کنجی تالے میں پیوست ہونے کے بجائے، ہاتھوں سے چھوٹ گئی گرد آلود فرش پر ٹیڑھے میڑھے نشانات بن گئے۔ بیٹے احمد نے جھک کر کنجی اٹھائی، تالا کھولا، تالے کو کنڈے سے الگ کیا اور دروازے کو وا کر دیا۔ سامنے آبائی مکان کا صحن گرد کی دبیز تہہ میں لپٹا ہوا پڑا تھا۔ دالان سے گذر کر، صحن میں چند قدم چلنے کے بعد، احمد نے پلٹ کر پیچھے دیکھا اور کہا کہ ہمارے جوتوں کے تازہ تازہ نشانات کیسے عجیب لگ رہے ہیں؟ ”لیکن ابو! جوتوں کے شانہ بشانہ یہ سوئیوں جیسے نشانات کیسے ہیں؟” ” ان نشانات کے مقابلے میں ہمارے قدموں کے نشانات بھوت یا ڈاکو کے قدموں کے نشانات لگ رہے ہیں۔”
” گوریوں کے۔”
مختصر سا جواب دیتے ہوئے میری نگاہ برآمدے سے منسلک کمروں کی دیوار میں نصب جالیوں پر پڑ گئی۔ دادا مرحوم کے کمرے، جس کو ان کی وفات کے بعد ہم لائبریری کی طرح استعمال کرنے لگے تھے، کی جالی سے ایک گوریا بڑی ہی نفاست کے ساتھ باہر نکلی اور پھر سے اڑ گئی۔ بچپن کی متعدد تصویریں نہاں خانوں سے باہر نکل آئیں، گویا یادوں کا ایک البم سا کھل گیا۔ دادا کے کمرے والی جالی کے سامنے ایک چٹائی پر دو چھوٹے چھوٹے ڈیسک لگا کر ہم دونوں بھائی پڑھا کرتے اور دادا ابو سامنے چارپائی پر لیٹ کر حقہ گڑگڑاتے ہوئے اخبار دیکھا کرتے تھے۔ ہم دونوں بھائیوں کی دلچسپی اپنی کتاب اورتختی میں کم، چڑیوں کی آمد و رفت، ان کی تعداد اور ان کی چوں چوں میں زیادہ ہوا کرتی تھی۔ آج بھی ذہن میں وہ واقعہ تازہ ہے جب دادا کے کمرے میں ایک روز اچانک دھم سے کچھ گرنے کی آواز سنائی دی تھی۔ مجھ سے دو برس بڑے، بھائی ہارون نل پر بیٹھے اپنی تختی دھونے میں مصروف تھے۔ میں دوڑ کر دادا کے کمرے میں گیا تو دیکھا کہ الماری سے ایک موٹی سی کتاب نیچے گری ہوئی تھی۔ میں نے جھک کر کتاب اٹھائی، جس کے نیچے دم توڑتی ہوئی ایک گوریا برآمد ہوئی۔ احتیاط سے اس کو اٹھا کر پانی پلایا، زندگی برقرار رکھنے کی حتی الوسع کوشش کی لیکن وہ چند منٹوں میں ہی جاں بحق ہو گئی۔ جس کو میں نے صحن کے وسط میں موجودکیاری میں مٹی کھود کر دفن کر دیا۔
دادا ابو کے حکم کے مطابق ہم دونوں بھائی ناشتے کے بعد سے بارہ بجے تک قاعدہ،تختی اور قلم دوات لے کر بیٹھے رہتے۔ یہ بارہ بجنے کا لمحہ بھی ان دنوں کتنا جانفزا ہوا کرتا تھا۔ اس سے متعلق ایک واقعہ آج بھی بالکل تازہ ہے۔ ہوا یوں کہ بارہ بجے سے قبل اجابت کا بہانہ بنا کر، گھر کے، بالکل دوسرے کونہ میں واقع بیت الخلا میں گھس گیا۔ کافی دیر تک اندر بیٹھا رہا۔ بیٹھے بیٹھے ٹانگیں دکھنے لگیں لیکن بارہ بجے سےقبل باہر نکلنا، دادا کے حضور بیٹھ کر ”الف” ”ب” زبر ”اب”، ”الف” ”پ” زبر ”اپ” یا تختی کو سفید سے سیاہ کرنے کے بے کار عمل کو دعوت دینا تھا۔ اس سے بہتر تو یہی تھا کہ بارہ بجے تک کا وقت یہیں گزارا جائے۔ بیت الخلا میں بیٹھا یہی سب کچھ سوچ رہا تھا کہ بیت الخلا والی گلی میں کچھ آہٹ محسوس ہوئی۔ مجھے لگا کہ بھائی ہارون ہیں اور میں نے وہیں سے استفسار کیا کہ بھائی! امی سے پوچھیے کہ بارہ بج گئے کہ نہیں۔ بھائی یا امی کے بجائے، بیت الخلا سے ملحق استنجا خانے سے دادا کی پھٹکار سنائی دی ” کامچور باہر نکل بتاتا ہوں۔”
اس بیت الخلا والے منظر پر گوریا کے مرنے والی تصویر اچانک حاوی ہو جاتی ہے۔ اس کی وفات بارہ بجے سے کچھ قبل ہوئی تھی اور فورا ہی میں نے اسے دفن کر دیا تھا اور پھر سے دادا کے سامنے بیٹھ کر بظاہر پڑھنے لکھنے میں مصروف ہو گیا تھا لیکن جیسے ہی گوریا والی جالی کے اوپر نصب گھڑیال نے بارہ کا گھنٹا بجایا میں تیزی سے اٹھا۔ ہینڈ پمپ کے نیچے لوٹا رکھا، پوری طاقت صرف کرکے آدھا لوٹا پانی بھرا اور مدفون گوریا کے اوپر ڈالنے لگا۔ دادا تو اپنے مطالعے میں مصروف رہے لیکن باورچی خانے میں موجود امی جو ہمارے لیے کھانا نکال رہی تھیں آواز لگائی ”بیٹے! اس بھری دوپہر کے وقت دھوپ میں کیا کر رہے ہو؟” میں نے بھی بڑی معصومیت سے جواب دیا تھا کہ ایک چڑیا مر گئی۔ اسے یہاں بو دیا ہے جلد ہی چڑیا کا پیڑ نکلے گا۔ اس میں بہت ساری چڑیاں نکلیں گی جو پورے گھر میں چوں چوں کریں گی۔ اس جواب کو سن کر دادا ابو بھی زور سے ہنسے تھے۔
چڑیاں ہی شاید پہلی جاندار شئے تھی جن سے جزباتی رشتہ استوار ہو گیا تھا جن کی چوں چوں زبر زیر اور پیش کی یکسانیت کو زیر و زبر کرنے کے لیے کافی تھی لہذا پڑھنے کے لیے بیٹھنے سے قبل ہم ان کے لیے دانہ اور پانی رکھنا نہیں بھولتے تھے۔ ان کو چھو لینے کی ایسی خواہش تھی کہ ایک ڈنڈے میں لمبی سی رسی باندھتے اور اس ڈنڈے کے سہارے ایک دوری کو اوندھا کرکے ٹکا دیتے نیز دوری کے نیچے تھوڑا سا دانہ بکھیر دیتےپھر رسی ہاتھوں میں لیے گھنٹوں انتظار کرتے رہتے کہ کب چڑیا دانہ چگنے کے لیے دوری کے زیر سایہ آتی ہے اور ہم رسی کھینچ کر اسے دوری میں قید کر لیں گے۔چڑیاں آتیں دانہ بھی چگتیں لیکن رسی کھیچنے سے قبل ہی پھر سے اڑ جاتیں۔ ان کے لمس کی حسرت لیے ایک دن ہم دونوں بھائی میز پر اسٹول رکھ کر، اس جالی کی پشت پر بنی سیمنٹ کی الماری تک جا پہچے لیکن وا حسرتا کہ وہ پھر سے اڑ گئی۔ لیکن ہم نے اپنا پیار جتاتے ہوئے اس کے گھونسلے کو جوتے کے ڈبے میں رکھ کر اپنے تئیں اس کو ایک کاشانہ عطا کر دیا۔ وہ رمضان کا آخری عشرہ تھا، ہم سب کے جوتے کپڑے خریدے جا چکے تھے۔ کپڑے تو امی نے احتیاط سے بکس میں بند کر دئے تھے ہاں جوتے ہمارے ہاتھوں میں تھما دیے گئے، جن کو روزآنہ، صبح سویرے، ہم دونوں بنا ضرورت کپڑوں سے رگڑ رگڑ کر صاف کرتے پھر احتیاط سے ڈبوں میں بند کر دیتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گوریے کے لیے اپنے جوتے کے ڈبے کی قربانی بالکل بھی گراں نہیں گذری تھی۔ بلکہ خوش تھا کہ میرے ایثار کے سبب گوریوں کو ایک اچھا سا گھر مل گیا ہے۔ جس سے قبل بیچاری کے پاس محض دروازے ہی دروازے تھے جالی کے سوراخوں کی شکل میں۔
غالبا ”دروازہ” وہ پہلا لفظ تھا جس کو پڑھنا اور لکھنا بہت اچھا لگا تھا۔ کتنا آسان کہ ہر حرف کو علیحدہ علیحدہ لکھتے جاو اور ایک بامعنی خوبصورت لفظ تیار ہو جائے۔ شاید یہی وہ پہلا لفظ تھا جس کے معنی و مفہوم کے دروازے پہلی ہی بار میں ہی مجھ پر وا ہو گئے تھے، جس کے باہر ایک عجیب و غریب اور حیرت انگیز دنیا آباد ہے جبکہ گھر، گرچہ بہت کشادہ تھا، چڑیوں کے گھونسلوں کے مانند محسوس ہوتا تھا۔ جبکہ آج پچاس کے پیٹے میں داخل ہونے کے بعد دروازے کی لعنت اور گھونسلے کی برکت واضح ہونے لگی تو اب یہی دروازہ اندر کے بجائے باہر کی جانب سے کتنا من موہک لگتا ہے۔ لیکن یہ دروازہ تقریبا ایک سال سے مقفل تھا۔ ہوا یوں کہ والد صاحب کی زندگی میں ہی ہم سب یکے بعد دیگرے، تلاش معاش کے سبب دور دراز شہروں میں منتقل ہو گئے اور ان کی وفات کے بعد مجبورا گھر مقفل کرنا پڑا۔ ہم سب کے بچے بڑے ہونے لگے تھے ان کی تعلیمی مصروفیات، بورڈ کے امتحانات اور کالج میں داخلے کے مسائل آبائی وطن کی جانب لوٹنے کی اجازت ہی نہیں دیتے تھے تاہم امسال ہم سب بھائی بہنوں نے مل کر یہ پروگرام بنایا کہ گرمی کی چھٹیوں میں، ایک ہفتہ ہی سہی، ہم سب آبائی گھر میں میں گذاریں گے۔ میں دیگر بھائی بہنوں کی آمد سے ایک روز قبل ہی پہنچ گیا۔ اس طرح سے صاف صفائی کی ذمہ داری میری تھی۔
تین چار گھر چھوڑ کر کام کرنے والی ملازمہ کا گھر تھا۔ اس کے گھر جا کر دستک دی وہ اور اس کے گھر والے اپنوں کے مانند ملے۔ ملازمہ اور اس کے بیٹے نے آکر گھر کی صاف صفائی کی اور میں راشن لینے کے لیے بازا کی جانب چل پڑا۔ راستے میں متعدد جاننے والوں سے ملاقات ہوئی لیکن سب سے وقت کی تنگی کاذکر اور بعد میں ملنے کا وعدہ کرتے ہوئے، راشن کی دکان میں داخل ہو گیا، اور ایک ٹھیلے پر اجناس لدوا کر گھر پہنچا۔ ملازمہ نے در و دیوار کی قاعدے سے صفائی کر دی تھی، جھاڑو لگانے سے گرد و غبار بھی نسبتاََ کم ہو چکا تھا تاہم اب بھی بچپن والے گھر کی مخصوص خوشبوناپید تھی۔ مجھے لگا کہ ایک بار پورے گھر کی دھلائی پونچھائی سے وہ مخصوص خوشبو دوبارہ آنے لگے گی۔ ادھربیوی نے کچن سنبھال لیا اور میں دونوں بچوں کے ساتھ گھر کی دھلائی پونچھائی میں مصروف ہو گیا۔مختصرا، کھانا تیار ہونے تک ہم تینوں نے پورے گھر کو رہنے کے قابل بنا لیا۔ بس لائبریری کی صفائی رہ گئی تھی۔ بچوں کے ساتھ مل یہ طے کیا کہ لائبریری کی صفائی دوپہر کے کھانے کے بعد کی جائے۔ اس لیے ہم سب نہا دھو کے کھانے کے لیے بیٹھ گئے۔
دال روٹی چٹنی اور اچار پر مشتمل کھانا ہم سب نے بڑی ہی رغبت سے کھایا۔ بچوں کے مطابق محنت کے بعد سادے کھانے کی لذت بھی دو چند ہو جاتی ہے جبکہ میرا خیال تھا کہ اس گھر کی آب و ہوا میں ہی لذت ہے اور یہ لذت اس وقت اور بھی زیادہ تھی جب والدین کا سایہ ہمارے سروں پر موجود تھا۔ ان کا وجود سروں پر گہرے رنگ کے تنے ہوئے دبیز شامیانوں کے مانند تھا جن کے پرے موجود موسم کی سختی، بھوک پیاس کی شدت اور دیگر پریشانیاں عبور کرنے سے گھبراتی تھیں حتی کہ اس شامیانے نے اندیشہائے فردا کے خوفناک سایوں کو بھی اپنی دبازت اور گہرے رنگ کے باعث روک رکھا تھا۔ موجِ فکر بھی ایسی تھی کہ اپنی موت کا تصور بھی ایک جشن جیسا لگتا تھا۔ لیکن دونوں بچے ان باتوں کو سمجھنے سے قاصر تھے ان کے نزدیک میں بذات خود اتنا ذہین، قوی اور پختہ ہوں کہ مجھے کسی سہارے یا شامیانے کی ضرورت ہی نہیں۔ اس نوعیت کی باتیں کرتے ہوئے ہم نے کھانا ختم کیا۔ میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو سر چکرایا اور میں سر پکڑ کر دوبارہ بیٹھ گیا۔ بیٹے احمد اور بیٹی شفا نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ میں نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا کہ شاید بلڈ پریشر بڑھ گیا ہے۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے ابھی دوا کھاتے ہی ٹھیک ہو جاوں گا اور تم لوگوں کے ساتھ لائبریری کی صفائی کروں گا۔ لیکن سچ تو یہ تھا کہ سر کے پچھلے حصے سے شروع ہو کر گردن بلکہ بازؤں تک درد کی شدید لہر اٹھ رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سر کے پچھلے حصے پر کوئی ایک تسلسل کے ساتھ چھوٹی سی ہتھوڑی سے چوٹ کر رہا ہے۔ بچے بھی میری اس بیماری سے واقف تھے لہذا دونوں یک زبان ہو کر بولے کہ آپ دوا کھا کر کچھ دیر کے لیے سو جائیں ہم دونوں لائبریری کی صفائی کر دیں گے۔
میں دوا کھا کر برآمدے میں بچھی چارپائی پر دراز ہو گیا۔ سر میں شدید دھمک ہنوز جاری تھی جن سے پیدا ہونے والی لرزش کو آنکھوں دانتوں اور جبڑوں تک محسوس کر رہا تھا۔ اور ہر دھمک پر آنکھیں حلقوم سے اور دانت جبڑوں سے باہر آنے کی کوشش کرتے ہوئے محسوس ہوتے۔ ذہن بٹانے کے لیے میں نے اپنی نگاہیں چڑیوں والی جالی پر مرکوز کر دیں۔ چڑیوں کی آمد و رفت جاری تھی۔ پورا برآمدہ ان کی چوں چوں سے بھرا پرا محسوس ہو رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ چڑیاں بھی مہمان یعنی ہماری آمد سے بہت خوش ہیں۔ یہی سب سوچتے ہوئے نہ جانے کب آنکھ لگ گئی۔ آنکھ لگتے ہی میں نے خواب میں دیکھا کہ دونوں بچے صفائی کرنے کے لیے جیسے ہی لائبریری میں داخل ہوئے چڑیوں کی استقبالیہ چوں چوں احتجاج میں تبدیل ہو گئی۔ لیکن بچوں نے ان کے احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے کتابوں کو یکے بعد دیگرےالماری سے نکالا۔ الماری کو کپڑے سے صاف کیا اور کتابوں کو پونچھ پونچھ کر رکھنا شروع کیا حتی کہ انہوں نے ساری الماریاں صاف کرکے کتابوں کو قرینے سے لگانے کا کام مکمل کر لیا صرف چڑیوں والی جالی کی پشت پر واقع الماری رہ گئی تھی جن میں جہازی سائز کی کتابیں لگی ہوئی تھیں۔
اس جالی والی الماری کے نیچے ایک کھڑکی تھی اور کمرے کی اس دیوار کی چوڑائی کھڑکی کے ایک پٹ کے برابر یعنی تقریبا ایک فٹ تھی۔کھڑکی میں برآمدے کی جانب سے سلاخیں نصب تھیں۔ احمد نے پہلے تو کھڑکی پر چڑھ کر کتابیں اتارنے کی کوشش کی لیکن ایسی صورت میں ایک ہاتھ سے جنگلے کی سلاخ پر گرفت بنائے رکھنا ضروری تھا اس لیے اس نے ایک میز کھسکائی اور ساری کتابیں اتار کر میز کے ایک جانب ڈھیر کر دیں۔ کتابوں اور جالی کے درمیان گوریوں کے گھونسلے اور پر وغیرہ تھے۔ اس نے جھاڑو سے جمع شدہ سارا کوڑا کرکٹ سمیٹ کر بالٹی میں ڈالنا شروع کیا۔ ایک گھونسلے میں دو انڈے بھی تھے جو بالٹی میں گرتے ہی ٹوٹ گئے۔ گوریا احتجاجا چوں چوں کرتی رہیں۔جالی سے نکل کر چھت سے لٹکے کنڈوں پر بیٹھتیں، اضطراری کیفیت کے سبب بار بار جھٹکے سےاڑ اڑ کر اپنا رخ تبدیل کرتیں اور پھر تیزی سے جالی کی جانب اڑتیں۔ میں پوری شدت سے چلایا کہ چڑیوں کے گھونسلوں کو مت چھیڑو لیکن حلق سے آواز ہی نہیں نکلی۔ پسینے سے شرابور سر کو ادھر ادھر جھٹکے دیے اور بلآخر اس ناپسندیدہ اور تکلیف دہ خواب کا مقابلہ کرنے کے لیے بیداری ایک طاقت ور مد مقابل کی صورت سامنے آئی۔ بیدار ہوتے ہی لائبریری میں پہنچا بیٹی نے خوشی خوشی بتایا کہ ہم نے لائبریری کو اچھی طرح صاف کر دیا اور بیٹے نے کہا جالی کے پیچھے والی اس الماری میں کتابوں کے پیچھے بہت سارا کوڑا کرکٹ جمع ہو گیا تھا میں نے اسے بھی صاف کر دیا۔ میں نے حسرت کے ساتھ کوڑے کرکٹ والی بالٹی میں جھانک کر دیکھا جس سے ٹوٹے ہوئے انڈوں کی بساند آ رہی تھی،ایسی بساند جو نہایت کڑوے کسیلے اور خود مختار لمحوں میں ہوا کرتی ہے، ایسی بساند جو حقیت اور خواب، حال اور مستقبل دونوں کو محیط ہو۔