پھر آسمان میں سفیدی کی ایک لکیر نظر آئی۔ سپیدہ سحرنمودار ہوا۔ روز کی طرح آم کے درخت پر چڑیاں آکر بیٹھ گئیں اورچہچہانے لگیں۔ مگر سنبل اپنے پنجرے میں خاموش، اپنی چونچ پروںمیں دبائے بیٹھا تھا۔
نہیں یاد آتا۔ زیادہ یاد نہیں آتا۔ میرے دماغ کے بائیں حصّے میں پھر درد ہونے لگا۔ اب اس عمر میں یادداشت پر اتنا زور ڈالنا اور یادوں کی جڑوں کو اُکھاڑ کر اُن کے ریشے ریشے گننا میرے لیے مشکل ہورہا ہے۔یہ اذیت ناک ہے، میرا وجود، میرا جسم، میرا ذہن، میری آنت اورمیری یادداشت میں کوئی فرق نہیں رہا۔
دھوپ چھت کی منڈیروں پر سے اُتر کر آنگن میں چلی آئی۔ مرُدے نہلانے والا ایک تختہ نل کی حوضیہ کے قریب زمین پر رکھ دیا گیا۔ میّت کو غسل دینے کی تیاریاں ہونے لگیں۔
مگر کیا مجھے یہ سب لکھنا چاہئیے؟ میں یوں کاغذ پر کاغذ کیوں سیاہ کرتا جارہا ہوں۔
اگر میں کوئی ناول لکھنے کے واقعی لائق ہوتا تو شاید اس کی کوئی اہمیت بھی ہوتی مگر آدمی کو کسی بھی جگہ کہیں بھی وہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئیے، جہاں وہ اپنی ذات کا اظہار کرسکتا ہے، چاہے وہ اسکول میں چھٹی کے لیے دی جانے والی درخواست ہو، مقدمے کی اپیل ہو یا سودا سلف لانے کی فہرست اور میری تو خیر ایک ذاتی تاریخ کٹ کر الگ ہوگئی۔ فاضل آنت کی طرح جس کے بغیر بھی انسان زندہ رہ سکتا ہے اور اُس آنت کو کبھی کبھی یاد بھی کر سکتا ہے جو اُس کے جسم سے نکال کر کوڑے دان میں پھینک دی گئی تھی۔
بچپن میں بڑے ماموں اکثر مجھے سرکس یا فلم یا نمائش دکھانے جاتے تھے۔
مگر اُس دن کی دوپہر میں کوئی سرکس یا فلم نہیں دیکھ رہا تھا۔ میں جو دیکھ رہا تھا اُس میں چلتے پھرتے لوگوں کے سائے تھے۔ میں باہری دالان کے مشرقی حصّے کے برآمدے میں ایک کھٹولے پر بیٹھاتھا۔
دوپہر ہو رہی تھی۔ ظہر کی اذان سے پہلے، وہاں نل کے پاس باورچی خانے کے بالکل سامنے اُنہیں غسل دیا جارہا تھا۔
ایک طویل غسل۔
اتنا طویل اور رسومیات سے بھرا ہوا غسل انھوں نے زندگی میں کبھی نہیں کیا ہو گا۔
میں دائیں طرف کی دیوار پر، اُس غسل کی پرچھائیاں ڈولتی اور کانپتی ہوئی دیکھا رہا تھا۔
یہ طہارت کی انتہا پر پہنچا ایک غسل کا سایہ تھا اور دسمبر کی ٹھٹھرتی ہوئی ہوا اسے گھر کے گوشے گوشے میں بھٹکا رہی تھی۔
یہ غسل میری بھیگی ہوئی آنکھوں کے درمیان ٹھہرنہ پاتا تھا۔
دھوپ اپنا زاویہ، اپنی رنگت بدلنے لگی۔ آوازیں بلند ہونے لگیں، اگرچہ وہ کسی گہری کھائی میں سے آ رہی تھیں۔
اب سفید کفن تھا جس میں لپٹے ہوئے بڑے ماموں سو رہے تھے۔ لوگ آآکر میّت کے سرہانے کھڑے ہوکر اُن کا چہرہ دیکھنے لگے اور اپنی خطائیں معاف کرانے لگے۔
پھر جنازے کا پلنگ اُٹھایا گیا۔ کچھ عورتوں کے رونے کی آوازیں اُبھریں۔ دروازے تک ساتھ آئیں اُس کے بعد جنازہ اِن روتی ہوئی آوازوں سے بے رُخی کے ساتھ الگ ہوگیا۔
یہ بڑی سی پاگل خانے کی دیوار، سیاہ اور مہیب دیوار جس کی موریوں میں نیچے سرڈال کر پاگل باہر جھانکتے تھے اور اُس دیوارکے سامنے وہ لمبا چوڑا قبرستان۔
قبرستان کے اندر ایک مسجد، جہاں اُن کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور پھر خودرو گھاس پودوںکے درمیان، میں نے اپنے آپ کو اُن کی میّت کی پائینتی کھڑے پایا۔
اُن کو منوں مٹّی میں دفن کرکے، سب قبرستان سے باہر آئے۔
میں جیسے ہی گھر پہنچا وہاں کھانا لگا دیاگیا۔
کھانا ہمارے ایک دور کے رشتہ دار کے یہاں سے آیا تھا، میں اس کھانے کو تمام عمر نہیں بھول سکتا۔
ہلدی والا آلو گوشت اور موٹی موٹی، بڑی بڑی تندوری روٹیاں۔ سب نیچے فرش پر جہاں چاندنی بچھی ہوئی تھی، بیٹھ کر، تام چینی کے پیالوں میںسالن نکال نکال کر اور اُس میں تندوری روٹیوں کے نوالے خوب بھگو بھگو کر کھانا کھانے لگے۔
کھانا بہت لذیذ تھا، اور میں نے خوب پیٹ بھر کر کھایا۔ اگرچہ اُس کھانے کو اتنا پیٹ بھر بھر کر کھانے پر مجھے آج بھی حیرت ہے اور شرمندگی بھی۔ مجھے تو یہ بھی یاد آتا ہے کہ قبرستان سے واپس آکر شاید میں نے ٹھیک سے ہاتھ بھی نہیں دھوئے تھے، اور میرے ہاتھوں میں، بڑے ماموں کی قبر کی مٹّی لگی تھی۔ جب میں نے آلو گوشت کے ہلدی والے شوربے سے سنی ہوئی اپنی اُنگلیوں کو زبان سے چاٹا تو قبرستان کی مٹّی کی کرکراہٹ میرے منھ میں اُتر گئی۔
مگر المیہ یہ ہے کہ جن باتوں سے انسان کو شرمندگی ہوتی ہے، وہی باتیں اصل ہوتی ہیں۔ باقی سب مصنوعی اور بناوٹی۔
رات میں، ٹھیک اُس مقام پر جہاں آنگن میں اُنہیں غسل دیا گیا تھا، ایک چراغ جلاکر رکھ دیاگیا۔
یہ چراغ بڑے ماموں کے چالیسویں تک روز، رات کو روشن رکھنا تھا۔ شاید اس لیے کہ چالیس دن تک اُن کی روح گھر میں، خاص طور پر اس مقام پر جہاں اُن کے جسم کو غسل دیا گیا تھا۔ آتی رہے گی۔ لحد پر جلتا ہوا یہ چراغ۔ ہوا سے کہیں بجھ نہ جائے!
اب بس ایک آخری منظر رہ گیا ہے۔ حافظے کی جھلّی پر بالکل چپٹا ہوا، اُسے بھی ناخن سے نوچتا ہوں اور یہاں سامنے لاکر ڈال دیتا ہوں۔
سوئم کے روز باورچی خانہ انواع و اقسام کے کھانوں کی خوشبوؤں سے مہک اُٹھا۔ باورچی خانے میں ایسی چہل پہل تھی کہ میں نے انجم باجی کی شادی میں بھی نہ دیکھی تھی۔ تمام دن صبح سے ہی شور مچا رہا۔ برتن کھڑکھڑاتے رہے اور عورتیں آپس میں خوب باتیں کرتی رہیں۔ ایک آدھ عورت درمیان میں چپکے سے ہنس بھی دیتی تھی۔
اب وہاں، کسی کی آنکھ میںکوئی آنسو نہ تھا۔ کھانا پکاتے وقت سارے غم، سارے صدمے بھاپ کی طرح اُڑ کر غائب ہوجاتے ہیں۔
عصر اور مغرب کے درمیان فاتحہ کی تیاری شروع ہوگئی۔ باہر والے دالان کے فرش پر چاندنی بچھا کر، اُس پر طرح طرح کے کھانے لگا دیے گئے۔ ایک اگربتّی بھی سلگا دی گئی۔
لوگ اکٹھا ہوئے، ایک مولانا صاحب سب سے آگے، کھانے کے بالکل سامنے آکر دوزانو بیٹھ گئے اور کچھ سورتیں پڑھنا شروع کر دیں۔
میں ٹوپی اوڑھے، داسے سے لگا کھڑا تھا اور کھانوں کو دیکھ رہا تھا۔
بڑی بڑی تام چینی کی رکابیاں، ڈونگے، سینیاں اور تسلے۔ جن میں پلاؤ، قورمہ، شامی کباب، قیمہ، دہی بڑے اور پھلکیاں قطار سے رکھے تھے۔ اس کے علاوہ تندوری روٹیاں، چپاتیاں، پراٹھے اور پوریاں بھی تھیں۔ میٹھے میں حلوہ، کھیر اور شاہی ٹکڑے۔ میری نظر میٹھے پر جم کررہ گئی، مجھے لگا بڑے ماموں نے میرے کان میں کہا تھا۔
’’رات کو جب واپس آنا تو چار آنے کی کوئی میٹھی چیز بدوّاں حلوائی کے یہاں سے لیتے آنا۔‘‘
میری نظر میٹھے سے پھسلی تو دیکھا کہ ایک تھالی میں پان بھی بنا رکھا ہے۔ اور ایک پیالی میں چائے بھی رکھی ہے۔ طرح طرح کے پھل، کیلے، سیب اور امرود وغیرہ کاٹ کر رکھے گئے تھے۔ ان کھانوں کے برابر میں ایک نیا کرتہ پاجامہ مع بنیان کے سلیقے سے رکھا تھا۔
مولانا صاحب نے فاتحہ پڑھ کر پوچھا۔
’’کے کلام پاک ختم ہوئے؟‘‘
چھوٹے ماموں نے اِدھر اُدھر دیکھا پھر جواب دیا۔
’’دو۔‘‘
مولانا صاحب نے دو کلام پاک پڑھنے کے ثواب اور بخشے جانے کی دُعا کی۔ پھر اُس سارے کھانے کے ثواب کے لیے بھی دُعا کی۔ وہ دیر تک دُعا کے لیے اپنے ہاتھ اوپر اُٹھائے رہے۔
کھانوں، میٹھی چیزوں اور پھلوں پر مکھّیاں آرہی تھیں۔ چھوٹے ماموں باربار ایک پنکھا ہلاکر مکھّیاں اُڑاتے۔
اب جلدی جلدی خوراکیں نکالنے کا مرحلہ انجام دیاگیا۔ شاید سات یا گیارہ خوراکیں تھیں جو مسکینوں اور فقیروں میں تقسیم کرنی تھیں۔
مغرب کا وقت قریب آرہاتھا۔ اندھیرا سا ہونے لگا۔
’’بڑے ماموں بھی آج اپنی قبر میں، اپنی پہلی فاتحہ کے کھانے کا انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘ میں نے تاسّف کے ساتھ سوچا۔
اُس رات تمام رشتے داروں اور محلے والوںنے مل کر فاتحہ کے لیے پکایا گیا کھانا کھایا، گھر میں رونق رہی، اور اتنی باتیں ہوئیں کہ میرا دل گھبرا گیا۔ پتہ نہیں کیوں لوگ اُس دن اتنا بول رہے تھے؟
مگر دیر رات، جب سب مہمان رخصت ہوگئے تو پورے گھر میں ایک دل ہلا دینے والا سنّاٹا پھیل گیا۔ لحد پر جلتے ہوئے چراغ کی روشنی میں، میں نے تو اس سنّاٹے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا!
فاتحہ کا یہ سلسلہ سات جمعراتوں تک چلتا تھا اور پھر چالیسواں بھی تھا۔
اگرچہ میں نے صرف تین جمعراتیں دیکھیں۔
مگر میں نے اب موت دیکھ لی تھی، اور اُس کا مکمّل حلیہ بھی۔
میں پورے ایمان و ایقان کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ قتل اور موت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دونوں کے حلیے الگ، دونوں کے چہرے الگ اور دونوں کے لباس الگ۔
میں آج بھی اپنے اِس خیال پر قائم ہوں۔
میرا، بارہویں کلاس کا نتیجہ آگیا تھا اور میں نے پورے شمالی صوبے میں اوّل پوزیشن حاصل کی تھی۔ اخبار میں میرا فوٹو بھی شائع ہوا تھا۔
چھوٹے ماموں تعلیم کے سلسلے میں بہت سنجیدہ تھے۔ اس چھوٹے سے قصبہ نما شہر میں کوئی ڈھنگ کا ڈگری کالج نہ تھا۔ اُنہوں نے کسی سے کوئی مشورہ کیا نہ میری مرضی جاننے کی کوشش کی۔ بس ایک دن ایک فارم بھر کر مجھ سے دستخط کرائے اور پھر کہا، ’’گڈّو میاں! تمھیں تین دن بعد بڑے شہر جانا ہے، تمھارا داخلہ وہاں کے سب سے بڑے کالج میں ہوگیا ہے۔ بس اپنا سامان باندھنا شروع کر دو۔‘‘
’’ارے بچّہ چالیسویں تک تو رُک جاتا۔‘‘ ممانی نے اعتراض کیا۔
’’نہیں، مجبوری ہے۔ داخلے کی تاریخ نکل جائے گی۔‘‘ چھوٹے ماموں نے فیصلہ کن لہجے میں جواب دیا۔
بڑے شہر کے لیے رات کے دو بجے ٹرین روزانہ ہوتی تھی۔
اُس رات، ایک بجے کے قریب مقصود خاں اپنا تانگہ لے کر آگئے۔ تقریباً پورا محلہ مجھے رخصت کرنے آیا۔
جب تانگے پر سامان رکھ دیا گیا تو گھر کے ہر فرد نے مجھے گلے سے لگایا، سب کی آنکھیں آبدیدہ تھیں۔
میرا کن کٹا خرگوش، میرے پاؤں پر اپنے پنجے رگڑ رہا تھا، اس کی لال لال آنکھیں مجھے اندھیرے میں بھی چمکتی ہوئی نظر آئیں۔ شاید وہ رو رہا تھا۔ اچانک مجھے کچھ یاد آگیا۔ میں گھر کے اندر تیزی سے دوڑا اور طوطے کے پنجرے کے قریب جاکر کھڑا ہوگیا۔ طوطے نے مجھے ناراض آنکھوں سے دیکھا اور اپنی چونچ پروں میں دبالی۔
میں جب خاموشی سے واپس پلٹنے لگا۔ تو میں نے دیکھا کہ لحد پر جلتا چراغ اچانک بجھ گیا ہے اور آنگن بے حدتاریک اور ویران ہو گیا ہے۔
میں نے چیخ کر کہا۔
’’چراغ بجھ گیا ہے۔‘‘
ممانی اور ریحانہ پھوپھی بھاگی بھاگی آئیں اور ماچس کی تیلی رگڑ کر دوبارہ چراغ روشن کر دیا۔
لحد پر جلتے اس چراغ کی روشنی میں، باورچی خانہ کا بند، بوسیدہ دروازہ ایک نامعلوم سائے کی طرح نظر آیا، جس کے آگے نل کا ہتھّا جھکا کھڑا تھا۔ میں جب ماموں کے ساتھ، تانگے پر بیٹھ گیا تو مجھے دھوکہ ہوا جیسے گھر کے اندر، پنجرے میں سے سنبل نے کہا تھا۔
’’گڈّو میاں گئے، گڈّو میاں گئے۔‘‘
اسٹیشن پہنچ کر چھوٹے ماموں نے مجھے ریل میںبٹھا دیا۔ اور خود کھڑکی کے پاس آکر کھڑے ہوگئے۔ اسٹیشن پر ہوا بہت تیز تھی، اُن کی شیروانی، اس ہوا میں باربار پھڑپھڑاتی تھی۔ جب ٹرین نے چلنے کی سیٹی دی تو وہ اچانک رو پڑے، ’’خوب محنت سے پڑھنا، ایسے ہی خاندان کا نام روشن کرنا۔‘‘ وہ رینگتی ہوئی ٹرین کے ساتھ پلیٹ فارم پر بھاگنے لگے۔ ’’گڈّو میاں!محنت سے پڑھنا، خط لکھنا۔ تم ہی اب خاندان کے چشم و چراغ ہو۔‘‘ اُن کی آواز اور اُن کا جسم دونوں تھوڑی دیر تک ٹرین کے ساتھ ساتھ دوڑے پھر، ٹرین کے پہیوں کی گڑگڑاہٹ اور اندھیرے میں گم ہو گئے۔ برابر والی لائن پر کسی مال گاڑی کا ڈبّہ لڑھکا پڑا تھا جو مُجھے مردہ ہاتھی کی مانند نظر آیا۔ تو میں ہی اب خاندان کا چراغ تھا! چالیسویں تک لحد پر چراغ جلے گا۔اور دسمبر کی ہواؤں سے اپنا رشتہ بنائے رکھے گا۔ یہ ہوائیں بڑے شہر میں بھی ہوں گی۔ میں نے سوچا اور یہ بھی کہ اچانک میرے گھرسے رخصت ہوتے وقت چراغ گل کیوں ہوا تھا؟ کیا بڑے ماموں کی روح، مجھے رخصت کرنے آئی تھی؟ ٹرین اب اندھیرے جنگلوں میں کہیں دوڑ رہی تھی۔ کھڑکی سے تیز سرد ہوا اندر آرہی تھی۔ میں نے کھڑکی کا شیشہ چڑھا لیا۔ اب اندر باہر ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اندھیرے میں ریل کے دھچکے لوری سناسناکر مجھے جھولا جھلانے لگے۔ پتہ نہیں کب، میں یونہی بیٹھے بیٹھے گہری نیند سو گیا۔