٹ نے تھکی ہوئی آواز میں کہا اور اردلی کو بلانے کےلیے گھنٹی بجائی۔

[dropcap size=big]میونسپل[/dropcap]

کارپوریشن کے دفتر کےسامنے مجمع اکٹھا ہونے لگا ہے۔ یہ عجیب دفتر ہے۔ انسانوں کے مرنے جینے کا جتنا حساب کتاب اُس کے پاس ہے اُس سے زیادہ تو بس ملک الموت کے پاس ہی ہوگا۔ اس دفتر میں ایک اندھیرے اور بوسیدہ سے کمرے میں، کسی الماری میں انسانوں کی پیدائش کے ریکارڈ اور سرٹیفیکٹ رکھے ہیں اورایک دوسری الماری میں جو شاید پہلی الماری کے برابر میں ہی رکھی ہوگی اُن کی موت کے سرٹیفیکٹ ہیں۔ اس الماری پر دھول کچھ زیادہ جمی ہوئی ہے۔ اب یہ تو وہاں کے کلرک کی راشی آنکھ ہی جانتی ہے یا پھر خدا کی آنکھ کہ کون سی الماری میں زندے بند ہیں اورکون سی میں مُردے۔ ویسے اب نہ زندوں کو مردوں کی فکر ہے اور نہ مردوں کو زندوں کی۔ مردے بے چارے تو پھر بھی کبھی کبھی زندوں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے ان کے گھرآجاتے ہیں جہاں سے انھیں بھوت کا لقب دیتے ہوئے ذلیل کرکے نکال دیا جاتا ہے۔ مگرپھر بھی یہ سوال رہ جاتا ہے کہ وہ الماری کہاں ہے جس میں اُن کے ریکارڈ موجود ہیں جو نہ زندوں میں ہیں اور نہ مُردوں میں۔ مردم شماری کے رجسٹرمیں ان کے ناموں کے آگے سرخ روشنائی سے سوالیہ نشان بنا دیا گیا ہے۔ یہ وہ بدنصیب ہیں جو زندہ اور مردہ انسانوں کے درمیان کھنچی گئی ایک سرخ لکیر پر پڑے ہوئے کپکپاتے ہیں۔ کیڑوں مکوڑوں کی طرح۔

لوگ میونسپل کارپوریشن کے دفتر کے آگے اکٹھا ہیں۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ خرابی کب تک دور کی جائے گی۔ مرمت کیوں نہیں کی جارہی ہے اورسب سے بڑھ کر یہ کہ پانی کب تک آئے گا۔ مگرپانی میں جو رمز ہے وہ کارپوریشن کے افسروں کو اور کلرکوں کو نہیں معلوم ہے۔ وہ اس بارے میں جواب دینے سے قاصر ہیں۔

بھیڑ کچہری میں بھی ہے، جہاں کلکٹر بیٹھتا ہے، یعنی ضلع مجسٹریٹ جسے لوگ آج بھی ضلع کا مالک یا بادشاہ سمجھتے ہیں۔ لوگوں کو یقین ہے کہ اُن کے بادشاہ کے پاس اُن کے دُکھوں کا مداوا ضرور ہوگا۔ مگربادشاہ کا خادم سفید وردی میں ملبوس وہ اردلی بھیڑ کو بار بار پیچھے ہٹنے کا حکم دیتا ہے۔ زیادہ شور پکار مچانے والے چند اولوالعزم افراد کو حراست میں لیے جانےکی دھمکی بھی دیتا ہے مگرساتھ ہی اُنھیں معنی خیز لالچی نظروں سے دیکھتا بھی جاتا ہے۔ ضلع مجسٹریٹ نے محکمہ حفظانِ صحت کے ڈائریکٹر کو اپنے آفس میں طلب کیا ہے جس کے ریٹائر ہونے میں پندرہ دن رہ گئے ہیں اور جو دل کا مریض ہونے کے ساتھ ساتھ بہت نروس قسم کا آدمی ہے۔ اُس کی ہتھیلیاں ہمیشہ پسیجی رہتی ہیں اور پیروں کے تلوؤں سے آگ نکلتی رہتی ہے۔ اس کا چہرہ ایک مغموم خچر کے چہرے سے مشابہ ہے۔ وہ ضلع مجسٹریٹ کے سامنے کرسی پر بیٹھا ہے۔ ضلع مجسٹریٹ ایک نوجوان آئی۔اے۔ ایس۔ آفیسر ہے اورپرانے افسروں کو خاص طورپر وہ جو پرموشن کے ذریعے افسر بنے ہیں، حقارت کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک جدید اوراسمارٹ بیوروکریٹ سمجھتا ہے۔ اورپرانی سڑی ہوئی لال فیتہ شاہی کو چمکیلی، نئی اور سبز فیتہ شاہی میں بدل دینا چاہتا ہے۔

ڈی۔ایم۔ صاحب ہیلتھ والوں کے ساتھ میٹنگ کررہے ہیں۔ بعد میں آپ سب سے بات کریں گے۔ اردلی چلّاتا ہے۔ بھیڑ میں اب اپنا اپنا کیمرہ لیے ہوئے میڈیا کے رپورٹر بھی گھس آئے ہیں مگران میں وہ خوبصورت آنکھوں والی لڑکی نہیں ہے۔ وہ یہاں سے تین کلو میٹر دورضلع سرکاری اسپتال میں لمبی ناک والے نوجوان ڈاکٹر کے کمرے میں بیٹھی ہوئی کافی پی رہی ہے۔

آپ کا عملہ اس سلسلے میں کیا کررہا ہے۔ کمیونٹی ہیلتھ کے نام پر آپ کی کارگردگی کا ریکارڈ گذشتہ بیس سالوں میں مایوس کن رہا ہے۔ ضلع مجسٹریٹ اپنے سامنے رکھی فائلوں کو ٹٹولتے ہوئے کہتا ہے۔ ہم سرہم، جناب، شہر کے تمام محلوں اور کالونیوں کی نالیوں میں ہر ہفتے چونا ڈالواتے ہیں اور ملیریا ڈینگی کے زمانے میں مٹی کے تیل اور ڈی۔ ڈی۔ ٹی۔ پاؤڈر کا چھڑکاؤ بھی کراتے ہیں۔ جناب، جی ہاں۔ آپ کو چونا ڈلوانے کےلیے سرکار اتنی موتی تنخواہ دیتی ہے؟ نہیں سر۔ جناب، ڈائریکٹر کے ماتھے پر پسینے کی لکیریں بہہ رہی ہیں۔ ضلع کا حاکم ایک فائیل کو دوسری فائیل سے الگ کرتے ہوئے رکھ رہا ہے پھر تیسری کو چوتھی سے لائف اپارٹمنٹس کے معاملے میں آپ کیا کررہے ہیں؟ ہم، ہم نے جناب ہم نے۔ سروہاں ہر طرف چونا ہی چونا بکھیر دیا ہے۔ اب ایک مچھر بھی وہاں پر نہیں مارسکتا۔ جناب ڈی۔ ڈی۔ ٹی۔ کا وافر مقدار میں چھڑکاؤ کیا ہے ہم نے جناب۔ اب ایک بھی مچھر۔ ڈائریکٹر نے جلدی جلدی اپنی کارکردگی کا بیان کردیا ہے۔ توآپ کے خیال میں یہ بیماری مچھروں کے ذریعے پھیلی ہے۔ ضلع مجسٹریٹ نے سکون آمیز لہجے میں پوچھا۔ جی، جی جناب۔ نہیں، جی نہیں سر۔ مگرمچھروں اور گندگی سے ہی ایسی بیماریاں پھیلتی ہیں جناب۔ میں نے سنا ہے جناب۔ ڈائریکٹر کی آواز لگاتار کپکپارہی ہے۔ جیسے ریڈیو پر کسی اسٹیشن یا چینل کو سیٹ کرتے وقت اُس کی سوئی کپکپاتی ہے۔ آپ نے سنا ہے؟ اپ میڈیکل جرنلز اوراُن کی تازہ ترین رپورٹوں کا مطالعہ کرتے ہیں؟ کیاآپ میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیز میں منعقد ہونے والے سیمیناروں میں تشریف لے جاتے ہیں۔ ضلع مجسٹریٹ پوچھتا ہے۔ میں جناب، میں دل کا مریض ہوں اور اگلے ہفتے مجھے پیس میکر لگنے والا ہے۔ ڈائریکٹر نے اپنی پھولتی ہوئی سانسوں کے درمیان کہا۔ اوہ! آپ آکسیجن کا سلنڈر ساتھ نہیں رکھتے؟ جی ہمیشہ جناب۔ باہر رکھا ہے۔ آپ کے کمرے کے باہر۔ اردلی نے اندر لے جانے سے منع کردیا۔ پسینہ ڈائریکٹر کی گردن پر بہنے لگا۔ دو دن بعد لائف اپارٹمنٹس سوسائٹی میں میونسپل کارپوریشن کے کارکن، بلڈر کے عملے کے لوگ، پلمبرز اورایم۔ایل۔ اے۔ صاحب کی ایک تحقیقاتی میٹنگ ہوگی۔ آپ کا بھی وہاں رہنا نہایت ضرورت ہے۔ اگروہاں کی زمین یاپانی میں بیماری جراثیم پائے گئے تو سمجھ لیجئے کہ یہ خطرناک ہوگا اوراُسے دورکرنا ایک ٹیم ورک ہوگا۔ ہمیں سب کا تعاون درکار ہے۔ آپ بھی اپنی ذمہ داری کو بخوبی سمجھ لیجئے۔ آپ ایک ماہ بعد ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔ ضلع مجسٹریٹ نے کہا۔ جی نہیں سر، پندرہ دن بعد۔ اچھا ریٹائر ہونے کے بعد کیا ارادہ ہے۔ کوئی بزنس کروں گا۔ بیوی بھی یہی چاہتی ہے اور بچے بھی۔ بہت اچھا خیال ہے۔ ضلع مجسٹریٹ مسکراتا ہے اور کہتا ہے، ضرور بزنس کیجے۔ چونے کے ٹھیکے لینا شروع کردیجئے۔ اس میں بڑا منافع ہے۔ جی کیا فرمایا، چوہے کے؟ چوہے کہ نہیں چونے کے۔ ضلع مجسٹریٹ کی مسکراہٹ زہر خند ہوجاتی ہے۔ ڈائریکٹر کا سرذلّت اور شرمندگی کے بوجھ کے نیچے دب کررہ جاتا ہے۔ ضلع مجسٹریٹ گھنٹی بجاتا ہے۔ اردلی اندر آتا ہے۔ باہر کتنے لوگ ہیں؟ تقریباً ڈیڑھ سو حکم۔ ٹھیک ہے اُن کے صرف دو نمائندوں کا انتخاب کرکے اندر بھیجو۔ دونوں نمائندے الگ الگ مذہبوں کے ہونا چاہئیں، کیا سمجھے؟ اپنے ساتھ اسٹینو کو بھی لے لو۔ کیا سمجھے؟ جی حکم۔ اردلی واپس جاتا ہے۔ ڈائریکٹر صاحب، آپ جا سکتے ہیں۔ ضلع مجسٹریٹ نے کہا۔ ڈائریکٹر کانپتے ہوئے پیروں کے ساتھ کرسی سے اُٹھتا ہے۔ ضلع مجسٹریٹ اردلی کو بلانے کے لیے دوبارہ گھنٹی بجاتا ہے۔ اردلی اندر آتا ہے۔ کافی بھیجو، بہت گرم کافی۔ ضلع مجسٹریٹ اُس کی طرف دیکھے بغیر حکم دیتا ہے۔

چشمہ لگائے، خوبصورت آنکھوں والی رپورٹر نوجوان ڈاکٹر کے کمرے میں بیٹھی ہوئی کافی کے گھونٹ لے رہی ہے۔ ڈاکٹراُسے رومانی نظروں سے دیکھنے کے باوجود اُس پرادب کے کسی جغادری پروفیسر کی طرح اپنے مطالعے کا رعب ڈالنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔

آپ نے Illness as Metaphor پڑھی ہے؟ ڈاکٹر پوچھتا ہے۔ نہیں، کسی نے لکھی ہے؟ سوزن سوتانگ نے۔ ڈاکٹر نے جواب دیا۔ اچھا میں نے یہ نام پہلی بارسنا ہے۔ لڑکی بولی۔ اوہ! بڑے افسوس کے بات ہے کہ آپ سوزن سوتانگ کو نہیں جانتی ہیں۔ ڈاکٹر نے افسوس اور ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ پھر فخریہ انداز میں بولا۔ میں میڈیکل کالج کے لٹریری اور ڈرامہ کلب کا جنرل سکریٹری تھا۔ خیرآپ نے آر۔ اِسٹیون کا The Paradox Plant تو پڑھا ہوگا۔ وہ تو بیسٹ سیلر رہا ہے۔ خوبصورت آنکھوں والی لڑکی اپنے سیاہ ریشمی بال اوپر جھٹکتی ہے۔ دھیرے سے، ادا کے ساتھ مسکراتی ہے اور کہتی ہے۔ نہیں میں نے اس کتاب کا نام سنا ہے۔ چلیے کوئی بات نہیں، مگرمیرے خیال، میں آپ کو پہلی ہی فرصت میں The Emperor of All Maladies پڑھ لینا چاہیے۔ اگرآپ کو جیسا کہ آپ نے بتایا کہ آپ کو بیماری اوراُس کی سماجیات یعنی سوشیولوجی سے بہت دلچسپی ہے۔ ڈاکٹر نے جوشیلے انداز میں جملہ مکمل کیا۔ جی، میں نے یہ کتاب پڑھی تو نہیں ہے مگراس کے بارے میں بہت سنا ہے۔ سدھارتھ بنرجی نے لکھی ہے نا؟ جی نہیں بنرجی نہیں چٹرجی۔ ڈاکٹر نے تصحیح کی۔ ہاٹ کیک کی طرح بِکتی ہے یہ کتاب، مزہ آجائے گا پڑھ کر۔ ڈاکٹرنے کچھ اس انداز میں کہا جیسے وہ کوئی پورنو گرافی کی کتاب ہو۔ خیرمیں آپ کو دوں گا۔ گھرآئیے گا کبھی۔ بہت کتابیں دوں گا اورہاں میں آپ کو میتھوجون اسٹون کی I Had a Black Dog بھی دینا چاہوں گا۔ آپ کافی اورلیں گی؟ جی ضرور۔ مجھے کافی بہت پسند ہے۔ لڑکی مسکرائی۔ مجھے کافی سے زیادہ کافی کی خوشبو پسند ہے۔ ڈاکٹر نے کہا۔ پچھلے سال یورپ گیا تھا، وہاں کی لڑکیاں اپنے پرس میں اوراپنی جیبوں میں برازیلین کافی کے بیج رکھتی ہیں۔ کافی کی مہک سے زیادہ اچھی کسی پرفیوم یاعطر کی مہک بھی نہیں ہو سکتی۔ اُس کی مہک میں ایسا کیا ہے؟ لڑکی اپنی نیل پالش کریدتے ہوئے آہستہ سے بولی۔ وہ دراصل بے حد سیکسی ہوتی ہے۔ نوجوان ڈاکٹرنےاتنی تیزی کے ساتھ کہا کہ وہ لفظ سیکسی پراتنا زورنہیں دے پایا جتنا اس موقع پراُسے دینا چاہیے تھامگراس سے پہلے کہ اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوپاتا۔ لڑکی نے اُس سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ اپنا جملہ ادا کیا۔ آپ کا مطلب ‘ہاٹ’ سے ہے نا۔ سیکسی کا لفظ پرانا ہوچکا۔ کم سے کم پانچ سال پرانا۔ ہم میڈیا والے لفظوں کو ہمیشہ اُن کے صحیح تناظرمیں استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں اس کی ٹریننگ دی جاتی ہے کہ ہم عصر یت سے الفاظ کا رشتہ کبھی منقطع نہ ہو پائے۔ ڈاکٹر پہلی بار کچھ جھینپ جاتا ہے۔ پھراس جھینپ کو مٹانے کےلیے پوچھتا ہے۔ توآپ نے بیماریوں پرکون سی کتابیں پڑھ رکھی ہیں؟ میں نے اورکافی منگوائی ہے۔ شکریہ۔ جب میں کالج میں پڑھتی تھی تو وہاں کے تقریباً ہر طالب علم کے ہاتھ میں مارکیز کی Love in the Time of Cholera ہوا کرتی تھی۔ مجھے بھی پڑھنا پڑی۔ اُسی زمانے میں البیئر کامیوکی پلیگ کا مطالعہ بھی کیا۔ اورہاں یاد آیا، چین کا ایک مصنف تھالی یان، اُس کے ناول Ding کے بھی صفحات پڑھے تھے مگرآگے نہیں پڑھ پائی۔ دل نہیں لگا۔ لڑکی اپنی لپ اسٹک درست کرنے لگتی ہے جو زیادہ شوخ رنگ کی نہیں تھی اوراُس کی بھوری آنکھوں سے مطابقت رکھتی تھی۔ ڈاکٹرنے غیرارادی طورپر اپنے نچلے ہونٹ پر زبان پھیری اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، مگریہ سب تو ناول ہیں۔ ناول میں ہوتا ہی کیا ہے۔ جھوٹ اور لفاظی کے علاوہ۔ اتنا جھوٹ بکتےہوئے اُن پر بجلی کیوں نہیں گرتی۔ ان سے وقت گزاری اور تفریح بازی کے علاوہ کوئی سنجیدہ مقصد نہیں حاصل ہو سکتا۔ آپ علمی اور تحقیقی کتابیں پڑھا کریں۔ دراصل مجھے لٹریچر کی کوئی سمجھ نہیں۔ آپ نے پوچھا تو بتا دیا۔ لڑکی نے کہا۔ ویسے آپ کو یہ ناول کیسے لگے تھے؟ ڈاکٹر نے پوچھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ لڑکی بولی۔ وہی تو، وہی تو۔ ڈاکٹر خوش ہوکر کہنے لگا۔ اپ بجائے ناول پڑھنے کے ناول پر لکھی تنقیدی کتابیں پڑھ لیا کیجئے۔ اُن کو پڑھ کر آپ کو یہ معلوم ہوجائے کہ ناول نگار سے زیادہ احمق اورکوئی قوم نہیں ہوتی اورناول سے زیادہ فحش اور محذّب اخلاق کوئی شے نہیں ہوتی۔ چپراسی کافی کے دوکپ ٹر ے میں رکھے ہوئے داخل ہوا مگراُس کے پیچھے ایک نرس اور وارڈ بوائے بھی تھے۔ کیا بات ہے؟ ڈاکٹر نے پوچھا۔ ایک مریض اورچل بسا ہے۔ وارڈ کا ماحول بہت بگڑ گیا ہے۔ نرس نے جواب دیا۔ اوہ، اچھا! ٹھیک ہے۔ تم چلو، میں کافی ختم کرکے آتا ہوں۔ ڈاکٹر نے کہا۔ نرس کنکھیوں سےلڑکی کی طرف دیکھتی ہوئی، وارڈ بوائے کے ساتھ واپس چلی جاتی ہے۔

کیا میں بھی آپ کے ساتھ وارڈ میں چل سکتی ہوں؟ لڑکی نے پوچھا۔ میرے خیال میں شاید یہ مناسب نہ ہو۔ میڈیا کے لوگوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ ڈاکٹرنے بے چارگی کا اظہارکیا۔ میں بس میڈیا کی رپورٹر ہی ہوں؟ خوبصورت آنکھوں والی لڑکی نے پتہ نہیں کس ترکیب سے اپنی آنکھیں اورخوبصورت اور نشیلی بنا لیں۔ اُس نے لپ اسٹک لگے ہوئے اپنے اُبھرے اُبھرے ہونٹ کچھ اس انداز میں آگے بڑھائے جس سے یہ پتہ لگانا مشکل تھا کہ وہ ڈاکٹر کو بوسہ دینا چاہتی ہے یا اُس کا بوسہ لینا چاہتی ہے۔ ڈاکٹر کی سانسیں تیز ہو گئیں۔ اچھا میں کوشش کرتا ہوں۔ تم اپنا کیمرہ تو ساتھ نہیں لائی ہو؟ اس نے کہا۔ نہیں۔ یہ اچھا ہے۔ چلو پھر جلدی سے کافی ختم کریں۔ ڈاکٹر یہ کہتا ہوا کافی کا کپ ہاتھ میں پکڑے ہوئے اُٹھ کر میز کی دوسری طرف لڑکی کی کرسی کے قریب آگیا۔ لڑکی نے اِدھر اُدھر دیکھا پھر کافی کا ایک لمبا گھونٹ لیا۔ ڈاکٹر نے اپنا کپ میز پر رکھ دیا۔ لڑکی نے بھی اپنا کپ میز پر رکھ دیا۔ لڑکی کے کپ پر لپ اسٹک کا نشان آگیا تھا۔ ڈاکٹرنے اُس نشان کو غورسے دیکھا۔ پھروہ لڑکی کے اور قریب آگیا۔

ایمرجنسی وارڈ کےاندر ایک عورت بُری طرح چیختی تھی، روتی تھی۔ اپنے سینے پر دو ہتھّر مارتی تھی۔ اُس کے تین سال کے معصوم بچے کی لاش ابھی بھی بیڈ پر موجود تھی۔ جس پر لال کمبل ڈال دیا گیا تھا۔ اس کے برابر میں چار پلنگ اورپڑے ہوئے تھے۔ سامنے بھی، دوسری قطار میں پانچ پلنگوں پر مریض لیٹے ہوئے تھے۔ مگراس سے ہمیں یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ایمرجنسی وارڈ میں صرف دس ہی مریض تھے۔ دراصل پلنگوں کی اورجگہ کی کمی ہونے کے باعث ایک پلنگ پر دو مریض لٹائے گئے تھے۔ یوں دیکھا جائے تو وارد میں بیس افراد بھرتی تھے جن میں سے فی الحال ایک مرچکا تھا۔ مریضوں کی تعداد میں لگاتاراضافہ ہورہا تھا۔ چیف میڈیکل آفیسر کی ہدایت کے مطابق ان مریضوں کو صرف ایمرجنسی وارڈ میں ہی رکھا جاسکتا تھا۔ ان تمام مریضوں سے علیحدہ اورالگ جو دوسری بیماریوں اور دوسری وجوہات کی بنا پر اسپتال میں بھرتی تھے یا جن کے بھرتی ہونے کے امکانات تھے۔ دوسری طرف۔ شہر کے پرائیویٹ اسپتالوں اورنرسنگ ہوموں نے بھی ایسے کسی مریض کو اپنے یہاں بھرتی کرنے سے منع کردیا تھا۔جو لائف اپارٹمنٹس سے آئے ہوں مگراب تو ایسی خبریں بھی ملنی شروع ہو گئیں تھیں کہ یہ بیماری محض لائف اپارٹمنٹس تک ہی محدود نہیں رہ گئی تھی۔ صورتِ حال کی نزاکت اورسنگینی کو دیکھتے ہوئے ایمرجنسی وارڈ کے باہر ایک طویل اور گوتھِک طرز کی بنی ہوئی تقریباً سنسان سی رہنے والی راہداری میں بھی مریضوں کے لیے پلنگ بچھا دیے گئے تھے۔ یہاں بھی ایک پلنگ پر دو مریض۔ دونوں مریضوں کے جسم میں چرھائی جانے والی گلوکوز اورسیلائن کی بوتلیں اور نلکیاں آپس میں اُلجھ اُلجھ جاتیں۔ ٹکراتی رہتیں۔ وہ تڑپتے اور بار بارپیٹ میں اُٹھنے والے بھیانک نا معلوم درد کے سبب سے ایک دوسرے کی طرف بے چین ہوکر کروٹیں بدلتے اورایک دوسرے سے لپٹ لپٹ جاتے۔ اُن کے ہاتھوں اور پیروں کی اُنگلیاں ایک دوسرے کی انگلیوں میں پھنس پھنس جاتیں۔ انجکشن کے واسطے اُن کی کلائیوں اور پنڈلیوں میں پیوست سوئیاں بار بار بند ہو جاتیں۔ بوتلوں کی نلکیوں میں ہوا بھرجاتی جس کے سبب اُن کے جسم سے خون نکل نکل کر دوسروں کے کپڑوں اور چہروں پر لگ جایا کرتا۔ وہ درد سے بے حال ہوکر اس طرح چلّاتے جیسے ذبح ہوتے ہوئے جانور۔ کبھی کبھی تو کروٹیں لینے میں وہ پلنگ سے نیچے بھی گرجایا کرتے اوراُن کے جسم کے کسی حصے کی ہڈی ٹوٹ جایا کرتی۔ وہ اپنی دیکھ بھال کرنے والے تیمارداروں کے بس میں نہ آتے تھے۔ یوں بھی وارڈ میں ایک مریض کے ساتھ صرف ایک تیماردار ہی رہ سکتا تھا۔ کبھی کبھی بات بے بات پر ایک پلنگ کے دونوں طرف کھڑے تیماردار ایک دوسرے سے لڑنا بھی شروع کردیتے تھے۔

اِن بد نصیب مریضوں کو کسی حال چین نہ تھا۔ اُن پر نہ تو درد کم کرنے کے انجکشن اثرکرتے اورنہ ہی نیند لانے والے انجکشن۔ وارڈ میں بے حد گندگی پھیلی ہوئی تھی اور بے حد سڑاندھ بھی۔ وارڈ کا تمام عملہ اگرچہ ماسک لگائے ہوئے تھا اور دستانے پہنے ہوئے تھا، پھر بھی بدبوتھی کہ چلی آتی تھی۔ وہ ماسک کے باریک ریشوں کی دیوار کو توڑ دیتی تھی اورناک میں دُرّانہ وار گھسی آتی تھی۔ ناک بند کرلینے اورسانس روک لینے پربھی اس بدبو کی آہٹ کو صاف محسوس کیا جا سکتا تھا۔ بے چارے صفائی کے عملے پر شاید ہی کبھی اس سے زیادہ برا وقت پڑا ہو۔ اُن کےدستانے ہر وقت خون ملی ہوئی اُلٹیوں اور زردگندگی سے آلودہ رہتے تھے۔ اُن کی بالٹیاں اس گندگی سے لبالب بھرچکی تھیں مگراب اسپتال میں ایسی کوئی جگہ بھی باقی نہیں بچی تھی جہاں یہ بالٹیاں خالی کی جاسکتیں۔ فنائل اور ڈیٹول کا اسٹاک ختم ہوچکا تھا۔ صابن اورپونچھے کے کپڑے اب باقی نہ رہے تھے۔

وہ سب چلا رہے تھے۔ مریض ہی نہیں، لاشوں کے وارث ہی نہیں بلکہ وارڈ بوائے، صفائی کا کام کرنے والے اور نرسیں تک سب حیوانوں کی طرح چیخ رہے تھے مگرپھربھی ہر ایک کی چیخ پرایک خاموشی حاوی تھی۔ لاشوں کی خاموشی اورموت کے سناٹے نے وہاں عورتوں کے بَین کو بھی ایک کمزور آواز میں بدل کرکے رکھ دیا۔ جب تین سال کے اُس بچے کی لاش کو بستر سے اُٹھا کر باہر لایاجانے لگا تواس پلنگ پراُس کے برابر لیٹے ہوئے ایک ادھیڑ عمر کے شخص نے مردہ بچے کے لال کمبل کو پوری طاقت کے ساتھ پکڑ لیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ بچے کی لاش وہاں سے ہٹائی جائے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ ایسا وقت بھی آسکتا ہے۔ جب لاشیں زندوں کو خوف زدہ کرنے کے بجائے اُن کی ڈھارس بندھاتی پھریں۔ خاص طورپر وہ زندے جن کے جلد ہی لاشوں میں تبدیل ہونے کے ا مکانات ہوں اس کوشش میں بچے کے گلے میں پڑی ہوئی، تعویذ کی کالی ڈوری ادھیڑ عمر شخص کے ہاتھ میں پھنس گئی۔ بچے کی ماں دلخراش چیخیں مار رہی تھی۔ جب وارڈ بوائے نے کسی نہ کسی طرح بچے کی لاش کو اُٹھا کر باہراسٹریچر پر ڈال دیا تو ماں اُس کےپیچھےپیچھے اس طرح بھاگ رہی تھی جیسے بلی اپنے بچے کو خطرے میں دیکھ کر اُسے بچانے کے لیے دیوانہ وار بھاگتی ہے۔ وارڈ کے باہر پھیلا ہوا پیلا غبار اُسی طرح اپنی جگہ قائم تھا۔ وہ وارڈ کے شیشوں سے چھن چھن کراپنا عکس مریضوں اوراُن کے بستروں پر ڈال رہا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ سب یرقان زدہ نظرآتے تھے۔ اُن کے بستروں کی سفید چادریں تک زرد دکھائی دیتی تھیں۔ پورا شہر بخار کے اس غبار میں جل رہا ہے اور کپکپا رہا ہے۔ بخار کا یہ منحوس بادل، یہ پیلا مٹیالا بادل، اپنی جگہ سے ہلتا نہیں۔ اِدھر اُدھر جنبش تک نہیں کرتا۔ آسمان اِس زرد دھند کے بادل میں منڈھ کررہ گیا ہے۔ اس بادل میں جراثیم ہی جراثیم ہیں۔ کالے سفید کپڑے پہنے ہوئے،کریہہ بدصورت جوکروں کی طرح ایک دوسرے کے منھ پر طمانچے مارتے ہوئے۔ وائرس اور جراثیم بھیس بدل بدل کرآتے ہوئے جاتے ہوئے۔ وہ انسان کو کسی درخت، گھاس یا پودے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ کچھ بھی نہیں۔

سنہری فریم کا چشمہ لگائے اُس خوبصورت آنکھوں والی لڑکی نے اپنے چہرے پر ماسک لگا لیا ہے اورہاتھوں مین دستانے پہن لیے ہیں۔ وارڈ کے اندر داخل ہونے سے پہلے ہی اُسے چکر آنے لگا ہے۔ نوجوان ڈاکٹر مریضوں کا معائنہ کررہا ہے۔ وہ ڈیوٹی پر موجود جونیئر ڈاکٹرسے پوچھتا ہے۔ مریضوں کے ناخن آپ نے دیکھے؟ یس سر، جونیئر ڈاکٹر نے جواب دیا۔ کوئی خاص بات نوٹ کی آپ نے؟ جونیئر ڈاکٹر تھوگ نگل کر رہ جاتاہے۔ سب کے ناخن ٹیڑھے ہوکر اوپر کی طرف مڑرہے ہیں۔ نوجوان ڈاکٹرنے فاتحانہ نظروں سے لڑکی کی طرف دیکھا جو گھبرائی ہوئی نظرآرہی ہے۔ اوہ یس سر، یس سر۔ جونیئر ڈاکٹرنے جوا ب دیا۔ بچے کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے جائے گی اور اب تک جتنے لوگوں کی اموات ہوئی ہیں اُن کے پوسٹ مارٹم کی رپورٹیں سی۔ایم۔او۔ صاحب کے دستخط کے ساتھ فوری طورپر انسٹی ٹیوٹ آف وایرلوجی او رمائیکروبیالوجی سینٹر کو روانہ کی جائیں گی۔ کیا سمجھے۔ جی سر۔ جونیئر ڈاکٹر نے سرہلاتے ہوئے جواب دیا۔ ناخنوں کا ٹیڑھا ہونا پُراسرار ہے۔ یہ صرف مہلک قسم کے زہر کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اگریہ بیکٹیریا ہے تو بھی اور وائرس ہے تو بھی۔ مگرناخن ٹیڑھے نہیں ہو سکتے اور دیکھئے یہ پیلے پڑکر ٹیڑھے ہورہے ہیں۔ پیلے ہی ہو رہے ہیں یا خون کی کمی ہے یا اس کمبخت پیلی دُھند کا ان پر عکس پڑرہا ہے۔ یہ پیلی آندھی یہاں آکر کب سے رُکی کھری ہے۔ اس نے تو یہیں خیمہ ڈال لیا ہے اوروہاں سنئے۔ انسٹی ٹیوٹ آف ٹاکسی کو لوجی کو بھی رپورٹ بھیجئے۔ ڈاکٹر نے اپنی بات ختم کی ہی تھی کہ نرس دوڑتی ہوئی آئی۔ سر، وہ اُدھر باہر راہداری میں ایک کی حالت بگڑرہی ہے۔ دونوں ڈاکٹر اور نرس راہداری میں آتے ہیں۔ خوبصورت آنکھوں والی لڑکی پیچھے ہے۔

اٹھارہ اُنیس سال کے ایک نوجوان کے منھ سے خون کی لکیر بہتی ہوئی ٹھوڑی تک آرہی ہے۔ آنکھوں کی پتلیاں اوپر چڑھ گئی ہیں۔ وہ بے ہوش ہے یا پھر مررہا ہے۔ بلڈ پریشر ناپا کتنا ہے؟ ڈاکٹر نے نرس سے پوچھا۔ 160/300۔ یہ بہت ہے۔ دماغ کی رگ پھٹ گئی۔ یہ دیکھئے اس کے بھی ناخنوں کا وہی حال ہے۔ ٹیرھےہوکر آسمان کی طرف جارہے ہیں۔ ڈاکٹر مریض پر جھکتا ہوا کہتا ہے۔ مجھے بچالو، ارے کوئی مجھے بچا لو۔ میں مرنا نہیں چاہتا۔ اِسی بیڈ پر نوجوان کے برابر میں لیٹا ہوا ایک سِن رسیدہ داڑھی والا آدمی رو رو کر کہنے لگا۔ روئی لاؤ، خون صاف کرو۔ جوان آدمی ہے، بہت خون باہر آئے گا۔ روئی کا اسٹاک ختم ہو گیا ہے ڈاکٹر۔ نرس کہتی ہے۔ باہر سے منگواؤ۔ جی ڈاکٹر۔ آرڈر دے دیا گیا ہے مگر سپلائی نہیں ہو پارہی ہے۔ تو کوئی کپڑا لاؤ۔ پٹی لاؤ۔ اب ناک سے بھی خون نکلنا شروع ہوگیا ہے۔ نوجوان کے منھ اور ناک سے بہتا ہوا خون، برابر میں لیٹے ہوئے سِن رسیدہ داڑھی والے شخص کی پسلیوں کو بھگونے لگا۔ اُس نے گھبرا کر دوسری طرف کروٹ لینی چاہی تو اسٹینڈ پر لگی ہوئی گلوکوز کی بوتل نکل کر فرش پر گر کرٹوٹ گئی۔ اس زبردست جھٹکے باعث سوئی بھی اُس کی کلائی سے نکل کر گوشت پھاڑتی ہوئی، دونوں مریضوں کے سروں پر ڈولنے لگی۔ کچھ دیر کے لیے ایسا لگا جیسے زلزلہ آگیا ہو۔ اب داڑھی والے کی کلائی سے بھی خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ بسترکی سفید چادرمیں اُن دونوں کے خون گھل مل کررہ گئے۔

مجھے چکر آرہا ہے، سارا جسم سُن ہوگیا ہے۔ خوبصورت آنکھوں والی لڑکی دھیرے سے کہتی ہے۔ بس یہاں سے نکل رہے ہیں۔ مجھے سی۔ ایم۔او۔ سے ملنا ہے۔ ڈاکٹرنے بھی بہت آہستہ سے جواب دیا۔ پھر بلند لہجے میں نرس سے کہا۔ اسپتال میں خون تو وافر مقدار میں موجود ہے۔ جی نہیں سر، اسٹاک ختم ہوگیا ہے۔ میڈیکل ایسوسی ایشن کے بلڈ بینک سے منگواؤ۔ ڈاکٹرنے برہمی کے ساتھ کہا۔ جی سر، وہاں بھی اسٹاک ختم ہوگیا ہے۔

اسپتال کی راہداری سے نکل کر، وہ نیچے اُترنے والی سیڑھیاں طے کرتے ہیں۔ آخری سیڑھی پر پہنچ کر لڑکی کا پیر پھسلتا ہے۔ ڈاکٹر اُسے سہارا دیتے ہوئے اُس کی کمر میں ہاتھ ڈال دیتا ہے۔ یہ چیف میڈیکل آفیسر کے بنگلے تک جانے والا ایک شارٹ ہے۔ درختوں سے گھرا ہوا یک سنسان راستہ۔ پیڑوں پر بیٹھے ہوئے کچھ کوّے، اُن کے سروں پر کائیں کائیں کررہے ہیں۔ ادھر کوئی آتا جاتا نظر نہیں آتا۔ بائیں طرف مڑکر اسٹاف کے چند چھوٹے چھوٹے کوارٹر ہیں جن کی طرف عورت دودھ کی بالٹی لیے ہوئے جا رہی ہے۔ ایک بھوری بلی نے اُن کا راست کاٹا ہے۔ سامنے گھنے درختوں کا ایک جھنڈ ہے جس کے عقب میں تھوڑے فاصلےپر اسپتال کا وہ پچھلا چھوٹا سا گیٹ ہے جو مقررہ وقت میں صرف اسٹاف کے لیے ہی کھولا جاتا ہے۔ درختوں کے جھنڈ کے نیچے پہنچ کر، اچانک ڈاکٹر، لڑکی کو پوری طاقت کے ساتھ اپنی بانہوں میں جکڑ لیتا ہے۔ وہ لڑکی کے ہونٹوں کا بوسہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ لڑکی اپنا سر پیچھے کی طرف کرتی ہے۔ ڈاکٹر کی لمبی ناک کا بانسہ لڑکی کے چشمے سے ٹکراتا ہے۔ چشمہ آنکھوں سے پھسل کر زمین پر گرجاتا ہے۔ وہ چشمہ اُٹھانے کے لیے نیچے جھکتی ہے تو اُس کے گہرے کٹاؤ والے جمپر میں سے چھوٹے چھوٹے پستان اپنی آدھی جھلک دکھانے لگتےہیں۔ ڈاکٹراُس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر، اُسے سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہئوے اپنے ہونٹ اُس کے سینے کے قریب لے آتا ہے۔ پیڑوں پر بیٹھے کوے زور زور سے بولتے ہیں۔

نہیں، آج نہیں۔ مجھے اُلٹی آرہی ہے۔ بہت زور کی اُلٹی۔ لڑکی گھبرائی اور کانپتی ہوئی آواز میں دوبارہ کہتی ہے۔ میرا جی مِتلا رہا ہے۔ وہ وہیں زمین پر اُکڑوں بیٹھ جاتی ہے اور سرجھکا کر قے کرنے کوشش میں اُبکائیاں لیتی ہوئی کھانسنے لگتی ہے۔ ڈاکٹر اُس کی پیٹھ سہلانے لگتا ہے اوراُس کے بریزیئر کےسخت ہُک کو بھی۔ میں نے سخت منع کیا تھا وارد میں جانے کو۔ عام آدمی یہ سب برداشت نہیں کرسکتا۔ خیر کوئی بات نہیں۔ ابھی ٹھیک ہو جاؤ گی۔ نہیں زبردستی اُبکائیاں مت لو۔ حلق چھل جائے گا۔ ڈاکٹر کہتا ہے اوراپنی پتلون کی جیب میں سے وٹامن سی کی گولیاں نکالتا ہے۔ لویہ دو گولیاں منھ میں رکھ لو اور گہری سانسیں لو۔

کچھ دیر بعد لڑکی اُٹھ کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ پسینے سے اُس کا چہرہ بھیگا ہوا ہے اور لپ اسٹک بگڑ گئی ہے۔ جسے وہ ٹھیک کرتی ہوئی کہتی ہے۔ میں جاؤں؟ اچھا ٹھیک ہے، میں اپنی کارسے تمہیں چھوڑ دیتا مگرآج سی۔ ایم۔او۔ کے یہاں ضروری میٹنگ ہے۔ ابھی تمام ڈاکٹروں کو اس میں شرکت کرنا ہے۔ ڈاکٹرکہتا ہے۔ نہیں شکریہ، میں چلی جاؤں گی۔ کل کافی پینے کہیں باہر چلتے ہیں۔ دو بجے کے بعد میری ڈیوٹی ختم ہوجائے گی۔ ڈاکٹر مسکرا کر کہتاہے۔ میں فون پر بتادوں گی، رات میں اوکے۔ اور ہاں وہ سوزن سوتانگ کی کتاب لینے گھرکب آؤ گی؟ جلد ہی آؤں گی۔ کتاب کا نام یاد ہے نا؟ ڈاکٹر پوچھتا ہے۔ Illness as Metaphor لڑکی جواب دیتی ہے۔

لڑکی اسپتال کےپچھلے دروازے سے باہر چلی جاتی ہے۔ ڈاکٹر چیف میڈیکل آفیسر کے بنگلے کی جانب قدم بڑھانے لگتا ہے۔ اُس کا سفید کوٹ، اچانک نہ جانے کہاں سے بھٹک آئے ہوئے ہوا کے ایک جھونکے سے لہرانے لگتا ہے۔ صرف ایک پَل کے لیے۔ شاید وہ جھونکا ایک دھوکہ تھا۔ پیلے غبار نے سورج کو پوری طرح ڈھک لیا ہے۔ دھند کچھ اور گاڑھی ہوئی ہے۔ غبار میں کچھ نئی پرتیں شامل ہوئی ہیں۔ ایمرجنسی وارڈ کے علاوہ ہر طرف خاموشی ہے۔ دوسرے قسم کے مریض یہاں آنے سے ڈر رہے ہیں۔ جب بھری دوپہر میں یہ سناٹا ہے تو شام ڈھل جانے کے بعد یہاں کیسا لگے گا۔ رات میں جب اسپتال کی رابداریوں میں کتےگھومیں گے اور آوارہ بلیاں روئیں گی۔ وہ اُس موت کو دیکھ کر روئیں گی جو وہاں آرام سے چہل قدمی کررہی ہے۔ انسان مگرموت سے ڈرتے تو ہیں مگراُس کے قدموں کی حقیقی چاپ نہیں سن سکتے۔

[dropcap size=big]معاملہ[/dropcap]

اب واقعی لائف اپارٹمنٹس تک ہی محدود نہ رہا تھا۔ جلد ہی دوسری کالونیوں سے بھی گھروں میں گندا پانی آنے اور وہاں کے باشندوں کے بیمار پڑجانے کی خبریں آنے لگیں۔ خبریں صرف مقامی اخبارات کی سرخیاں ہی نہیں تھیں بلکہ قومی سطح کے اخبارات بھی یہاں کی خبریں شائع کرنے لگے۔ صوبائی وزارتِ صحت نے شہر کے اعلیٰ حکام کو طرح طرح کی ہدایات دینی شروع کردیں۔ لوگ ان کالونیوں سے نکل نکل کر جانے لگے۔ عالم یہ ہوگیا کہ ستّر سے اسّی فلیٹوں پر مشتمل ہر سوسائٹی میں محض دس یا پندرہ فلیٹ ہی ایسے بچے ہوں گے جن میں ابھی بھی لوگ رہ رہے تھے اوراُنھیں یہ توقع تھی کہ جلد ہی یہ بَلا ٹل جائے گی۔ اِدھر آکر گرمی بھی بڑھ گئی تھی۔ ہوا بند تھی، اِس لیے حبس بہت ہو گیا تھا۔ کچھ لوگ اس لیے بھی یہاں سے نہیں ہٹنا چاہتےتھے کہ اُن کے گھروں میں تمام سہولتیں میسر تھیں۔ سب سے بڑھ کر نعمت تو ایئر کنڈیشنڈ تھے تو آخر اُنھیں دیواروں سے اُکھڑوا کر کہاں لے جایا جاسکتا تھا اور کس گھر میں۔

ایک تبدیلی یہ بھی واقع ہوئی تھی کہ اچانک اس علاقے میں ایمبولینسوں کی آوازیں زیادہ آنے لگیں تھیں۔ آٹورکشہ یا ٹیکسی وغیرہ مشکل سے ہی نظرآتی تھیں۔ آدھی رات میں جب ایمبولینس سائرن دیتی ہوئی گزرتی تو کتے اُس کی لال عقبی روشنی پر بھونکنے لگتے۔ اِس تماشے کو چلتے ہوئے ڈیڑھ ہفتہ ہو چکا تھا۔ دوسرے ہفتہ کے آخری دنوں میں اس تمام علاقے میں پینے کے پانی کی سپلائی بند کردی گئی۔ یہ قدم سینٹر فارڈیزیز کنٹرول کے مشورے پر اُٹھایا گیا تھا۔ ویسے تواس مسئلے کے حوالے سے شہر میں تقریباً روزانہ ہی اعلیٰ حکام کی میٹنگیں ہو رہی تھیں جن میں ڈاکٹروں کے علاوہ سول انجینئر بھی شامل رہتے تھے۔ مگراس ہفتے یہاں کی مٹی اور زیرِ سطح آب کی جانچ پرکھ کرنے کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف سوائل ریسرچ والوں کی ایک ٹیم بھی دارالحکومت سے آ پہنچی۔ اس ٹیم کے ساتھ جیولوجیکل سروے کے دو سائنسداں بھی موجود تھے۔ یہ کوئی عام بات نہیں تھی۔ میڈیا نے اسے بہت سنجیدگی سے لیا تھا۔ یہ جل بورڈ کے انجینئروں، میونسپل کارپوریشن کے افسروں اور سیاست دانوں کی موشگافیوں سے کہیں بڑھ کر تھی۔ اس ٹیم نے متاثر علاقے اوراُس کے آس پاس کی زمین کھودنی شروع کردی۔ کھودی گئی مٹی کے ڈھیر اونچے ہوتے جاتے تھے۔ مٹی کے اِن اونچے ڈھیروں پر چیل اور کوؤں نے آکر بیٹھنا شروع کردیا۔ یہ ٹیم دس افراد پر مشتمل تھی اوراپنے ساتھ زمین کھودنے والی جدید ترین مشینیں اور کئی طاقت ور جنریٹر بھی ساتھ لائی تھی۔ یہ قدرے حیرت کی ہی بات تھی کہ ایک چھوٹے سے نظرانداز کر دیے جانے والے شہر کے ایک مخصوص علاقے میں پانی سے پھیلنے والی ایک بیماری کو روکنے یا اُس کی وجہ کی کھوج بین کرنے کے لیے یہ اقدام نہ صرف صوبائی سطح پر بلکہ مرکزی حکومت کے احکام کے تحت اُٹھائے جارہے تھے۔ مقامی سیاست دان اس کا سہرا اپنے سرلے رہے تھے کیونکہ اس علاقے میں ایک بائی الیکشن بھی ہوتا تھا جس کا دن قریب آرہا تھا۔

مرنے والوں کے پوسٹ مارٹم کی رپورٹیں اور مریضوں کے خون کی جانچیں پابندی کے ساتھ انسٹی ٹیوٹ آف وائرلوجی کو بھیجی جارہی تھیں مگرابھی تک تو کوئی نتیجہ سامنے آیا نہیں تھا اوراگرآیا تھا تو ظاہر ہے کہ اُسے خفیہ رکھا جارہا تھا۔ جو بھی ہورہا تھا اورجو بھی سننے میں آرہا تھاو ہ طرح طرح کے اندیشوں اور وہموں کا ایک طویل سلسلہ بن کررہ گیا تھا۔ اخبارات میں پورے پورے صفحوں پر ایسے اشتہار شائع کیے جارہے تھے جو عام دنوں میں نظرنہیں آتے۔ مثلاً ان حقائق کی تشہیر کی جارہی تھی کہ حفظانِ صحت کا خیال رکھتے ہوئے سائنس نے بہت سی خطرناک بیماریوں کو جڑ سے ختم کردیا ہے۔ مختلف قسم کی دوائیاں، سرجری کے نئے آلات، مشینیں، سی۔ٹی۔ اسکین، ایم۔ آر۔آئی اور بھی بہت سی ایسی ریڈیائی مشینیں جن کے ذریعے کینسرجیسے موذی مرض تک پر قابو پالیا گیا ہے۔ زراعت کے میدان میں بھی کیمیاوی کھادیں، دوائیں اور مخلوط یا دونسلی بیجوں کے ذریعے نہ صرف فصل کی پیداوار بڑھی ہے بلکہ بنجر اور ریتیلی زمین بھی کاشت کے قابل ہو گئی ہے۔ اناج، پھل اور سبزیوں میں پہلے سے کئی گنا زیادہ پیداوار ہونے لگی ہےمگرایک منفی پہلو بھی سامنے آیا ہے اور وہ یہ کہ ماحول میں آلودگی بڑھتی جارہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے تحت آلودگی کے بارے میں لگاتار اعدادوشمار فراہم کیے جارہے ہیں اورایشیائی ممالک اس خطرے سے کچھ زیادہ ہی دوچار ہیں۔ ہوا تو آلودہ ہوتی ہی ہے مگرسب زیادہ خطرہ پانی کے آلودہ ہوجانے کی وجہ سے درپیش ہے اور زیرِ زمین پانی کی سطح نہ صرف کم ہوتی جارہی ہے بلکہ زہریلی بھی۔ یہ بھی ممکنات میں سے ہے کہ کبھی آگے چل کر پانی کے ذخیرے ختم ہو جائیں۔ ملک کے کئی صوبوں میں پانی کی تقسیم پر آپس میں تنازعہ چل رہا ہے اور ممکن ہے کہ اگرتیسری عالمی جنگ ہوئی تو وہ صرف پانی کے ذخائر پر قبضہ کرنے کی نیت سے ہوگی۔ ان اشتہارات میں آج کل روز رہے درختوں کو کاٹنے سے منع کیا جاتا ہے اور یہ آگاہ کیا جاتا ہے کہ ہرے جنگلوں اوردرختوں کو کاٹنا اور وہاں کارخانے اور فیکٹریاں قائم کرنا ایک جرم ہے۔ ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لیے حکومت نے بہت سے اقدام اُٹھائے ہیں، جن کی اطلاع عام آدمی تک پہنچانا بہت ضرور ہے۔ یہ اقدام اب قوانین کے درجہ تک پہنچ گئے ہیں اوران کا نفاذ نہ صرف ریاستی حکومتوں بلکہ مرکزی حکومت کے ذریعے بھی کیا جا رہا ہے۔ ان میں فیکٹری ایکٹ، ماحولیاتی ایکٹ اور قانون برائے آبی آلودگی شامل ہیں۔ آلودگی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے باقاعدہ طورپر ایک بورڈ کی تشکیل بھی کی گئی ہے جس کی سفارشات پر حکومت کے ذریعے عمل کیا جانا لازمی ہے۔ اس طرح کے اشتہارات نہ صرف اخباروں میں بلکہ ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر بھی نشر کیے جارہے ہیں۔ دیواروں پر پوسٹر بھی لگائے جارہے ہیں۔ یہ اچھی علامتیں نہیں ہیں۔ یہ کسی بڑے خطرے کا پیش خیمہ ہیں۔ حد ہو گئی کہ اچھی صحت کو برقرار رکھنےکے پرانے اور فرسودہ اُصول بھی دہرائے جانے لگے ہیں۔ ورزش کرنا، صبح کا ٹہلنا، متوازن غذا، وقت کی پابندی وغیرہ کے فوائد اور شراب نوشی یا سگریٹ نوشی کے مُضر اثرات گنوائےجارہے ہیں۔ تازہ پھل اور سبزیاں کھانے پر زور دیا جارہا ہے اور گوشت خوری سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں ہدایتیں دی جارہی ہیں۔ حفظانِ صحت کے تمام اصول رٹائے جارہے ہیں جبکہ محکمہ حفظانِ صحت کا سربراہ اِن کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور عوام اس قسم کے اشتہارات پر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی مگرسب سے بڑا اندیشہ تواُس وقت دل میں گھر کرجاتا ہے جب اخبارات کے ان اشتہاروں میں یہ سطر بھی دیکھنے کو ملجاتی ہے کہ “یادرکھئے! پاک و صاف پانی کا نہ تو کوئی رنگ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مزہ اورخوشبو۔” کاش یہ بھی بتا دیا جاتا کہ ہائیڈروجن گیس کے دو سالمے، آکسیجن گیس کے ایک سالمے سے ملنے کے بعدجو شے بناتے ہیں وہ پانی کہلاتی ہے۔ پڑوسی ملک کے سائنس دانوں نے پانی کی اس تعریف میں ایک جملے کا اخلاقی اورمذہبی اضافہ بھی کرلیا ہے۔ اُن کے مطابق ان دونوں گیسوں کے سالمے جب تک آپس میں مل ہی نہیں سکتے جب تک انھیں ملانے میں خدائی مرضی شامل نہ ہو۔ شاید اس لیے چاند پر پانی شروع میں دریافت نہیں کیا جا سکا اگرچہ وہاں آکسیجن بھی تھی اور ہائیڈروجن بھی مگر یہ دونوں گیسیں چاند پر الگ الگ آزاد حالتوں میں تھیں۔ خدا کی مرضی نہیں تھی کہ دونوں ملیں جس طرح اگرخدا کی مرضی نہ ہوتو مجال ہے کہ دو محبت کرنے والے دل بھی مل سکیں۔(اگراب چاند پر پانی دریافت کرلیا گیا ہے یہ بھی خدا کی مرضی ہے)

پتہ نہیں اس قسم کے اشتہارات بچکانہ ہیں یا کسی حملہ آورفوج کے آگے آگے دوڑتےہوئے ڈھول بجا بجا کر آنے والی موت سے خبردار کرنے والے بھانڈوں اور مسخرے۔ یہ اس سے زیادہ اورکیا خبردے سکتے ہیں یا اس کے علاوہ اورکیا بتا سکتے ہیں کہ صاف پانی کا نہ کوئی رنگ ہوتا ہے نہ مزہ اور نہ خوشبو، اگرخدا چاہے تو۔

Water is a lot like people
Not every person is drinkable
Some people carry demons
You cannot rip them off
People can cause damage like other
Some say, that lonliness is killer.
Water is a lot like love
Love causes destruction
Love is different temperatures
Love is antidote to pain and the virus itself
So when you reach the end of your Journey
Remember water and all of its different forms
Remember the abuse
Remember the revival
Because it is all there
We simply do not look close enough.
Authentic

تم نے دریائی گھوڑے کی آنکھیں دیکھی ہیں
شاید نہیں
زمین سے عجیب کوئی سیارہ نہیں
پانی زمین کا بچہ ہے
ہم سب مٹی کی کھاٹ پر لیٹے سو رہے ہیں
کھاٹ کے نیچے
فنا کا پانی ہے
ندی جب چاہے اپنی راہ بدل لتی ہے
مگرزمین اورآسمان کو
تقسیم کردینا
یہ بد سلیقگی ہے
دریائی گھوڑے نے کہا
میں تو تمھارے گھر مچھلیاں کھانے نہیں آسکتا
مگرپانی آسکتا ہے جس میں میرا گھر ہے
دریائی گھوڑے کی اُداس آنکھوں میں
جلےہوئے وصیت ناموں کی راکھ تھی
زمین کے اندر پانی نے کہا
میں بھی اُدھر چل رہا ہوں
مجھے ماں کی دی ہوئی بد دُعائیں یاد ہیں
خالد جاوید

[dropcap size=big]اتنی[/dropcap]

بات تو ہرکوئی جانتا ہے کہ زندگی کی شروعات پانی سےہوئی ہے۔ چار سو سال قبل مسیح یونان کے مشہوو فلسفی تھیلس نے تو پانی کو ہی حقیقت مطلق قراردےدیا تھا۔ مگرزندگی کے ساتھ ساتھ پانی موت اورفنا کی بھی علامت ہے۔زمین پر پانی کے مقابلے خشکی کا حصہ صرف ایک تہائی ہی ہے۔ انسانی جسم کاسترفیصد حصہ پانی ہی ہے۔ قدیم یونان میں پانی کو ایک عظیم دیوتا کا درجہ دیا گیا تھا اوربعد میں جل پری، بنت البحر، آبی حسینہ اور شریر آبی بونے کی ایجاد بھی کرلی گئی تھی۔ وہ مقدس مقامات جہاں دیوتا پیش گوئیاں کرتے تھے، دریاؤں کے کنارے ہی واقع تھے۔ ان کی قدیم عبادت گاہیں اور پرانے بڑے گرجا گھر بھی پانی کے ہی قریب تعمیر کیے گئے تھے آج بھی بپتسمہ کی رسم پاک و صاف پانی کے ذریعے ہی ادا کی جاتی ہے۔ پانی اگرچہ رقیق مادہ ہے مگردرجہ حرارت کی مناسبت سے ٹھوس مادے میں بھی بدل سکتا ہے اور گیس یا ہوا بن کر اڑ بھی سکتا ہے۔ پانی کی مبادیات اتنی آسان نہیں۔ مگردورِ حاضر میں (1988) فرانس کے ایک سائنس دان ژاک بین وِن نے ہومیو پیتھی کےعلاج کے تعلق سے پانی کے بارے میں ایک عجیب و غریب نظریہ پیش کیا۔ ژاک بین وِن کا کہنا تھا کہ پانی کی اپنی ایک باقاعدہ یادداشت بھی ہوتی ہے۔ اِس تھیوری کے مطابق پانی میں جو مادہ بھی گھولا جاتا ہے پانی اُسےبھولتا نہیں، یاد رکھتا ہے۔ اگرکسی مادے کو پانی میں بار بار تحلیل کیا جاتا رہے، یہاں تک کہ جب اُس مادے کا کوئی بھی سالمہ پا نی میں باقی نہ رہے اورپھر اس پانی کو جب کسی دوسرے صاف پانی میں ملایاجائے تو وہی مادہ اپنے کچھ سالموں کی شکل میں اُس صاف پانی میں دوبارہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ہو میو پیتھک دوائیاں اسی عقیدے کی بنا پر بنائی جاتی ہیں۔ سائنس دانوں کی ایک بڑی جماعت نے بین وِن کے نظریہ کو قبول نہیں کیا ہے مگراس موضوع پر مزید تحقیق جاری ہے۔

دنیا کے ہرمذہب میں پانی کو ایک پاک صاف اور روحانی شے مانا گیا ہے۔ پانی سے بہت سی بیماریوں کاعلاج کیا جاتا ہے۔ جگہ جگہ ہائیڈروتھیریپی سینٹر کھل گئے ہیں۔ ہندوستان میں بہت سی ندیوں کو پوترمانا گیا ہے جن میں دریائے گنگا کو اولیت حاصل ہے کہ اُس میں نہا لینے سے انسانوں کے پاپ اوراُن کے سارے برے افعال مٹ جایا کرتے ہیں۔ گنگا میں نہانے کے بعد وہ اتنے ہی مقدس ہوجاتے ہیں جتنے کہ وہ تب تھے جب اپنی ماں پیٹ سے اُن کا جنم ہوا تھا۔ ہر گندی شے پانی سے ہی پاک ہوتی ہے۔ پانی ہی ہے جووقت کی طرح بہتا ہے اور پانی ہی ہے جو سر سے اونچا ہوجائے تو موت کو وہاں اپنے پیر جمانے میں بڑی سہولت مل جاتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پانی پر دُعائیں پڑھ پڑھ کر دَم کی جاتی ہیں اور کبھی کبھی بددُعائیں بھی۔ پانی سب یادرکھتا ہے۔ ساری دُعاؤں اور بددعاؤں کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ وہ بولےگئے لفظوں کو اپنی یادداشت سے کبھی باہر نہیں جانے دیتا۔ اُس کا حافظہ دائمی ہے۔ اُس میں نقش اور تعویذ گھول کر بیماروں کوپلائےجاتے ہیں اورکبھی کبھی محبوب کو اپنے بس میں کرنے کے لیے یا اُس کا دل کسی کی طرف سے پھیر دینے کے لیے۔ لفظ پانی میں تحلیل ہوجانے کے بعد امر ہوتے ہیں۔ ورنہ لغات کے اوراق میں پڑے مُردوں کا عرس مناتا ہے۔ لفظ انسانوں کے ہاتھ آتے ہی بھوت بن جاتے ہیں۔ بھوت زیادہ تر کینہ پرور ہوتے ہیں۔ لفظوں نے دنیا کو تباہ کرڈالا اور پانی، الفاظ اوراُن کی صوتیات کی ملی جُلی سازش کا سب سے بڑا شکار بنا۔ شاید اسی لیے شِو دیوتا کو سمندر کے سارے پانی کا منتھن کرکے اس سے امرت نکالنا پڑا تھا اور وہ رقص ‘تانڈو’ کرنا پڑا تھا جس میں لفظ نہیں ہوتے۔ اس لیے اس رقص کے کوئی معنی بھی نہیں ہوتے۔ یہ اس دنیا کے فنا ہونے کی ایک شکل ہے۔ پانی کوئی مستقل مقام یا مکان نہیں گھیرتا وہ بہتا ہے ہرمقام سے وہ وقت، کال، زمانہ اورموت کو اپنے سیّال کندھوں پر لیے ہوئے گھومتا رہتا ہے وہ پُراسرار حدتک پاکیزہ اورخطرناک حد تک تباہ کن ہے۔

مگرپانی ہی گندا ہوگیا۔ پانی کیسے گندا ہوگیا۔ پانی کو گندا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ گندا پانی گھروں میں چلا آرہا ہے۔ یہ ذلیل کررہا ہے۔ یہ گھٹیا غلیظ پانی جس میں انسانوں کے جسموں کے مَیل کے ساتھ اُترا ہوا صابن، جھاگ، پیشاب کی کھرانداورانسانی فضلے کی دبیز زرد پرت کے ساتھ ایک بھیانک بدبو ہے۔یہ وہ پانی نہیں جسے دیکھ کر کتے کا کاٹا ڈرجایا کرتا ہے۔ یہ وہ پانی ہے جسے دیکھ کر انسان پاگل کتا بن جاتا ہے اورخود بھی سڑتے ہوئے بدبودار پانی میں بدل جاتا ہے۔ جو ٹونٹی کھولو تو یہی سڑاندھ بھرا پانی باہر نکلتا ہے۔ وہ جس شے کو چھو لیتا ہے اُسے بھولتا نہیں۔ وہ اپنے اوپر دم کیے ہوئے کینہ پرور جذبوں کو بھی نہیں بھولتا اوراُن گناہوں کو بھی جنہیں اُس نے دھو کر پاک کیا تھا۔

اب وہی گناہ، پانی انسانوں کو واپس کررہا ہے۔ انسان ہونے کی مجبوریاں ہی انسان کے اصلی اور ازلی گناہ ہیں اوروہی اس کینہ پرورپانی نے اپنے اندر جذب کررکھے ہیں۔ آج وہ انسانوں کو ان کے گناہ لوٹا رہا ہے کچھ اس روپ میں کہ اب ان گناہوں کو پانی سے دھویا بھی نہیں جاسکتا۔

پانی کی سپلائی ناجانے کب سے بند ہے مگروہ غرا رہا ہے۔ زمین کے نیچے سیور لائن کے ٹوٹے، کالے اور مہیب پائپوں میں، ٹنکیوں میں، ٹونٹیوں میں۔ آسیب زدہ پانی زمین کے نیچے لہراتا ہے اورزمین کے اوپر زہریلی دُھند اور پیلا غبار پیداکرتا ہے۔

دورکسی اسپتال کےویران گلیاروں میں عورتوں کے بَین کرنے کی آوازیں اُبھرتی ہیں۔ اس بَین میں آوارہ بلّیوں کے رونے کی دردناک آوازیں بھی شامل ہیں۔ یہ بلّیاں کرائے پر نہیں بلکہ بَین کرنے والی عورتوں کے لیےمفت میں حاصل ہوجانے والی رودالیاں ہیں۔

[dropcap size=big]لائف[/dropcap]

لائف اپارٹمنٹس اوراُس کے آس پاس کی دوسری کالونیوں میں پانی کی سپلائی مکمل طورپر روک دی گی۔ جل بورڈ والوں نے پانی کے ٹینکروہاں لے جا کر کھڑےکر دیے مگراتنے بڑے رقبے میں پانی کے محض دو ٹینکر ناکافی تھے۔ وہ اپنے اپنے برتن اور بالٹیاں لیے ہوئے ٹینکر کے سامنے قطار بنا کر کھڑےہو گئے مگر یہ قطارانسانوں کی تھی چیونٹیوں کی نہیں کہ زیادہ دیر برقرار رہتی۔ اس لیے ایک گھنٹے کے اندر ہی وہاں حشرکا ساماں برپا ہوگیا۔ وہ قطاریں توڑ کر ٹینکر کی ٹونٹیوں پر جھپٹنے لگے۔ وہ ایک دوسرے کو دھکے دے رہے تھے۔ گالیاں بک رہے تھے۔ عورتیں تو بری طرح شورمچا رہی تھیں۔ کسی نے کسی کے سر پر بالٹی دے ماری۔ کوئی زمین پر گرپڑا تھا اوراُس کی بالٹی ٹوٹ گئی تھی۔ آہستہ آہستہ زیادہ تر کی بالٹیان اُلٹ گئیں۔ صرف نچلی منزل پر رہنے والے اپنی بالٹیوں کو حفاظت کے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہوئے۔ زمین پر کیچڑ اور پھسلن ہو گئی تھی۔ اس افراتفری میں وہ پھسل پھسل کر گرنے لگے۔ چوٹیں کھانے لگے۔ اُن کے گھٹنوں اور کہنیوں سے خون نکلنے لگا۔

سب سے بڑی مصبیت اُن بوڑھوں کی تھی جو اکیلےرہتے تھے۔ اُنھیں پانی کی ایک بوند بھی نہ مل سکی۔ کالونیوں میں رہنے والےکچھ زیادہ ہی صاحبِ حیثیت لوگوں نے آرڈر دے کر منرل واٹر کے جار اور بولتیں منگوانا شروع کردیں۔ دودن بعد یہ ہوا کہ کئی منرل واٹر کمپنیوں نے اِدھر آکر وقتی طورپر کیمپ لگائے اوراپنی اپنی ایجنسیاں کھول لیں۔ آپس میں مقابلہ آرائی شروع ہو گئی۔ کولڈ ڈرنگ بنانے والی کمپنیاں بھی اس دوڑ میں کیوں پیچھے رہتیں۔ آخر کولڈڈرنک میں پانی تو ہوتا ہی ہے۔ اس وقت تو اگروہاں خون بھی فروخت کیا جاتا تو وہ بھی کم پڑجاتا۔ خون میں بھی آخر پانی تو ہے ہی۔ کولڈ ڈرنک کے مختلف برانڈوں کے اشتہارات دیواروں پر چسپاں نظرآنے لگے۔ جس میں فلم اسٹاروں اور کھلاڑیوں کی، ایسی تصویریں نظرآنے لگیں جن میں وہ ایک خاص برانڈ کی بوتل منھ میں لگائے ہوئے نروان حاصل کررہے تھے۔

آندھی کو پتہ نہیں کس نے اپنی جھاڑو سے کاٹ دیا تھا کہ وہ اپنے پیلے غبار کے ساتھ یہیں رُکی کھڑی تھی۔ اس شدید حبس اور گرمی سے اور پیاس سے تڑپتے ہوئے، کالونی کے باشندوں کو کولڈڈرنک کی کتنی ضرورت ہوگی اوراُن کے بچے کتنے خوش ہوئے ہوں گے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

کمپنیاں تین ہی دن میں مالا مال ہو گئیں۔ اُنھیں سپلائی دینا مشکل ہوگیا۔ دوسرے شہروں سے پانی کی بوتلیں اور کولڈڈرنک لادے ہوئے چھوٹے ٹرک ہر وقت آتے جاتے دکھائی دینے لگے۔ مگران ٹرکوں کے ساتھ ساتھ ان اطراف میں ایمبولینسوں کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی۔ تقریباً ہر فلیٹ سے کوئی نہ کوئی، روز ہی اسٹریچر پہ لیٹا ہوا ورایمبولینس میں ڈال کر لے جایا جاتا ہوا نظرآنے لگا۔

مگردنیا اتنی بلیک اوروہائٹ نہیں ہے کہ سکھ اور دُکھ کے راستے آسانی سے الگ الگ پہچانے جاسکیں۔ جہاں یہ دونوں دھارائیں ملتی ہیں وہاں ایک نیلا بونڈ رہے جس کے پار دیکھا نہیں جا سکتا۔ دنیا اتفاق سے رنگین ہے۔ رنگ ہمیشہ مخمصے میں ڈالتے ہیں۔ اس لیے دنیا معمہ ہے۔

چنگی کے الیکشن قریب آرہے تھے۔ سیاسی پارٹیوں نے اپنی تگ و دوشروع کردی۔ ہر پارٹی کا اُمیدوار اس بیمار علاقے کے مسیحا کے روپ میں سامنے آنے کی کوشش کرنے لگا۔ ہرپارٹی کے کارکن حکام کے دفتروں کے سامنے دھرنا دے کر بیتھ گئے اورپانی پانی کے نعرے لگانے لگے۔ ٹیلی وژن والوں کی بھی چاندی ہو گئی تھی۔اُنھیں کچھ اور نہیں ملا تو وہ ماضی میں پھیلنے والی وباؤں کی تاریخ دہرانے لگے۔ مثلاً کالی موت اور پلیگ کس کس زمانے میں پھیلے تھے اور کتنی اموات ہوئی تھیں۔ اسپینی انفلوئینزا نے کب اور کتنے لوگوں کو ہلاک کیا تھا۔ چیچک نے کیا قیامت ڈھائی تھی اورسب سے بڑھ کر کالرانے اورپھر پرندوں اور سُوروں میں پھیلنے والے فلو وغیرہ وغیرہ۔ وہ یہ بھی اطلاع فراہم کرنے لگے کہ تحریک خلافت کے دوران مہاتما گاندھی اسپینی فلو ہوگیا تھا جس کے سبب یہ تحریکِ وقت سے پہلے ہی کچھ کمزور پڑگئی تھی اوریہ بالکل اُسی طرح تھا جیسے کسی مشہور فلمی ہیرو کی موت کے موقع پر ٹیلی وژن پر نہ صرف اُس کی فلمیں دکھائی جاتی ہیں بلکہ اُن ہیروئنوں کے چہرے بھی دکھائے جاتے ہیں جن کے ساتھ اُس ہیرو نے کام کیا تھا۔

کچھ دنوں بعد اس علاقے میں دودھ والوں نے آنا بند کردیا۔ شاید اِس وجہ سے کہ کچھ لوگوں نے اُن پر دودھ میں گندا پانی ملانے کا الزام لگایا تھا۔ ممکن ہے کہ یہ ایک افواہ ہو مگرافواہوں کی اپنی ایک سماجیات بھی ہوتی ہے۔ افواہیں گرم تھیں۔ اُن کے پر نکل آئے تھے اور وہ اُڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جایا کرتی تھیں۔ مثلاً کولڈ ڈرنک اورپانی کی بوتلوں میں بھی گندے پانی کا استعمال کیا جا رہا تھا اور میونسپل کارپوریشن کے ٹینکروں میں بھی۔ یہ بھی اُڑتے اُڑتے سنا گیا کہ یہ وائرس اب شہر کے دوسرے حصوں میں بھی پھیل گیا ہے۔ ایک ٹی۔وی۔ چینل، جو ہمیشہ بھوت پریتوں کے قصے سناتا اوربے پَرکی اُڑاتا رہتا ہے، نے تو حد کردی۔ اُس نے ایک رپورٹ نشر کی جس کے مطابق ان کالونیوں کے باشندے کولڈ ڈرنک کی بوتلوں کا استعمال حوائج ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد خود کو صاف کرنے کے لیے کررہے ہیں۔ اس رپورٹ کے نشر ہوتے ہی بازار میں ٹوائلٹ پیپر ملنا دشوار ہو گیا۔ ٹوائلٹ پیپر بنانے والی کمپنیوں کے سیلز مین ہرکالونی کے باہر خوانچے والوں کی طرح صدائیں لگا لگا کر ٹوائلٹ پیپر بیچنے لگے۔ ایک ایسے بھیانک وائرس کے وجود میں آنے کی افواہ گشت کرنے لگی جو پانی سے پیدا ہوتا تھا۔ زمین اور مٹی میں گھومتا تھا اورہوا میں اُڑتا تھا۔ اُس کا وزن زیادہ تھا اس لیے ہوا میں آکر دھوپ کی گرمی سے متاثرہوکر بے ہوش ہو جاتا تھا۔ اس وائرس کا شکار ہونے والے کو جو کوئی بھی چھو لیتا تھا وہ بھی اس بیماری میں مبتلا ہو جاتا تھا۔ اس وائرس کا علاج کچھ نہ تھا، سوائے ایک ذلیل موت کے۔

مگرہمیں افواہوں کو اتنی غیرسنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔ افواہیں اپنے حصے کا سچ گہرے راز کی طرح محفوظ رکھتی ہیں۔ جس طرح اونٹ اپنے کوبڑ میں پانی کو محفوظ رکھتا ہے۔ افواہیں دراصل اُس رنگ برنگی تتلیوں کی طرح ہوتی ہیں جنہیں پکڑ لینے کے بعد اُن کے پروں کا رنگ ہماری اُنگلیوں میں چپک جاتا ہے۔ ایک ناقابلِ یقین رنگ۔

[dropcap size=big]نیشنل[/dropcap]

انسٹی ٹیوٹ آف ویرالوجی کے سائنس دان اس وائرس کے کوڈ کو کریک نہیں کرسکے۔ بس اتنا ہی معلوم ہوشکا کہ کبھی یہ وائرس کی طرح حرکت کرتا نظرآتا ہے اور کبھی بیکٹیریا کی طرح۔ وائرس بیکٹیریا سے بھی بہت چھوٹے خوردبینی اجسام ہوتے ہیں۔ کچھ بیکٹیریا انسان کے دوست اوراُن کے لیے مفید بھی ہوتے ہیں مگروائرس کبھی کسی کا دوست نہیں ہوتا۔ وہ انسان کو پیڑپودوں اورگھاس سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔ وہ اپنے آپ کو پروٹین کی ایک دبیز چادر میں چھپائے رکھتا ہے۔ وائرس طفیلی اجسام ہیں۔ اُن کو اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے دوسرے زندہ خلیوں کی ضرورت رہتی ہے۔ ان کی درجہ بندی نہ تو نباتات میں کی جاسکتی ہے اور نہ ہی حیوانات میں۔ ان دونوں کے درمیان واقع ہونے پر یہ کبھی کسی طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور کبھی کسی طرح کا۔ وائرس ہیجڑوں کی طرح پُراسرار اور ناقابلِ یقین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر اینٹی بائیوٹک دواؤں کا اثر نہیں ہوتا کیونکہ اُن میں اُس قسم کی جان ہے ہی نہیں جو کبھی جسم میں ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔ کونسل فارمیڈیکل ریسرچ ابھی اس وائرس کے لیے کوئی دوا تجویز نہیں کرسکتی۔ جہاں تک ویکسین کا سوال ہے تو اُس کے بارے میں بھی تحقیق کی جارہی ہے۔ ویکسین کا تعلق جسم کے مدافعتی نظام سے ہوتا ہے۔ نہ کہ دوا کے ذریعے کیے جانے والے علاج سے۔ اس تحقیقی کام میں کونسل فار میڈیکل ریسرچ کے ساتھ فارسیلولر اینڈ مولیکولر بیالوجی، کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ اور مرکزی حکومت کا ڈپارٹمنٹ آف بایو ٹیکنالوجی بھی شامل ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف سوائل ریسرچ کی ٹیم بھی اپنی تحقیق میں کچھ نہیں پاتی۔ اس کی رپورٹ صرف یہ تھی کہ اس علاقے کی مٹی چکنی اور جڑی ہے۔ جسے دومت مٹی بھی کہتے ہیں۔ یہ مٹی پوری طرح سے صاف اور قطعی غیر آلودہ ہے۔ یہاں کے کھیتوں سے اُگائے جانے والی گیہوں، چاول اوردالوں کی فصل ملک کے دوسرے خطوں کی فصل سے زیادہ صحت مند، تغذیہ بخش اور صاف ستھری ہے۔ یہاں کے باغات اور گنے اور کپاس کی پیداوار بھی قابلِ رشک ہے۔ فصلوں اورپیڑپودوں کو لگنے والی بیماریاں برائے نام ہیں۔ مہلک حشرات کش کی تعداد بھی مٹی میں تناسب یا اعتدال سے زیادہ نہیں ہے۔ کوئی بھی وائرس یا جراثیم ایک دن میں پیدا نہیں ہو سکتا۔ اُس کے اندر سالہا سال پرانے ڈی۔ این۔اے۔ اور آر۔ این۔ اے۔ کی پرتیں موجود ہوتی ہیں۔ یہ اُس زمانے سے موجود ہیں جب آدمی غاروں میں رہا کرتا تھا۔ یہ جراثیم اور وائرس بھی غاروں میں موجود تھے، کبھی چمگادڑوں میں بطور طفیلی رہ کر اور کبھی سانپ بچھوؤں میں۔ اس علاقے کی مٹی میں کسی قسم کے خطرناک یا پُراسرار خوردبینی اجسام نہیں پائے گئے ہیں۔

جیولوجیکل سروے کرنے والی ٹیم نے زمین کے اندر بہت گہرائی میں موجود پانی کا معائنہ کیا اور پایا کہ زیرِ زمین پانی کی سطح، اس پورے رقبے میں پوری طرح صاف اور بے ضرر ہے مگرآس پاس خشک چٹانیں موجود ہونے کی وجہ سے، جو قدیم ترین اراولی پہاڑوں کی نشانیاں ہیں پانی میں کیلشیم، میگنیشیم اور سوڈیم کی تعداد کچھ زیادہ ہے مگروہ خطرناک آلودگی کے زمرے میں نہیں آتی ہے۔ پانی میں کسی بھی قسم کی بیماری پھیلانے والے اجسام نہیں پائے گئے ہیں۔

اسی طرح مٹی پر ریسرچ کرنے والوں، پانی کا معائنہ اوراُس کا علاج کرنے والوں اور سِول انجینئروں، سب نے اس معاملے سے اپنا اپنا پلّہ جھاڑلیا۔ اب صرف اس بات کا انتظار ہے کہ وائرس ہو یا جو بھی اَلا بَلا ہو، مریضوں کے خون کی جانچ میں اُس کا بغور مطالعہ اور مشاہدہ کب تلک کیا جائے گا اورکس نتیجے تک کب تک پہنچا جائے گا۔ اس سلسلے میں ممکن ہے کہ ملک کے تحقیقاتی اداروں اور لیبارٹریز کو باہری ممالک سے مدد مانگنا پڑے۔ ہماری مشینیں اور دوسرے آلات اتنے جدید نہیں ہیں۔ دیکھا جائے تو سائنسی تحقیق کا معیار ہی یہاں تسلی بخش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے بڑے بڑے دماغ وطن چھوڑ کر ترقی یافتہ ملکوں کی راہ لیتے ہیں اورپھرانہیں کی خدمات کے لیے ہمیشہ کے لیے وہیں کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔

لیکن یہ سب بہت آئیڈیل بیان ہے اوراس کا کوئی تعلق بدنصیب انسانوں کے مصائب اورمسائل سے نہیں ہے۔ یہ سب رواداری کی باتیں ہیں اورسیاسی رنگ سے رنگی ہوئی بھی ہیں۔ اس رنگ کے علاوہ بھی دنیا میں بہت رنگ ہیں۔ ہر تماشے، ہر کھیل اورہر فلم کا اپنا ایک رنگ ہوتا ہے۔ ان رپورٹوں اور اخباری بیانات سے الگ، وہاں انسانوں کی اصل دنیا میں ایک دوسرا تماشہ چل رہا ہے۔

[dropcap size=big]قیامت[/dropcap]

تو گویا اُس دن آگئی جب اِس خبرکو سرکار کی طرف سے مستند قرار دے دیا گیا کہ نہ صرف لائف اپارٹمنٹس اوراُس کے نواحی علاقوں میں بلکہ شہر کے دوسرے حصوں میں بھی اس وائرس سے متاثر مریض پائے گئے ہیں۔ سرکار نے اس سلسلے میں ایک وہائٹ پیپر بھی جاری کردیا جس میں اس سنگین مسئلے سے نپٹنے اور لڑنے کے لیے اُٹھائے جانے والے اقدامات اوراُن کے جواز کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا تھا۔ حالات اب اس درجے تک بگڑ چکے تھے کہ اسپتالوں کے ڈاکٹر اور نرسیں بھی بیماری کی زد میں آچکے تھے۔ یہی نہیں خون اور پیشاب وغیرہ کی جانچ کرنے والی لیبارٹریز کا عملہ بھی بیمار پڑنے لگا لہٰذا اب اِس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں بچی تھی کہ یہ ایک بہت ہی خوفناک اور چھوت چھات سے پھیلنے والی بیماری تھی جو ایک انسان سے دوسرے انسان تک بجلی کی سی تیزی کے ساتھ پہنچ سکتی تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایک شخص سے دوسرے شخص تک پہنچنے میں اسے صرف گیارہ سیکنڈ لگتے تھے۔ حالت یہ تھی کہ اس انتخابی حلقے کا ایم۔ایل۔اے۔ تک بخار، دستوں اور اُلٹیوں میں مبتلا تھا۔ ضلع کا حاکم آئی۔ اے۔ایس۔، میونسپل کارپوریشن کا چیف انجینئر، محکمہ ہیلتھ کا ڈائریکٹر، شہر کا میئر اور وہ بلڈر بھی۔ کون تھا جو اس بیماری کی زد میں نہیں آگیا تھا۔ یہ خطرناک تو تھا ہی مگرکچھ کچھ مضحکہ خیز بھی۔ اب سب کو یقین آگیا تھا کہ یہ بری طرح پھیلنے والی وَبا ہے۔ اسی لیے کتوں اور بلیوں نے رات میں، آسمان کی طرف منھ اُٹھا اُٹھا کر پہلے ہی سے رونا شروع کردیا تھا۔ جو لوگ ابھی اس بلا کی زد میں نہیں آئے تھے، انھوں نے ردِ بلا کی دُعائیں پڑھنا اور ایک دوسرے کو بھیجنا شروع کردیں۔ بہت سوں نے صدقے دینا شروع کردیے۔ اتنی بڑی تعداد میں جان و مال کے صدقے دیتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ ایسا نظرآنے لگا جیسے صدقہ دینے والوں کا ایک میلہ لگا ہوا ہے جس طرح گاؤں میں ہفتہ بازار لگتے ہیں اوراُن میں جگہ جگہ گیہوں، چاول اور چنے کے اونچے اونچے ڈھیر لگے ہوئے نظرآتے ہیں۔ مگراُنھیں نہیں معلوم کہ خدا کے فیصلے انسانوں کے فیصلوں سے یکسر مختلف ہوتے ہیں اور کبھی کبھی تو بالکل ہی مخالف۔ خدا کے بھید خدا ہی جانتا ہے یا وہ جو اُس جیسا ہو۔

اُدھر اسپتالوں میں مرنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ لاشوں کے پہلے تو پوسٹ مارٹم کیے جاتے اورپوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر شراب کے نشے میں چور ہوکر، مگرپھر بھی ڈرے اور سہمے ہوئے مُردہ جسموں پر اپنے بُغدے چلاتے۔ جب لاشیں اُن کے لواحقین کے سپرد کردی جاتیں تواُنھیں تجہیزو تکفین کے لیے گھر نہیں لے جایا جاتا بلکہ اسپتال سے سیدھے، ایمبولینس میں ڈال کر قبرستان یا شمشان گھاٹ پہنچا دیا جاتا جہاں اُنھیں دفنانے یا نذرِ آتش کرنے میں بہت دِقّتوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ ضروری ارکان پورے کرنے کے لیے ملّا، مجاور یا پنڈت کو دس گنا زیادہ رقم ادا کرنا پڑتی کیونکہ کوئی بھی بیماری کے پوٹ بنے مردہ جسم کو نہ تو غسل دینا چاہتا تھا اور نہ ہی ہاتھ لگانا۔ اس لیے کم سے کم ارکان میں ہی کام چلایا جانے لگا۔ لوگ کسی اور وقت مرنے کی دُعائیں مانگنے لگے۔ وہ اس وبا میں مرکر اپنی لاشوں کی ایسی بے عزتی اور بے حرمتی نہیں کرانا چاہتے تھے۔ مگرکیا یہ صرف لاشوں کی بے عزتی تھی۔ نہیں سب سے بڑھ کر تو یہ موت کی بے عزتی تھی۔ موت جو اتنی شیخی خور واقع ہوئی تھی۔ لوگ جس سے ڈرتے تھے، مگراحترام بھی کرتے تھے۔ اج اتنی خوار ہوکر گلیوں گلیوں بھٹک رہی تھی اُس کی اوقات اُس معمولی چور کی طرح ہو گئی تھی جو کسی کے گھر میں نقب لگانے سے پہلے، کئی دن پہلے اُس گھر کے چاروں طرف گھومتا رہتا ہے۔ محل ِ وقوع کا جائزہ لینے کے لیے اور ماحول کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے کبھی کبھی بھیک مانگنے کے بہانے چور گھر کے دروازے سے اندر ہی چلا آتا ہے۔ تاکہ دیکھ سکے کہ کون سا کمرہ کہاں ہے اور وہ جگہ کہاں ہو سکتی ہے جہاں مال چھپا کررکھا گیا ہوتا۔ بالکل اسی طرح چھپ چھپ کرموت بھی گھر دیکھنے آنے لگی۔ کبھی بیماری کے بہانے، کبھی خودکشی کے بہانے اور کبھی قتل کے بہانے۔ موت بری طرح ذلیل ہو رہی تھی۔ لوگ اُس پر تھوکتے تھے۔ اورجسم

جسم کو تو روح نے اپنی بنائی ہوئی خوفناک اندھیری جیل میں قید کرکے ڈال رکھا ہے۔ نہ جانے کب سے روح خود تو ہرتماشے سے ماورا تھی مگرسرکس کے تنبو کے سارے بانس جسم میں ہی گڑے ہوئے تھے۔ انسانی جسم ہی ہرڈرامے کا اسٹیج بنتا آیا ہے۔ سارا کھیل جسم کی سرحدوں کے اندر ہی کھیلا جاتا ہے۔ موت کی ریاضی بھلے ہی بدل گئی ہو مگرتختہ سیاہ تو انسان کا مقدر کا مارا جسم ہی تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ جیسا لوگ کہتے ہیں کہ یہ وقت خراب تھا۔ وقت کبھی اچھا نہیں ہوتا کیونکہ جانداروں کا جسم وقت میں ہی موجود رہتا ہے۔ وقت سے ماورا ہوکر جسم اپنے آپ کو دُکھ سے آزاد کرسکتا ہے۔ مگرہم سب ابھی وقت میں ہی جی رہے ہیں۔ وقت سے باہر نہیں۔

خبریں ساری دنیا میں پھیلنے لگیں۔ اقوامِ متحدہ اور عالمی ادارہ صحت نے بھی اس معاملے میں دلچسپی لینا شروع کردی اورپھر وہی ہوا جس کی افواہ پہلے ہی سے گشت کررہی تھی۔ یعنی احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے آخرکار حکومت نے چالیس کلومیٹر کے رقبے میں پھیلے ہوئے اس علاقے کو پوری طرح سِیل کردیا۔ اب نہ کوئی یہاں سے جا سکتا تھا اور نہ کوئی یہاں آسکتا تھا۔ دیکھا جائے تو تمام شہر کی ناکہ بندی کردی گئی۔ لوگوں کو اپنے اپنے گھروں میں علیحدگی کے ساتھ رہنے کا حکم دے دیا گیا۔ موبائل نیٹ ورک بھی منقطع کردیا گیا۔اس سے یہ امر بھی آشکار ہوتا ہے کہ محض بیماری بھی انسانوں کو ایک دوسرے سے الگ کرسکتی ہے۔ ایک بخار، کھانسی کا ایک ٹھسکہ، حلق سے باہر آتی ہوئی ایک اُلٹی اور فالج کا ایک حملہ ہمارے اور بیمار کے درمیان ایک دیوار کھڑی کرسکتا ہے۔ اس دیوار کو توڑنا آسان کام نہیں۔ تیمارداری کی اخلاقیات بھی اس پردے کی دیوار کا احترام کرتی ہے۔ اکثر حالات کے مطابق ضرورتوں کوڈھالا جاتا ہے۔ مگرجب ضرورت زیادہ بڑی ہو، زندہ رہنے کی ضرورت تو پھراُس کے مطابق صورتِ حال کی ایجاد کرلی جاتی ہے۔

لائف اپارٹمنٹ، رفیق انکلیو، جنت باغ، فلوراگارڈنز اور دوسری سوسائٹیز کے گرد پولیس کا محاصرہ کردیا گیا۔ بحالتِ مجبوری وہاں اپنا ڈیرہ جمائے بیٹھی ہوئیں منرل واٹر اور کولڈ ڈرنک کی کمپنیوں کی ایجنسیاں بھی اپنی دکانیں بڑھا گئیں۔ حفاظت کے خیال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جل بورڈ کے پانی کے ٹینکر بھی یہاں سے ہٹا لیے گئے۔ اب جو بھی تھا، جہاں بھی تھا، وہیں محصور ہو کر رہ گیا۔ بیماری اب ایک جرم تھی، ایک سماجی انحراف۔ جس گھر میں کوئی موت واقع ہوتی اُس گھر کے دروازے پر کراس کا نشان لگا دیا جاتا اور پولیس والے اُس میں رہنے والے دوسرے افراد کو اپنے ساتھ کار میں بٹھا کر کہیں دور لے جاتے، شاید زندہ انسانوں کا بھی کوئی قبرستان تھا۔ اُسی اندھیرے میں اُنھیں دفن کرنے وہ اُنھیں بھی لے جاتے جو بیمار نہ تھے۔

یہ تو اچھا تھا کہ اس شہر میں کوئی ہوائی اڈہ نہیں تھا، ہاں مگرایک فوجی ہوائی اڈہ ضرور تھا مگر احتیاطی تدابیر کے طورپر فی الحال اُس کی اُڑانیں بھی روک دی گئی تھیں کیونکہ یہ علاقہ ایئر فورس کا لونی کے نزدیک تھا اور ملٹری چھاؤنی بھی یہاں سے تقریباً ملی ہوئی تھی۔ چاند ماری کے میدان میں ہونے والی فائرنگ کی آوازیں لائف اپارٹمنٹس میں رہنے والے اکثر سنتے رہتے تھے۔ شہر کے اس حصے کو دوسرے حصے سے منسلک کرنے کا کام، کالی ندی پر بنا ہوا ایک پرانا کنگورے دار سفید پُل کرتا تھا۔ اسی پُل کے دونوں سروں پر پولیس کا پہرہ بٹھا دیا گیا۔ پُل کے مغرب میں ایئر فورس کی پرانی کالونی تھی اور مشرق میں ملٹری کے ممنوعہ علاقے میں چاند ماری کا میدا تھا اوراُن دونوں کے درمیان سے کالی ندی بہا کرتی تھی۔ وہ چھوٹی اور پتلی سی ندی جو شمالی پہاڑوں میں واقع کسی جھرنے سے نکل کرآتی تھی اوراِس بات کے لیے بدنام تھی کہ نہ جانے کہاں کہاں سے ‘لاوارث لاشیں’ اس میں بہہ بہہ کرآتی ہیں۔ دراصل کالی ندی کا راستہ بہت گھنے اور خطرناک جنگلوں میں سے ہو کر گزرتا تھا۔

پُل کے اِدھر اور اُدھر دونوں طرف ناکہ بندی تھی۔ دونوں طرف لوگ اپنے اپنے گھروں میں قید تھے، مگرپھر بھی ان دونوں علاقوں میں ایک بڑا اور واضح فرق تھا اور وہ یہ کہ اُدھر پانی کی سپلائی ہو رہی تھی مگراِدھر نل سوکھے پڑے تھے۔ پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔

مگردنیا قائم تھی اگرچہ اب اس دنیا کو بھوگنا، گندے پانی میں پیدا ہونے والی مچھلیوں کو بھون بھون کر کھانے کے برابر ہے۔ سنا ہے کہ گندے اور میلے پانی سے پیدا کی گئی مچھلیاں لذیذ ہوتی ہیں۔

Jesus Christ, you
Travelled through towns
And villages curing
Every disease and illness”
Come to our aid now, that we may
Experience your healing love.

[dropcap size=big]لائف[/dropcap]

اپارٹمنٹس کے فلیٹ نمبر13 میں، جو سب سے اوپری منزل پر واقع ہے، ایک ادھیڑ عمر کا شادہ شدہ جوڑا، ساکت و جامد بیٹھا ہوا ایک دوسرے کو خالی خالی آنکھوں سے دیکھے جارہا ہے۔ برابر والے کمرے میں سے ایک لڑکے کی کھانسی کی آواز لگاتار چلی آرہی ہے۔ نہیں، نہیں۔ یہاں وائرس سے بیمار کوئی نہیں ہے۔ مگراس بات کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ بیماری کے قیمتی خزانے پر صرف اسی منحوس وائرس کا اجارہ تو نہیں۔ دنیا میں ہزاروں طرح کے جراثیم ہیں اور ایسا کوئی اُصول نہیں کہ جس زمانے میں یہ وائرس چھٹّے بیل کی طرح ہر جگہ گھومتا اور منھ مارتا پھر رہا ہو، دوسری بیماریاں یا دوسرے جراثیم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔

لڑکے کو پھیپھڑوں کی پرانی ٹی۔ بی۔ ہے اور لاپرواہی کی وجہ سے اس کا علاج بیچ بیچ میں ٹوٹتا رہتا ہے۔ بیماری بگڑ چکی ہے۔ دن میں کم از کم چارپانچ بار کھانسی کے خشک دوروں کے ساتھ اُس کے منھ سے خون آنے لگتا ہے۔ بخار تو زیادہ نہیں رہتا مگر یہ تو سامنے کی بات ہے کہ ہلکا بخار رہنا زیادہ خطرناک اور کیف پُراسرار ہوتا ہے۔ وہ کھال اور گوشت کے نیچے ہڈیوں میں کسی سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھ جاتا ہے۔ جہاں سے اُسے آسانی سے باہر نہیں نکالا جا سکتا۔

اُس کی قمیض پر خون لگا ہوا ہے۔ عورت نے کہا، میں نے بھی دیکھا ہے۔ قمیض بدلی نہیں مرد نے کہا، تین قمیضیں اور تین پاجامے خون کے دھبوں سے پٹے پڑے ہیں۔ دھوؤں کیسے؟ اب تو بازار میں بھی پانی نہیں مل رہا ہے۔ پینے کے پانی کا بس یہ ایک جگ بچا رہ گیا ہے۔ میں نے جانے کیسے کیسے کرکے اکٹھا کیا ہے۔ مرد اُٹھ کرسامنے لکڑی کے اسٹول پر رکھے ہوئے جگ کے اندر جھانکنے لگتا ہے۔ جھانک کیا رہے ہو، پانی ہے۔ عورت کا لہجہ ناگوار ہے۔ مرد خاموشی سے واپس آکر کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ ذرا دیکھو، وہ بہت زور سے کھانس رہا ہے۔ مرد کہتا ہے، تم ہی دیکھ لو۔ پیدا تو تم نے بھی کیا ہے۔ عورت کا لہجہ ابھی بھی ناگوار ہے۔ جا رہا ہوں۔ مرد تھکی ہوئی آواز میں کہتا ہے اور لڑکے کے کمرے میں چلا جاتا ہے۔ عورت بھی کچھ منھ ہی منھ میں بڑ بڑاتی ہوئی اُس کے پیچھے آرہی ہے۔ تقریباً گیارہ سال کا لڑکا ہے۔ اُس کا چہرہ کھانستے کھانستے سرخ ہو گیا ہے۔ اُس نے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ رکھی ہیں۔ اُس کا سر تکیے میں اس طرح دھنسا ہوا ہے۔ جیسے دلدل میں پھنس گیا ہو۔ اُس کی پتلی پتلی ٹانگیں کانپ رہی ہیں اور پسلیاں چل رہی ہیں۔ عورت اور مرد دونوں زور زور سے اُس کی پیٹھ سہلانے لگتے ہیں۔ نہیں کوئی بات نہیں، بیٹا۔ پھندہ لگ رہا ہے اور کوئی بات نہیں۔ دونوں مل کر کہتے ہیں اوراُن کے جملے شور میں بدل جاتے ہیں۔ پانی۔ پانی۔ لڑکا پھولتی ہوئی سانسوں کے درمیان آہستہ سے بد بداتا ہے۔ اُس کی آواز اُس چوہے سے مشابہہ ہے جو اچانک چوہے دان میں پھنس گیا ہو۔ عورت پانی کے آخری جگ میں سے ایک چھوٹی سی تانبے کی کٹؤری میں پانی اُنڈیلتی ہے۔ پانی نہیں، پانی کی چند بوندیں ہیں۔ پانی کی چند بوندیں لڑکے کے حلق میں ڈال دی جاتی ہیں۔ اور۔ اور پانی۔ اور پانی۔ لڑکا کپکپاتی ہوئی آواز میں کہتا ہے۔ مگرابھی وہ وقت نہیں آیا ہے جب پانی کی کچھ اور بوندیں اُس کے منھ میں اُنڈیلی جائیں گی۔ جیسے جیسے اُس کی کھانسی کم ہو رہی ہے ویسے ویسے اُس کے سرخ چہرے پر زردی واپس رینگتی ہوئی چلی آرہی ہے۔ جلد ہی اس زردی نے لڑکے کے چہرے کو اس طرح ڈھک لیا جیسے مغرب میں ڈوبتے ہوئے لال سورج کو آسمان پر چھاتا ہو زرد غبار ڈھک لیتا ہے۔

اُس کی قمیض اُتاردیں۔ مرد نے آہستہ سے کہا۔ آج نہیں کل۔ شاید کل پانی آجائے۔ عورت نے کمزور لہجے میں جواب دیا۔ پانی کا کیا بھروسہ۔ مرد نے ٹھنڈی سانس لی۔ اور یہ سچ تھا کہ بہنے والی چیزوں کا کوئی بھروسہ نہیں تھا۔ وہ وقت کی طرح ہوتی ہیں۔

مرد کھڑکی کے قریب جاکر کھڑا ہوگیا۔ دونوں وقت مل رہے ہیں۔ شام ہو رہی ہے۔ کچھ دیر پہلے تک مشرق میں اُڑنے والی چیلیں اب تقریباً ڈوب گئے سورج کی چھوڑی ہوئی لالی کے آس پاس، مغرب میں منڈلانے لگی ہیں۔ اچانک لڑکا دوبارہ کھانستا ہے۔ پہلے آہستہ سے کھانسی کا ایک ٹھسکہ آتا ہے، پھر دوسرا اور پھر تیسرا۔ وہ اُٹھ کر باتھ روم سے ملحق دیوار پر لگے ہوئے واش بیسن کی جانب بھاگتا ہے۔ اُس کا منھ اُبکائی کے لیے کھلتا ہے۔ منھ سے گاڑھا گاڑھا خون نکل کر سفید چینی کے بیسن میں گرنے لگتا ہے۔ بیسن پہلے سے ہی خون سے بھرا پڑا ہے۔ وہاں پانی کا قطرہ تک نہیں۔ وہ لرزتے ہوئے ہاتھ سے ٹونٹی کھولتا ہے تو اُس میں سے صرف سرسراتی ہوئی ہوا باہر نکلتی ہے، ایک بھوتانہ ہوا۔

عورت شاید جاہل اور گنوار ہے۔ وہ اپنے سرکو دونوں ہاتھوں سے بے تحاشہ پیٹنے لگتی ہے۔وہ غم اور غصے سے پاگل ہو رہی ہے۔ وہ ایک ڈائن میں بدل گئی ہے جو اپنے بچے کو کھا جاتی ہے۔ مرجا۔ اس سے تو تُو مرجا۔ کل کا مرتا ہوا آج مرجا۔ جینا حرام کردیا۔ مرتا بھی نہیں۔ ہائے میں کیا کروں۔ وہ بے تحاشا منھ بھر بھر کے لڑکے کو کوس رہی ہے اور اپنے سینے پر دوہتھڑ مارے جا رہی ہے۔ جس کے سبب اُس کے بھاری بھاری پستان اس طرح ہل رہے ہیں جیسے زلزلے کی زد میں آگئے ہوں۔

کیوں کوس رہی ہو بچے کو۔ دونوں وقت ملے بھلا کسی کو کوسا جاتا ہے۔ مرد تنبیہ کرتا ہے۔ یہ آمین کی گھڑی ہوتی ہے۔ مرد تنبیہ کرتا ہے۔ تو کیا کروں مارڈالو مجھے۔ واش بیسن میں ابھی تک وہی پرانا خون جمع ہے جو یہ تین دن سے اُگل رہا ہے، اوک رہا ہے خون کیسے بہاؤں۔ پانی کو موت آگئی ہے۔ خون بھرےکپڑے کیسے دھوؤں۔ پانی کو موت آگئی ہے، اسے کیوں نہیں آتی۔ یہ کیوں نہیں مرجاتا۔ عورت زور زور سے چیختی ہوئی فرش پر اُکڑوں بیٹھ جاتی ہے۔ مجھے قے آرہی ہے۔ وہ کہتی ہے اور سوکھی سوکھی اُبکائیاں لینے لگتی ہے۔ جو کراہیت اور صدمے سے متاثر ہونے کے سبب آیا کرتی ہیں۔

لڑکا کپکپاتا ہوا اپنی ماں کے قریب آگیا ہے۔ اُس کے ہونٹوں اور ٹھوڑی پہ خون چپکا ہوا ہے۔ وہ اب کھانس نہیں رہا ہے۔ اُس نے کھانسی کو کسی نا معلوم طاقت کے ذریعے روک لیا ہے۔ امی، امی۔ وہ ماں کا کندھا پکڑتا ہے۔ امی ناراض مت ہو۔ اب نہیں کروں گا خون کی اُلٹی۔ کبھی نہیں کروں گا۔ میری اچھی امی۔ لڑکے کو اس وقت ہلکا بخار نہیں بلکہ تیز بخار ہے۔ سارا بدن تپ رہا ہے اور چہرہ نہ تو لال ہے نہ پیلا۔ چہرہ کالا پڑگیا ہے۔ اُس کی قمیض سے پسینے اور خون کی بھاپ اُٹھ رہی ہے۔ عورت فرش سے اُٹھتی ہے اور زور زور سے روتے ہوئے لڑکے کو چمٹا لیتی ہے۔ عورت کی گردن پر، لڑکے کے منھ اور ہونٹوں پر چپکا ہوا خون خاموشی کے ساتھ آکر لگ گیا ہے۔ ماں بیٹے ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگے ہیں۔ مگررونے کی یہ آوازیں غیر انسانی ہیں۔ انسان ان آوازوں میں نہیں روتے۔

مرد کو اچانک سخت گرمی میں بھی سردی لگنے لگتی ہے۔ اُس کے دانت بجنے لگتے ہیں۔ دانت بجنے کی وجہ سے وہ اُن کے رونے کی آوازیں نہیں سن سکا ہے۔ وہ یہی سوچے جا رہا ہے کہ کاش اُس کی آنکھوں کا آپریشن کامیاب نہ ہوتا، وہ پہلے کی طرح اندھا ہی رہتا۔ آخر اندھا پن ایک نعمت بھی تو ہے۔

اب اندھیرا ہوگیا ہے،جلد ہی سوسائٹی کی سڑکوں اور پارکوں میں لگے ہوئے بجلی کے کھمبے روشن ہو جائیں گے مگرکسی کو یہ نہیں معلوم کہ پانی کب آئے گا۔

کسی کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ جلد ہی یہ بیماری انسانوں کے ساتھ ساتھ کتوں کو بھی اپنی گرفت میں لے لے گی۔ کتے پہلی بار ہر جگہ مٹی کریدتے ہوئے نظرآئے۔ پھر گندگی کرتے ہوئے اورپھر اُلٹیاں کرتے ہوئے۔ اُن کے منھ سے ہرے ہرے جھاگ نکلنا شروع ہو گئے۔ کھرکی اور بالکونیوں میں کھڑے ہوئے لوگوں نے اُنھیں دیکھا۔ پہرہ دیتے ہوئے پولیس والوں نے اُنھیں دیکھا۔ کتےپالتو نہ تھے، مگرکالونی والوں کے لیے اجنبی بھی نہ تھے۔ وہ یہیں گھومتے رہتے تھے اور ہرآتے جاتے کو دیکھ کر محبت سے اپنی دُمیں ہلاتے تھے۔ مگراب منھ میں جھاگ بھرے ہوئے یہ کتے حواس باختہ سے اِدھر اُدھر دوڑتے تھے۔ پھر کسی نامعلوم تکلیف کے سبب زمین پر لوٹیں لگانے لگتے تھے۔ اُن کی آنکھیں دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح سرخ تھیں اوراُن کے جبڑے پھیل گئے ھتے۔ اور کوئی شخص تو گھر سے باہر نکل نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ باہر نکلنے کی سزا جیل تھی۔ مگرکالونیوں میں پہرہ دینے والے پولیس کے سپاہی تو باہر موجود تھے جو سرکار کی طرف سے ڈیوٹی کے لیے دی گئی اپنی اپنی پانی کی بوتلوں کو ایک دوسرے سے چھپا کر رکھتے تھے اور یہ احتیاط بھی کرتے تھے کہ کبھی کھڑکی یا بالکونی میں کھڑے شخص کی نظران بوتلوں پر نہ پڑجائے۔

کتے ان پولیس والوں کو بھنبھوڑنے لگے۔ وہ عجیب و غریب طرح سے پاگل ہو گئے تھے۔ وہ اگرکسی پنڈلی منھ میں دبالیتے تو چھوڑتے ہی نہیں تھے اور طرح طرح کی غراہٹیں اپنے حلق سے نکالتے رہتے جن میں شدید غصے کے علاوہ ایک ناقابلِ فہم قسم کی تکلیف بھی شامل تھی۔ اُن کے سر اور جسم کو ڈنڈوں سے بے تحاشا مارا جاتا تب کہیں جا کر وہ اُس چبائی گئی پنڈلی کو چھوڑتے مگرجیسے ہی وہ یعنی کتے ہٹتے، اُں کے کاٹے کا شکار وہ بدنصیب پولیس والا فوراً ہی کتوں کی ہو بہو آواز میں بھونکنے لگتا۔ چاروں ہاتھ پیروں پر چلتا ہوا، وہ دوسرے آدمیوں کو کتے کی طرح ہی کاٹنے کے لیے دوڑتا۔ اُس کی آنکھیں لوہار کی بھٹی کی طرح سرخ ہوتیں اور جبڑے پھیل جاتے۔ جلد ہی ان اطراف میں نظرآنے والے ہرکتے کو دیکھتے ہی گولی ماردینے کا حکم صادر کردیا گیا اورشاید اُس شخص کو بھی جسے کتے نے کاٹا ہو۔ اگرچہ یہ یقینی طورپر نہیں کہا جا سکتا۔

مگرکیا اس دنیا کے بارے میں یقینی طورپر کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ کیا دنیا اپنی مرضی سے اب ختم ہونے والی تھی۔ اگر ایسا تھا تو زمین اور فطرت کو اپنے کام کرنے سے روکنے کا حق کس کو تھا۔ اگرفطرت اور زمین نے اپنے آگے کے منصوبے بغیر انسان کی شمولیت کے بنا ہی لیے تھے اور اب وہ اپنا کام جانداروں کی مطلق غیر حاضری میں اکیلے ہی کرنا چاہتی تھیں تو ہمیں اس فیصلے کا احترام کرتے ہوئے دنیا کو ایک اچھے کرایہ دار کی طرح خوش دلی کے ساتھ خالی کردینا چاہیے۔

گلاب اپارٹمنٹس کے ہر فلیٹ میں ایک ہی قسم کی مصیبت آئی ہوتی ہے۔ سب کو ایک ہی شکایت ہے اورسب کا ایک ہی مسئلہ ہے۔ ویسے یہ مسئلہ ان اطراف کی تمام سوسائٹیز میں مشترک ہے لیکن کسی بھی تاریخی بیانیہ کی تائید کے لیے بس ایک دو مثالیں ہی کافی ہوتی ہیں۔ ورنہ گلاب اپارٹمنٹس کے لفظ کو مون انکلیو، آفتاب باغ اور فلورا گارڈن سٹی بھی پڑھا اور لکھا جا سکتا ہے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔

گلاب اپارٹمنٹس کے فلیٹ نمبر 13 میں ہر طرف بدبو پھیلی ہوئی ہے۔ بلکہ کہنا چاہیے بدبوئیں پھیلی ہوتی ہیں۔ گھرمیں ہوا کے دباؤ کے تحت کبھی ایک بدبو حاوی ہوجاتی ہے اورکبھی دوسری اور کبھی تیسری۔ یہ بدبوؤں کا ایک نہ نظرآنے والا اسمبلاژ ہے جس کے مختلف رنگوں کو صرف ناک کی آنکھیں ہی دیکھ سکتی ہیں۔ ان دنوں ناک پر نت نئے انکشافات ہورہے ہیں اور قوتِ شامہ نئے نئے جہانوں کی سیر کو نکل کھڑی ہوئی ہے۔ دروازے اور کھڑکیوں کے شیشے بند ہونے کے باجود نہ جانے کہاں سے آکر ڈھیر ساری ہرے پروں والی مکھیاں آ کر بھنبھنانے لگی ہیں۔ یہاں کے ہر فلیٹ میں دونوں اقسام کے ٹوائلٹ بنائے گئے ہیں۔ ایک مغربی قسم کے کموڈ والا اور دوسرا مشرقی روایت کے پاسداری کرتا ہوا۔ دونوں قسم کے کموڈ انسانی فضلے سے لبا لب بھرے ہوئے ہیں۔ دونوں سیٹوں کی سفید چینی اس گندگی میں ڈھک کررہ گئی ہے۔ فلش کرنے کی ٹنکی نہ جانے کب سے سوکھی پڑی ہے۔ اُس پر موٹے موٹے چیونٹے رینگتے پھر رہے ہیں۔ ہر بالٹی خالی ہے اور ہر برتن خشک اور گندا باورچی خانے میں نہ جانے کب سے جھوٹے برتن پڑے سڑرہے ہیں۔ باورچی خانے سے وہی بدبو اُٹھ رہی ہے جو پاخانے سے آرہی ہے۔ زیرِ زمین نالیاں بھی بند ہیں اوراُن میں گندگی ٹھسی ہوئی ہے۔ سارے گھرمیں سوکھے ہوئے پیشاب کی ایسی کھراند ہے کہ گمان گزرتا ہے کہ یہ کوئی ایسی جگہ ہے جہاں ہر طرف ڈھیر سی بکریاں بندھی ہوئی ہیں۔ واش بیسن میں نہ جانے کب کی، کی گئی کلّیوں کے ساتھ منھ سے نکلے ہوئے غذائی ذرات، تھوک اور بلغم اکٹھا ہیں۔ یہ جہنم ہے۔ جیتا جاگتا جہنم جس کی آگ کو اور بھڑکانے کے لیے وہاں تین بچے اوراُن کے ماں باپ بھی زندہ موجود ہیں۔ باپ جس کی آنکھیں بھوری مگربےنور ہیں اوراُس کی ٹانگ میں پلاسٹر بندھا ہے۔ ایک زندگی آلودہ وہیل چیئر پر بیٹھا ہے۔ اس کی پلاسٹر سے بندھی ہوئی ٹانگ کے نیچے ایڑی میں ایک زخم ہے جس پر بار بار ایک مکھی آکر بیٹھ جاتی ہے۔ باپ، بچوں کی ماں، جس کی آنکھیں اور بھی زیادہ بھوری ہیں، جس کی چپٹی ناک ہے اور جو خونی بواسیر کے موذی مرض میں مبتلا ہے اور جو بیت الخلا کے نام سے خوف کھاتی ہے، کو غصے سے دیکھے جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے مجھے کھا جاؤ گے۔ آنکھیں نہیں ہیں تو یہ حال ہے۔ آنکھیں ہوتیں تو پتہ نہیں اُس میں کتنی نفرت ہوتی۔ عورت کہتی ہے۔ آنکھیں ہوتیں تو دیکھتا کہ تمھارے تھوبڑے پر میرے لیے کتنی نفرت ہے۔ مرد جواب دیتا ہے۔ بچے بے وجہ شور مچا رہے ہیں۔ پھرایک بچہ بھاگا بھاگا آتا ہے اور کہتا ہے۔اماں، اماں! ہم کیا کریں۔ پیٹ میں درد ہورہا ہے۔ میرے سرپر کردوکم بختو! تمھارا ناس جائے۔ بھری دوپہر میں یہ کوئی وقت ہے۔ماں دہاڑتی ہے۔اماں بڑے زورکا لگ رہا ہے۔ چار سالہ بچہ اپنا پیٹ پکڑے ہوئے باپ کے پاس آکر بولا۔ ابا جاؤں کہاں جاؤں۔ ورنہ نکل جائے گا۔ اُس کے پیچھے پیچھے تقریباً آٹھ سال کا دوسرا بچہ بھی اپنا نیکر سنبھالتےہوئے چلا آیا ہے اور کہہ رہا ہے کہ پہلے وہ فارغ ہوگا۔ نہیں، پہلے میں۔ نہیں، میں۔۔۔ میں۔

یہ یقیناً مضحکہ خیز بلکہ کسی گھٹیا قسم کے مزاحیہ ڈرامے کا کوئی منظر معلوم ہوتا ہے۔ مگرہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مضحکہ خیزی اور لطیفوں میں ایک ایسی دہشت چھپی رہتی ہے جس کو اگرمحسوس کرلیا جائے تو ہماری ہڈیاں بجنے لگیں۔ ویسے یہ دنیا بھی محض ایک لطیفہ ہے جسے دوسرے سیاروں کی تفریح کی غرض سے بنایا گیا ہے۔

جاؤ،سیٹ پر مت بیٹھنا۔ فرش پر ہی کرلو۔ سوکھ جائے گا۔ باپ نے لاپرواہی سے مشورہ دیا۔ اچھا، خوب مشورہ دے رہے ہو، گندگی پھیلانے کا۔ تم اندھے ہو، تمہیں گندگی نظرنہیں آتی۔ مگرکیا تمھاری ناک بھی مٹ چکی۔ تمہیں کوئی بدبو خوشبو کچھ نہیں آتی۔ خود بھی ہر وقت جانوروں کی طرح چرتے رہتے ہو اور بچوں کو بھی چراتے رہتے ہو۔ جب دیکھو ٹوائلٹ میں گھسے ہوئے ہیں۔ معلوم ہے کہ مرنے کےلیے بھی پانی نہیں ہے۔ عورت کہتے کہتے ایک لمحے کو رُکی، پھر دوبارہ کہنا شروع کردیا۔ بلڈ پریشر کی دوا یونہی چبا لیا کرتی ہوں۔ نگلنے کو پانی نہیں۔ اپنی حاجت روک لیتی ہوں کہ ٹوائلٹ میں نہ جانا پڑے۔ قبض کرنے والی دوائیں لگاتار نگل رہی ہوں چاہے میری آنتیں سڑجائیں مگر میں اُس منحوس اور غلاظت سے بھری ہوئی جگہ پر جاکر ہرگز نہ بیٹھوں گی۔ بولتے بولتے اُس کا گلا بیٹھنے لگا۔ جب میں نے اُس وقت کہا تھا کہ نکل جا تو مایا کے ناگ کی طرح جم کر بیٹھ گئی تھی۔ کچھ بھی ہو جائے، گھر نہیں چھوڑوں گی۔ مرد نے ڈانٹ کر کہا۔ ہاں میں تو نہیں لے جاتی تمہیں اپنے مائیکے اور تو تمھارا کوئی ہے نہیں۔ سسرال کی روٹیاں توڑنے کا شوق ہے۔ ویسے کیا مجھے معلوم نہیں ہے کہ تم میری چھوٹی بہن پر نظررکھتے ہو۔ اپنے اندھے پن کا فائدہ اٹھاتے ہو اوراُس کے سینے کو اپنے ہاتھوں سے چھونے کی کوشش کرتے رہتے ہو۔ عورت نے زہر آلود لہجے میں کہا۔ تو بکواس بند کرے گی یا نہیں۔ مرد نے کچھ اس انداز میں کہا کہ وہ لمحے بھر کو خاموش ہوئی۔ پھر کچھ اس طرح بڑبڑانا شروع کردیاجسے صرف وہی سن سکتی تھی۔ تقریباً گیارہ سال ہیں جو گھبراہٹ کے موقع پر نکل کرآتے ہیں۔ اماں، اماں۔ اِدھر آؤ، بات سنو۔ وہ کانپتی ہوئی آواز میں کہتی ہے۔ کیا ہوا کم بخت۔ میرے پاس پانی نہیں ہے۔ تجھےہر گھڑی پیاس لگی رہتی ہے۔ بڑی گرمی بھرگئی ہے تیرے اندر۔ عورت چلائی۔ نہیں اماں! پانی نہیں چاہیے، تم اِدھر آکرمیری بات سن لو۔ بچی حواس باختہ ہے۔ عورت کراہتے ہوئے بچی کے پاس جاتی ہے۔ وہ دونوں دوسرےکمرے میں چلی جاتی ہیں۔

بچی ماں کو اپنی شلوار کی طرف دیکھنے کا اشارہ کرتی ہے جس پر خون کے دھبے ہیں۔ میرے پیڑو میں بہت درد ہو رہا ہے۔ وہ رو کر کہتی ہے۔ مرجاحرافہ۔ ابھی ہی جوان ہونے کو رہ گئی تھی۔ دیکھتی نہیں کہ گھرمیں پانی نہیں ہے او ر تو مہینہ شروع کرکے بیٹھ گئی۔ عورت بچی کی پیٹھ پر زور زور سے گھونسے مارتی ہوئی چیخنے لگتی ہے۔ بچی روتی جاتی ہے۔ ماں مارتی جاتی ہے۔ مرد زورسے دہاڑتا ہے۔ عورت بچی کو گھسیٹتے ہوئے کپڑوں کی الماری کے پاس لے جاتی ہے اور کہتی جاتی ہے کہ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ خدا موت دے دے۔ مگرخدا ابھی موت نہیں دینا چاہتا۔ ابھی وہ انھیں اور جینےدینا چاہتا ہے۔

حالانکہ کوئی بھی شعوری طورپر جی نہیں سکتا۔ شعوری طورپر مرتو سکتا ہے۔ خودکشی کرسکتا ہے۔ مگرکوئی یہ نہیں کرسکتا کہ سمجھ سمجھ کر زندگی گزارے۔ یہ بالکل اُسی طرح ہے جیسے ٹائپ رائٹر پر لکھے ہوئے حروف کو غور سے دیکھ کر ٹھہر ٹھہر کر یہ فیصلہ کرتے ہوئے کہ ‘پ’ کہاں اور ‘ژ’ کہاں، ٹائپ کیا جائے۔ انگلی توایک حرف سے دوسرے حرف تک اُڑتی ہوئی پہنچتی ہے۔ انگلی کی اپنی اُڑان ہے اور اپنا دل ہے، اپنا دماغ ہے۔

یہ سب ایک خواب کی طرح ہے۔ ایک ایسا خواب جسے مرنے کے بعد ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس عورت کا قد مشکل سے چار فٹ رہا ہوگا۔ اُس کا وزن اتنا زیادہ ہے کہ اُس سے دب کر گویا وہ زمین میں دھنسی جاتی ہے۔ وہ ایک ایسی فٹ بال نظرآتی ہے جو آدھی ریت میں دبی ہوتی ہے۔ بے رحمی کی حد تک پیچھے کو نکلے ہوئے اُس کے کولہوں اور پھولے پھولے مہاسوں سے بھرے گالوں میں ایک ناقابلِ یقین مشابہت ہے۔

اندھے مرد کے چہرے پر پرانی چیچک کے نشان ہیں۔ وہ بھی کبھی وبا ہوا کرتی تھی، مگراب دنیا سے اس کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ لیکن دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے وہ اپنے کبھی نہ مٹنے والے نشان یہیں چھوڑ گئی ہے۔ انسانوں کے چہرے پران کو اندھا کردینے کے بعد وہ ہمیشہ اس امر کی یاد دلاتی رہتی ہے کہ وہ تھی، وہ ماضی کے اُن گناہوں کی طرح ہے جو آدمی کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑتے۔

اندھا آدمی بار بار پلاسٹر کے اندر ہاتھ ڈال کر ٹانگ کھجانے کی کوشش کرتا ہے۔ پلاسٹر کا رنگ اب سفید نہیں رہا، وہ میلا ہو چکا ہے اوراُس پر جگہ جگہ سالن کےپیلے دھبے بھی ہیں۔ پلاسٹر کے اندر شاید کھٹمل پیدا ہو گئے ہیں۔ کچھ کھانے کو ہے، وہ کہتا ہے کیونکہ وہ کچھ دیکھتا نہیں۔ کچھ نہیں ہے، ابھی تو کھا کر اُٹھے ہو۔ عورت کھسیا کر جواب دیتی ہے، مگرمجھے بھوک لگ رہی ہے۔ پانی ہے۔ وہ پھر کہتا ہے۔ بس ایک جگ پانی بچا ہے۔ دوا نگلنےکے لیے پانی نہیں ہے۔ میرے گردے خراب ہو رہے ہیں۔ تمھارے ساتھ رہ کر مجھے یہ ساری منحوس بیماریاں لگ گئی ہیں۔ ورنہ شادی سے پہلے میں کتنی تندرست اور خوبصورت لڑکی تھی۔ اب تو اچھا ہے کہ یا تم مرجاؤ یا میں مرجاؤں۔ عورت زور سے بڑبڑاتی ہے۔ اندھا آدمی زور سے ہنستا ہے۔ اُس کی وہیل چیئر کے پہیے ہلنے لگتے ہیں۔ ‘خوبصورت لڑکی۔’ اندھا ہنستے ہوئے کہتا ہے۔ اگرتمھاری آنکھیں ہوتیں تو تم دیکھ پاتے۔ کاش میں نے ترس کھاکے تم سے بیاہ نہ کیا ہوتا۔ عورت کے لہجے میں حقارت تھی۔

ممکن ہے کہ کبھی اُن دونوں میں تھوڑی سی وقتی محبت رہی ہو مگراِسے کیا کہیں کہ محبت کے پڑوس میں بیزاری رہتی ہے اور خلوص کے برابر والی کھڑکی میں سے کینہ کا چہرہ ہمیشہ سڑک پر چلنے والوں کو گھورتا رہتا ہے۔

اندھا اپنی وہیل چیئر کو دھکیلتا ہوا کھانے کی میز کی طرف جارہا ہے۔ اُس نے میز پر رکھی ہوئی ڈبل روٹی کے دو ٹھنڈے سلائس نکال لیے ہیں۔ تو نے ترس کھا کر مجھ سے شادی کی تھی؟ تیرے باپ نے میری دولت کے لالچ میں آکر تجھے میرے سر منڈھ دیا تھا۔ میں نے چالیس لاکھ کا یہ فلیٹ اُسی کے کہنے پر تیرے نام کیا تھا۔ میرا بہت بڑا کاروبارتھا۔ میں زردوزی اور کار چوب کے کاریگروں کو سعودی عرب بھجوایا کرتا تھا۔ تیرے دو بھائیوں کے بھی ویزے لگوائے، بھول گئی؟ اندھا کہے جا رہا تھا، مگرتب ہی اُسے ایسا محسوس ہوا جیسے اُس کی ایڑی کا زخم رِسنے لگا ہے۔ زخم پر دو مکھیاں آکر بیٹھ گئیں۔ مکھیوں کو بھگانے کے لیے وہ اپنی ایڑی کو بار بار فرش پر بجانے لگا۔ مگراس سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ایڑی فرش پر بجانے سے زخم میں سے زیادہ خون نکلنے لگا ہے۔ مکھیاں اب بھلا زخم سے کیوں دورجائیں گی۔

اندھا اندازے سے سلائسوں کو ٹوسٹر کے اندر ڈال رہا ہے۔ اِس ٹوسٹر میں بھی ایک تکنیکی خرابی ہے۔ اس میں سے کبھی تو سیاہ اور کوئلے کی طرح سخت جلا ہوا سلائس باہر نکل آتا ہے اور کبھی بالکل سفید، کچا اور ٹھنڈا۔ بجلی سے چلنے والی چیزوں میں اگراس قسم کی کوئی پُراسرار خرابی پیدا ہو جائے تو وہ جاتی نہیں ہے۔ وہ گھوڑے میں پیدا ہو جانے والے عیب کی طرح ہوتی ہے۔ یاانسان کے مقدر کی خرابی کی طرح۔

اچھا چل چھوڑ، تھوڑا پانی دے۔ گلا سوکھ رہا ہے۔ اندھے نے جھگڑا ٹالنا چاہا مگروہ جھگڑا ختم نہیں کرنا چاہتی۔ اُس کے گال پھول کر کپّا ہو گئے۔ اُس کے بھاری بھاری کولھے ایک نامعمول انتقام لینے کے درپے ہوکر کچھ اور باہر نکل آئے۔ گلا سوکھ رہا ہے۔ ہونہہ، زندگی بھر شراب پیتا رہا، اُسی موت سے گلا ترکر۔ وہ غصے سے آگ بگولا ہوکر زور سے چیخی۔ اپنی زبان بند کر رنڈی۔ بھڑوے تو چُپ رہے۔ تو رنڈی۔ تو بھڑوا۔

بچے اُن کے قریب آکر کھڑے ہو گئے ہیں اور سسکیاں لے کر رو رہے ہیں۔

عورت اندھے مرد کے بہت قریب کھڑی ہوئی غصے سے کانپ رہی ہے اوراُس کے منھ سے تھوک کے جھاگ اُڑ رہے ہیں۔ آنکھیں سرخ ہیں اوراپنے حلقوں سے باہر اُبل آئی ہیں۔ اس کے جبڑے پھیل گئے ہیں۔ وہ پاگل کتیا نظرآرہی ہے۔ دفعتاً اندھا اپنی ٹوٹی ٹانگ سے اُس کے پیٹ پرایک زبردست لات مارتا ہے۔ عورت تھوڑا سا پیچھے کی طرف پھسلتی ہے۔ پھر سنبھل کرسیدھے کھڑے ہوکر اندھے کھے منھ پر نفرت سے تھوک دیتی ہے۔ تھو۔ تھو۔ تھو۔ اندھا دوبارہ اُس کے پیٹ پر لات مارتا ہے۔ عورت میز پررکھے ہوئے پانی کے جگ کو اُس کے سر پر دے مارتی ہے۔ کچے شیشے کا بنا ہوا جگ اندھے کی کھوپڑی سے ٹکرا کر چکنا چور ہو جاتا ہے اور پانی سے اُس کا سراورکندھے بھیگ جاتے ہیں۔ اندھا دونوں ہاتھوں سے اپنا سرٹٹولتا ہے۔ اس کے ہاتھ پانی اورخون سے سن ہو گئے ہیں۔ وہیل چیئر کے پہیے جھٹکے سے بے قابو ہو کر بائیں طرف کو چلنے لگے ہیں۔ وہ اپنا توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں اپنے ہاتھوں کو اِدھر اُدھر پھیلا رہا ہے۔ اِس سے پہلے کہ بچے دوڑ کراُس کی مدد کریں، غلطی سے پانی اورخون میں تراُس کا ہاتھ ٹوسٹر پر پڑگیا ہے۔ اس کے ہاتھ کی تین انگلیاں ٹوسٹر کے اندر گہرائی میں چلی گئی ہیں۔ اندھے کے منھ سے ایک خوفناک مگرصرف آدھی چیخ ہی برآمد ہوتی ہے۔ وہیل چیئر پر بیٹھے بیٹھے کچھ لمحوں کے لیے اس کا جسم اوپر نیچے جھٹکے کھاتا ہے، جیسے گندے پانی میں مینڈک اُچھلتا ہے۔ پھر یہ جسم سیاہ ہوکر بے حس و بے جان ہو جاتا ہے۔

جب پولیس کی جیپ عورت کو جیل کے دروازے پر چھوڑنے آئی تو وہاں پہلے سے ہی ایک ایمبولینس کھڑی تھی۔ جس میں ایک قیدی عورت کو پولیس کی نگرانی میں ضلع سرکاری اسپتال لے جایا جا رہا تھا۔ قیدی عورت بھی بیماری کا شکار ہو گئی تھی۔ کھلے آسمان میں دونوں عورتوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اسٹریچر پر لیٹی ہوئی بیمار، قیدی عورت کی ایک آنکھ کو اُس کے ماتھے سے ڈھلک آئے ہوئے بالوں نے ڈھک لیا تھا۔ وہ اپنا ایک ہاتھ بار بار اوپر نیچے کررہی تھی۔ وہ پھولے پھولے مہاسوں سے بھرے ہوئے گالوں اور بھاری کولہوں والی موٹی عورت کی طرف دیکھ کر مسکراتی ہے۔ تو تم نے بھی۔ اُس کی مسکراہٹ سوال کرتی ہے۔ ہاں میں نے بھی۔ جیل کے اندر جاتی ہوئی عورت کی مسکراہٹ جواب دیتی ہے۔ پانی کے چکر میں؟ ہاں پانی کے چکر میں۔ ایک عورت جیل سے اسپتال کی طرف جانے والی ایمبولینس میں ڈال دی جاتی ہے۔ دوسری عورت گھرسے جیل کے اندر۔ گھر، جیل، اسپتال اور قبرستان میں سب ایک ہو گئے ہیں۔ شام ہو رہی ہے۔ درخت سلیٹی مائل ہونے لگے ہیں اور گھاس کالی، دھول اُڑاتی ہوئی ایمبولینس کے سائرن پردورکہیں کوئی پاگل کتا بھونکنے لگتا ہے۔

اب کہا جانے لگا ہے کہ مہاماری بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔اگریہ واقعی مہا ماری ہے۔ شہر میں جگہ جگہ ایمبولینسیں گھومتی نظرآرہی ہیں مگرکچھ دنوں سے لائف اپارٹمنٹس اوراُس کے اطراف میں کسی کالونی سے کسی مریض کے ہونے یا مرنے کی خبر نہیں آئی ہے (وہ ایک ایک دوسری موت مررہے ہیں) حالانکہ پانی کی سپلائی بند رہنے کی وجہ سے یہاں کچھ ایسے ذہنی مریض ضرور پائے گئے ہیں جنہیں یا تو پاگل خانے بھجوا دیا گیا ہے یا جیل۔ جہاں تک وائرس کا سوال ہے وہ تو پاگل خانے اور جیل دونوں جگہ پہنچ چکا ہے۔ گھروں میں قیدی بنے ہوئے لوگ اپنی عبادت بھی نہیں کرسکتے اور اگرکریں گے تو تمام ارکان پورے نہ ہو سکیں گے کیونکہ طہارت نام کی کوئی شے فی الحال اُن کے پاس نہیں۔ وہ تواچھا تھا کہ رمضان آکر گزر گئے تھے اور بقر عید ابھی دور تھی ورنہ اُن کے گھر خون میں نہا جاتے اورجانوروں کا گوشت سڑتا رہتا۔ جہاں تک پیاسے مرنے کا سوال تھا وہ تو یہ محرم کے دس دن بھی نہ تھے کہ شہدائے کربلا کی قربانی یاد کرکے، کچھ حوصلہ ملتا اور یہ کرب و بلا کے دن کٹ جاتے۔ مذہبی ارکان پورے نہ کرپانے پر سب ایک دوسرے کو یہ تسلی دیتے پھر رہے تھے کہ ایسی آزمائش کی سخت گھڑی میں خدا اُنھیں معاف کردے گا مگرکیا خدا انسانوں کو اُن کے گناہ اور برے اعمال کے لیے ہمیشہ معاف کرتا رہے گا۔ انسان جو گناہ کرنے سے کبھی دائمی توبہ تک نہیں کرتے تھے۔ خدا کا کام معاف کرنا اور رحم کھانا ہی نہیں، سزا دینا اور عذاب نازل کرنا بھی ہے اوراس بات سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ صرف معاف کردینے والے خدا کو کوئی نہیں مانتا۔

اب ایسا بھی نہیں کہ چور دنیا سے اُٹھ گئے تھے۔ چوروں کی نظرہمیشہ اُن گھروں پر لگی رہتی تھی جن میں رہنے والے تالہ لگا کر وقتی طورپر کہیں اور رہنے چلے گئے ہوں۔ مگرایک تو اُنھیں ان گھروں میں گھسنے پر بیماری لگ جانے کا ڈرتھا اوراگرایک دو بہادرچوروں نے پولیس کی نظروں سے چھپ چھپا کر، کالونی کے اندر گھسنے کی کوشش کی بھی تو وہاں آوارہ گھومتے ہوئے پاگل کتوں نے اُنھیں کاٹ کھایا۔ جس کے بعد اُن کے بس میں صرف یہی رہ گیا کہ وہ خود بھی پاگل کتے کی طرح چارہاتھ پیروں پر چلتے ہوئے اور بھونکتے ہوئے، تندرست اور شریف آدمیوں کو کاٹتے پھریں۔ ایک چورسے زیادہ اس کہاوت پراور کون یقین کرے گا کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔

لائف اپارٹمنٹس کے زندہ مگرپیاسے مکینوں نے اپنے پالتو جانوروں کو مارڈالنا شروع کردیا ہے۔ انھوں نے پنجروں سے نکال نکال کربے دردی کے ساتھ اپنے طوطوں کی گردنیں مروڑ ڈالی ہیں جو ہروقت پانی مانگنے کے لیے ٹائیں ٹائیں کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے اپنی پالتو بلیوں کے گلوں میں رسی کا پھندا ڈال کر اُنھیں ختم کردیا ہے جو ہروقت دودھ کی تلاش میں برتن پھینکتی رہتی تھیں اور میاؤں میاؤں کرتے ہوئے انسانوں کی گود میں گھس جاتی تھیں۔ انسان جانور کو جس طرح دیکھتا ہے، جانور اُس طرح نہیں دیکھ سکتا۔ کتے اور بلی کے پاس وہ آنکھیں نہیں ہیں جو کسی شے کو مجموعی طورپر اُس کی مکمل سالمیت میں دیکھ سکیں۔ وہ انسانوں کو صرف الگ الگ حصوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ جب کتا کاٹنے کے لیے آدمی کی ٹانگ پکڑتا ہے تو وہ اُس آدمی کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا مگرجب وہ آپ کے چہرے کی طرف دیکھتا ہے تو اُسے آپ کا باقی جسم نظرنہیں آتا۔ وہ انسانی جسم کی بُوسے ہی اپنی وفاداری کا ثبوت دیتا ہے۔ انسانی جسم کے مکمل ادراک کے ذریعے نہیں۔ یہ آنکھیں تو بس انسان کو ہی بخشی گئی ہیں جو اشیا کو ان کی سالمیت میں ایک ساتھ دیکھنے پر قادرہیں۔ اس لیے انسان یہ جانتا ہے کہ دوسرا کتنا کمزور، حقیر، احمق اور بےز بان ہے۔ اُسے کتنی آسانی کے ساتھ مسلا جا سکتا ہے، شکار کیا جاسکتا ہے، غلام بنایا جا سکتا ہے اور ذبح کیا جا سکتا ہے۔ اور جب تک کمزور اور بے جان جانور اس دنیا میں موجود ہیں وہ انسانوں کو اُن کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے اپنی جانیں قربان کرتے رہیں گے اوراُن کی مال و دولت کا خراج اداکرتے رہیں گے۔ مگریہ سوال پھر بھی رہے گا کہ محض گوشت اور ہڈیوں کی قربانی ہی کافی ہے۔ کیا جانور کا دل اور روح اس میں شامل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے پالتو بے زبان جانوروں کو بغیر رتّی بھر احساسِ جرم کے مار ڈالنے میں حق بجانب تھے۔ اُنھیں اتنے تاریک اور مایوس کن دنوں میں بھی اس امر کا خو ب احساس تھا کہ وہ تو دراصل اشرف المخلوقات ہیں۔

اب اگرکسی کے گھر سے موت کی خبرآتی ہے تو دوسرے لوگ اپنے اپنے فلیٹوں کی بالکونیوں میں کھڑے ہو کر زور زور سے ہنستے ہیں، تالیاں پیٹتے ہیں، برتن بجاتے ہیں۔ کیونکہ موت ہی وہ اصل قانونی دستاویز ہے جو اُنھیں وِرثے میں ملی ہے۔ موت ہی انسانوں کی جائز اور حلال جائیداد ہے اور ملک الموت ہی سب سے طاقتور منصف ہے۔ ایسے افراد کے دماغی توازن بگڑ جانے کی کسی کو پرواہ نہیں اور فی الحال اُن کے گھروں پر، اُنہیں پاگل خانے تک لے جانے والی کوئی گاڑی ابھی تک نہیں آئی ہے۔ اُدھر شہر کے کچھ پسماندہ علاقوں سے کچھ ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ وہاں لوگ بیماری سے بچنے کے لیے بھوت بن کر گھوم رہے ہیں۔ وہ تو ہم پرست اور بد عقیدہ لوگ ہیں۔ حاملہ عورتوں کے بھوت اور بچوں کے بھوت کا اور لمبے بالوں والے بھوت کا بھیس بدل کر دراصل وہ ایک ایسا کارنیوال منا رہے ہیں جس کی بنیاد دہشت اور خوف ہے اور کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ اُنھیں عقلیت پسندی اور سائنسی مزاج اخیتار کرنے کا درس دیتا پھرے۔ یہ وہ وقت نہیں جواس تعلیم کے لیے سازگارہو۔

گذشتہ تین دنوں میں اس پُراسرار اور تقریباً لا علاج بیماری سے مرنے والوں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ اس میں پانی کی سپلائی بند ہونے کی وجہ سے خود کشی کرنے والے یا قتل ہو جانے والے افراد بھی شامل ہیں۔ مگرساتھ ہی ایک خوش آئند اور حیرت انگیز بات بھی سامنے آئی ہے۔ چنگی دفتر کے شعبہ اموات و پیدائش کے ریکارڈ کیپر نے بیان دیا ہے کہ اتفاق سے انھیں دنوں سب سے زیادہ بچوں کی پیدائش بھی ہوئی ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسپتال والوں کی شماریات کا جب موازنہ کرکے دیکھا گیا تو ترسیم کے مطابق کسی ایک موت کےوقت کم سے کم چار نوزائیدہ بچوں کا تناسب نظرآیا۔ یہ ابھی ایک اطمینان بخش صورتِ حال کہی جا سکتی ہے کہ فی الحال کسی بھی حاملہ عورت کے اس بیماری کے سبب موت واقع ہونے کی خبر نہیں مل سکی ہے۔ اگرچہ توہم پرست اور ضعیف الاعتقاد حضرات اس مخصوص وقفے کو آسیبی اور شیطانی وقت کا ٹکڑا بتارہے ہیں جس لگاتار اموات کے ساتھ ساتھ بچوں کی بھی زیادہ سے زیادہ پیدائش ہوتی رہے۔ وہ اس وقفے کے دوران پیدا شدہ بچوں کو اس وبا کی شیطانی اولاد سمجھتے ہیں اوراُن کے ماں باپ کو بچوں سے دور رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ وہ یہ پیش گوئی بھی کررہے ہیں کہ ایسے تمام بچے آہستہ آہستہ بہت کمزور اور دُبلے پتلے ہوتے جائیں گے۔ اُن کا رنگ ہلدی کی طرح پیلا پڑتا جائے گااورآدھی رات میں اُن کے رونے کی آوازیں جنگلی لومڑیوں سے مشابہ ہوں گی۔ مگرچنگی کے دفتر کے اس ریکارڈ کیپر کو نہ تو یہ سب معلوم ہے اورنہ ہی اُس کا ان بچوں سے کوئی واسطہ ہے۔ اُس نے تو بس اتنا کیا ہے کہ اموات اور پیدائش، دونوں کے ریکارڈ اور سرٹیفیکٹ دو الگ الگ الماریوں میں بند کرکے تالہ لگادیا ہے۔

یاتو گرمی بڑھ جانے کے باعث یا کسی اور سبب سے لائف اپارٹمنٹس میں بڑی تعداد میں چھپکلیاں نکلنا شروع ہو گئی ہیں۔ وہ دیواروں اور فرش پر رینگتی پھرتی ہیں مگربے حد ڈری ڈری اور سہمی ہوئی نظرآتی ہیں۔ اُن کی بٹن جیسی ننھی ننھی ساکت آنکھیں انسانوں سے کچھ مانگتی ہوئی سی نظرآتی ہیں۔ کبھی کبھی تو گرگٹ کی طرح اپنی دُم پر کھڑی ہوکر انسانوں سے اپنے ارتقاء کے سفرمیں پیچھے رہ جانےکا ہرجانہ طلب کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں مگرانسان اُن کی پرواہ نہیں کرتا۔ اُسے اپنے ہی گناہوں کا اِزالہ کرنے سے فی الحال کوئی فرصت نصیب نہیں۔

آدھی رات کے بعد کھڑکیوں کے شیشوں پر چمگادڑ آآکرٹکراتے ہیں اور پھر مرجاتے ہیں۔ ان اطراف میں چمگادڑ کبھی نہیں پائے گئے ہیں مگراب غول بنا کر نہ جانے کہاں سے چلے آتے ہیں۔ چمگادڑ دنیا کی سب سے خوفناک اور ناقابلِ فہم مخلوق ہے۔ وہ تو ویمپائر تک کے سینےکا خون چوس سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ اس وائرس نےماحولیاتی توازن کو ضرب پہنچائی ہو۔ پربھی یہ افواہیں ہی کہیں جا سکتی ہیں اور افواہوں کو انسانوں کی طرح گھروں میں قید کرکے نہیں رکھا جا سکتا۔ چاہے یہ کتنی بھی ناقابلِ یقین کیوں نہ ہوں مگریہ افواہ نہیں تھی ایک حقیقت تھی۔ جسے پہرہ دیتے ہوئے پولیس والوں نے بھی دیکھا کہ دن میں مکانوں کی کھڑکیوں کے شیشوں پراکثر گدھ اور چیلیں آکر اپنی چونچوں سے ٹکر مارتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ اُن کے چونچیں زخمی ہو جاتی ہیں۔ چونچیں خون میں بھیگ جاتی ہیں، وہ کسی بُو پر پاگل ہو رہے ہیں۔

وہ بُوکس کی ہے؟ انسانی فضلے کی جو اَب اِن گھروں میں ہی سڑکر زرخیز کھاد بن جائے گا۔ خون کی جس کے کالے اور بڑے بڑے دھبے جم کر اور خشک ہو کر فرش کے ڈیزائن میں بدل جائیں گے۔ انسان کی بد مزاجی، غصے، نفرت اور پاگل پن کی جو جلد ہی ہوا بن کر اُڑ جائے گی۔ یا یہ موت کی بُو ہے جو ہمیشہ سے انسان کے بدن سے لپٹی ہوئی ہے۔ اُس کی کھال، گوشت اور ہڈیوں میں سمائی ہوئی موت کی یہ بُو ان دنوں شدید ہو گئی ہے۔ اس لیے وہ یہاں آتے ہیں۔ شیشوں پر چونچیں مارتے ہیں۔ وہ دراصل گھروں کے اندر داخل ہونا چاہتے ہیں۔ یہ گھر جو اب ناقابلِ یقین طورپر اُن نقشوں کے مطابق تیار کیے گئے نظرآنے لگے ہیں جو قبروں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ ان گھروں میں اب وہی رمز ہے جو قبروں میں ہوتا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب ہر گھر میں ٹیلی ویژن پر صرف ایک ہی فلم چلی رہی ہوتی تھی۔ آج پھر وہ زمانہ لوٹ آیا ہے۔ یہاں ہر گھر میں ایک ہی گندی، بھیانک اور پاگل فلم چل رہی ہے۔

یہ فلورا سِٹی کا فلیٹ نمبر 13 ہے۔ اُن کی شادی ہوئے ابھی بس ایک ماہ ہی ہوا ہے۔ کچھ ضروری کاموں کی وجہ سے بار باراُن کے ہنی مون پر جانے کا پروگرام ٹل جایا کرتا تھا لیکن جس وقت ناکہ بندی کا اعلان ہوا، اُسی وقت اُن کی ٹیکسی اسٹیشن سے واپس کردی گئی اورگھر واپس پہنچ کر مایوسی اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں انھوں نے اپنے وہ بند سوٹ کیس کھولے جو درصل ایک خوبصورت پہاڑے علاقے کے ایک مہنگے ہوٹل کے کسی کمرے میں کھولے جانے کےلیے بند کیے گئے تھے۔ اب کافی دنوں سے وہ گھر میں قید ہیں۔ گھر، جس میں پانی کا نام و نشان نہیں ہے۔ شوہر جو آج سے تین ہفتے قبل تک بے حد اسمارٹ اور صاف ستھرا نوجوان نظرآتا تھا، آج کسی گھٹیا سے موٹر گیراج میں کام کرنے والا مستری نظرآرہا ہے۔ اُس نے اتنے دنوں سے شیو نہیں کیا ہے اوراُس کی داڑھی بے ترتیبی کے ساتھ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اس لیے اُس کی بیوی کو وقت سے پہلے ہی یہ پتہ چل گیا ہے کہ اُس داڑھی میں کالے بالوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اُس کی اصل عمر پانی کی مستقل غیر حاضری نے ظاہر کردی ہے۔ وہ نہ جانے کب سے نہیں نہایا ہے۔ اُس کا سرچکٹ گیا ہے۔ سرکے بال تین رنگ کے ہو گئے ہیں۔ کچھ وہ بال جو ابھی سیاہ ہیں، کچھ وہ جو سفید ہیں اور سب سے زیادہ وہ بال جن پر لگایا گیا رنگ آدھا مٹ چکا ہے اس لیے وہ اُس رنگ کے نظرآنے لگے ہیں جو رنگ بندر کی کھال پر اُگے ہوئے روؤں کا ہوتا ہے۔ اُس کے کپڑے بہت گندے ہیں اور کپڑوں کے نیچے بنیان، ان سے بھی زیادہ گندی اور پسینے سے بھیگی ہوئی ہے۔ اُس کے بدن سے بدبو آرہی ہے۔ جسم میں پانی کی کمی ہوجانے کے باعث اُس کے ہاتھ پیروں کی کھال پھٹنے لگی ہے۔ چہرے کی کھال کا بھی یہی حال ہے جسے اُس کی بڑھی ہوئی کھچڑی داڑھی نے ابھی چھپا رکھا ہے۔ اُس کی بیوی ایک کم عمر لڑکی ہے یا اب سے تین ہفتے پہلے تک کم عمر تھی اور خاصی قبول صورت بھی۔ اُس کے دہانے اور ہونٹوں پرایک خاص قسم کی معصومیت ہے۔ مگراب اُس کے خدوخال پہلے کی طرح نہیں رہے۔ اُس کی رنگت بہت سفید ہے جس میں ایک ایسا سنہری پن بھی شامل ہے جو لیموں کے تازہ اور شاداب چھلکے میں ہوتا ہے، مگر یہ کچھ ہفتے پرانی باتیں ہیں۔ اب اُس کی سفید جلد پر کالے کالےمیل کے چھپڑ جگہ جگہ جمتے جارہے ہیں۔ اُس کے سیاہ گھونگھرالے بال اُلجھی ہوئی جوٹ کی میلی رسیاں بن گئے ہیں۔ گھونگھرالے بالوں کو اگرپابندی کے ساتھ روز نہ دھویا جائے تو اُن میں بہت جلد جوئیں پڑجاتی ہیں۔ وہ بھی نہ جانے کب سے نہیں نہائی ہے۔ ابھی حال ہی میں گزرے ہوئے ایامِ حیض کے بعد بھی نہیں۔ اس کے بالوں میں جوئیں پڑگئی ہیں۔ جو دن سے زیادہ رات میں اُس کے دماغ کا خون پینے کےلیے بری طرح رینگتی پھرتی ہیں اور کبھی کبھی بالوں سے گر کر تکئے اور کپڑوں پر بھی آجاتی ہیں جنہیں وہ چٹکی سے مسلتی رہتی ہے۔ سراوربالوں میں اس قدر کھجلی ہے کہ وہ ہروقت بالوں میں کنگھا کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے مگر کامیاب نہیں ہو پاتی کیونکہ اُس کے بری طرح اُلجھے ہوئے میلے کچیلے گھونگھرالے بالوں میں پھنس کر کنگھے کے دانتے ٹوٹ ٹوٹ جاتے ہیں۔ اُس کے جسم میں پسینے اور سڑاندھ کے سوا کچھ باقی نہیں رہاہے۔ اُس نے اپنی گندی، پسینے سے بھیگی ہوئی بریزئر اُتار کر پھینک دی ہے تاکہ سینے اورپیٹھ پر آسانی سے کھجا سکے۔ اُس کے لمبے لمبے ناخنوں میں کالا میل بھر ا پڑا ہے اور ایڑیاں پھٹ رہی ہیں۔ ایڑیوں میں بڑی بڑی کھانپیں ہو گئی ہیں۔ اُس کے جسم کا سارا پانی سوکھ رہا ہے۔ بریزئر اُتار کر پھینک دینے کے سبب سے اُس کے بڑے بڑے پستان نیچے کو لٹک آئے ہیں۔ وہ ایک عمر رسیدہ اور کئی بچوں کی ماں نظرآنے لگی ہے۔ اُس کی آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہیں اس لیے بات بات پراُس کی آنکھوں سے آنسو نکل کراُس کے خشک اور پھٹتے ہوئے گالوں پر بہنے لگتے ہیں۔ چھوٹی آنکھوں سے جلدی باہر آتے ہیں۔ بڑی آنکھوں میں پھیل کروہیں خشک ہو جاتے ہیں۔ اُس کی آنکھیں پیلی بھی ہو رہی ہیں بالکل اُلو کی طرح جو رات کو کمرے کی کھڑکی کے شیشے سے اُن دونوں کو اپنی پیلی پیلی آنکھوں سے گھورتا ہے۔ جہاں تک پیلے غبار کا سوال ہے تو وہ تو رات میں بھی کم نہیں ہوتا۔ وہ بدستور موجود ہے اور ہوا چلنا بھول چکی ہے۔ ہوا کی یادداشت میں صرف سوکھی جھاڑیاں اور ببول کے درخت رہ گئے ہیں جو زمین میں پانی کی کمی سے پیدا ہوتے ہیں اور انتقاماً اپنے اوپر کانٹے اُگا لیتے ہیں۔ وہ اپنی پیلی پیلی آنکھوں میں ہر وقت آنسو لیے گھر میں اِدھر اُدھر چکر کاٹتی رہتی ہے۔ یہ آنکھیں ہمیشہ ڈبڈبائی رہتی ہیں۔ کبھی کبھی اُس کے شوہر کی محبت میں ایذا پسندی کا تصور دل ہی دل میں پیدا ہو جاتا تھا۔ وہ اکثر سوچا کرتا اور یہ شادی کی پہلی رات کے بعد سے ہی تھا کہ اگراُس کی بیوی کے جسم میں خنجر اُتار دیا جائے تو وہ آنسوؤں کے نمکین پانی کے خزانے میں ڈوب جائے گا۔ شاید اُس کی بیوی کے جسم میں خون تھا ہی نہیں۔ وہاں صرف آنسو ہی رگوں میں دوڑتے تھے۔ محبت کے گھنے کالے بادلوں میں نفرت کو ندے کی طرح چمک کرلپکتی ہے۔ اس روشنی میں اشیا اپنے اصل خدوخال میں پہچان لی جاتی ہیں۔ وہ سوچتا کہ اگراُس کے نازک بدن کو چاقو سے ہلکا سا بھی چھیلا جائے تو وہ کتنا روئے گی۔ اُس کے بدن سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہو جائے گا جس میں اُس کی روتی ہوئی آنکھیں بھی بہہ جائیں گی۔ دراصل ہمیں چہرے نہیں دیے گئے ہیں۔ ہمیں صرف مکھوٹے دیے گئے ہیں۔ ہمیں جذبات کے نام پر غصہ، چڑ چڑاپن، ایذا رسانی، ہسٹریا اور پاگل پن ہی مل پائے ہیں۔ محبت اور معافی تو ایسی چیزیں ہیں جو انسانوں کے چکنے دل پرسے ہمیشہ ہی پھسل کرگرجاتی ہیں، بہہ جاتی ہیں۔

آج بھی پانی نہیں آیا۔ شوہر نے پوچھا تھا۔ نہ۔ بیوی نے جواب دیا۔ تم نے پانی کی ٹونٹی کھول کر دیکھی تھی۔ شوہر نے پوچھا تھا۔ ساڑی ٹونٹیاں کھلی ہوئی ہیں۔ بیوی نے جواب دیا تھا۔ شوہر مایوس ہوگیا تھا۔ حالانکہ اُس کا سوال اوراُس کی مایوسی اس وقت دونوں ہی احمقانہ تھے۔ یہ وہ جوڑا تھا جو ہمیشہ ایک دوسرے سے لپٹا رہتا تھا۔ ہاتھ میں ہاتھ تھام کر اور دوسرا ہاتھ ایک دوسرے کی کمر میں ڈال کر باہر نکلا کرتا تھا اور جب دیکھو وقت بے وقت مباشرت کرتا رہتا تھا۔ آج دونوں کو ایک دوسرے کے قریب بیٹھ جانے سے بھی پریشانی ہونے لگتی تھی اور شاید ایک دوسرے کے وجود سے ہی چڑ سی محسوس ہوتی تھی۔ اتنی زیادہ جسمانی خواہش اور شہوت کے باوجود ممکن ہے کہ صرف اس لیےکہ فی الحال وہاں نہ محبت تھی نہ خواہش۔ ویسے بھی محبت ہمیشہ نہیں ہوتی۔ وہ آتی جاتی رہتی ہے۔ آخر محبت کوئی آوارہ مکھی تو نہیں کہ گندگی کی پوٹلیاں بنے ہوئے دونوں کے جسموں پر آکر بیٹھ جاتی اور بدنیتی کے ساتھ انھیں چاٹنے لگتی۔

تمھاری چھاتیاں کتنی لٹکی ہوئی اور ڈھیلی ڈھالی ہیں۔ تم نے اپنی عمر غلط لکھوائی ہے۔ تم مجھ سے عمر میں بڑی ہو۔ شوہر نے مرد میں تبدیل ہوتے ہوئے غصے کے ساتھ کہا۔ وہ رونے لگی۔ تمہیں رونے کے علاوہ کچھ اور بھی آتا ہے۔ وہ اور زور سے رونے لگی۔ یا پھر اگر تمھاری عمر وہی ہے جو تمھاری ماں نے بتائی تھی تو تم شادی سے پہلے کی کھائی کھیلی ہوئی ہو۔ مرد کے لہجے کا زہر آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا۔ جس طرح جسم میں کوئی خطرناک بخار آہستہ آہستہ بڑھتا ہے۔ وہ بھونچکی ہوکر اُسے دیکھنے لگی ہے۔ دیکھ کیا رہی ہو، مجھے تو شادی کی پہلی رات میں ہی شک ہو گیا تھا مگر میں نے دل کو سمجھا لیا۔ خیر رونا بند کرو۔ دیکھو تمھارے اندر سے کیسی بدبو آرہی ہے اور یہ کانوں میں بُندے کیوں نہیں ڈالے۔ تمھارے زیور کہاں گئے؟ کیا بیچ کر کھا گئیں؟ چلو بُندے ڈالو کان میں۔ مرد سرد مہری کے ساتھ کہتا ہے۔ کیوں مذاق کررہے ہیں۔ وہ سسکیاں لیتی ہوئی کہتی ہے۔ اچھا تو میں مذاق کررہا ہوں، اداکاری کرکے تمھیں رِجھا رہا ہوں۔ مرد چلاتا ہے۔ واقعی وہ اداکاری نہیں کررہا ہے کیونکہ ایک اداکار کے لیے سب سے مشکل کام اپنے اندرونی جذبات اور تاثرات کے اظہار کو کامیابی کے ساتھ چھپا لینا ہے مگرمرد کے چہرے پراُس کے اپنےاصل نجی تاثرات کے علاوہ اداکاری کی ہلکی سی پرت بھی نہیں ہے۔ یہ سخت نفرت اور غصے سے پاگل ہوتا ہوا ایک نابیدہ چہرہ ہے۔ مرداُٹھتا ہے اور سامنے سنگھار میز پر رکھی ہوئی ایک سرخ ڈبیہ اُٹھاتا ہے۔ ڈبیہ میں سونے کے چمکتے ہوئے دو خوبصورت بُندے ہیں، وہ بُندے نکال کر اُس کے پاس آتا ہے۔ پہنو۔ ڈالوں کان میں۔ اچھا نہیں ڈالو گی۔ وہ پیچھے کی طرف سرک رہی ہے، اُس کا سر دیوار سے جا لگا ہے۔ مرد ایک ہاتھ سے اُس کی گردن تھام لیتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے اُس کے چھِدے ہوئے کان میں بُندہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ نہیں مانتی تو مرد دوسرے ہاتھ سے اُس کے کان کی لَو پکڑ کر پوری طاقت کے ساتھ کھینچتا ہے۔ اور کان کی لَو میں بنے ہوئے ننھے سے سوراخ میں بُندے کا کانٹا پیوست کردیتا ہے۔ اُس کے منھ سے ایک دردناک چیخ برآمد ہوتی ہے۔ سختی اور بے احتیاطی کے ساتھ ڈالے گئے بُندے کے کانٹے نے اُس کے کان کی لَو کو زخمی کردیا ہے۔ وہاں سے تازہ تازہ خون رِس رہا ہے۔ ایک ایسا خون جس میں لال رنگ کم ہے اور پیلا زیادہ۔ وہ روئے جا رہی ہے، کچھ تکلیف کے آنسو ہیں، کچھ صدمے کے مگردونوں آنسوؤں کا رنگ یکسر ایک ہے۔ مرد کے ہاتھ سے دوسرا بُندہ کہیں پھسل کرگرگیا ہے۔ وہ کچھ دیر اُسے ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ بُندہ نہیں ملتا ہے۔ وہ پھر آکر اُس کے قریب کھڑا ہوگیا ہے۔ شادی سے پہلے تم کون سے بیوٹی پارلر جایا کرتی تھیں؟ میں کبھی نہیں گئی، شادی والے دن دُلہن بنانے کے لیے آئی تھی گھرپر ایک پارلر والی۔ اوہ اچھا! تم تو شادی کے بعد روز میک اپ کرتی تھیں، لپ اسٹک لگاتی تھیں۔ خوب سجتی سنورتی تھیں، مجھے رِجھانے کے لیے۔ وہ کیا تھا۔ کیا اب میں مرگیا ہوں، تم بیوہ ہو گئی ہو۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آپ کو کیا ہوگیا ہے۔ میں کچھ نہیں جانتی۔ میرا سر درد سے پھٹا جارہا ہے۔ حلق سوکھ گیا ہے۔ وہ پھر زور زور سے رونے لگی ہے۔ اُس کے ایک کان میں بُندہ لگ رہا ہے، جس پر خون جمتا جاتا ہے۔ دوسرا کان خالی ہے۔ یہ دونوں کان اچانک ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن گئے ہیں۔ جیسے خدا نے اُنہیں ایک چہرے پر نہیں بنایا تھا۔ یہ جڑواں کان نہ تھے۔ یہ بچھڑ کراِدھر اس چہرے پر غلطی سے آکر چسپاں ہو گئے تھے۔

رات بڑھ رہی ہے اور مرد کی دیوانگی بھی۔ وہ اُسی طرح کھڑا ہو اُسے گھورے جارہا ہے تو اب تمھارا کیا فرض ہے؟ میں تمھارا مجازی خدا۔ نہا دھوکر آؤ۔ اچھا پانی نہیں ہے۔ ہاں مجھے معلوم ہے کہ پانی نہیں ہے تو پھر میک اَپ کرو۔ سنگھار کرو۔ پہلے خوب سجو اورپھر میرے ساتھ سوؤ۔ کھچڑی داڑھی میں پوشیدہ مرد کے گال پتہ نہیں کیوں بار بار پھولنے اور پچکنے لگے ہیں۔ دور کسی کلاک ٹاور نے رات کے بارہ بجائے ہیں۔

ٹھیک ہے تم نہیں مانو گی۔ میں لے کرآتا ہوں تمھار بیوٹی بکس۔ میں سجاؤں گا تمھیں۔ مرد دوڑتا ہوا دوسرے کمرے میں گیا ہے۔ اوراُس کا بیوٹی بکس اُٹھا کر لے آیا ہے۔ دیکھو تمہارے چہرے پر پانی کی وجہ سے کتنی لکیریں ہیں۔ کتنی جھریاں نمایاں ہو رہی ہیں۔ یہ ڈی ہائیڈ ریڈشن ہے۔ یہ نابیدہ چہرہ نئی نئی دُلہن پر کتنا گندا لگتا ہے۔ اور کتنا زرد ہو رہا ہے۔ کیا سارا خون ضائع کردیا یا تمھیں یرقان ہوگیا ہے۔ چلو لگاؤ یہ۔ مرد کے ہاتھ میں کوئی شیشی ہے، وہ روتی ہوئی فرش پر لڑھک جاتی ہے۔ میں ہاتھ پیر باندھ دوں گا تمہارے۔ یہ روٹھی ہوئی رنڈی جیسے نخرے مت کر۔ ایسا چہرہ بھیانک ہے۔ شادی شدہ عورت کا ایسا بنجر چہرہ خدا کو بھی پسند نہیں۔ مرد غرا کر کہتا ہے۔ اوراُس کے سینے پر سوار ہوکر گالوں پر زبردستی بلش لگا دیتا ہے۔ لے لگا کُتیا، لگا۔ اپنی سخت کھردری انگلیوں سے وہ اُس کی پلکوں پر مسکا لگاتا ہے۔ چہرے پر فاؤنڈیشن مَلتا ہے اورپھراُس پر سفید پاؤڈر ڈال دیتا ہے۔ وہ ایذا پسندی کی حد تک پہنچ گیا ہے۔ اپنی موٹی اور بے رحم اُنگلی سے وہ اُس کی روتی ہوئی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں کاجل پوت دیتا ہے۔ وہ اب رو نہیں سکتی۔ کاجل کی سیاہی سے اُس کی آنکھیں مچ گئی ہیں۔ وہ اب صرف چیخ رہی ہے اور فرش پر پڑی پڑی اپنی ایڑیاں رگڑ رہی ہے۔ ایڑیاں جن میں پانی کے فقدان کے سبب دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ مردا پنا ایک ہاتھ اُس کی گردن پر اس طرح رکھتا ہے جیسے گلا گھونٹ دے گاپھر دوسرے ہاتھ سے اُس کے معصوم ہونٹوں پر بہت تیز سرخ رنگ کی لپ اسٹک پوت دیتا ہے۔ اب اچھا لگانا۔ یہ لے پرفیوم لے۔ بدبو آرہی ہے تجھ میں سے۔ وہ عورت کے میلے کپڑوں اور گندے جسم پر عطر کی پوری شیشی خالی کردیتا ہے۔ گھر میں پہلے سے پھیلی ہوئی بدبو عطر کی خوشبو کے ساتھ مل کر اور بھی ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے جیسے شیطان اور فرشتے۔ کسی گہری سازش کے تحت دنیا کو نیست و نابود کردینے کے درپے ہو گئے ہوں۔ دلہن سج گئی۔ مرد بڑبڑاتا ہے اوراُس سے دور جاکر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اُس نے آنکھیں کھول لی ہیں اور چھت کو دیکھے جارہی ہے۔ آنکھوں پراتنا کاجل لگا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے۔ جیسے اُس نے آنکھوں پر کالی پٹی باندھ رکھی ہو۔ شاید اُس کی آنکھیں بند ہیں۔ نہیں کھلی ہیں۔ اُسے محسوس ہوتا ہے جیسا ہزاروں کی تعداد میں چیونٹیاں آکر اُس کے چہرے پر چمٹ گئی ہیں۔ وہاں ایک خوفناک جلن پڑتی جا رہی ہے۔ اور ایک بھیانک خارش۔ کمرے کی کھڑکی پر اُلّو آکر بیٹھ گیا ہے اور اپنی گول گول پیلی آنکھوں سے نہ جانے کس شے کو گھورے جارہا ہے۔ مرد دیوار کی طرف منھ کرکے کھڑا ہو گیا ہے۔ اُس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے منھ کو چھپا لیا ہے اور بے اختیار رونا شروع کردیا ہے۔ اُسے پیچھے سے دیکھ کر لگتا ہے جیسے کسی زلزلے کی وجہ سے کوئی قد آدم پتھر اچانک ہلنے لگتا ہے۔ فرش پر پڑی ہوئی عورت کا چہرہ جو اَب سرکس کے کسی گھٹیا جو کر سے مشابہہ ہے یا کسی سڑک چھاپ ہجڑے سے، کندھوں سے تھوڑا اوپر اُٹھتا ہے پھر نیچے ڈھلک جاتا ہے۔ اُس کے منھ سے پہلے ایک ہچکی کی سی آواز نکلتی ہے۔ پھر وہ زور زور سے ہنسنے لگتی ہے۔ اُس کی آنکھوں اور جسم میں پوشیدہ آنسوؤں کا سیلاب خشک ہو چکا ہے۔ یہ ہنسی کچھ ایسی محسوس ہوتی ہے جیسے کسی برتن کو، اُس سے بھی زیادہ وزنی دھات کے برتن سے کوٹا جا رہا ہو۔ ایک ایسی آواز جسے زیادہ دیر تک سننے کے بعد کسی کو دل کا دورہ پڑسکتا ہے۔

آدمی کے وجود میں وہ کون سا تیزاب پوشیدہ رہتا ہے جو اُس کے ہر نیک اور عظیم جذبے کو جلا ڈالتا ہے۔ ہم نئے نئے دائرے بناتے ہیں، پھر خود ہی اُن میں قید ہوکر رہ جاتے ہیں۔ یہ ایک نیا دائرہ ہے جس میں قید ہو جانے کے بعد اتنی گندی مایوسی میں اگر کچھ بہتر سوچا جا سکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ اگرمحبت نہیں ہے تواِس اجنبی، غلیظ اور خوفناک دنیا میں خدا بھی نہیں ہے کیونکہ خدا محبت کا دوسرا نام ہے۔ انسانوں کا، محبت کا لمس چاہیے۔ اُن کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے خدا چاہیے۔ ورنہ یہ وہ مایوس کن صورتِ حال ہے جس میں آدمی خدا پر بھی یقین کرنا چھوڑ سکتا ہے۔ شاید یہ ایک خواب ہے جسے انسانوں نے مرنے سے کچھ دیر پہلے دیکھا تھا اوروہ اُن کے تحت الشعور کے کسی ریشے میں پھنسا رہ گیا تھا۔ آج وہی خواب بھٹک کر یہاں آگیا ہے۔ اُسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے۔ خواب ہی اپنے آپ کو دیکھ رہا ہے۔ ہمیں اس کے مآخذ کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ خوابوں کے ماخذ، خوابوں سے بھی زیادہ گندے اور سیاہ ہوتے ہیں۔ آدھی رات میں باہر پھیلی ہوئی زرد دُھند میں نہ جانے کہاں سے جھنڈ بنا کر جنگلی لومڑیاں چلی آئی ہیں۔ پاگل کتے سہمی ہوئی اور خوف کھاتی ہوئی آوازیں نکال کر اُن کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ رُک جاتے ہیں کیونکہ جنگلی لومڑیوں کے منھ سے نکلنے والی چیخیں کتوں کی آوازوں سے زیادہ بھیانک ہیں۔ اگر کبھی بارش ہوئی اوراُس میں اتفاق سےدھوپ بھی نکلی ہوئی ہو تو یہ لومڑیاں اپنی شادی رچائیں گی۔ مگرافسوس کہ اس شادی کو دیکھ لینے والا کوئی شخص زندہ نہیں رہ سکتا۔ وہ ایک خفیہ شادی ہوگی۔ لومڑیوں کی شادی دیکھنا انسانوں کے لیے منع ہے۔

[dropcap size=big]جنت[/dropcap]

باغ کے 13 نمبر کے فلیٹ میں ایک تنہا جنونی اور بیمار شاعر رہتا ہے۔ فلیٹ کے اندر سے اکثر اُس کے بڑ بڑانے یا بلند آواز میں کچھ پڑھنے کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ وہ کسی سے ملتا جلتا نہیں ہے۔ اکثر اُسے کھڑکی یا بالکونی پر کھڑے ہوئے سگریٹ پیتے ہوئے دیکھا جاتا رہا ہے۔ گذشتہ تین ہفتون سے اُسے کسی نے نہیں دیکھا۔ پولیس والوں نے بھی اُس کی کوئی جھلک کھڑکی پر نہیں دیکھی۔ یہ دن ایسے ہیں جب کوئی کسی کو نہیں دیکھتا۔ کوئی کسی کو نہیں سنتا۔ کسی کو کسی کی خبر نہیں ہے۔ ٹیلی فون کے تار کاٹ دیے گئے ہیں۔ کسی کے گھر میں ٹیلی فون کی گھنٹی نہیں بجتی۔ مگرگدھ اور چیلیں دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں۔ آدھی رات میں پیلی آنکھوں والے اُلّو سب کی خبر رکھتے ہیں۔

نہیں! مجھے سب معلوم ہے کہ یہ پانی کی بھیانک کمی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ میری نظمیں سوکھ چکی ہیں۔ ان میں پانی کا قطرہ تک نہیں ہے۔ یہ جو مجھے وہم ہو رہے ہیں۔ التباس ہو رہے ہیں ان کا سبب خون میں پانی کا ختم ہو جانا ہے۔ یہ وہم ادراک ایک خواب سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ تو اچھا ہی ہے کہ خواب میں میرا جسم بھی شامل ہوتا ہے۔ ورنہ بغیر جسم کی روح تو زیادہ گناہ گار ہوتی ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ میرے جسم میں اب نمک کے چند ذرات ہی بچے رہ گئے ہیں۔ اس لیے میں اپنے آپ کو مرتا ہوا محسوس کرتا ہوں۔ شاید یہ میری زندگی کی آخری رات ہو۔ ایک مضحکہ خیز رات جس میں کتے بار بار بُرے خواب دیکھ کر چونکیں گے، جھرجھری لیں گے۔ ایک بار بھونکیں گے، پھر سو جائیں گے۔ کتوں کو نہیں معلوم کہ انسانوں کے بنائے ہوئے کلینڈر کے کیا معنی ہوتے ہیں۔ میں دیوار دیکھ رہا ہوں جہاں ایک مکڑی جالا بُن رہی ہے۔ وہ دیوار اور وقت کو ایک ساتھ مٹانے کی کوشش میں ہے۔ میں کچھ اچھی یادوں کی تلاش کرنے میں لگا ہوا ہوں۔ مگراب وہ اچھی یادیں نہیں کہی جا سکتی ہیں۔ ان کی اچھائی میں اُجلا پن نہیں ہے بلکہ موت کی سفیدی ہے۔ جبکہ بُری یادیں میری کھوپڑی کے وسط میں سوراخ کرکے میرے بھیجے کا سارا خون پینے میں مصروف ہیں۔ کیا زندگی اور موت دونوں سے الگ بھی کوئی دنیا ہوگی۔ ابھی میں سو گیا تھا۔ میں نے خواب میں مُردے ڈھونے والی گاڑیاں دیکھیں۔ وہ سب سیاہ رنگ کی اسٹیشن ویگن تھیں اور قطار سے نمبر لگائے کھڑی تھیں۔ ہر گاڑی پر سفید چاک سے لکھا تھا: ‘لاش کے واسطے۔’

کتے بھونک رہے ہیں۔ میرے کان بیماری سے زیادہ سننے لگے ہین۔ وہم میں مبتلا ہر شخص کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ میرے کان توہمیشہ سے ہی بہت تیز ہیں۔ کتے بھونک رہے ہیں۔ کتے کمرے کی دیوار پر آکر بیٹھ گئے ہیں۔ ان سارے کتوں کا رنگ پیلا ہے۔ یا میرا جگر خراب ہوگیا۔ جسم میں پانی نہ رہنے کی وجہ سے سب سے پہلے جگر اور گردے ہی خراب ہوتے ہیں۔ سارا آسمان کتوں سے گھرا ہوا ہے۔ سارا آسمان پیلا ہے۔ زرد بالوں جیسے، رات کے یہ مہیب کتے۔ یقیناً یہ ایک سگ زدہ رات ہے۔ شاید میری آنکھیں پیلی ہوئیں۔ میری آنکھیں بند ہیں۔ مگرمیں اپنی اِن بند آنکھوں سے دیوار پر سب کچھ دیکھ سکتا ہوں۔ دیوار پر تماشہ چل رہا ہے۔ کتنی پرچھائیاں ہیں وہاں اور کتنی روشنی ہے۔ کتنے لوگ سفر پر جارہے ہیں۔ میرے کمرے سے ٹوائلیٹ کی دوری کتنی ہو گی۔ چاقو کی ایک گندی چبھن میری آنتیں کاٹ کر رکھ دے گی۔ میری ساری دنیا زرد پڑ گئی۔ میری محبت بھی۔ میں گھر میں بالکل اکیلا ہوں۔ میرا اکیلا پن بھی زرد ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ سب دھوکہ ہے۔ فریبِ نظر ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ گھر میں پانی نہیں ہے اور میری آنکھوں میں نیند نہیں ہے۔ نیند یہاں آنا مشکل ہے۔ سوچتا ہوں بیتی ہوئی زندگی کے کوڑے دان میں جاکر اطمینان سے لیٹ جاؤں اور سوجاؤں۔ مگرسارے کوڑے دان لبا لب بھرے ہوئے ہیں۔ اُن میں میرے لیٹنے کے لیے اب جگہ ہی نہیں بچی ہے۔ میرے سر کے عقبی حصے میں روشنی کے جھماکے ہو رہے ہیں۔ اسی روشنی میں، میں اپنے گھر کو دیکھ لیتا ہوں۔ جہاں اتنی بدبو پھیلی ہوئی ہے جیسے ہر کونے میں مرے ہوئے چوہے سڑ رہے ہوں۔ مگراب میری ناک بند ہو گئی۔ اب میں بدبو نہیں سونگھ سکتا۔ دراصل میری ناک میں وہ خون جم گیا ہے جو کچھ دن پہلے میرے دماغ کی رگ پھٹنے کے باعث نکلا تھا مگرکوئی بات نہیں۔ مجھے یہ بدبو نظرآرہی ہے۔ میں یہ بدبو سونگھ نہیں سکتا، مگردیکھ تو سکتا ہوں۔ میری بند آنکھیں، میری بند ناک کی مدد کررہی ہیں۔ ایسا ہی ہونا چاہیے، یہی تو آپسی محبت ہے۔ میں نے بہت پہلے اپنی محبت کو کھو دیا۔ میں اُس کے گھر جانا چاہتا ہوں۔ وہاں جہاں سب کے گھر ختم ہو جاتے ہیں۔ آبادی ختم ہو جاتی ہے۔ تب بہت دور چلنے کے بعد، کئی موڑ مڑنے کے بعد اُس کا گھرآتا ہے۔ یہی گھر تو میرا بھی تھا۔ یہاں اندھیرا بہت ہے اور میں سمت بھول جانے کا پرانا مریض ہوں۔ ہر گناہ گار کی قسمت میں یہی لکھا ہے کہ وہ اپنے گھرجانے کی سمت بھول جائے تاکہ جہنم کے سپاہی گھر میں جانے سے پہلے ہی اُسے گرفتار کرکے لے جائیں اور جہنم کی آگ کے سپرد کردیں۔ پانی نہیں آرہا ہے۔ بس اتنی سی بات ہے اور تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ سب ٹھیک ٹھاک ہے۔ مجھ سے اُٹھا کیوں نہیں جاتا۔ کب سے بستر پر پڑا ہوں۔ ریڑھ کی ہڈی دُکھ گئی، مگرجب اُٹھ جاتا ہوں تو سیدھا لوہاروں والی گلی میں چلا جاتا ہوں۔ا س گلی میں تو میری محبوبہ رہتی ہے۔ اس گلی میں ہر طرف آگ ہی آگ دہک رہی ہے جس میں لوہا تپ رہا ہے۔ میں نے اپنی وہ نظم بھی اِسی آگ میں ڈال دی۔ جو میں نے اُس کے لیے لکھی ہے۔ آگ میں میری نظم بھی تپتا ہوا لوہا بن جائے گی۔ میں نے اُس سے کہا تم سے پہلے میں کسی عورت کو جانتا تک نہیں تھا۔ اُس نے کہا میں تم سے پہلے کسی مرد کو جانتی تک نہ تھی۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔ پہلے عورت اور مرد ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں پھر آہستہ آہستہ وہ ایک دوسرے کو وہ سب سکھانا شروع کردیتے ہیں جو وہ ازل سے ہی جانتے ہیں۔ شاید سبق سکھانا اسی کو کہتے ہیں۔ اس جاننے اور سیکھنے کے درمیان ایک گندے پوکھر میں محبت ایک بغیر سنّوں والی بدنصیب مچھلی کی طرح پھڑپھڑاتی رہتی ہے اُسے پتہ نہیں کہ اُس کی چکنی جلد کے لیے اُسے کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ مگرمجھے پسینہ بالکل نہیں آرہا ہے۔ آئے بھی کہاں سے، بدن میں پانی ہی نہیں ہے۔ بس اب کھال پھٹ کر خون باہر آنے کی دیر ہے۔ ہونٹ دیکھو، کیسے پھٹ گئے ہیں۔ زبان جکڑ گئی ہے۔ ورنہ ہونٹوں پر پھیر لیتا۔ اس وقت اُس کے نرم گیلے ہونٹوں کا یک بوسہ ہی میری جان بچا سکتا ہے۔ نہیں مجھے معلوم ہے کہ یہ سب میرا وہم ادراک ہے اور کچھ نہیں۔ پانی کبھی تو آئے گا، پانی مر نہیں سکتا۔ پانی سب کو غرق کرسکتا ہے مگرخود اپنے اپ کو نہیں۔ پتہ نہیں پانی کے مسئلے پر ملک میں جو مختلف صوبائی تنازعے چل رہے ہیں اُن کا کیا ہوا۔ کس صوبے کو زیادہ پانی ملا اوراُس ڈیم کا کیا ہوا جس نے ایک پورے شہر کو ڈُبو کررکھ دیا تھا۔ شاید کل سپریم کورٹ فیصلہ سنادے۔ میں بھی تو سپریم کورٹ کا ایک جج ہوں۔ مگرمجھے یہ سب جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ وہ جو کسی نے کہا تھا کہ علم کے جنگل سے سُور کی طرح منھے لٹکائے ہوئے ہی واپس آیا جا سکتا ہے۔ ایک مچھر لگاتار میرے کان میں نوحہ سنائے جارہا ہے۔ یہ میری کھڑکی کے شیشے پر آگ کا سایہ کیسے منڈلایا۔ شاید باہر پولیس والوں نے ایک پاگل کتے پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی ہے۔ وہ جانور دھڑا دھڑا جل رہا ہے۔ اُس کا جلتا ہوا سایہ بگولے کی طرح ناچ رہا ہے۔ ویسے یہ سب پانی کی وجہ سے ہے۔ یہ فریبِ نظر ہے۔ کیا پانی آگیا۔ دیکھوں تو جا کر۔ چلو بعد میں دیکھوں گا۔ ابھی تو میں ایک ایسے جنگل میں ہوں جہاں نہ درخت ہیں نہ گھاس۔ اصل جنگل تو یہی ہے جہاں جانور ننگے گھوم رہے ہیں۔ زیبرے کی خوبصورت دھاریاں سوکھ کر پپڑی بن کر اُس کے جسم میں گرگئی ہیں۔ میں خدا میں پو را یقین رکھتا ہوں اس لیے دنیا میری سمجھ میں نہیں آتی۔ میں خدا کی خاموشی سے پریشان ہوں۔ اگرمیں خدا کو نہ مانتا ہوتا تو دنیا میری سمجھ میں آجاتی۔ یہ ایک فائدہ تھا کہ پھر تنہائی، خوف اور بے رحمی سب شفاف ہو جاتیں اور موت آسان اور زندگی اُس کے ہونٹوں کی طرح میٹھی اور مزیدار۔ پھر زندگی اور موت کے درمیان خدا نہ ہوتا۔ کسی بھی مطلق سچائی کو نہ تسلیم کرنے میں ہی نجات ہے۔ مگریہ سوچنا گناہ ہے۔ میں اس لیے یہ سوچ رہا ہوں کہ میرے اندر سوکھا پڑ گیا ہے۔ جو کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔ بڑی بات تو یہ ہے کہ پانی کا ارتقا ندیوں اور سمندروں میں نظر آتا ہے۔ ایک شاندار ارتقا۔ مگرہمیں اُس پانی سے ہوشیار رہنا چاہیے جو چھپ چھپ کر، گہرے گڈھے، کنوئیں اور باؤلی میں رہتا ہے۔ یہ ایک ایسا پانی ہے جس کے دل میں بغض بھرا ہوا ہے۔ چھپی ہوئی چیزون سے ہوشیار۔ مجھے بھوک لگنا بند ہو گئی ہے اور پیاس بھی نہیں لگتی۔ پیاس کے لیے ایک گلا ہونا ضرور ہے اورا ُسے میں لوہاروں کی گلی میں بھول آیا ہوں۔ اب مجھے چلنا چاہیے۔ یہ کتے تو بھونکتے ہی رہیں گے۔ یہ خدا کی بنائی ہوئی اصل دنیا نہیں معلوم ہوتی۔ یہ اصل دنیا کی پیروڈی ہے۔ شیطان کی لکھی ہوئی پیروڈی۔ مجھے خدا کے پاس جانا ہے۔ خدا کی اصل دنیا میں ہی مجھے پانی ملے گا۔ ہلکورے مارتا ہوا پانی۔ آبِ حیات بھی وہیں۔ یہاں تو آبِ مرگ یا آبِ فنا کا ایک قطرہ نہیں بچا ہے۔ مجھے احساس ہو چلا ہے کہ میرا یہ کہنا یا ارادہ کرنا ایک خنجر کو پانی کے اندر چلانے جیسا ہے۔ اوریہ سب میرے جسم کی نابیدگی کی وجہ سے ہورہا ہے۔ میرا جسم گیلی گولیے کی طرح کب کا نچوڑا جا چکا اور اب ایک سوکھی جھلّی کی مانند الگنی پر لٹکا ہوا ہوا میں ہل رہا ہے۔ ایک خنجر پانی کے اندر چاقو کا ایک وار پانی کےاوپر، رائیگاں، بیکار۔ وہ ڈوب گیا۔ بس مچھلیاں پانی کے اندر اپنا راستہ بھول گئی ہیں کیونکہ اس بارے مچھیرے جال لے کر نہیں آئے ہیں۔ اُن کے ہاتھوں میں کھلے ہوئے چاقو دبے ہیں۔

دُور، بہت دور، گھروں میں ساری روشنیاں بند کردی گئی ہیں۔ وہاں مدھم لَو والے چراغ روشن کردیے گئے ہیں۔ جن میں بجلی کی کمینگی اور شیطینیت کا کوئی شائبہ تک نہیں۔ یہ ایک پاکیزہ روشنی ہے جس میں نیک روحیں دوبارہ جنم لیتی ہیں۔ نیکی بدی پر فتح پانے کے لیے اپنے گھر سے نکل کھڑی ہوئی ہے۔ پیلے غبار کی چھت کے نیچے سوتا ہوا یہ شہر جلد ہی جاگنے والا ہے۔

کیا پانی آگیا۔ کیا پانی آنے والا ہے۔ مرنے سے پہلے میں نے اُسے دور سے آتا ہوا دیکھ لیا اوراُس کی آواز سُن لی۔ اب سب کچھ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جس طرح آنکھ آہستہ آہستہ اپنی روشنی گنواتی ہے۔ جس طرح دق پھیپھڑوں پر آہستہ آہستہ جمتی ہے۔ مجھے بخار ہے۔۔۔۔ تیز بخار۔ اس بخارپر کوئی بالٹی بھر کر پانی ڈال رہا ہے۔ کیا یہ سچ ہے کہ پانی آگیا۔ مگرسچ ہے کیا۔ کتنے راستے ہیں جو اُس کے گھرجاتے ہیں مگرسچ ایک ایسا کرایہ دار ہے جو زیادہ دن ایک مکان میں نہیں ٹھہرتا۔ نقلِ مکانی اُس کی فطرتِ ثانیہ ہے۔ میں نے پانی کو آتے ہوئے دیکھ لیا ہے، پانی ننگے پیر آرہا ہے۔ میں نے پانی کی کمی کی وجہ سے اپنے جسم کو مرجانے کے لیے راضی کرلیا ہے۔ میں پانی پر اپنا خون معاف کرتا ہوں۔

[dropcap size=big]اس[/dropcap]

نےاپنے بچپن سے ہی یہ کام سیکھ لیا تھا، جب وہ اپنے باپ کے ساتھ جگہ جگہ ٹیوب ویل اور ہینڈ پمپ لگوانے جایا کرتا تھا۔ اُس کا خاندان نل والوں کا خاندان کہا جاتا تھا کیونکہ اِس خاندان اور کنبے کے تمام افراد ایک زمانےسے یہی کام کرتے چلے آرہے تھے۔ اُس کا باپ بہت عمدہ مستری تھا۔ گاؤں سے لے کر شہر تک اُس کی شہرت تھی۔ وہ سوکھی سے سوکھی زمین سے بھی پانی کھینچ کرلے آتا تھا۔ یہاں تک کہ پتھریلی زمین سے بھی۔ زمیں میں اُس کے گاڑے ہوئے نل بہت مشکل سے ہی خراب ہوتے تھے۔ باپ کی موت کے بعد اُس نے اپنا موروثی کام سنبھا ل لیا اوراُسے بخیرو خوبی انجام دینے لگا۔ جب سے پائپ والے پانی کا رواج بڑھا تھا۔ اُس نے یہ کام بھی سیکھ لیا تھا۔ شہر میں نئی تعمیر ہوانے والی کالونیوں میں بورنگ کرنے، نل لگوانے اور اُن کی مرمت وغیرہ کے لیے اُسے بلایا جانے لگا تھا۔ وہ ایک ماہر پلمبر بن گیا تھا۔ لائف اپارٹمنٹس اوراُس کے اطراف کی کالونیوں میں بورنگ کرنے والے مستریوں میں وہ بھی شامل تھا۔ جن کو ٹھیکے دار نے نوکری پر رکھ لیا تھا۔ اُس کا گاؤں کالی ندی کے پُل کے مغرب میں واقع چاند ماری کے میدان سے ملا ہوا تھا۔ چاند ماری کا میدان اب مکمل طورپر ملٹری کے ممنوعہ علاقے میں شامل کرلیا گیا تھا۔ مگربچپن میں وہ اپنے باپ کے ساتھ سائیکل پر بیٹھ کر چاند ماری کا میدان دیکھنے جایا کرتا تھا۔ جہاں فوج کے افسر اور سپاہی نشانے بازی کی مشق کیا کرتے تھے۔ اُسے وہ سرخ رنگ کی اونچی فصیل آج بھی یاد ہے جو کسی چھوٹے سے قلعے کی دیوار کی طرح لال پتھروں کی بنی ہوئی تھی اورجس پر جگہ جگہ کارتوسوں کے نشان پڑے ہوئے تھے۔ وہاں کے فوجی لوگ بھی اُس کے باپ کو پہچانتے تھے اوراُس کے سلام کا جواب مسکرا کردیا کرتے تھے۔ اُس کا باپ فوجی علاقے میں بھی اکثر نل لگانے یا بورنگ کرنے کے لیے بلایا جاتا تھا۔ مگرجب سے اِس علاقے کو ممنوعہ قرار دے دیا گیا ہے اوراُس کے چاروں طرف کانٹوں دار تار کی گھیرا بندی کردی گئی ہے، تب سے عام آدمی کا اس علاقے میں آنا بند ہوگیا ہے۔

یہ بہت اچھی بات تھی کہ بیماری ابھی اُس کے گاؤں نہیں پہنچی تھی، مگراُسے رات میں نیند آنا بند ہو گئی تھی۔ وہ جاگتا رہتا اور سوچتا رہتا کہ پائپ لائن بچھانے کا اور بورنگ کرنے کا کام تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہوا تھا، پھر یہ پانی آخر گندا کیسے ہو گیا۔ اُس کے کام میں تو کبھی کوئی شکایت آنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ آج صبح تڑکے، جب پو پھُٹ رہی تھی وہ ٹہلتا ہوا اپنے گاؤں سے آگے چاند ماری کے میدان کے پیچھے سے ہوتا ہوا، کالی ندی کے کنارے کنارے دور تک نکل گیا۔ ان دنوں وہ بیکار تھا۔ شہر میں ناکہ بندی چل رہی تھی۔ اس لیے وہ بے فکری کے ساتھ صبح صبح ٹہلنے نکل جایا کرتا تھا۔ آج ٹہلتے ٹہلتے بے خیالی میں وہ بہت آگے نکل آیا۔ وہاں جہاں اینٹوں کے بھٹّے کی چمنی دُھواں دیتی ہوئی نظرآتی تھی اور جہاں کالی ندی نے ایک بڑا سا موڑ کاٹا تھا۔ اوراُس کے کراڑے اونچے ہوتے چلے گئے تھے۔ ندی کے کالے پانی میں جگہ جگہ سیوار اُگ آیا تھا اُڑی ہوئی ہری رنگت کا سُرخی مائل سیوار۔ کچھ دیر پہلے طلوع ہوئے سورج کی کرنیں جب ترچھی ہو کر اس سیوار پر پڑیں تو پل بھر کواسے دھوکہ ہوا جیسے کالی ندی میں نہ جانے کہاں سے بہت پرانا جما ہوا خون بہتا ہوا چلا آرہا ہے۔ دور دور تک ویرانی پھیلی ہوئی تھی۔ چند مویشی ضرور ندی کے اُس پار گھوم رہے تھے۔ وہ یونہی چلتا رہا۔ کچھ دور کے بعد۔ آگے جا کر درختوں کا ایک گھنا جھنڈ ندی پر جھک آیا تھا۔ یہاں بے شمار کوّے بول رہے تھے۔ ندی کے اس حصے کی طرف شاید ہی کوئی کبھی آتا ہو کیونکہ یہی وہ جگہ تھی جہاں ندی میں بہہ کرآنے والی لاوارث لاشیں درختوں کے اس گھنے جھنڈ میں پھنسی ہوئی پائی جاتی تھیں۔ گاؤں والے اِدھر آتے ہوئے ڈرتے تھے۔ چاند ماری کے میدان میں فائرنگ ہونے لگی۔ اُسے اندیشہ ہوا کہ کوئی گولی اِدھر کو نہ آبھٹکے۔ وہ تھوڑا ٹھٹکا پھر آگے بڑھنے لگا۔ بڑھتا ہی رہا یہاں تک کہ اُسے وہ اونچا کٹیلا تارنظرآنے لگا جس کے ذریعے ملٹری کے ممنوعہ علاقے کی گھیرا بندی کردی گئی تھی اور جس پر جگہ جگہ سرخ بورڈ ٹانگ دیے گئے تھے جن پر ‘ممنوعہ علاقہ’ موٹے موٹے حروف میں لکھا ہوا تھا۔ اُس نے اپنی جیب سے بیڑی کا بنڈل نکال کرایک بیڑی سلگائی اور تبھی اُس کی نظرکانٹوں دار تار کی فصیل کے اُس پار بجلی کےے ایک ہائی ٹینشن ٹاور پر پڑی۔ اُس نے دیکھا کہ ٹاور کے اوپر بجلی کے تاروں کے جال میں سے ایک لمبا تارٹوٹ کرکالی ندی کے کنارے ایک گڈھے میں گر پڑا تھا۔ اُس نے اپنا چار خانے والا تہبند گھٹنوں تک چڑھا لیا اور جلدی جلدی گڈھے کی طرف قدم بڑھائے۔ وہاں پہنچتے ہی اُس کی ناک سڑ گئی۔ بہت بدبو تھی۔ گڈھے میں نہ جانے کب سے پانی سڑرہا تھا۔ جس میں مویشیوں کی لاشیں تقریباً ڈھانچوں میں تبدیل ہو کر تیر رہی تھیں۔ یہ بہت بڑا گڈھا بن گیا تھا۔ مویشیوں کی لاشوں کو گدھ نوچ رہے تھے۔ اُس نے بیڑی کا ایک گہرا کش لیا اوراُسے پھینکتے ہوئے اپنے انگوچھے سے منھ پر ڈھاٹا باندھ لیا اور تھوڑا اور آگے بڑھتا ہوا گڈھے کے آس پاس کی زمین کا جائزہ لینے لگا۔ اورتب اُسے وہ نظرآگیا۔ گڈھے سے بالکل ملا ہوا۔ سیور لائن کا کالے رنگ کا موٹا ساپئپ جو جگہ جگہ سے پھٹ گیا تھا اوراُس میں دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔ جگہ جگہ گہرے سوراخ بھی بن گئے تھے۔ اُسے اچھی طرح علم تھا کہ یہاں سے صرف دو فیٹ کی دوری پر پینے والے پانی کی لائن بھی گزرتی تھی۔ اُسے سب سمجھ میں آگیا۔ ہائی ٹینشن ٹاور کے اس تار نے زمین کے اندر گہرائی میں ڈالے گئے سیور لائن کے اس پائپ کو برباد کرکے رکھ دیا تھا۔ یہ بڑا سا گڈھا اس بجلی کے گرنے اور زبردست دھماکے سے ہی وجود میں آیا ہوگا۔ یہاں اُ س وقت جو مویشی ٹہل رہے ہوں گے وہ اس بجلی کی زد میں آکر جل کر مر گئے ہوں گے اور گڈھے میں دفن ہو گئے ہوں گے۔ گڈھا زمین میں ہوئے ایک دیوقامت زخم کی شکل میں نظرآتا تھا۔ یا ایک بہت بڑی قبر کی طرح جس کے رمز کو سمجھنا مشکل ہے۔ صرف عذابِ قبر کے فرشتے ہی اس سے واقف ہیں یا قبر میں لیٹے ہوئے مُردے۔ پانی پر جھک کر اُس نے یونہی اپنا چہرہ دیکھنا چاہا مگرجانوروں کی لاشوں اوراُن کے پنجروں میں اُس کے چہرے کا عکس کہیں پھنس کررہ گیا۔ کالی ندی اکثر اپنے کناروں سے باہر بہنے لگتی ہے۔ چاہے برسات کا موسم نہ بھی ہو۔ یقینی طورپر جہاں یہ گڈھا ہے وہاں ندی کا پانی اکٹھا ہو گیا ہو گا یا پہلے ہی سے کیچڑ اور دلدل رہی ہوگی۔ بجلی کے ساتھ جب پانی ملا ہوگا تو جو قیامت آئی ہوگی اُسے کسی نے نہیں دیکھا۔ اُسے تو صرف اُن بدنصیب مویشیوں نے ہی دیکھا جن کی لاشیں گڈھے میں سڑ رہی ہیں اور چاروں طرف جراثیم ہی جراثیم ہیں۔ اگرچہ وہ ننگی آنکھ سے نظر نہیں آتے۔ بجلی اور پانی جب زیادہ غصہ ورہوکر بغل گیر ہوتے ہیں تو یہی ہوتا ہے۔ زمین بھی آگ کا گولہ اسی طرح بنی تھی اورہم کیا یہ سمجھتے ہیں کہ اب اُس کی آگ کم ہو گئی ہے؟

تو یہ تھا اُس پُراسرار بیماری کا راز۔۔۔۔ اُس کا ماخذ یا مرکز۔ ماخذ ہمیشہ گندے ہوتے ہیں چاہے وہ انسانوں کے ہوں یا کسی اور شے کے۔ بڑے بڑے سائنسی ادارے اوراُن کی ٹیمیں، ڈاکٹر،انجینئر جس خرابی کا پتہ نہ لگا سکے اُسے ایک معمولی نل والے نے کھوج لیا۔ ایک غریب پلمبر نے۔ وہ تقریباً دوڑتا ہوا واپس آنے لگا۔ اُسے شہر جانا ہے۔ پولیس کو مطلع کرنا ہے پھراُسے اخبار، ریڈیو اور ٹیلی وژن تک پہنچنا ہے۔ اُنہیں یہ خوشخبری سنانا ہے کہ یہ محض ایک تکنیکی خرابی تھی۔ ملڑی پراس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے میڈیا تک یہ خبر پہنچنے ہی نہ دی ہوگی کہ اُن کے ممنوعہ علاقے میں ہائی ٹینشن تاروں کے آپس میں اُلجھ جانے کے باعث کبھی بجلی گری تھی۔ نئے تار لگا کر فیوز جوڑ دیے گئے تھے۔یہ وہی تکنیکی خرابی ہے کہ جس کا تعلق انسانوں کے نصیب سے بہت گہرا ہے۔ ایک نادیدہ تعلق جس کے ذریعہ یہ خرابیاں انسانوں سے اپنا رشتہ ہمیشہ استوار رکھتی ہیں۔ اگرچہ ہمیں انتظار کرنا پڑتا ہے اُس وقت کا جب ہم ٹھنڈی سانس لے کر یہ کہیں گے یہی مقدر تھا۔ پتہ نہیں اس تکنیکی خرابی کے باعث وہ سب شہید ہوئے یا کتے کی موت مرے یا کتوں سے بدتر زندگی گزر رہے ہیں۔ اس بارے میں کچھ بھی وثوق کے ساتھ کہہ پانا ہمیشہ مشکل ہی رہے گا۔

وہ شہر کی طرف دوڑتا جاتا ہے۔ اپنا تہبند گھٹنوں تک چڑھائے۔ کیچڑ، پانی سے لت پت گڈھے پھلانگتا ہوا، گرتا پڑتا وہ ننگے پاؤں بھاگتا جاتا ہے۔ اُس کی چپلیں کہیں راستے کی دلدل میں پھنس گئیں۔ اوراُس کے ننگے پیروں کے نیچے کئی مینڈک کچلتے کچلتے بچ گئے۔ وہ غریب مستری جو آج آرکا میدس سے کم نہیں۔ اُسے اس سے بھی زیادہ تیز اور دیوانہ وار دوڑنا چاہیے۔ اخباروں میں اُس کی تصویریں شائع ہوں گی اور ٹی وی چینل والے اُس کا انٹرویو لیں گے۔ اُس کے بیوی بچے خوشی سےپاگل ہو جائیں گے۔ کالی ندی پر بنا ہوا وہ پرانا سفید کنگورے دار پُل اب اُسے نظرآنے لگا ہے۔

[dropcap size=big]ٹی-وی[/dropcap]

کے ایک مشہور نیوز چینل پر چشمہ لگائے خوبصورت آنکھوں والی ایک رپورٹر ضلع اسپتال کے ایک نوجوان مگرذمہ دار ڈاکٹر کا انٹریو لے رہی ہے۔ لڑکی نے اپنے بالوں کا جوڑہ باندھ کر اُن میں ایک سُرخ گلاب لگا رکھا ہے اور ڈاکٹر نے آج اپنی سب سے زیادہ قیمتی چاکلیٹی رنگ کی چارخانے والی قمیض پہن رکھی ہے۔ دونوں آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ درمیان میں ایک شیشے کی میز ہے جس پرایک گل دستہ اور کافی کے دو کپ رکھے ہوئے ہیں۔

آپ لوگوں کا یہ کارنامہ قابلِ ستائش ہے اور تاریخ میں اسے یاد رکھا جائے گا۔ اپ ہمارے ناظرین کو اس بارے میں کیا بتانا چاہیں گے۔ لڑکی مسکرا کر انٹرویو شروع کرتی ہے۔ ڈاکٹر بھی جواباً مسکراتا ہے۔ پھر کہنا شروع کرتا ہے۔ شکریہ۔ یہ سب سخت محنت اور جدو جہد کے سبب ممکن ہوا ہے۔ ہم نے دن رات محنت کرکے، مطالعہ کرکے اور تحقیق کرکے بالآخر اس امر کاسراغ لگا لیا کہ یہ کوئی وائرس نہیں تھا۔ یہ کالرا کا ایک معمولی بیکٹیریا تھا۔ مگرکالرا کا علاج تو اب عام ہے۔ لڑکی نے پوچھا۔

سنئے۔۔۔۔ پوری بات سنئے کہ بیکٹیریا تو وہی پرانا تھا مگراب انسان بدل گئے ہیں۔ ان کے جسموں کے نظام میں بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اُن کی قوتِ مدافعت کی ساخت بھی بدل رہی ہے۔ اوراُس کا عملی نظام بھی۔ اب اس بیکٹیریا کے تئیں انسانی جسم مختلف ردِ عمل پیش کررہے تھے۔ اُن کے جسم میں بننے والی اینٹی باڈیز باہر سے آئے ہوئے اُس اینٹی جن کا مقابلہ نہیں کرپارہی تھیں۔ علاج کے دوران دوائیاں اپنا اثر اس لیے نہیں دکھا رہی تھیں کہ مریضوں کے جسم انہیں اپنا تعاون نہیں پیش کررہے تھے۔ آپ کو تو معلوم ہے کہ مریض کا اپنا تعاون کتنا ضروری ہوتا ہے۔

آپ کو یہ کب معلوم ہوا کہ یہ وائرس نہیں ہے؟ لڑکی نے سوال کیا۔

کافی دن پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا مگرجب تک کونسل آف میڈیکل ریسرچ والوں نے دوا ایجاد نہیں کرلی۔ ہم نے میڈیا سے رابطہ قائم نہیں کیا۔ ڈاکٹر نے کافی کا کپ اُٹھا لیا۔

تواَب کون سی دوا تجویز کی گئی ہے؟ لڑکی مسکرا کر پوچھتی ہے۔

کوئی خاص نہیں۔ پہلے سے تجویز کردہ کالرا کے اینٹی بائیوٹک یعنی ڈوکسی سائیکلین کو سی فاکزیم جیسے اینٹی بائیوٹک کی مناسب مقدار میں ملا کر دینے سے سارے مریض صحت یاب ہو رہے ہیں اور یہ دوا بجائے پانی کے لیموں یا سنترے کے عرق کے ذریعے دی جائے تو اور بھی بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ اگردرمیان میں مریض کو بید کے درخت کی چھال کو پیس کر تھوڑے پانی میں ملا کر دیتے رہیں تو سرکے اُس درد سے بھی نجات مل جائے گی جو ڈی ہائیڈریشن کی وجہ سے ہے۔ بیدِ مجبوں کی چھال دنیا کی سب سے پرانی اور پہلی دوا ہے۔ مریض اب ٹھیک ہوکر واپس گھر جارہے ہیں۔ ڈاکٹر نے کہا۔ اس وبا کے پھیلنے کی روک تھام کے سلسلے میں سرکار نے جو حفاظتی اقدام اُٹھائے۔ شہر کی ناکہ بندی وغیرہ وغیرہ۔ وہ سب بہت مستحسن ہے اور یہ بھی خوش آئند بات ہے کہ ناکہ بندی ختم کردی گئی ہے۔ کالی ندی کے پُل پرسے پولیس کا پہرہ ہٹا دیا گیا ہے۔ لوگ اب گھروں میں بند نہیں رہیں گے۔

مگرجن علاقوں میں پانی کی سپلائی روک دی گئی تھی وہاں کیا حال ہے۔ لڑکی نے بھی کافی کا کپ ہاتھ میں لے لیا ہے۔

دیکھئے اس بارے میں تفصیل کے ساتھ تو آپ کو ضلع کے حکام ہی بتا پائیں گے۔ مگر بات یہ ہے کہ پانی بالکل ٹھیک تھا، صاف تھا۔ سیور لائن میں کوئی خرابی نہیں پائی گئی۔ پانی کا کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔ سپلائی روک دینا محض ایک احتیاطی تدابیر تھی۔

تو وہاں کے لوگوں نے جو بدبودار پانی کی شکایت درج کرائی تھی؟ لڑکی نے پوچھا۔

ڈاکٹر کو پسینہ آنے لگا۔ اُس نے رومال سے پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا۔ دیکھئے، اصل میں کسی کو باہر کا کچھ اُلٹا سیدھا کھانے سے کالرا ہوا ہوگا۔ اور چونکہ اس بار کا کالرا شدید طورپر چھوت چھات کے ذریعے پھیلنے والا تھا۔ اس سے کسی ایک کے بیمار ہو جانے سے اُس کے گھر والوں اور پڑوسیوں تک بھی یہ بیماری پھیل گئی ہوگی۔ رہی بات پیلے اور بدبودار پانی کی، تو کالونی کے کسی ایک گھر کی ٹنکی کی صفائی عرصے سے نہیں کی گئی ہوگی۔ کچھ بدبووالا وہاں آگیا ہوگا، مگرآپ جانتی ہیں اس ملک میں افواہوں پر کتنا یقین کرتے ہیں لوگ۔ یہ ایک بھیڑ چال ہے جس میں سب کو اپنے گھر کا پانی پیلا اور بدبودار نظرآنے لگا۔ ا ب دیکھئے نا باہر کتنا زبردست پیلا پیلا غبار چھایا ہوا ہے۔ اُس کے عکس میں یہاں بھی سب پیلا ہی نظرآرہا ہے۔ مجھے تو یہ کافی بھی پیلی نظرآرہی ہے۔ جی ہاں!

لڑکی ہنستی ہے۔

ڈاکٹر بھی ہنستا ہے اور کہتا ہے۔ سب لوگ دراصل پانی پرا ِس غبار کا عکس دیکھ کر خوف اور وہم میں مبتلا ہو گئے۔ اصل میں ہرشخص کو تو آج کے زمانے میں ڈپریشن ہے۔ نفسیاتی علاج کی بھی ضرورت ہے ان لوگوں کو۔ آ پ نے سوزن سوتانگ کی کتاب Illness as Metaphor اب تک تو پڑھ ہی لی ہوگی۔ زیادہ ترلوگ ایسے ہی ہیں۔ اپنے دماغ سے سوچتے ہی نہیں ہیں اور بدبو کا تو معاملہ یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں صفائی رکھنے کا بہت کم رواج ہے۔ مگردیکھئے پھر بھی ہمارے انتظامیہ نے ان وہمی لوگوں کی شکایت پراحتیاط کے طور پر پانی کی سپلائی بند کردی تھی اوراس بات کی جتنی بھی تعریف کی جائے، وہ کم ہے۔

ایک آخری سوال وہ یہ کہ اب اُن اطراف میں پانی کی سپلائی کھول دی گئی ہے۔ لڑکی نے پوچھا۔

جی ہاں۔ ضلع مجسٹریٹ نے بیان دیا ہے کہ آج صبح سے ہی وہاں پانی کھول دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر نے جوا ب دیا۔

جی۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ پانی میں کوئی بیماری تھی اور نہ یہ پانی سے پھیلی اور نہ ہی پانی کی پائپ لائن یا سیور لائن میں کوئی خرابی تھی۔ جس کا شبہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ خوبصورت آنکھوں والی لڑکی نے گویا ٹی۔ وی۔ دیکھنے والوں سے کہا۔

جی بالکل نہیں، کوئی خرابی نہ تھی۔ ڈاکٹر نے جواب دیا۔

آپ کا ہمارے اسٹودیو میں آنے کا شکریہ۔ لڑکی نے کہا۔

آپ کا بھی شکریہ۔ ڈاکٹر نے کہا اورانٹرویو ختم ہوگیا۔

[dropcap size=big]ٹی-وی[/dropcap]

پراس انٹرویو کے ختم ہوجانے کے فوراً بعد خبریں سنائی اور دکھائی جانے لگیں۔ یہ قومی اور بین الاقوامی نوعیت کی بہت اہم خبریں تھیں۔ انہیں اہم خبروں کے ساتھ ٹی۔ وی۔ کے اسکرین پر نیچے بالکل نیچے حاشیے پربھی ایک خبرآرہی تھی جسے نہ کسی نے پڑھا نہ دیکھا۔ وہ خبرکچھ اس طرح تھی۔ آج صبح ملٹری کے ممنوعہ علاقے میں ایک نل لگانے کا کام کرنے والا مستری غیر قانونی طریقے سے جا گھسا۔ اور چاند ماری کے میدان میں ہونے والی فائرنگ کی مشق کے دوران ایک گولی اُس کے سرپر جالگی۔ اُسے فوراً ملٹری اسپتال لے جایا گیا، جہاں اُس کی موت ہو گئی۔ لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔

[dropcap size=big]سب[/dropcap]

سے پہلے وہ کسی ننھی سی چڑیا کی آواز محسوس ہوئی۔ پھرایک تیز ہوا کے جھونکے جیسی اوراُس کے بعد کسی پاکیزہ روحانی گیت کے آلاپ کی طرح۔ پھر وہ گیت ہرگھر میں پانی کی ٹونٹیوں سے بہہ نکلا۔ صبح صبح اُن کے گھروں میں پانی کی ندیاں آنکلیں۔ آسمان پر بادل زور سے کڑکے۔ بارش ہونے لگی۔ ہوا بھی چلنے لگی۔ بارش اور ہوا میں باہر پھیلی ہوئی پیلی دُھند آہستہ آہستہ کم ہونے لگی۔ یہاں تک کہ آخرکاراِس دُھند کی آخری پرت بھی بارش اور ہوا کے ایک تیز جھونکے کے ساتھ کہیں غائب ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے لیے لکھیں۔