Laaltain

بارش کی خواہش بھی اک موت ہے (حفیظ تبسم)

3 جولائی, 2020
Picture of حفیظ تبسم

حفیظ تبسم

بارش کی خواہش بھی اک موت ہے

مون سون سے پہلے
پانی کی تقسیم پر
زمین کے بڑے خداؤں نے اپنے اجلاس کا آغاز
گالیوں کی طویل فہرست سے کیا
جو جنگ کے دنوں میں ایجاد ہوئیں

امن پسند راہب جنگل میں چھپ گئے
اور بدھا کے مجسمے پر بیٹھے پرندے
اداس گیت گاتے گاتے
پتھروںمیں تبدیل ہوگئے

جنگ کے لیے
نقارہ بجاکر اعلان کیا گیا
مائیں دیر تک بچوں کی گنتی پوری کرتی رہیں
بوڑھے باپ
سانسوں کے تاوان میں اناج کی بوریاں اٹھا لائے
اور دروازے غیر معینہ مدت کے لیے
دیواروں میں تبدیل ہوئے

گورگنوں نے قبر کی کھدائی کا معاوضہ
دوگنا کردیا
لوگ مرتے رہے
یہ اندازہ لگانا مشکل ہوا کہ
چالیس روزہ آرام دہ قبر کس کے حصے میں آئی

جنگ کوئی نمایاں کھیل نہیں
جو جاری رہے
بہت دن تک
سو آخر جنگ ختم ہوجاتی ہے
ذرا سستانے کے لیے
البتہ جنگ کی کہانی
ایک نسل سے
دوسری نسل تک پہنچ جاتی ہے

صلح نامے میں درج ہے
روحیں پانی کے خواب میں سفر کر رہی تھیں
جب زمین سے رخصت ہوئیں
وہ پانی۔۔۔
جس کے لیے جنگ ہوئی
مون سون سے پہلے

خدا کے دروازے پر مسلسل دستک

قحط سالی کے دنوں میں
بارش کے نام پر خیرات کرکے
طویل ترین دعا مانگی
جو تہوار کے دن کے لیے موزوں تھی

خدا نے سنی
(وہ کچھ دنوں سے براہ راست سُن رہا تھا)
محض اتفاق تھا

بارش برسی
تالاب یکدم سخی ہو گئے
اور پھر وحشی۔۔۔

پانی کے ریلے
آبادی سے لڑکیوں کے جہیز میں رکھے خواب
اور چرواہوں کی بھیڑیں بہا لے گئے
پرندوں کی چیخیں سن کر
پیڑ خودکشی کرنے لگے

کشتیاں لوٹ نہ سکیں
اونچے ٹیلے کے کنارے آباد لوگ
ایک دوسرے کے کان میں اذان دینے لگے
بارش برستی رہی
خدا کے کان پھر بند ہو گئے

جل دیوی کے مندر میں

مندر کی گھنٹی بجتی ہے
ٹن ٹن ٹن۔۔۔
اور انصاف کے لیے آگے پیچھے جھولتی ہے

دیوی
آتش دان سے آگ طلب کرتے
بے ساختہ پوچھتی ہے
اجنبی
تمہارے دل میں کیا ہے؟

میں، سامنے چھوٹی سی بستی سے بھاگا ہوا لڑکا
بد نصیب، گم گشتہ

میرے پاس وہ لفظ نہیں
اپنے پسندیدہ موسم کی آخری رات کو بیان دے سکوں
کہ تمہارے چرنوں میں
قربان ہونے والی خوبصورت لڑکی
میرے محبت نامے کا مقدس باب تھی

اس وقت سے
میں نے سراغ رسانی سیکھی
اور تم تک پہنچنے کے لیے
سرد مقبرے کی صلیب پر دن گزارے

دیوی ہنسی!
اس میں کون سا انکشاف ہے
بارش برسانے کا ایک یہ بھی طریقہ ہے

میرے ہاتھوں میں تیز دھار خنجر کانپنے لگا

باتوں کے شور شرابے میں
مسلح پہرے دار جاگے
اور مجھے
بدتمیزی سے باہر پھینک دیا
گھنٹیاں آگے پیچھے جھولتی رہیں
ٹن ٹن ٹن۔۔۔

ہمارے لیے لکھیں۔