بارش کی خواہش بھی اک موت ہے
مون سون سے پہلے
پانی کی تقسیم پر
زمین کے بڑے خداؤں نے اپنے اجلاس کا آغاز
گالیوں کی طویل فہرست سے کیا
جو جنگ کے دنوں میں ایجاد ہوئیں
امن پسند راہب جنگل میں چھپ گئے
اور بدھا کے مجسمے پر بیٹھے پرندے
اداس گیت گاتے گاتے
پتھروںمیں تبدیل ہوگئے
جنگ کے لیے
نقارہ بجاکر اعلان کیا گیا
مائیں دیر تک بچوں کی گنتی پوری کرتی رہیں
بوڑھے باپ
سانسوں کے تاوان میں اناج کی بوریاں اٹھا لائے
اور دروازے غیر معینہ مدت کے لیے
دیواروں میں تبدیل ہوئے
گورگنوں نے قبر کی کھدائی کا معاوضہ
دوگنا کردیا
لوگ مرتے رہے
یہ اندازہ لگانا مشکل ہوا کہ
چالیس روزہ آرام دہ قبر کس کے حصے میں آئی
جنگ کوئی نمایاں کھیل نہیں
جو جاری رہے
بہت دن تک
سو آخر جنگ ختم ہوجاتی ہے
ذرا سستانے کے لیے
البتہ جنگ کی کہانی
ایک نسل سے
دوسری نسل تک پہنچ جاتی ہے
صلح نامے میں درج ہے
روحیں پانی کے خواب میں سفر کر رہی تھیں
جب زمین سے رخصت ہوئیں
وہ پانی۔۔۔
جس کے لیے جنگ ہوئی
مون سون سے پہلے
خدا کے دروازے پر مسلسل دستک
قحط سالی کے دنوں میں
بارش کے نام پر خیرات کرکے
طویل ترین دعا مانگی
جو تہوار کے دن کے لیے موزوں تھی
خدا نے سنی
(وہ کچھ دنوں سے براہ راست سُن رہا تھا)
محض اتفاق تھا
بارش برسی
تالاب یکدم سخی ہو گئے
اور پھر وحشی۔۔۔
پانی کے ریلے
آبادی سے لڑکیوں کے جہیز میں رکھے خواب
اور چرواہوں کی بھیڑیں بہا لے گئے
پرندوں کی چیخیں سن کر
پیڑ خودکشی کرنے لگے
کشتیاں لوٹ نہ سکیں
اونچے ٹیلے کے کنارے آباد لوگ
ایک دوسرے کے کان میں اذان دینے لگے
بارش برستی رہی
خدا کے کان پھر بند ہو گئے
جل دیوی کے مندر میں
مندر کی گھنٹی بجتی ہے
ٹن ٹن ٹن۔۔۔
اور انصاف کے لیے آگے پیچھے جھولتی ہے
دیوی
آتش دان سے آگ طلب کرتے
بے ساختہ پوچھتی ہے
اجنبی
تمہارے دل میں کیا ہے؟
میں، سامنے چھوٹی سی بستی سے بھاگا ہوا لڑکا
بد نصیب، گم گشتہ
میرے پاس وہ لفظ نہیں
اپنے پسندیدہ موسم کی آخری رات کو بیان دے سکوں
کہ تمہارے چرنوں میں
قربان ہونے والی خوبصورت لڑکی
میرے محبت نامے کا مقدس باب تھی
اس وقت سے
میں نے سراغ رسانی سیکھی
اور تم تک پہنچنے کے لیے
سرد مقبرے کی صلیب پر دن گزارے
دیوی ہنسی!
اس میں کون سا انکشاف ہے
بارش برسانے کا ایک یہ بھی طریقہ ہے
میرے ہاتھوں میں تیز دھار خنجر کانپنے لگا
باتوں کے شور شرابے میں
مسلح پہرے دار جاگے
اور مجھے
بدتمیزی سے باہر پھینک دیا
گھنٹیاں آگے پیچھے جھولتی رہیں
ٹن ٹن ٹن۔۔۔