[divider]محبت کی قبولیت[/divider]
محبت میں ہونا
محبت میں جینا
اور محبت میں مر جانے کی
بےچین کر دینے والی
لامحدود خواہش ہی
حادثاتی خالی پن کا کارن ہے
جِسے تمھارے کہے ہوئے
کچھ شبد بھر بھی سکتے ہیں
جیون کو جاری رکھنے والی
تمھاری محبوبہ کے ماتھے پر
سمے پہلے سے ہی
جو روکھےپن کا جال اُگ آیا ہے
وہ محض تمھارے ہاتھ کے لمس سے مٹ بھی سکتا ہے
اس پل کو یاد کر کہہ دو
اپنی محبوبہ سے
جس پل میں تمھیں
اپنے سینے سے لگا کر
وو پہلی دفعہ جی بھر کے روئی تھی
جب تمھیں اس کی محبت میں محبوبہ سے زیادہ ماں ملی تھی
اس کے بدن سے سٹ کر سنو
کتنی اداسیاں چٹختی ہوئی سنتے ہو؟
اس کا تھکا ہوا چہرہ
اپنی ہتھیلیوں میں لو اور
بچے کی سی معصوم پتلیوں میں
اپنا عکس دیکھ کر اسے بتاؤ
کہ اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کا پانی
بحرالکاہل کے پھیلاؤ سے کہیں زیادہ ہے
اس کے لاش بننے سے پہلے
اس سے باتیں کر لو
اُن پلوں کی
ہر واقعے کی
وقت کے ایک ایک اشارے کی بات
جو تمھیں اس کے نزدیک لے گیا
محبت کے آجانے پر
من کی ہلچل
اور محبت کی رخصتی کے سمے کی
بربادی کو کہہ دو
محبت اگر ہے تو اس کے ہونے کا پتہ دینا بھی ضروری ہے!
محبت کے جواب میں سنّاٹا
محبت کے قتل کی سازش ہے
[divider]ملاقات[/divider]
تم سے مل کر محسوس ہوا
کہ ضروری نہیں ہے
دو بھوری آنکھوں میں ڈبکی لگانے کے لیے
ایک دوسرے کی محبت میں
مبتلا ہونا
محبت محض ایک الاؤ نہیں ہے
من میں جمے ہوئے گلیشیر
کو پگھلانے کے لیے
کسی کے نرم لہجے کی تپش بہت ہے اس کے لیے
یہ خاموش زرد برف تو
کسی کی معصوم نظم کی گرمی سے بھی پگھل کر
آنسوؤں کے کھارے ساگر میں مل سکتی ہے
یہ قطعی ضروری نہیں کہ
ٹی ہاؤس کے تنہا ٹیبل پر دو گرم پیالے لرزتے ہوئے چار ہاتھوں سے
اجنبی احساس کے سرد کوہسار
پر انڈیلے جائیں
یہ انجان راستہ بھیڑ میں
ایک آئس ٹی کے پِیچ فلیور سے ہوتا ہوا بھی جا سکتا ہے
[divider]اکیلا پن[/divider]
تم اکیلےپن کو کھوجنے نکل جاؤ
اور اس کو پانے کی راہ کی کھوج نہیں کرنا
کیا نفع کیا نقصان
اس کا لیکھا جوکھا
وقت کے محتسب خود ہی کر
آخری لمحے میں تمھاری جسم پر
نقش کر دیں گے
تمھاری یہ کھوج تمہیں لاجواب بنا سکتی ہے
اس پر لوک کتھاؤں کے موتی اگ سکتے ہیں
تمھارے نیم پلیٹ پر پھیل سکتا ہے اکیلاپن
امر بیل کی طرح
اور گلِ شب بُو سا سویرے کے گلدان میں مہک سکتا ہے
اسے کھوجنے میں تمھیں قلمی مسودے چھاننے ہوں گے
محبت کی شاعری کی اصل میں پنپتا ہے اکیلا پن
بیتی یادیں اکیلے پن کو جنم دیتی ہیں
من کی سیلن بھری دیواروں کی دراڑوں میں
کائی کا لبادہ اوڑھے سستا رہا ہے اکیلاپن
تم اسے ویرانے میں نہیں کھوج سکتے
اس لیے بہتر ہے کہ
دشت و سمندر کے کناروں سے دور
بھرے بازاروں میں کھوجو
میٹرو سٹیشنوں کے انٹری گیٹ میں چیکنگ کرتا ملے گا
بسوں کی کھڑکیوں والی سیٹ بھی اس کی فیورٹ ہے
ملٹی نیشنل کمپنیوں کے
دفتروں میں کھوجو
جہاں وہ لیپ ٹاپ کی ہائیڈ فائلز میں چھپا ہو گا
یا کیفیٹیریا کی آخری سنگل ٹیبل پر
ٹماٹو سوس کی بوتل کے پیچھے چھپا ہو سکتا ہے
اکلاپا تمھیں ملے گا
حویلیوں کی ہلچل میں اور
بھرے پُرے گھرانوں میں
بِلکتا ہوا ملے گا
اکیلاپن سجنے سنورنے کا شوقین ہے
وہ کسی دلہن کے ڈریسنگ ٹیبل میں پرانے جھمکوں کی
اٹالین ڈبیا میں بھی رہ سکتا ہے
تمھیں اسے دیکھ کر نہ پہچاننے کا
مکر بھی کرنا پڑ سکتا ہے
کیونکہ اکیلے پن کو اپنا ہونا بھی پسند نہیں آتا
اور جب تم اسے کھوج لو گے
تمھیں اس سے محبت بھی ہو سکتی ہے
پھر تمھاری لکھی کتھاؤں پر
کھوجنے والے اپنا تھیسس لکھیں گے
محقق اپنی نئی تھیوری سیٹ کریں گے
اور ایک نتیجے کو تعریف کہا جائے گا
مگر اکیلاپن جیوں کا توں کھڑا رہے گا
کسی نئے شاعر کو لاجواب بنانے کے لیے
[divider]اَن چاہا حمل[/divider]
کسی عورت کو
اپنا پیٹ کھودنے کا دل ہو سکتا ہے
وو چاہ سکتی ہے کہ
اپنے بستر میں سوئے آدمی کا قتل کر دے
وہ کئی راتیں چپ چاپ روئی ہو سکتی ہے
ہر ناکام محبّت کے بعد بھی
وہ بے انتہا نفرت کو
اپنی چھاتی کا دودھ پلا سکتی ہے
اور نااُمیدی بھرے ڈنگ کی غیریقینی میں
وو رسوئی کے سارے کیڑے کھا سکتی ہے
اپنے پیٹ میں موجود ان چاہے حمل کو گرانے کے لیے
[divider]فنکار[/divider]
اگر تم کسی فنکار کے ساتھ
بستر سانجھا کرتے ہو
تو تمھیں اپنے بستر کے چاروں پایوں پر
چار الگ الگ شخصیتیں رقص کرتی ملیں گی
جو الگ الگ وقت پر تمھیں
پیار کریں گی اور
الگ الگ تم پر وار کریں گی
کسی بھی فن کا نمائندہ
کسی جانور سے کم نہیں ہوتا
وہ رنگ، روپ اور شکل بدلنے میں ماہر ہوتا ہے
دلفریبی عادت ہے اس کی
جو وہ خود کے ساتھ بھی کرتا ہے
محبّت اس سے بیماری کی طرح ہوتی ہے
وو لباس کی طرح کہانیاں پہنتا ہے
اور جب تک لباس میلا نہ ہو پہنے رکھتا ہے
اسے نئے لباس نہیں چاہیے، کہتے ہوئے
فریب کرتا ہے تم سے، خود سے
فنکار ہی ہے جو خود کو بہلانے کے لیے
نئے رنگوں، نئے ساز اور
نئے نئے لفظوں کی کھیتی کرتا ہے
وہ خودکشی کی وجہ تراشتا ہوا
اپنی موت کا مجسمہ تیار کر
تم پر قتل کا الزام لگاتا ہے
پھر بھی محبوب کی (تمھاری) خدمت کے قصیدے پڑھتا ہے
مگر تمھیں یہ یاد رکھنا ہے کہ
ایک فنکار صرف اپنے فن کو چاہتا ہے
تم اس کے فن کو تراشنے کا اوزار ہو
جس کے بنا وہ بھی ادھورا ہے
[divider]ایبسٹریکٹ نظم[/divider]
میں اس وقت کہاں ہوں
کون بتا سکتا ہے
اور کون سمجھ سکتا ہے
عرب کے ریگستان سے بہت دور
اس سے بھی زیادہ
گرم ریت کے مرے ہوئے بدن پر لُٹ کر
کیسا محسوس کر رہی ہوں
بےجان آسماں سے لٹکتا چاند
ایک برف کے ٹکڑے کے مانند
میری دونوں بھنوؤں کے بیچ سوراخ کر رہا ہے
پر میں تین گھنٹے سے یہ سوچ رہی ہوں کہ
کسی عورت کی لکھی ہوئی
سب سے بہترین نظم کون سی ہے
اس وقت ہوانا کے جنگلوں میں
کسی عورت کا شب انتظار کتنا باقی ہے
یا کہ تِبّتی عورتیں
کسی ملک کے لڑکے اپنی بیٹیوں کے لیے چنتی ہوں گی
سیریا میں بچوں کو کون سا کارٹون پسند آتا ہو گا
رشین بلّیاں زیادہ خوش قسمت ہیں
یا یورپین کتیا
بوچڑ خانوں کے قصائی زیادہ حیوان ہیں
یا سونا گاچھی کے دلال
تین دن میں میں کتنی دور بھاگ سکتی ہوں؟
کیا جنگلی زیتون کے تانے سے لپٹ کر
اپنی تنہائی کو مات دے سکوں گی
کن آنکھوں کی تکلیف زیادہ بھیانک ہے
چتا میں جلتی، قبر میں دبی ہوئی؟
یا نیل ندی میں ڈوبتی ہوئی آنکھوں کی
اور یہ سب پڑھ کر تم کیا سوچ رہے ہو
یہ بات بھی کون بتا سکتا ہے
تم اس وقت کہاں ہو!
[divider]عورت[/divider]
میں جس لمحے میں
خاموشی کے بیاباں بدن کو پہنتی ہوں
اس لمحے میں ہی تم مجھ میں دو عورتیں پاؤ گے
اک قدیم زمانے سے بنا پلکیں جھپکے
ناگن کی طرح،
تمھیں بس تک رہی ہے
وو کسی بھی لمحے تمہیں نگل جانا چاہتی ہے
اور دوسری تمھیں اپنے نوزائیدہ کی طرح
سہلا رہی ہے
[divider]تمھاری آنکھیں[/divider]
تمھاری آنکھیں مشرقی تہذیب کے
کسی دیوتا کی خفیہ بھاشا میں بات کرتی ہیں
اور میرے من کے تختہ سیاہ پر
وہ اجنبیوں کی نامعلوم تحریریں
پہیلیاں گودتی جاتی ہیں
[divider]صابر حقہ تمھارے لیے[/divider]
اس وقت کو میں نے بھرپور جیا ہے
جس وقت میں نے ایک خانہ بدوش مزدور کی نظموں کو
اپنے موجودہ محبوب کی نظمیں سمجھ کر پڑھا
میں نے اس کی نظموں میں سانس لیتی عورتوں کو
اپنے اندر اُترتے دیکھا
ایک اس کی ماں جس پر اسے شک ہے
کہ اس عورت کی نیلی آنکھوں میں
اس کے باپ کے علاوہ بھی کوئی رہتا ہو گا کبھی
ایک اس کی مالکن جو اسے تازہ کھانا دے رہی تھی
ایک اس کی بہن جو شام کو ساحلی سے ملنے گئی
اور تین اس کی محبوبائیں
جن کے لمبے بالوں گورے بدن اور کالی آنکھوں کا دیوانہ تھا
اس طرح سے میں نے ایک مرد کے چھہ عورتوں سے تعلق کو بدل کر
صرف دو روحوں کے تعلق کو بھرپور جیا