بارش کی خواہش بھی اک موت ہے (حفیظ تبسم)
بارش برسی تالاب یکدم سخی ہو گئے اور پھر وحشی۔۔۔
حفیظ تبسم 10 جنوری 1990 کو ملتان کے نواحی قصبے میں پیدا ہوئے۔ لکھنے کا آغاز اسکول کے زمانے میں کیا ۔ اب تک ان کے چار شعری مجموعے بالترتیب خوشبو کا جزیرہ (ہائیکو)، سرد موسم میں دھوپ کا کونا (ہائیکو)، دو سمندروں کے درمیان نظمیں، دشمنوں کے لیے نظمیں شائع ہو چکی ہیں۔ آج کل وہ فکشن اور تنقیدی مضامین لکھ رہے ہیں۔
بارش برسی تالاب یکدم سخی ہو گئے اور پھر وحشی۔۔۔
وہ قدیم روایت کے احساس تلے جماہی لیتا ہے اور تاریخ دہرانے کے لیے پرندوں کے قبیلے میں شمولیت کی…
حفیظ تبسم: تمہارے خواب نیلے رنگ کی عینک پہنتے تھے جو سرخ دھبوں کو سبز میں تبدیل کر دیتی ہے
حفیظ تبسم: اے بزرگِ انسان و کائنات ہمارے خواب حدود سے آگے نکل چکے ہیں انھیں مرنے سے بچالے
حفیظ تبسم: روش ندیم! تمہارے ٹشو پیپر پر لکھے دکھ پڑھ کر ہماری نیندیں خدا کے دروازے پر دستک دیتی…
حفیظ تبسم: وہ صنوبر کے سوکھے پیڑوں سے ہاتھ ملاتے سوال کرتا ہے جب ٹہنیوں سے ہزاروں پتے جدا ہوئے…
حفیظ تبسم: پھر خداکے نام کی تختی دیکھ کر گھنٹی بجانے والوں نے کٹہرے کو کئی بار چوما اور اندھیرے…
حفیظ تبسم: کل میری دو نظمیں بازار گئیں (جو جڑواں بہنیں تھیں) مگر واپس نہیں لوٹیں
حٖیظ تبسم:عذرا عباس ! میز پر رکھے تمہارے ہاتھ انگلیاں بجاتے ہیں لکیروں کے ساکت ہجوم میں اور سرگوشی میں…
حفیظ تبسم:میں 'خود کشی کا دعوت نامہ ہوں' جسے ڈاکیے نے چپکے سے کھول کر پڑھا اور مر گیا
حفیظ تبسم: آج پھر بوڑھے ہوتے شہر میں بے بسی قہقہے لگاتی رہی اور نیند کے سگریٹ پھونکتے پہرے دار…
حفیظ تبسم: میں کچھ دن اور زندہ رہ سکتا تھا اگر۔۔۔۔ میرے ہاتھ میں پھول نہ ہوتے
حفیظ تبسم:سلمان حیدر! تمہاری نظمیں اس دریا کے لئے ہیں جس میں انسانوں کی لاشیں بہتیں پہچان سے عاری ہیں
حفیظ تبسم: ہم ہررات خوابوں میں زیادہ تیزی سے کشتی بنانا شروع کردیتے ہیں جو دور کہیں ہرروز پانی کے…
حفیظ تبسم: اس نے تفریحی وقفے میں رسی کودنے کی بجائے جوابی نعرہ ایجاد کیا اور باریش ریڈیو کے سامنے…