[divider]اکیس صبحوں کا سفر[/divider]
پہلی صبح میں نے اپنا دل
تمہارے ہاتھوں کے کنول میں دیا
وہ پہلے سے بہتر دھڑکنے لگا
اور میرا چہرہ جگر سے زیادہ سرخ ہو گیا
دوسری صبح سے پہلے
میں تمہارے پیروں کے پو شیدہ راز
جان چکا تھا!
اور تیسری صبح کو
تمہارے ناخن بڑھنے لگے تھے
چوتھی صبح تمہاری نیم مسکراہٹ کا لہجہ
مجھے جگا رہا تھا
پانچویں صبح کے ذرا پرے
میرے سینڈوچ میں
تمہارے بھیگے بالوں سے گرے قطرے
ناچ رہے تھے
چھٹی صبح ہمارے دانتوںمیں
تھل کی ریت کی یاد پس رہی تھی
ساتویں صبح تک
سردیاں آ چکی تھیں
اور آٹھویں صبح کے بعد
میں منزل کی سمت
گھٹنوں کے بل بھاگ رہا تھا
نویں صبح اُوس کے قطرے
تمہارے گالوں پر جم گئے تھے
میرا نام سرِعام پکارا جانے لگا
وہ دسویں صبح کا آغاز تھا
اگلی صبح تم نے اپنی خوشبو کا دوپٹہ
میری آنکھوں پر باندھ دیا
بارہویں صبح کے ساتھ
میں نے اپنے بال کتروا لئے
تیرہویں صبح ہم اپنی فلم کا سکرپٹ بھول کر
زندگی کو عکس بند کرنے میں جُت گئے
چودہویں صبح تمہاری چیخ کی گرج
میرے کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی
تمہاری آنکھوں میں پندرہویں صبح
میرے احساس کے بادل منڈلا رہے تھے
سولہویں صبح کا سورج
تمہاری شرماہٹ سے لال ولال تھا
اور اٹھارہویں صبح ہم جھیل کنارے
جنگل میں بے دار ہوئے تھے
انیسویں صبح ہونے تک
تم اپنے ہاتھوں سے
پالنے کو ایک بچہ
چاند سے اتار لائی تھیں
بیسویں صبح ہم راکھ سے
اک شام نکال لائے اور صبح تک
اُسے کریدتے، ٹٹولتے، پرکھتے رہے
اور اکیسویں صبح وہ رات میں بدل گئی
جس کے بعد_______اگلی صبح کے انتظار میں
ہمیں صدیوں کی شب بیداری کا روزہ رکھنا پڑا
[divider]اخباری لفظوں سے بھری نظم[/divider]
ہم نے کئی جنگیں بیک وقت لڑیں
ایک سے زیادہ محاذوں پر
بہت دشمنوں کے خلاف
اندرونی غداروں کے ساتھ
اپنی معیشت کی مضبوطی کے لئے
اپنے قدم جمانے کے لئے
ہمارے عقائد کی حفاظت کی خاطر
اور اُن کی تشریحات کے پھیلاؤ کے لئے
ہمارے لوگوں کو غلط معنی سے دور رکھنے کے واسطے
اپنی قوتیں
اور نسلیں بڑھانے میں جتے رہے
خیموں سے باہر
خیموں کے اندر
اپنی علاقائی ساکھ بڑھانے کی خاطر
اور اپنی جغرافیائی حدود کی حفاظت میں
قربانی پر قربانی دی
ہم اِن سب جنگوں میں
اپنی قوتوں کو یکجا کئے رکھتے
اپنے اعصاب کو مضبوط کرتے
ڈر، خوف اور پریشانی سے مسلسل گھرے رہنے کے باوجود
ہم جنگیں جیتتے رہے
مگر میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں
ہم نے کئی جنگیں ایک ساتھ لڑیں
میرے دوست_____اور ایک جنگ
میرے ساتھی، ایک جنگ
ہم ایک دوجے سے لڑ رہے ہیں
سالوں سے
اِن جنگوں کے درمیان
میرے ہم نوا
اور یہ جنگ
کوئی نہیں جیت رہا
ہم باقی جنگیں جیت جائیں گے
ہماری صلح کیسے ہو گی؟
کیا ہم میں سے ایک کو ہارنا ہے؟
ہماری نسلیں بٹ جائیں گی۔۔۔
بیرونی قوت اُن پر حاوی ہو جائے گی
ماؤں کی نسلوں کو
ایسے بٹنے نہیں دیتے
راز ہمیشہ راز نہیں رہتے
صلح کا کوئی راستہ نکالو
تم مجھ سے طاقت ور ہو
مگر تمہیں
میری محبت میں گٹھنے ٹیک دینے چاہئیں۔
[divider]آرٹ کے دو رنگ (اک میں،اک تم)[/divider]
گمان جب سے یقیں ہوا ہے
تو اس پہ حیرانی کی ہچکی نے
کچھ ایسا رنگ رنگا ہے
پریشانی سے جو میری
ذرا سا میچ ہوتا ہے
مگر اُس میں اُنتیس اور اٹھائیس کی
اگستی رات جیسا فرق دکھتا ہے
کہ اک میں واضح حیرانی،
دوجا پریشانی
سو!
اُن کے شیڈ میں
جو ایک واحد چیز کامن ہے
اُسے یہ صاف ظاہر ہے
کہ دونوںرنگ
ٰاک ہی رنگ کے رنگوں سے نکلے ہیں
جسے ہم ـ آرٹ کہتے ہیں
[divider]جنت کی یاد میں[/divider]
ہم تصورات میں خوش رہتے
جہاں۔۔۔۔۔
تمہاری انگلیوں کو آٹا نہیں چپکتا تھا
میرے موزوں میں بدبو نہیں ہوتی تھی
نہ خراٹوں کی آوازیں
وہاں وقت اور لمحوں کو
روک لینے کا اختیار تھا
بہاریں اور خزایں تھیں
اور____لال بیگ نہیں تھے
جہاں تمہارے سوالوں کا
جواب دینا ضروری نہیں تھا
اور تمہاری آواز کانوں میں
چبھتی نہیں تھی
جہاں میں دل کھول کر شیرا پیتا تھا
اورہر رات
دودھ پینا ضروری نہیں تھا
وہاں تمہاری سہیلیاں
مجھے اچھی لگتی تھیں
وہ وقت بے وقت ٹپک نہیں پڑتی تھیں
مہمان ہمارے گھر وقت پر آتے تھے
اور
ٹشو خریدنے کا خرچا نہیں تھا
جہاں ہمیں ایک دوسرے کو
اپنے وقت میں نہیں رکھنا پڑتا تھا
پہروں کی تقسیم آسان تھی
جہاں چائے ٹھنڈی نہیں ہوتی تھی
اور گیزر ہمیشہ پانی گرم دیتا تھا
وہ ایسی دنیایں تھی
جہاں بوسے خوشبو سے تر تھے
ہمارے بدن کا نمک کم رہتا تھا
اُن جہانوں میں
قربت کے لمحے کم تھے
اور ہمیں ہانپنے میں دیر لگتی تھی
اُدھر راتوں کی چہل قدمی تھی
صبحوں کو مالی کے انتظار کی دیمک نہیں کھاتی تھی
جہاں شامیں آدھی دال فرائی پر گزر جاتی تھیں
اور
فلم دیکھنے سے پہلے اُس کے منٹ نہیں دیکھے جاتے تھے
ہمیں یہ مان لینا چاہیے
وہ محض ہمارے دشمن نہیں
ہمارے تنے ہوئےا عصابوں کاسامان مہیا کرنے والے
انسان دوست ہیں
جو ہماری بے چینیوں کو کم کرنے کے ٹوٹکے ایجاد کر رہے ہیں
آو اُن دنیاؤں میں لوٹ چلیں
خود کو آزادی دیں
آزادی
جو جنتے ہوئے ہمیں ملی تھی۔
[divider]قسط وار خوابوں میں چھینی گئی ماں[/divider]
میری ماں مر چکی ہے
وہ بار بار میری ماں کو خوابوں میں مارتے ہیں
ایک بار، دو بار ، کئی بار
ہر بار اُس کی موت کی وجہ ہم سے چھپائی جاتی ہے
ہمیں ہر بار بین کرنے اور سسکیاں لینے کو کہا جاتا ہے
ہر نئی موت کے ساتھ
اُس کے جانے کا دکھ کم کیا جانے لگا ہے
ماں کے ساتھ وہ ہمارا دکھ بھی ہم سے چھین رہے ہیں
ہمیں ہر بار اُسے دفنانے نہیں دیا جاتا
وہ اُس کی میت لا پتا کر دیتے ہیں
ایک دفعہ تو اُسے پانیوں پر مار دیا گیا
کبھی اُس کی موت کے بعد
ہمیں زندگی کی بازی پر لگا دیا جاتا ہے
اتنی دفعہ ماں کی موت کو دیکھ کر
میں اُن احساسات کو کھونے لگا ہوں
جو اُس کی موت کے وقت
آخری نشانیاں سمجھ کر محفوظ کئے تھے
میرے صوتیات کے حافظے سے وہ آخری لہجہ جا رہا ہے
جب اُس نے پوچھا تھا ـ’میں یاد تے آساں نا؟‘
پہلے خواب میں اُس کی بے سکونی دیکھ کر
میں وہ اطمینان کھو بیٹھا ہوں
جو اُس نے جاتے جاتے اپنی بھنوئیں اٹھا کر
میرے آنسوؤں کو تسلی کے طور پر دیا تھا
اُس کی میت کے خوابوںمیں گم ہو جانے سے
ٹھنڈے ہوتے جسم کے آخری لمس کو
میرے ہاتھوں سے چھینا جا رہا ہے
جو اُسے قبر میں سلانے کے بعد
میری پوروں میں جذ ب ہوا تھا
وہ اُسے بھوک میں بلکتا دکھا کر
ہمارے سینوں کا بو جھ بڑھانا چاہتے ہیں
وہ ہمیں ظالم ثابت کرنا چاہتے ہیں
تاکہ اُن پر شک نہ کیا جا سکے
ان خوابوں میں زہر آلود سپرے سے
ہمارے نتھنوں کو ماں کی خوشبو
بھلانے پر مجبور کیا جا رہا ہے
ہمارے ہر احتجاج پر
صبح کے الارم بجا دیے جاتے ہیں
ہماری نیند کے رابطوں کو منقطع کیا جاتا ہے
ان خوابوں سے وہ ہمارے
تصورِ موت کو بدلنے کی
سازش کررہے ہیں
[divider]قُلی میں قُلی[/divider]
اپنے سب خوابوں کا بوجھ
ادھڑے پرانے کپڑوںمیں
گٹھری بنا کر
مجھ کو سونپ رہے ہیں
سوچ رہے ہیں
ہانپتے ہانپتے ، گرتے اٹھتے
اُس رستے پر
فنح کا جھنڈا گاڑ آؤں میں
ہر خواہش کی یاد میں آکر
گٹھڑی کا وہ بوجھ بڑھائے جاتے ہیں
اپنی سب ناکام امیدیں
میری ذات سے جوڑ کے اپنا بوجھ وہ ہلکا کرتے ہیں
جتلاتے ہیں
یہ سب تمہارے فائدے کی تو باتیں ہیں
[divider]تمہارے پھول[/divider]
تم راستہ بھول کے بھٹکتی بھٹکتی یہاں آئی تھی
اور بنا پیچھے دیکھے چلتی چلی جا رہی ہو
تم نے راستے میں دو پھول توڑے تھے
ایک مُرجھا چکا ہے،
دوسرا تمہاری بند مٹھی میں ہے
جسے تم کھول کر دیکھنا نہیں چاہتی
تمہیں مرجھائے پھول کی خوشبو چھننے کا خوف ہے
تم اپنا ایک دوست کنویں میں پھینک آئی ہو
تمہارے گلے سے بندھا ڈھول ، پانی تک نہیں پہنچ سکتا
تمہیں تمہاری انا جھکنے نہیں دیتی
کنویں سے اپنے نام کی پکار سُن کر،
تمہارے کانوں نے تمہارے نام کی پہچان کھو دی ہے
تمہیں راستے میں کانٹے چبھے تھے
تم تکلیف سے ڈگمگائی تھی
اپنے ہاتھوں کو زخموں سے بچانے کی خاطر
تم نے کانٹوں کے ساتھ چلنے کی ٹھانی
تمہیں راستے کا ہر مسافر بچپن کا دوست لگتا ہے
نزدیک آنے پر معلوم ہوتا ہے، وہ اجنبی ہے
تم ہر نئے رشتے میں کچھ پرانا ڈھونڈ رہی ہو
تم کبھی اِس راستے میں سب بھول جاتی ہو
کبھی یہ راستہ تمہیں اجنبی لگتا ہے، اور تم
واپس پلٹ جانا چاہتی ہو
جہاں سے تم آئی تھی
تمہاری جیب میں ایک آیئنہ تھا
جو گم گیا ہے
تم خود کو دیکھنے کو ترس رہی ہو
تم سوچتی ہو تمہارا چہرہ بدل گیا ہے
اِس بدلے ہوئے چہرے کو کوئی نہیں جانتا
تمہیں یاد آتا ہے، وہ آیئنہ تم نے خود توڑا تھا
’’نہیں ! نہیں!_______وہ تو اک خواب تھا۔‘‘
تم ایک پھولوں کی وادی تک پہنچ جاتی ہو
جہاں پھول ہر طرف کھِل چکے ہیں
مگر تم، اپنی مٹھی نہیں کھولنا چاہتی
سامنے وہ راستے ہیں _______جن کے لئے تم بھٹکی تھی
تم وہاں کے لئے دوڑنے لگتی ہو
اچانک تمہیں تمہارے پیروں کا خیال آتا ہے
اُن میں کوئی کانٹا نہیں،
تم پھر بھی دوڑنا چھوڑ دیتی ہو
تم منزل کی طرف جا رہی ہو
تمہارے کانوں کی سماعت میں،
واپس وہ نام گونجنے لگتا ہے
وہ تمہیں پکار رہا ہے
تمہیں لگتا ہے نہیں، وہ خود کو پکار رہا ہے
تم سوچ میں پڑ جاتی ہو
’’کنویں میں کہیں میں خود تو نہیں۔۔۔۔؟‘‘
مرجھایا ہوا پھول واپس کھلنے لگتا ہے
تم مٹھی کھولتی ہو
مٹھی میں بند پھول مُرجھا چکا ہے
تمہاری آنکھیں رونے لگتی ہیں
تمہارے لب مسکرا رہے ہیں
تمہاری آنکھیں چمک جاتی ہیں
مرُجھایا ہوا پھول کھِل چکا ہے
[divider]ویچھوڑے کی خوشیاں[/divider]
اچھا ہواتم بچھڑ گئیں
اب زندہ رہو گی۔۔۔سدا مجھ میں
جوان، حسین اور دل کش
نہیں طاری ہو گا تم پر بڑھاپا
تمہاری باریک جلد پر جھریاں نہیں ہوں گی
جب میں نیم مردہ کانپتے ہاتھوں سے
تمہاری گالیں چھو لوں گا
تمہارا بدن سدا تنا رہے گا
اِن کسی طنابوں میں
انگڑائیاں لیتا بیدار ہوتا رہوگا
تمہاری گردن ڈھلک کر باریک نہ ہو پائے گی
اور تمہاری سانسوں کی تعداد کو میں
آسمان کے ستاروں کی طرح گنتے گنتے سو جاؤں گا
فرض کرو
تم نہ بچھڑتی تو
میں تمہیں بوڑھا ہوتے دیکھنے کے صدمے سے دو چار ہوتا۔