پیڑ کا ادھورا خواب
لہلاتے کھیت کے درمیان
جب شام سنہری لباس پہنے اترتی ہے
پگڈنڈی کے پاس سوکھا شیشم
احساس سے کروٹ لیتا ہے
جیسے نیند میں اونگھتا کوئی خواب
وہ شام سے اسی طرح نفرت کرتا ہے
جیسے دن سے عمر رسیدہ طوائف
وہ دور اُجلے راستے پر نگاہ ٹکائے
گاگر اٹھائے لڑکیاں دیکھتا ہے
جن کی چھاتیاں
ناشپاتی معلوم ہوتی ہیں
جو خواب میں آکر منہ چڑاتی ہیں
کاش! انسان کے قبیلے میں کتا ہی ہوتا
وہ سوچتا ہے
اور اداسی کی اوس میں بھیگ جاتا ہے
اگلی شام قہقہوں کی بارش میں
بہار کے گیت گاتی لڑکیوں نے دیکھا
درمیان سے ٹوٹ کے گرا شیشم
پگڈنڈی پر راستہ رو کے کھڑا ہے
ّؔ
خوف کے لفافے میں لپٹا ہوا خط
جب تاریخ کی کتاب سے جملے چرا کر
عجائب گھر میں رکھے گئے
ادب کے دربار سے فرمان جاری ہوا
باغیوں کو دیوار میں چننے کی بجائے
تاریک کنویں میں رکھا جائے
اور پیشہ ور ادیبوں سے لکھوائی گئی
تاریخ کی نئی کتاب
جو نصاب میں شمولیت کی منظوری کے لیے
سنسر بورڈ کو بھیجا گیا
خوف کے لفافے میں لپٹا ہوا خط
کتاب گھر سے ناپسندیدہ کتابیں
فحاشی کے الزام میں جلا دی گئیں
اور کوک شاستر کے مصنف کو پھول پہنا کر
عقیدت سے ہاتھ چومنے کی رسم ایجاد کی گئی
باغیوں نے حلف نامے میں عہد کیا
شہر کی دیوار پر مرثیے لکھنے کا
اور اساطیری جنگل کی تلاش میں پھرتے
ایک مندر میں پناہ گزین ہوئے
جس کا ذکر
نئی تاریخ میں نہیں ملتا
بدھ کا اونچا نام
بدھ کے نام پر مانگنے کی روایت
صدیوں پرانی ہے
اور چیلے پر بھونکتے کتے کی بھی
اس لیے کہ دونوں دھتکارے جانے کی حد تک
گھٹیا سوال ہیں
اور دونوں پر حلال ہوتی ہے
ہر وہ چیز
جس کا ذائقہ بدبودار ہو
دنیا کی تمام مہذب گالیاں
اور پتھر مارنے کی رسم
بھوک کے گیت سے شروع ہوئی
اور تاریخ منسوب کرتی رہی
مقدس لوگوں کے نام
اگر اب اکیسویں صدی کا حمل نہ ٹھہرا
تو آخر ایک دن
دنیا کے تمام مسخرے اڑائیں گے
بدھ کا مذاق بھی
پرندے بے وقوف نہیں ہوتے
گمنام جزیرہ ہے
اور تنہا آدمی
جس کے چاروں طرف
پرندے نت نئی آوازیں نکال رہے ہیں
وہ یاد کرتا ہے
فاختہ کے قدیم گیت
اور عقاب کی درندگی کا مرثیہ
جب جنگل اور انسان
رشتے میں بھائی لگتے تھے
اور ایک ہی رنگ کے کپڑے پہنتے تھے
وہ قدیم روایت کے احساس تلے
جماہی لیتا ہے
اور تاریخ دہرانے کے لیے
پرندوں کے قبیلے میں شمولیت کی درخواست دیتا ہے
درخواست
جنگل کے دل میں محفوظ ہے
اور پرندوں کا اجلاس جاری
شاید انہیں یاد ہے
"شکاری کسے کہتے ہیں”
Leave a Reply